ڈاکٹر محمد جلیل اقبال خاکی
اردو نظم میں تانیثی ڈسکورس
تانیثیت عربی لفظ “تانیث” سے مشتق ہے۔ انگریزی میں اس کا متبادل Feminism اور لاطینی میں اس کا مترادف Femine ہے۔تانیثیت کی ابتدا تحریک کے طور پر امریکہ میں ۱۹۴۸ میں حقوق نسواں کی کانفرنس سے ہو ئی۔جدید نظم پر مغربی ادب کا ایک خاصہ اثر رہا ہے۔ یہاں تک کہ نظم کی کئی اقسام مغربی شاعری کی دین ہیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں رنگ و نسل کے نام پر انسانوں کے استحصال کی صدیوں پرانی تاریخ ہے ۔سفید فام طبقہ نے سیاہ فام طبقہ کے استحصال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔انیسویں صدی کے آخر تک سیاہ فام طبقے کو ادب کی اشاعت و ترویج میں دقتیں پیش آئیں تو انھوں نے “بلیک لٹریچر ” تخلیق کرنا شروع کیا۔ جس میں سیاہ فام طبقے کے فکر وتصور کو پیش کیا جانے لگا۔فیمنسٹ لٹر یچر کی ابتدا بھی مغرب میں ہوئی ۔عورت نے جب خود اپنے احساسات کی ترجمانی کرنے کی شروعات کی تو ہمارے سامنے فیمنسٹ لٹریچر کے طور پر ادب ایک نیا ڈسکورس منظر عام پر آیا ۔ چونکہ جدید نظم ایک خاص حد تک مغرب کی مر ہون منت ہے تو اس میں اسطرح کے ڈسکورس کا داخل ہونا لازمی ہے۔
نو آبادیاتی عہد میں کئی ششدر کرنے والی ایجادات واقع ہوئیں جن کے توسط سے انسانی زندگی اور خوشحالی کی طرف گامزن ہوئی،مثلاً ریل ،ٹیلی فون ،پرنٹنگ پریس،ہوائی جہاز وغیرہ اس کے سب کے ساتھ سیاسی و سماجی سطح پر نئی آییڈیالوجیز بھی سامنے آئیں۔ جن میں ،Rationalism, Socialism اور جمہوریت اہمیت کی حامل ہیں،ان سب کی ضمنی آیڈیالوجیز بھی ہیں جن کی مددسے اسٹیٹس کا سیاسی اسٹرکچر تیار کیا جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں سماج کو امن پسند ،اعتدال پسند اور بہترین تر بنانے کی لاکھوں کاوشیں کی گئی ہیں ۔مگر ان سب کے باوجود طاقت کی عدم توازن سے سماج کے مختلف طبقات میں رسہ کشی اور عدم استحکام کی وجہ سے کئی Social acceptance کی تحریکات وجود میں آئیں جن میں تانیثیت(Feminism) اور Black lives matter نمایندہ تحریکات ہیں ۔جدید اردو نظم میں فیمنزم ایک بڑا ڈسکورس ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم ایک مرد اساس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں کی سفاکی کی بدترین مثال Honor killing جو آج بھی سماج میں پائی جاتی ہے ۔
اردو نظم کے عصری منظرنامے پر نظر ڈالیں تو نظم گو شاعرات کی تعداد پہلے سے کافی اچھی خاصی ہے۔ تقریباً دو سے تین درجن خواتین نظم گو شعرا نظمیں تخلیق کر رہی ہیں ۔ان تمام کے ہاں ایک خاص عنصر یکسر پایا جاتا ہے وہ تانیثی مسائل کا اپنی نظموں میں پیش کرنا ۔
عصری اردو نظم میں تانیثیت کے موضوع کو برتنے والی خواتین شعرا کی ایک بڑی تعداد ہے۔ ان میں کشور ناہید،شفیق فاطمہ شعرایٰ،عذرا عباس، فہمیدہ ریاض اور شبنم عشائی کا نام اہمیت کا حامل ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر حاضر کی نظموں میں خواتین کے حقوق پر خوب خامہ سرمائی ہو رہی ہے ۔اس میں اکثر نظمیں سطحی اور واقعاتی ہیں۔پر اس سب کے باوجود جدید نظم کی شعریات کے تقاضے پوری کرنے والی نظمیں بھی ملتی ہیں اس کی مثال مندرجہ ذیل ہیں
آسماں تپتے ہوے لوہے کی مانند سفید
ریگ سوکھی ہوئی پیاسے کی زباں کی مانند
پیاس حلقوم میں ہےجسم میں ہے جان میں ہے ۔(فہمیدہ ریاض،باکرہ)
اس کی ابلی ہوئی آنکھوں میں ابھی تک ہے چمک
اور سیہ بال ہیں بھیگے ہوئے خوں سے اب تک
تیرا فرمان یہ تھااس پہ کوئی داغ نہ ہو
سو یہ بے اچھوتا بھی تھاان دیکھا بھی
بے کراں ریگ میں سب گرم لہو جذب ہو
دیکھ چادر پہ مری ثبت ہے اس کا دھبا
اے خداوند کبیر
اے جبار!
متکبرو جلیل!
ہاں ترے نام پڑھے اور کیا ذبح اسے
اب کوئی پارہ ابر آئےکہیں سایہ ہو
اے خدا وند عظیم
باد تسکیں !کہ نفس آگ بنا جاتا ہے
قطرہ آب کہ جاں لب پہ چلی آئی ہے۔
یہ نظم اپنی روایت میں فیمنزم سے مختلف ہے۔ اس میں فہمیدہ ریاض ایک باکرہ کے درد کے اس فنی چابدکدستی سے پیش کرتی ہیں کہ گویا وہ خدا سے شکوہ گو ہیں کہ رب جلیل وجبار و متکبر دیکھ میں نے اپنے بے عیب اچھوتا ہے اور ان دیکھا ہونے کی مہر ثبت کردی ہے۔ اس سب میں وہ اذیت ہے کہ سر دشت صحرا کوئی زبیحہ پیش کیا جارہا ہو۔تپتے لوہے کی مانند سفید ،پدر سری جنسی توفق کی علامت بنتا ہے ،مجبور و مقہور لڑکی سوکھی ریت کی طرح ابل رہی ہے اور خالق سے ملتمس ہوتی ہےکہ کوئی پارہ ابر اس پر برسایا جائے ۔کہ مرد کی آنکھوں میں ابھی باد تسکیں کی چمک باقی ہے، یہاں تک کہ اس کے سیہ بال خوں سے بھیگے ہوئے ہیں ۔اس نظم میں تمام استعارے اورتماثیلیں حقیق اور واقعی ہیں مگر پیش کرنے میں تاثر تخیل اورخیال اسے جدید تر بنابنا دیتے ہیں اسی ضمن میں ڈاکٹڑ ناصر عباس نئیر لکھتے ہیں :کہ
“جدید نظم عکاسی سے زیادہ تاثر تصور اور خیال کو نمائندگی میں دلچسپی رکھتی ہے،بلا شبہ اس میں واقعے ،منظر،مادی و سماجی دنیا کا بیان بھی ممکن ہے۔ مگر اول وہ ترجمانی یا نمائندگی سے عبارت ہو گا دوم وہ سب تاثر سے مملو ہو گا،جدید نظم میں ظاہر ہونے والا تاثر اس قدر قوی ہوتا ہے کہ وہ واقعے کی ہئیت،یعنی اس کے مخصوص معانی اور ماہیت دونوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے”ص۱۱۲
تانیثی ڈسکورس میں یہ بات یاد رہے کہ تمام نظم گو شاعرات کے ہاں ہمیں مشرقی تانیثیت ہی دیکھنے کو ملتی ہے،مشرقی عورتیں خاندانی نظام کو اہمیت دیتی ہیں ۔اور فیملی کو انسٹی ٹیوٹ کے طور پر اس طابع رہنا پسند کرتی ہے ۔یہاں ہمیں جنوبی ایشیائی مملاک کے خاندانی نظام کو پرکھنے کی ضرورت ہے کہ واقعی اس میں عورت پر مظالم ڈھائے جا رہے یا یہ کسی قسم کا بہکاوا ہے۔اس میں کوئی شک و شبہ کے اکیسویں صدی میں بھی ہمارا سماج مرد اساس سماج ہے ،آج خاندان کے تقریباً اختیارات مرد کے ہاتھ میں ہے اور عورت ابھی بھی مجہور و مقہور ہے ۔ یہاں تک کے مشہور شاعرہ شہناز نبی نے تو عورت کو بھیڑیں کہہ کر مخاطب کیا اور اسی عنوان سے ایک نظم “معصوم بھیڑیں” تخلیق کی ملاحظہ ہو ایک بند
اک چراگاہ
سو چراگاہیں
کون ان ریوڑوں سے گھبرائے
پڑ گئی زمینیں اپنی تو
کچھ سفر کچھ حضر کا شغل رہے
کچھ نئی بستیوں سے ربط بڑھے
ان کو آزاد کون کرتا ہے
یہ بہت مطمیں ہیں تھوڑے میں
اک ذرا سا گھما پھرا لاؤ
کچھ ادھر کچھ ادھر چرا لاؤ
بھیڑیں معصوم
بے ضرر سی ہیں
جس طرف ہانک دو
چلی جائیں (معصوم بھیڑیں،شہناز نبی)
اس نظم پر سر سری سی نظر دوڑانے سے پتہ چل جاتا ہے کہ نہایت ہی دھیما احتجاج ہےجس میں عورت کا ہی مجبور ہونا اور کسمپرسی کی حالت کا بیان ملتا ہے۔مشرقی عورت کی بے بسی اور مجبوری کی انتہا یہ ہے کی انہیں علامتی طور پر بھیڑیں کہا گیا ہے۔مابعد جدید نظم میں شاعرات کا ایک قافلہ در آیا ہے ۔جنہوں نے اپنی بزرگ شاعرات کی روایت کو آگے بڑھانے کے ساتھ تانیثی موضوعات سے ہٹ کر زندگی اور اس کے ارد گرد کے موضوعات کو برتنے کے سلسلے کا بھی آغاز کیا،ان میں یاسمین حمید،پروین طاہر،شاہین مفتی،ثمینہ راجا اور عارفہ شہزاد کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ان شاعرات کی نظموں میں علامت اور استعارے مفہوم کی ترسیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ،ان کی علامتیں فطرت سے مستعار شدہ ہوتی ہیں ۔ان کی نظمیں تخلیقی فنکاریوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں ،مثلاً شاہین مفتی کی نظم “پھر یوں ہوا” ملاحظہ ہو
پھر یوں ہوا:
کہ اس نے مرے نیند پاوں پر
ایک اجنبی سے خواب کا پتھر رکھ دیا
آنکھوں میں رت جگوں کی
سنانیں سی گاڑ دیں
پلکوں کی شاخ شاخ پہ آنسو اگا دیے
اور آسمان کی رحل پر مہتاب رکھ دیا
پھر اک شب سیاہ کی زنجیر گوندھ کر
ہر اک خوشی کو دار پر اس نے چڑھا دیا
رنگوں کی تتلیوں کے پروں سے
اکھیڑ کر
خوشبو کے سارے تہہ تیغ کر دیے
ہونٹوں سے چاہتوں کے سبھی گیت چن لیے
اور اک خزاں کا پھول نظر میں دکھلایا۔(پھر یوں ہوا،شاہین مفتی)
نظم کے عصری منظرنامے پر شاعرات اپنے تخلیقی مقاصد سے پوری طرح آگاہ ہیں ،شاعرات کے ہاں معاشرے کے مسائل ،سماجی استحصال کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی ارو نسائی حقوق کا واضح شعور ملتا ہے۔شاعرات کی نظموں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے انہیں اب وجود کی جنگ در پیش ہے اور وہ اسے اپنی قلم سے لڑ رہی ہیں۔ادبی سطح پر یہ شاعرات اپنے تانیثی تجربات مشاہدات اور عصری شعور کو ایک ساتھ ضم کرکے نئی تخلیقی پیرائے وضح کرنے کی تگ و دو میں ہیں ۔