You are currently viewing اردو اور گوجری کے لسانی اشتراکات

اردو اور گوجری کے لسانی اشتراکات

 

 

ڈاکٹرمحمدصادق 

  ہزارہ یونیورسٹی ، مانسہرہ  پاکستان

اردو اور گوجری کے لسانی اشتراکات

            اردو اور گوجری کے درمیان بہت گہرے لسانی و تاریخی رشتے قائم ہی بلکہ بقول صابر آفاقی:  برصغیر کی کوئی علاقائی زبان اردو سے اتنی قریب نہیں جتنی گوجری ہے۔ذخیرئہ الفاظ ،ضرب  الامثال اور گرامر میں بڑی حد تک اردو سے اس کا اشتراک ہے۔( ۱) گوجری اور اردو زبان میں رشتے داری پیدا کرنے کا فریضہ سنسکرت زبان نے ادا کیا ۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب آریہ قبائل برصغیر پاک و ہند میں آئے تو انہی قبائل میں گوجر قبائل بھی شامل تھے۔گوجروں اور دوسرے تمام قبائل کی مذہبی اور علمی زبان سنسکرت تھی۔بعد ازاں آریائووں میں طبقاتی تقسیم کی وجہ سے عوامی بولیاں وجود میں آئیں جنہیں پراکرتیں کہا جاتا ہے۔ڈاکٹر صابر آفاقی کے مطابق ان پراکرتوں کا زمانہ ۵۰۰ق م سے ۴۰۰ق م تک ہے۔(۲) یہ عوامی بولیاں بڑی تیزی سے ترقی کر رہی تھیں ۔بدھ مت کی تبلیغ اور پھیلائو میں ان بولیوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ان بولیوں کے ظہور اور ترقی کے دور میں ہی گوجر قبائل جو کوہِ آبو اور کوہِ ارائولی میں سکونت پزیر ہو چکے تھے ، ایک بڑی پراکرت جو اپ بھرنش کہلاتی تھی سے گوجری کا جنم ہوا۔یہ ۶۰۰ قبل مسیح کا زمانہ ہے جس میں گوجری اپنے ابتدائی نام برج دیش سے معروف ہوئی جو دہلی ،آگرہ اور متھرا کے علاقوں کی زبان تصور ہوتی تھی۔

         غیر معروف بولی سے جنم لینے والی گوجری کی ابتدائی صورت اگرچہ ناقابلِ فہم نظر آتی ہے تا ہم پہلی صدی عیسوی کے بعد یہ زبان سرکاری سرپرستی میں تیزی سے ترقی کرنے لگی کیونکہ گوجروں کو اقتدار ملنا شروع ہو گیا تھا۔پہلی صدی عیسوی سے لے کر تیرہویں صدی عیسوی تک گوجروں کا اقتدار عروج پر رہا ۔اس عرصے میں گوجری ترقی کرتے ہوئے اور ہندی زبان کے اثرات لیتے ہوئے کافی ترقی حاصل کر لیتی ہے۔نویں صدی عیسوی سے محمود غزنوی ہندوستان پر حملے شروع کردیتا ہے اور گوجروں کی حکومتیں کمزور ہو جاتی ہیں ۔ گوجروں کی ایک بڑی آبادی پنجاب کے علاقہ گجرات اور اردو کے قدیم علاقہ دکن کی طرف ہجرت کرتے ہیں اور انہی علاقوں کو اپنی جائے پناہ بناتے ہیں ۔یہیں پر گوجری نئے ناموں گجراتی اور دکنی سے معروف ہوتی ہے اور یہیں پر گوجری اور اردو کا ملن اور اختلاط عمل میں آتا ہے کیونکہ اردو زبان کے پنپنے کے اصل مقامات بھی یہی ہیںجس وقت یہ دکنی زبان کے حوالے سے جانے جانی لگی تو اس وقت گردو نواح میں اردو کے خدو خال ظاہر ہونے لگے تھے جبکہ غالب کے دور تک اردو پر گوجری کے اثرات بدستور موجود رہے۔

         جب برصغیر میں اسلامی عہدِ حکومت شروع ہوتا ہے تو عربی و فارسی کے اثرات ہر طرف پھیلنا شروع ہو جاتے ہیں جو گوجری اور اردو دونوں زبانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔موتی لال ساقی دونوں زبانوں کے ارتقاء کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

   دونوں زبانوں کو کچھ کچھ سیاسی سرپرستی نصیب ہوئی اور ساتھ ہی ان کے بولنے والے کافی حد تک اک خاص علاقے میں مجتمع ہو کر رہے جس نے ان دو زبانوں کے پنپنے اورپھیلنے میں مدد کی۔(۳(

         گوجری بھی پنجابی،عربی،فارسی اور مقامی زبانوں کے الفاظ سے اپنا پیٹ بھرنا شروع کر دیتی ہے اور ہندوستان کی مقبولِ عام زبان بن جاتی ہے۔ دوسری طرف گوجری اور اردو کے لسانی و ادبی روابط بہت تیزی سے آگے بڑھتے ہیں۔ گجرات کے صوفیاء اپنے صوفیانہ خیالات اور وعظ و تبلیغ کے لئے گوجری زبان استعمال کرتے ہیں کیونکہ اردو ابھی تشکیلی مراحل میں ہوتی ہے۔ گجرات اور گرد و نواح کے صوفیاء نظم و نثر میں گوجری زبان کا استعمال کر کے اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ان صوفیاء میں علی محمد جیو،میاں خوب محمد چشتی اور محمد امین جیسے لوگ شامل ہیں۔حتیٰ کہ بعض ہندو شاعر کبیر داس اور تلسی داس بھی گوجری کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔یہ زبان مختلف ادوار میں ترقی کرتی ہوئی اور دوسری زبانوں سے لین دین کرتی ہوئی دہلی،ہما چل پردیش،مدھیہ پردیش،دکن،گجرانوالہ،گجرات ،راجھستان اور جموں و کشمیر بشمول آزاد خطہ کے مختلف علاقوں میں پھیلی اور لسانی و ادبی مقام و مرتبہ بھی پایا۔ گوجری کا اثر و نفوز اس قدر بڑھ گیا تھا کہ کئی عرصہ تک اردو گوجری کے نام سے پکاری جاتی رہی۔ ڈاکٹر صابر آفاقی کے مطابق سترہویں صدی تک اردو کا نام گوجری ہی رہا۔(۴(

         ۸۵۷اء کی جنگِ آزادی کے بعد جب انگریز اقتدار مستحکم ہوا تو انگریزوں نے ان کی طالع آزمائی کی عادتوں کو بھانپتے ہوئے انہیں میدانی علاقوں سے پہاڑی علاقوں کی طرف دھکیل دیا۔پھر اس کے بعد گوجر کبھی نہ سنبھل سکے اور سیاسی طور پر پسماندہ ہی رہے۔تعلیمی لحاظ سے بھی یہ پیچھے رہ گئے کیونکہ اب ان کا ٹھکانہ پہاڑ اور درے تھے۔ یہاں انہیں خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزارنا پڑی ۔چنانچہ گوجروں کی زبان زیادہ تر پہاڑوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی۔

         بہرحال گوجری نے اردو زبان کی تخلیق اور ترقی میں بڑا نمایاں کردار اداہے۔ اردو زبان کو چونکہ ترقی اور بڑھوتری گوجروں کے علاقوں میں ملی ،اسلئے گوجری زبان کو اردو کی ماں کہا گیا۔(۵(

         چونکہ گوجری کا ادبی و لسانی ارتقاء ان کی حکومتیں مٹ جانے کی وجہ سے رک جاتا ہے اسلئے بڑھوتری کی طرف بڑھنے والی اردو زبان گوجری اور دوسری زبانوں کے اشتراک سے انیسویں صدی کے آغاز تک ایک مستحکم اور عوامی زبان کی حیثیت حاصل کر لیتی ہے۔ اس دوران اردو اور گوجری کے لسانی اشتراکات اس قدر وسعت اختیار کر لیتے ہیںکہ جیسے ان کے درمیان ماں بیٹی کا رشتہ نہیں بلکہ جڑواں بھائی ہوں اور اب یعنی اس دورِ جدید میں ان دونوں زبانوں کی لسانی قربت کا یہ حال ہے کہ عام اور روزمرہ بول چال کے جملوں پر نظر دوڑائی جائے تو سوائے دو تین حروف یا الفاظ کے کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ عبدالرشید چوہدری کے گوجری شعری مجموعہ ’’ نین سمندر ‘‘ میں چوہدری عطاء ا لرحمٰن چوہان نے عرضِ ناشر کے عنوان سے گوجری میں جومضمون لکھا ہے ،اس کا ایک اقتباس دیکھیں کہ گوجری اردو اشتراکات کس ناقابلِ یقین حد تک حیران کن ہیں :ـ

فی زمانہ لوکاں کو کتاب داروں جی بھر گیو ہے ۔پڑھیا لکھیا لوگ بھی کتاب نا سرسری نظر نال دیکھ کے پراں سٹ چھوڑیں۔اس طرزِ عمل تیں کئی پڑھن جوگی کتاب بغیر پڑھیاں رہ جائیں۔افرا تفر ی کا اس دور ماں صرف واہی کتاب پڑھی جائے جہڑی اپنا قاری نا زوراوری نال اپنا دار چھک لیئے۔نین سمندرکی گل بھی کچھ اسے طرحاں کی ہے۔اس کتاب نا کھولتاں ہی شاعر نے اپنا گراں ،قبیلہ کو تعارف تے تاریخ بڑا دلنشین انداز ماں بیان کی ہے۔ (ٌ۶(

         گوجری اردو اشتراکات کے حوالے سے عبدالرشیدچوہدر ی کے شعری مجموعے سے شعری مثالیں بھی دیکھیں جن میں صرف لفظ ’’ماں ‘‘ جو ’’میں‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور ’’ا ‘‘ کا فرق نظر آتاہے:

میرا دل کا بستا شہر ماں توں

میرا علم ایمان ایقان ماں توں

ہر جگہ جگہ ہر چوک سنے

رکھے دن تے رات دھیان ماں توں              (۷)

         چونکہ گوجری زبان میں بھی اردو کی طرح انگریزی،ہندی،عربی،فارسی،ترکی اور پہاڑی زبان کے الفاظ شامل ہیں ۔ اسلئے ان زبانوں کی اس قربت اور مذکورہ مثالوں کو دیکھ کر چوہدری اشرف ایڈوکیٹ کے اس اقتباس سے اتفاق نہیں ہو پاتابلکہ ان کی یہ بات انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے جب وہ لکھتے ہیں:

گوجری الفاظ کو اگر اردو زبان سے نکال دیا جائے تو اردو کا  ایک جملہ بولنا بھی ہمارے لیے مشکل ہو جائے۔(۸)

         چنانچہ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو وذخیرہء الفاظ ،ضرب المثال،گرائمر اور دوسری اصناف نظم و نثر میں دونوں زبانوں کے درمیان کا فی اشتراک پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صابر آفاقی اس حوالے سے رقم طراز ہیں :

 گوجری اور اردو میں صوتی ،حرفی ،نحوی مماثلت کے علاوہ ذخیرئہ الفاظ روزمرہ محاورہ اور ضرب الامثال ایک جیسی ہیں یہاں تک کہ اصناف نظم و نثر اور شاعری کی بحور و اوزان دونوں زبانوں میںایک جیسے ہیں۔(۹)

         اردو کی طرح گوجری بھی فارسی رسم ا لخط میں لکھی جاتی ہے اور املاء کا طریقہء کار بھی یکساں ہے ۔ گوجری زبان کے حروفِ تہجی کی تعداد ۵۲ بتائی جاتی ہے۔تاہم صابر آفاقی نے اپنے تحقیقی مضمون میں حروفِ تہجی کی تعداد ۴۹ ظاہر کی ہے۔ (۱۰) سوائے حروف کے معمولی اختلاف کے جیسے کہ گوجری املاء میں فارسی کا حرف ’ژ ‘ استعما ل میں نہیں آتا ۔اسی طرح دونوں زبانوں میں معکوسی ’ل ‘ اور معکوسی ’ن‘ کے علاوہ باقی تمام حروف میں گہرا اشتراک پایا جاتا ہے۔ گوجری کے تمام مصوتے جن کی تعداد ۹ ہے ،اردو میں بھی اسی طرح استعمال ہوتے ہیں جو گوجری اور اردو  لسانی اشتراک کے غماز ہیں۔                                                                     گوجری کے قواعد

         دو زبانوں کی صحیح قربت کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب ان زبانوں کے ضمائر میں بھی اشتراک نظر آتا ہو۔گوجری اور اردو زبان کے ربطِ باہم کے حوالے سے دیکھیں تو ایک جیسے ضمائر ان کے انتہائی قریبی تعلق کے غماز نظر آتے ہیں۔ مثلاً چند مثالیں دیکھیں۔

                                      ضمائر شخصی کی مختلف شکلوںمیں اشتراک

   گوجری                                                     اردو                                گوجری                    اردو

  اوہ     (مذکر غائب)                                وہ                                       وَہ    (مؤنث غائب)                  وہ

یَہ     (مذکر حاضر)                                  یِہ                                    وے(مذکرغائب)                         وہ

 مہارو                                                  ہمارا                                     تمہارو                                  تمھارا

 تیرو                                                     تیرا                                     میرو                                     میر ا

         ذیل کے ضمائر کو دیکھا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ گوجری اور اردو کے ضمائر کی فاعلی اور مفعولی حالت میں کوئی واضح فرق نہیں ۔خاص طور پر ضمیر غائب مثلاً ؛اس ،ان،وہ اور انہوں وغیرہ تو بالکل ایک جیسے ہیںبلکہ حقیقت یہ ہے کہ اردو کے تمام ضمائرِ شخصی ہیں۔

اردو اور گوجری کے مشترک الفاظ

  اردو                 گوجری                اردو                 گوجری              اردو               گوجری

 پانی                  پانڑیں                   پیدا                   پیدا                      پودا                  پودا

چٹی                    چٹی                     چہرہ                چہرہ                    چھل                 چھل

حمد                    حمد                    خو                     خو                      کھوٹا               کھوٹا

داڑھی                 داڑھی                دعویٰ                 دعوو                  رب                   رب

 تحریر                 تحریر                شوم                    شوم                     روا                  روا

  اسمِ مصدر کا استعمال    

         مصدر کسی بھی زبان کا بنیادی اسم ہوتا ہے جس میں کسی کام کا کرنا یا ہونا پایا جاتا ہے۔اسی مصدر سے پھر کئی دوسرے اسم اور افعال بنتے ہیں۔جیسے اسم مشتق ،اسمِ جامد ،فعلِ امراور مختلف زمانی افعال وغیرہ۔اردو میں مصدر بنانے کے لیے عام طور پر ’’نا‘‘ لگانے کا طریقہ درج ہے ۔جیسے کاٹنا ،دیکھنا اور رونا وغیرہ۔جبکہ گوجری میں مصدر بنانے کے لئے عام طور پر فعلِ امر کے صیغہء واحد کے آخر میں ’’ نو ‘‘ لگایا جاتا ہے۔جیسے کاٹ+نو= کاٹنو ، دیکھ+نو= دیکھنو اور رو+نو= رونو وغیرہ۔ بعض الفاظِ میں اردو کے مصدر کا ’’ ا ‘‘ ہٹا کر اس کی جگہ ’’ نو ‘‘ لگا دیا جائے تو گوجری کا مصدر بن جاتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھی زبان کے مصادر بنانے کے لیے بھی اسی طریقہ کو جو کہ گوجری زبان سے لیا گیا ہے ،استعمال کیا جاتا ہے۔ ذیل میں اردو اور گوجری مصادر کی کی ایک فہرست دیکھیں جن میں صرف ’’ ا ‘‘ اور ’’ نو ‘‘ کا فرق ہے۔

       اردو                      گوجری                        اردو                            گوجری                         اردو                        گوجری

     کاٹنا                           کٹنو                             جانا                               جانو                               آنا                            آنو

    کھانا                          کھانو                           ناچنا                              نچنو                               مانگنا                        منگنو

   پوہ پھٹنا                      پوہ پھٹنو                       ڈھونڈنا                          ڈھونڈنو                              کرنا                          کرنو

         گوجری میں اسمِ تصغیر بنانے کیلئے وہی طریقہ درج ہے جو اردو میں استعمال ہوتا ہے۔مثلاً گوجری میں اسمِ تصغیر اسم کے آخر میں ’ی‘ یا ’و ‘ لگا کر بنایا جاتا ہے۔اردو کے بعض الفاظ میں بھی یہی طریقہ نظر آتا ہے۔مثلاً

                                  گوجری                    اردو                      گوجری              اردو

                                  کتاب                          کتاب                     کتابچو                   کتابچہ

                                   بچہ                        بچہ                        بچونگڑا                  بچونگڑا

                                  دیگ                        دیگ                      دیگچو                       دیگچہ

                                  دکھ                          دکھ                      دکھڑو                        دکھڑا

                                               گنتی میں اشتراک

                  اردو          گوجری          اردو          گوجری         اردو           گوجری

                   ایک           ہیک           دو              دو            تین            ترے

                  چار            چار           پانچ             پنج            چھ              چھ

                 سات          ست          آٹھ             اٹھ            نو              نو

                  دس            دس          گیارہ            یاراں          بارہ             باراں

                                      محاورات میں اشتراک

                     اردو                               گوجری                       مطلب

                    احسان چڑھانا                       احسان چاہڑنو                 احسان جتانا

                    زبان دینا                           وعدہ کرنو                      وعدہ کرنا

                    منہ پھیرنا                            منہ پھیرنو                     بے رخی برتنا

                     پتا کرنا                             پتو کرنو                        عیادت کرنا

                                  اردو اور گوجری ضرب ا لمثال کا اشتراک

                          اردو                                                        گوجری

                    اونچی دکان پھیکا پکوان                              پگ بڈیری میلو شملو

                    مدعی سست گواہ چست                               خصماں کولوں کتا تاولا

                    اپنی گلی میں کتا شیر                                  اپنے گھر سارا ہی بادشاہ

                    اپنی عزت اپنے ہاتھ                                      اپنی عزت اپنے ہتھ

         اردو میں واحد مذکر اسموں کی جمع بنانے کے لیے آخری حرف ’ا ‘یا’ ہ‘کو یائے مجہول’’ ے ‘‘سے بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً اندھا سے اندھے اور گھوڑا سے گھوڑے وغیرہ۔گوجری زبان میں بھی مذکر اسموں کی جمع بنانے کے لیے یہی طریقہ مستعمل ہے ۔ واحد کے جمع بنانے کے لئے وائو مجہول ہوتو اس کی جگہ بعض اوقات الف لگانے سے بھی جمع بن جاتی ہے۔  چند مثالیں دیکھیں۔

         واحد                          جمع                         واحد                  جمع

         گھوڑو                      گھوڑا                       ورقو                ورقا

         کوٹھو                        کوٹھا                       وقفو                    وقفا

          بندو                              بندا                      مندو                 مندا

         جن واحد مونث اسموں کے آخر میں (ی) ہو توان کی جمع بنانے کے لیے (یں) لگانے سے جمع بن جاتی ہے۔ یہ طریقہ دونوں زبانوں میں مروج ہے۔ یہاں بھی چند مثالیں دیکھیں :

                 واحد                        جمع                         واحد                          جمع

                  چنگی                        چنگیں                     بیوی                       بیویں

                  بلی                              بلیں                            کاپی                              کاپیں

                 گدری                          گدریں                          لڑکی                              لڑکیں

         اردو قواعد میں اگر مذکر اسموں کے آخر میں الف یا ہ ہو تو مونث بناتے وقت یائے معروف ’’ ی ‘‘میں بدل دیے جاتیہیں جبکہ گوجری میں مذکر اسموں کے آخر میں وائو ہو تو اس کی تانیث میں (ی) لگائی جاتی ہے۔

                 اردو مذکر اسم             اردوموٗنث اسم            گوجری مذکر اسم       گوجری موٗنث اسم

                      بکرا                           بکری                      بکرو                     بکری

                    کتا                            کتی                            کتو                        کتی

                     نکا                             نکی                            نکو                         نکی

                     بڑا                             بڑی                            بڑو                        بڑی

         مذکر اسم کے آخری حرف کو ’’ی ‘‘ یا’’ن ‘‘ میں بدل دینے سے بھی الفاظ موٗنث میں تبدیل ہو جاتے ہیںْیا پھر بعض اوقات آخری حرف کے بعد’’نی ‘‘ یا ’’انی‘‘کا اضافہ کر کے مونث الفاظ بنائے جاتے ہیں۔کچھ استسنائی صورتوں میں آخری حرف کو حزف بھی کیا جاتا ہے۔مذکر مونث کے یہ اصول دونوں زبانوں میں یکساں اور مشترک ہیں۔ ذیل کی فہرست میں مذکر مونث کی ایسی تمام صورتیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

       مذکر                   مونث                          مذکر                      مونث

         مور                      مورنی                    جادو گر                       جادو گرنی

       پٹھان                     پٹھانی                         لوہار                         لوہارن

       سپ                       سپنی                          پارسی                         پارسن

         اگر اردو الفاظ کے مذکر کے آخر میں ( ا یاچھ ) ہو تو مونث بنانے میں (نی یا ی ) بڑا دیں گے جبکہ گوجری میں مذکر الفاظ کے آخر میں ’و ‘ کو ’ی ‘ میں بدل دیا جاتا ہے۔ ’ و ‘ نہ ہونے کی صورت میں صرف ’ ی ‘ ہی استعمال ہو گا۔ جن الفاظ کے آخر میں یہ حروف نہ بھی ہوں تو بھی مونث بنانے میں یہی طریقہ استعمال ہوگا۔یہ صورت دونوں زبانوں میں پائی جاتی ہے۔ مثلاَذیل کی فہرست میں یہ تینوں صورتیں دیکھیں۔

          اردو مذکر الفاظ                 ارادو مونث الفاظ                گوجری مذکر الفاظ             گوجری مونث الفاظ

               رچھ                               رچھنی                            رچھ                                رچھنی

             گھوڑا                              گھوڑی                          گھوڑو                              گھوڑی

               لڑکا                                لڑکی                             لڑکو                                 لڑکی

              مرغ                               مرغی                             مرغو                                 مرغی

         اسم مذکر کے آخر میں (ی ) ہو تو مونث بنانے میں (آنی ) لگاتے ہیں۔مثلاَ

             چودھری                             چودھریانی                        مولوی                              مولویانی

             درزی                               درزیانی

         اگر عربی زبان کے مذکر الفاظ کے مونث بنانے ہوں تو آخری حرف کے ساتھ’’ ہ ‘‘ کا اضافہ کر کے مونث میں تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔اس اصول کا اطلاق بھی دونوں زبانوں پر ہوتا ہے۔مثلاً ذیل کی فہرست دیکھیں۔

             مذکر اردو ،گوجری                           مونث اردو گوجری

                  خادم                                           خادمہ

                قاتل                                                قاتلہ

                والد                                                 والدہ

                 بالغ                                                 بالغہ

         حقیقی تزکیر و تانیث میں بعض اسماء ایسے بھی ہیں جو دونوں زبانوں میں جوں کے توں بولے جاتے ہیں۔ان کے مذکر اور مونث کے جوڑے نہیں بنائے جاتے۔ان کا فرق جملے کی ساخت سے خود ہی معلوم ہو جاتا ہے۔چند ایک ایسے اسماء دیکھیں۔

                  اردو (مذکر)                           گوجری مذکر                اردو مونث          گوجری مونث

                   کبوتر                                        کبوتر                         کبوتر                  کبوتر

                    فاختہ                                        فاختہ                         فاختہ                   فاختہ

                     بلبل                                        بلبل                             بلبل                     بلبل

                     پروانی                                    پروانہ                         پروانہ                  پروانہ

         غیر حقیقی تزکیر و تانیث میں بھی زیادہ تر چیزوں کے حوالے سے گوجری اور اردو میں ایک ہی اصول کار فرما ہے کہ جنچیزوں کے ناموں کے آخر میں ’’ ی ‘‘ ہو ، انہیں مونث تصور کیا جاتا ہے۔تاہم کچھ استثنائی صورتیں بھی ہیں مگر زیاد ہ تر مونث ہی متصور ہوتی ہیں۔

                       گوجری               اردو                     گوجری                     اردو

                            آری                   آری                          لکڑی                        لکڑی

                          کرسی                  کرسی                           ٹوپی                         ٹوپی

                          گاڑی                  گاڑی                          سوئی                         سوئی

                           چھری                 چھری                          کلیجی                         کلیجی

         استثنائی صورتوں میں ہاتھی،موتی اور پانی ایسے الفاظ ہیں جن کے آخر میں اگرچہ ’’ ی ‘‘ آتی ہے مگر یہ تمام الفاظ مذکر کے طور پر پڑھے اور لکھے جاتے ہیں۔مذکر و مونث کے حوالے سے بعض اسمائے معرفہ و اسمائے نکرہ مخصوص بھی ہیں جیسے تمام پہاڑوں کے نام مذکر کے طور پر بولے جاتے ہیں ۔مثلاًمائونٹ ایورسٹ،ہمالیہ اورہندو کش وغیرہ۔اس طرح قوموں کے لیے مخصوص الفاظ بھی ہمیشہ مذکر تصور ہوتے ہیں۔جیسے سید،پٹھان،گوجر،ہندو اور مسلمان وغیرہ۔

         مذکر الفاظ کی طرح دونوں زبانوں میں سینکڑوں مخصوص الفاظ ایسے ہیں جو مونث کے لئے ہی بولے جاتے ہیں ۔مثلاً تمام نمازوں کے نام مونث کے طور پر لیے جاتے ہیںاور اسی طرح تمام زبانوں کے نام مونث ہوتے ہیں جبکہ آہستہ چلنے والی تمام قسم کی ہوائوں کو مونث اور تیز چلنے والی ہوائوں کے ناموں کو مونث کے طور پر بولتے ہیں ۔ ہوائوں کے علاوہ زمانی حالتوں میں بھی دونوں زبانوں کے درمیان اشتراک موجود ہے۔

   زمانے کی حالتیں اور لسانی اشتراک

         زمانے کی تین حالتیں ہیں۔فعلِ حال،فعلِ ماضی اور فعلِ مستقبل۔ان زمانی حالتوں میں دونوں زبانوں کا لسانی اشتراک تلاش کرنے کے لیے ایک تو انہیں زمانی ترتیب کے لحاظ سے دیکھیں گے اور دوم یہ کہ اردو اور گوجری دونوں زبانوں میںیسی کون سی مناسبتیں ہیں جو لسانی اشتراک کے زمرے میں آتی ہیں۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ یہ تینوں زمانی حالتیں دنیا کی تمام زبانوں میں یکساں پائی جاتی ہیں۔ذیل میں ان دونوں زبانوں کازمانے کے لحاظ سے ایک موازنہ پیش کیا جاتا ہے۔

     فعل ماضی

      اس سے مراد ایسا کام ہے جس کا کرنا یا ہونا گزرے ہوئے زمانے میں پایا جائے۔اردو میں اس کے لیے مصدر سے بنے ہوئے لفظ لکھا،رویا اور ہنسا وغیرہ استعمال ہوتے ہیںیا جملوں میں ان کی یہ صورت ہوگی۔مثلاًاسلم رویا ،آسیہ نے خط لکھا اور جمیل ہنسا وغیرہ۔اس طرح کے جملے اصطلاح میںفعل کے لحاظ سے ماضی مطلق کہلائیں گے۔گوجری زبان میں بھی مصدر سے ماضی مطلق کے افعال بنانے کے لیے ’ و ‘ کے فرق کے ساتھ یہی طریقہ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی پہلے اردو مصدر کی علامت ’’ نا ‘‘ اور گوجری مصدر کی علامت ’’نو ‘‘ ہٹا کر ان کی جگہ’’ یا ‘‘اور گوجری ہو تو ’’یو ‘‘ لگائیں گے۔اگر مصدر کے آخر میں الف یاوائو’’ و‘‘ نہ بچیں تو پھر الف ’’ ا ‘‘ بڑھا دیا جاتا ہے ۔جمع مذکر یا مونث کے لیے دونوں زبانوں میں ایک ہی اصول اختیار کیا جاتا ہے کہ آخر میں ’’ ئے ‘‘ یائے مجہولہ یا ’’ ئی ‘‘ یائے معروفہ استعمال کی جاتی ہے۔مذکورہ بالا بالا تمام اصولوں کا اطلاق فعل ماضی کی دوسری اقسام ماضی مطلق،ماضی قریب اور ماضی بعیدپر کیا جا سکتا ہے سوائے ماضی استمراری کے ۔کیونکہ اس کے صیغہ واحد اور جمع میں تھوڑا تغیر رونما ہو جاتا ہے۔ذیل میں مصدر سے فعل ماضی کی اقسام ماضی مطلق اور ماضی بعید کی مثالیں دیکھیں۔مثلاً کھیلنا مصدر کا ایک خاکہ دیکھیں۔

         واحد غائب            جمع غائب        واحد حاضر         جمع حاضر        واحد متکلم        جمع متکلم

           اردو    وہ کھیلا   (مذکر)    وہ کھیلے              تو کھیلا               تم کھیلے           میں کھیلا            ہم کھیلے

         گوجری  وہ کھیلئیو           ویہہ کھیلا             توں کھیلیو            تَم کھیلا            ہوں کھیلیو         ہم کھیلا

           وہ کھیلی (مئونث )          وہ کھیلیں             تو کھیلی              تم کھیلیں           میں کھیلی           ہم کھیلیں

           گوجری  وہ کھیلی            وہ کھیلیں            تو کھیلی               تم کھیلیں          ہوں کھیلی           ہم کھیلیں

                                                                                          ماضی بعید

          ’’ آنا ‘‘ مصدر سے ماضی بعید کی مثالیں دیکھیں جن میں صرف تھا ،تھی،تھے اور تھیں کا اضافہ ہوا اور فعل ماضی مطلق فعلماضی بعید میں تبدیل ہو گیا۔

            اردو             وہ آیا تھا         وہ آئے تھے        تو آیا تھا         تم آئے تھے      میں آیا تھا        ہم آئے تھے

           گوجری           وہ آئیو تھو        وہ آئیو تھا           توں آئیو تھو      تَم آئیو تھا         ہوں آئیو تھو       ہم آئیو تھا

            اردو             وہ آئی تھی        وہ آئی تھیں         تو آئی تھی       تم آئی تھیں        میں آئی تھی       ہم آئی تھیں

           گوجری           وہ آئی تھی        ویہہ آئی تھیں       توں آئی تھی      تم آئی تھیں        ہوں آئی تھی      ہم آئی تھیں

         فعل ماضی کی مختلف حالتوں کے علاوہ فعل ماضی شکیہ،فعل امر اور فعل مضارع بنانے کے لیے بھی دونوں زبانوں میں ایک ہی طرح کا طریقہ کار استعمال ہوتا ہے۔اب ذیل میں فعلِ حال کی مختلف حالتوں میں فعلِ حال مطلق بنانے کے قواعد میں اشتراک دیکھیں۔یہاں بھی گوجری اور اردو میں صرف تا اور توکے علاوہ تے اورتا کا فرق ہے ۔صیغے بھی ایک جیسے ہیں۔

فعلِ حال مطلق

                   واحد غائب           جمع غائب           واحد حاضر        جمع حاضر        واحد متکلم          جمع متکلم

     اردو            وہ آتاہے               وہ آتے ہیں             تو آتا ہے          تم آتے ہو         میں آتا ہوں          ہم آتے ہیں

    گوجری          وہ آتو ہے               ویہہ آتاہیں             توں آتو ہے         تم آتا ہو          ہوں آتوہوں         ہم آتو ہیں

                     وہ آتی ہے              وہ آتی ہیں               تو آتی ہے          تم آتی ہو         میں آتی ہوں          ہم آتی ہیں

                     وہ آتو ہے              ویہہ آتو ہیں             توں آتو ہے         تم آتی ہو         میں آتو ہوں          ہم آتو ہیں۔

 فعل مستقبل

        فعل مستقبل میں بھی صرف فعل مستقبل مطلق کو لیں گے۔اس کے قواعد بھی بالکل وہی ہیں ۔فعل مستقبل مطلق کی نشانی گا ،گے ،گی کے استعمال کے علاوہ واحد غائب مذکر اور واحد حاضر مذکر میں ’گا‘ یا ’گے ‘کی جگہ ’گو ‘استعمال ہوگا۔ذیل میں فعل مستقبل مطلق کی فعلی حالتیں ،صیغے اور نشانیوں کا استعمال دیکھیں۔

                              واحد غائب      جمع غائب          واحد حاضر       جمع حاضر      واحد متکلم         جمع متکلم

    اردو                       وہ آئے گا        وہ آئیں گے        تو آئے گا        تم آئو گے     میں آئوں گا       ہم آئیں گے

    گوجری                    اوہ آئیں گو      ویہہ آئیں گو        توں آئیں گا      تم آئیں گا    ہوں آئوں گو      ہم آئیں گا

                              وہ آئے گی        وہ آئیں گی         تو آئے گی        تم آئو گی      میں آئو ں گی      ہم آئیں گی

                              اوہ آئیں گی      ویہہ آئیں گی       توں آئے گی       تم آئو گی      ہوں آئو گی       ہم آئیں گی

         مندرجہ بالا قواعد صرف و نحو،قواعد واحد جمع،مونث مذکر،ضمائر اور اسمائے اشارہوغیرہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں زبانیں بہت زیادہ ایک دوسرے کے قریب ہیں اور ہر سطح پر دونوں زبانوں کے اصول و قواعد میں اشتراکات موجود ہیں۔بعض جگہوں پر کچھ چیزیں مختلف بھی محسوس ہوتی ہیں جیسے واحد متکلم میں اردو کے ضمیر ’ میں ‘ کے لیے گوجری میں ’ ہوں ‘ کا صیغہ استعمال ہوتا ہے یا وحد جمع کے مذکر اسماء میں تھوڑا بہت فرق نظر آ جاتا ہے ۔تاہم دو زبانوں کے درمیان جب اتنی وسیع سطح پر لسانی اشتراک موجود ہوں تو معمولی قسم کا تغیر و تبدل کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتا۔چنانچہ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اردو اور گوجری دونوں زبانیں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں اور ان میں بہت بڑے پیمانے پر لسانی اشترکات موجود ہیں۔

حوالہ جات

(۱)ڈاکٹرصابر آفاقی ’’ اردو اور گوجری‘‘ مضمون مشمولہ ’’اخبارِ اردو ‘‘ جلد ۲۴،شمارہ :۸ ، اسلام آباد ، مقتدرہ قومی زبان،۲۰۰۷ء ، ص،۱۵

(۲) ڈاکٹر صابر آفاقی ’’ گوجری زبان و ادب ‘‘ لاہور،مکتبہ جمال،۲۰۱۰ء ،ص ،۳۸

(۳) موتی لال ساقی ’’ گوجری کا لسانی مطالعہ‘‘ ’مضمون مشمولہ گوجری زبان و ادب‘مرتب ڈاکٹر صابر آفاقی،لاہور ، مکتبئہ جمال،۲۰۱۰ء ،ص،۱۲۸

(۴)ڈاکٹرصابر آفاقی ’’ اردو اور گوجری ۔لسانی و ادبی اشتراکات ‘‘مضمون مشمولہ ’پاکستانی زبانیں مشترکہ لسانی و ادبی ورثہ‘ مرتب،انعام الحق جاوید،شعبہ پاکستانی زبانیں ،اسلام آباد ،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،۹۰۰۲ء،ص ،۴۱۵

(۵)چوہدری محمد اشرف ایڈو کیٹ ’’ اردو کی خالق گوجری زبان‘‘ اسلام آباد ،کیپیٹل پبلی کیشنز،۱۹۹۸ء ،ص ،۲۱۰

(۶) عبدالرشید چوہدری ’’ نین سمندر ‘‘ سری نگر، جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لنگویجز ،۲۰۱۰ء ،ص ،۱۱

(۷) ایضاً ، ص،۳۲،۳۳

(۸)چوہدری محمد اشرف ایڈو کیٹ ’’ کتابِ مذکور‘‘  ص،۲۱۳

(۹)ڈاکٹرصابر آفاقی ’’گوجری زبان و ادب ‘‘ ،ص ،۱۸۰

(۱۰) ڈاکٹرصابرآفاقی ’’ لسانی و تہذیبی ہم آہنگی اور مشترکہ ادبی رجحانات‘‘ مضمون مشمو لہ اخباراردو،جلد۲۴،شمارہ ،اگست۲۰۰۷ء ، اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان ،ص ،۱۵

***

Leave a Reply