ڈاکٹر سہیم الدین خلیل الدین صدیقی
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو
سوامی رامانند تیرتھ مہاودھیالیہ،(مومن آباد) امبہ جوگائی، ضلع بیڑ، مہاراشٹر
اردو کی کلاسیکی داستان سب رس ایک مطالعہ
کلاسیکی ادب ہمیشہ سے اردو زبان و ادب کا شیوہ رہا ہے ۔ کلاسیک انگریزی زبان کالفظ ہے جس کے لغوی معنی قدیم، مستندو اعلیٰ درجہ کا ادب و اس کی زبان کے ہوتے ہیں۔اردو ادب میں کلاسک کے ساتھ ‘ی’ کا لاحقہ لگانے سے یہ اردو ادب میں بطورصفت نسبتی مستعمل ہوتی ہے۔اس مستعملی کاثبوت ہمیں ارد و کی پہلی تمثیل و داستان ‘سب ر س’میں ملتا ہے۔سب رس کو تمثیلی قصہ کہتے ہوئے ڈاکٹر قمر الہدیٰ فرید ی نے لکھتے ہیں کہ:
ـــ‘‘تمثیل کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ انسانی جذبات و اوصاف کوتجسیم کے عمل سے گزار کر قصے کے کرداروں کے طور پرپیش کیا جائے ۔سب رس میں مـؤخرالذکرصورت نظر آتی ہے۔’’
(سب رس۔ملاوجہی۔مرتبہ ڈاکٹر قمر الہدیٰ فرید ی ۔ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ۲۰۲۰ء، ص۲۰۔۲۱)
سب رس ملا وجہی کی مایہ ناز داستان ہے، جو سن ۱۶۳۵ء میں بمطابق ۱۰۴۵ھ میں پہلی بار منظر عام پر آئی۔جس نے ناکہ صرف اردو نثری داستان کی سنگ بنیاد رکھی،بلکہ اردو کلاسیکی داستان کی غماز بھی کہلائی ۔داستان ‘سب رس’ کے تعلق سے جتنا لکھاگیا وہ قابل تعریف ہے اورتا قیامت جو کچھ لکھا جائے گاوہ دنیائے ادب کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔رہی بات اردو کی کلاسیکی داستان سب رس کی تو یہ ایک ملاوجہی کا قابل تعریف معجزہ ہے،جوموصوف کی بلند خیالی، عربی ،فارسی وہندوستانی کا حسین امتزاج، زبان کی سیاق و سباق کلاسیکی ادب کی بہترین مثا ل ہے ، داستان‘ ‘سب رس’’ کونہ صرف دکنی زبان کی پہلی داستان ہونے کادرجہ حاصل ہے بلکہ یہ کہاجائے تو اس میں کوئی دورائیں نہیں کہ اسے اردومیں کلاسیکی ادب کی ابتداء کا شرف بھی حاصل ہے۔اس کی زبان و بیان کے تعلق سے نورالحسن ہاشمی لکھتے ہیں:
‘‘سب رس کی اہمیت لسانی بھی ہے اورادبی بھی۔ لسانی اس حیثیت سے کہ اس میں وہ زبان ملتی ہے جو اب سے تقریباََ ساڑھے تین سو برس پہلے دکن میں بولی جاتی تھی۔اس کے املاکا انداز بھی آج کل کے اندازروش سے قدرے مختلف تھاجیساکہ …… اس کتاب کے متن کو پڑھنے سے معلوم ہوگا۔(انتخاب سب رس (ملاوجہی)۔نورالحسن ہاشمی۔اترپردیش اردو اکادمی، لکھنو۔ ۲۰۰۷ء۔ ص۷)
البتہ ‘سب رس ’کے کلاسیکی مطالعہ کی بات کی جائے تو اس میں بیشتر مقامات و بیشتر جگہہوں پرزبان و بیان اور کہانی کے اعتبارسے بھی کلاسیکیت نمایاں طور پردیکھی جاسکتی ہے۔داستان کے آغازسے لے اختتام تک تمام اجزاء قصہ، کردار، مکالمے، زماں و مکاں ومنظر نگاری گویا سبھی چیزے کلاسیکیت سے لبریز ہے۔ داستان کا قصہ کچھ اس طرح سے شروع ہوتاہے جو نہ صرف کہانی کے فن کو واضح کر تی ہے بلکہ اس دورکی زبان و تہذیب کو بھی عیاں کرتی ہے بقلم ملاوجہی :
‘‘نقل ۔ ایک شہر تھا اس شہر کاناؤں سیستاں اس سیستاں کے بادشاہ کی ناؤں عقل ، دین و دنیا کا تمام کام اس تے چلتا۔اس کے حکم باج ذرا کیں نیں ہلتا۔اس کے فرماے پرجنو چلے، ہر دو جہاں میں ہوئے بھلے۔دنیا میں کہوائے ، چارلوکاں میں عزت پاے، جاں رہے کھڑے وہاں قبول پڑے۔نہ آفت دیکھے نہ زلزلا، اپے بھلے تو عالم بھلا۔’’(سب رس، ملا وجہی،مرتبہ ڈاکٹر قمر الہدیٰ فرید ی ۔ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ۲۰۲۰ء، ص۶۵)
جیسا کہ کہا جاچکا ہے کہ داستان کا آغاز سیستان نامی ایک شہرسے ہوتا ہے، جہاں کا بادشاہ عقل اس قدربااختیارہے کہ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے مقابل کھڑا رہے سکے۔ عقل کا بیٹا دل جوان ہوا تو ملک تن کی حکومت اس کے سپرد کر دی گئی۔ ایک روز دل نے کسی قدیم ندیم سے آب حیات کا قصہ سنا اور اس کے حصول کے لیے بے قرار ہو گیا۔ دل کے ایما پر اس کا جاسوس نظر آب حیات کی تلاش میں نکلا۔ وہ شہر عافیت کے بادشاہ ناموس اور پھر زہد پہاڑ پر رہنے والے زرق نامی بوڑھے سے ملتا ملا تا جب ہدایت قلعہ کے بادشاہ ہمت تک پہنچا تو اسے یہ راز معلوم ہوا کہ مشرق کے ایک ملک کے حکمراں عشق کی بیٹی حسن کے شہر دیدار میں ایک باغ ہے، جس کا لقب رخسار ہے۔ اس باغ میں دہن نام کا ایک چشمہ ہے، جو آب حیات کا سرچشمہ ہے۔ مگر وہاں جانے کے لیے راستے میں آنے والے ایک شہر سگ سار کے بادشاہ رقیب کوجل دینا ہوگا، جوبہت مشکل کام ہے۔
شہر سگ سار میں پہنچ کر نظر نے رقیب سے کہا کہ اگر شہر دیدار کے باغ رخسار تک اس کی رسائی ہو جائے تو وہاں کی بعض اشیا سے وہ ڈھیروں سونا بنا سکتا ہے۔ رقیب اسے لے چلنے کے لیے فورا ـــــاٹھ کھڑا ہوا۔ ایک بلند مکان میں پہنچ کر اس نے نظر کو شہر دیدار کا تماشا دکھایا۔ یہیں ہمت کے بھائی قامت سے نظر کی ملاقات ہوئی اور نظر نے ہمت کا سفارشی خط چپکے سے اس کے حوالے کر دیا۔ چنانچہ قامت کے حکم سے سیم ساق نے موقع پا کر نظر کو چھپا دیا۔ نظر کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک کر رقیب اپنے شہرلوٹ گیا۔
رقیب سے چھٹکارا پا کر نظر شہر ـدیدار میں آیا۔ یہاں حسن کی سہیلی لٹ اور شہزادی کے خادم غمزہ سے اس کا تعارف ہوا۔ غمزہ نظر کا بچھڑا ہوا بھائی ثابت ہوا۔ اس نے نظر کو جوہر شناس بتا کر شہزادی سے متعارف کرایا۔ شہزادی حسن نے نظر کو ایک قیمتی ہیرا دکھا کر پوچھا کہ اس میں کس کی تصویر ہے؟ نظر نے بتایا کہ یہ دل بادشاہ کی تصویر ہے۔ شہزادی نے دل کو بلانے کے لیے اپنے غلام خیال کے ساتھ نظر کو رخصت کیا۔ واپس لوٹ کر نظر نے دل کو سارا قصہ سنایا۔ دل شہر دیدار کے لیے آمادہ سفر ہوا۔ یہ بات اس کے وزیر و ہم کو اچھی نہ لگی۔ اندیشوں نے اسے آگھیرا۔ عقل سے اس نے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔
بادشاہ عقل نے وزیر وہم کے کہنے میں آکر دل اور نظر کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ نظر حسن کی عطا کی ہوئی کراماتی انگوٹھی کو منہ میں رکھ کر لوگوں کی نگاہ سے اوجھل ہو گیا اور جیل سے نکل بھاگا، چلتے چلتے ایک دن چشمہ آب حیات تک جا پہنچا۔ آب حیات پینے کے لیے اس نے جیسے ہی منہ کھولا، انگوٹھی منہ سے نکل کر چشمے میں گر گئی۔ چشمہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا اور وہ خود سب کو دکھائی دینے لگا۔ اور ایک مرتبہ پھر رقیب کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔ اس بار اس نے حسن کی سہیلی لٹ کے دیے ہوئے بال جلا کر لٹ کی مدد سے آزادی حاصل کی اور غمزہ کے تعاون سے دل کو قید و بند سے چھٹکارا دلانا چاہا۔ غمزہ اور نظر عقل کے دست راست زرق کے بیٹے تو بہ کو شکست دے کر شہر عافیت پہنچے اور وہاں کے بادشاہ ناموس پر فتح پا کر شہرتن کی جانب پیش قدمی کرنے لگے۔ اس موقع پر دعاے سیفی دم کر کے غمزہ نے اپنے لشکر کو ہرنوں کی ڈار میں تبدیل کر لیا۔
تو بہ شکست کھا کر افتاں و خیزاں عقل بادشاہ تک پہنچا۔ غمزہ کی پیش قدمی کا حال سن کر بادشاہ پریشان ہوا ٹھا۔ اس نے دل کو آزاد کر دیا اور کہا کہ عورت کی ذات میں حیلہ مکر بہت ہوتا ہے۔ کیا خبر حسن بھی تمھارے ساتھ دغا کرے۔ اگر شہر دیدار جانا ہی ہے تو فوج لے کر جاؤ۔ باپ کے مشورے کے مطابق بیٹا فوج لے کر چل پڑا۔ ادھر حسن نے اپنے باپ عشق کو خط لکھ کر مدد مانگی۔ چنانچہ عشق کا سپہ سالار مہرجفاء مشقت اور درد کے ساتھ میدان میں آیا۔ حسن نے اپنے خادم کے کہنے پر اپنی بہن کو بھی کوہ قاف سے بلوالیا۔ اس جنگ میں عقل بھی شریک ہوا لیکن اسے شکست ہوئی، وہ بھاگ کھڑا ہوا اور حسن کی بہن کے تیر انداز ہلاک نے دل کو زخمی کر کے قبضے میں کر لیا۔
حسن نے دل کو اپنی دائی ناز کے مشورے پر چاہ ذقن میں ڈال دیا۔ دل ایک ماہ سے کچھ کم اس کنویں میں رہا۔ پھر حسن کی مرضی پا کر زلف اسے کنویں سے نکال کر دل کشا باغ میں لے گئی اور مہر کی بیٹی ساحرہ اور حسن کی سہیلی زلف کے تعاون سے حسن و ول میں محبت بھری ملاقاتیں ہونے لگیں۔ایک روز رقیب کی بیٹی غیر نے جادو کے زور سے حسن کی صورت اختیار کر کے ول کی قربت حاصل کی۔ حسن نے ان دونوں کو ہم آغوش دیکھ کر اپنے محبوب کو بے وفا سمجھا اور اسے غضب کے زنداں میں ڈال دیا۔ رقیب بھی موقع کی تاک میں تھا۔ اس نے دل کو وہاں سے غائب کر کے قلعہ ہجراں میں نظر بند کر دیا۔ اب غیر کو اپنے کیے پر افسوس ہوا اور اس نے خط لکھ کر حسن سے معافی چاہی۔ صحیح صورت حال سے واقف ہوتے ہی حسن نے دل کی خدمت میں معذرت نامہ ارسال کیا۔ گلے شکوے دور ہوئے۔ ادھر عقل کی شکست خوردہ فوج کے سپاہی ہمت نے ایک بار پھر قوت مجتمع کر کے شہر دیدار کی جانب قدم بڑھائے۔ لیکن اسے اس میں خیریت نظر آئی کہ عشق اور عقل می صلح ہو جائے۔ چنانچہ اس کے سمجھانے سے عشق عقل کو اپنا وزیر بنانے پر راضی ہو گیا۔ حسن اور دل کی شادی ہوگئی اور وہ دونوں مزے سے رہنے لگے۔ ایک روز آب حیات کے چشمے پر نظر، ہمت اور دل کی ملاقات خضر سے ہوئی۔ اس جہاں دیدہ بزرگ سے دل نے دعائیں لیں۔ دل کے کئی بیٹے ہوئے۔ جن میں بڑا بیٹا بقول وجہی یہ کتاب ہے۔
کہنے کا لب ولباب یہ ہے کہ داستان سب رس میں وجہی نے وہ کلاسیکی اند از میں داستان کا پلاٹ بُنا ہے کہ پڑھنے والے کو یہ لگتا ہے کہ وہ کوئی ساڑھے تین سو سال پرانی زبان کوہی نہیں پڑھ رہابلکہ وہ اس دورمیں موجودبھی ہے جو ملاوجہی انفرادیت کو پروان چڑھاتی ہے۔ اس داستان میں موصوف نے ایسے جملے و فقرے استعمال کیے ہیں جس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس داستان میں عربی وفارسی کے اثرات کے ساتھ ساتھ مسجٰ ومقفیٰ عبارت نظر آتی ہیں لیکن وہ اسے پیچیدہ و گنجلگ نہیں بناتی۔بقول نورالحسن ہاشمی:
‘‘الفاظ کی غرابت کے باوجودوجہی کے انداز بیان میں بڑی روانی اور د ل کشی ہے۔وہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی معنی خیزباتیں کہہ جاتا ہے۔اگرچہ اس نے مقفیٰ اور مسجع عبارت لکھنے کا التزام کیا ہے۔ لیکن یہ قید اس کے انداز بیان کو گنجلک یا پیچیدہ نہیں بناتی۔’’ (انتخاب سب رس (ملاوجہی)۔نورالحسن ہاشمی۔اترپردیش اردو اکادمی، لکھنو۔ ۲۰۰۷ء۔ ص۷)
ملاوجہی کی داستان سب رس کے اسلوب بیان کا مطالعہ کرے توہمیں ان کی زبان میں کلاسیکی ادب کی عطرخوشبو کی مہک آتی ہے ۔جو ان کو اردو کے کلاسیکی ادباء میں انھیں سب سے اعلیٰ مقام ومرتبہ عطاکرتی ہے ۔
Dr. Sahimoddin Khaliloddin Siddiqui
Asst. Prof. Dept. Of Urdu
Swami Ramanand Teerth Mahavidyalaya,
Ambajogai Dist. Beed Maharashtra
431517
Mob: 8087933863
٭٭٭