You are currently viewing اداریہ

اداریہ

ڈاکٹر رمیشاقمر

شمارہ ۹-۱۱

جلد -۳

اکتوبر-نومبر ۲۰۲۳

اداریہ

انسانی تاریخ میں کچھ ایسی ہستیاں بھی پیدا ہوتی  رہی ہیں جو انسانیت کے فروغ اورانسان کی سر بلندی کے لیے اپنے علم وعمل سے رہبرانہ کردار ادا کرتی رہی ہیں اور اپنے قائدانہ اقدامات اور خدماتِ خلق کی بدولت تاریخ میں ہمیشہ کے لیے  اپنے نام درج کرالیتی ہیں۔ان کے کارنامے آنے والی نسلوں کے لیے مشعل ِ راہ بن جاتے ہیں اور صدیاں گزر جانے کے بعد  بھی روشن  رہتے ہیں ۔  آگہی  و بصیرت  اور قوتِ عمل سے معمور ان کے خیالات, تجریات,مشاہدات, محسوسات اور  پیغامات, ہماری رہنمائی  کرتے رہتے ہیں۔

 مولانا ابوالکلام آزاد اور علامہ اقبال کا شمار ایسی ہی فعال ,متحرک, با کردار اور قابلِ تقلیدشخصیات میں ہوتا ہے ۔

  نومبر کا مہینہ ان ہی دو عظیم ہستیوں کے نام مختص ہے۔ اقبال کی یوم پیدائش9 نومبر اور آزاد کی یوم پیدائش 11 نومبر ہے۔یہ دونوں تاریخیں قوم و ملٌت کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ 9 نومیر یوم اردو اور 11 نومبر یوم تعلیم  سے موسوم ہے۔ یوم اردو اور یوم تعلیم  دونوں ہی ملک بھر میں جوش و خروش کے ساتھ منائے جاتےہیں  بلکہ یوم اردو تو عالمی سطح پر بھی منایا جاتا ہے۔ یوم اردو اور یوم تعلیم دونوں تقریبات کی طرح مناۓ جاتے ہیں ۔ اس  موقع پر مختلف طرح کے تہذیبی ,تعلیمی اور ادبی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں اور ان عظیم رہنماؤں کو خراج عقیدت پیش کیاجاتا ہے ۔اس دن ان کے کارناموں کو یاد کیا جاتا ہے اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کی جاتی ہے ۔انھیں یاد اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ:

امت کی خیر خواہی کے دیکھے ہزار خواب

اپنے پرائے سب کا رکھا آپ نے خیال

انسانیت کا فخر محبت کے داعی تھے

اپنے معاملات میں رکھتے تھے اعتدال

رمیشاؔ قمر

  ان عظیم ہستیوں سے منسوب ان دونوں تقریبات  یعنی یوم اردو اور یوم تعلیم کے متعلق میرے ذہن میں ایک تجویز برسوں سے کروٹیں لے رہی ہے اور وہ تجویز یہ ہے کہ ان دونوں کو ایک یعنی”یومِ اردو تعلیم” کردیا جاۓ اس لیے کہ ایسا کرنے سے  اردو زبان کی ترویج کا مقصد بھی مرکز میں آ جاۓ گا۔یہ تجویز اس لیے بھی بامعنی اور اہمیت کی حامل ہے کہ ان دونوں شخصیات کا رشتہ اردو زبان سے کافی گہرا رہا ہے اور دونوں کی یہ خواہش رہی ہے کہ ان کے وسیلہ ٔ اظہار کی زبان کی ترقی ہو,اس کی تعلیم کا بہتر انتظام ہو ۔اسے آسان اور سائنٹفک بنایا جاۓ تاکہ آسانی سے سیکھی جا سکے اور مختلف علوم و فنون کے اظہار کا معقول اور موثر وسیلہ بن سکے ۔ اس زبان کی بقا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ  ملت کے بیشتر لوگوں کی مادری زبان بھی ہے اور پہچان بھی ۔

 لوگ میری اس تجویز پر غور کریں یا نہ کریں مگر ہمیں اس بات پر ضرور دھیان دینا چاہیے کہ ہماری زبان ‘پھلے پھولے اور خوب ترقی کرے۔لہذا ہمارے رسالے ‘ ترجیحات ‘کی اولین ترجیح  یہ ہونی چاہیے کہ اردو زبان فروغ پاۓ  اور ہماری نئی نسل کا اس سے رشتہ مضبوط تر ہو جاۓ تاکہ اس زبان  کا مستقبل محفوظ ہو جاۓ۔چونکہ ئئے قلم کار  ہمارے ورثے کے محافظ اور ہماری زبان کا مستقبل ہیں اس لیے ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے کارناموں کو خود یاد رکھیں اور دوسروں کو بھی یاد دلاتے رہیں۔ نیز ان کی حفاظت و ترویج و اشاعت کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہیں ۔

    آج کے حالات میں تو  اپنی زباں کے تئیں اور بھی کانشیس اور الرٹ رہنے کی ضروت ہے کیونکہ زمانہ اسے مٹانے کے درپے  ہے۔اس کے وجود کو نیست و نابود کرنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلی جا رہی  ہیں۔ اس زبان کو بدیسی کہا جا رہا ہے۔ اس پر مسلمانوں کی زبان ہونے کا ٹھپہ لگایا جا ریا ہے ۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں اور تنظیموں کی طرف سے اردو زبان کو جتنی مراعات حاصل ہیںں ان میں بتدریج کمی ہوتی جا رہی ہے۔ کئی اردو ادارے,تو ایسی حالت میں پہنچ گئے ہیں کہ کب بند ہو جائیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ آئے دن نئی نئی  تخریبی پالیسیاں بن رہی ہیں, نئے نئے احکامات جاری ہو رہے ہیں, بے اعتنائی برتی جا رہی ہے یہاں تک کہ سازشیں بھی کی جا رہی ہیں۔ ایسے نازک وقت میں ہم سبھی اردو والوں کو متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ورنہ :

 ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

  ایسی صورتِ حال میں ہمارے رسالے ترجیحات کی

 ذمے داری اور بڑھ جاتی ہے کہ وہ  اردو زبان کے فروغ کے مشن کی کاوشیوں کو  تیز کردے ۔اس میں مشنری اسپرٹ پیدا کر دے۔

ورلڈ اردو ایسوسییشن کے بانی اور ترجیحات کے مدیراعلی پروفیسر خواجہ محمداکرام الدین سے میری درخواست ہے کہ وہ کوئی ایسا منصوبہ بنائیں جو نئی نسل کی صلاحیتوں کو اور بیدار کر سکے ۔زبان کی ہر سطح پر انھیں مشاق اور ماہر بنا سکے۔

ان کے لیے کچھ ایسے پروگرام بھی مرتب  کیے جائیں جو ان میں اپنی زبان کے تئیں بیداری لا سکیں اور اپنے لسانی ورثے کے تحفظ کا جذبہ  پیدا کر سکیں۔

***

Leave a Reply