ڈاکٹر ثمینہ گُل
شعبہ اردو یونی ورسٹی آف لاہور
سرگودھا کیمپس
اردو سفرنامے کا تہذیبی وثقافتی بیانیہ
دور جدیدمیں الیکٹرانک میڈیا اور انٹر نیٹ کی ترقی نے گھر بیٹھے ہوئے انسان کو ملکوں ملکوں سیر کرانے کا بھر پور انتظام کیا ہے۔ وہ ان علاقوں کے رہن سہن،رسم و رواج، طور طریقوں، عادات و اطوار کے علاوہ تہذیبی، اخلاقی اور سیاسی صورت حال سے بھی آگاہی دیتا ہے ۔سفرنامہ درحقیقت سچائیوں اور صداقتوں کامظہر ہے تلخ اور کڑوی سچائیوں کو اپنے اسلوب کے ذریعے ہی قاری کے لیے متاثر کن بنا سکتا ہے۔ کسی بھی علاقے کی ثقافت جہاں رہین سہن عادات و اطوار سے آگاہی کا سبب بنتی ہے وہاں لفظ کی بھی ثقافتی اکائی بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدیددور میں سفرنامہ کے قاری منفرد اسلوب کے باعث ہی سفرنامے میں ثقافتی رنگ بھرتا ہے ۔ایک اچھا سفر نامہ جو عہد جدید کے قاری کو پڑھنے پر مجبور کرے ،وہ سفرنامہ داستانوی رنگ،افسانوی فضا،ناول جیسی چاشنی،ڈرامے کی سی منظر نگاری،آپ بیتی کا حسن،اور جگ بیتی کی سی لذت سے تحریر میں آتا ہے۔ دور جدید کے سفر نامے متنوع خصوصیات کے حامل ہیں۔جدید سفرناموں کی خصوصیت یہ ہے ،کہ وہ ایک مصور کی طرح رنگو ں اور لکیرں سے مناظر کاا سکیچ نہیں کھینچتابلکہ وہ لفظوں کی تاثیر سے ان مناظر کی فطری رنگینی کو نمایا ں کردیتا ہے جہاں سے ثقافتی رنگا رنگی مناظر کا حصہ بنتی ہے۔
تخلیقی شعورسے سفرنامے کی نئی راہیں نکلیں توسفرنامہ نگاروں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تجربات و مشاہدات کی رنگا رنگی اور نئے مزاج نے سفرنامے کی تکنیک کو تنوع دیا ۔فنی اعتبار سے روزنامچوں اور یادداشتوں کو ڈائری میں لکھنے کے بجائے ،اب سفرنامہ نگار ڈیجٹل کیمرے کو ترجیح دیتا ہے، پھر تخلیقیت کے ساتھ انداز بیان کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے گُر آزماتا ہے۔ آج کا سیاح افراد کا تعارف کرانے کے بجائے ذاتی تاثرات اور نجی اظہار کو اپناتا ہے۔سفرنامہ کی تکنیک میں جن باتوں کا بنیادی طور پر خیال رکھا گیا ہے وہ ہے، قوتِ مشاہدہ سفرنامہ نگار کا مشاہدہ جتنا بھی قوی ہوگا اس کی رائے اتنی ہی معتبر جانی جائے گی مشاہدے کے ذریعے ہی سفرنامہ نگار خارجی ظاہر کا عمیق تجزیہ تخلیقی انداز میں پیش کرنے کا ذریعہ بنتا ہے ۔سفرنامہ نگار سفرنامے کی دلچسپی اور تسلسل کوبرقرار رکھنے کے لیے تحیر و تجسس کو بھی مد نظر رکھتا ہے۔ اس لیے سفر کے واقعات،انکشافات،اور بیانات کے ذریعے ہی قاری کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے ۔سفر نامہ نگار نئی دنیا کی دریافت میں نکلتا ہے ،یہی دریافت ہی اس کا حاصل ہے اور قاری کی دلچسپی کا باعث بھی یہی تحیر تجسس ہے، جس سے قاری ان دیکھی دنیاؤں کی سیر کرتا ہے۔ سفر نامہ نگار اپنے تخیل اور حقیقت کو اعتدال اور توازن کے ساتھ بیان کرتا ہے ،تو کہانی میں توازن خوب صورتی پیدا ہوتی ہے ۔ اعتدال کے بغیر سفرنامہ اپنی حدود سے باہر نکل جاتا ہے سفرنامہ پھر کبھی افسانہ، ناول،تاریخ،جغرافیہ اور صحافت کی حدود میں داخل ہونے لگتا ہے سفرنامے میں واقعات کا بیان ہو یا،تحیر و تجسس کا زبان و بیان کاسفرنامے میں بیانیے کی روداد اعتدال کے ساتھ ہی توازن قائم رکھ سکتے ہیں ۔
انسانی گروہ فطرت کے تقاضوں کے تحت نظام زندگی کو ترتیب دےکر ثقافت کے نئے رنگ بناتاہے۔ گروہ انسانی کی تہذیب کے اعلیٰ مظاہر مذہب ِ نظام،اخلاق ،علم و ادب اور فنون میں دکھاتی دیتے ہیں میعاری اصول یا قدریں کسی بھی سماج کی مجموعی کارکردگی کا نتیجہ ہوتی ہیں ایک معاشرہ جہاں انسان سماجی مادی اور مسائل کی تنظیم سازی کرکے نظام ِ زندگی ترتیب دیتا ہے وہ اپنے تجربات،ترتیب اور ترکیب ہی کے ذریعے گروہی زندگی کو کامیابی کا مظہربناتا ہے اے بی ٹیلر کی کتاب ” پرائمیٹیو کلچرکے مطابق” ثقافت عقائد،رسوم اخلاقیات قوانین عادات اطوار ہی سے اسلوب حیات ہے جو معاشرے کے فرد کی حیثیت رکھتا ہے۔”دراصل ثقافت معاشرتی وراثت پر ملنے والے فنون ، اشیائے تیکنیکی ،عملی عقائد، تصورات عادات و اطوار کا مرکب ہے جس کے تحت علاقے کی معاشی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ معاشرے کا ہر فرد معاشی اکائی ہے۔ وہ اپنے علم و ہنر سے دیگرمعاشی اکائیوں میں اشتراکیت کے ساتھ ثقافتی عمل کو فروغ دیتا ہے وہ اپنے علم و ہنر میں حاصل ِ کمال کے لیے قدیم سے جدید کا سفر طے کرتا ہے اس طرح ثقافتیں بھی عہد در عہد نئے نئے افق بناتی چلی جاتیں ہیں ۔
جدید ٹیکنالوجی نے جہاں دیگر ادبی اصناف پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے وہاں سفر نامہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ڈیجٹل کیمروں کی مدد سے خارجی مناظر کو لفظوں کے ساتھ تصویری شکل میں بھی متعارف کرایا جاتا ہے۔ٹیلی ویژن سنٹرکے مختلف چینلزنے پاکستان اور دیگرممالک کی ناظرین کو گھر بیٹھے سیر کرائی۔ایک علاقے سے دوسرے علاقے سے متعارف کرایا علاقوں کی معلومات کے علاوہ شاہراؤں،عمارتوں،موسم،آب و ہوا کے ساتھ جڑی تہذیب و ثقافت دریا پہاڑ ان کے نام ان کی تاریخی حیثیت سے بھی آگہی دی جاتی ہے اس سلسلے کے معروف سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کے ویڈیوز کی شکل میں چینلز اور یو ٹیوب پر سفر نامے محفوظ ہیں۔سسی سے حراموش تک ایک ایساسفر ہے جس میں مستنصر حسین تارڑ نے کچھ دوستوں کے ساتھ سفر کیا یہ سفر بہت کٹھن راستوں پر تھا۔ان کی جیپ چھوٹے تنگ اور مشکل راستوں سے ہوتی ہوئی جیپ حراموش پہنچتی ہے۔اسی طرح چینل”آپ“پر بعنوان ”اگلاسٹیشن“دستاویزی پروگرام پیش کیا گیا۔یہ پروگرام چائینہ کی ریسرچ سکالر”گاؤلی لوئے“ نے کیا۔چینل ”آپ“کا مقصد تھا کہ پاکستان کو کسی غیر ملکی کی نظر سے ناظرین کو دکھایا جائے اس کے پاکستان کے بارے میں نکتہ نظر کو دیکھا جائے اس لیے انھوں نے باقائدہ آڈیشن کی تشہیر کی۔مختلف ممالک سے آن لائن آڈیشن لیاگیااور بڑی سوچ بچار اور جانچ پرکھ کے بعد چائینہ کی ریسرچ سکالر ”گاؤلی لوئے“کو منتخب کیاگیا۔گاؤلی لوئے 2008ء میں پاکستان آئی انھوں نے پاکستان آنے سے پہلے اردو زبان پروفیسر عصمت ناز سے سیکھی چائینہ کی رسم و رواج کے مطابق پروفیسرعصمت نازنے اپنی شاگرد کا پاکستانی نام زہرہ رکھا۔وہ پاکستان کو وہ اپنادوسراگھر سمجھتی تھی پروفیسر ذوالفقار بھٹی بہاؤالدین زکریایونی ورسٹی ملتان نے اپنے ایک انٹرویو میں گاؤلی کے حوالے سے اپنے تاثرات کو ان لفظوں میں کہا”گاؤلی میں انکساری ہے وہ اپنے مقصد اور کمنٹنٹ میں بہت گہری ہے وہ پاکستان کو اپنادوسراگھر سمجھتی ہے گاؤلی ایسی جگہوں پر آسانی سے چلی جاتی ہے جہاں ہر ایک کاجانا مشکل ہو“گاؤلی نے چالیس دنوں میں 5200کلومیٹر کا سفر کیا۔اس نے ہر پروگرام میں سفرکے تجربات و مشاہدات کو اپنے زاویہ ء نظر سے بیان کیا۔جیو ٹی وی پر بھی مختلف علاقوں کی دستاویزی فلمیں چلیں جو انگریزی زبان میں تھی۔
The endless summer 1966
An Idiot Tourist 2012/.2012
Life 2009
Long way Round 2004
DarkTourist 2018
ان عنوانات نے مختلف علاقوں کی سیر کرائی جگ جگ جیئے میرا پیارا وطن کے عنوان سے سوشل میڈیا پہ پیش کیا جانے والا پروگرام جو ملکوں ملکوں سیر کراتا ہے اس ڈاکو منٹری میں مختلف ممالک کی تاریخی اور موجودہ حیثیت دکھائی جاتی ہے۔علاقائی معلومات کے علاوہ تہذیب و ثقافت سے بھی آگاہ کیاجاتاہے۔ اس طرز کے سفر نامے اپنی نوعیت کے منفرد اور ادبی حیثیت رکھتے ہیں۔ بدلتے ہوئے نئے رجحانات نے اد بی اصناف اور اس کے بیانے کو تبدیل کیا ہےاور تہذیبیں اور ثقافتی مناظر کو بھی نئے دور کے تقاضوں سے ہمکنار کیا ہے
***