You are currently viewing آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

ڈاکٹر نورینہ پروین

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

(والدہ مرحومہ کی قربانیوں کے اعتراف میں)

یاد سے تیری دل بھر آتا ہے

رہزن تھی تو،

رہبر بھی تو،

حوصلہ بھی میرا تھی

ایک لفظ میں کہہ دوں تو

کل کائنات تھی!

آسماں پر جو بلندی دیکھی تھی تو نے کبھی

اس نے گنوائیں تیرا سب کچھ

دن کا چین اور رات کی نیند،

اِس پر بھی بس نہ کیا

قرباں کیا سب خواہشیں!

ایک چنگاری تھی جو

قلبِ حزیں میں پنہا تھی

جس نے ابراہیم ؑ کو یکسو کیا

جس نے موسیٰ کو دیئے یدِ بیضا و عصا

جس نے ہر زمانے میں اک محرک پیدا کیا

تو نے بھی اس چنگاری سے

‘تعلیمِ نسواں’ کی شمع فروزاں کی!

گر میسر ہو نہ چھت بیوہ کو

حقِ وراثت کافی ہو اس کے لئے،

در بدر کی ٹھوکریں

کھانے سے وہ محفوظ ہو!

دستِ شفقت، رحمِ انساں کب رہی کس میں بچی

بے آسرا پھرتے ہیں جو کون ہے پرسانِ حال !!

قانون بھی نرغے میں ہے

ظالموں و جابروں کے!

گھٹ کر گلا اب رہ گیا انصاف کا!

اس اندھیری رات میں

ایک آوازِ جرس تھی

جبــ……..

ــ‘‘بھینس بھی اس کی ہو لاٹھی جس کے پاس ہو’’!

٭٭٭

Leave a Reply