You are currently viewing اردو ناول:آزادی کے بعد

اردو ناول:آزادی کے بعد

عارف ۔این

ریسرچ اسکالر

سری شنکراچاریہ یونیورسٹی آف سنسکرت، کیرلا

اردو ناول:آزادی کے بعد

         اردوادب کی تاریخ میں آزادی ٔ ہند کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ اس آزادی نے ہندوستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا اورساتھ ہی ساتھ ہندوستانی تہذیب و معاشرت،دل و دماغ اور انداز فکر کو نئی جہت عطا کی۔آزادی نے ہندوستان میں ایک نئے نظام حیات کو فروغ دیا جس کے سبب جاگیردارانہ نظام کو اپنے آخری دن دیکھنے پڑے۔قدیم قدروں کی بنیادیں متزلزل ہوئیں اور نئی قدروں نے جنم لینا شروع کیا۔ تقسیم ملک کے حادثے نے پورے معاشرے کو ہولناک اور خوفناک حالات سے دو چار کیا۔کشت و خون کی ہولی کھیلی گئی۔انسانیت نے مصیبتیں جھیلیں مگر پھر زندگی نے رفتار بھی پکڑی۔نظریات اور روایات کے معانی تبدیل ہوئے اور قدیم اور جدید اقدار میں ٹکراؤ نے انسانی جزبات ومحسوسات کو نیا رنگ و روپ عطا کیا۔ادبا و شعرا نے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا اور اس عہد کی عکاسی میں اپنے تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کیا ۔

         یہ دور ترقی پسند کا دوسرا دور بھیا کہا جا سکتا ہے۔یہ دوسرا دور ۱۹۴۷ کے بعد شروع ہوتا ہے۔حالانکہ ۱۹۴۷ کے بعد ہندوستانی سماج و معاشرت میں کافی کچھ تبدیلیاں رونماہوئیں ۔انسانی مطالبات میں تبدیلی آئی۔مختلف مذاہب کے مابین تعلقات میں تبدیلی آئی۔نیز ہندوستان میں جغرافیائی سطح پر جو تبدیلی آئی،ان سب نے تمام شعبوں کی طرح ادب و ثقافت کو بھی متاثر کیا۔تاہم ان تبدیلیوں کے ساتھ ترقی پسندی کا زور مزید توانا ہوا۔اس لیے اس عہد کے اردو ناول ان تبدیلیوں کے ساتھ خاص طور پر سماجی زندگی،ثقافتی اور تہذیبی سطح پر ۱۹۴۷ کے اثرات اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے سماج کی ایک الگ تصویر پیش کرتے ہیں ۔

         اس عہد میں نئے ناول نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس کا بنیادی سبب ایک تو یہ کہ ترقی پسند تحریک نے اپنی

 اشاعت کے لیے نثر میں فکشن کو اور شاعری میں نظم کو ترجیح دی تھی۔۱۹۴۷ کے واقعات کو اس دور کے ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں پیش کیے۔اپنے جزبات و احساسات کی ترجمانی کے لیے فکشن ہی کی طرف رجوع کیا۔اس طرح اردو ادب میں خاص طورپر ناول نگاری کی روایت مزید مستحکم ہوئی ۔

ٓ       اس عہد کے ناول نگارجو ۱۹۴۷ سے قبل بھی ناول نگاری کی آبیاری کر رہے تھے۔ان میں عزیز احمد ،کرشن چندر،عصمت،احسن فاروقی،قرۃ العین حیدر ،شوکت صدیقی،بیدی،عبداللہ حسین ،خدیجہ مستور،حیات اللہ انصاری ،ممتاز مفتی،قاضی عبد الستار ،جیلانی بانو ،انتظار حسین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

         ۱۹۴۷ کے فوراـــ بعد جن ناول نگاروں نے اردو ادب کو اہم ناول دیے اں میں احسن فاروقی کا ‘شام اودھ’(۱۹۴۸)،عزیز احمد کا ‘ایسی بلند ایسی پستی’(۱۹۴۸)،قرۃ العین حیدر کا ناول ‘میرے بھی صنم خانے ’(۱۹۴۸)ہیں۔ ان ناولوں میں تقسیم ہند کے نتیجے میں ہندوستانی سماج و معاشرت پر رونما ہونے والے اثرات کو مختلف زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ان تینوں ناولوں میں پرانی قدروں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کے ساتھ نئی قدروں کے جنم لینے کی کہانی بھی بیان کی گئی ہے ۔

         عزیز احمد کا شماراردو ادب کے صف اول کے تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔ان کے زیادہ تر ناول اور ناولٹ کی اشاعت آزادی کے بعد منظر عام پر آئے ۔ناول ‘ایسی بلندی ایسی پستی ’ میں آزادی کے نتائج کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیاگیا ہے ۔

         آزادی کے بعد اردو ناول کی تاریخ میں قرۃ العین حیدر ایک امتیازی شناخت رکھتی ہیں۔انہوں نے اردو ناول کو فکری بلندی ،فنی رفعت اور فلسفیانہ گہرائی و گیرائی سے روشناس کرایا ہے۔ان کے یہاں فکر و فلسفے کا مناسب امتزاج نظر آتا ہے۔ انہوں نے آٹھ ناول تحریر کیے۔وہ نہ صرف اپنے عہد کے سماجی اور معاشرتی صورت حال کو پیش کیا بلکہ اپنے ناولوں کے کینوس پر تہذیب و ثقافت کے مختلف رنگ بھرے اور ناول کو اسلوب اور تکنیک کی نئی تازگی بھی بخشی۔‘میرے بھی صنم خانے ’ان کاپہلا ناول ہے۔اس ناول کا تانا بانا اودھ کے ایک بڑے زمیندار گھرانے کے اردگرد بنا گیا اور غیر منقسم ہندوستان کی جنگ آزادی کے آخری دور سے لیکر تقسیم ہند کے فورا بعد آزادی کے ابتدائی عہد تک کے ماحول کو پیش کیا گیا ہے۔‘آگ کا دریا’ آزادی کے بعد شائع ہونے والا ان کا شاہکار ناول ہے۔اس ناول کا پلاٹ ہندوستان کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔جس میں قدیم عہد کا سراغ لگانے سے لے کر جدید عہد تک کی ترجمانی ملتی ہے۔ اس ناول میں چوتھی صدی کے ہندوستان کی تاریخی پس منظر سے لیکر ۱۹۴۷ تک کاسفر جابجا نظرآتاہے۔ ‘آخری شب کے ہم سفر’ ان کا اور ایک بہترین ناول ہے جس پر ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ ملا۔ اس ناول کا پس منظر بنگال میں کمیونسٹ تحریک کا آغاز و انجام ہے۔ناول ‘ کارجہاں دراز ہے’ ان کی ایک سوانحی ناول ہے۔‘گردش رنگ چمن’ بھی ان کے اہم ناول میں شمار کیا جاتا ہے۔یہ ایک نیم دستاویزی ناول ہے اور قدیم جدید کے درمیان کشمکش اس کا موضوع ہے۔

         قرۃ العین حیدر نے اپنے ادبی سفر میں کئی ناول تحریر کیے جن میں بیشتر وقت کے جبر ،انسان کی بے چارگی،تنہائی،ہجرت،جلا وطنی،خواتین کے متعدد حالات کو موضوع بنایا۔ان کے ناولوں میں‘آگ کا دریا ’ نے کافی شہرت و مقبولیت حاصل کی۔ـ‘آگ کا دریا ’ ایک زمانہ تک ادبی حلقوں میں موضوع بحث رہا۔

         اسی زمانہ میں شوکت صدیقی نے ‘ خدا کی بستی ’ (۱۹۵۹) لکھ کر اروناول کو ایک نیا موڈ دینے کی کوشش کی۔یہ ناول شوکت صدیقی نے بنیادی طور پر تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے فورا ًبعد کی صورتِ حال سے نبرد آزما ہونے والا وہ انسانی سماج ہے جس کے سامنے زمین کا وہ خطہ ایک نئی شکل و صورت میں سامنے آتا ہے،جہاں وہ بلاکسی تفریق برسوں سے رہ رہے تھے۔ انہوں نے ا س سماجی کشمکش کی پیش کش میں براہ راست اظہار سے کام لیا۔

         تقسیم ہند کے سانحہ نے اردو کے ادیبوں کو ایک طویل وقت تک بے چین رکھا یہی وجہ ہے کہ اردو ناولوں کا ایک بڑا سرمایہ اس موضوع کا احاطہ کرتا ہے۔عبد اللہ حسین نے ناول ‘اداس نسلیں’ کے ذریعے تقسیم ہند ہی کے اس المیے کو ایک نئے رنگ ڈھنگ سے برتنے کی کوشش کی۔خدیجہ مستور نے بھی ‘آنگن’ میں تقسیم ہی سے متعلق ایک متوسط مسلم خاندان کا المیہ پیش کیا۔حیات اللہ انصاری کا ضخیم ناول ‘لہو کے پھول’ میں تقسیم ملک سے قبل اور بعد کے ہندوستان کے سماجی ،سیاسی ،تہذیبی اور مذہبی حالات کو خوبصورت انداز بیان کیا ہے ۔ مذکورہ ناول نگاروں نے اپنے اپنے ناولوں میں ہندوستان کی سماجی ،سیاسی ، مذہبی سماج کو مختلف خانوں میں پیش کرنے کی کوشش کی۔

         عصمت چغتائی بھی اس عہد کی ایک اہم ناول نگار ہیں۔آزادی کے بعد ان کا ناول ‘معصومہ’ ،‘دل کی دنیا’،

‘سودائی’،جنگلی کبوتر وغیرہ منظر عام پر آئے۔ان کے ناولوں میں اس عہد کی متوسط طبقے کے زندگی کی تصویر ملتی ہے بالخصوص عورتوں کے مسائل ان کے ناولوں کا اہم موضوع ہے۔اسی طرح‘علی پور کا ایلی’ آزادی کے بعد شائع ہونے والے اہم ناولوں میں شامل ہے۔اس ناول میں ممتاز مفتی نے ایک متوسط مسلمان گھرانے کی نفسیاتی کیفیات،جنسی معاملات اور جزباتی الجھنوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

         آزادی کے بعد بیدی کا اکلوتا ناول ‘ایک چادر میلی سی’ منظر عام پر آیا۔یہ پنجاب کے نچلے طبقے کے ایک گھرانے کی زندگی کو پیش کرتا ہے۔جس میں پنچاب کا معاشرہ اور اس کی سماجی کیفیات و روایات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس عہد میں پنجاب سے ایک اور ناول نگار بھی ہے وہ بلونت سنگھ ہے۔ان کا ناول ‘چور اور چاند’۱۹۶۱ء میں شائع ہوا۔ اس ناول میں بھی پنجاب کی ہی زندگی پیش کی گئی ہے۔ملک کے سیاسی حالات،پنجاب کی معاشرتی زندگی ،کسانوں کے حالت زارکو اس ناول میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔‘کالے کوس’،‘عورت اور آبشار’،‘ایک معمولی لڑکی’، بھی بلونت سنگھ کے ناول ہیں جن کی اشاعت آزادی کے بعد ہوئی ہے ۔

         آزادی کے بعد جن مصنفین کے کئی ناول شائع ہوئے ان میں سر فہرست نام کرشن چندر کا ہے۔انہوں نے چالیس سے زائد ناول تحریر کیے ہیں۔‘جب کھیت جاگے’،ـ‘طوفان کی کلیاں’،‘دل کی وادیاں سوگئیں’،‘آسمان روشن ہے’،ـ‘ایک گدھے کی سرگزشت’،‘ایک عورت ہزار دیوانے’،‘سڑک واپس جاتی ہے’،‘گدھے کی واپسی’ ،‘سمندر کے کنارے’اور ‘مٹی کے صنم’ وغیرہ آزادی کے بعد شائع ہوئے جو اہم اور مقبول ناولیں ہیں۔‘جب کھیت جاگے’ خالص سیاسی فضا رکھنے والا ناول ہے جو کسانوں کے سماج کو پیش کرتا ہے۔ کرشن چندر نے اپنے زیادہ تر ناولوں میں کشمیر کے مسائل کو پیش کیا ہے۔‘طوفان کی کلیاں ’کشمیر کے مسائل کو موضوع بنا کر لکھا گیا ایک اہم ناول ہے۔اعلی طبقہ متوسط طبقے پر کس طرح ظلم و ستم کر تا ہے،مرد عورتوں پر مصائب نازل کرتا ہے،کسانوں کی بغاوت،ہندوستان کی آزادی اور تقسیم ہندجیسے موضوعات ان کے ناول میں پیش کیے گئے ہیں ۔

         قاضی عبد الستار کے کئی ناول آزادی کے بعد منظرعام پر آئے جن میں ‘شب گزیدہ ’ بہت مشہور ہے۔ اس میں اودھ میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کو پیش کیا گیا ہے۔انہوں نے تاریخی ناول کے میدان میں کئی اہم اضافے کیے۔‘دارہ شکوہ’،‘صلاح الدین ایوبی’،‘غالب’،‘خالد بن ولید’ وغیرہ ان کے اہم تاریخی ناول ہیں۔

         آزادی کے بعد منظر عام پر آنے والے ناولوں میں جیلانی بانو کا ناول ‘ایوانِ غزل’ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔اس ناول میں عصری ماحول اور تغیر آمادہ ادبی اقدار و روایات کے مختلف پہلؤں سے آشنائی ہوتی ہے۔ اس ناول میں ہندستانی تہذیبی و ثقافتی اور تمدنی زندگی کے ان گنت رنگوں کو خوش اسلوبی سے پیش کیا گیاہے ۔اس دور میں صالحہ عابدہ حسین بھی کئی ناول لکھے۔‘آتش خاموش’،‘راہ عمل’ وغیرہ ان کے اہم ناول ہیں۔

         انتظار حسین نے کئی اہم ناول لکھے جن کی اشاعت آزادی کے بعد ہوئی۔‘آگے سمندر ہے’،‘بستی’،ـ‘چاند گہن’ یہ ان کے مشہور ناول ہیں۔بانو قدیسہ کا ناول ‘راجہ گدھ ’آزادی کے بعد شائع ہونے والے اہم ترین ناولوں میں شامل ہے۔ جوگندر پال کا ناول ‘نادید’ بھی اس صف میں شامل ہے۔شوکت صدیقی کا ‘خدا کی بستی’ بھی اس عہد کا مشہور ناول ہے۔

         بلاشبہ آزادی کے بعدتحریر کیے گئے ناولوں کی ایک طویل فہرست ہے ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔اس مقالہ میں صرف صف اول کے ناول نگاروں کا تعارفی جائزہ لیا ہے۔بہر حال تقسیم کا المیہ ہندو پاک کے سارے ادب خاص کر اردو ادب میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے،تقسیم کی وجہ سے ہونے والے درد وکرب پر تمام ادیبوں نے لکھا،تقسیم کے پورے المیے کا بھر پور اظہار اردو ادب میں واضح نظر آتاہے۔چونکہ ناول ایک ایسی صنف ہے جہاں انفرادی اور داخلی کیفیات کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور خارجی زندگی کے حقائق کی مکمل تصویر پیش کی جاتی ہے۔

٭٭٭

کتابیات:

         ۱        اسلم آزاد          آزادی کے بعد اردو ناول

         ۲        ڈاکٹر یوسف سرمت         بیسویں صدی میں اردو ناول

         ۳       عقیل احمد          اردو ناول اور تقسیمِ ہند

         ۴       محمد ذاکر                    آزادی کے بعد ہندوستان کا اردو ادب

ARIF N

Research Scholar Dept. of Urdu

Sree Sankaracharya University of Sanskrit

Kalady, Kerala

Mob: 8089810461

arifn651@gmail.com

Leave a Reply