You are currently viewing احتجاجی و مزاحمتی صحافت کا ستون: اردوئے معلی

احتجاجی و مزاحمتی صحافت کا ستون: اردوئے معلی

ڈاکٹرنزہت فاطمہ

اسسٹنٹ پروفیسر

کرامت حسین مسلم  گرلس پی جی کالج، لکھنؤ

احتجاجی و مزاحمتی صحافت کا ستون: اردوئے معلی

         یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندستان کی آزادی کی جد و جہدمیں اردو صحافت نے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب برطانوی حکومت کاغیض و غضب،ظلم و ستم اور جبر و استبداد اپنے عروج پر تھا اور علما، دانشوران، مفکریں، شعرا اور محبان وطن نے یہ محسوس کر لیا تھاکہ ظلم اور زور خلاف کے ایک لمبی لڑائی لڑنی ہوگی۔اس لڑائی میں ہندوستان کی ترقی پسند اور ہم فکرعوام کا با اثر ذریعہ صحافت ہی تھی۔ ان وطن پرستوں نے اپنے احساس کو قوت قلم بخشی اور اپنے خون دل میں انگلیاں ڈبو کرصحافت کے ذریعے تحریک آزادی کو ایک نئی اوربااثررا ہ عطا کی۔عوام کو بیدار کیا گیا، اور اخبارات کی اہمیت کو مستند اورمعتبر بنایا گیا۔جہد آزادی کے اُس دور کے اردو اخبارات نے جذبات بر انگیختہ کرنے والی غزلیں اور باغیانہ مضامین شائع کئے۔ جوش و جذبات اور انقلابیت سے لبریز نظمیں عوام تک پہونچائیں۔سرگرم اور ولولہ خیز جذبات سے متحرک افسانوں کو جگہ دی گئی۔ نیز ملک کی آزادی سے متعلق جس طرح کا پیغام عوام تک پہونچانا تھا وہ ان اخبارات سے بخوبی لیا گیا۔ بھلے ہی ان سے وابستہ افراد کو قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑی ہوں، دارورسن کی سخت آزمائشوں اور اذیتوں سے دو چار ہونا پڑا ہو اور آخر میںاس کی قیمت اپنے جان و مال سے ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑی ہو۔معاشرے میں انقلابیت اور مزاحمت کے ساتھ ساتھ ان اخبارات نے آج کے دور کے بالکل برعکس اُس دور میں جس پیغام کو فروغ دینے میں سب سے بڑا کردار ادا کیا وہ تھا ،قومی یک جہتی ارو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا۔

         اردو کے پہلے اخبار کے شائع ہونے سے لے کر بیسوی صدی کے آغاز تک شائع ہونے والے تقریبا ً۲۵فیصد اردو اخبارات کے مالک غیر مسلم تھے۔قارئین میں دیگر مذاہب کے لوگوں کی تعداد۲۵سے۶۰فیصد تک تھی۔ الغرض تحریک آزادی میں اردو صحافت نے اپنا ایک نمایاں اور اہم کردار ادا کیا ہے۔ انقلابی جذبات کو ابھارنے اور عوام و خواص کو خبر سے با خبر کرنے کا اہم کارنامہ اردو صحافت نے بڑی کامیا بی اور لیاقت کے ساتھ انجام دیا۔آغازتحریک آزادی بلکہ سے لے کرحصول آزادی تک اردوصحافت خصوصا ً اخبار نویسی نے آزادی اور قومی اتحاد کی  سرگرم تحریک میں جو نمایاں رول ادا کیا ہے وہ تاریخ کا ایک روشن ترین باب ہے۔

         صحافت نگاری کی اسی روایت کے ایک وطن پرست سچے صحافی مولانا فضل الحسن حسرت موہانی تھے جن کے اصول صحافت نیرسالہ اردوئے معلی کے ذریعہ  ملک کے ادبی سماجی سیاسی اور تہذیبی اقدارکی صحیح ترجمانی کی ہے۔

         حسرت موہانی ایک بلند خیال شاعر، ایک عظیم سیاستداں،متحرک اور فعال مجاہدآزادی اور بااصول نڈر صحافی تھے۔ان کی بے باک صحافت نگاری نے ہندوستان کی سیاسی فضا میں اپنی وسعت النظری اور بلند نگہی کا لوہا منوایا۔ان کی صحافتی  زندگی حق پرستی، صداقت پسندی اور صاف گوئی کا آئینہ دار ہے۔ان کی صحافتی زندگی کا آغاز سال ۱۹۰۳ سے ہوتا ہے جب انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کی تعلیم کرنے کے فوراً بعدرسالہ اردوئے معلیٰ نکالا۔یہ خالص ادبی،سیاسی رسالہ تھاجس کا اولین مقصد برطانوی حکومت کی مخالفت اور ظلم و جبر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا تھا۔اردوئے معلی کے تقریباً دو سو شمارے منظر عام پر آئے۔ کم عرصے میں حسرت موہانی کی کاوشوں نے ملک بھر میں وہ مقبولیت حاصل کر لی جس کو پانے میں کئی صدیوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔

         اردوئے معلی کے ذریعہ مولانا حسرت موہانی نے ہم عصر اردو صحافت اور ہندوستانی سیاست کو وسعت ذہن اور بلند خیالی کا جذبہ دیا۔یہی ویہ تھی کہ انگریز حکومت کو ہمیشہ اس رسالے کی کامیابی کھٹکتی رہی۔ سال ۱۹۰۸ میں حکومت کے خلاف ایک مضمون شائع کیا گیا۔اس مضمون کا عنوان تھا مصر میں انگریزوں کی حکمت عملی جو کسی نامعلوم مضمون نگار کی جانب سے شائع ہوا۔اس سلسلے میں حسرت موہانی پر جون ۱۹۰۸ میں مقدمہ قائم کیا گیا۔اور انہیں دو سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔حکومت نے پانچ سو روپئے کا جرمانہ عائد کیا جو اس وقت کے لیے ایک خطیر رقم تھی۔اس جرمانے کی ادائگی کے لیے حست کو اپنا چھاپہ خانہ بھی نیلام کرنا پڑا تھا۔ لیکن حسرت کی وطن پرستی اور پرعزم حوصلے میں کوئی کمی نہ آنے پائی۔انہوں نے اپنا صحافتی سفر بہ سلسلہ جاری رکھا۔ سال ۱۹۱۳ میں انہیں پھر گرفتار کیا گیا اور اس بار ضمانت کے طور پر تین ہزار روپئے کی بھاری بھرکم رقم وصول کرنیکا فرمان سنایا گیا۔ جس کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا ہے کہ:

         ’’پریس اردوئے معلی کا مالک، فقیر، بوریا نشین، تین ہزار کی جگہ دس دس روپئے کے تین نوٹ ایک وقت میں نہیں دے سکتا ہے۔اس لیے اس کا لازمی نتیجہ یہی تھا کہ پریس بند ہو گیا۔‘‘

         مولانا حسرت موہانی کی ادارت میں دو رسالے اردوئے معلی اور تذکرۃ الشعرا کی اشاعت عمل میں آئی۔ ان کی ایک اور صحافتی کاوش روزنامہ اخبارمستقل کی شکل میں منظر عام پر آئی۔ لیکن سب سے زیادہ مقبولیت اردوئے معلی کو ہی حاصل ہوئی۔اردوئے معلی حسرت موہانی کے ادبی  افکار اورسیاسی خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنا۔ اختر حسین رائے پوری کے خیالات کے مطابق:

’’بیسویں صدی کے پہلے دہے میں ہندوستان کے مختلف شہروں سے متعدد ماہانہ رسالے جاری ہوئے جن میں مخزن (لاہور)، زمانہ (کانپور)، الناظر (لکھنؤ)، شمس (کلکتہ)، زبان (دہلی)، العزیز (آگرہ)، یدِ بیضا (سکندرآباد)، دکن ریویو (حیدرآباد)، صحیفہ (حیدرآباد)، اور آزاد (لاہور) قابل ذکر ہیں۔لیکن سوائے آزاد کے جو لاہور سے بشن سہائے آزاد کی ادارت میں نکلتا تھا اور ایک سیاسی پرچہ تھا۔باقی تمام پرچے علمی و ادبی نوعیت کے تھے۔ آزاد کے بعض مضامین کے ترجمے امریکہ کے اخبار بھی چھاپتے تھے جس سے ان کی وقعت کا ندازہ ہوتا ہے۔زمانہ (کانپور) میں بھی سیاسی مضامین چھپتے تھے لیکن وہ زیادہ تر معلوماتی ہوتے تھے۔ اب اگر ان تمام رسائل کے مقابلے میں اردوئے معلی کو دیکھا جائے تو وہ طاہری وضع قطع کے اعتبار سے نہایت معمولی نظر آئے گا۔لیکن ترتیب مواد اور معیار کی بنیاد پر اس کو غیر معمولی کہنا بیجا نہ ہوگا۔‘‘

(مشمو لہ اردو صحافت – ماضی اور حال ص۱۶۳)

         اردوئے معلی کی اشاعت کئی مرتبہ بند ہوئی،۔ حسرت کی سیاسی مصروفیات، قید وبند اور مالی دشواریوں نے وقت بوقت کئی طرح کی پیچیدگیاں قائم کیں۔ اس اخبار کی مدت اشاعت کو چار ادوار میں بانٹا جا سکتا ہے۔ پہلا دور۱۹۰۳ سے ۱۹۰۸ تک رہا، دوسرا۱۹۱۰ سے ۱۹۱۳ تک، تیسرا ۱۹۱۷ سے ۱۹۲۲ اور چوتھا و آخری دور ۱۹۲۵ سے۱۹۴۲ تک رہا ہے۔ اس میں سیاسی اعتبار سے پہلے تین ادوار بے حد خاص اور خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔اردوئے معلی کی غیر معمولی صحافت،حق گوئی، بے باکی اور پرعزم خدمات اور غیر معمولی مقبولیت نے حسرت موہانی کو صحافت کی دنیا میں منفرد مقام عطا کیا۔

حوالہ جات:(References)

         ٭  اردو صحافت ماضی اور حال۔ از خالد محمودو سرور الہدی

         ٭  اردو صحافت مسائل اور امکانات۔ از ڈاکٹر ہمایوں اشرف

         ٭  ادبی صحافت کے اولین نقوش۔ از ڈاکٹر محمد اسلم

         ٭  تاریخ صحافت۔ مولانا امداد صابری

         ٭  ابلاغیات۔از ڈاکٹر محمد شاہد حسین

         ٭  اردو صحافت۔مرتبہ انور دہلوی

         ٭  فن صحافت۔از ڈاکٹر عبدالسلام خورشید

***

Leave a Reply