You are currently viewing افسانچے

افسانچے

نورین خان پشاور

افسانچے

۱۔    ووٹ

پچھلے پانچ دنوں میں مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے ۔۔۔۔ آلو ، پیاز ، ٹماٹر کے ساتھ ساتھ ہر مہینے پیٹرول ، بجلی ، گیس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔۔۔۔۔ مہنگائی کی شرح میں ہر مہینے اضافہ ہی ہورہا ہے۔

اچھا رخصت۔

کہاں چلے فرید میاں۔۔

اپنے سر پے جوتا مارنے۔۔کیونکہ ان ہڈ حراموں کو میں نے ووٹ دیا تھا۔

۲۔   چارہ

سلام فقیر بھائی۔۔۔خیریت بڑے دنوں بعد ۔

ہاں بس مصروف تھا میرے دوست۔سوچا آج تم سے مل لوں۔آو قہوے کے دوکان پے قہوہ پیتے ہیں۔

چھوٹے دو پیالی قہوہ۔۔۔

تم نے سنا ہے کریم ۔۔

کیا کوئی ضروری بات ہے بھائی؟

ہاں ہاں مچھر کالونی ضلع پہاڑی میں منشیات مافیا نے ڈھیرہ جما لیا ہے۔

مچھر کالونی جرائم پیشہ افراد کے لئے جنت بن چکی ہیں۔اب ہمارے نوجوانوں کا کیا ہوگا؟

اے صاحب! ہوش کی باتیں کیجئے۔عقل کے ناخن لیجئے۔اب اصل حال عرض کروں۔

جی کریم بخش بھائی بولیے۔

فقیر بھائی؛ مچھر کالونی میں یہ مجرم مچھر ہمیشہ دھندھاتے پھیرے گے۔کیونکہ اعلی حکام بےبس ہے۔اور مقامی تھانیدار مال بنانے میں پیش پیش ہیں۔تو بتائیے جب وہ مجرموں کو گرفتار کرینگے اور پھر سفارش پر شام کو چھوڑے گے تو بھلا کیا فائدہ پکڑنے کا۔

ان مچھروں کو اڑنے دو اور اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرو کہ ایسی جگہوں سے دور رہیں۔

واقعی کریم بخش بھائی اب ایسا ہی کرنا پڑے گا۔

۳۔   تبدیلی

صبح سویرے ٹھٹرتی سردیوں کے دن رومال خان اپنی بیوی نوبہار گلاب کے لیے نانبائی سے گرم گرم روٹی لانے کے لئے نکلا۔اور کانپتے کانپتے رومال خان گھر واپس آیا۔۔

کیا ہوا میاں؟ آیک روٹی نہیں لا سکتے؟ توبہ ہے جوانی میں تو بڑے دعوے کرتے تھے کہ رومال خان تمھارے لئے چاند پر بھی چلا جائے گا۔ستارے تھوڑ لائے گا وغیرہ وغیرہ۔

ارے بیگم جانہ؛ آپ کیسی باتیں کرتا ہے۔وہ شادی سے پہلے ہم بےوقوف تھا۔مگر شادی کے بعد اب ہم سمجھدار ہو گیا ہے۔

یارہ آو ناشتہ کرتے ہیں۔

۴۔   سفید پوش

گیتی آرا؛ اجی سنتے ہو افطاری کا وقت قریب ہے اور آپ ابھی تک راشن نہیں لائے حد ہے بھئی۔

نواب صاحب؛ ارے پیاری بیگم اس ملک پاکستان میں کروڑوں عورتیں ہیں،گنواریں بھی ہیں،دیہاتینیں بھی ہیں،بگیمیں بھی ہیں،شریف زادیاں بھی ہیں۔مگر ایک ہماری بیگم گیتی آرا ہے جو ان سب عورتوں میں ایک پیس ہے۔

کیا کہا؟ نواب صاحب میں ایک پیس ہوں؟

میرا مطلب ہے انمول رتن یعنی آپ سب سے الگ ہو۔اب دیکھو بارہ بھی نہیں بجے اور میرا مغز کھا رہی ہو کسی چنڈال کیطرح۔

گیتی آرا بیگم میں نے سنا ہے محلے میں مفت راشن تقسیم ہو رہا ہے۔وہاں چلا جاونگا اب لوگوں کو کیا پتہ کہ ہم خاندانی نواب اور رئیس لوگ اس حد تک مفلس ہو چکے ہیں۔

مگر نواب صاحب مجھے کل لیاقت علی خان کی بیگم نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے جو راشن تقسیم ہو رہا ہے وہ من پسند اور منظور نظر لوگوں میں بانٹا جا رہا ہے۔مفت راشن سکیم سے لوگوں کو فائدہ ہونے کے بجائے انکی عزتوں کو نیلام کیا جارہا ہے۔جس سے غریب اور لاچار طبقے کا استحصال جاری ہے۔لہذا ہم جیسے نوابوں کا کوئی چانس نہیں۔

ہاں بیگم گیتی آرا آپ ٹھیک کہتی ہے۔حکومت نے وعدہ تو کیا تھا مفت راشن کا کہ لوگوں کے گھروں میں باعزت طریقے سے پہنچائیں گے مگر گھروں کو پہنچانے کے بجائے ضرورت مند افراد کو دھکے کھا کر بھی راشن نہیں مل رہا،میں نے سنا ہے کہ خواتین سارا دن روزے کی حالت میں دھکے کھا کر خالی ہاتھ ہی گھروں کو واپس لوٹ جاتی ہیں۔عوامی نمائندے اپنے منظور نظر لوگوں کو راشن دے رہے ہیں۔

گیتی آرا؛ نواب صاحب آپ مسجد جائیں میں نے جو کمیٹی ڈالی تھی اسی سے گھر کا سودا سلف لے آونگی۔اب اپنے شوہر کو رسوا تو نہیں کر سکتی۔

۵۔   زبانی کلام

ارے یہ کون ہے شریف؟

یہ ہمارے علاقے کے نئے تھانیدار جی ہے بھائی۔

ہماری اولین ترجیح عوام کی جان و مال کی حفاظت ہے۔عوام اگر ہمارا ساتھ دے تو پولیس جرائم کی بیخ کنی کر سکتی ہے۔

عوام کے تعاون کے بغیر جرائم کی روک تھام ناممکن ہے۔عوام بلا جھجک تھانے آئے۔

مگر صاحب آپ تو رمضان میں کوئی کام نہیں کرتے۔

چھپ رہو بےوقوف یہ تو محض زبانی کلام ہے عوام کو شیشے میں اتارنے کے لئے۔

اخبار والے ذرا میری فوٹو لینا عوام کیساتھ۔

۶۔   زکوٰۃ ادا نہیں کرتے

شہید بھائی؛ آپ نے سنا سیٹھ بلال احمد کے گھر چوری ہوئی ہے۔سب کچھ ہاتھ سے گیا۔افسوس!

کاروبار میں لاکھوں کا مال تجارت لگا ہوا ہے لیکن اے حضرت؛ جب زکوٰۃ کی ادائیگی کا کوئی اہتمام نہیں۔سونا ہے، چاندی ہے عورتوں کے پاس لیکن زکوٰۃ ادا نہیں کرتیں۔

پھر کہتے ہیں کہ ڈاکہ پڑ گیا۔ ایک ہی دفعہ چلا جاتا ہے پھر سارا مال۔ یا تو مال چلا جائے گا یا جان ہی چلی جائے گی۔

شہید بھائی لاجواب۔

جناب وزیر اعلی صاحب آپ نے سب مزدوروں کے حق میں بات کی مگر آخبار فروش جو طوفان آئے برسات آئے کڑے دھوپ میں صرف 600 روپے ڈیلی ویز پر کام کرتے ہیں ھمارے لیے آج تک کسی نے آواز نھیں اٹھائی بھائی جان پاکستان ھیں یہاں پر مزدور کی اجرت آج تک کسی نے پوری نھیں دی۔

وزیر اعلی ٹشو سے ماتھے پے پسینہ پونچھتے ہوئے۔

۷۔رمضان راشن سکیم

ارے کمہار بھائی یہ حکومت نے بھی ہم غریب عوام کو اچھی ٹوپی پہنائی ہے۔راشن تقسیم کے نام پے۔

ہاں سچ کہا مسکین بھائی اگر 50 پچاس ہزار گیس بجلی کے بل تھما کر ایک مفت آٹے کا تھیلا دینا کسی مزاق سے کم نہیں،بجلی گیس سستی کرو عوام آٹا خود خرید لے گی۔

۸۔   توبہ

جلدی کرو عمران دودھ میں اور پانی بھی ملاو۔جلدی کرو۔

سامنے سے رومال خان دودھ والے کے پاس آرہا ہے۔

اوئے ! خانہ خراب کا بچہ۔۔ عمران

تم رمضان میں دودھ میں پانی ملا رہا ہے کم بخت کا بچہ۔شیطان تو جیل میں بند ہے پھر یہ کس کے کہنے پے ملاوٹ کر رہا ہے۔

رومال خان ایک تو تم ہر جگہ پایا جاتا ہے۔

او کنہ یارہ! ہم بلوچستان میں بلوچ کی شکل میں پایا جاتا ہے۔اور خیبر پختون خواہ میں خان کی شکل میں پایا جاتا ہے۔

آج ہم اپنی بیوی چادر بی بی کے لئے دودھ خرید رہا تھا کہ آج رومال خان افطاری میں دودھ پتی چائے پئے گا۔مگر یہاں تم خانہ خراب کا بچہ ملاوٹ کرتا ہے۔صبر میں پورا محلے کو بتاتا ہے۔

ارے نہیں نہیں رومال خان یہ دیکھو ہم کان پکڑتا ہے۔آئندہ ایسا نہیں کرے گا۔ہماری باپ کی بھی توبہ۔

خا زا ٹھیک دہ۔

***

Leave a Reply