عارف۔ این
کیرلا
اردو زبان کی تشکیل کا سیاسی،تاریخی،تہذیبی و لسانی پس منظر
عوامی لسانی سروے آف انڈیا کے مطابق ہندوستان میں تقریبًا سات سو سے زیادہ زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔اس میں اکثر زبانیں اپنے اپنے علاقوں میں محدود ہیں۔ جیسا کہ پنجابی ریاست پنجاب میں محدود ہے ،کشمیری ریاست کشمیر میں محدود ہے۔اردو زبان کسی ایک ریاست میں محدود نہیں بلکہ کشمیر سے کنیاکماری تک بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ زبان کا کسی نہ کسی ریاست میں محدودوغیرمحدود ہونے میں سیاسی اقتدار ،اور تاریخی اور تہذیبی اسباب کی کارفرمائی ہوتی ہے۔
زبان اور سیاسی اقتدار ہمیشہ باہمی تعلق رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی زبان کیپیدا ہونے میں سیاسی اقتدار اہم رول ادا کرتا ہے۔زبان کی ترقی اور اس کی نشو نما میں سیاسی اقتدار شامل حال ہوتی ہے۔اردو زبان کی تاریخ پڑھتے وقت ہمیں سیاسی اقتدارکے اثرات ابتدا سے ہی نظر آتے ہیں۔
اردو ایک خالص ہندوستانی اور جدید ہند آریائی زبان ہے۔ہند آریائی کی ابتدا ۱۵۰۰ق م میں آریوں کے داخلۂ ہند سے ہوتی ہے۔ہند آریائی کا قدیم دور۱۵۰۰تا۵۰۰ق م تک پھیلاہوا ہے۔اس دور میں سنسکرت زبان پروان چڑھتی ہے۔ ہند آریائی کا دوسرا دور ۵۰۰ق م تا۱۰۰۰ سنہِ عیسوی تک قائم رہتا ہے۔اس دور میں پراکرت اور اپ بھرنش فروغ پاتی ہیں۔۱۰۰۰سنہِ عیسوی سے ہند آریائی کا جدید دور شروع ہوتا ہے۔اسی وقت سے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جدید ہند آریائی زبانوں کا ارتقا شروع ہو جاتا ہے۔ اردو کی داغ بیل۱۰۰۰ سنہِ عیسوی کے بعد پڑتی ہے اور مغربی ہندی کی ایک بولی ‘کھڑی بولی’ اس کا ماخذ بنتی ہے۔ مغربی ہندی شورسینی اپ بھرنش کے بطن سے پیدا ہوئی تھی اور شورسینی اپ بھرنش شورسینی پراکت سے نکلی تھی اور پراکت کی پیدائش
سنسکرت سے ہوئی تھی۔اس طرح اردو کے لسانی خاندان کا سلسلہ سنسکرت تک پہنچتا ہے۔
دیگر ہندوستانی زبانوں کے باوجود اردو کی ایک اہم خصوصیت اس کا بین الاقوامی رشتہ ہے۔اردوزبان فارسی، عربی، ترکی، افغانی جیسی زبانوں اور تہذیبوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اتنی زبانوں سے رشتہ رکھنے والی اور کوئی ہندوستانی زبان نہیں ہے۔اس رشتے کی وجہ مسلمانوں کا ہندوستان میں داخل ہونا بتایا جاتا ہے۔۱۰۰۰ سنہ ِ عیسوی کے بعد رفتہ رفتہ مسلمانوں نے مذہبی تبلیغ ، تجارت اورسیاسی مقاصد کے بنا پر بحری وبری راستہ استعمال کرکے ہندوستان میں داخل ہوئے۔سندھ میں محمد بن قاسم کی قیادت میں مسلمان آئے۔ پنجاب میں سلطان محمود غزنوی کی قیادت میں آئے، پھر وہاں سے دہلی،اس کے بعد سارے ملک پھیل گئے۔مسلمانوں کے ساتھ ان کی زبان اور تہذیب بھی یہاں آئی۔ ایک نئی کلچر یعنی ہندو مسلم مخلوط کلچر پیدا ہوئی۔انھیں مخلوط کلچر سے مخلوط زبان پیدا ہوئی جو قدیم اردو کا روپ ہے۔
اردو کی پیدائش میں سیاسی اقتدار کا رول نظر آتا ہے۔محمود غزنوی سے لیکر بہادرشاہ ظفر تک سیاسی اقتدارنے اردو زبان کی ترقی میں اہم رول ادا کیا۔اردو زبان کے آغاز و ارتقا کے بارے میں متعدد عالموں نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے۔ہر نظریے میں اس سیاسی اقتدار کی خدمات دیکھنے کو ملتی ہیں۔مرزا خلیل احمد بیگ اپنی کتاب ‘اردو کی لسانی تشکیل ‘ میں لکھتے ہیں:
“ـمسلمانوں نے جب ۱۱۹۳ء میں دہلی کو فتح کیا اوراسے اپنا مستقر بنایا تو یہاں رونما ہونے والی سیاسی،سماجی اور تہذیبی تبدیلیوں کے اثرات یہاں کی بولیوں پر بھی پڑے اور ان میں تیزی سے تبدیلیاں پیدا ہونے لگیں۔نواح دہلی ایک بولی ‘کھڑی بولی’ جو دہلی کے شمال مشرق میں بولی جاتی تھی مسلمانوں کی توجہ کا خاص مرکز بنی جسے انھوں نے عام بول چال کے طور پر،نیز رعیت سے اپنایا۔رفتہ رفتہ اس میں عربی،فارسی اور ترکی کے عناصر داخل ہونے لگے۔ اس لسانی امتزاج و اتراک سے زبان ایک نئی کل معرضِ وجود میں آئی جسے مسلمانوں نے ہی’ ہندی ‘ اور ہندوی کا نام دیا اور اس کا ادبی استعمال بھی سب سے پہلے مسمانوں نے ہی کیا۔یہی زبان’ ریختہ’ کے نام سے بھی موسم ہوئی اور ‘دہلوی’ بھی “کہلائی۔ یہ کوئی اور زبان نہ تھی،بلکہ ہماری زمانۂ حال کی ‘اردو’ کی قدیم کل تھی۔” 1
اردو کہاں پیدا ہوئی اس بات پر متعدد عالموں کی مختلف رائے ہے۔ لیکن اردو نے ترقی کہاں سے کی اس بات پر اکثر ماہر لسانیات کی رائے دکن پر مرکوز ہوتی ہے۔ سب سے قابل قبول نظریے کے مطابق اردو کی پیدائش دہلی اور نواح دہلی میں ہوئی۔شمال ہند سے اردو ہجرت کرکے دکن پہنچی۔ اس کے پیچھے بھی ایک سیاسی عمل ہے۔شمالی ہند میں تقریباً ایک سو سال تک فروغ پانے کے بعد اردو دکن کا رخ کرتی ہے۔دہلی کے سلطان جلال الدین فیروز خلجی کے عہدِ حکومت میں اس کا بھتیجا علاء الدین خلجی ۱۲۹۴ء میں دیوگری پر چٹھائی کرتا ہے۔اس کے بعد اپنے فوجی سپہ سالار ملک کافور کی سرکردگی میں دکن پر کئی حملے کرتا ہے،جس کے نتیجہ میں دیوگری پرعلاء الدین خلجی کی فوجوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔دکن میں اردو کی ابتدا ان حملوں سے ہی ہوتی ہے۔اس کے بعد سلطان محمد بن تغلق ۱۳۲۷ء میں اپنا پایۂ تخت دہلی سے دولت آباد منتقل کرتا ہے۔انور سدید اپنے تصنیف اردو ادب کی مختصر تاریخ میں لکھتے ہیں:
“علاء الدین خلجی نے ۱۲۹۴ ء میں دکن کو فتح کیا۔محمد تغلق نے اپنا دارالخلاف دولت نگر منتقل کر دیا تو مسلمانوں کے ساتھ ان کی زبان نے بھی جنوب کی طرف سفر اختیار کیا۔دکن میں بہمنی سلطنت کا قیام اس دور کا اہم واقعہ ہے۔اسی زمانے میں اردو زبان کو ادبی حیثیت ملنا شروع ہوئی اور جب بہمنی سلطنت کا زوال شروع ہوا تو اردو کا ابتدائی فروغ عمل میں آچکا تھا۔ـ2”
علاء الدین خلجی کے اس سیاسی حکم کی وجہ سے شمالی ہندکی تمام رعایا دکن پہنچتی ہے۔اس میں ہر طبقے کے لوگ شامل تھے۔یہ لوگ دہلی کی عام زبان یعنی قدیم اردو کے ساتھ دکن پہنچے۔یہاں اردو کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملا۔۱۳۴۷ء میں دکن میں بہمنی سلطنت کے قیام کے بعد دکن میں اردو تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے،اور اس کے بعد عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتیں اردو زبان وادب کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔
اردو زبان کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ یہ لشکر ،شاہی محلوں اورصوفیائے کرام کی زبان تھی۔جسے سیاسی اقتدار کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ہر زمانے میں لوگ سپاہی،بادشاہ اورصوفیائے کرام جیسے لوگوں کا بہت احترام کرتے تھے۔ صوفیائے کرام نے اپنی تبلیغ میں اردو زبان کااستعمال کیا۔ ان کی خانقاہوں میں صرف عام لوگ نہیں بلکہ ملک کے حکمراں بھی آتے تھے۔ صوفیائے کرام کی زبان اس طرح تمام ملک میں پھیل گئے۔اسی طرح لشکر گاہ میں ہر طبقے کی لوگ کے موجود ہوتے تھے ۔ جن میں کئی زبانیں بولنے والے لوگ موجود ہوا کرتے تھے۔وہ لوگ آپس میں بات چیت کے لئے دہلی کی قدیم زبان یعنی اردو استعمال کرتے تھے۔ اس طرح اردو زبان عام ہوتی گئی اور ملک کے کونے کونے میں پھیلتی گئی۔دکن میں ابراہیم عادل شاہ کے عہد میں اور شمال ہند میں شاہ جہاں کے عہد میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ بھی حاصل رہا۔دکن میں بھی اردو زبان و ادب کے پھلنے پھولنے کا سبب سیاسی عمل ہی تھا۔مرزا خلیل احمد بیگ اپنی کتاب ‘اردو کی لسانی تشکیل ‘ میں لکھتے ہیں:
” دکن کے فرماں رواؤں نے فارسی کو جو شمالی ہند کی سیاسی اور تہذیبی زندگی کا ایک اہم جز وتھی زیادہ منہ نہیں لگایا۔ اہلِ دکن کی فارسی سے یہ بے اعتنائی اْردو کے لیے فال نیک ثابت ہوئی۔ اس کے علاوہ دکنی فرماں رواؤں کے ملکی جذبے، علاقائی تفاخر اور مقامی روایات کے پاس نے بھی اْردو کے فروغ میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنے انھیں رجحانات کو تقویت پہنچانے کے لیے دکن کے بادشاہوں نے دل کھول کر اْردو کی سر پرستی کی ، نیز دکن کے کثیر لسانی ماحول میں اسے رابطے کی زبان کے طور پر فروغ دیا۔ دکن میں اْردو کے فروغ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ شمالی ہند سے ترکِ وطن کر کے دکن پہنچنے والی تمام خلقت نے اْردو ہی کو اپنی مادری زبان مانا اور اس میں مقامی رنگ و آہنگ پیدا کیا۔” 3
دکن کے فرماں رواؤں کے دلوں میں ـشمالی دشمنی کے جزبات پنپنے لگے تھے۔اس دشمنی بھی اردو کی ترقی میں حصہ لیا۔جمیل جالبی نے دکن کی اس نئی صورت ِ حال کا تجزیہ یوں کیا ہے:
ـ”اس نئی سلطنت کی بنیاد میں شمالی دسمنی کے جزبات شامل تھے۔شمالی دشمنی کے ساتھ جوش میں انھوں نے سیاسی لا ئحۂ عمل کے طور پر ان تمام عناصر کو ابھارا جو شمال سے مختلف اور خصوصیت کے ساتھ سر زمیں دکن سے تعلق رکھتے تھی۔ایک موثر نفسیاتی حربے کے طورپر بہمنیوں نے دل کھول کر مقامی روایات کی حوصلہ افزائی کی۔دیسی رسوم و رواج،میلوں ٹھیلوں اور تہواروں کو ترقی دی۔باہمی ربط و ضبط ،میل جول اور معاشرت و تہذیب کو گہرا کرنے کے لیے اس زبان کی سر پرستی کی جسے آج ہم اردو کے نام سے موسم کرتے ہیں۔۱۳۴۷ ء سے لے کر تقریبًا تین سو سال سے زیادہ عرصے تک یہ زبان جو شمالی ہند سے آئی تھی سر زمین ِ دکن کے لسانی و تہذیبی اثرات قبول کرتی ہوئی آزادانہ طور پر نشو ونما پاتی رہی۔ـ4″
اردو کا فارسی رسم الخط اختیار کرنے میں بھی سیاسی اثرات نظر آتے ہیں۔جس وقت شمالی ہند میں فارسی زبان کا چلن عام تھا،اس وقت فارسی سرکاری زبان تھی اس لیے سارے ملک میں فارسی رسم الخط استعمال کیا جاتا تھا۔کہا جاتا ہے کہ عورتیں بھی اپنے گھریلو حساب میں فارسی کا استعمال کرتی تھیں۔اس زمانے میں دیو ناگری رسم الخط بھی موجود تھی لیکن فارسی کی بہ نسبت زیادہ مقبولیت حاصل نہ تھی۔ اردو میں سب سے پہلے صوفیائے کرام نے تصنیف و تالیف کا کام شروع کیا۔جس کے لیے انھوں نے فارسی رسم الخط اختیار کیا۔ فارسی رسم الخط کی یہ مقبولیت سیاسی اقتدار کی وجہ سے تھی۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردوزبان کے لیے فارسی رسم الخط اپنانے میں سیاسی اقتدا ر کے اثرات موجود تھے۔اردو دہلی کی عام بولی تھی، جسے تمام مذاہب کے لوگ بڑے شوق سے استعمال کرتے تھے اور اس کے رسم الخط سے بھی بخوبی واقف تھے۔ فارسی رسم الخط میں تصنیف و تالیف کی وجہ سے رفتہ رفتہ اردو زبان کو مقبولیت حاصل ہوئی۔
دراصل اردو زبان مسلمانوں کی آمد کی بعد یہاں کے ہندوؤں اور نو وارد مسلمانوں کے میل جول سے پیدا ہوئی۔ کئی ماہریں لسانیات اور عالموں نے اردو کی پیدائش مسلمانوں اور ہندوؤں کے میل جول کا نتیجہ ہی قرار دیاہے۔مولوی عبد الحق لکھتے ہیں:
“یہ خاص ہندوستان کی پیداوار ہے اور دونوں قوموں یعنی ہندو و مسلمانوں کے لسانی ،تہذیبی اور معاشرتی اتحاد کا نتیجہ ہے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بنانے میں زیادہ تر ہندو ہیں۔” 5
سر تیج بہادر سپروبھی اس قول سے اتفاق کرتے ہو ئے لکھتے ہیں:
“اردو دراصل ہندو مسلم اتحاد سے پیدا ہوئی اور اس اتحاد کی واحد یادگار ہے” 6
اردو ہندوستانی تہذیب کی زبان ہے۔ یہ ہندوستا ن میں پیدا ہوئی۔ یہ صرف مسلمانوں کی زبان نہیں بلکہ ہندوستانیوں کی زبان ہے۔ مسلمان کی آمد کی بعد بیرونی عناصر اور مقامی بولیوں کے خمیر سے اردو کی تشکیل عمل میں آئی۔ڈاکٹر گیان چند لکھتے ہیں:
“بیرونی مسلمان اپنے ساتھ نہ اردو لائے تھے نہ کھڑی بولی۔ہندوؤں نے کھڑی بولی کو نظر انداز کر رکھا تھا۔مسلمانوں نے اسے پسند کرکے اس میں عربی فارسی الفاظ بڑھانے شروع کیے اور کھڑی بولی کا اردو ادب کہلایا۔” 7
الغرض بارہویں صدی عیسوی میں جب دہلی اور اس کے قرب وجوار میں ہندی یا ہندوی کا خمیر تیار ہو ر ہا تھا، عین اسی وقت ترک مسلمان شمالی ہندوستان میں وارد ہوئے اس طرح جدید ہند آریائی زبانوں کے وجود میں آنے کا زمانہ اتفاق سے ایک ہی ہے۔ یہ وہ عہد ہے جب کبھی ہند آریائی زبا نیں اپ بھرنش عہد سے نکل کر جدید عہد میں داخل ہونے لگیں۔ ایسے وقت میں مسلمانوں نے شمالی ہندوستان میں داخل ہو کر شہر دہلی کو فتح کر کے اسے اپنا پایہ تخت بنالیا، جس سے یہاں ایک نئی تہذیب اور تمدن کا خمیر تیار ہوا، جس کے دور رس اثرات نمایاں ہوئے اور ان کے اثرات یہاں ارتقا پانے والی زبان پر بھی پڑے۔ مسلمانوں کی مذہبی زبان عربی تھی اور فارسی حکومتی انتظام وانصرام نیز عوام کی عام بول چال کی زبان تھی۔ اس کے علاوہ سلاطین اور نا کے مقربین، رؤسا اور امرا کی زبان ترکی تھی۔ یہ تینوں زبانیں مسلمانوں کے ساتھ شمالی ہندوستان پہنچی اور مقامی بولیوں میں ضم ہوگئیں۔ خاص طور پر کھڑی بولی جو اردو اور ہندی کی اصل و اساس ہے۔ مذکورہ تینوں زبانوں سے مل کر جو ایک نئی زبان وجود میں آئی وہ ہندی، ہندوستانی، کھڑی بولی اردو، اردوے معلی کے نام سے مشہور ہوئی۔
قیام سلطنت دہلی سے عہد عالمگیری کے ابتدائی ایام اس لیے بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اس عرصہ میں فارسی نے کئی جدید ہند آریائی زبانوں سے ربط میں آخر ان پر اپنے اثرات مرتب کیے۔ دکن کے مقابلے شمالی ہندوستان میں اردو اور ہندی کو پوری طرح سامنے آنے میں اچھا خاصا وقت لگ گیا کیوں کہ اس وقت سرکاری زبان فارسی تھی اور وہی تہذیب اور معاشرت نیز شعر و ادب پر تسلط قائم کیے ہوئے تھی۔ پھر بھی عوامی سطح پر اس کی نشو و نما جاری رہی اور بعض صوفی اور سنتوں نے اسے گلے لگا کر پند و نصائح کے لیے اس زبان کا استعمال کیا۔ اس زمانہ میں محمد تغلق نے جب دیوگری کو اپنا دارالسلطنت بنایا اور دکن میں پہلی بار اجتماعی سطح پر کھڑی بولی کے بیج بوئے گئے اور یہ زبان فارسی کے غلبہ نیز برج اور اودھی کے ادبی اثرات کے دائرے سے باہر نکلی تو جلد ہی پھلنے پھولنے لگی اور اس میں ادبی تخلیقات کا کام تیزی سے ہونے لگا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دہلی سلطنت سے عہد عالمگیری کے ابتدائی چند برسوں تک برج ، اودھی اور دیگر ہندوستانی زبانوں کے ساتھ ساتھ کھڑی بولی کے ارتقا کا زمانہ نہ تو موجودہ ہندی کے ارتقا کا زمانہ ہے اور نہ زبان اردو کی ترقی کا زمانہ بلکہ ان دونوں زبانوں کی قدیم شکلوں کے ارتقا کا زمانہ ہے۔ اس عہد تک اردو اور ہندی الگ الگ زبانیں قرار نہیں دی گئی تھیں بلکہ عہد عالمگیری کے ابتدائی برسوں تک نہ تو اردو کی موجودہ شکل متعین ہوئی تھی اور نہ ہی اسے کسی ایک نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اس کے کئی قدیم نام جیسے زبان دہلوی ، ریختہ، ہندی، ہندوی، ہندوستانی ، زبان ہندوستانی، دکنی اور گجری رائج تھے لیکن بعد میں شمالی ہندوستان میں اس مشترکہ زبان کے لیے عربی فارسی رسم الخط کا با قاعدہ استعمال تیرہویں صدی عیسوی سے امیر خسرو کے ہاتھوں ہوا۔
اس ملی جلی زبان کے لیے عربی فارسی رسم الخط اختیار کیے جانے کے تاریخی اسباب ہیں، جس میں مسلمانوں نے داخل ہندوستان کے ساتھ اپنے ساتھ عربی فارسی رسم الخط کالا نا بھی قابل ذکر ہے۔ چوں کہ اس زبان کے ارتقائی دور میں شمالی ہندوستان میں دوسرا ایسا کوئی بھی رسم الخط نہیں تھا جو عربی فاری رسم الخط پر ترجیح دی تھی ، حالاں کہ ہندوستان کا ایک قدیم رسم الخط دیوناگری موجود تھا جس کا استعمال سنسکرت جیسی زبانوں کے لیے کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کے تمام مصنفین نے بلا تامل عربی فارسی رسم الخط کو اختیار کرنا شروع کر دیا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اردو کی پیدائش سے لے کر اس کی ترقی تک کسی نہ کسی طرح سیاسی اقتدار کی سر پرستی نظر آتی ہے۔
٭٭٭
حواشی:
1۔اردو کی لسانی تشکیل،مرزا خلیل احمد بیگ،ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ،۲۰۱۴،ص۳۶
2۔اردو ادب کی مختصر تاریخ،ڈاکٹر انور سدید۔عالمی میڈیا پرائیوٹ لیمٹیڈ،دہلی،۲۰۱۴،ص۳۶
3۔تاریخ ِ ادب اردو(جلد اول)،جمیل جالبی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس،دہلی،۱۹۹۳،ص۵۰۔۱۴۹
4۔اردو کی لسانی تشکیل،مرزا خلیل احمد بیگ،ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ۲۰۱۴،ص۱۳۴
5۔خطبات عبد الحق،حصہ دوم،انجمن ترقی ااردو ہند دہلی،۱۹۴۴،ص۱۸
6۔ہماری قومی زبان،ڈاکٹر سر تیج بہادر سپرو،انجمن ترقی اردو ہند،۱۹۴۱،ص۳۳
7۔ایک بھاشا:دو لکھاوٹ دو ادب،گیان چند جین،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی،۲۰۰۵،ص۱۵۸
Arif N
Research Scholar,Dept.of Urdu
Sree Sankaracharya University of Sanskrit,
Regional Campus Koyilandi, Naduvathur P.O.,
Koyilandy, Kozhikode – 673 330,Kerala
arifn651@gmail.com +918089810461