اداریہ
ادب کی تفہیم کے زاویے :نظریہ ، نقاداور قاری
الحمدللہ جولائی کا برقی شمارہ وقت کی پابندی کے ساتھ آپ کے کے مطالعے کے لیے حاضر ہے ۔اس شمارے میں بھی نئی نسل کے لکھاریوں کے مضامین نوع بنوع عنوانات کے تحت موجود ہیں ۔ ان تمام مضامین کے مطالعے کے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی کے اس عہد میں جہاں سائنس اور ٹکنالوجی کا بول بالا ہے ، جہاں انٹرنیٹ کی دنیا میں معلومات کا انبار ہے اور مجموعی طور پر اس عہد نے انسان کو مادیت کے حصار میں اس طرح گرفتار کر رکھا ہے کہ ہر چیز میں سود و زیان کا پیمانہ ہی ملحوظ خاطر رہتا ہے ۔ ایسے میں یہ سوال بھی اہم ہوجاتا ہے کہ ” اس اکیسویں صدی ” میں کیا ادب کی کوئی ضرورت۔ ہے بھی یا نہیں ؟؟؟ اس سوال کو آج کے لکھاری ، قاری ، ناقد اور تخلیق کار نے اپنے ذوق ادب سے غلط ثابت کردیا ہے ۔
لیکن اس سوال سے پہلے یہ بھی غور کرنا ہے کہ اس عہد میں ادب کی تفہیم کی کیا کیا صورتیں ہیں کیونکہ آج دنیا کو سمجھنے ،سمجھانے کا نظریہ بدل گیا ہے ، زندگی کو دیکھنے کے زاویے تبدیل ہوچکے ہیں تو لا محالہ ادب کی تفہیم کے زاویے اور نظریات میں بھی لازماًتبدلیاں آئی ہوں گی ۔ در اصل زبان وادب کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں دبے پاؤں تبدیلیاں آتی ہیں اور جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے بہت کچھ بدل گیا ۔ادب کی تفہیم میں کیا کیا نئے وزایے اور نظریات شامل ہوئے ہیں اور آج کا قاری کس طرح ادب کو لیتا ہے؟
ادب کی تفسیر و تعبیر کے حوالے سے مشرقی اور مغربی نظریات دونوں نظریات موجود ہیں ۔ یہ بہت قدیم بحث ہے ارسطو سے آج تک اس کی مختلف تعبیریں پیش کی جاتی رہی ہیں ۔اور کی بھی جانی چاہیے کیونکہ ادب اور زبان کوئی منجمد شئی نہیں ہے ۔انسائیکلو پیڈیا کے مطابق :
“ادب عربی زبان کا لفظ ہے اور مختلف النوع مفہوم کا حامل ہے۔ ظہور اسلام سے قبل عربی زبان میں ضیافت اور مہمانی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ بعد میں ایک اور مفہوم بھی شامل ہوا جسے ہم مجموعی لحاظ سے شائستگی کہہ سکتے ہیں۔ عربوں کے نزدیک مہان نوازی لازمہ شرافت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ شائستگی، سلیقہ اور حسنِ سلوک بھی ادب کے معنوں میں داخل ہوئے۔ جو مہمان داری میں شائستہ ہوگا وہ عام زندگی میں بھی شائستہ ہوگا۔ اس سے ادب کے لفظ میں شائستگی بھی آگئی۔ اس میں خوش بیانی بھی شامل ہے۔ اسلام سے قبل خوش بیانی کو اعلٰی ادب کہا جاتا تھا۔ گھلاوٹ، گداز، نرمی اور شائستگی یہ سب چیزیں ادب کا جزو بن گئیں۔
بنو امیہ کے زمانے میں بصرے اور کوفے میں زبان کے سرمایہ ٴتحریر کو مزید فروغ حاصل ہوا۔ اسی زمانے میں گرامر اور صرف
ونحو کی کتب اِرقام کی گئیں تاکہ ادب میں صحتِ اندازِبیان قائم رہے۔ جدید دور میں ادب کے معنی مخصوص قرار دیے گئے۔ ادب کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تخیل اور جذبات ہوں ورنہ ہر تحریری کارنامہ ادب کہلا سکتا ہے۔”
مغربی نظریات کی بات کریں تو :
“ادب آرٹ کی ایک شاخ ہے جسے “فن لطیف” بھی کہہ سکتے ہیں۔ میتھو آرنلڈ کے نزدیک وہ تمام علم جو کتب کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، ادب کہلاتا ہے۔ کارڈ ڈینل نیومین کہتا ہے “انسانی افکار، خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے ادب کہلاتا ہے “۔ نارمن جودک کہتا ہے کہ “ادب مراد ہے اس تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔ “
آج۔۔۔
ادب کے بارے میں کہا جاتاہے کہ تحریر کی اعلیٰ شکل جس میں احساسات و تجربات ، مشاہدات، تفکرات اورتخیلات کو جمالیاتی انداز میں پیش کیا گیا ہو وہ ادب ہے۔لیکن ادب صرف تحریری نہیں ہوتا ۔ زبانی ادب ، عوامی ادب اور فوک لٹریچر بھی ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ زبان اور ادب کسی خاص خطے کی نمائندہ ہوتی ہے ۔اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ادب اپنے مخصوص علاقے کی تہذیب و تمدن کاہی عکاس ہوتا ہے۔ اس کلیے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ادب میں علاقے اور خطے کی تہذیب و تمدن کی پیشکش لازمی ہے۔کہا جاتا ہے کہ’’شعر وادب تفسیر زندگی بھی ہے اورتصویر زندگی بھی‘‘
ادب کے متعلق دو نظرئیے ہیں ایک ادب برائے ادب اور دوسرا ادب برائے زندگی ہے۔ اِن دونوں نظریات کے تحت ادب لکھا گیا ہے اور لکھا جارہاہے ۔ لیکن عام طور پر اُسی ادب کو اہمیت حاصل ہے جو زندگی کی عکاس بھی ہو اور زندگی کے لیے مشعل راہ بھی ہو ۔ قدرو قیمت اسی ادب کی ہے جو نہ صر ف زندگی کی تصویر دیکھائے بلکہ زندگی کر نے کے راستے بھی دیکھائے ۔لیکن ادب محض زندگی اور تہذیب و تمدن کی عکاسی ہی نہ کرے بلکہ اس میں مسرت و بصیرت کی ایسی آمیزیش ہوجو جمالیاتی حظ بخشتی ہو، جو تفریح ِذہن و دل کے ساتھ بصیرت کا ادراک بھی کراتی ہو تو وہ ادب کے زمرے میں آسکتا ہے ۔
ادب کی تفہیم کے زاویے اس طرح بدلتے وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے رہے ہیں ۔آج کا قاری ، مصنف اورتخلیق کار اور ناقد کہاں ہے ۔۔۔عہد حاضر کی ان تحریروں سے بخوبی علم ہوتا ہے ۔
۸/ جولائی ۲۰۲۲ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
***