ڈاکٹر جاوید حسین پالوجی شارب ۔۔ ممبئ
افسانہ۔ حکمت
دونو ں کی شاد ی کو قریب آٹھ سا ل ہوگے تھے۔ ایک پانچ سالہ بچی تھی زندگی پرسکون گذر رہی تھی۔ عمران ہمیشہ ٹور پر رہا کرتا تھا بڑی اچھی ملازمت تھی گھر میں کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ جس طریقے کی ملازمت تھی وہاں عمران کا ملنا کافی لوگوں سے ہوا کرتا جن میں مرد عورت دونوں ہی ہوتے ایسے میں بار بار ملنے ملانے سے کبھی کبھی کسی خاص شخص سے دوستی ہونا، قربت بڑھنا ایک عام سی بات ہے اور وہی ہوا عمران کے ساتھ ۔ وہ ساتھی ایک عورت تھی بڑی خوبصورت پڑ ھی لکھی قابل افسر۔ آفس کی ڈیلنگ کے ساتھ ساتھ دونوں کا قریب آنا اپنایت اور پیار میں بدل گیا۔ گاہے گاہے دونوں فون پر بھی رابطہ رکھتے۔ کہتے ہیں نا عشق اور مشک کبھی نہیں چھپتے، ایک دن کسی طرح تحریر کو پتا چل گیا اور پھر اکثر ہی گھر میں مہا بھارت ہونے لگی۔ گھر میں تینوں کے علاوہ اور تو کوئی تھا نہیں۔ عمران کا ایک بھائی تھا جو لندن میں مقیم تھا ماں باپ گاؤں میں رہتے تھے اب بات کریں تو کس سے، لے دے کر تحریر کی ماں۔ بھابی اور بھائی، اس نے بھی بچی کی پیدائش پر اپنی اچھی بھلی نوکری چھوڑ دی تھی۔ گھر میں روز روز کے جھگڑے، ایک دن جب عمران ٹور پر چلا گیا تو اس نے اپنی بھابی سے بات کی پھر بھابی، بھائی اور ماں نے آکر اسے رشتے کی اونچ نیچ اور نزاکت کو سمجھایا۔ آپسی تال میل پر صلح صفائی اور بچی کی خاطر تھوڑا بہت در گذر اور صبر کی تلقین کی۔ بھائی نے اپنے رسوخ سے خاموشی سے عمران کے سی او سے بات کرکے اسکی ٹرانسفر دوسرے شعبے میں کرانے کا یقین دلایا۔ چند دنوں میں اللہ کا کرنا بھی ایسا ہوگیا کہ عمران کا کمپنی میں پرموشن ہوگیا اور اسے اب کمپنی ہی میں بیٹھ کر ڈیوٹی انجام دینی تھی۔ حالات خود بخود ٹھیک ہوگۓ گھر کے معمولات میں سکون اور ٹھہراؤ آگیا لیکن چند مہینوں بعد وقت نے پھر کروٹ لی جو لذت اسے چوری چھپے دوستی میں مل رہی تھی وہ کہاں ختم ہوتی اب آفس ہی میں اسکی دوستی اپنی ہی سیکریٹری سے ہوگی پھر وہی پہلا والا معاملہ زور پکڑنے لگا۔ گھر میں پھر وہی کشمش، مہینوں اسی ماحول میں نکل گۓ ۔ حالات جب پیچیدہ ہونے لگے تو پھر وہی اسرا، ماں، بھائی بھابی ۔ اب تو دونوں ایک ہی شہر میں رہنے والے عمران زیادہ دیر گھر سے باہر رہنے لگا گھر کا سکون جیسے تہس نہس ہوگیا عمران سے بات کرنے پر بھی کوئی حل نہیں نکلا حالات اور زیادہ خراب ہونے لگے ۔بس دوسروں کی مداخلت اسے کھٹکنے لگی جو کبھی اپنے تھے پراۓ لگنے لگے، وقت ایسے ہی گذر رہا تھا کہ ایک دن بھابی نے اسے بلایا بولی ایک حل بتاتی ہوں آجا، دیکھیں کہاں تک کام کرتاہے۔۔۔!
جب تحریر گھر پہنچی تو کافی د یر ہوچکی تھی ملازمہ بچی کے ساتھ بیٹھی کھیل رہی تھی وہ فوراً کیچن میں پہنچی تبھی عمران آیا بولا بھوک لگی ہے۔ وہ بولی ابھی وقت لگے گا کچھ بھی بنا نہیں ہے ۔وہ بولا کیوں کیا بات ہے وہ زرا اونچی آواز میں بولی میں بھی ا بھی ابھی با ہر سے آئی ہوں وہ چونک پڑا بولا با ہر سے، ہاں ہاں کیوں میں کسی کو ملنے نہیں جاسکتی کیا؟ وہ کچھ نہ بولا ابھی وہ کیچن کے دروازے ہی میں تھا کہ فون کی گھنٹی بجی تحریر نے لپک کر فون ریسیو کیا ۔بڑے پیار و محبت سے وہ بات کر نے لگی وقت یوں ہی گذرتا رہا آدھے گھنٹے بعد اس نے فون رکھا اور وہ سوچتا رہ گیا کہ اس وقت کس کا فون ہوسکتا ہے ۔ اور باتیں بھی اتنی رسیلی کیا کوئی بوۓ فرینڈ کوئی دوست تو نہیں لیکن اسے پوچھنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی وہ بھی تو اسی بوٹ میں سفر کر رہا تھا۔ اب اکثر یہی ہونے لگا جب بھی وہ گھر پہنچتا تحریر کا فون بجنے لگتا پھر کیا آدھا گھنٹہ اور کیا ایک۔ اکثر وہ کوشش کرتا کہ کال کر نے والے کا نام کم از کم دیکھ لے اور تحریر بھی کچھ اس طرح کرتی جیسے نام چھپانا چاہتی ہو پر گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ میں نام عمران کو دیکھائی پڑتا۔ کبھی علی عباس ( آفس ) کبھی علی عباس ( ہوم ) تو کبھی علی عباس ( ورکشاپ) وہ پریشان ہوجاتا کہ آخر کیا ماجرہ ہے۔ کوئی سہیلی کوئی رشتدار تو نہیں لگتا، پھر نام تو مکمل طور پر سمجھ میں نہیں آرہے ہیں پھر تین تین لوگ، کیسے ممکن ہے وہ جتنا سوچتا اتنا الجھتا جاتا۔، لیکن پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی، سوچتا اگر سوال کروں تو مجھے بھی جواب دینا پڑے گا اور سارا الزام میرے ہی سر آۓ گا۔ آخر کرے تو کیا کرے ۔ مرد پیار اور محبت تو کسی سے بھی کرسکتا ہے لیکن اپنی بیوی کو کسی سے محبت کرتے برداشت نہیں کر سکتا ۔گناہ تو وہ بھی کر رہا تھا لیکن اپنی بیوی کو دوسرے کے ساتھ دیکھ کر مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا اب اس کا ضبط بھی جواب دے چکا تھا اس کا احساس ہی اسے ملامت کر نے لگا تھا لیکن کوئی راستہ دیکھائی بھی نہیں دے رہا تھا۔ تحریر کی ماں، بھائی، بھابی اسے اونچ نیچ بتا چکے تھے اور اس نے ان کی سننے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ اب وہ سمجھ گیا تھا، اس نے اپنے ہاتھوں ہی اپنی اتنی اچھی فیملی لائف برباد کر دی تھی ۔ کئی دن کئی مہینے اسی کشمکش میں نکل گۓ آخر اس کے دماغ میں ایک آخری اور بہت ہی نازک حل ہلچل مچانے لگا اور اس نے اس پر عمل کرتے ہوۓ اپنے تمام باہری رشتوں کو ختم کرکے تحریر سے معافی مانگ کر زندگی کو پھر سے ایمانداری سے نبھانے کی ٹھان لی۔
ایک دن اس نے آفس سے چھٹی لی کافی د یر گۓ سوتا رہا پھر ناشتہ کر نے کے بعد کبھی کیچن تو کبھی بیڈ روم کے چکر لگاتا رہا اسی ادھیڑ بن میں شام ہوگئی اسکی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی بچی بھی اسکول سے آگئی تھی تھوڑی د یر بچی
کے ساتھ کھیلنے کے بعد وہ اچانک تحریر سے بولا آو کچھ بات کرنی ہے۔ وہ بولی میں جھگڑنے کے موڈ میں نہیں ہوں اگر ایسی ہی کوئی بات ہے تو مجھے معاف کرنا، وہ بولا نہیں سچے دل سے کچھ کہنا ہے ایک نئی زندگی کی پھر سے شروعات کرنی ہے مجھے احساس ہوگیا ہے دوسروں کی بیوی سے پیار محبت کے نتائج کیا ہوتے ہیں، بولو معاف کروگی۔ اب جو دور گذر گیا وہ گذر گیا پھر کبھی واپس نہیں آۓ گا صرف ایک دفعہ کہہ دو کہ معاف کروگی میں سمجھ سکتا ہوں میری وجہ سے ہی تم کہیں جھک گئی تھی اور تمھارے پاس راستہ بھی کیا تھا، عورت پیار کی بھوکی ہوتی ہے اور اگر گھر میں نا ملے تو۔۔۔۔ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ میں نہیں پوچھوں گا تمھیں کس کے فون آتے ہیں گنہگار تو میں ہوں مجھے ایک بار معاف کرو۔ مجھے پھر سے اپنا کر مجھے جینے کا حق دے دو۔ وہ کچھ نہیں بولی اپنا سر اس کے کندھے پر رکھ کر بولی، مرد کتنا بھی بھٹک جاۓ عورت شادی کے بعد کبھی نہیں بھٹکتی اس کا شوہر جیسا بھی ہو اسکا اپنا ہوتا ہے وہ دوسرے کی طرف دیکھنا بھی گناہ سمجھتی ہے۔ اسی وقت فون کی گھنٹی بجی وہ بولی اتنے دن چوری چھپے میرے موبائل پر آنے والے کال کی وجہ سے تجسس تھا نا آؤ میرے بوۓ فرینڈ سے بات کرلو۔ اس نے موبائل اسکی طرف بڑھایا اس کی ہچکچاہٹ دیکھ کر وہ بولی آپ کی والی کی تو آپ نے شکل بھی نہیں دیکھائی میرے والے سے ہی بات کرلو اور اس نے فون اس کی طرف بڑھایا اسکرین پر نام علی عباس دیکھ کر وہ سہم تو گیا لیکن کچھ د یر پہلے کہی باتیں سوچ کر خاموش رہا۔ اس کی ہچکچاہٹ محسوس کرکے تحریر نے کال ر سیو کرکے موبائل اسکی طرف بڑھایا بولی بات تو کرو ۔ اس نے مری مری آواز میں ہلو کہا اور فوراً جواب میں تحریر کی بھابی کی آواز سن کر ایسا سٹپٹا گیا کہ
اسے سنبھلنے کیلۓ تحریر کا سہارا لینا پڑا۔۔۔!
وہ بولی ایک نہیں اور دو باقی ہیں بات کرو گے؟ وہ بولا کچھ نہیں بس تحریر کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کرسی پر بیٹھ گیا!!!
…………………………………………….