محمودہ قریشی
آگرہ۔ یو۔پی۔انڈیا ۔
افسانچے ۔
مردہ پرست ہے یہ دنیا ۔؟”
میں نے اشاعت کے لئے ایک سرکاری رسالے کو اپنا ایک مضمون ارسال کیا تھا ۔کچھ دن بعد وہاں سے کال آیا ۔
“ہیلو …آپ عارفہ ناظم صاحبہ بول رہی ہیں؟ ۔”
میں نے کہا ,”جی, آپ کون ۔؟ “
“آپ نے ایک مضمون بھیجا تھا ہمارے ادارے کو ,؟۔ جو قابل تعریف ہے ۔لکین آپ نے اس کو کافی طویل کر دیا ہے ۔ہاں اس مین ترمیم کی گنجائش موجود ہے۔اگر مضمون کی طوالت کچھ کم کر دی جائے تو مضمون بہت بہتر ہو سکتا ہے ۔”
میں نے ان سے کہا جی ہم اس میں کچھ ترمیم کرکے آپ کو دوبارہ ارسال کرتے ہیں ۔”
دوسری طرف سے جواب آیا ۔
“نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔
ہم نے صرف اصلاح کی غرض سے آپ کو کال کیا ہے ۔اور جس شخصیت پر آپ نے مضمون قلم بند کیا ہے ۔وہ ہمارے بہت اچھے دوست ہیں ۔”
میں نے کہا تو پھر ۔؟
انھوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا ۔
مضمون عمدہ ہے۔ ‘لکین ہمارا ادارہ زنداہ شخصیات پر مضامین شائع نہیں کرتا ہے ۔’
بوجھ ۔
“کیا ہوا ؟۔ تمہارا چہرہ کیسے اترا ہوا ہے۔؟”
شوہر نے بیوی کو اُداس دیکھ کر کہا ۔
بیوی نے ڈرتے ہوئے جواب دیا ۔ “وہ, میں , میں, آج اپنا چیک اپ کرانے ہاسپٹل گئی تھی !۔”
” اچھا ,تو کیا ہوا ,کنفرم ہو گیا نہ بیٹا ہی ہے ۔؟” بیوی نے ہکلاتے ہوئے کہا ۔ہاں , نہیں ۔
ہاں , نہیں ,مطلب میں نے وہ …والا چیک اپ نہیں کرایا ہے ” ۔
“کیا پہلیاں بجھا رہی ہو ۔۔۔صحیح صحیع بتاؤ کیا بات ہے ۔؟”شوہر نے جھنجلاتے ہوئے کہا ۔
” تم جانتی ہو نہ ,میں اب پھر سے چوتھی بیٹی کا بوجھہ نہیں اُٹھا سکتا ۔
ورنہ تم یہ بوجھ ہی اُتار کے پھیک دو ۔”
سہارا ۔
“امی آپ اپنی بہو کو زیادہ پریشان نہیں کیا کریں ۔اگر آپ کا رویہ یہ ہی رہا تو مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو اولڈ ایج ہوم چھوڑ کر آنا پڑے گا “
میرے بیٹے نے مجھے ہدایت کی , اور اپنی بیوی کی خوبیاں گنواتے ہوئے کہا ۔
امی یہ سارا دن کام کرتی ہے ۔میں تو صبح کا دفتر چلا جاتا ہوں ۔بچوں کو اسکول چھوڑنے جانا ,پھر گھر کا کام, ان کے لئے کھانا تیار کرنا ,اور اسکول سے لینے جانا ,ان کی پڑھائی میں مدد کرنا ۔تمہارا خیال رکھنا ,اوپر سے آپ اس کو اتنا پریشان کرتی ہو ۔تھک جاتی ہےوہ بھی ۔ چھوٹے موٹے کام کبھی خود سے بھی کر لیا کرو ۔”
میں نے آہستہ سے ثاقب کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
“کیوں کرتی ہے بہو اتنا کام , اور بچوں کی دیکھ بھال ۔؟”
ثاقب نے ایک دم سے تنک کر جواب دیا۔
” تاکہ بچوں کا مستقبل روشن ہو سکے اور وہ ہمارے بڑھاپے کا سہارا بن سکیں ۔!”
***