ڈاکٹرثریا بیگم محمود خاں
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اُردو
شیواجی کالج ہنگولی،مہاراشٹر
ابن صفی کی تحریروں میں طنزومزاح
مزاح ہماری زندگی کاایک اہم حصہ ہے۔ آج پوری دنیا مسائل سے دو چار نظر آتی ہیں۔ لوگ خود اپنے لیے بھی مشکل سے وقت نکال پاتے ہیں ۔ذہنی تنائو اور کام کا بوجھ انسان کو وقت سے قبل ناتواں اور جھنجھلاہٹ کا شکار بنادیتا ہے۔ ایسی حالت میں ہنسی کا کوئی موقع ،کچھ ظریفانہ جملے اور مضحکہ خیز باتیں تھوڑی دیر کے لیے ہمیں خوشی دے سکتی ہے ۔کہتے ہے کہ ہنسنے سے خون بڑھتا ہے۔اس لئے ہنسی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہمارے ادیبوں نے طنزومزاح اور ظرافت کی بنیاد رکھی۔ ان کی تحریریں پڑھنے کے بعد آپ کوکسی پارک میں جاکر گروپ بناکر مصنوعی قہقہہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
مزاح یا مذاق اور دل بستگی ایک ایسی پر لطف کیفیت ہے۔ ایک خوش نما احساس ہے جس سے انسان کو ذہنی خوشی ملتی ہے۔ یقینا یہ رب عظیم کی جانب سے انسانوں کو امانت کردہ ایک عظیم تحفہ ہے۔ مزاحیہ ادب دلوں کی اداسی ،تنائو اور غم وفکروغیرہ کو بھول کر تھوڑی تفریح حاصل کرنے کا بہترین نسخہ ہے۔
اس پروزیر آغانے اپنی تصنیف میں لکھا ہے کہــــ
ــ’’ہنسی نہ صرف افراد کو باہم مربوط ہونے کی ترغیب دیتی ہے بلکہ ہر اس فرد کو نشانہ تمسخر بھی بناتی ہے جو سوسائٹی کے مروجہ قواعد و ضوابط سے انحراف کرتا ہے۔چنانچہ مزاحیہ کردار صرف اس لیے مزاحیہ رنگ میں نظر آتا ہے کہ اس سے بعض ایسی حماقتیں سرزد ہوتی ہیں جن سے سوسائٹی کے دوسرے افراد محظوظ ہوتے ہیں۔‘‘
(اُردو ادب میں طنزومزاح ،وزیر آغا ،صفحہ نمبر ۳۰)
اشفاق احمد طنز ومزاح کے بارے میں لکھتے ہیں
’’ایک عام آدمی معاشرتی ناہمواریوں کو دیکھ کر یا تو ان کا عادی ہوجاتا ہے یا پھر جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے لیکن ایک فنکار کا طریقہ کار اس سے تھوڑا مختلف ہوتا ہے وہ معاشرے میں موجود چھوٹی چھوٹی برائیوں کو خوردوبین کے ذریعے دیکھتا ہے اور انہیں اندراج کرکے قارئین کے سامنے پیش کردیتا ہے۔پھر اس زیادہ نمایاں یا بگڑی ہوئی شکل کو دیکھ کر مضحکہ خیزی بھی پیدا ہوجاتی ہے اورسوچ کی نئی راہیں بھی متعین ہوجاتی ہیں۔ان میں پہلی صورت مزاح نگاری سے پیدا ہوتی ہے۔جبکہ دوسری صورت طنز کے نیتجے میں وجود میں آتی ہے۔طنز و مزاح کوئی باقاعدہ صنف ادب نہیں ہے بلکہ ایک رجحان اور رویے کا نام ہے جس کا تعلق انسان کی فطرت ،شعور و لاشعور ،خواہشات اور انسان کے ردعمل سے ہے۔طنز وظرافت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ایک کا مقصد تفنن طبع ہے تو دوسری کا افراط وتفریط کی اصلاح کرنا ۔طنز کو خوشگوار بنانے کے لیے اس میں مزاح کی چاشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادبی لب ولہجہ اس میں مزید نکھار پیدا کردیتا ہے۔‘‘
(ابن صفی:مشن اور ادبی کارنامہ ، مرتب عارف اقبال ،صفحہ نمبر ۳۹۹)
ہر ادب کی طرح طنزومزاح کی شروعات بھی اردو زبان کے آغاز کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ ولی دکنی، جعفر زٹلی ، شاکر ناجی ، سودا ن، انشاء ،رنگین سے ہوتے ہوئے طنز ومزاح نظیر اور اکبر الہ آبادی تک نظر آتاہے۔ نظیر اور اکبر الہ آبادی نے عوامی روایتوں ،رسموں اور مغربیت پر بھرپور طنز کیا ہے۔غالب کے خطوط، مکتو بات اور شاعری میں بھی طنز و مزاح کے عناصر موجود ہیں ۔اودھ پنج اور منشی سجاد حسین نے ظرافت نگاری کو نیا مقام عطا کیا۔ فرحت اللہ بیگ ،رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، خواجہ حسن نظامی ،شوکت تھانوی ،کہنیالال کپور اور ظفر علی خاں نے طنز ومزاح کو مزید استحکام بخشا اور اردو ادب میں اسے باقاعدہ ایک صنف کے طور پر قبول کیا گیا۔
پاکستان میں شفیق الرحمن ،مشتاق احمد یوسفی ، کرنل محمد خاں ،ابن انشاء وغیرہ اور ہندوستان میں فرحت کاکوروی، فکرتونسوی، کوثر چاند پوری ،وجاہت علی سند یلوی ،مجتبیٰ حسین، یوسف ناظم،شفیقہ فرحت اور نصرت ظہیر قابل ذکر ہیں۔اسی طرح شاعری میں رضانقوی واہی،سلمان خطیب،دلاورفگار،شوکت تھانوی،ہلال رضوی ،ماچس لکھنوی ،شہباز امروہوی، ساغر خیامی،وغیرہ نے مزاحیہ شاعری کو مزید زستحکام بخشاہے۔
مزاح اور دل بستگی انسانی فطرت کا ایک لازمی جز ہے۔ کوئی بھی انسان اس سے محظوظ نہیںہے۔اسے مغرور ، متکبر ، بدمزاج جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے۔ جب کہ ہمیشہ خوش رہنے والے اور ہنسنے مسکرانے والے کوخوش خلق اور خوش مزاج کہتے ہیں۔ آزادی سے قبل لکھنے والوں میں طنز ومزاح کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔سعادت حسن منٹو ، عصمت، بیدی اور کرشن چندرکے علاوہ دوسرے ادیب و افسانہ نگاروںکے پاس بھی طنز ومزاح سے بھری تحریریں ملتی ہے۔
آزادی کے بعدلوگوں میں خوشی کا احساس کے ساتھ صف ماتم بھی صاف نظر آتا ہے۔ملک کی تقسیم نے لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلادیا اور ساتھ ہی ساتھ کتنے افراد بے گھر ہوگئے۔ لاکھوں انسانوں کو نقل مکانی کرنی پڑی اور اپنی مٹی،اپنا وطن چھوڑ دینا پڑا۔ اس وقت کے ادب اور مختلف تحریروں میں عجیب سی بے حسی محسوس کی جاسکتی ہیں۔ لوگ اپنی زندگی سے اکتا گئے اور راہ فرار تلاش کررہے تھے۔
اسی صورت حال میں ابن صفی نے اپنے قلم کا جادو بکھیرا۔ انھوں نے طنزیہ و مزاحیہ تحریریں لکھنے کے ساتھ ساتھ
جاسوسی ناول بھی لکھنا شروع کیں۔جس کا مقصد قارئین میں اردو زبان و ادب پڑھنے کا شوق و ذوق پیدا کیا۔ لوگوں کو قانون اور
ملک کے احترام کا جذبہ دلایا۔اس لئے ضمیر اختر رضوی نے ابن صفی کی مزاح نگاری پر کچھ اس طرح لکھتے ہیں کہ۔
’’ابن صفی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری اور طنزیہ و مزاحیہ مضامین سے کیا تھا۔یہ دونوں شعبے ان کے ناولوں میں بھر پور انداز سے اُبھر کر سامنے آئے۔ان کے ناولوں میں مزاحیہ اور طنزیہ انداز ،فکرونظر کے لیے نئی راہیں کھولتا ہے۔ انھوں نے اپنے مزاحیہ طرز تحریر سے قارئین کو زندگی کے حقائق سے قریب ترلانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مکالموں میں نشتریت ،ذہانت ،معلومات، غوروفکر اور گہرائی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ ابن صفی پر جب کبھی بھی تحقیقی کام ہوگا تو محقق کولکھنا پڑے گا۔اردو کے طنزیہ ادب میں ابن صفی نے ایک نئے دور کا آغاز کیا تھا۔‘‘
(بحوالہ ابن صفی :مشن اور ادبی کارنامہ ،مرتب :عارف اقبال ، صفحہ نمبر ۳۸۹۔۳۹۰)
ابن صفی نے مزاح میں بھی شائستگی اور وقار و احترام کو برقرار رکھا۔ابن صفی بلند پایہ مزاح نگار اور صاحب اسلوب ظرافت نگار بھی ہے۔ جس طرح کے الفاظ زبان کا استعمال ان کی تحریروں میں ملتا وہ کسی کے پاس نظر نہیں آتا ۔ابن صفی اس معاملے میں اردو زبان و ادب کا سب سے بڑا ادیب ہے کہ اس کی تحریروں اور ناولوں کے نقال سب سے زیادہ رہے ہیں۔
یہاں تک کہ فلمی دنیا سے لے کر انسانی زندگی میں اردو کے کسی ادیب کے ناولوں کے مکالموں اور کرداروں کو اس قدر نہیں دہرایا گیا ۔ابن صفی کا درد مند دل اور خالق اسلامی نظریات پر عمل پیرا دل و دماغ نظر آتا ہے۔ ابن صفی نے ادب میں اصلاح کے مقصد کو اولیت دی ہے۔ مغرب پرستی اور روایت پسندی پر ان کے جملے تلخ وترش تو ہیں ۔لیکن انداز کچھ اس طرح کا ہے کہ ہمیں ناگوار نہیں ہوتا زندگی اور اس جہاں کا کون سا ایسا مسئلہ اور موضوع ہے جو ان کے ناولوں میں نہیں ملتا ہے۔ آپ ان کے ناول پڑھتے جائیں اور کچھ دنوں بعد یقینا آپ کوخود کے اندرایک خوشگوار اور متاثر کن تبدیلی محسوس ہوگئی۔
ابن صفی نے اپنے پر لطف اور چست جملوں سے ایک ایسا سرور اور مزاح پیدا کیا ہے۔ جس سے پڑھنے والا بے اختیار ہنسنے اور مسکرانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ایک طرف اس کا ذہن ہلکا پھلکا ہوجاتا ہے۔ اور دوسری طرف اس کا تجس مزید بڑھ جاتا ہے۔ناول کے اختتام تک پہنچتے ہی ابن صفی مزاح کے عناصر کو مزید گہرا کردینے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔اس کی ایک بہترین مثال ان کے جاسوسی ناول کا یہ اقتباس ہے۔
’’’’بھئی فریدی ،تم کب شادی کررہے ہو؟‘‘
’’کس کی شادی؟‘‘ فریدی مسکراکر بولا۔
’’اپنی بھئی!‘‘
’’وہ میری شادی !‘‘فریدی نے ہنس کر کہا۔’’سنو میاں شوکت، اگر میری شادی ہوتی تو تمہاری شادی کی نوبت نہ آتی!‘‘
’’وہ کیسے۔۔؟‘‘
’’سیدھی سی بات ہے۔ اگر میری شادی ہوگئی ہوتی تو میں بچوں کو دودھ پلاتا یا سراغ رسانی کرتا۔میرا ذاتی خیال ہے کہ کوئی شادی شدہ شخص کامیاب جاسوس ہو ہی نہیں سکتا!‘‘
’’تب تو مجھے ابھی سے استعفیٰ دینا چاہئے۔میں شادی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا!‘‘
حمید نے اتنے معصومیت سے کہا کہ سب ہنسنے لگے۔ ‘‘
(دلیر مجرم،ابن صفی)
’’اگر وہ مفلس آدمی ہوتے تو بھی میں ان سے اسی طرح محبت کرتی کیونکہ ان کی روح تو مفلسی میں بھی اتنی ہی عظیم ہوتی۔‘‘
’’یہ عظیم روح کیا چیز ہے؟۔۔۔۔۔۔۔میں نے عظیم الدین سنا ہے ۔۔۔۔۔عظیم اللہ سنا ہے مرزا عظیم بیگ چغتائی مرحوم سنا ہے لیکن یہ عظیم روح۔۔۔۔۔۔‘‘
(آ ہنی دروازہ۔عمران سیریز ۱۴)
’’شہنشاہیت میں تو صرف ایک نالائق سے دوچار ہونا پڑتا ہے لیکن جمہوریت میں نالائقوں کی پوری ٹیم وبال جان بن جاتی ہے۔‘‘
(بھیانک جزیزہ۔جاسوسی دنیا نمبر ۱۷)
ابن صفی عام فہم اور عام بول چال کی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ نئے الفاظ اور نئی اصطلاحوں کی تلاش میں نظر آتے ہیں۔ کیونکہ مناسب موقع پر اچھے انداز میں ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں ۔جب ہم عمران یا فریدی کے زبان سے ایسے جملوں کو سنتے ہیں۔جو ہماری گھریلوں زبان کا حصہ ہے تو ہمیں اور بھی زیادہ مزہ آتا ہے۔
ابن صفی کا مقصد یہ ہے کہ پڑھنے والے کو ذہنی تنائو سے دور رکھے۔ابن صفی کچھ لمحے کے لیے دلجمعی کرتے اور تفریح کا سامان مہیا کرتے ہیں۔کہ انسان اپنے سارے مسائل بھول کر ان کی جادوئی تحریر کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ ذریں قمر ابن صفی کی تحریروں پر کچھ اس طرح لکھتی ہیں کہ
’’انھوں نے جاسوسی ادب ضرور تخلیق کیا ہے لیکن انھوں نے کبھی بھی جرائم یا مجرموں کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے۔ ان کے انداز تحریر میں وہی زندگی اور روشنی ہے جو ہمیں اکبر الہ آبادی کی شاعری میں ملتی ہے۔اکبر الہ آبادی نے اپنے اشعار کے ذریعے معاشرے کی برائیوں پر طنز کیا ہے اور ابن صفی نے اپنی نثر نگاری میں طنزو مزاح کے ایک بہترین انداز کو اپنائے ہوئے مختلف برائیوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ کاش اب پھر کوئی ایسا ابن صفی پیدا ہوسکے جسے زمانے کی بے قدری کی پروانہ ہو اور وہ ایک ادیب نہ مانے جاتے ہوئے بھی ادب کی خدمت کرتا رہے۔‘‘
(بحوالہ ابن صفی :مشن اور ادبی کارنامہ ،مرتب :عارف اقبال ، صفحہ نمبر۳۹۲)
مزاح نگار کبھی خود کو کبھی اپنی کوئی خاص چیز کو تو کبھی دنیا کی بے ثباتی کو موضوع بناتا ہے ۔جس سے ہمیںتھوڑی دیر کے لئے خوشی حاصل ہوتی ہے اس طرح سے مصنف کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ مزاح کے ساتھ جب طنز کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ تو تحریر میں نشتر کا اثر واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ابن صفی کے کردار فریدی کی زبان سے چند جملے پیش خدمت ہے۔
’’سنو حمید میں محض سراغ رسانی کی مشین نہیں ہوں۔ میری نظر انسانی کمزورریوں اور مجبور یوں پر بھی رہتی ہے۔ میں جب بھی کسی مجرم کو قانون کے حوالے کرنے لگتا ہوں تو سوچتا ہو کہ کیا اب ہمیں مجرموں سے پناہ مل جائے گی۔کیا مجرموں کو سزا دینے سے وہ برائی مٹ جائے گی جس میں مبتلا ہوکر یہ پھانسی کے تختے کی طرف آتے ہیں۔اب تک کروڑوں قاتل سزائے موت پاچکے ہیں لیکن کیا اب قتل نہیںہوتے۔ کیا مجرموں کی تعداد کم ہوگی۔‘‘
(خطرناک بوڑھا ،ابن صفی،)
اس طرح سے طنزیہ اور اصلاحی جملے ابن صفی کی تحریروں میں ہزاروں کی تعداد میں آپ کو مل جائے ئیگے
’’تم ابھی بالکل بدھو ہو!‘‘فریدی نے مسکراکر کہا۔’’دن رات عورت عورت چلانا اور چیز ہے اور عورت کی فطرت کا مطالعہ اور چیز!‘‘
’’بجا ارشاد ہوا!‘‘حمید منہ سکوڑ کر بولا۔
’’برا ماننے کی بات نہیں۔عورت سے قریب رہ کر تم ہرگز عورت کو نہیں پہچان سکتے۔ کیونکہ تمہاری جذباتیت جو عورت کے قرب کی وجہ سے جاگتی ہے تمہیں اس کی فطرت کا مطالعہ نہیں کرنے دیتی وہ اس کی کمزوریوں کو حسن اور آرٹ کا رنگ دے کر ان کی پردہ پوشی کرنے لگتی ہے!‘‘
(خطرناک بوڑھا ،ابن صفی،)
’’دیکھو ہر عورت کی فطرت میں مامتا کا کچھ نہ کچھ جزو ضرور ہوتا ہے اور یہ مامتا اس وقت بڑی شدت سے جاگ اٹھتی ہے جب وہ کسی ایسے مرد کو تکلیف میں مبتلا دیکھتی ہے جس کا اس سے کچھ تعلق ہو !‘‘
(خطرناک بوڑھا ،ابن صفی،)
ابن صفی نے جاسوسی ناولوں کو میں اردو زبان و ادب کی مختلف اصناف میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو موضوع بناتے ہوئے انھوں نے اپنے انداز میں تحریر کیا ہے۔ابن صفی بحیثیت ایک جاسوسی ناول نگار مانے جاتے ہیں۔ ابن صفی نے زیادہ تر جملے اپنے لازوال کردار علی عمران کی زبان سے کہیں ہیں۔
’’تم بالکل گدھے ہو کیا؟‘‘
’’نہیں تو بالکل گدھا پہلی بار آپ کہہ رہی ہیں ورنہ عام طور پر لوگ اُلو کہتے ہیں اور والد صاحب تو کبھی کبھار اُلو کا پٹھا بھی کہہ دیا کرتے تھے۔میرا ایک دوست کہہ رہا تھا کہ بعض لوگ جدائی کی راتوں میں تارے گنتے گنتے اکاونٹنٹ ہوجاتے ہیں!‘‘شاداں بے اختیار ہنس پڑی۔
’’آپ میری لاش پر بھی ہنسیں گی !‘‘عمران نے گلوگیر آواز میں کہا۔‘‘
(رات کا شہزادہ: عمران سیریز ،ابن صفی )
’’پاگلو! کیا تم نے کبھی اس پر بھی غور کیا کہ جارحیت پسند پاگلوں کے لئے عمارتیں مہیا کی جاتی ہیں۔طبی امداد بہم پہنچائی جاتی ہے۔ان کے لیے اصول و ضوابط بنائے جاتے ہیں۔ لیکن بے ضرو پاگلوں کا کوئی پرسان حال نہیں!‘‘
’’نہ ہوگا ،ہمارے ٹھینگے سے !‘‘متعدد آوازیں آئیں۔
’’تو پھر میرے بھی ٹھینگے سے !‘‘نواب صاحب کہتے اور ڈائس پر ناچنا شروع کردیتے۔‘‘
(پاگلوں کی انجمن،ابن صفی)
’’ہمارے ہاں تو کتابوں کو ترازو میں تول کر سال کی بہترین کتابیں منتخب کی جاتی ہیں اور ان پر انعامات دئیے جاتے ہیں۔عموماً سب سے زیادہ ضخیم کتا ب کا مصنف انعام پاتا ہے۔اگر کوئی اللہ کا بندہ اعتراض کر بیٹھے تو کہہ دیا جاتا ہے ۔ اماں اتنی موٹی کتاب لکھ دی ہے،بے چارے نے،کہیں نہ کہیں تو کوئی قابل انعام بات قلم سے نکل ہی گئی ہوگی۔ ‘‘
(بلی چیختی ہے،عمران سیریز نمبر ۴۳)
’’یار پتہ نہیں کیوں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے تم سب کسی ایک ہی استاد سے غزل کہلوالاتے ہو۔۔۔مشاعروں میں سنتا ہوں۔۔۔۔۔رسالوں میں پڑھتا ہوں۔۔۔ سبھوں کا ایک ہی رنگ نظر آتا ہے۔خدا بھلا کرے فیض صاحب کا کہ انھوں نے اپنے بعد پھر کوئی اور اور یجنل شاعر پیدا ہی نہ ہونے دیا۔۔۔۔صرف دو تین اس بھیڑ سے الگ معلوم ہوتے ہیں ۔جیسے جمیل الدین عالی۔۔۔۔اور جعفر طاہر وغیرہ ۔۔۔ آگے رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔!‘‘
’’اچھا۔۔۔۔۔!‘‘شاعر صاحب نے جھلاکر کہا ’’سردار جعفری کے متعلق کیا خیال ہے؟‘‘
’’پتھر توڑتے ہیں۔۔۔۔‘‘
’’واہ ۔۔۔۔واہ۔۔۔۔سبحان اللہ ۔۔۔جواب نہیں ہے اس تنقید کا۔‘‘
(ڈیڑھ متوالے ،عمران سیریز نمبر ۴۲)
’’ہمارے ملک میں گھسیاروں کو پکڑکر ماہر تعلیم بنادیا جاتا ہے۔اور وہ کم عمرگدھوں پر مختلف قسم کے مضامین کی گٹھڑیا ں لادتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ابھی حال ہی میں دوسری جماعت کے ایک بچے سے اُس کے نصاب کے متعلق پوچھ بیٹھا تھا۔۔۔اس نے بتایا کہ وہ اُردو، انگریزی، سوشل اسٹڈی، ارتھمیٹک، نیچراسٹڈی، اسلامیات، آرٹ اینڈ کرافٹ اور ہائی جین وغیرہ وغیرہ پڑھتا ہے۔۔۔۔۔ذرا سوچو تو کیا اکتاہٹ اور مایوسی اس کی زندگی کے اجزاء لازم نہیں ہوجائیں گے۔کیا اس کی تخلیقی صلاحیتیں کندنہ ہوجائیں گی۔اور پھر کیا مستقبل اسے صرف ایک کلرک بناکر نہ رکھ دے گا۔ ‘‘
(ڈاکٹر دعاگو:خصوصی ناول،عمران سیریز)
’’قوم کی تعلیم پر زرکثیر صرف کیا جارہا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں ایک بھی ان پڑھ نظر نہ آئے۔سب کے سب منشی فاضل ہوجائیں۔اس لیے ماہرین تعلیم کی خدمات حاصل کی ہیں جو قوم کے لیے بہت اچھی گاف کھیلتے ہیں اور اپنے بچوں کو حصول تعلیم کے لیے سمندر پار بھیج دیتے ہیں۔‘‘
(ڈاکٹر دعاگو:خصوصی ناول،عمران سیریز)
’’لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں جیسے بگڑا شاعر مرثیہ گوئی اختیار کرتا ہے اسی طرح نااہل مصورکارٹونسٹ بن جاتے ہیں ۔حالانکہ یہ غلط
ہے ۔اچھے کارٹونسٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعلی درجہ کا مصور بھی ہو۔ورنہ وہ اچھا کارٹونسٹ ہو ہی نہیں سکتا !بالکل اسی
طرح جیسے گھٹیا قسم کے انشاپرداز مزاح نگار نہیں ہوسکتے۔‘‘
(سینکڑوں ہم شکل ۔جاسوسی دنیا ۸۰)
ابن صفی نے اپنے تجربوں،مشاہدوں اور مطالعے سے اپنی تحریروں میں اعلی مقام حاصل کیا ہے۔ قانون کا پاس و لحاظ ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،خواتین کی عزت ،ملک اور مذہب کی پاسداری ان کا اہم مقصد ہے ابن صفی اردو کے پورے ادیبوں میں اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں۔اس پر مولوی عبد الحق نے لکھا ہے کہ ابن صفی کا اردو ادب پر بڑا احسان ہے کہ انھوں نے عمران کی احمقانہ شرارتیں کسی کسی خاص مقصد کے لیے ہوتی ہیں ۔اس کی یہ ساری شرارتیں ابن صفی کی ذاہانت اور ظرافت نگاری ہے۔ یہ شرارتیں پڑھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتی نظر آتی ہے کہ غفلتوں اور گمراہی سے باہر آئو اور اپنے آپ کو پہچانو اور عقل اور ہوش کے ناخن لو۔
ابن صفی کی پہلی مزاحیہ تحریر ’’فرار‘‘ ہے ۔جس میں طنزومزاح کا عنصر ایک گدھا ہے ۔ جو سماج سے معاشرے سے اکتاگیا ہے۔ ’’ فرار‘‘ کا گدھا ریسٹورنٹ میں جاتا ہے۔ انگریزی بولتا ہے۔فاکس ٹراٹ کی دھن بجاتا ہے اور موجودہ معاشرے سے تنگ آکر راہ فرار اختیار کرتا ہے۔ گدھے کی زبان سے کچھ اس طرح کے الفاظ ابن صفی نے پیش کئے ہیں اس تحریر پر نظر ثانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ:
’’ہماری قوم بہت ہی امن پسندہے۔ ایک گدھا آج تک دوسرے گدھے کے لیے مہلک ثابت نہیں ہوا اور نہ کبھی کسی گدھے نے یہی کوشش کی کہ دوسرے پر اپنی برتری کا رعب ڈالے۔ ہم سب برابری اور بھائی چارے کے قائل ہیں۔ہم سب وہی کھاتے ہیں جو ایک کھاتا ہے۔ ہم سب بڑی محنت کے عادی ہیں ۔اونچ نیچ کے جراثیم سے ہماری قوم ہمیشہ پاک وصاف رہی ہے۔‘‘
(فرار ،ابن صفی )
ظاہر سی بات ہے کہ یہ طنزہمارے اوپر ہے ہم دنیا کے اچھے برے کے بارے میں سوچئے اور دنیا میں امن وشانتی بنائے رکھے۔ ابن صفی کی پہلی مزاحیہ تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی تحریریں ہمیں معاشرے اور انسانوں کو درس و عبرت کے وہ سبق دے گی جن سے کئی نسلیں فیضیاب ہوسکتی ہے۔
ابن صفی کی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں میں ’’فرار‘‘، ’’قصہ ایک ڈپلومیٹ مرغ کا‘‘، ’’ٹیمز فانڈ‘‘، ’’شیر کا شکار‘‘، ’’جگانے والے‘‘، ’’آب وفات‘‘، ’’دیوانے کی ڈائری‘‘، ’’شیطان صاحب‘‘،’’رسالوں کے اسرار‘‘، ’’قواعد اردو‘‘،’’ایک یاد گار مشاعرہ‘‘ وغیرہ ہیں۔
’’رسالوں کے اسرار‘‘ اس میں ابن صفی نے نہایت ہی دلکش انداز میں رسائل و جرائد کی صورت حال کا منظر پیش کیا ہے۔ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ’’رسالوں کے اسرار‘‘ یہ تحریر اس وقت قلم بند کی جب اردو کے رسائل و جرائد کافی تیزی سے نکل رہے تھے ۔لیکن آج کی صورت حال بالکل مختلف ہے۔
’’لہٰذا جو کچھ جنوں میں بک رہا ہوں اس کو باہوش و حواس ناظر کو جان کر واپس لیتا ہوں اور بصد خلوص عرض کرتا ہوں کہ رسالہ
صرف ادب کی خدمت کے لیے نکالا جاتا ہے اس لیے ہر اردو پڑھے لکھے آدمی کا فرض ہے کہ اپنی پہلی فرصت میں رسالہ ضرور نکالے اور دوچار شمارے نکال کر بند کردے تاکہ دوسروں کے لیے میدان خالی ہوجائے اور دوسرے بھی داخل حسنات ہوسکیں ۔اس کام میں امداد باہمی کا خاص خیال رکھنا چاہیے اگر سب ہی بیک وقت رسالہ نکالنے لگیں گے تو کون خریدے گا ااور کون پڑھے گا۔اصول یہ ہونا چاہیے کہ آج میں رسالہ نکالوں آپ خریدیں ۔اس کے بعد میں اپنا رسالہ بند کرکے آپ کا نکالا ہوا رسالہ خرید کر پڑھوں ۔اردو اسی طرح ترقی کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔‘‘
(بحوالہ رسالوں کے اسرار۔ابن صفی)
اس تحریر کو پڑھنے کے بعد ایسا نہیں لگتا کہ ہم اردو کی ترقی کے لیے صرف باتیں کرتے ہیں ۔ہم مانگ کر پڑھنے میں یقین رکھتے ہیں جب کہ ہمیں خرید کر پڑھنا چاہیے۔
جاسوسی دنیا کے ناول ’’جنگل کی آگ‘‘، ’’خطر ناک بوڑھا‘‘، ’’ہولناک ویرانے‘‘، ’’پاگل خانے کا قیدی‘‘، ’’شعلہ سیریز ‘‘، ’’شیطان کی محبوبہ‘‘، ’’شادی کا ہنگامہ‘‘، ’’مونچھ مونڈنے والی‘‘، ’’بے چارہ۔بے چاری‘‘، ’’صحرائی دیوانہ ‘‘، ’’گارڈ کا اغوا‘‘ ، ’’طوفان کا اغوا‘‘، ’’زمین کے بادل‘‘، ’’موت کی چٹان‘‘، ’’چاندنی کا دھواں‘‘، ’’سینکڑوںہم شکل‘‘، ’’برف کے بھوت‘‘، ’’چمکیلا غبار‘‘، ’’فرہاد ۵۹‘‘ وغیرہ اور عمران سیریر کے ناول’’خوفناک عمارت‘‘،’’رات کا شہزادہ‘‘، ’’لاشوں کا بازار‘‘،’’گمشدہ شہزادی‘‘، ’’حماقت کا جال‘‘، ’’رائی کا پربت‘‘، ’’پاگلوں کی انجمن‘‘ وغیرہ میں طنزومزاح اور ظرافت کی ایسی دلکش شگفتگی موجودہے۔
ابن صفی کے ناولوں میں ہمیں طنزومزاح کی بھرپور عکس نظر آتا ہے۔ جاسوسی دنیا اور عمران سیریز دونوں کے پلاٹ اور کردار مختلف نظر آتے ہیں۔انھوں نے ناولوں کے پلاٹ میں وضاحتی تحریر سے زیادہ مکالماتی طرزنگارش پر توجہ دی ہے ۔مکالمات کا اپنا ایک حسن ،ایک بانکپن ہوتا ہے۔ جہاں تک کہانی کے پلاٹ کا تعلق ہے وہ بیانیہ ہوجائے تو سارا سحر باطل ہوجاتاہے ۔فن کمال یہ ہے کہ اس میں رمزیت ،تحیر و استعجاب کی کیفیت برقرار رکھتی ہے۔ان کے ناولوں میں حیرت کرنے والی بات یہ ہے کہ طنز ومزاح کے موضوعات میں تکرار نظر نہیں آتی۔
جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے آغاز کو تقریباً ۲۵تا۲۷سال مکمل ہونے پر ان کی قلم کی تلخی وترشی میں وسعت اور گہرائی دکھائی دیتی ہیں۔معاشرہ روایت و قدامت پسندی اور مغربی تقلید کے موڑ پر تھی۔آس وقت ابن صفی نے چلت چلی کو لکھنا شروع کیا۔اس کا تعارف ابن صفی اس طرح سے کرتے ہے کہ:
’’چلّیت ایک آفاقی حقیقت ہے۔ ہم سب چلی ہیں۔لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ خود کو اس بھیڑ سے الگ کرکے تفریح کے لیے دوسرے چلیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔‘‘
(بحوالہ پرنس چلی،ابن صفی)
پرنس چلی مزاحیہ ناول کا اختتام خوشگوار انداز میں ہوا ہے۔چلی کی اس کی شریک حیات بن جاتی ہے اور چلی اور شوہروں
کی طرح اپنی بیوی سے ڈرتا ہے۔چلی کی شرارتیں ،مضحکہ خیزی اور بیوقوفیاں قاری کے ذہن میں رہتی ہے۔
ابتداء سے آج تک دنیا میں خیروتصادم جاری ہے۔ہار ہمیشہ شر کی ہوتی ہے کیونکہ جب شر جیت جائے گا اس دن جہاں کا آخری دن ہوگا۔ابن صفی نے اپنے ناولوں میں جو انداز اپنایا ہے۔ ان کے ویلن کتنے ہی مضبوط ہو لیکن وہ قانون کے لمبے ہاتھوں سے نہیں بچ سکتے۔ جاسوسی یا سری ادب اپنے آپ میں نہایت سنجیدہ ادب ہے۔ابن صفی نے ایسے سنجیدہ ادب میں بھی طنزومزاح کی ضرورت کو محسوس کیاہے۔ ابن صفی نے کرداروں کی شوخی اور ظرافت سے بہت سے مسائل کو حل کیا ہے۔ابن صفی نہ صرف جاسوسی ادب کے بلکہ اردو ادب کا بھی ایک اہم نام ہے۔ابن صفی نے جاسوسی ادب ،مزاحیہ ادب بلکہ شاعری میں بھی یہ اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔
ابن صفی نے ۲۸ سالوں تک ۲۵۰ سے زائد جاسوسی کہانیاں تحریر کیں۔ناول نگاری کے ساتھ ساتھ کراچی سے دوتفریحی ڈائجسٹ پندرہ روزہ’’نئے افق‘‘ اور ماہنامہ ’’نیا رخ ‘‘جاری کیے۔ ان دونوں ڈائجسٹوں میں دیگر جاسوسی تحریروں کے علاوہ مختلف طنزیہ و مزاحیہ تحریریں شائع ہوتی تھیں۔اپنے اسلوب کی ندرت دلچسپ انداز بیان ،مکالماتی حسن،تجسس اور تحیر نیزنئے نئے سنسنی خیز واقعات کی وجہ سے وہ ہر دل عزیز ادیب تصور کیے جانے لگے۔
حسن اتفاق اردو میں سری ادب کے شہرہ آفاق ہر دل عزیز ادیب ابن صفی کی تحریروں میں ادبیت کا جو معیار ملتا ہے۔ وہ یقیناً ہمارے ادب میں صناعی ،سلیقہ ،ہنر مندی کی علامت سے جدا نہیں ہے۔بات دراصل یہ ہے کہ اردو ادب میں جاسوسی ادب کا کوئی چلن نہ تھا۔ ہمارے یہاں کوئی تحریر سرا غرسانی ،تجسس یا تحقیق کے عنوان سے ملتی ہے تو وہ ’’طلسم ہوشربا ‘‘اور اس کے بعد تراجم کی صورت سے انگریزی کتابوں کے ضخیم دفتر جس میں ادبیت کی تلاش ’’جوئے شیر ‘‘ کا نکالنا ہے۔
ابن صفی ایک البیلے صاحب طرز اور جادو نگار ادیب صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ان کی تحریروں میں جو ندرت کمال ،جاذبیت، سحر طرازی اور انفرادیت ملتی ہے وہ اب کہاں نظر آتی ہے۔ ان کا اسلوب والہانہ ،دلگداز ،ہمہ گیر،پرکشش اور منفرد طرز فکر کا غماز ہے۔ فن کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی کہ وہ شخصیت کا آئینہ دار ہے۔
لانجینس کہتاہے کہ ایک اچھے مصنف میں تین خصوصیات ہونی چاہیے۔پہلی یہ کہ مصنف کی وہ صلاحیت جس کے ذریعے وہ خیالات اور جذبات کا فنکارانہ انداز میں اظہار کرے۔دوسری یہ کہ وہ اپنی تخلیق میں سلیقہ شعاری،ترتیب و تنظیم نیز لفظیات کا شایان شان استعمال کرے۔تیسری اور اہم خوبی یہ کہ وہ پوری تخلیق کی پیش کش میں کوئی کورکسر فردگزاشت نہ رکھے۔گویا ابن صفی اپنے دائرے کار کے اعتبار سے وسعت ،توانائی،صلابت فکر،تازگی ،قوت انشا،فنکارانہ استدلال کا بہترین مظاہرہ کرتے ہیں
آخری بات ابن صفی نے اس زبان میں اپنی تخلیقات پیش کی جس کے ذریعے انسانی جدوجہد کی مسلسل داستان سنائی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ اسی زبان کے توسط سے انسانی ذہن کو ایک طویل انسانی تجربہ کے سمجھنے میں مدد ملی۔ زبان نے انسانی تہذیب کو فروغ دیا،اس کے امکانی شعور کو تقویت دی۔ زبان نے انسان کے مطالعہ کو انسانیت کا مطالعہ قرار دیا۔ ویسے ویسے بھی زندہ قومیں اپنی مادری زبان ہی کے اظہار کا ذریعہ بناتی ہیں تاکہ زندگی کے متنوع مسائل اور موضوعات کی پذیرائی ہو سکے۔اس میں جذبے اور جمال کی ترجمانی بھی ہوگی۔ ہمارے دور میں اردو زبان کو یہ درجہ یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ ماحول کے مطابق اظہار کی قوت سے کام لے ۔ابن صفی نے بھی اسی قوت و طاقت سے ایک جہاں کو متاثر کیا اور اس زبان کے ذریعے زندگی کے پر موڑ پر تہذیب و تمدن، انسانیت کا ادراک کروایا ،یہی ان کی عظمت کی دلیل ہے۔ دراصل زبان ملک و ملت کو حسن دلکشی،توانائی نیز قوت عمل سے مربوط کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور یہی اردو زبان نے بھی کیا۔
٭٭٭