عارف۔این
ایچ۔ایس۔ٹی،
جی۔ایچ۔ایس۔ایس،پُتُ پرمب،ملاپرم،کیرلا
اردو داستانوں میں ہندوستانی تہذیبی عناصر
تعارف:
داستان اردو نثر کی قدیم ترین صنف میں سے ایک اہم صنف ہے۔یہ اس زمانے کی پیداوار ہے جب انسان کو بولنا نہیں آتا تھا اور وہ اپنے خیالات کا اظہار اشاروں میں کیا کرتا تھا۔جب انسان شعور کی حد میں داخل ہوا تو اشاروں کی جگہ منھ سے نکلنے والی آوازوں نے لے لی اور تحریر کی وجود کے ساتھ ہی کہانی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا کہانی اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ نسل انسانی۔ داستانیں قصہ کہانی کا اضافی روپ ہیں،قصے نے ترقی کرکے داستان کی شکل اختیار کر لی۔ہماری قدیم تہذیب ،معاشرت ،اندازِ فکر اور تخیل کی بڑی دلکش تصویریں داستانوں میں محفوظ ہیں۔یہ ایک ایسے دور کی پیداور ہیں جب انسان کے پاس فراغت تھی اور داستانیں انسان کا دل بہلانے اور وقت گزاری کا بہترین ذریعہ تھیں۔ داستان بنیادی طورپر سننے سنانے اور بیان کرنے کا فن ہے۔داستانیں تحریر میں آنے سے پہلے سنائی جاتی تھیں۔ہندو ستان میں انیسویں صدی کی ابتدا ء میں باقاعدہ داستانیں لکھی جانے لگیں۔لکھنؤ،حیدر آباد،اور رامپور میں داستانوں کو زیادہ فروغ ہوا۔داستان کے موضوعات میں عشق اہم ترین موضوع رہا۔مافوق الفطری عناصر داستانوں کے اہم عناصر ہیں۔داستانوں میں حقیقت کی جھلک کم دکھائی دیتی ہے۔طلسماتی اور عجیب و غریب واقعات سے بھر پور بڑی انوکھی و دل فریب ،عیش و عشرت اور مسرت اور شادمانی کی رنگیں دنیا نظر آتی ہے۔اس کے علاوہ ہر داستانیں اپنے عہد کی تہذیب و معاشرے کی ترجمان ہیں۔
اردو داستانوں میں ہندوستانی تہذیبی عناصر:
ہندوستان جو صدیوں سے صدیوں سے مختلف النوع عناصر اور ان کی تہذیبوں کا مرکز و منبع رہا ہے ۔دراوڈ،آریا،جین،ترک مغل وغیرہ یہاں آکر آباد ہوئے اور اس سماجی اکائی کا حصہ بن گئے پھر انگریز کی حکومت کا دوردورہ رہا یہ سب اپنے تہذیبی اقدار اپنے ساتھ لائے اور یہاں کی تہذیب میں اس طرح ضم ہوئے کہ ایک نئی مشترکہ تہذیب اور طرز معاشرت نے جنم لیا جسے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا رنگا رنگ اور خوب صورت نام دیا گیا۔یہ گنگا جمنی ہندوستانی تہذیب مختلف اقوام کے تہذیبی و معاشری اختلاط کے نتیجہ میں وجود میں آئی اس لیے اسے کسی ایک قوم یا مذہب کی نمائندہ نہیں کہا جا سکتا۔تاریخ شاہد ہے کہ ہر عہد کی تہذیب معاشرت میں داخلی انقلابات کے سبب اور وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں ۔ہر ملک اور ہر عہد کی قدیم تہذیب کی داستان پارینہ کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے اس عہد کا ادب ہی مشعل راہ بنتا ہے۔ ادب میں داستانوں کو اس اعتبار سے اولیت حاصل ہے اور ’سب رس ‘ جو اردو نثر کی پہلی داستان ہے۔
داستان اردو نثر کی قدیم ترین صنف میں سے ایک اہم صنف ہے۔یہ اس زمانے کی پیداوار ہے جب انسان کو بولنا نہیں آتا تھا اور وہ اپنے خیالات کا اظہار اشاروں میں کیا کرتا تھا۔جب انسان شعور کی حد میں داخل ہوا تو اشاروں کی جگہ منھ سے نکلنے والی آوازوں نے لے لی اور تحریر کی وجود کے ساتھ ہی کہانی کا باقاعدہ آغاز ہوگیا کہانی اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ نسل انسانی۔ داستانیں قصہ کہانی کا اضافی روپ ہیں،قصے نے ترقی کرکے داستان کی شکل اختیار کر لی۔ہماری قدیم تہذیب ،معاشرت ،اندازِ فکر اور تخیل کی بڑی دلکش تصویریں داستانوں میں محفوظ ہیں۔یہ ایک ایسے دور کی پیداور ہیں جب انسان کے پاس فراغت تھی اور داستانیں انسان کا دل بہلانے اور وقت گزاری کا بہترین ذریعہ تھیں۔ داستان بنیادی طورپر سننے سنانے اور بیان کرنے کا فن ہے۔داستانیں تحریر میں آنے سے پہلے سنائی جاتی تھیں۔ہندو ستان میں انیسویں صدی کی ابتدا ء میں باقاعدہ داستانیں لکھی جانے لگیں۔لکھنؤ،حیدر آباد،اور رامپور میں داستانوں کو زیادہ فروغ ہوا۔داستان کے موضوعات میں عشق اہم ترین موضوع رہا۔مافوق الفطری عناصر داستانوں کے اہم عناصر ہیں۔داستانوں میں حقیقت کی جھلک کم دکھائی دیتی ہے۔طلسماتی اور عجیب و غریب واقعات سے بھر پور بڑی انوکھی و دل فریب ،عیش و عشرت اور مسرت اور شادمانی کی رنگیں دنیا نظر آتی ہے۔اس کے علاوہ ہر داستانیں اپنے عہد کی تہذیب و معاشرے کی ترجمان ہیں۔
داستانیں اپنے عہد کی تہذیب تمدن ثقافت،رسومات و رواج اور اس دور میں رائج عادات و اطوار کی اجمالی عکاسی کرتے ہیں ۔ اردو داستان نے اپنی بنیادی پزیری میں سب سے گہرا اور پائیدار نقش فارسی داستانوں سے قبول کیا۔ ایرانی حکمرانوں کی فتح کی بعد ہندوستان پر ایک عرصئہ دراز تک ایرانی بادشاہوں کی حکومت رہی۔ یہاں تک کہ انہوں نے ہندوستانی شہریت اور بودوباش اختیار کر لی۔ یہ بادشاہوں کے ساتھ اپنی تہذیب اور زبان بھی ساتھ لے کر ہندوستان آئے۔ان کی تہذیب کا بہترین اظہار ان کی وہ داستانیں ہیں جو اصلا فارسی زبان میں تھی اور ان کے ساتھ ہندوستان آگئی تھیں۔ انہیں بے حد مقبولیت اور پذیرائی ملی۔ ایرانی بادشاہوں نے ہندوستان میں رہ کر داستانوں کی سر پرستی کا سلسلہ قائم رکھا اور قدیم تہذیب و تمدن کے زیر اثر نہیں درباروں میں جگہ دی۔ بادشاہوں اور نوابوں نے داستان سے اپنی محفلین آراستہ کیں۔اس طرح داستان گو عوام کے ساتھ ساتھ امراء،بادشاہ اور دربار سے بھی رشتہ استوار ہوا۔جس کے سبب داستان کو مزید بننے سنورنے اور نکھرنے کا موقع ملا۔
اردو داستانوں سے قبل سنسکرت داستانوں میں ما فوق الفطری عناصر اور دیو مالائی مادہ بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔مگر ایرانی داستانوں کے زیرِ اثر ان فوق الفطری قوتوں کی استعمال اور ان کے طریق استعمال میں مزید تجربات اور ترقی ہوئی۔ہم تک ہمارے قدیم تمدن ،تہذیب ،ثقافت اور میراث کو سینہ با سینہ علوم کی طرح پہنچانے کی خدمت داستانوں نے بڑی دیانت داری سے انجام دے ہیں۔اس کے ذریعے اپنے بزرگوں کی عادات و اطوار وضع داری، سماجی و سیاسی اقدار کا سرمائیہ میراث پایا ہے۔ ان کے فکر و خیال تک رسائی صرف داستانوں کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔قدیم زمانوں میں ہمارے اسلاف کی بود وباش،طرز معاشرت، رسوم و رواج،مشاغل و معلومات،عقائد و رجحانات میلانات و داعیات اور آداب و قوائد غرض قدیم معاشرت کے تفصیلی مرقع انہیں داستانوں ملتے ہیں ۔لسانی تغیرات کی طرح ہمیں اپنی تمدنی تاریخ کے انقلابات سے بھی انہیں کے ذریعے آگہی ہوتی ہے۔ ہمارے تہذیب میں وقتا فوقتا جو داخلی اور خارجی اثرات کے تحت تبدیلیاں ،کشمکشیں ،ترقیاں اور اصلاحیں وجود میں آئیں ان کا حال بھی داستانوں میں کھلتا ہے۔
اصناف ادب میں داستان واحد صنف ہے جس میں معاشرے کی زیادہ واضح تصویریں نظر آتی ہیں۔ناول یا افسانہ زندگی کے کسی ایک واقعہ کو بیان کرتا ہے اس کے بر عکس کوئی بھی ایک داستان فرد اور اس کی زندگی پیدائش سے وفات تک اس کے اطراف کے معاشرے کے رسم ورواج،رہن و سہن کے طریقے،آداب و اعتقادات وغیرہ کو بڑی وضاحت سے پیش کر دیتی ہے۔داستانوں کے اندر اپنا عہد اور اپنے عہد کی تہذیبی اقدار پوشیدہ ہیں۔اردو داستانوں کی مدد سے ہندوستان کی تہذیبی تاریخ مرتب کر سکتے ہیں۔
ٓ اردو داستانوں کا شہر چاہے ایران ہو یا قسطنطینہ ہو یا ختن ہو،اس میں ہر جگہ ہندوستانی تہذیب نظر آئے گا۔داستان امیرحمزہ،بوستان خیال،باغ و بہار،فسانۂ عجائب سب اپنے عہد کی تصویر پیش کرتی ہیںامیر حمزہ میں اودھی تہذیب،باغ و بہار میں دہلی تہذیب،فسانۂ عجائب میں لکھنؤ تہذیب نظر آتے ہیں۔ ہندوستان میں لکھی جانے والی سبھی داستانوں میں ہندوستانی تہذیب نظر آتی ہے۔
داستانوں کا غالب موضوع بادشاہوں اور شہزادوں کے حالات و واقعات کو قرار دیا جا سکتا ہے۔اس لیے داستانوں ہر جگہ سلطنت کا جاہ وجلال نظر آتا ہے۔عموما داستان کی ابتدا ہی بادشاہ کی شان و شوکت کے اظہار سے ہوتی ہے۔داستانوں میں موجودبادشاہ اور شاہزادے ہندوستان اور ایران کے وہ بادشاہ نظر آتے ہیں جن دربار کی شان و شوکت بے مثال تھی جو تخت طاؤس پر بیٹھا کرتے تھے۔جن کے سروں میں سونے کے تاج ہیں جن کے لباس ریشم وزربفت کے بنے ہوئے ہیں جن کے دربار کی چمک سے آنکھوں کی روشنی چلی جاتی ہے اور ان کے دربار میں جب کوئی آتا ہے تو سجدہ کرتا ہے اور نگاہیں نیچی کرکے دست بستہ کھڑا ہوتا ہے،نگاہ اٹھانے پر قتل کر دیا جاتا ہے۔یہ جلال و جبروت،رعب و دبدبہ،سطوت و حشمت داستانوں میں ہندوستان کے بادشاہوں کی نقل ہے۔ہندوستانی بادشاہوں کی طرح داستانوں کے بادشاہوں کے دربا ر میں بھی بادشاہ کی تخت سب سے اونچی جگہ پر ہوتا ہے تاکہ وہ سے نمایاں رہے اور سب اسے دیکھ سکیں۔بادشاہ کے علاوہ دربار میں بہت کم افراد کو بیٹھنے کی اجازیت ہو تی تھی۔ولہ عہد شاہزادے یا اعلٰی منصب دار ہی بادشاہ کی موجودگی میں بیٹھ سکتے تھے۔ امرا کے بھی مختلف طبقے تھے،رتبے کے لحاظ سے وہ فاصلے پر کھڑے ہوتے تھے یا بیٹھے تھے۔شاہی سوار کی شان و شکوہ کا مقصد عوام پر رعب و جلال ڈالنا بھی تھا ۔شاہی سواری کی جو شان ہندوستان کے راجا ؤںکی تھی وہی داستانوں کے بادشاہہوں کی ہے۔
داستانوں کی مدد سے وہی عہد کے طرزِ زندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ لباس ہر قوم کی کی پہچان ہے جس سے وہی قوم کی انفرادیت ظاہر ہوتی ہے۔داستانوں کی ذریعے وہی دور کی ہندوستانی لباس و زیوارات و جواہرات کی طویل فہرست تیار کی جا سکتی ہے۔اشیائے خوردنی اور فن بھی طرز ِ معاشرت ظاہر کرتا ہے۔داستانوں کی دستر خوان مختلف اقسام کے کھانوں سے بھری ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔نئے نئے طرزِ کے لباس بنوائے،خوشبوئیں ایجاد کیں،اسی طرح کھانوں میں بھی جدت طبع کو استعمال کیا اور بیسوں اقسام کے لزیذ نفیس کھانے تیار کروائے جن میں سے بیشتر کے نام داستانوں میں مو جود ہیں۔اسی طرح سلاطین اور مغل بادشاہوں کے ذرائع تفریحات کی جھلک داستانوں میں بھی نظر آتی ہے۔
داستان جس عہد میں لکھی گیئں و ہ آج سے بہت کچھ مختلف تھا ،طرز ِ زندگی کچھ اور تھا،آداب و رسوم مختلف تھے اور اس وقت جن باتوں کو تسلیم کیا جاتا تھا ان پر شدت سے عمل کیا جاتا تھا۔بیشتر لوگوں کے دل و دماغ مذہب کا غلبہ تھا اور اس شدید غلبے نے لوگوں کو توہم بنا دیا تھا۔ اس زمانے کی داستانوں میں پوری طرح سے اس کا عکس نظر آتا ہے۔ زندگی کا معیار ہمیشہ بلندی پر بنتا ہے ہر طبقے کا آدمی اپنے سے بڑے طبقے والوں کی نقل کرتا ہے خود کو اس کے برابر لانے کی کوشش مین رہتا ہے۔رہن و سہن کے انداز میں اس طریقہ اپنا تھا ہے۔ایسے سوچ اور ہندوستا نی اخلاقی اقدار جیسے بزرگوں کا احترام ،مہمان نوازی احسان مندی وغیرہ اس کے علاوہ عیش دوستی،شراب نوشی،طوائف پسندی و غیرہ کی مثالیں بھی داستانوں میں مل جاتی ہیں۔مہمان کی ہندوستانی تہذیب میں بہت زیدہ قدر کی جاتی ہے اور لوگ اپنے محسن کا احسان مانتے ہیں۔اسی ہندوستانی شادی ذکر بھی داستانوں ملتی ہے۔
ہر دور کا ادب اپنے عہد کی تہذیب اور زندگی کا عکسی ہوتا ہے۔معاشرے کی جیتی جاگتی تصویریں ادب میں ہی نظر آسکتی ہیں۔ اردو داستانوں میں ہندوستانی ثقافت کی بھر پور تصویر ملتی ہے۔
حوالہ جات:
داستان کا فن اطہر پرویز اردو گھر ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ ۲۰۱۰
اردو داستان :تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ڈاکٹر سہیل بخاری مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد ۱۹۸۸
مثنوی اور داستان کی مشترکہ تہذیب توقیر عالم سہ ماہی فکر و تحقیق،دہلی۔جنوری تا مارچ ۲۰۲۰
اردو زبان اور فن داستان گوئی کلیم الدین احمد ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ ۱۹۷۴
ہماری داستانیں سید وقار عظیم اعتقاد پبلشنگ ہاؤس،علی گڑھ ۱۹۸۰
٭٭٭٭