محمد باقر حسین
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو،گورنمنٹ کالج ٹونک، راجستھان
ارشد عبد الحمید کی تنقید نگاری
ڈاکٹر ارشد عبد الحمید اپنی مختلف الجہات ادبی شخصیت کے لیے ادبی دنیا میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ آپ بیک وقت شاعر، نقاد، محقق، افسانہ نگار، مبصر اور خطیب بھی ہیں۔ آپ ادب میں جدید رجحان کے پیروکار ہیں اور اسی سبب اس رجحان کے زیر اثر ان کی شاعری اور تنقید وجود میں آئی ہے۔ آپ ایک بالغ نظر نقاد ہیں اور اپنے مخصوص طرز تنقید سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کی تنقیدی نگارشات مدلّل، واضح اور روشن ہوتی ہیں۔ ارشد بنیادی طور پر شاعری کے نقاد ہیں لیکن انھوں نے فکشن کو بھی اپنے مطالعے کا موضوع بنایا ہے۔ فکشن میں ان کا اصل میدان افسانے کی تنقید ہے۔ ارشد کی نظری اور اطلاقی تنقید پر مشتمل مضامین کا مجموعہ’’تجزیہ اور تنقید‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ نے ’مقدمۂ فرہنگ بلاغت‘، ’اسعدؔ بدایونی کی غزلوں کا عروضی تجزیہ‘،’ افسانے کا بلا واسطہ بیانیہ اور اس کی تفہیم‘، ’افسانے کا معاشرہ‘،’ افسانے ’’چڑیا‘‘ کا تنقیدی جائزہ‘،’ افسانے ’’اگر‘‘ کا بیانیہ‘ اور’ وقت خسارے : ایک تنقید جائزہ‘ وغیرہ مضامین میں اپنی تنقیدی بصیرت کا خاطر خواہ مظاہرہ کیاہے۔
ڈاکٹر ارشد نے اپنا پہلا تنقیدی مضمون’’ بشیربدرؔ کی غزلوں کا لفظیاتی اور عروضی تجزیہ‘‘ عنوان سے ۱۹۸۴ء میں لکھا تھا۔ تب سے آج تک ان کی تخلیقی اور تنقیدی سرگرمیاں بدستور جاری ہیں۔ تا ہم ابتدا سے اب تک ان کے ادبی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جو تنقیدی طریقۂ کار پہلے تھا وہ اب بھی ہے یعنی جدید تنقیدی نقطۂ نظر۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ شاعری میں ان کاشمار مابعد جدید شعرا کے زمرے میں کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ارشدؔ نے ’’تجزیہ و تنقید‘‘ میں اپنے ادبی موقف اور طرز تنقید کو واضح کر دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’میرا بنیادی ادبی سروکار شاعری کی تخلیق سے ہے لیکن شعر گوئی کے لیے محض عروض و قافیہ یا بدیع و بلاغت ہی سے میرا کام نہیں چلتا، مجھے شعر گوئی کا ذوق قواعد و لسانیات سے لے کر تحقیق، تنقید، فکشن اور طنز و مزاح تک لے جاتا ہے اور یہی سفر میرے ان مضامین کا جواز ہے۔‘‘)۱(
ڈاکٹر ارشد کی تحریروں میں نظری اور اطلاقی تنقید کے نمونے ملتے ہیں۔ نظری تنقید میں غزل، آزاد نظم ، افسانہ اور تنقید پر مفصل و مدلّل بحث کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں عملی تنقیدی مضامین کے ابتدائی اقتباسات میں بھی انھوں نے نظریہ سے بحث کی ہے۔ پھر ان نظریات کی روشنی میں شعراء اور ادباء کی تخلیقات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ تنقید کی تعریف بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر ارشد لکھتے ہیں:
’’ادب کی اصطلاح میں ہم جس فن کو تنقید کہتے ہیں، وہ تخلیق کے وجود میں آ جانے کے بعد شروع ہونے والا احتسابی فن ہے جس کے ذریعے تخلیق کے محاسن و معائب اور انفرادیت و افادیت کا جائزہ لیا جا تاہے۔(۲)
ڈاکٹر ارشد کے نذدیک تنقید کا مقصد ادب کا تہذیبی مطالعہ ہے کیونکہ تنقید تخلیق پر اور تخلیق تہذیب پر منحصر ہوتی ہے۔ اس لیے کسی بھی ادبی متن کے تجربے کے دوران تہذیبی عصریت کے ساتھ تہذیبی روایت و تسلسل کا مطالعہ بھی ناگزیرہے۔ ادب میں تہذیبی مطالعے سے کلاسیکی متون کی تفہیم و تعین اور نئی تعبیر کا عمل شروع ہوا۔ اس سلسلے میں متن کے گمشدہ ضوابط کی بازیافت کی جا سکی اور متن کے لسانی مطالعے اور مضمون و معنی آفرینی کے عمل پر توجہ مرکوز کی گئی ۔ تنقید میں تہذیبی مطالعے کو اقداری تنقید کے زمرے میں شامل کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’اقداری تنقید سے مراد یہ ہے کہ ادب کو نظریات کے دھند لکے سے نکال کر تہذیب کے ارتقا پذیر تفاعل کے آئینے میں دیکھا جائے ۔ تہذیب کے ٹکڑے نہیں ہو سکتے ۔ تہذیبی ارتقا کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قدامت سو فیصد ختم ہو جائے اور جدیدیت ہر حال میں خالص اور غیر آلودہ ہو۔ تہذیب ہر لمحہ متحرک اور فعال رہتی ہے لیکن اس میں بہ یک وقت کئی دھارے ایک ساتھ بہتے اور رد و قبول کی لہریں بناتے ہیں ۔ اقداری تنقید ان لہروں کی شناخت پر پوری توجہ دیتی ہے۔‘‘ (۳)
ڈاکٹر رفعت اختر کو ارشد کی تنقید میں ردِّ تعمیر(Deconstruction) کی آواز سنائی دیتی ہے۔(۴) لیکن ڈاکٹر رفعت کی یہ بات درست نہیں ہے بلکہ ارشد جدید تنقید کے زیر اثر اردو میں شامل ہونے والے تنقیدی نظریات مثلاََ نو تنقید اور ساختیاتی تنقید کی روشنی میں فن پارے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔
نو تنقید (New Criticism) متن کو خود مکتفی اور خود کفیل قرار دیتی ہے۔ وہ مصنف ، تاریخ، سماج اور قاری کے ذاتی تاثرات اور نظریات سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ نو تنقید متن کی ہئیت اور اس کے جمالیاتی و سائل وعناصر کا ادراک کرکے اس میں پنہاں متعدد معنوں کو منکشف کرتی ہے۔ اس کا کوئی طریقۂ کار نہیں ہوتا بلکہ وہ اسلوبیاتی، جمالیاتی، لسانیاتی اور کلاسیکی تنقیدی رجحانات سے استفادہ کرتی ہے۔ کلاسیکی متون اور تنقیدی اصطلاحات کی از سرِ نو تفہیم و تعبیر سب سے پہلے اسی تنقیدی رویہ کی روشنی میں کی گئی۔ پروفیسر محمد حسن نے کلاسیکی ادبی اصطلاحات کے ذیل میں ایک سیمینار (۱۹۹۳) میں کہا تھا:
’’اس دور کی تنقیدی اصطلاحوں کے مفہوم دھندلا گئے ہیں مگر ان کی بازیافت اب عصر حاضر پر فرض ہے۔ آخر مضمون آفرینی ، ادا بندی، بندش کی چستی جیسی اصطلاحوں کے پیچھے کون سا تنقیدی شعور چھپا ہوا تھا اور اس نے اس دور کے تخلیقی ادب میں کیا رنگ ڈھنگ اختیار کیے ۔ یہ بھی دریافت طلب مسائل ہیں۔ ‘‘(۵)
پروفیسر محمد حسن کے اس بیان سے قبل پروفیسر شمس الرحمن فاروقی اپنی تصانیف ’’شعر شور انگیزــ‘‘ اور’’ اردو غزل کے اہم موڑ‘‘ میں مغربی تصورات نقد و ادب کی روشنی میں علم بیان و بدیع کی اصطلاحات کا جائزہ نئے سرے سے لے چکے تھے۔ فاروقی صاحب کی طرح ڈاکٹر ارشدنے بھی اپنے مضمون ’’غزل کی صنفی شناخت‘‘ میں کلاسیکی غزل کی شعریات کو موضوع بنایا اور ان تمام عناصر کو سمیٹ لیا جو ہماری شعری روایت کی تمام اصناف بالخصوص غزل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ارشد غزل کی جمالیاتی اقدار کے زمرے میں کلاسیکی تنقیدی اصطلاحات معنی آفرینی، مضمون آفرینی، استعارہ اور ابہام وغیرہ کا بیان تشریحی انداز میں کرتے ہیں اور اپنی تنقیدی صلاحیت اور عمیق مطالعے کی روشنی میں ان اصطلاحات کو از سرِنو دریافت کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ مضمون آفرینی کے ضمن میں ارشد رقمطراز ہیں:
’’غزل میں مضمون آفرینی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے شعراء نئے مضمون یا پرانے مضمون میں نیا گوشہ تلاش کرنے کے لیے خیال بندی کی انتہا تک بھی پہنچتے ہیں اور ٹھیک پہنچتے ہیں کہ نیا مضمون جس طرح بھی آئے ، غزل ،کا بنیادی تقاضہ ہے۔‘‘(۶)
جدید تنقید میں مذکورہ اصطلاحات کو علمیاتی تصورات کے گروہ میں شامل کیا جاتا ہے جو متن میں معنی خیزی کے عمل میں کارفرما رہتی ہیں۔
ڈاکٹر ارشد اپنے مضمون’۸۰ء کے بعد ادب اور انتساب کا اداریہ‘ میں حالیؔ سے ما بعد جدیدیت تک اردو میں شامل ہونے والے مختلف تنقیدی رویوں پر کھلی بحث کرتے ہیں اور افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہماری نسل نے تنقید کی طرف توجہ نہیں کی اس لیے ہم اپنا نقاد اور تنقیدی نظریہ پیدا کرنے میں ناکام رہے۔
ڈاکٹر ارشد کی نظری تنقید پر گفتگو کرنے کے بعد اطلاقی تنقید کا جائزہ لیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی شعری تنقیدی بصیرت دوسرے ناقدین سے مختلف ہے۔ ان کا تنقیدی طریقۂ کار کچھ اس نوع کا ہے کہ وہ مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں پہلے حصّے میں تنقیدی / ادبی اصول بیان کرتے ہیں اور دوسرے حصّے میں فن پارے کا لفظیاتی، عروضی، لسانیاتی اور اسلوبیاتی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ ان کی عملی تنقید میں ہمعصر ادباء و شعراء کی تخلیقات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کلاسیکی ادب کے ساتھ ساتھ عصری ادب اور رجحانات پر فاضل نقاد کی غائر نگاہ رہتی ہے۔ بقول شمس الرحمن فاروقی :
’’وہ نقاد جو معاصر ادب کا مطالعہ کرنے سے جی نہیں چراتا، ہر طرح اس میں مصروف و منہمک ہوتا ہے ہماری تعریف اور احترام کا مستحق ہے۔‘‘(۷)
ڈاکٹر ارشد نے جہاں میر تقی میرؔاور ناطقؔ مالوی کی شاعری پر قلم فرمائی کی ہے، وہیں ہمعصر شعراء مخمورؔ سعیدی، بشیر بدرؔ، شین کاف نظامؔ، اسعدؔ بدایونی، شاہدؔ میر اور عالم خورشیدؔ کی شاعری کا تجزیہ جدید تنقیدی تناظر میں شامل مختلف تنقیدی مبادیات کی روشنی میں کیا ہے۔ ان تنقیدی تجزیوں میں ارشد صاحب کے ذاتی جذبات و تاثرات شامل نہیں ہیں بلکہ وہ متوازن اور معروضی انداز میں ان شعراء کے کلام پر خامہ فرمائی کرتے ہیں۔ ارشد ہمیشہ متن کی تکنیک، فن اور شاعر کی فکر کو معرض ِبحث میں لاتے ہیں۔ اس لیے وہ تخلیق کی لفظیات ، ـاسلوبیات ، لسانیات اور تہذیبی مطالعہ پر زور دیتے ہیں۔
ارشدؔاپنے مضمون’ بشیر بدرؔ کی غزلوں کا لفظیاتی اور عروضی تجزیہ‘ میں لکھتے ہیں کہ بشیر بدرؔ کی غزلوں میں کلاسیکی لفظیات کا استعمال تقلیدِ محض ہے اور ان کی شعری زبان کی تشکیل نئی لفظیات میں حسّی تلازموں، علامتوں، استعاروں اور تشبیہوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمایئے:
’’اکائی‘‘کی تشبیہات زیادہ تر فطرت کے شوخ مناظر سے اخذ کی گئی ہیں اور اکثر و بیشتر پیکر نگاری کے ذریعے حسی تلازموں کی تشبیہاتی تجسیم ایک انوکھے آہنگ اور لب و لہجے کو جنم دیتی ہے۔‘‘(۸)
بعد ازاں وہ بشیر بدرؔ کے شعری مجموعوں ’’اکائی‘‘ ،’’آمد‘‘اور ’’امیج‘‘ کا تقابلی مطالعہ پیش کرتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
’’اکائی میں تشبیہات کا ایک طویل سلسلہ تھا جو ’’امیج‘‘میں کچھ کم ہوا لیکن ’’آمد‘میں پھر وہی تشبیہاتی اسلوب دیکھنے کو ملتا ہے۔ ’’امیج‘‘کے مقابلے ’’آمد‘‘میں استعاروں کا استعمال کم ہو اہے لیکن علامتی اظہار بدستور قائم ہے۔‘‘(۹)
مذکورہ بالا اقتباس سے علمِ عروض پر ارشد کے عمیق مطالعہ اور ریاضت کا پتا چلتا ہے۔ ایک شاعر کی غزلوں کا لفظیاتی، عروضی اور اسلوبیاتی تجزیہ وہی نقاد پیش کر سکتا ہے جو سخن فہم کے ساتھ سخن گو اور کہنہ مشق بھی ہو۔ارشد ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ غزل کے اسلوبیاتی مطالعہ میں علمِ بیان کے اجزاء، تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور مجاز کے علاوہ پیکر، تمثال، رمزا ور علامت کو بھی ملحوظ نظر رکھنا لازمی ہے۔
ڈاکٹر ارشد اپنے ہم عمر و ہم عصر شاعر اسعدؔ بدایونی کی غزلوں کا عروضی اور فکری مطالعہ میں جدید تر غزل کے اوصاف بیان کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جدید تر غزل کا موضوع فرد نہیں بلکہ پوری تہذیب اور ثقافت ہے اور اس رویہ کے غزل گو جدیدیت سے مختلف کلاسیکی لفظیات کے قریب نظر آتے ہیں۔ اسعدؔ بدایونی کی غزلوں کے حوالے سے ارشد بتاتے ہیں کہ جدید تر غزل گو شعراء نے شعری آہنگ میں موسیقیت کو لازم سمجھا ہے اورشاعری میں موسیقیت عروضی آہنگ کے ذریعہ نمو پاتی ہے۔ چونکہ نثری غزل اور نثری نظم میں عروض کا استعمال نہیں کیا جاتا اس لیے ان اصنافِ سخن میں موسیقیت نہیں ہوتی۔ اس سبب نئے شعری مجموعوں میں غیر عروضی شعری اصناف کا فقدان ہے۔ شاعری میں عروض کی اہمیت کے ضمن میں ارشد کے مضمون ’’اسعد بدایونی کی غزلوں کا عروضی تجزیہ‘‘ سے اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
’’عروض شعر کی غنائی شناخت طے کرتا ہے اور آہنگ میں تنوع کے امکانات پر روشنی ڈالتا ہے۔ عروض کے دائرہ کار میں فکر اور موسیقی کی ہم آہنگی کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ چنانچہ شعری اصناف اور ہئیتوں میں عروضی آہنگ کا پورا دخل ہے۔ موسیقی اور شاعری فنونِ لطیفہ کی دوا ہم شاخیں ہیں۔ دونوں کا یکجا ہونا فن پارے کی تاثیر میں اضافے کا ضامن ہے اور عروض تاثیر کی اسی کیفیت کا مطالعہ کرتا ہے۔‘‘(۱۰)
ڈاکٹر ارشد بتاتے ہیں کہ اسعدؔ بدایونی نے شاعری میں وہی بحریں منتخب کی ہیں جن کا غنائی حجم نسبتاً زیادہ ہے مثلاً بحر مجتث اور بحر متدارک ۔ اسعدؔ نے مذکورہ دونوں بحروں کا استعمال نسبتاً زیادہ کیا ہے۔
وہ شین کاف نظامؔ کی نظموں کا مطالعے دوران معنی و ہئیت دونوں پر غور کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ نظامؔ نے جدید شعراء کے بر عکس ہئیت اور معنی دنوں کو قرینے سے برتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’ان کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے ہئیت اور اسلوب کو مقدم جانتے ہوئے فکر اور معنی کو ضروری اور جائز اہمیت دی ہے۔ وہ معنی کو اس لیے نہیں گڑھتے کہ انھیں کوئی ہئیت دریافت کرنی ہے بلکہ ہئیت کو اس لئے Exploreکرتے ہیں کیونکہ انھیں معنی کی ترسیل کرنا ہے۔‘‘(۱۱)
فاضل نقاد کی تنقید کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تنقید میں ادق اور بوجھل اصطلاحات سے گریز کرتے ہیں اور اسالیب نقد میں استعمال ہونے والی اصطلاحات پیکر، رمز، علامت ، غزلیہ لفظیات، عروض، تشبیہہ، استعارہ وغیرہ کو آسان و سادہ اور عام فہم الفاظ میں واضح کر دیتے ہیں۔ جسے تنقید کا عام قاری بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ ارشد غزلیہ لفظیات کی تعریف اس انداز میں بیان کرتے ہیں:
’’غزلیہ لفظیات سے مراد وہ شعری لفظیات ہے جو غزل میں مستعمل ہو کر اس کا ایک مخصوص شعری آہنگ، مزاج اور صنفی حیثیت سے ایک مخصوص شناخت پیدا کرتی ہے۔‘‘(۱۲)
فکشن تنقید کے عملی نمونے ارشد کی اعلیٰ تنقیدی بصیرت اور تنقیدی فکر کی غمازی کرتے ہیں۔ وہ افسانوی تنقید میں افسانے کے واقعہ، بیانیہ، تکنیک اور شعریات یعنی فکر و فن کے پیش نظر تنقید کرتے ہیں۔ وہ حقیقی افسانے کے مقابلے علامتی افسانے کو پسند کرتے ہیں۔ چونکہ علامتی افسانے کی دو بنیادی خوبیاں ہوتی ہیں ایک اس کی کثیر المعنویت اور دوسری انوکھے تجربے کو گرفت میں لینا۔ وہ اپنے مضمون ’’ افسانے کابلا واسطہ بیانیہ اور اس کی تفہیم‘‘ میں علامت اور تجریدیت کو موضوعِ بحث بناتے ہیں اور ان کے توسط سے افسانے میں معنوی امکانات کی تلاش پر زور دیتے ہیں۔سلیم سرفراز کا افسانہ ’’خواب دیکھنے والے‘‘ کا علامتی جائزہ لیتے ہوئے ارشد لکھتے ہیں:
’’علامت کو برتنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کوئی ایک لفظ بھی علامت ہو سکتا ہے۔ یا کوئی کردار، واقعہ وغیرہ بھی علامت سازی کا حصہ بن سکتا ہے۔ اور کبھی پورا افسانہ علامت کا روپ اختیار کر سکتا ہے۔ ‘‘ خواب دیکھنے والے‘‘ کی خوبی یہ ہے کہ اس میں الفاظ، اسلوب، کردار اور واقعات۔ سبھی کو علامت کی سطح پر استعمال کیا گیا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی خوبی ہے وہ فضا سازی جو علامت کے رنگوں کو مزید گہرا، مزید بامعنی بناتی ہے۔‘‘ (۱۳)
اٹلانٹا (امیرکہ) کے افسانہ نگار امین صدر الدین بھایانی کے افسانے ’’ٹارچرسیل‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشد لکھتے ہیں:
’’افسانے کا عنوان ،اس کی story line اور اس میں مضمر فکر افسانے کے اسلوب کو متعین کرنے میں کلیدی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ قطعی درست ہے کہ تخلیق کار کا فیصلہ ا ٓخری فیصلہ ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن اسلوبیاتی تقاضوں کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ ’’ٹارچرسیل‘‘ عنوان ہی ایسا ہے کہ نہایت فطری طور پر یہ ایک علامت معلوم ہوتاہے۔ ظاہر ہے کہ ایک افسانے میں ناول جیسی وسعت تو نہیں ہوتی تو یہ کسی’ ٹارچرسیل‘ کی لغوی کہانی ہو نہیں سکتی کہ ہٹلر کے کسی گیس چیمبر کی تفصیل متوقع ہو۔ چند صفحات کا افسانہ تو ٹارچرسیل کے علامتی مفہوم ہی کا احاطہ کر سکتا ہے۔ اور اس کا علامتی مفہوم وہی ہے جو امین بھایانی نے بیان کیا کہ پوری دنیا ایک’ ٹارچرسیل‘ میں بدل چکی ہے۔‘‘
ارشدؔ کی فکشن تنقید کے اطلاقی نمونے عالمی افسانہ فورم پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کی فکری شعوری زاویۂ نگاہ اور تجزیاتی عمل کو دیکھ کر سید صداقت حسین انھیں ’’فکشن کا سائنٹسٹ‘‘ قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر ارشدؔ کی تحریروں سے ان کی تنقیدی بصیرت ، بالغ نظری اور مطالعے کی وسعت کاا ندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چونکہ وہ خود بنفسِ نفیس ایک تخلیق کار ہیں اس لیے تخلیقی عمل کی نزاکتوں اور تخلیق کی فنی لطافتوں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقیدی نگارشات متوازن اور روشن ہوتی ہیں۔اس ضمن میں سید مدبر علی زیدی فرماتے ہیں:
’’ارشد عبد الحمید نے پیچیدہ اور اختلافی امور و نظریات سے دامن بچا کر سلجھے ہوئے طریقے سے اپنے افکار و نظریات کو پیش کیا ہے۔ وہ تخلیق کے ادبی و فنی خصوصیات کو ہی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔‘‘(۱۴)
مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ ارشد عبد الحمید تنقید کے ان عناصر میں زیادہ دلچسپی رکتھے ہیں جن میں فن پارے کو تہذیبی، ثقافتی، ادبی اور فنی ساختیوں کی پرداخت ہوتی ہے۔ وہ ا پنے تجزیوں کے ذریعے ناقد کے درجِ ذیل منصب سے بخوبی عہدئہ بر آ ہوتے ہیں:
ناقد ایسا چاہیے جیسا سوپ سبھائے
سار سار کو گہی رہے تھوتھا دیئی اڑائے
حوالہ جات :
(۱) تجزیہ و تنقید از ارشد عبد الحمید، راجستھان اردو اکادمی،جے پور، ۲۰۰۱ء، ص-۱۳
(۲) تجزیہ و تنقید از ارشد عبد الحمید، راجستھان اردو اکادمی، جے پور،۲۰۰۱ء، ص-۲۳
(۳) تجزیہ و تنقید از ارشد عبد الحمید، راجستھان اردو اکادمی، جے پور،۲۰۰۱ء، ص-۱۱۰
(۴) عالمی تناظر مین اردو تنقید اور راجستھان مصنف از ڈاکٹر رفعت اختر، راجستھان اردو اکادمی، جے پور، ۱۹۹۴ء، ص-۱۵۹
(۵) مضمون ’ہم عصر اردو تنقید: میلانات ومسائل ‘از محمد حسن، مشمولہ معاصر اردو تنقید مسائل و میلانات مرتب پروفیسر شارب رودولوی، اردو اکادمی دہلی، ۱۹۹۴ء
(۶) تجزیہ و تنقید از ارشد عبد الحمید، راجستھان اردو اکادمی، جے پور،۲۰۰۱ء، ص-۴۴-۴۳
(۷) بحوالہ فنِ تنقید اور اردو تنقید نگاری از پروفیسر نور الحسن نقوی، ایجوکیشنل بک ہائوس
(۸) تجزیہ و تنقید از ارشد عبد الحمید، راجستھان اردو اکادمی، جے پور،۲۰۰۱ء، ص- ۱۲۴
(۹) تجزیہ و تنقید از ارشد عبد الحمید، راجستھان اردو اکادمی، جے پور،۲۰۰۱ء، ص- ۱۳۷-۱۳۶
(۱۰) اسعدؔ بدایونی کی غزلوں کا عروضی تجزیہ از ڈاکٹر ارشد عبد الحمید، مشمولہ علی گڑھ میگزین، مسلم یونیورسٹی پریس، علی گڑھ، ۲۰۰۴ء، ص-۲۲۷
(۱۱) مضمون نظم نظام اور حسنِ سرِ راہگزر از ڈاکٹر ارشد عبد الحمید، مشمولہ شعرو حکمت (جلد اول)، مکتبہ شعر و حکمت، حیدرآباد، ۲۰۱۱ء، ص-۳۰۳
(۱۲) تجزیہ و تنقید از ارشد عبد الحمید، راجستھان اردو اکادمی،جے پور، ۲۰۰۱ء، ص-۱۱۷
(۱۳) بحوالہ وقت خسارے از سلیم سرفراز، کریٹیو اسٹار پبلیکیشنز، نئی دہلی، ۲۰۲۱ء، ص-۱۱
(۱۴) تجزیہ و تنقید از ارشد عبد الحمید،راجستھان اردو اکادمی، جے پور، ۲۰۰۱ء،ص-۱۱
9214000097
baquir97@gmail.com