You are currently viewing اعظم گڈھ کی تہذیب و ثقافت:  ایک جائزہ

اعظم گڈھ کی تہذیب و ثقافت:  ایک جائزہ

علیزےنجف

سرائے میر اعظم گڈھ

اعظم گڈھ کی تہذیب و ثقافت:  ایک جائزہ

ہندوستان کے جس خطہ کو اپنے علم وفن اور فضل وکمال میں امتیاز حاصل ہے، ان میں اترپردیش بہت ممتاز ہے، اس میں اعظم گڈھ اترپردیش کے مشرقی حصے میں واقع ایک شہر ہے جو گنگا اور گھاگھرا کے وسط میں بسا ہوا ہے۔  اعظم گڑھ کئی لحاظ سے سرفہرست ہے  یہاں بڑے بڑے مشاہیر پیدا ہوئے، علم ودانش کے اس خطے میں بڑی بڑی قدآور شخصیات نے جنم لیا، جنھوں نے قوم وملت کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کیا، سیاست کے ایوانوں میں بھی ان کی گونج سنی گئی اور وکالت وعدالت کی کرسی پر بھی وہ رونق افروز ہوئے، تحقیق وتصنیف کے میدانوں میں بھی انھوں نے اپنا سکہ جمایا، یہ وہی اعظم گڑھ ہے جس کو بکرماجیت سنگھ (نومسلم) کے صاحب زادے نواب اعظم شاہ (۱۶۶۵/) نے اپنے نام سے بسایا راجہ بکرماجیت سنگھ نے اپنے سگے بھائی کا قتل کردیا تھا،اور اسی کی پاداش میں مغل شاہی فوج اسے گرفتار کرکے دہلی لے گئی تھی وہاں جاکر انہوں نے اسلام قبول کرلیا،دہلی سے سزا مکمل کرکے واپس جب لوٹے تو ایک مسلم خاتون سے شادی کرلی۔انکے بطن سے دو لڑکے پیدا ہوئے ایک کا نام اعظم خان اور دوسرے کا نام عظمت خان تھا، اس شہرکے بسانے والے کو لوگ نواب اعظم شاہ کے نام سے جانتے ہیں، اس نسل میں بادشاہت چھ پُشت تک قائم رہی۔  اعظم گڈھ کے وجود کو تو زیادہ زمانہ نہیں گزرا ہے،بلکہ چارصدی ہی گزری ہے۔ اس عرصے میں اعظم گڈھ کی تہذیب و ثقافت میں کئی طرح کے اتار چڑھاؤ آئے اس میں بھی وہ اپنی جگہ قائم رہا۔

اس خطۂ اعظم گڑھ میں حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ جیسے بزرگ کے قدم بھی پڑے  ہیں اور اورنگ زیب جیسے انصاف پسند بادشاہ نے اس سرزمین کی زیارت کی ہے ۔ اعظم گڑھ  کو یہ شرف بھی حاصل ہے  کہ یہاں پر ہندو دھرم کے چار دھاموں میں سے ایک دھام دورواسا میں موجود ہے،اور پھولپور تحصیل کے پکھیا گوند صاحب کے تاریخی مقامات موجود ہیں۔  اعظم گڈھ اتر پردیش کے اضلاع میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اس ضلع سے متعلقہ نواحی علاقوں نے ایسے ایسے آفتاب و ماہتاب جنم دئیے ہیں جن کے علم و کمال کی روشنی دنیا کے گوشے گوشے میں پائی جاتی ہے۔ یہاں کے چھوٹے چھوٹے قصبات سے ایسی جلیل القدر شخصیات اٹھیں ہیں جو افق پہ نیر تاباں بن کے نمودار ہوئی ہیں اور عالمگیر شہرت کی حامل ہوئیں۔ انھوں نے ہر سطح پہ نمایاں خدمات انجام دیں، ہر دور میں  اعظم گڈھ کی مٹی انتہائی زرخیز رہی ہے اس نے علمی دنیا میں ناقابل فراموش نقوش مرتب کئے ہیں۔ انسان کی تمدنی اور اجتماعی زندگی کے لئے ثقافت ایک فطری اور لازمی چیز ہے اسی تہذیب و تمدن کے دائرے میں ہی انسانوں کی شخصیتیں نکھرتی ہیں یہ تہذیبیں ماحول اور شخصیت سازی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں انسانی زندگی کی ترقی کی راہیں ہموار کرنے میں بھی معاون ہوتی ہیں، انسانوں کو خیالات، اقدار، ادارے، آپسی تعلقات نظام ہائے زندگی سب کے سب تہذیب و ثقافت کے گرد ہی گردش کرتے ہیں، تہذیب و ثقافت کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے اسلامی تہذیب ہو یا عصری تہذیب سب اسی زمرے میں آتی ہیں۔

 اعظم گڈھ کی تہذیب و ثقافت باقاعدہ ایک موضوع ہے جس پہ صفحے کے صفحے لکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں کی تہذیب و ثقافت میں گنگا جمنی تہذیب کا رنگ غالب ہے، ہندو مسلم اور دیگر مذاہب کے لوگ یہاں اخوت اور بھائی چارگی کے ساتھ رہتے آئے ہیں، ہولی ہو دیوالی، دسہرہ ہو یا محرم، عید ہو یا بقرعید شب برات ہو یا رمضان تمام ہی تہوار پر امن ماحول میں یہاں منایا جاتا رہا ہے، پچھلے کچھ سالوں میں شدت پسند عناصر نے اس رنگا رنگ تہذیب کو پامال کرنے کی بارہا کوشش کی جس کی وجہ سے یہاں کی شبیہ متاثر بھی ہوئی لیکن مجموعی طور پہ یہاں کی گنگا جمنی ثقافت اب بھی اپنے پیروں پہ کھڑی ہے، کوئی بھی تہذیب ہو یا ثقافت اس کی حفاظت کی ذمےداری انسانوں پہ ہی عائد ہوتی ہے اگر ان کے ذہن مفسد عناصر سے متاثر ہونا شروع ہو جائیں تو تہذیبوں کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

تہذیب و ثقافت کسی بھی قوم اور خطے کے لئے نہ صرف ایک اثاثہ ہوتی ہے بلکہ یہ اس خطے کی شناخت کا ذریعہ بھی ہوتی ہے، اور یہ تہذیب ان کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے،  تہذیب کے کئی پہلو ہو سکتے ہیں بقول فیض احمد فیض :

“ہر قوم کی تہذیب کے تین پہلو ہوتے ہیں ایک اس قوم کے اقدار، احساسات ، اور عقائد جس میں وہ یقین رکھتی ہے دوسرے اس کے رہن سہن کے طریقے اس کے آداب اس کے اخلاق ظاہری تیسرے اس کے فنون یہ تینوں ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں جنھیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا “

ہمارا ہندوستان متنوع ثقافت اور گنگا جمنی تہذیب کے لئے پوری دنیا میں پہچانا جاتا ہے، ہندوستان میں موجود ہر شہر ہر ریاست اس تہذیب و ثقافت کا امین ہے، اسی طرح اعظم گڈھ بھی اپنی تہذیبی روایات کی وجہ سے ایک منفرد پہچان رکھتا ہے، یہاں کا اپنا مخصوص رہن سہن، تعلیمی روایت، رسم و رواج ہے،  اگر عقائد کا ذکر کیا جائے تو یہاں پہ دیوبندی طرز فکر کا غلبہ ہے یہاں نذر و نیاز فاتحہ کرنے کی روایت کا کہیں اہتمام ہوتا  ہے تو کہیں اس کا اہتمام  نہیں کیا جاتا ،  ہاں شب برأت اور شب قدر کے موقع پہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد عبادت و شب بیداری کا اہتمام کرتی ہے۔ رمضان کے مہینے میں تمام مسلم محلوں میں ایک الگ طرح کی چہل پہل اور رونق کا سماں ہوتا ہے، چھوٹے بڑے سبھی اہتمام کے ساتھ روزے رکھتے ہیں اور پابندی کے ساتھ مسجد پہنچتے ہیں، یہ فضا دیکھ کر غیر مسلمین بھی رمضان کی عزت کرتے ہیں، افطار کے پروگرام میں شامل ہو کر خوشی محسوس کرتے ہیں اس سے نہ صرف آپسی محبت بڑھتی ہے بلکہ ایک دوسرے کے متعلق غلط فہمیاں بھی زیادہ دیر باقی نہیں رہتیں، مسلم شہداء کے روضے بھی یہاں پہ ہیں جس سے ہندوؤں کی بھی ایک بڑی تعداد عقیدت رکھتی ہے۔

         اعظم گڈھ میں مدارس و مکاتب کی ایک بڑی تعداد ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کے عام معمولاتِ زندگی میں مذہبی اقدار  بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں، مذہب پرستی کی وجہ سے بھی یہ شہر اپنی ایک خاص شناخت رکھتا ہے۔ یہاں صرف مساجد ہی نہیں بلکہ منادر کی بھی ایک بڑی تعداد ہے صبح ہوتے ہی ان کے گھنٹوں کی آوازیں شہر بھر میں سنائی دیتی ہیں مندروں میں ہونے والے بھجن اور مسجد کی اذانیں فضا میں تقدس کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ اعظم گڈھ میں سنی عقیدے والوں کے ساتھ شیعوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے جو محرم کے موقع پہ ذکر و دعا اور نوحہ کی مجالس کا پابندی کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں ہر شیعہ کے گھر سے تعزیہ نکلتا ہے جو اپنے مخصوص راستے سے گذر کر نالہ و نوحہ کرتے  ہوئے کربلا نامی احاطے میں پہنچتا ہے وہاں وہ ان تعزیوں کو پوری عقیدت کے ساتھ دفن کرتے ہیں ان کے پیچھے پیچھے سنی لوگ بھی پہنچ جاتے ہیں، محرم کے موقع پہ روزے کا اہتمام ہر مسلمان گھر میں کیا جاتا ہے مسکینوں اور ناداروں کو یہاں کھانے بھیجوائے جاتے ہیں، رسم و رواج کے طور پہ کچھ لوگ میٹھے پکوان بھی بناتے ہیں، سنی و شیعہ دونوں ہی عقیدے کے لوگ بھائی چارہ اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے آئے ہیں اس کی وجہ سے بھی اس شہر کے ماحول میں ایک امن اور سکون کا سا احساس ہوتا ہے۔ عید بقرعید کے موقع پہ ایک دوسرے کے گلے ملتے ہیں اور ایک دوسرے کی دعوت بھی قبول کرتے ہیں، اعظم گڈھ کے سبھی تہوار انتہائی جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں خواہ ہولی ہو یا دیوالی عید ہو یا بقرعید اس موقع پہ تیار کی جانے والے خاص لوازمات ارد گرد کے غیر مذاہب کے لوگوں کے گھروں میں بھی بھیجے جاتے ہیں جس سے ایک اپنائیت اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہوتی ہے، دیوالی کے موقع پہ ہندو صراف کی طرف سے خاص طور سے مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں مسلم طبقے کے لوگ اسے بخوشی قبول کرتے ہیں، عید بقرعید کے موقع پہ مسلمان اپنے غیر مسلم بھائیوں کو سوئیاں ، شیر خورمہ کھلا کر خوشیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں،  دیوالی کے موقع پہ مسلم بچے مٹی کے کھلونے خرید کر اپنے گھر میں سجاتے ہیں،  تمام مذاہب کے بیشتر لوگ ایک دوسرے سے اچھے رسم و راہ رکھتے ہیں اور پرسکون  ماحول میں رہتے ہیں۔

شادی بیاہ کے معاملے میں یہاں اکثر فضول خرچی اور بےجا رسوم، نمود و نمائش سے پرہیز کیا جاتا ہے، یہاں کی شادی کی تقریبات کی ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہاں پہ ہر طرح کی شادیاں ہوتی ہیں مطلب بڑے پیمانے پہ اعلی انتظامات کے ساتھ بھی ہوتی ہیں وہیں بہت سادگی کے ساتھ محض چند افراد کی موجودگی میں عقد مسنون کی روایت بھی پائی جاتی ہے، دیگر شہروں کی طرح یہاں نمود و نمائش اور فضول اخراجات کو پسند نہیں کیا جاتا، ایک متوازن طرز حیات ہے جو ہر کوئی اپنائے ہوئے ہے۔ اعظم گڈھ میں مشترکہ خاندان کی روایت اب بھی پائی جاتی ہے گھر کے بڑے بزرگ افراد تمام بڑے معاملات طے کرتے ہیں آپسی معاملات ہوں یا دیگر شعبوں سے متعلق ضروری امور ہوں گھر کے بڑوں اور سرپرستوں کی مشاورت و رہنمائی سے طئے کئے جاتے ہیں، بےشک بدلتے زمانے نے اس روایت کو تھوڑا متاثر ضرور کیا ہے لیکن اس کی جڑیں اب بھی سلامت ہیں۔

اعظم گڈھ کی تعلیمی فضا ہمیشہ ہی قابل رشک رہی ہے، یہاں پہ لڑکیوں کی تعلیم کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے، لڑکیوں کی تعلیم کے لئے مدارس اور ڈگری کالجز کی ایک لمبی فہرست ہے یہاں پہ میڈیکل کالج بھی ہے جس کے ذریعے تعلیم نسواں کو کافی فروغ حاصل ہوا ہے اعلی تعلیم کے لئے دوسرے شہروں میں جانے کا بھی رواج ہے  لڑکیاں اعظم گڈھ کی تہذیب و ثقافت کو مزید بہتر اور مستحکم بنانے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں،   عصری اور مذہبی تعلیم کے درمیان یہاں ایک توازن کی فضا بھی پائی جاتی ہے بدلتے وقت کے ساتھ اس میں مزید بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

اعظم گڈھ کی مجموعی فضا پہ سادگی و سنجیدگی کے اثرات نمایاں طور پہ دیکھے جا سکتے ہیں، ہر طبقے کے لوگ باہمی محبت و اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہ رہے ہیں، یہاں کی زبان پہ اردو کو غلبہ حاصل ہے ہندی اور انگریزی کی بھی اہمیت مسلّم ہے، اردو زبان کی نشوونما میں اعظم گڈھ کی تہذیب و ثقافت نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے، کیوں کہ یہاں مدارس کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے جہاں عربی و اردو کو خصوصی زبان کا درجہ حاصل ہے اردو کے زیادہ تر فصیح الفاظ عربی سے اخذ کئے گئے ہیں اس سے اردو کے الفاظ کے مرجع و مآخذ کے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اردو زبان نے اسلامی تہذیب و ثقافت کو عملی زندگی میں شامل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، توہم پرستی سے لوگوں کو دور رکھا ہے، توہم کی اصل بنیاد مذہبی تعلیم سے دوری ہوتی ہے، گھر کے ذمےدار افراد اپنے بچوں کو بنیادی مذہبی تعلیم سے واقف کرانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، اس کی وجہ سے توہم پسندی کی جڑیں یہاں مضبوط نہیں ہو سکی ہیں۔

پردہ اعظم گڈھ کی تہذیب کا ایک لازمی جزو ہے ایک وقت تھا جب یہاں کی عورتیں مکمل طور سے حجاب میں ہوا کرتی تھیں بازاروں میں جانے کو ناپسند کیا جاتا تھا بےجا گھروں سے نکلنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا، بدلتے وقت نے یہاں کی تہذیب و روایت کو ضرور متاثر کیا ہے لیکن اب بھی بنیادی پردے کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، لڑکیاں کالجوں میں حجاب کے ساتھ تعلیم حاصل کرتی ہیں، اپنے بزرگوں کی روایت کو باوقار طریقے سے اپنائے ہوئے ہیں، پردے کی وجہ سے وہ تعلیم میں کوئی رخنہ نہیں پڑنے دیتیں۔ اس معاملے میں اعظم گڈھ کی اپنی ایک شناخت ہے جس پہ کہ اہل اعظم گڈھ کو فخر ہے۔

اعظم گڈھ کے مسلمانوں کے معاشی حالات بہت بہتر ہیں یہاں کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد تلاش معاش کے لئے بیرون ملک کا رخ کرتی ہے، تاکہ اپنے بچوں اور اہل خانہ کی ضروریات اور تعلیمی اخراجات کو پورا کر سکیں اور انھیں اچھا طرز زندگی دے سکیں، ایسے میں مائیں اپنے بچوں کی تربیت پہ خصوصی توجہ دیتی ہیں مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے انھیں کافی آسانی میسر ہوتی ہیں، دادا، دادی تایا، تائی چچا کی زیر نگرانی پرورش پانے والے بچے اخلاقیات اور روایات کے بنیادی اصولوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں، ان کے رہن سہن عام بول چال میں اس کے واضح اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں، شادی بیاہ، رنج و غم کے موقع پہ یہ ساتھ ساتھ ہوتے ہیں، ان کا دکھ ایک دوسرے کا سانجھا ہوتا ہے یوں ان کی غم آدھے اور خوشیاں دوگنی ہو جاتی ہیں، اور بزرگوں کی عزت کی روایت دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے۔

اعظم گڈھ کی علمی و ادبی خدمات نے یہاں کی تہذیب و ثقافت کو غیر معمولی حد تک متاثر کیا ہے۔  یہاں کی فضا میں علمیت رچی بسی ہوئی ہے ہر صنف اور ہر موضوع پہ ایسے تحقیقی مضامین لکھے گئے ہیں کہ سالہا سال گذرنے کے بعد اب  وہ تاریخ کے اوراق میں مرجع و مآخذ کا مقام حاصل کر چکے ہیں، یہاں کی تہذیب و ثقافت میں عصریت کے ساتھ مذہبیت کا بھی رنگ غالب نظر آتا ہے، جس نے عوام کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کیا ان کو متوازن زندگی گزارنے کے قابل بنایا ہے، یہاں پہ مدارس دینیہ کی ایک بڑی تعداد ہے اس میں مدرسۃ الاصلاح، مدرسہ بیت العلوم، جامعۃ الفلاح  ایسے مینارے کی طرح ہیں جو ملک کے گوشے گوشے کے سپوتوں کو علم و تحقیق سے آشنا کرا رہے ہیں، جو مذہب سے جڑے علوم و فنون کے ماہرین کے طور پہ پوری دنیا میں اپنی نمایاں شناخت رکھتے ہیں، اعظم گڈھ ہمیشہ ہی متوازن ثقافت کا علمبردار رہا ہے آج بھی یہ اپنی ایک نمایاں شناخت رکھتا ہے، دارالمصنفین جیسا اعلی علمی و تحقیقی ادارہ اسی اعظم گڈھ کی سرزمین پہ اپنا وجود رکھتا ہے، دارالمصنفین جس کی بنیاد عالم اسلام کی معتبر و مستند ہستی علامہ شبلی نعمانی نے رکھی تھی انھوں نے مسلمانوں میں علمی و تحقیقی مزاج کو پروان چڑھانے کے لئے اس کی داغ بیل ڈالی اور مسلمانوں کو کتاب اور اسلامی تاریخ سے جوڑنے کے لئے اس ادارے کو قائم کیا  جو پچھلے سو سال سے زائد مدت سے اپنی ذمےداریوں کو ادا کر رہا ہے،  یہ ادارہ علامہ شبلی نعمانی کے دیرینہ خوابوں کی تعبیر رہا  ہے یہ اپنے قیام کے وقت سے ہی اپنے مقاصد کے حصول میں مصروف ہے، آج بھی اس کی علمی سرگرمیاں قائم ہیں اس کے منتظمین علامہ شبلی نعمانی کی علمی وراثت کو آگے بڑھا رہے ہیں،  اس کا قیام ایک ایسے دور میں ہوا جب علم کا چراغ روایت پسندانہ ذہنیت کے جھکڑوں کی زد میں تھا علامہ شبلی نعمانی نے محسوس کیا کہ مسلمان جب تک تحقیقی میدان میں کمال حاصل نہیں کریں گے اس وقت تک ان کے علمی وجود کو استحکام حاصل نہیں ہو سکتا،  دارالمصنفین کے قیام کے مقاصد وہی تھے جو بیت الحکمت بغداد کے قیام کا تھا  بیت الحکمت جو مسلمانوں کی تاریخ میں ایک شخصیت ساز ادارے کی حیثیت رکھتا ہے اس نے ایسی ایسی شخصیات جنم دی تھیں جنھوں نے نہ صرف علوم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا بلکہ نئی علمی اصطلاح کی بنیاد بھی رکھی، دارالمصنفین کی تاسیس کا مقصد بھی یہی تھا   دارالمصنفین کی تاریخی خدمات‘‘ کے دیباچہ میں اس کے مقاصد کو ان الفاظ میں تعبیر کیا گیا ہے:

  • ملک میں اعلی مصنفین اور اہل قلم کی جماعت پیدا کرنا
  • بلند پایہ کتابوں کی تصنیف و تالیف اور ترجمہ کرنا
  • ان کی اور دیگر علمی ادبی کتابوں کی طبع و اشاعت کا انتظام کرنا۔

آج دارالمصنفین کی خدمات کے مطالعہ کے بعد پوری دیانتداری کے ساتھ یہ اعتراف کیا جاسکتا ہے کہ دارالمصنفین اپنے مقاصد کی حصولیابی میں بہت حد تک کامیاب ثابت ہوا ہے۔ اس ادارے کو بدلتے زمانے کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دامے درمے سخنے اس کے ساتھ تعاون کیا جائے، اس کی اہمیت و مقصدیت کو برقرار رکھنے کے لئے  علمی و غیر علمی طبقہ کو اس سے جوڑا جائے۔

اعظم گڈھ کی تہذیب و ثقافت کی روایت کو عصری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے اور اسے آگے بڑھانے میں سرائے میر کی سرزمین پہ واقع علمی درسگاہ مدرسۃ الاصلاح نے ایک اہم کردار ادا کیا  یہ ادارہ روایتی اسلامی ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ مشرقی اور اسلامی علوم کا ایک مشہور مرکز بھی ہے۔ اس کا آغاز مولانا محمد شفیع نے سن 1908 میں کیا۔ اس کے آغاز میں ان کے ساتھ اس علاقے کے ممتاز علمائے کرام اور دینی مدارس نے شراکت کی، مدرسے کی سنگ بنیاد سید اصغر حسین دیوبندی نے رکھی. اس مدرسے میں عام مسلمانوں کی اصلاح اور اسلامی فقہ ، عربی اور اردو کے میدان میں قر آن و حدیث کے شعبے میں علما اور سیکھنے والوں کی ہمہ جہت شخصیت کی نشو و نما کے ساتھ ایک ممتاز مرکز تعلیم کے قیام کے ہدف کو حاصل کیا گیا تھا۔ اس ادارے کے فارغین نے پوری دنیا میں اعظم گڈھ کی تہذیب و ثقافت کی ترجمانی کی ہے مولانا اختر احسن اصلاحی، مولانا محمد یوسف اصلاحی، مولانا صدرالدین اصلاحی، مولانا نجم الدین اصلاحی، پروفیسر اشتیاق احمد ظلی، ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی، پروفیسر ابو سفیان اصلاحی، ڈاکٹر محمد اجمل ایوب اصلاحی، مولانا یوسف اصلاحی جیسی علمی ہستیاں اسی ادارے کی پروردہ ہیں۔ ان کی علمی و دینی خدمات کا زمانہ معترف ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ اعظم گڈھ کی سرزمین محض اپنی دینی تہذیب و ثقافت کے لئے مشہور ہے اعظم گڈھ کی مٹی ادب و ثقافت کے حوالے سے بہت زرخیز ہے کیفی اعظمی ہندی فلمی دنیا میں ایک کامیاب شاعر اور نغمہ نگار تھے شعر و ادب ان کی فطرت میں رچا بسا تھا  وہ محض گیارہ برس کی عمر میں شعر کہنے لگے تھے پھر رفتہ رفتہ یہ فن پروان چڑھا یہاں تک کہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا، ان کی شخصیت سازی میں اعظم گڈھ کی تہذیب و ثقافت شامل تھی وہ ساری زندگی ادب کی خدمت کرتے رہے۔اعظم گڈھ کی ایک مشہور علمی و ادبی شخصیت خلیل الرحمٰن اعظمی بھی ہیں یہ اردو کے شاعر اور نقاد تھے ان کا شعری ورثہ اردو ادب کے لئے گراں قدر اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے، خلیل الرحمٰن اعظمی جدید غزل کے بنیاد گزاروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔انہوں نے جدید دور کے اضطراب کو اپنی غزلوں میں پیش کرکے شاعری میں داخلیت کے عناصر کو پھر سے اجاگر کیا۔خلیل الرحمن اعظمی کا شعری ذہن جس وقت نمو پذیر ہو رہا تھا وہ ترقی پسندی کا دور تھا ۔چنانچہ وہ بھی اس تحریک سے وابستہ ہو گئے ۔اس تحریک سے وابستگی کی خاص وجہ یہ تھی کہ اس کے ذریعے زندگی کی حقیقتوں کا انکشاف اور عظمت ِ انسانی اور اجتماعی آرزوئوں کو پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔لیکن رفتہ رفتہ اس تحریک میں شدت پسندی اور جمود کے اثرات دکھائی دینے لگے ،خلیل الرحمن اعظمی کا متحرک ذہن اس کو قبول نہیں کر سکا اور انہوں نے ادب میں پیدا ہونے والے اس جمود کو توڑنے کی کوشش کی ۔

 اعظم گڈھ نے اپنے بطن سے بہتیرے فنون لطیفہ کے فنکاروں کو جنم دیا ہے، شبانہ اعظمی نے فلمی اداکارہ کی حیثیت سے اپنی نمایاں شناخت بنائی یہ معروف اردو شاعر کیفی اعظمی اور شوکت اعظمی کی بیٹی ہیں ان کی شہرت میں اعظم گڈھ کی شہرت کا بھی ایک حصہ ہے کیوں کہ ان کے نام کے ساتھ اعظمی کا لاحقہ جڑا ہوا ہے۔  انھیں فلمی دنیا کا کئی اعلی اعزاز بھی مل چکا ہے 1988ء میں، حکومت ہند نے انہیں ملک کا چوتھا سب سے بڑا شہری اعزاز ، پدما شری سے نوازا تھا۔ اعظم گڈھ کی تہذیب و ثقافت میں تنوع کا رنگ بھی شامل ہے، یہاں پہ مسلم اور دیگر طبقات بھی باہمی تعاون کے ساتھ رہتے آئے ہیں، اردو زبان و ادب کی نشوونما میں اس خطے کا ایک اہم کردار رہا ہے، مدارس کے وجود نے اس کو تقویت بخشی آج بھی اس سرزمین پہ اردو کو ایک ادب و احترام کی فضا میسر ہے، زمانے کی تبدیلی نے بےشک یہاں کے اردو ادبی ماحول کو میسر کیا ہے لیکن ابھی بھی کئی سارے چراغ جل رہے ہیں جو اردو کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ابو الجلال ندوی، ابو سالم، ابو ظفر ندوی، احمد علی برقی اعظمی، اسلم جیرا جپوری، حمید الدین فراہی، خلیل الرحمن اعظمی، رحمت الٰہی برق اعظمی، سبط حسن، سید سلیمان ندوی، شبلی نعمانی، شوکت حسین رضوی، عبد العزیز رہبر، قاضی اطہر مبارکپوری، قمر الزمان اعظمى، محمد الیاس الاعظمی، محمد مصطفٰی اعظمی ، مرزا اسلم بیگ، ملک زادہ منظور احمد،  وحید الدین خاں جیسی معتبر شخصیات اسی زرخیز مٹی کی زرخیزی میں قابل قدر اضافہ کیا ہے انھوں نے اپنی علمی و تحقیقی صلاحیت سے نئی نئی اصطلاحات بھی وضع کیں۔ مولانا حمید الدین فراہی برصغیر پاک وہند کے ممتاز قرآنی مفسر اور دین اسلام کی تعبیر جدید کے بانی تصور کیے جاتے ہیں آپ نے امت میں تفقہ فی الدین کو دور حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ایک لافانی نہج پر قائم کیا بعد ازاں اسی نہج نے دین اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر پیچیدہ سوال کا دندان شکن جواب دیا۔ حمید الدین فراہی  کا شمار دنیائے اسلام کی  معتبر شخصیات میں ہوتا ہے، مولانا امین احسن اصلاحی  مدرسہ فراہی کے ایک جلیل القدر عالم دین، مفسر قرآن اور ممتاز ریسرچ سکالر تھے آپ امام حمید الدین فراہی کے آخری عمر کے تلمیذ خاص اور ان کے افکار ونظریات کے ارتقا کی پہلی کرن ثابت ہوئے۔ انھوں نے تدبر قرآن جیسی مستند و جامع تفسیر لکھی۔ اعظم گڈھ کی سرزمین پہ پیدا ہونے والی ایک نمایاں اور جلیل القدر شخصیت علامہ شبلی نعمانی ہیں علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں ہوئی تھی- ابتدائی تعلیم گھر ہی پر مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت بھی کی مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب ترک کر دی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے  فرانسیسی  سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔ شبلی کا شمار اردو تنقید کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت اردو دنیا میں بطورشاعر، مورخ، سوانح نگار اور سیرت نگار کی حیثیت سے بھی مسلم ہے۔

احمد علی برقی اعظمی  جنھیں برقی اعظمی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اردو و فارسی کے ایک شاعر تھے۔ ان کا شعری مجموعہ روحِ سخن کے عنوان سے ہے۔ پیشہ ورانہ طور پر، وہ آل انڈیا ریڈیو، نئی دہلی کے شعبۂ فارسی کے انچارج رہے اور وہاں بطور ترجمہ کار اور اناؤنسر خدمات انجام دیتے رہے۔ انھوں نے اپنی زندگی اردو زبان اور اس کی ادبی ثقافت کو آگے بڑھانے کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ان کے والد رحمت الٰہی برق اعظمی، نوح ناروی کے شاگرد اور ایک استاد شاعر تھے۔  اس کے علاؤہ اور بھی بےشمار علمی ہستیاں ہیں جنھوں نے علمی بساط پہ کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں ان میں صفی الرحمن مبارک پوری کا بھی ذکر شامل ہے صفی الرحمن مبارکپوری ایک  سوانح نگار، عالم اور مصنف مورخین تھے۔ صفی الرحمن مبارک پوری سیرت النبی کے موضوع پر لکھی گئی عالمی انعام یافتہ کتاب الرحیق المختوم کے مصنف ہیں۔  اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو عربی اور اردو زبانوں میں انشا و تحریر کا عمدہ ذوق اور سلیقہ عطا کر رکھا تھا۔ آپ نے اردو و عربی میں کئی کتابیں لکھیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی (22 نومبر 1884ء — 23 نومبر 1953ء) اردو ادب کے نامور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور چند قابل قدر کتابوں کے مصنف تھے جن میں سیرت النبی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اعظم گڈھ کی تہذیب و ثقافت کو اس مختصر مضمون میں سمیٹنا از حد مشکل ہے یہ ایک جزوی جائزہ ہے جس کے ذریعےان تمام تفصیلات کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اعظم گڈھ کی تہذیب و ثقافت انتہائی سر سبز و شاداب ہےاور دیگر خطے سے اپنی خصوصیات کے سبب منفرد ہے ۔

***

Leave a Reply