You are currently viewing اردو ناول میں نفسیاتی پہلو

اردو ناول میں نفسیاتی پہلو

سدرہ کرن

ریسرچ اسکالر ،جی سی ویمن یونیورسٹی ،سیالکوٹ

اردو ناول میں نفسیاتی پہلو

انسان انسانی زندگی اور نفسیات کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔نفسیات کا عمل دخل معاشی ،معاشرتی ،تہذیب ،نظام حکومت، امن ، جنگ ،نظام حکومت غرض زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے ۔ادب جو زندگی کی عکاسی کرتا ہے تو نفسیات انسانی کرداروں کا مطالعہ کرتی ہے ۔نفسیات سائیکالوجی یونانی زبان کا لفظ ہے۔سائیکو کے معنی روح ہیں اور لوجی کے معنی گفتگو ،علم کے ہیں ۔غرض علم نفسیات انسانی فطرت کردار اور ذہن کا مطالعہ کرتی ہے۔

نفسیات ایک قدیم علم ہے ۔انسان نے جب کرۂ ارض پر قدم رکھا ہےنفسیات کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔جہاں انسان ہوگا وہاں نفسیات کا عمل دخل لازمی ہوگا۔انسانی زندگی کی طرح ادب کے ساتھ بھی نفسیات کا مضبوط رشتہ ہے ۔نفسیات ان جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی ہے جس سے متاثر ہو کر ادیب شعر و ادب تخلیق کرتا ہے ۔بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کی ابتدا میں اردو ادب میں نفسیات کا آغاز ہوا۔ڈپٹی نزیر احمد نے اپنے ناولوں میں نفسیاتی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ۔انھوں نے اپنے ناولوں میں مختلف کرداروں کی مدد سے ذہنی کشمکش ،نفسیاتی الجھنوں اور زندگی کے نشیب و فراز کا احاط کیا ہے ۔مرزا ہادی رسوا کو پہلا نفسیاتی نقاد کہا جاتا ہے ۔ان کا ناول امراو جان میں نفسیاتی پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے ۔مرزا محمد سعید کے ناولوں میں انسانی نفسیات بدرجہ اتم موجود ہے۔خواب ہستی میں نفسیاتی شعور اور علم نفسیات کی ترجمانی کرتا ہے ۔عبداللہ حسین نے اداس نسلیں میں 1857ء کی جنگ آزادی سے تقسیم ہند تک سیاسی ،سماجی عمرانی اور نفسیاتی رونما ہونے والے حالات کا تزکرہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ عصمت چغتائی ، عزیز احمد، حجاب امتیاز علی تاج ، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی ، ممتاز مفتی ، خدیجہ مستور ، انتظار حسین ،بانو قدسیہ وغیرہ کے ناولوں میں نفسیاتی عوامل پائے جاتے ہیں۔

مرزا اطہر بیگ (غلام باغ)

مرزا اطہر بیگ نے 2016ء میں غلام باغ ناول تحریر کیے ۔مرزا اطہر نے افسانے ،ڈرامے تحریر کیے ۔لیکن ناول نگاری کا آغاز غلام باغ سے کیا ہے اس ناول میں نفسیاتی لحاظ سے ایک عام انسان کی داستان بیان کی گئی ہے ۔جو موجودہ وقت میں زندگی گزارتے ہوئے ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا پاتا۔اس کا ماضی کہیں اس کے لیے محرومیوں ،ناکامیوں کا محور ہے اور کہیں فخر کا باعث ہے ۔اس ناول میں( ارزل نسلوں )مانگر جاتی کے پگلوں اور کاچھروں سے تعلق کی تاریخ بیان کی ہے ۔مانگر جاتی دھتکاری اور کم تر طبقے کی حیثیت رکھتی ہے ۔جو مانگر جاتی سماج میں اپنی حیثیت بنانے کی صدیوں سے خواہش کرتی آرہی ہے مگر سفلہ پن اور بے توقیری ان کی ازلی وابدی مقدر رہی ہے. اس ناول میں خادم حسین اہم کردارہے۔جو ڈاکیہ ہے ۔جو اپنی ساری زندگی سائیکل پر ڈاک تقسیم کرتے گزار دیتا ہے وہ اپنی کتاب (گنجینہ نشاط) نامی مسودہ موت سے پہلے اپنے بیٹے یاور حسین کے سپرد کر جاتا ہے۔ یاور حسین اس ناول کا نمائندہ کردار ہے ۔جو اپنی نسل کی سماج میں فوقیت پر صدیوں پرانی خواہش کی تکمیل کرتا ہے ۔وہ گنجینہ نشاط نامی مسودے سے علمی استفادہ حاصل کرتا ہے ۔وہ بڑے بڑے شہر کے روسا جو اعلی طبقے کے بلند ترین مقامات پر مزین ہیں۔ ان کو آہستہ آہستہ  عادی بنا کر منفرد مقام سماج میں قائم کرتا ہے ۔اس کی وجہ سے یاور حسین کو عزت دولت شہرت Aphrodisiac

    سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے۔ وہ اعلی طبقے کی طاقت کو کمزوری میں بدل کر اپنے دماغ میں پلنے والی نفرت کا انتقام لیتا ہے ۔

“یاور عطائی ایک ارزلی نسل سے تعلق رکھتا ہے جسے مانگر

جاتی کہا جاتا ہے۔اس کی ذات کے کسی تاریک گوشے میں

آزادی کی خواہش تلملاتی ہے تو وہ کسی نہ کسی طرح اس

حصار سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔اس حصار سے

کیا نکلتا ہے بلکہ ان تمام ذلتوں کا بدلہ لیتا ہےجوکبھی اس

کے خاندان کا مقدر تھیں ۔۔۔۔استحصالی طبقے کے خلاف اس

کی نفرت کی نوعیت تبدیل نہیں ہوتی وہ اپنی اصلی شناخت

کو نہ صرف چھپاتا ہے ۔بلکہ اپنی اولاد کو بھی اس کی بھنک

نہیں پڑنے دیتا کہ وہ کون لوگ ہیں ۔”

                 یاور حسین اعلی طبقے کے لوگوں میں شمار ہوتا ہے اور اپنے بیٹوں کو امیر اور کامیاب بناتا ہے ۔وہ تمام آسائشوں کو تو حاصل کرلیتا ہے۔مگراس کا ماضی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا ہے ۔یاورحسین نفسیاتی لحاظ سے خوفزدگی کا شکار ہوتا ہے۔ وہ اپنی اولاد کے سامنے ارزل ہونےاور اپنی نسل کے بارے میں حقیقت کو پوشیدہ رکھتا ہے ۔وہ خود جس محرومی اور حقارت،تلخ حقیقت سے گزرا ہے ۔آنے والی نسل کو اس سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے ۔کیوں کہ اس نے بہت مشکلات کے بعد غلامی سے نجات اور کم تر سے برتری کو حاصل کیا تھا۔یاور حسین شہر آکر اپنی مکمل ظاہری و باطنی حالت تبدیل کرلیتا ہے ۔اس کے باوجود اس کی بیٹی باپ سے سوال کرتی بابا ہم کون ہیں ۔انسانی نفسیات ہے انسان حقیقت کی رسائی کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور حقیقت کی جستجو میں لگا رہتا ہے ۔

           غلام باغ میں ان حالات اور نفسیاتی رویوں کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے ۔جو برطانوی حکومت کے خاتمے کے بعد وہاں کے مقامی لوگوں کی شخصیت میں نمودار ہوئے ۔ناول کا ایک اہم کردار آرکیالوجسٹ ہاف مین ہے جو جرمنی سے تعلق رکھتا ہے۔ کبیر مہدی ہاف مین کا ہندوستانی دوست ہے۔کبیر مہدی اس ناول کا دلکش کردار ہے وہ ہاف مین کے ساتھ کبھی کبھار تلخ لہجے سے پیش آتا ہے ۔اس کی وجہ مسلمانوں کی محرومی ،غلامی اور بے بسی جو انہیں انگریزوں کی وجہ سے ملی ۔

“تم یہاں کے روسا یہاں کے نو دولتوں یہاں کے بڑے بڑے جاگیرداروں کی کوٹھیاں دیکھ لو ،ان کے عالی شان بنگلے دیکھ لو تمہیں وہاں ایک بھی مقامی درخت نہیں ملے گا ۔ان میں سے کوئی بھی کیکر ،نیماور شیشم کو اپنے لانوں میں لگانا پسند نہیں کرتا۔یہ کچھ مقامی درختوں کے نام ہیں یہ سب تمہیں ملیں گے سڑکوں کے کنارے ،ادھر ادھر اکا دکابس اپنے زور پر اگے ہوئے ۔تم گوروں نے ہم سے ہماری نباتات بھی چھین لی ہیں ۔”

ہندوستانی قوم انگریزوں کی غلامی سے نجات کے بعد بھی نفسیاتی طور پر کج رویوں میں مبتلا ہے ۔انہی محرومیوں ،غلامی بے بسی کو سوچ کر کبیر مہدی کڑھتا ہے ۔وہ روشن مستقبل کے خواب دیکھنے والا انسان ہے۔آخر کار اس کا قتل کردیا جاتا ہے ۔غلام باغ میں انسانی زندگی میں پیش آنے والے نفسیاتی و جذباتی حالات کے نشیب و فراز کو پیش کیا گیا ہے ۔

عبداللہ حسین (اداس نسلیں )

عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں نمائندہ ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔اس ناول میں 1857ء کی جنگ آزادی سے لے کر تقسیم ہند تک کا ذکر کیا گیا ہے ۔یہ ناول تین حصوں پر مشتمل ہے اس کے پہلے حصے کا عنوان برٹش انڈیا ہے ۔جس میں ہندوستان میں برطانوی حکومت کے قبضہ کا بیان ہے ۔دوسرے حصے کا عنوان ہندوستان ہے ۔اس حصے میں برصغیر کا انگریزوں کی غلامی سے نجات اور ہندوستان کی تحریک آزادی کا ذکر ملتا ہے ۔تیسرے حصے میں بٹوارہ عنوان سے لکھا گیا ہے ۔جس میں ہند اور پاکستان کے بٹوارہ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ناول میں عذرااور نعیم دو مرکزی کردار ہیں ۔جو نفسیاتی طور پر ناسٹلجیا میں مبتلا ہیں ۔نعیم اس ناول کا مرکزی کردار ہے وہ نیاز بیگ کا بیٹا ہے ۔نیاز بیگ انگریزوں کے مخالف آواز بلند کرتا ہت ۔نعیم کی تربیت اس کا چچا ایاز بیگ کرتا ہے ۔جو انگریزوں کا وفادار ہے۔نعیم دو متضاد رویوں کا خیر خواہ ہو کر انگریزوں کے لیے بازو کٹوا لیتا ہے ۔تو کبھی وہ انگریز حکومت کا باغی نظر آتا ہے ۔ڈاکٹر سید عارف نعیم کے بارے میں لکھتے ہیں:

“نعیم ایسی معاشرتی فضا میں پلا بڑھا برطانوی جمہوری اداروں کے

زیر سایہ ،انگریز سرکار،انگریز سرکار کے کاسہ میں نواب راجے اور

جاگیردار باقی آبادی رعیت تھی ،تا ہم نعیم کے بزرگ تنے ہوئے رستے

پر چلتے ہوئے لوگ  تھے ۔ایک بھائی خیر خواہ تھا دوسرا باغی تھا ۔

نعیم خیر خواہ چچا کے زیر سایہ پلنے والے باغی باپ کا بیٹا تھا۔اور

باغیانہ رجحانات کا جھولا جھولتا رہا۔”

نعیم کا کردار دو طبقوں کی نمائندگی کرتا ہے ۔وہ کسان کابیٹا ہے اور گاؤں سے تعلق رکھنے والا نوجوان ہے ۔دوسری طرف وہ کیمبرج سے تعلیم مکمل کر کے واپس آتا ہے تو اس کی شخصیت میں انگریزی ہیئت کزائی ہوتی ہے ۔نعیم ہر اس کام کو اطمینان سے کرتا ہے جس سے اس کے ماضی کی یادیں وابستہ ہوں ۔

“بالوں کو ناریل کے تیل سے چکنا کرنے کے بعد نعیم نے

انہیں ٹھیک طرح بٹھایا،اور داڑھی مونڈھی ،پھر اس نے

چرمی تھیلے میں سے پورا فوجی لباس نکال کر پہنا،

ٹوپی میں مرغابی کا پر لگایا ،سینے پر جنگی ملازمت

کی رنگین  فتییاں اور نیچے چمکتی ہوئی دھات کا کراس

لٹکایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

اس ناول کا اہم پہلو یادوں کی دنیا ہے۔ناول میں موجود کردار چاہتے ہوئے بھی ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا پاتے ۔ناول میں یادوں کے ساتھ ہجرت کا واقعہ ہے ۔ہجرت کرنے والے افراد کے مسائل و مصائب اور صدموں کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے کہ کس طرح صدیوں سے ایک جگہ مقیم افراد ایک دوسرے سے باغی ہوگئے اور صدیوں ایک جگہ رہنے والے لوگوں کا ہجرت کر کے دوسری جگہ جانے والوں کو کس طرح نفسیاتی اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ڈاکٹر خالد اشرف کے بقول:

“قافلے پر گزرنے والی مختلیف ذہنی و نفسیاتی کیفیتوں ،راستے

میں پیش آنے والی مصیبتوں ۔۔۔۔۔کو عبداللہ حسین نے اس قدر مہارت

اور نفسیاتی بصیرت سے پیش کیا ہے کہ تمام اردو ادب میں ہجرت

کرنے والے قافلوں کو اتنی حقیقی تصویر کہیں اور نہیں ملتی۔”

اداس نسلیں پہلی جنگ عظیم سے لے کر برصغیر کی تقسیم اور ہجرت کی تکالیف پر لکھا گیا ناول ہے ۔جس میں انگریزوں کا جبر،ظلم وستم ،مسلمانوں کی غلامی ،محرومی،بے بسی،آزادی کے لیے کوشش و جدوجہد،فسادات میں تباہی کا احاطہ کیا گیا ہے۔

راجندرسنگھ بیدی(ایک چادر میلی سی)

راجندر سنگھ بیدی نے اپنی تحریروں میں واقعات کے بجائے انسانی کیفیات و جذبات کو پیش نظر رکھا ہے ۔ایک چادر میلی سی راجندر سنگھ کا ناولٹ ہے ۔اس ناول میں بیوہ عورت کی نفسیات کی عکاسی کی گئی ہے۔رانو اس ناول کا اہم کردار ہے ۔رانو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے ۔اور اس کی شادی تلو سے ہوتی ہے ۔تلو کا قتل ہو جاتا ہے ۔تلو کے قتل کے بعد رانو نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا ہو جاتی ہے ۔ایک طرف اسے خود کے لیے تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے تو دوسری طرف جوان بیٹی کی فکر ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر رانو کا ساس سسر رانو کی منگل سے شادی طے کرتا ہے ۔رانو اور منگل اس رشتے کو قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں ۔کیوں کہ رانو نے منگل کو بیٹے کی طرح پالا تھا اور منگل بھی اس کے لیے پاکیزہ جذبات رکھتا تھا۔منگل شدید کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔

“رانو اور منگل باوجود کوشش کے نا پسندیدہ راستوں پر

چلنے کے لیے مجبور ہوئے،اس مجبوری نے ان کی

خواہشوں اور کوششوں کو ویران کیا ۔اوڈی پس کا واقعہ

قسمت کے اتار چڑھاو کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا

ہے۔”

دونوں کرداروں میں نفسیاتی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں ۔بلاآخر سماجی دباؤ کی وجہ سے دونوں اس رشتے کو استوار کرتے ہیں ۔منگل لاکھ کوششوں کے بعد بھی اس رشتے کو قبول نہیں کر پاتا ۔جب کے رانو عورت ہونے کے ناطے اس رشتے سے سمجھوتہ کرلیتی ہے اور اس تلخ حقیقت کو مان لیتی ہے وہ منگل کے سامنے سجا سنوار کر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔لہذا جنسی طور پر رانو معاملہ فہمی سے کام لے کر منگل کے ساتھ رشتہ مضبوط کرلیتی ہے۔اور منگل کو مکمل طور پر اپنا بنا لیتی ہے ۔ساجدہ زیدی تحریر کرتی ہیں:

سادیت اور مساکیت دونوں کی کارکردگی میں سب سے نمایاں  “

طور پر جنسی عمل میں دیکھی جا سکتی ہے ۔اسے دونوں

فریق جنسی استحصال کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔راجندر سنگھ

بیدی کا ناول چادر میلی سی اس کی منفرد مثال ہے جس میں

ایک جبلت کی بے حد فطری اور فنکارانہ پیش کش ہے۔”

ناول نگار نے چادر میلی سی میں عورت کی جنسی وجذباتی نفسیات کی عکاسی کی ہے اور اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ عورت کس طرح قربانیاں دے کر شوہر کو اپنا بنا لیتی ہے۔آخر کار عورت کو ہی ہر طرح کے معاملات میں قربانی دینی پڑتی ہے۔

شمس الرحمن فاروقی (کئی چاند تھے سر آسمان)

شمس الرحمن فاروقی کا ناول کئی چاند تھے سر آسمان 2006ء میں شائع ہوا۔اس ناول میں مغلیہ حکومت کے زوال کودکھایا گیا ہے۔کئی چاند تھے سر آسمان میں کئی نفسیاتی عوامل کو دکھایا گیا ہے ۔ناول نگار نے مختلف کرداروں کے ذریعے سے نفسیاتی رویوں کا جائزہ لیا ہے ۔ناول کا آغاز وزیر خانم کے تعارف سے ہوتا ہے ۔وزیر خانم اس ناول کا مرکزی کردار ہے ۔میاں مخصوص اللہ راجہ گاؤں میں راجہ کے انتقال کے لیے ایک تصویر بنا کر گھر کے باہر آویزاں کرتا ہے ۔راجہ اس تصاویر کو دیکھ کراپنی بیٹی سے مشابہت محسوس کرتا ہے اور اپنی بیٹی کو قتل کردیتا ہے ۔اور میاں مخصوص اپنے وطن سے ہجرت کر کے کشمیر میں مقیم ہوتا ہے۔میاں اور اس کا بیٹا یحییٰ قالین بانی کا کام کرتے ہیں ۔یحیی کی وفات کے بعد اس کے بیٹے داود اوریعقوب اپنے آبائی گاؤں چلے جاتے ہیں ۔یعقوب کے ہاں یوسف پیدا ہوتا ہے ۔اور انگریزوں کا ساتھ دیتے ہوئے مرہٹوں کے حملے میں مارے جاتے ہیں۔ یوسف کی  پرورش ایک طوائف کے ہاتھوں ہوتی ہے اور اس طوائف کی بیٹی سے شادی ہو جاتی ہے۔ یوسف کی تین بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں ۔وزیر خانم ایک ایسی لڑکی کا کردار ہے وہ غیر معمولی حسن کی مالک ہوتی ہے ۔اس کے خواب بہت بڑے ہوتے ہیں اور وہ شہزادیوں اور امرا کی طرح زندگی گزارنا چاہتی ہے ۔وہ منفرد سوچ کی مالک لڑکی ہے ۔وزیر خانم اور مارسٹن کی شادی ہوتی ہےاور صوفیہ اور امیر مرزا دو بچے ہوتے ہیں ۔مارسٹن کے قتل کے بعد وزیر بیگم کا تعلق نواب شمس الدین الملک سے ہوتا ہے۔ اور نواب شمس کو فریز کے قتل میں پھانسی ہوتی ہے ۔چھوٹی بیگم کا بہادر شاہ ظفر کے عہد میں مرزا فخرو سے شادی ہو جاتی ہے۔ مرزا فخرو کی وفات کے بعد چھوٹی بیگم کو قلعے سے رخصت کردیا جاتا ہے۔ یہ ناول انیسویں صدی کے برصغیر کی عکاسی کرتا ہے ۔

اس ناول میں انگریزوں کی نفسیات کا جائزہ لیا گیا ہےکہ انھوں نے کس طرح چالاکی ،مکاری سے کام لے کر برصغیر کے مسلمانوں پر قبضہ کیا تھا۔  اس میں ہندوستانی قوم کی انگریزوں سے نفرت کو دکھایا گیا ہے ۔ اس میں وزیر بیگم کا کردار نفسیاتی حوالے سے اہم ہے ۔وہ منفرد خیالات کی حامل ہونے کی بنا پر والدین کی اطاعت سے بھی انکاری ہے ۔وزیر بیگم کے خیالات عورت کی اہمیت کو بھی واضح کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے مرد اور عورت کو برابر پیدا کیا ہے  تودونوں کو ایک جیسے حقوق کیوں نہیں ملتے ۔عورت کو مرد کی نسبت کیوں کم تر سمجھا جاتا ہے ۔وزیر بیگم عورت کے حقوق کےلیے اواز اٹھانے کی ہمت بھی رکھتی ہے ۔فیروز عالم لکھتے ہیں:

“وزیر بیگم کو تانیثی تیوروں کا حامل اور اردو فکشن

کا پہلا تانیثی کردار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔”

وزیر بیگم اور وزیر خانم دونوں منفرد نفسیات کی عکاسی کرتی ہیں ۔بڑی بہن مذہب اور روایات اور معاشرے کا ڈر رکھتی ہے۔ زندگی کے معاملات بد،نیک حرام ،حلال سے آگاہ ہوتی ہے ۔جب کہ دوسری ضدی بے باک نڈر کردار ہے ۔وہ ہر روایات کو ٹکرادینے کی حوصلہ رکھتی ہے وہ اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزارنا چاہتی ہے۔ وزیر بیگم مذہب اقدار ،روایات کا انکار کرتے ہوئے معاشرتی تحفظات کی عکاسی کرتی ہے ۔

نواب شمس الدین بھی اس ناول کا اہم کردار ہے۔نواب شمس الدین کا کردار والیان ریاست کی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے ۔یہ لوگ انگریزوں کے ساتھ وفاداری کا دم بھی بھررہے تھے ۔دوسری طرف انگریزوں کے خلاف بغاوت کے لیے بھی تیار تھے۔ نواب شمس الدین بہادر نڈر شخص تھا ۔اس نے جس جرأت وبہادری سے انگریزوں کا مقابلہ کیا اور تختہ کی طرف بڑھ کر موت کو گلے لگایا یہ منظر انگریزوں کو تعجب میں مبتلا کر گیا ۔

اوپر پہنچ کر ایک جلاد نے شمس الدین کے گلے میں پھندا لگانا”

چاہا لیکن مجرم نے ہاتھ بڑھا کر پھندا خود ہی اپنے گلے میں ڈال

لیا موت اور وہ بھی پھانسی کی موت کے روبرو شمس الدین احمد

خان کی تمکین اور تمکنت بلکہ لا پروائی اور غیر جذباتی تحمل ضبط۔

کو دیکھ کر بعض انگریز بھڑک اٹھے اور ٹامس بیکن کے قریب کھڑے

ہوئے ایک فرنگی افسر نے بے ساختہ کہا ،واللہ ایسا لگتا ہے گویا ہر

صبح  کوپھانسی پر چڑھنا اس بدمعاش کی تفریح رہی ہو”

اس ناول میں مصنف نے ہندوستان کے زوال پزیر معاشرے کی عکاسی کی ہے، انگریزوں کے لباس اور چال ڈھال کا ذکر کیا وہیں اجتماعی نفسیات کی عکاسی کی ہے۔

برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد اردو ادب میں نئے موضوعات شامل ہوئے ۔کئی ناول ہجرت کے تناظر میں لکھے گئے ۔کئی ناولوں میں ناسٹلیجائی عناصر اور تحلیل نفسی کے ذریعے کرداروں کے نفسیاتی مسائل حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔حجاب امتیاز علی اور سعادت حسن منٹو کے ناول میں معاشرتی رویوں سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل کو اجاگر کیا ہے ۔شوکت صدیقی ،قراۃالعین حیدر،عبداللہ حسین ،اور خدیجہ مستور نے ناولوں میں ہجرت ،ہوس پرستی ،لالچ اور بے رحمی واقعات کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ممتاز مفتی اور بانو قدسیہ کے ناولوں میں نفسیاتی مسائل اور ذہنی گھٹن کو بیان کیا ہے ۔اردو ناولوں میں تقسیم ہند کے بعد نئے موضوعات کی بہت اچھے انداز میں عکاسی کی ہے۔

حوالہ جات

  • غفور احمد،نئی صدی،نئے ناول(تحقیقی و تنقیدی مطالعہ)دارلنوارد،2014ء۔ص83
  • مرزا اطہر بیگ،غلام باغ،سانجھ پبلی کیشنز،لاہور:2012ء۔ص42
  • سید محمد عارف،ڈاکٹر،اردو ناول اور آزادی کے تصورات پاکستان ،رائٹرز کو آپریٹو سوسائٹی لاہور طبع دوم ،2011ء۔ص724
  • عبداللہ حسین ،اداس نسلیں ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،1996ء،ص211
  • خالد اشرف ،ڈاکٹر،برصغیر میں اردو ناول،فکشن ہاوس،لاہور:2005،ص207
  • راجندر سنگھ بیدی ،ایک چادر میلی سی،سیونتھ اسکائی پبلی کیشنز،لاہور:2014،ص6
  • ساجدہ زیدی،انسانی شخصیت کے اسرار رموز،یو پبلی کیشنز،لاہور،2006ء،ص361
  • فیروز عالم ،کئی چاند تھے سر آسمان ،مشمولہ آیندہ،ششماہی ،کراچی،2007ء،ص56
  • شمس الرحمن فاروقی کئی چاند تھے سر آسمان ،شہزاد،کراچی،2011ءص518

 ***

Leave a Reply