ڈاکٹر شاہد احمد جمالی۔جے پور
صدر۔راجپوتانہ اردو ریسرچ اکیڈمی
آہ!پروفیسر فیروز احمد
(۱۹۵۲۔۲۰۲۴ء)
پروفیسر فیروز احمد صاحب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔آپ ایک محقق،ناقد اور ماہر لسانیات کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔یوں تو آپ کا تعلق گورکھپور سے ہے لیکن راجستھان کی راجستھانی شہر جے پور آپ کا وطن ثانی رہا۔۱۹۷۴ء میں جے پور آنے کے بعد ۲۰۱۵ء تک وہ یہیں قیم پذیر رہے۔درمیان میں دو سال کے لئے انھیں حیدرآباد ،مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں بھی جانا پڑا۔ ۲۰۱۵ء میں آپ ذاتی مجبوریوں کے سبب دہرہ دون منتقل ہوگئے اور وہیں ۱۷؍۱۸،مارچ ۲۰۲۴ء کی درمیانی رات کو ڈیڑھ بجے انتقال فرمایا۔
ڈاکٹر فیروز صاحب ،۳۰؍دسمبر،۱۹۵۱ ء میں گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ان کو ایم، اے، اردو میں گولڈ میڈل ملا ،اس کے بعد پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔۱۹۷۴ ء سے ۱۹۸۸ ء تک راجستھان یونیورسٹی میں رہے،اس کے بعد دوسال کے لئے بحیثیت ریڈر،حیدر آباد سینٹرل یونیورسٹی،حیدر آبادچلے گئے۔۱۹۸۹ ء میں واپس آ کر دوبارہ راجستھان یونیورسٹی کے شعبہ اردو و فارسی سے منسلک ہوے۔آپ پانچ مرتبہ شعبہ اردو،راجستھان یونیورسٹی ، کے صدر رہے۔۲۰۱۱ ء میں رٹائر ہوئے۔
ڈاکٹر فیروز احمد نے ڈاکٹر محمود الٰہی کی نگرانی میں اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کیاتھا۔ مقالے کا عنوان تھا ‘مہدی افادی’ جس پر الہٰ باد یونیورسٹی نے پی۔ایچ۔ڈی۔ کی ڈگری عطا کی۔ راجستھان یونیورسٹی جے پور میں فائز ہونے کے بعدآپ کی نگرانی میں کئی اسکالرس نے پی۔ایچ۔ڈی،اور ایم،فل کے مقالات تحریر کئے۔
راجستھان کے بیسویں اور اکسیویں صدی کے اردو ادب میں ڈاکٹر فیروز احمدکا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔انھوں نے یہاں رہتے ہوئے کئی کارنامے انجام دئیے۔ کئی سیمنار منعقد کرائے اور شعبہ اردو کا ایک سالانہ ادبی مجلہ بھی جاری کیا۔ اس کےء علاوہ یو۔جی۔سی۔ سے منظور شدہ پروجیکٹ بعنوان ‘راجستھان میں اردو ’ بھی مکمل کیا۔ جس کے تحت راجستھان میں اردو زبان و ادب کے آغاز و ارتقاء پر مفصل بحث کی گئی ہے۔فیروز صاحب نے اپنا یہ پروجیکٹ ‘راجستھان میں اردو’کے عنوان سے سنہ ۲۰۱۳ ء میں شائع کیا۔یہ کتاب سنہ ۲۰۱۳ء میں براؤن بک پبلی کیشنز،دہلی سے شائع ہوئی۔۶۲۴؍ صفحات کی یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔حصہ اول میں لسانیاتی بحث کے ساتھ ساتھ اردو کی شعری اصناف کی ابتدائی شکلوں اور راجستھان میں ان کے فروغ پر بحث کی گئی ہے۔حصہ اول نو عنوانات پر مشتمل ہے۔شعری اصناف میں غزل۔مثنوی۔قصیدہ۔نعت،سلام،منقبت، وغیرہ زیر بحث لائے گئے ہیں۔دوسرے حصہ میں بھی نو عنوانات کے تحت نثری اصناف کے فروغ پر تفصیلی گفتگو کی ہے جیسے،اردو صحافت،ناول،افسانہ،ڈرامہ،تذکرہ و تحقیق،مضامین و مقالات،سوانح عمری،سفر نامہ وغیرہ۔
راجستھان میں اردو کے ابتدائی نمو نوں کے سلسلے میں فیروز صاحب تحریر کرتے ہیں،
‘‘ عہد اکبری میں بہادر پور مع دیگ علاقہ بھرتپور صوبہ آگرہ میں شامل تھا۔بعد ازاں یہ علاقہ راجستھان میں شامل ہوگیا۔اس علاقے سے متعلق تاریخوں میں جو تفصیلات موجود ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ سیدوں کی اس بستی میں صاحب سیف ہی نہیں بلکہ ایسے صاحب قلم بھی پیدا ہوئے جنھوں نے فارسی زبان وادب کے ساتھ اردو کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔’’
(راجستھان میں اردو۔ڈاکٹر فیروز احمد۔براؤن بک پبلی کیشنز،دہلی۔۲۰۱۳ء۔ص۔۸۸)
آزادی کے بعد راجستھان میں اردو نثر کو زندہ رکھنے والے ادیبوں کے سلسلے میں فیروز صاحب لکھتے ہیں،
‘‘ آزادی کے آس پاس جن حضرات کے مضامین مسلسل شائع ہوتے رہے،ان میں الیاس عشقی، انور بجوپالی،سید جمیل الدین افغانی۔قاضی معراج دھول پوری۔مولانا معنی اجمیری۔کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ان میں سے متعدد اشخاص ایسے ہیں جن کی تحقیقی سر گرمیاں آزادی کے بعد بھی جاری رہیں۔لیکن آزادی سے قبل الیاس عشقی کے ‘ترجمہ کے مسائل ’اور نظیر اکبر آبادی پر کئی قسطوں میں لکھے گئے،مضمون مطبوعہ ،زمانہ کانپور،انور بھوپالی کے ‘‘گرے اور اس کی الچی’’(مطبوعہ شاعر،جولائی،۴۶ ء)سید جمیل الدین ٹونکی کے ‘دستنبو کا ایک خاص نسخہ’(نوائے ادب،بمئی،۱۹۵۵)اورمولانامعینی اجمیری کے‘‘اردو اور اجمیر’’(شاعر،اپریل،۱۹۴۵ء)جیسے
مضامین سے راجستھان کی تحقیقی اور تنقیدی رفتار کو نئی سمت و رفتار ملی۔’’
(راجستھان میں اردو۔ڈاکٹر فیروز احمد۔براؤن بک پبلی کیشنز،دہلی۔۲۰۱۳ء۔ص۔۵۳۰)
آپ کے ادبی سرمایہ پر ایک نظر ڈالی جائے تو حسب ذیل فہرست مرتب ہوتی ہے۔
۱۔احسان اللہ عباسی : حیات اور کارنامے۔۱۹۷۶ ء ۔اس تصنیف پر پر اتر پردیش اردو اکیڈمی نے انعام سے نوازاتھا۔
۲۔مہدی افادی۔۱۹۸۵ ء۔اس پر بھی اتر پریش اکادمی کی جانب سے انعام مل چکا ہے۔
۳۔انتخاب میر ناصر علی۔۱۹۸۲ ء ۔
۴۔انتخاب مہدی افادی۔۱۹۷۳ ء
۵۔نغمات آزادی۔۱۹۹۳ ء۔ناشر،راجستھان اردو اکیڈمی،جے پور۔
۶۔اختر شیرانی عہد اور شاعری۔۲۰۱۰ ء۔(ترتیب)۔منجانب، شعبہ اردو و فارسی،راجستھان یونیورسٹی،جے پور۔
۷۔باغ وبہار،نسخہ جے پور۔۲۰۱۲ء
۸۔بکٹ کہانی۔قدیم ترین نسخہ۔۲۰۱۷ ء۔(تدوین متن)
۹۔راجستھان میں اردو۔۲۰۱۳ ء
۱۰۔راجستھانی اور اردو۔۲۰۱۴ء
۱۱۔کلام شفق ٹونکی۔(تدوین و ترتیب)۔۲۰۱۶ ء۔غیر مطبوعہ
۱۲۔تحقیقات۔(تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ)(2019)
‘‘تحقیقات’’ براؤن بک پبلشر ،دہلی نے ۲۰۱۹ میں شائع کیا تھا۔اس میں کُل ۱۴:مضامین ہیں۔یہ کتاب جے پور سے ہجرت کرجانے کے بعد دہرہ دون میں مرتب کی گئی تھی۔کتاب میں شامل مضامین کے عنوانات حسب ذیل ہیں،
۱۔امیر خسرو کا نو دریافت ہندوی کلام:نسخہ بوجھ پہیلی
۲۔فرہنگ تحفۃ السغادت کا ایک نادر نسخۃ اور اس میں شامل وندوی مرادفات
۳۔پنجابی آمیز اردو کے چند قدیم رسائل
۴۔دکن سے باہر دکنی:(راجستھان کے تناظر میں)
۵۔میر اور راجستھان
۶۔مثنوی سحر البیان کا ایک اہم مخطوطہ
۷۔لکھنو میں اردو نثر اورابواب المصائب
۸۔فسانہ عجائب کا ایک اہم ایڈیشن
۹۔فسانہ عجائب کا نسخہ اکبر آباد:مزید شواہد
۱۰۔تلمیذ داغ: نسیم بھرتپوری
۱۱۔مقدمہ کلام شفق سیمابی
۱۲۔گلزار نظیر مرتبہ سلیم جعفر: ایک جائزہ
۱۳۔منشی عنایت اللہ خاں عنایت معروف بہ سفلی
۱۴۔ماہنامہ شاعر:ابتدائی شماروں کی روشنی میں
تحقیق کے تعلق سے فیروز صاحب نے اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ،
‘‘تحقیق ہمارے نزدیک صرف نئی دریافت کا نام نہیں بلکہ اب تک جو کچھ معلوم ہے اسے نئے حقائق کی روشنی میں پیش کرنا بھی تحقیق ہے۔اس لحاظ سے امید ہے کہ مذکورہ مضامین کے علاوہ کتاب کے دوسرے مضامین بھی قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوں گے۔’’
۱۳۔راجستھان میں اردو(حصہ ۲)۲۰۲۳ء
یہ پروفیسر فیروز صاحب کا آخری کارنامہ ہے۔یہ در اصل ایک پروجیکٹ تھا جو انھیں این،سی،پی،یو، ایل،دہلی کی جانب سے ملا تھا۔فیروز صاحب کے انتقال (۱۳؍۱۴؍مارچ،۲۰۲۴ ء کی درمیانی رات کو ڈیڑھ بجے)سے ایک ہفتہ قبل میری ان سے فون پر گفتگو ہوئی تھی،میں نے پروجیکٹ کی رقم کے بارے میں دریافت کیا تو بڑے مایوسانہ انداز میں انھوں نے فرمایا تھا کہ ابھی تک تو نہیں ملا اور شاید ملنے کی امید بھی نہیں ہے کیوں کہ ان کے پاس بجٹ بھی نہیں ہے۔فیروز صاحب چاہتے تھے کہ کم از کم اس پروجیکٹ کی سو کاپیاں میں شائع کردوں،میں نے رضا مندی بھی ظاہر کر دی تھی۔جب ان کا انتقال ہوا تو میں میں اسپتال میں ایڈمٹ تھا میری بھی طبیعت کافی سیریس تھی۔اسی حالت میں مجھے ان کے صاحبزادے کے ذریعہ انتقال کی خبر موصول ہوئی تھی۔بیماری کی حالت میں افسوس ناک خبرسن کرتکلیفیں اور بڑھ جاتی ہیں۔یہی حال میرا بھی ہوا۔وہ میرے مشفق استاد تھے۔بی،اے اور ایم،اے میں میں نے ان سے پڑھا ہے۔اس کے علاوہ میرے بزرگوں سے بھی ان کے بڑے خوشگوارتعلقات رہے۔ہمارے یہاں اکثر ان کی نشست و برخاست رہی ہے۔۔فیروز صاحب اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔راجستھان کے نہیں تھے مگر راجستھان میں رہ کر انھوں جو ادبی خدمات انجام دی ہیں وہ ہر لحاظ سے اہم ترین ہیں۔لسانیات پر آپ کی گہری نظر تھی،آپ کے معاصرین میں کوئی اور لسانیات کا ماہر نظر نہیں آتا۔
‘‘راجستھان میں اردو۔۲’’ کا تعارف کراتے ہوئے فیروز صاحب نے پیش لفظ ‘‘حرف آغاز’’میں لکھا ہے،
‘‘دہرہ دون منتقل ہونے کے بعد مذکورہ کتاب (راجستھان میں اردو)پر نظر ثانی کا خیال آیا،چنانچہ گزشتہ تین برسوں میں جہاں تک ممکن ہو سکا اس کتاب کے تمام ابواب پر نظر ثانی کی گئی اور انھیں ازسر نو لکھا گیا۔…….نئے عنوانات کے ساتھ بنیادی مباحث میں ترمیم اور اضافہ کیا گیا۔یوں انیسویں صدی کے اخیر سے لے کرپوری بیسویں صدی کی نظم و نثر اور ان کی جملہ اصناف میں زیر بحث آگئیں اور کتاب کے سارے مباحث ایک ہی جلد میں سمٹ آئے اور کتاب کے پہلے ایدیشن کے مقابلے میں ضخامت بھی کم ہو گئی۔’’
ایک اور جگہ لکھتے ہیں،
‘‘ممکن ہے بعض مقامات پر قاری کو یہ محسوس ہو کہ کتاب میں فلاں شاعریا ادیب کا تذکرہ نہیں ہے۔اس کی بڑی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اب میرا بسیرا جے پور میں نہیں بلکہ دہرہ دون میں ہے جہاں کتب خانے تو ہیں مگر اردو کتابوں کا فقدان ہے۔ذاتی کتابوں کا جو ذخیرہ میرے پاس تھا وہ بھی اب خرد برد ہو چکا ہے۔ایسے حالات میں سوائے معذرت خواہی کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔فی الحال اس کمی کو بڑی حد تک شاہد احمد جمالی کی ضخیم کتاب ‘‘تاریخ ادب ارد راجستھان’’کے مطالعہ سے پورا کیا جا سکتا ہے۔جس میں ایسے بیشتر شعرا و ادبا کا تذکرہ موجود ہے جو راجستھان کے مختلف علاقوں میں قیام پذیر رہے۔’’
مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ پروفیسر فیروز صاحب نے اپنی اس کتاب میں میری تحقیقی کاوشوں کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ درجنوں جگہ میری کتابوں کے حوالے سے اپنی بات پوری کی ہے۔
مذکورہ کتاب،ابھی غیرمطبوعہ ہے،اس کی ایک کاپی انھوں نے مجھے خود عنایت کی تھی۔یہ پانچ ابواب اور ایک محاکمہ پر مشتمل ہے اور ہر باب میں ضمنی عنوانات پر مشتمل ہے اور صفحات ہیں ۴۱۵؍۔ابواب کی تفصیل یہ ہے،
باب اوّل۔
۱۔راجستھان کا تہذیبی اور لسانی پس منظر
(الف)راجستھان اور اس کی تہذیبی قدریں
(ب)راجستھان کا لسانی منظر نامہ
(ج)راجستھانی اور دکنی کے مشترکہ لسانی عناصر
باب دوم۔
راجستھان میں نظم و نثر کے ابتدائی آثار:۱۸۵۷ء تک
(الف)نظم کے ابتدائی آثار:غزل،مثنوی،قصیدہ،نعت و سلام،مرثیہ۔شہر آشوب
(ب)نثر کے ابتدائی آثار:قصہ،داستان،مذہبی رسائل
باب سوم۔
مختلف شعری اصناف کا ارتقاء:۱۸۵۸ء سے ۱۹۴۷ء تک
(الف)غدر کے بعد مختلف شعری اصناف (ب)نیا زامنہ اور علی گڑھ تحریک (ج)شاعری کا بدلتا منظر نامہ
باب چہارم۔
نئے اسالیب نثر:۱۸۵۸تا ۱۹۴۷ء
(الف)غیر افسانوی نثر (ب)افسانوی نثر
باب پنجم۔
جدید شعری و نثری ادب:۱۹۴۸ء تا ۲۰۲۲ء
(الف)جدید شعری ادب (ب)جدید نثری ادب
محاکمہ اور موجودہ ادبی صورت حال
فیروز صاحب ایک معیاری ادبی شخصیت تھے اور معیاری ادب کو ہی فوقیت دیتے تھے۔چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ جو طلباء تحقیقی نوٹس لکھ کر ان کو دکھاتے تھے اس پر وہ بار بار نظر ثانی کر کے طلباء کو از سر نو لکھ کر لانے کے لئے کہا کرتے تھے۔اور جو باب طالب علم لکھ کر لاتا تھا اس باب کے تعلق سے بیسیوں سوال کرتے تھے تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ طالب علم نے اس باب کو لکھنے میں کتنی محنت کی ہے۔
آج فیروز صاحب ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کے روشن کئے ہوئے چراغ ہمارے لئے مشعل راہ بنے رہیں گے۔ان کو سحی عقید پیش کرنے کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ہے کہ جس طرح انھوں نے زندگی بھر ایمانداری سے اردو ادب کی خدمت کی ہم بھی اسی طرح یہ خدمت انجام دیتے رہیں۔دوسرے یہ کہ ہمارے صوبہ کی یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو میں ان پر بھی پی،ایچ،ڈی،ہونی چاہئے اس حقیقت سے ہم نظر نہیں چرا سکتے۔
***