You are currently viewing اردو شاعری میں ہجرت کا استعارہ

اردو شاعری میں ہجرت کا استعارہ

ڈاکٹر شگفتہ  فردوس

اسسٹینٹ  پروفیسر ( ڈائریکٹر اسٹوڈینٹ افئیرس )

جی سی ویمن یونیورسٹی، سیال کوٹ ،  پاکستان

اردو شاعری میں ہجرت کا استعارہ

(عہدِحاضر کے تناظر میں )

شاعری جذبے ، احساس اور تخیل  سے جنم لیتی ہے ،  لیکن اس جذبے  کی پرداخت میں انسان کے باطن کے ساتھ اس کا خارجی ماحول بھی فعال کر دار ادا کرتا ہے۔ اردو  ادب میں ہجرت کے   موضوع   کو خوبصورت شعری پیکر میں ڈھالنے والوں میں مہجری اور غیر مہجری شعرا دونوں کا اہم کردار رہا ۔اگرچہ ہجرت کے لفظی و معنوی مفاہیم  تو ” ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ آباد ہونا/ منتقل ہونا” وطن کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینا(۱)۔اصطلاح میں اس سے مراد آبادکاری  ، ترک وطن ، نقل مکانی یا ایک جگہ سے دوسری جگہ  کوچ کر جانا  ہے۔لیکن اردو شاعری  میں ہجرت کا استعارہ بہت  معنویت  کا حامل ہے، شعرا نے اسے  کرب ، اذیت ، تنہائی ا ور اجنبیت کے  پس منظر میں بھی دیکھا اور اس سے اپنی شناخت کو بھی وابستہ کیا ، کہیں پر ہمیں یہ ادھورے خوابوں کی کسک اور کہیں روشن مستقبل کی امید کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔ الطاف حسین حالی کے نزدیک  شاعری   اور استعارہ   کا تعلق قالب و روح کی مانند ہے  جب کہ   معید رشیدی کے نزدیک   استعارے کی تخلیق  لفظوں کے کندن بن جانے کے بعد ہوتی ہے جیسا کہ وہ اپنی کتاب ” تخلیق ،تخیل ، استعارہ ” میں لکھتے ہیں :

” الفاظ جب تخلیق کی آگ میں تپ کر کندن ہو جاتے ہیں  تو استعارے کا جنم ہوتا ہے۔”(۲)

کلاسیکی اردو شاعری کی تاریخ میں ہجرت کا استعارہ  ا  انفرادی اور اجتماعی دونوںسطحوں پر  ملتاہے ۔ ولی دکنی جب اپنے  وطن سے کچھ عرصہ کے لیے دور ہوئے تو احباب کی محفلوں نے انہیں یوں رنجیدہ کیا کہ بے ساختہ کہہ اُٹھے:

ہجرت سوں دوستاں کی ہوا جی مرا گداز  عشرت کے پیرہن کوں کیا تار تار دل

لیکن ہزار شکر ولی حق کے فیض سوں      پھر اُس کے دیکھنے کا ہے اُمید وار دل(۳)

ابراہیم ذوق نے وطن سے ہجرت کرنے کوکہیں ایک منفرد پیرائے میں بیان کرتے ہوئےفرد کی وطن میں زندگی کو گوہر کی مانند قرار دیا جو سمندر سے جدا ہو کر  بکتا پھرتا ہے۔ اسی طرح مصحفی   ہجرت کرنے والے  کے دکھ کو اس طرح بیان کرتے ہیں  ۔

 قصہ درد ِ غریبی اُس سے پوچھا چاہئے

موسم ِ گُل میں جو اپنے آشیاں سے دور ہو(۴)

انیسویں اور بیسویں صدی میں ہجرت  نے آزادی کے تناظر میں جگہ پائی، اور شعرا و ادبا سیاسی حالات کی تبدیلی کے پیش نظر شہروں اور ملکوں  سے ہجرت کرتے رہے۔ تقسیم ہند کے وقت دونوں ملکوں میں ہجرت کرکے آنے والے شعرا کی بھی بڑی تعداد  تھی جنہوں نے ہجرت کے کرب کو سہا اور اس کا تخلیقی اظہار بھی کیا ۔ ان کی یہ ہجرت ب اپنی شناخت  کی خاطر   جغرافیائی  سطح پر تھی  لیکن اس سے  بعض شعر ا کے ہاں باطنی سطح پر تنہائی کا احساس پیدا ہوا ، ان شعرا میں جگن ناتھ آزاد  ناصر کاظمی ، حمایت  علی شاعر، احمد مشتاق، جون ایلیا   اور بہت سے مہجری شعرا شامل تھے جنہوں نے اپنے انفرادی تشخص کے تحفظ کے لیے ہجرت  اور رفتگاں کی یاد میں شاعری کی ، ان میں وہ شعرا بھی شامل تھے جنہوں نے دوبار  ہجرت کی  پہلی شناخت کی خاطر اور دوسری بہتر معاش کی خاطر،ان  دونوں کے فرق کو باصر سلطان کاظمی نے:”چمن کوئی بھی ہو “میں شامل  نظم” دوسری ہجرت”  میں  بڑی خوبصورتی سے  سمویا ہے :

بابا تم نے

آنے والی نسلوں کی خاطر

اپنے آبا کی قبروں کو چھوڑ ا تھا۔

ہم نے بھی ہجرت کی ہے

اپنی اولاد کے روشن،  مستقبل کے لیے۔(۵)

اقبال ظہیر تاشی نے نئی نسل کی  ہجرت کو حصول معاش  کی خاطر نئی دنیاوں کا حصہ بننے والی ہجرت کہا  ہے ،

اس حوالے سے باصر کاظمی  کی شاعری کا  تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :

” باصر کی نسل  کی ہجرت تلاش ِ معاش کے سلسلے میں اپنے گھروں کو خیر باد کہہ کر، دنیا کے

مختلف علا قوں میں پھیلتی ہوئی ، نئی آبادیوں  کا حصہ بننے پر مجبور کرتی ہوئی ہجرت تھی “(۶)

ہجرت   کی  وجوہات میں اقتصادی خوشحالی کی تمنا  مرکزیت کی حامل ہے۔ عرب ممالک یا یورپ ، امریکہ اور برطانیہ میں  بہتر روزگار  کے مواقع کے حصول کی تمنا میں لوگ ترک وطن کرکے دیار غیر کو اپنانے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن  یہ ہجرت ان کے لیے اقتصادی خوشحالی کے ساتھ   اپنے جلو میں تہذیبی وثقافتی روایت کو بھی ایک سے دوسرے ملک میں ترسیل کا باعث بنتی ہے ۔ اس سے جہاں مختلف اقوام اور ان کے باشندوں کے درمیان  اخذو اکتساب کا عمل جاری رہتا ہے اس عمل سے زبان بھی گزرتی ہے اور مہاجرین اپنے ساتھ اپنا لسانی سر مایہ بھی منتقل کرتے ہیں  جس سے اصناف اور موضوعات ادب میں وسعت پیدا ہوتی ہے  ،عہد حاضر میں اکثر ہجرت کرنے والوں کا  مطمع نظر کہیں حق کی سر   اپنی ذات سے وابستہ لوگوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا ہے ۔وہ  تمام مشکلیں اور مصیبتیں  محض اس لیے ہنس کے برداشت کرتے  ہیں کہ ان  سے وابستہ لوگوں کی زندگیاں خوشحالی میں بسر ہوں  ۔افتخار عارف اپنے ایک شعر میں ہجرت کی اسی قسم کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :

شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر

سگِ زمانہ ہیں  ہم کیا ہماری ہجرت کیا(۷)

عاصی کاشمیری نے ۱۹۶۳ میں  میر پور سے برطانیہ ہجرت کی ، اُن کی شاعری میں ہجرت کا آشوب ملتا ہے ۔  ان کے دو شعری مجمو عوں  ” کاغذی پیرہن ” اور “ہجرتوں کا کرب ” میں   تسلسل سے ہجرت کو موضوع بنا کر اس کے متعلقات کو شاعری میں جگہ دی گئی ہے۔ کہیں وہ  اپنے وطن کو خیرباد کہنے کی وجو ہات بیان کرتےہیں کہیں ان انسانی رشتوں کی یاد انہیں تڑپاتی ہے جو   بہتر مستقبل کی تلاش میں بہت پیچھے رہ گئے اور کبھی  حیات کا   مقصد ہی بدل کر رہ گیا۔:

بدل گیا ہے یہاں پر حیات کا مقصد      اُٹھا کہ لایا کہاں پر یہ آب و دانہ مجھے(۸)

بدن سے لپٹے رہے بے زمینیوں کے عذا ب

تلاشِ رزق کی خاطر جدھر جدھر بھی گئے(۹)

سیاسی پناہ : اردو شاعری میں ہجرت کا استعارہ  سیاسی جبرو استبداد سے  نجات کا عکاس بھی رہا ۔ برصغیر کی تاریخ میں شعرا کو ملکی یا شہر کی سیاسی صورت حال کی تبدیلی کی وجہ سے ہجرت کرنا پڑی۔جیسے کہ  اورنگزیب عالمگیر کے دکن فتح  کرنے کے بعد دلی کی جانب ہجرت ، احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ کی دلی پر چڑھائی کے  بعد   لکھنو کی طرف ہجرت ، اور  ۱۸۵۷ء کی  جنگ آزادی    میں ناکامی کے بعد شعرا کی دلی سے ہجرت اور حصول آزادی کے بعد سیاسی وجوہات کی بنا پر ، شعرا کی جلاوطنی یا  ہجرت ۔فیض احمد فیض اپنی نظم ” دلِ من مسافرِ من” میں کہتے ہیں :

مرے دل مرے مسافر

ہوا پھر سے حکم صادر

کہ وطن بدر ہوں ہم تم

دیں گلی گلی صدائیں

کریں رُخ نگر نگر کا

کہ سُراغ کوئی پائیں

کسی یارِ نامہ بر کا

ہر اک اجنبی سے پوچھیں

جو پتا تھا اپنے گھر کا(۱۰)

احمد فراز نے بھی مارشل لاء کے خلاف آوارز اٹھائی  اور انہیں بھی خود ساختہ جلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا ۔ واشنگٹن میں پاکستانی شعرا کی آمد پر انہوں نےنظم “اے مرے وطن کے خوش نواو!” لکھی  جسے میں اُن کی آمد کو   پرانی دوستیوں کی  یاد کا ذریعہ قرار دیا۔ وطن سے دوری کے باوجود اس کی کشش میں کمی نہیں آئی بلکہ اس جذبے میں مزید شدت پیدا ہو جائی ، اُن کی شاعری میں  ہجرت کا استعارہ وطن کی محبت کے پس منظر میں ملتا

 ہے:

ہماری سادہ دلی دیکھئے کہ ڈھونڈتے ہیں

ہم اپنے دیس کی باتیں ، پرائے شہروں میں(۱۱)

یوں ہجرت  کی بنیادی  وجوہات میں   انسانی جبلت  ،ایمان کا تحفظ ،  اپنی شناخت کی بقا   ، امن و  خوشحالی کی تمنا اور ذوق سفر،  شامل ہے ۔مہجری شعرا نے مختلف موضوعات کے تحت ہجرت  کےاستعارے کو بیان کیا ،ان میں تنہائی ، اجنبیت، اداسی ، بے گھری کا احساس ،ماضی کے  گمشدہ اوراق سے حال کا موازنہ ، ، گھر والوں کی یاد، ادھورے خوابوں کی تڑپ اور منتظر محبتوں کا داغِ مفارقت شامل ہے،  جس سےاُن کی شاعری میں  ہلکی سی اداسی اور غم کی فضا ملتی ہے ۔بہت سے شعرا نے ہجرت کو انسانی اور بعض نے اسے اسلامی تریخ کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی  ، جیسا کہ منفرد لب ولہجے کےحامل شاعر افتخار عارف نے اپنی شاعری میں ہجرت کے استعارے کو کئی معنی  پہنائے ہیں ، کہیں وہ اسے انبیاء کی تارِیخ سے جوڑتے ہیں اور کہیں تاریخ اسلام کا عکاس بناتے ہیں ان کا شمار ان مہجری شعرا میں ہوتا ہے جنہیں دو ہجرتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی ہجرت تقسیم ہند کے موقع پر اور دوسری ہجرت  ملازمت  کے سلسلے میں اردو مرکز لندن  جانے کے حوالے سے تھی۔  انہوں نے انسانی  ہجرت کی اس تاریخ کو  مذہبی اور  معاشی ضروریات کے پس منظر میہں سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں

ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے(۱۲)

ہر نئی نسل کو اک تازہ مدینے کی   تلاش

صاحبو اب کوئی ہجرت نہیں ہو گی ہم سے(۱۳)

اٹلی میں مقیم شاعر جیم فے غوری نے بھی اسے سرشِت آدم قرار دیا ہے:

 میں ہجرت حیاتِ آدم کی پہچان سمجھا تھا خدا کا بنی نوع انساں پہ احسان سمجھا تھا(۱۴)

اجنبیت: ہجرت کرنے والے جس کرب سے گزرتے ہیں اُن میں سے ایک احساس اجنبیت بھی ہے، اپنے

گھر والوں سے دور ہوکر اجنبی فضا ، زبان ، ماحول اور تہذیب و ثقافت سے وہ جب خود کو مانوس نہیں کر پاتے تو اس احساس میں شدت آنے لگتی ہے۔  اس سے اُن کی شاعری  میں  تنہائی و بے بسی  اور  غم والم   جنم لیتا ہے۔ اس حوالے سے جو از جعفری لکھتے ہیں  :

” تارکین وطن اس تنہائی کو دوہری سطح پر سہتے ہیں ، کیونکہ ایک طرف وہ اپنے آبائی

شہر سے دور ہوجاتے ہیں جب کہ دوسری طرف نئی دنیا بھی اُن کے لیے مکمل طور

 پر اجنبی ہوتی ہے “(۱۵)

اسی احساس تنہائی کو   عرفانہ عزیز نے اپنے شعری مجموعے” کف ِ بہار ” میں شامل نظم” سائے””  میں یوں بیان کیا ہے:

اجنبی دیس کی تنہائی میں

زرد پتوں کی طرح ٹوٹ گرے،

آئینہ پوش بدن ۔

اب درو بام کی میراث فقط سائے ہیں ،

دل کے حصے میں فقط آئے ہیں ،

ہجرتِ گُل کے الم ،

موسمِ درد کا برفاب ،

شبِ ہجر کے غم (۱۶)

اشفاق حسین نے کینڈا ہجرت کی تو وطن سے دوری کے ساتھ ساتھ   تنہائی اور اجنبیت کی فضا کو بھی محسوس کیا ۔کیوں کہ دوسرے دیس میں زندگی کی مادی رعنائیاں تو میسر آجاتی ہیں لیکن اپنی مٹی کی بُو باس اور لہجوں کی وہ گھلاہٹ نہیں ملتی جو اپنے وطن کا خاصا تھی ، اسی لیے وقت کا مرہم بھی کبھی کبھی کام نہیں کرتا ،وہ اس احساس کو  اپنے شعری مجموعے “ہم اجنبی ہیں ” میں یوں  زیبِ قرطاس کرتے ہیں :

کئی موسم گئے پر ہجرتوں کا دکھ ابھی تک ہے

نہ جانے کون سی وحشت بسی ہے آکے شہروں میں(۱۷)

اُن کی شاعری میں ہجرت کا استعارہ اجنبیت کے دکھ کو بیان کرتا ہے،اس حوالے سے  ڈاکٹر شبیہ الحسن  لکھتے  ہیں :

” اشفاق حسین نے اجنبیت کے دکھ کو نہایت قریب سے دیکھا ہے، وہ اس کرب سے

گزرے ہیں ،اور اسی بنا پر اُن کی شاعری میں ہجرت ایک استعارہ  بن کر اُبھری ہے ۔”(۱۸)

بے گھری کا احساس: گھر انسان کی اولیں پناہ گاہ ہے جس کے تحفظ اور بقا کی وہ کو شش کرتا ہے ، یہیں پر اسے سکون بھی ملتا ہے۔بہتر معاش کی تلاش میں جب اس گھر کو چھوڑا جاتا ہے تو  پھر اس کی اہمیت کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔    ہجرت کرنے والے بہت جلد اپنے گھر سے جدائی کو شدت سے محسوس کرنے لگتے ہیں۔ بہت سے شعرا نےاس کرب کو اپنی شاعری میں بیان کیا :

متاعِ عمر کٹی ، لوگ سیم و زر سے گئے

حویلیوں کی تمنا میں اپنے گھر سے گئے(۱۹)

اس طرح   اشفاق حسین کی شاعری میں ہجرت کا استعارہ غریب الوطنی ، بے گھری اور اجنبیت کی اس فضا  کا مظہر بن جاتا ہے ہیں اور،وہ اس کیفیت کو  شعری پیکر  میں ڈھال کر   یوں بیان کرتے ہیں :

ہجرت کا ثمر بھی تو مقدر نہیں اپنا        بے گھر  ہوئے ایسے کہ کوئی گھر نہیں اپنا

مٹی سے جدائی نے یہ احساس دلایا           ڈوبے ہیں  جہاں ہم وہ سمندر نہیں اپنا

بیٹھے ہیں سرِ کوئے غریب الوطنی ہم               دیوار نہیں اپنی کوئی در نہیں اپنا

اک غول پرندوں کا ہے اور شام کا منظر  ایسے میں خیال آیا کوئی گھر نہیں اپنا(۲۰)

حتیٰ کہ بدلتے موسم بھی گھر آنگن کی اہمیت اور    اپنوں کی یاد میں اضافہ کر دیتے ہیں ، لیکن واپسی کا راستہ نا ممکن نہ سہی مشکل ضرور ہوتا ہے، ان مجبوریوں کو اشکوں کا سیل ِ رواں بھی   اپنے ساتھ بہا نہیں سکتا، مجبوری کی اسی

 کیفیت کا اظہار جیم فے غوری نے اپنے شعر میں کیا ہے:

پردیس ساون میں رہنا میری مجبوری ہے

 رو رو کے اشکوں میں بہنا میری مجبوری ہے(۲۱)

سرحد پار  جانے والوں  کی یاد پیچھے رہ جانے  والوں کو بھی  رنجیدہ رکھتی ہے، اسی کیفیت کو شکاگو میں مقیم شاعرہ غوثیہ سلطانہ نوری نے اپنی شاعری میں  بیان  کیا ہے ، ماں جیسی ہستی  اپنے بچوں سے ملنے کی تمنا میں تڑپتی دکھائی دیتی ہے۔  نظم ” ہجرت کا المیہ ”  میں وہ اسے موت کی مانند  قرار دیتی ہیں ۔

نام بدنام موت کا کیوں ہے   زندگی بھی عذاب دیتی ہے

نت نئے آئینے دکھاتی ہے     دور اپنوں سے لے کے جاتی ہے

المیہ ہوتا ہے یہ ہجرت کا      سرحدیں بھی ہمیں رلاتی ہیں(۲۲)

مٹی سے دوستی رکھنے والی شاعرہ نوشی گیلانی کو نئے آسمان کی تلاش نہیں تھی لیکن قسمت انہیں  بہاولپور سے آسٹریلیا کی فضا میں لے گئی اور وہ ۲۰۰۸ سے وہیں مقیم ہیں ، ان کی شاعری میں ٹھہراو  ملتا ہے ۔وہ بھی ہجرت کے استعارے کو مسافت و بے گھری  کے تناظر میں بیان کرتی ہیں” محبتیں جب شمار کرنا “اداس ہونے کے دن نہیں ہیں “اور ” ہوا چپکے سے کہتی ہے” ان کے شعری مجموعے ہیں ،جن میں   کبھی نہ ختم ہونے والے سفر کاذکر ملتا ہے اپنے پہلے شعری مجموعے میں وہ اس دربدری سے نجات کی تمنا کو یوں بیان کرتی ہیں :

عذابِ دربدری سے نکلنا چاہتے ہیں               اب اُس  کے خیمہ خوشبو میں رہنا چاہتے ہیں

تلاشِ رزق میں بھٹکی ہوئی تکان کے بعد پرندے اپنے گھروں کو پلٹنا چاہتے ہیں (۲۳)

یہی پرندے جب اپنے آشیاں سے دور اِک اور آشیاں بساتے ہیں تو اُن کے دل میں اپنے مسکنِ اول کا خیال

 ہمیشہ رہتا ہے۔ نوشی گیلانی نے زندگی کو بھی ایک ایسا ہی سفر تصور کیا ہے جس میں اُن کی تقدیر میں سفرِ

مسلسل رقم کردیا گیا اور جس کا اظہار وہیوں کرتی ہیں :

 راستوں میں رہے نہ گھر میں رہے

عمر بھر حالت سفر میں رہے

اِک زمانہ گھروں میں تھا آباد

بے گھری ہم تری نظر میں رہے(۲۴)

اس کے مقابل اُن کے شعری مجموعے” ہوا چپکے سے کہتی ہے” میں ہمیں کثرت سے مسافت ، سفر اور ہجر کے موضوعات ملتے ہیں ، شاعرہ اس سفر کو باطن سے خارج کی جانب منتقل کرتی ہیں ، اور یہ سفر بھی نادیدہ ہے،ہجر کی تنہا مسافت  اور اس میں بھی منزل پر پہنچ کر کسی کے پلٹ جانے کا یقیں دل سے ملال کو مٹنے نہیں دیتا،حتی   کہ وہ عشق کو رائیگاں مسافت کہتی ہیں  جس میں رنج و وحشت کا بار تھا جس سے نکلنا  سکون دیتا ہے۔اسی لیے اُن کی شاعر ی میں غموں سے ہجرت اور شہرِ ہجرت    میں  دردِ دل کی دہائی ملتی ہے ، انہوں نے    ہجرت کا استعارہ   غم سے نجات کے لیےاستعمال کیا ہے:

تمھارے غم سے ہجرت مانگتے ہیں

سنبھلنے کی رعایت مانگتے ہیں(۲۵)

گمشدہ تہذیبی قدروں  کی تلاش بھی مہجری شعرا کا ہم موضوع رہا۔ایشیا میں خاندانی نظام کی مضبوطی اور باہمی رشتوں میں ایک دوسرے کا ادب اور احترام ملحوظ رکھنے کا انداز یورپ سے با لکل مختلف ہے جس کی بنا پر   ہجرت کرنے والوں کے دلوں میں گھر کی یاد بسی رہتی ہے۔ منصورآفاق  نے برطانیہ میں  مہاجرین کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ۔اس لیے اُن کی شاعری میں  اپنوں سے ملنے کی شدید تمنا ملتی ہے۔انہوں نےغریب الوطنی کو بیان کرنے کے لیے  کونج  کو ہجرت کے علامتی کردار کی صورت میں پیش  کیا  ہے اپنے جو غول  سے جدا  ہو کر زندہ نہیں رہ سکتی ،  تنہائی کا آشوب اُس کی جان لے لیتا ہے ۔

کُونج کی سسکاریاں کانوں میں اُتریں تو کھلا

گھر بڑی شے ہے اسے آباد رکھنا چاہئے(۲۶)

گھروں کی آبادی کا تعلق اس میں بسنے والے ا نسانوں سے ہے،جب وہ اسے چھوڑ جائیں تو باقی مکان بچتے ہیں۔   مہہجریوں کی مشکلات   جب بڑھنے لگتی ہیں تو اُنہیں اپنے گھر یاد آنے لگتے ہیں جس میں بسنے والے دن بھر کی محنت کے بعد اپنے خاندان میں واپس پلٹتے تھے تو رشتوں کی قدریں ملتی تھیں لیکن مسافراُس طمانیت سے محروم ہوتا ہے ، یہی احساس محرومی ہمیں  مہجری شعرا کے ہاں ملتا ہے۔ انہیں  وطن کی یاد  شدت سے آنے لگتی ہے ، کیونکہ جوسُکھ کی نیند اپنے گھر آنگن میں تھی پردیس میں انسان اُس کے لیے ترستا ہےے، ایسا ہی ایک بے لوث رشتہ مامتا کا ہے جس کی نگاہ میں اولاد خوا کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوجائے وہ معصوم اور بچے کی صورت میں ہی رہتی ہے۔ اُسی ماں کے قدموں تلے جنت رکھی گئی۔ مہجری شعرا نے اُس رشتے کی محبت کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا:

اب کے ہجرت پر بہت ہی خوش تھا لیکن روپڑا

جب میں اپنی ماں کے قدموں سے جدا ہونے لگا(۲۷)

ان رشتوں سے محبت کے ساتھ ہی وطن عزیز کی ایک ایک چیز بہت قیمتی لگتی ہے ، شعرا اُن گزرے بیتے دنوں میں اپنی آسودگی کے لمحات کو زندگی کا حاصل کہتے ہیں ، انہیں اپنے وطن کی ہوا، پرندے، لوگ سب بہت عزیز ہو جاتے ہیں ، اس حوالے سے محبت  جواز جعفری    لکھتے ہیں :

“احساسِ غربت شدت اختیار کرتا ہے تو وطن کی یاد آنے لگتی ہے ، وطن ، اُس کی سرزمین ،پرندے ،

موسم ، وطن کے لوگ، لوگوں کے درمیان محبوب چہرے، سب ایک ایک کر کے نظروں کے

سامنے گھومنے لگتے ہیں ۔(۲۸)

ادھورے خوابوں کی کسک : بعض شعرا کے ہاں ہمیں ان ادھورے خوابوں کی چبھن اور کسک بھی دکھائی دیتی ہے جنہیں پورا کرنا اُن کی دلی آرزو تھی اور جن خوابوں کی تکمیل کے لیے انہوں نے بے وطنی کو قبوک کیا تھا اُن میں سے ایک احساس اپنے رشتوں کی خوشیوں کی تلاش بھی ہے جو کبھی کبھی بھر پور خواہش و کوشش کے ادھوری رہ جاتی ہیں ان ناتمام آرزوو ں کومختلف شعرا نے  ہجرت کے تناظر میں بیان کیا ہے۔عاصی کاشمیری  کی نظم ” ادھورے خواب “انہی ادھورے خوابوں میں سے ایک کی داستان سناتی ہے ۔

تیس سالوں کے بعد بھی لیکن

ہے بہن چھوٹی منتظر اب تک

اب تو اُس کے سیاہ بالوں میں

تار چاندی کے جھلملاتے ہیں

ہجرتوں کے سفر

اس طرح بھی رُلاتے ہیں

خواب کتنے ادھورے رہتے ہیں (۲۹)

افتخار عارف  بھی ہجرت کرنے والوں کے ان خوابوں کی بات کرتے ہیں جو ادھورے رہے لیکن کوئی بھی ان تمناوں اور آرزووں سے آگاہ  نہیں ۔  ان کے کلام مِیں ہجرت کے ان کئی رنگوں کے حوالے سےا نتظار حسین  نے لکھا کہ “بے گھری کا احساس، اک ہجرت اور اک  مسلسل دربدری کا قصہ-کس کس رنگ سے ، کبھی ا علانیہ، کبھی کسی پردے میں چھپ کر کسی علامت ، کسی استعارے میں گوندھ کر وہ اس شاعری میں اپنا اظہار پاتا ہے—–ہجرت کے تجربے میں تو  کتنے لکھنے والے شریک ہیں  مگر ہجرت کے تجربے سے جو یہ ایک جہت  نکا لی ہے وہ افتخار عارف سے خاص ہے۔” ان کی یہاں ایک مرکزی کردار کا  تصور ملتا ے جو مسلسل ہجرت میں ہے۔”(۳۰)افتخار عارف نے اُس کردار کے کئی پہلووں کو ہمارے سامنے بیان کیا ہے، جو اپنے خوابوں تک سے محروم ہو چکا ہے ، اُسی کے کرب کی منظر کشی وہ یوں کرتے ہیں  :

بے مصرف عمر کی آخری شام کا آنسو

ایک سبب دیکھے گا سب اسباب نہیں دیکھے گا

اِک ہجرت اور ایک مسلسل دربدری کا قصہ

سب تعبیریں دیکھیں گے، کوئی خواب نہیں دیکھے گا(۳۱)

کہیں وہ خواب و خیال میں گندھی ہوئی آنکھیں تعبیروں کی تمناوں میں یوں سُونی ہو جاتی ہیں کہ اُن میں جینے کی تمنا ختم ہو جاتی ہے ،پھر وہی عزیز ہستیاں آسودہ خاک ہوں تو اپس سرزمین سے وابستگی کا اک نیا رشتہ جنم لیتا ہے ،ُ ان عزیزوں کی جدائی پاوں کی زنجیر بن کر  واپسی کی راہوں کو  اور بھی مسدود کردیتی ہے،،دل چاہ کر بھی اُس دیارِ غیر کو اپنا لیتا ہے کہ اُس  خاک  میں کچھ گوہرِ نایاب سکوں پذیر ہیں جن سے جدائی اب ممکن نہیں اور  وہ  ہمسفر  ہمارے ہمراہ نہیں جا سکتے۔ اِسی کربناک کیفیت کو افتخار عارف یوں لفظی پیکر عطا کرتے ہیں :

اِک ہماری بھی امانت ہے تہِ خاک یہاں

کیسے ممکن ہے کہ اس شہر سے ہجرت کریں ہم(۳۲)

احساس زیاں: اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا دکھ مہجری شعرا نے مختلف پیرائیوں میں بیان کیا ہے۔حمایت علی شاعر نے دہری ہجرت کی ،تقسیم ہند کے وقت اور پھر وہ  حصول معاش کے لیے کینڈا میں سکونت پذیر رہے،اُن کی نظم” وداع”  ماضی کے جھروکوں سے اُن لمحوں کی یاد  پر مبنی ہے جب وہ اپنی ماں سے رخصت ہوئےتھے ، اُس لمحے اُن کی ماں  کے آنسووں نے انہیں تڑپا کے رکھ دیا تھا ، اس نظم کے اختتام پر شاعر ان مجبوریوں کو بیان کرتا ہے جن کی خاطر اس نے ہجرت کی:

میں کہ ہر چوٹ سہہ گیا چپ چاپ

اپنے سینے پہ رکھ لیے پتھر

سارے گھر کی مسرتوں کے لیے

اپنے دل میں چبھو لیے نشتر(۳۳)

یادِ رفتگاں : مہاجر شعرا  کی شاعری کا  بنیادی موضوع ہے جو ہجرت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے ، اس حوالے سے  برطانیہ میں مقیم شاعرہ نور الصباح برلاس کے  مجموعہ کلام”  بحرِ خیال  میں شآمل  نظم “خالی آنکھیں” بہت اہمیت کی حامل ہے    ۔، اس میں ہجرت کرنے والوں کی زندگی کے اُس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے جو انہیں ہمیشہ ملول رکھتے ہیں اور جانے والے جب پلٹتے ہیں تو خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں ۔یہ نظم  اُن منتظر نگاہوں کو بیان کرتی ہے جو جانے والوں کی راہیں تکتے تکتے ہمیشہ کے لیے مند جاتی ہیں ۔تب  مدت بعد گھر لوٹ کے آنے والوں کواپنے نقصان کا اندازہ ہوتا ہے۔

 جب لوٹ کے تم گھر آؤ گے

بس خالی انکھیں پاؤ گے

کچھ غصہ ہو گا آنکھوں میں

کچھ حسرت کچھ معصوم گلے

کیوں چھوڑ گئے تھے تم ہم کو

جب سوچو گے پچھتاؤ گے /

جب لوٹ کے تم گھر آؤ گے

                بس خالی آنکھیں پاؤ گے

تم تیز قدم تھے تم کو تو

ہم سے آگے ہی جانا تھا

تم سورج چاند ستارے تھے

تم کو دنیا پر چھانا تھا

ہم ضعف سفر کے مارے تھے

ہم ساتھ تمھارا کیا دیتے

بس حرف دعا کی صورت تم

ہم کو اطراف میں پاؤ گے

جب لوٹ کے تم گھر آؤ گے

بس خالی آنکھیں پاؤ گے

کل ہم بھی دیوانے بن کر

دنیا کے پیچھے بھاگے تھے

دو نین ہماری یادوں میں

جانے کتنی شب جاگے تھے

پھر ہم نے اپنے کاندھوں  پر

یادوں کا بوجھ اُٹھایا تھا

جو سونپ دیا تھا مٹی  کو

وہ ہی اپنا سرمایہ تھا

اب تم بھی اپنے کاندھوں پر

یادوں کا بوجھ اُٹھاؤ گے

جب لوٹ کے تم گھر آؤ گے

بس خالی آنکھیں پاؤ گے(۳۴)

وطن سے محبت:عرفانہ عزیز نے  ۱۹۷۱ ء میں  کینڈا  ہجرت کی  ۔   ان کی  کتاب” کف آئِنہ”  میں وطن   سے محبت کا دائرہ  بہت وسیع ہوگیا۔ انہوں نے ہجرت کو قبول بھی کیا ہے اور اس کے ساتھ وہ اپنا رشتہ ہر سرزمین سے وابستہ رکھنا چاہتی ہیں اپنی کتاب کفِ بہار کے ابتدائیہ میں لکھتی ہیں :

“ہجرت نے اگر مجھے لا محدود کرب  دیا ہے تو سر مدی لطافتوں سےبھی آشنا کیاہے۔ تھکے قدموں سے

جب بھی کسی چشمے  کے پاس ٹھہری ہوں  تو ہجرتوں  کے زخم دھولیے ہیں ۔مجھے ہر سرزمین سے محبت ہے

اور میرا تعلق ہر سمت  سے ہے۔ البتہ میری بسیط آرزووئیں ایک مرکز  اور ایک نقطے پر جمع ہو جانا چاہتی ہیں

اور یہ مرکز میرا وطن ہے”(۳۵)

غوثیہ سلطانہ  نوری کا تعلق شکاگو(امریکہ) سے ہے انہوں نے ۱۹۷۴ میں ہندوستان سے ہجرت کی ، ان کا شعری  ” رقصِ رواں کے نام سے شائع ہوا، دوسرا مجموعی کلام حمدیہ و نعتیہ شاعری پر مبنی ہے۔ انہوں نے نثری نظم کے حوالے سے خصوصی طور پر کام کیا ہے ،:قطعہ

حل جملہ مسائل کا ہجرت کی منزلوں میں ہے      حاصل نبی کے قُرب کو بنیاد کر کے دیکھ

دنیا تمام بھول کے بڑھنا ہے تجھ کو آگے  اےبندے عزم و حوصلہ کو فولاد کر کے دیکھ

  امید:انسان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جہاں جاتا ہے وہاں کے انداز اور ماحول سے جلد مانوس بھی ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو اس میں ڈھالنے کی کو شش بھی کرتا ہے ، مہجری شعرا نے جہاں اان مسائل کی عکاسی جن کا ہر نئے ہجرت کرنے والے کو سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں پر انہوں نے اپنی زبان و تہذیب کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات بھی کئے اور نئے آنے والوں کو اس ماحول کے مطابق ڈھلنے اور زندگی کی اس بڑی تبدیلی کو قبول کرنے پر آمادہ بھی کیا ،اس حوالے سے اشفاق حسین    نے ہجرت کے دکھ کو خیر باد کہہ کر اس زمیں کی وسعت کو اپنانے کی طرف  اشارہ کیا ہے، وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جس ملک میں آکر آباد ہوئے  ہیں اُسے اپنی سرزمین سمجھیں  ، اور وہ ہجرت کو اپنے عہد کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہیں :

اب کوئی ہجر کا نغمہ نہ زبان تک آئے     ہے یہی اپنی زمیں پاوں جہاں تک آئے(۳۶)

اس عہد کی ہے یہ اک ضرورت         ہجرت کوئی سانحہ نہیں ہے(۳۷)

اُن کے اس حقیقت پسندانہ رویےکو  تسلیم کرتے ہوئے پروفیسر شارب ردولوی ”  میں گیا وقت نہیں ہوں کے پیش لفظ  میں کہتے ہیں :

” اجنبی دیس میں جینے کے نئے ہنر سے شناسائی اور ہجرت کو اس عہد کی ایک ضرورت قرار دینا

اشفاق حسین کی زندگی کے بارے میں حقیقت پسندانہ رویے کی نشاندہی کرتا ہے۔ “(۳۸)

باصر   سلطان کاظمی نےبھی  برطانیہ ہجرت کی اور وہاں اپنے شعروادب کی جوت جگائی ۔ ان کے چار شعری مجموعے ” موجِ خیال ، چمن کوئی بھی ہو، طرب ،اور چونسٹھ  خانے چونسٹھ  نظمیں ،ہے  جب کہ شاعری ، ڈرامے اور کہانی کا کلیات ” شجر ہونے تک “کے نام  سے چھپ چکا ہے ۔ اُن کی شاعری میں بھی ہجرت کے  بعد اس سرزمین کو اپنالینے کی جستجو ملتی ہے ، وہ کہیں یاد ِ ماضی کی وجہ سے ملول ہوتے ہیں تو کہتے ہیں :

اوروں کی زمیں راس نہیں آئے گی باصر

آرام ملے گا تجھے اپنے ہی وطن میں(۳۹)

 (اور کہیں آنے والوں کو امید دلاتے ہیں کہ جس مقصد کے تحت انہوں نے اپنے وطن کو خیر باد کہا اور ایک اجنبی سرزمین کو اپنایا اب اس کو قبول کر لینے سے رنج بھی کم ہوگا اور اسی سرزمین میں اپنی شناخت کو ہمیں بر قرار رکھنا ہے کیونکہ پھول کا کام کھلنا ہے خواہ زمیں کوئی بھی ہو۔یہی وجہ ہے کہ جو پہلے کا حساس تنہائی و اجنبیت تھا وہ رفتہ رفتہ اپنائیت اور سمجھوتے میں بدلتے ہوئے امید کے حسیں گلشن میں ڈھلنے لگتا ہے اور شاعر بے ساختہ کہتا ہے کہ:

دل لگاتے ہیں اہلِ دل، وطن کوئی بھی ہو

پھول کو کھلنے سے مطلب ، چمن کوئی بھی ہو(۴۰)

  اردو  شاعری کے کلاسیکی عہد سے لے کر عصرِ حاضر میں موجود شعرا نے ہجرت کے استعارے کو اپنے اپنے دور اور  جذبات کی روشنی میں کئی معنی پہنائے  ، جس میں یاس و آس ، قربت سے فرقت اور وصل سے فراق تک شامل ہیں ۔لیکن ان میں سب سے نمایاں پہلو اُن ناتمام آرزووں سے جنم لینے والی افسردگی اور یادوں کے سرمائے پر مشتمل ہے ۔ اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہنے والے ان مہاجر شعرا نے ہجرت  کے بعد جس ملک کو وطن ثانی بنایا اُس میں  اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہا ر اور تہذیب و ثقافت سے جڑے رہنے کے  لیے اپنی زبان  کی ترویج کی کوششیں کیں ، جس کا نتیجہ  ان ممالک میں  اردو زبان  کے  فروغ  کی صورت میں نکلا۔

حوالہ جات

(۱) سیدمرتضی فا ضل لکھنوی،  قائم رضا نسیم امروہوی،(مرتبین)، نسیم اللغات ، لاہور : غلام علی اینڈ سنز، س، ن۔ ص ۲۳۹

(۲)معید رشیدی۔ تخلیق ، تخیل ، استعارہ،دہلی : عرشیہ پبلی کیشنز، ۲۰۱۱ء۔

 (۳)ولی دکنی، کلیات ولی دکنی ، مرتبہ نور الحسن ہا شمی ، لاہور ،:الوقار پبلی کیشنز ، ۱۹۹۴، ص۳۸۴۔ ۳۸۵

(۴)غلام ہمدانی مصحفی، کلیاتِ مصحفی، دیوانِ دوم ، مرتبہ ڈاکٹر نور الحسن نقوی، لاہور: مجلس ترقئی اردو، ۱۹۷۰، ص ۲۵

(۵) باصر سلطان کا ظمی ،شجر ہونے تک (کلیات  )،لاہور : سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۵ء، ص۱۱۲

(۶) ایضا۔ص ۲۴

(۷)شہرِ علم کے دروازے پر ، افتخار عارف:  کراچی: مکتبہ دانیال،۲۰۰۵ءص ۹۳

(۸)عاصی کا شمیری : تیسری بستی کا شاعر ، ڈااکٹر مناظر ہرگانوی،(مرتب)نئی دہلی : نرالی دنیا پبلی کیشنز ، ۲۰۰۲ء، ص ۸۶

(۹)اشفاق حسین ، آشیاں گم کردہ ، لاہور: وجدان پبلی کیشنز، ، ۲۰۰۹ءص۵۷

(۱۰)فیض احمد فیض، نسخہ ہائے وفا، لاہور: مکتبہ کارواں ، ص۵۹۵-۵۹۶

(۱۱)احمد فراز ، شہر سخن آراستہ ہے، اسلام آباد: دوست پبلی کیشنز ۲۰۱۳ء ص۳۳

(۲ا)۱فتخار حسین عارف، حرفِ باریاب، دہلی: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاوس ،۱۹۹۶ء، ص۳۹

(۱۳ا)فتخار عارف ،شہرِ علم کے دروازے پر ،  کراچی: مکتبہ دانیال،۲۰۰۵ءص ۹۴

(۱۴)جیم فے غوری :” بر گزیدحسیں لوگ” فیصل آباد : ماہوزا ، ۲۰۱۷ء ص۵۷

(۱۵) جواز جعفری، ڈاکٹر ، اردو ادب یورپ اور امریکہ میں ، لاہور : مکتبہ عالیہ، ۲۰۱۰، ص ۲۸۱

(۱۶)عرفانہ عزیز ، کفِ بہار ، کراچی: مکتبہ افکار، ۱۹۸۵ء۔ ص۱۸۵-۱۸۶

(۱۷)اشفاق حسین۔ ہم اجنبی ہیں ، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز۱۹۹۲ءص ۲۱

 (۱۸)شبیہ الحسن، ڈاکٹر ، سید، اردو شعرو ادب کے سفیر،لاہور: اظہار سنز ، ۲۰۱۱ء ص۳۳

(۱۹)عاصی کشمیری ۔ تیسری بستی کا شاعر، مرتبہ ڈاکٹرناظر عاشق ہرگانوی ، دہلی: نرالی دنیا پبلی کیشنز، ۲۰۰۲ء ص۴۰

( ۲۰)اشفاق حسین ، ہم اجنبی ہیں، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز۱۹۹۲ص۲۷-۲۸

(۲۱)جیم فے غوری، بر گزیدحسیں لوگ ،فیصل آباد : ماہوزا ، ۲۰۱۷ء  ص۱۳۶

(۲۲)غوثیہ سلطانہ، نوری ،رقص رواں ۔ پونے ، ایس اے پبلشنگ ہاوس انڈیا،   ۲۰۱۹ء ۔ص۷۲

(۲۳)   نوشی گیلانی ،محبتیں جب شمار کرنا۔ لاہور:الحمد پبلی کیشنز ، ۱۹۹۴ء ۔ ص ۴۱

(۲۴)نوشی گیلانی، اداس ہونے کے دن نہیں ہیں، لاہور:گیلانی پبلی کیشنز، س ن، ص۱۵۷-۱۵۸

 (۲۵)نوشی گیلانی، ہوا چپکے سے کہتی ہے، لاہور: ماورا پبلیشرز، ۲۰۱۱ء، ص۴۴

(۲۶)منصور آفاق، نیند کی نوٹ بُک ، لاہور: اساطیر ، ۲۰۰۴ء۔ ص ۱۱۱

(۲۷)عاصی کاشمیری : تیسری بستی کا شاعر، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی (مرتب)نئی دہلی: نرالی دنیا پبلیشرز، ۲۰۰ء، ص۳۹

(۲۸)”جوازجعفری،ڈاکٹر۔اردو ادب یورپ اور امریکہ میں ، لاہور: مکتبہ عالیہ، ۲۰۱۰ء، ص ۲۸۱

(۲۹)عاصی کاشمیری : تیسری بستی کا شاعر، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی (مرتب)نئی دہلی: نرالی دنیا پبلیشرز، ۲۰۰ء، ص۲۸

 (۳۰)افتخار عارف، شہرِ علم کے دروازے پر ، کراچی: مکتبہ دانیال،۲۰۰۵ء ص۱۵۰

(۳۱)ایضا۔ ص ۵۰

(۳۲)افتخار عارف ،شہرِ علم کے دروازے پر ،  کراچی: مکتبہ دانیال ص ۴۰

(۳۳)حمایت علی شاعر،تشنگی کا سفر،  کراچی :پاک کتاب گھر، ۱۹۸۱ء ص،۴۳۳

(۳۴)نور الصباح برلاس، بحرِ خیال،ساحل ،ص ۲۷۵-۲۷۸ء

 (۳۵)عرفانہ عزیز ، ابتدائیہ ، کفِ بہار ، کراچی: مکتبہ افکار، ۱۹۸۵ء۔ص ۱۲

(۳۶)اشفاق حسین ، ہم اجنبی ہیں ، لاہور : وجدان پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء ص ۲۴

(۳۷)اشفاق حسین ، میں گیا وقت نہیں ہوں ،نئی دہلی : شاہد پبلی کیشنز ، ۲۰۱۰ ء ص ۱۱

(۳۸)ایضا۔ ص ۱۱

۳۹) باصر سلطان کا ظمی ،شجر ہونے تک (کلیات  )،لاہور : سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۵ءص۶۶

 ( ۴۰) ایضا، ص۹۱

***

Leave a Reply