شمارہ فروری ۲۰۲۳
اداریہ
اردو اپنی تہذیب و ثقافت کے ساتھ زندہ و تابندہ ہے اور الحمد للہ دنیا کی زبانوں میں تیزی مقبول ہونے والی زبانوں میں سے ایک ہے ۔اس کی مشترکہ قدریں سنسکرت ، عربی ، فارسی ، ترکی اور ہندستانی بولیوں میں موجود ہیں ۔ یہ وہ عناصر ہیں جو اس زبان کو تقویت بخشتی ہیں اور اس بات کی ضمانت ہے کہ بھلے ہی یہ زبان نشیب و فراز سے گذررہی ہے مگر یہ زبان۔ اپنی تہذیبی قدروں کے سبب ہمیشہ زندہ رہے گی۔
اردو محض ایک زبان ہی نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب بھی ہے ۔یوں تو دنیا کی تمام زبانیں کسی نہ کسی تہذیب کی پیدوار ہوتی ہیں کیونکہ زبان و ادب کے لیے کسی خاص خطے کا ہونا ضروری ہے ۔ جو زبان جس خطے اور علاقے کی ہوتی ہے اسی خطے اور علاقے کی صوتی خصوصیات ، اس علاقے کی استعاراتی اور تلمیحی لفظیات اس میں موجود ہوتی ہے اسی لیے زبان اپنے جائے مولد کی تہذب و ثقافت کی ترجمان ہوتی ہے ۔ لیکن اردو کاامتیاز یہ ہے اس کا خطہ ، اس کا علاقہ بہت وسیع ہے ۔ یہ ہندستانی زبان ہے بلاشبہ ہندستانی زبان ہے۔ لیکن یہ آج کے ہندستان کی سر حدوں سے پرے ہے۔ اس کا علاقہ پورا بر صغیر ہے ۔بر صغیر کے ہمسایہ ممالک کی سرحدیں بھی اس کو چھوتی ہیں ۔ اسی لیے اردو ایک ایسی تہذیب و ثقافت کی ترجمان ہے جس کا دائرہٴ اثر سر حدوں سے بھی پرے ہے ۔ اس کادامن اتنا وسیع ہے کہ اس میں نہ صرف ہندستان کی مٹی کی خوشبو ہے بلکہ بر صغیر اور وسط ایشیائی تہذیب و ثقافت کی بھینی بھینی خوشبو بھی یہاں موجود ہے ۔
اردو ہندستان کی ان اہم زبانوں میں سے ایک ہے جس کا ظہور ہندستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے بطن سے ہوا۔یہ خالص ہند آریائی سلسلے کی ہندستانی زبان ہے جس میں ہندستانیت کے عناصر ہر جگہ دیکھے جاسکتے ہیں ۔ یعنی بول چال سے لے کر عوامی ادب اور سنجیدہ ادب و شعر ہر جگہ ہندستانی عناصر موجود ہیں ۔ اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ مشترکہ تہذیب و ثقافت کی بات کریں یا قومی یکجہتی کہ با ت کریں تو اردو میں قومی یکجہتی کی بات تو بعد میں آتی ہے ۔ خود اردو قومی یکجہتی کی زبان ہے ۔ ہندستان کی عظیم وراثتوں میں ’ اردو ‘ ایک وراثت ہے جو خود ہندستانیت اور قومی یکجہتی کی نادر مثال ہے ۔ اس زبان کی پرورش و پرداخت میں ہندستان کی مختلف قوموں ، نسلوں نے حصہ لیا تو اس زبان کو سنورانے اور نکھارنے میں عربی، فارسی ، ترکی اور کئی دیگر زبانوں نے اہم کردار اداد کیا۔ اسی لیے اس زبان نے سنسکرت اور پراکرت سے لے کر اپ بھرنش اور کئی بولیوں کے رنگ رس لیے ، عربی و فارسی کی روایات سے خود کو تیزی سے پروان چڑھایا۔ اس طرح یہ ہندستان کی ایک مشترکہ زبان بن کر ابھری اور مقوبل عام ہوئی ۔
ہم اپنے قارئین سے گذراش کرتے ہیں کہ اس اہم تہذیبی زبان کی ترقی و ترویج میں جس طرح بھی ممکن ہو اپنا کردار ضرور ادا کریں۔
اپنے معزز تخلیق کاروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جن کے مخلتف الجہات مضامین سے یہ شمارہ مزین ہے۔ مستقبل میں بھی اپنے قارئین اور مصنفین سے علمی و ادبی تعاون کی درخواست کی جاتی ہے ۔
(پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین )
مدیر اعلیٰ