شمارہ مارچ ۲۰۲۲
اداریہ
۸ /مارچ دنیا بھر میں “یوم خواتین ” کے طور پر منایاگیا اور خواتین کی عظمت اور تقدس کے گُن گائے گئے ۔ یہ ایک اچھا موقع ہے کہ اس بہانے سال بھر میں کم از کم ایک بار ہی سہی اور دل سے نہ سہی زبان سے ہی سہی خواتین کے احترام اور اور سماج میں ان کے مقام کے حوالے سے گفت و شنید ہوئی اور تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔لیکن یہ صرف ایک دن ہی خواتین کے لیے مختص کرنا کتنا درست ہے؟ اس پر بات شاید ممکن نہیں کیونکہ اب عالمی سطح پر کئی طرح کے ایام منائے جاتے ہیں اور ان کی حیثیت اب محض ایک رسم سے بن کر رہ گئی ہے ۔حالانکہ خواتین دن کے چوبیس گھنٹے اور سال کے ہر لمحے میں اپنی جاں نثاری اور خلوص کے دریا بہاتی رہتی ہیں ۔ انھیں کے دم سے “کائنات میں رنگ ” موجود ہے بلکہ یوں کہیں کہ کائنات کی رنگارنگی کو بحال رکھنے میں ان کا خانگی سطح سے بین الاقوامی سطح تک اہم کردار ہے ۔ لیکن المیہ دیکھیں کہ اسی ماہ یوروپ کا ایک بڑا حصہ کشیدگی سے دو چار ہے اور اور یوکرین جیسا خوبصورت ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکاہے ۔ شاید اس آگ کی لپٹ دیگر ممالک کو بھی جھلسا دے ۔ان تمام تباہ کاریوں میں عورت کی جیسی جیسی تصویریں میڈیا کے ذریعے سامنے آئیں اور جن تکالیف کا سامنا ہوا شاید کسی ” یوم خواتین ” منانے والے اس جانب دیکھ نہیں سکے ۔
تصویر کا یہ ایک رخ تھا لیکن اور بھی کئی رخ ہیں ۔ ہم ادب والے تو یہی کہتے ہیں کہ :
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
بات یہ ہے کہ دنیا سائنس اور ٹکنالوجی میں جیسے جیسے ترقی کرتی جائے گی ، تباہی کے اسباب اسی تیزی سے مہیا ہوتے جائیں گے۔ادب ہی وہ واحد شعبہ ہے جو انسان کے اندر جھانک کر دیکھتا ہے مگر اس اکیسویں صدی کا المیہ یہ ہے کہ ادب کو” کارے ماضی ” کے مصداق موجودہ منظر نامے سے نکالا دے دیا گیا ہے ۔ حالانکہ آج کے اس معاشرے میں جہاں انسان گم ہوتے جارہے ہیں وہاں ادبیات کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ یہی وہ شعبہ ہے جو انسان کو انسان بنائے رکھنے ، انسان کوانسان بنانے اور انسانیت کی قدر و قیمت کو نہ صرف پہچانتا ہے بلکہ اس کے فروغ میں بھی کام کررہاہے ۔
اس لیے اس دور پُر فتن اور انتشار و کرب کے منظر نامے میں ادب کو زیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ سچ ہے کہ اس کا تعلق فنون لطیفہ سے ہے مگر یہ صرف ذہنی تفریح اور احساس جمال کی تسکین کے اسباب ہی مہیا نہیں کراتا بلکہ یہ تو معاشرے کے دوش بدوش چلنے والا شعبہ ہے۔ہمارا معاشرہ جن مسائل اور پیچیدگیوں سے گزرتا ہے ادب بھی اسی راہ پر چلتا ہے اسی لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ادب آج کے معاشرے کے لیے بھی اتنا ہی ہم آہنگ ہے جتنا پہلے تھا۔
اب وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم ادب کہ ذریعے انسانیت کے تحفظ کے لیے کام کریں اور انسان کو انسان ہونے کے تلقین کریں ۔ اٹھیں اور اس کراہتی ہوئی دنیا کو سکون کے کچھ لمحات ہی سہی مہیا کرائیں ۔
اس شمارے کے مشمولات پر گفتگو نہیں ہوسکی اور دانستہ نہیں کرنا چاہتا کہ کیونکہ فارسی مقولے کے مطابق” مشک آنست کہ خود ببوید نہ عطار بگوید” میں اپنے مقا لہ نگاروں کی تحریروں کو اس شمارے میں شائع کرکے بنیادی طور پر پبلک ڈومین میں رکھ دیا ہے اب قارئین خود طے کریں کہ ان کی خوشبو زندگی اور ادب کے کن کن گوشوں کو معطر کرتی ہے ۔
اپنے تمام مقالہ نگاروں کا ممنون ہوں اور لکھنے والوں سے ملتمس ہوں کہ اسی طرح اپنے مضامین، تخلیقات اور نگارشات سے نوازتے رہیں ۔
(خواجہ محمد اکرام الدین )
***