You are currently viewing افسانہ “رونے کی آواز” : چند تاثرات

افسانہ “رونے کی آواز” : چند تاثرات

علی احمد صابر

نئی دہلی

افسانہ “رونے کی آواز” : چند تاثرات

سریندر پرکاش جدید افسانے میں ایک نئی سوچ اور نیا تجربہ لےکر داخل ہوئے۔ درست کہا جاتا ہے کہ اُنھوں نے علامت کو محض فیشن کی وجہ سے اختیار نہیں کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک حد تک جدید افسانہ نگاروں نے علامت نگاری کا گر انہیں سے سیکھا تھا۔ سریندر پرکاش اصل میں ایسی کہانیاں لکھنا پسند نہیں کرتے جو بلکل واضح ہو اور جس کا معنی پہلے سے متعین ہو۔ آسان لفظوں میں کہیں تو وہ پرانی روایت پر چلنے کے حق میں نہیں تھے۔ اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ایسا کچھ کر رہے تھے جنکا حوالہ پچھلوں میں نہ ڈھونڈا جا سکے۔ واقعہ بس اتنا ہے کہ پہلے کے افسانوں میں منطق کا زور زیادہ تھا۔ یوں کہئے کہ پلاٹ کی اہمیت کچھ زیادہ ہی تھی اور اس پر مستزاد یہ کہ پلاٹ میں ارسطوئی فلسفہ غالب تھا۔ بہ الفاظ دیگر، واقعات کے معاملے میں علت و معلول کا باقاعدہ خیال رکھا جاتا تھا، واقعات کے بجائے کردار کو اہمیت بخشی جاتی تھی۔ فاروقی نے درست لکھا ہے کہ یہ رجحان دراصل ہینری جیمز کی کتاب “دی آرٹ آف فکشن” کی پیداوار تھا۔ اس رجحان کے تحت یہ مانا جانے لگا تھا کہ اوّل تو افسانے میں ایک کہانی ہو، پھر اس کہانی میں کردار کو اہمیت بخشی جائے اور کردار کو اہمیت بخشنے کی للک میں ایک نقطہ نظر صاف صاف نظر آئے۔ سریندر پرکاش کے یہاں یہ سب نہیں ملتا۔ وہ کوئی خیال یا تاثر لیتے ہیں پھر اس میں علامت و تمثیل و اساطیر کے حوالے سے کئی واقعات بیان کرتے جاتے ہیں اور اس طرح تخلیق کے دوران ہی معانی قائم ہوتے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اُردو قاری کو اس کی عادت نہیں تھی اس لئے وہ ان افسانوں کو چیستاں سمجھنے لگے۔ حالانکہ، جیسا کہ “رونے کی آواز” افسانے کے تجزیے سے ظاہر ہوگا، یہ ایک بڑی زیادتی تھی۔  شکلوسکی نے بھی تو یہی کہا تھا نہ کہ فن کی میزان اصل میں تکنیک ہے۔ فن کار کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ آپ کو کسی مسئلے کی معلومات فراہم کرے یا کوئی نقطہ نظر فراہم کرے۔ اُس کا کام تو بس اتنا ہے کہ وہ چیزوں کو ایسے پیش کرے کہ آپ کو اچھوتا لگے اور آپ جمالیاتی حظ سے سرفراز ہوں۔ پھر سریندر پرکاش کے ہاں تو فقط اچھوتا پن ہی پیدا کرنے کی روش نہیں ہے وہ تو آپ کو فکر و خیال بھی عطا کر رہے ہیں۔ ضرورت بس اتنی ہے کہ نئے تکنیکوں کو سمجھیں کہ کس طرح معنی پیدا کیا گیا ہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ “فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا” تو اگر آپ جدید افسانہ کے دلدادہ ہیں تو پھر نگاہ اُلفت سے افسانہ کو دیکھئے تو سہی۔ یقین مانئے محبت کی نگاہ اٹھے گی تو افسانوں کے بطون سے حُسنِ معنی لازماً جلوہ نما ہوگا۔

اب آئیے ذرا افسانہ پر غور کریں۔ جیسا ہے کہ نارنگ نے “دوسرے آدمی کے ڈرائنگ روم” کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کا خلاصہ پیش کرنا مشکل ہے ٹھیک اسی طرح “رونے کی آواز” کا خلاصہ بھی مشکل ہے۔ تاہم، افسانے پر غور کرنے کے لئے یہ ضروری بھی ہے کہ ایک چھوٹا سا خاکہ ضرور پیش کیا جائے۔

ایک  مغربی شخص ملک ملک پھر رہا ہے اور ایسے ہی ایک دن وہ راوی سے شام کو ملتا ہے اور ایک انگریزی نغمے کا ایک سطر سناتا ہے( فلاور انڈر دی ٹری از فری)۔ راوی کو مغربی موسیقی پسند نہ ہوتے ہوئے بھی وہ سطر کافی پسند آتا ہے۔ ملاقات کے دوران وہ شخص بتاتا ہے کہ دن میں اسے طالب علموں کے گروہ نے گھیر لیا تھا اور پھر اُن لوگوں میں شراب نوشی بھی ہوئی تھی۔ مزید بتاتا ہے کہ وہ آٹھ سال سے پھر رہا ہے تا کہ اسے کوئی اپنا ہم شکل ملے مگر اب تک نہیں ملا۔ راوی بولتا ہے کہ میرا ہم شکل کہیں نظر آیا تو وہ جواباً کہتا ہے کہ “ہاں، اسکینڈینیویا میں!”۔ پھر وہ دونوں لوگ رات گئے گھومتے رہے اور بالاخر راوی کے گھر میں پہنچے۔ وہ آدمی راوی سے پوچھتا ہے کہ تم اچھے خاصے معمولی انسان تو ہو، شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ وہ جواب میں وشنو اور لکھشمی اور سرسوتی کے حوالے سے جواب دیتا ہے تو آدمی یہ سن کر اچانک سے بھاگ جاتا ہے۔ غور طلب یہ ہے کہ پرکاش نے اس کے جانے کے لئے جو جملہ استعمال کیا وہ یہ تھا, ” ۔۔۔وہ کبھی کبھی مجھے گوشت پوشت کے آدمی کے بجائے کوئی خیال لگتا ہے جو سمندر پار سے یہاں آ گیا ہو”۔ اُس کے جانے کے بعد، راوی اپنے بستر میں لیٹ جاتا ہے  اور تبھی اسے بچے کی آواز سنائی دیتی ہے، جس کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ ” بچے کی رونے کی آواز میری آواز سے کتنی ملتی جلتی ہے”۔ اس سے پہلے وہ اسی آواز کے بارے میں لکھ چکے ہیں کہ ” پھر مجھے لگتا ہے کہ ایک بچہ میرے ہی پہلو میں پڑا رو رہا ہے۔ اور کفن میں لپٹی ہوئی میری لاش میں کوئی حرکت نہیں ہے”۔ اس کے بعد اچانک اسے یہ بات یاد آتی ہے کہ مغربی آدمی نے اسے معمولی کہا تھا اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ وہ سچ میں کتنا معمولی ہے۔ پھر اسے اپنے آفس کا خیال آنے لگتا ہے، تھیٹر میں اُس کا رول یاد آنے لگتا ہے، لاکر میں اپنی ذات کو قید کرنا یاد آتا ہے، پیشاب خانے میں بند رہ جانے کا کھٹکا یاد آتا ہے۔ آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسے پھر سے بچے کی آواز تیز تیز سنائی دینے لگتی ہے۔ وہ پہلے سوچتا ہے کہ اپنے کمرے کی دیوار توڑ کر ہی اُس بچے کی بے بسی کو دیکھ لے لیکن یہ ممکن نہ تھا۔ چونکہ اس کو یہ بھی لگتا تھا کہ پڑوسی ہونے کا فرض ہے کہ دوسروں کی بے بسی میں شریک ہونا چاہئے اس لئے وہ خود وہاں جاکر دیکھنا چاہتا ہے۔ جیسے ہی جانے کے لئے دروازہ کھولتا ہے وہی بچہ، اُس کا باپ اور اُس کی ماں سب دروازے پر ملتے ہیں  اور بیک زبان کہتے ہیں ” کیا بات ہے آپ اتنی دیر سے کیوں رو رہے ہیں؟ ایک اچھے پڑوسی ہونے کے ناطے ہم نے اپنا فرض سمجھا کہ۔۔۔۔۔۔”۔ افسانہ یہیں پر ختم ہوتا ہے

یہ افسانہ سراسر علامتی و تمثیلی ہے۔ یہ بحث بیکار ہے کہ دونوں تکنیکیں کیسے ایک ساتھ ہو سکتی ہیں؟ بس اتنا عرض ضروری ہے کہ دونوں میں حد فاصل کرنا مشکل ہے۔ فاروقی کے مطابق علامت کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کوئی تاریخی، اسطوری یا کوئی بھی تہذیبی حوالہ ہو۔ دوسری طرف، تمثیل میں بس ایک چیز کو خود کے معنی کے علاوہ دوسرے معنی میں بھی لے سکتے ہیں۔ مثلاً اینیمل فارم( جانورستان) از جیورج اورویل ایک تمثیل ہے کیونکہ اس میں جانوروں کے کردار اور اُن کے واقعات کے فی نفسہ مفاہیم کے علاوہ دیگر مفاہیم بھی لئے جا سکتے ہیں۔ جیسے کہ استالینی حکومت پر طنز( بیشتر یہی مانا گیا ہے) یا پھر سرمایہ داری نظام پر ایک طنز( نوم چومسکی)۔ فاروقی کی رو سے یہ علامت نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں کوئی تہذیبی حوالہ نہیں ہے۔ اول بات تو یہ کہ یہ تعریف جابرانہ اور مطلقانہ ہے۔اُنھوں نے خود ایک جگہ ارسطو کے حوالے سے لکھا ہے کہ المیہ کی تعریف پیش کر کے وہ المیہ کے ساتھ نا انصافی کرتا ہے، تو پھر اُنھوں نے علامت اور تمثیل کے لئے اتنے جامد تعریفات کیوں پیش کیے؟ دوسری بات یہ کہ تمثیل اور علامت دونوں اصل میں توسیعی استعارے کی مثالیں ہیں اور انہیں اسی اعتبار سے دیکھنا چاہئے۔ خیر، متعلقہ افسانہ تو فاروقی کی تعریف کے مطابق بھی علامت قرار دیا جائےگا کیونکہ اس میں “گلی ور”، وّیشنو اور سرسوتی اور لکھشمی کے حوالے آئے ہیں جو اسے علامت کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ دوسری طرف، مغرب کی موسیقی،  لاکر میں ذات کو رکھ دینا، پیشاب خانے میں بند ہو جانے سے خائف ہونا، بچے کا رونا، کفن جیسی سفید چادر پہننا وغیرہ تمثیلی نوعیت کی مثالیں ہیں

اگر غور کریں تو یہ مغرب کا آدمی ہمیں انگریزی سامراج نظر آ سکتا ہے۔ راوی، جو کہ ایک کالونیل سبجیکٹ ہے، مغربی موسیقی یعنی کہ مغربی بیانیہ( جسے ایڈورڈ سعید اوریئنٹل اژم کا نام دیتا ہے) سے گرچہ مرعوب نہیں ہے، باوجود اس کے وہ موسیقی اُس پر اثر کر جاتی ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ نو آباد کاری  آئیڈیالوجی کس حد تک جاگزیں ہو چکی تھیں۔ اس بات کو محسوس کرنے کے لئے یہ دھیان میں رکھا جائے کہ وہ گروہ جس سے دن کے اجالے میں وہ آدمی ملا تھا وہ دراصل طالب علموں کا گروہ تھا۔ یہاں اشارہ دراصل اُس متوسط طبقے کی طرف ہے جنہوں نے آنکھ بند کر کے مغربی بیانیہ کو قبول کیا تھا۔ شاید اسی لئے افسانہ نگار نے کہا ہے کہ اُن لوگوں میں شراب نوشی بھی ہوئی تھی۔ یہ شراب در اصل اسی بیانیہ کا شراب ہو سکتا ہے۔ راوی پر اثر کرنے والا سطر بھی اسی بیانیہ کا بڑا حصہ تھا۔ سوچا جائے تو یہ سطر رڈیارڈ کپلنگ کے اُس فکر سے معنوی طور پر یکسر میل کھاتا ہے کہ سفید پوش لوگوں کی ذمےداری ہے کہ وہ ” دوسروں” کو تہذیب و تمدّن سکھائیں اور اس طرح انہیں ” آزادی” کے مفاہیم سے واقف کرائیں۔ اُس آدمی کا ملک ملک پھرنا، اپنے ہم شکلوں کو ڈھونڈھنا بھی سامراج کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ وہ راوی کو شام میں نشے کی حالت میں ملتا ہے۔ یعنی اپنی بیانیہ کے نشے میں ( کہ انگریزی سامراج کا سورج کبھی نہیں ڈوبے گا)۔ اس سے معلوم ہوا کہ راوی سے اُس کی ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب کا اصل میں وہ سورج ڈوبنے والا ہے۔ افسانہ نگار نے اس کے بعد ایک باریک اور فکر انگیز نکتہ پیش کیا ہے۔ اُس  آدمی کا راوی کے گھر میں آنا گویا آزادی کی طرف اشارہ ہے مگر آزادی کے باوجود وہ آدمی اسی کے گھر میں بیٹھ کر اُسے ہی معمولی بھی کہتا ہے اور معمولی ہونے کی وجہ سے شادی کرنے کو بھی کہتا ہے۔ یہ لطیف نکتہ یوں  ہےکہ ازادی کے بعد بھی اب تک ہمارے اذہان میں کلونیل ذہنیت بسی ہوئی ہے اور وہ ہم پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ یہ کیونکر؟؟ معمولی کہنا دراصل  احساس کمتری کو اُبھارنا ہے اور یہ کہنا کہ “معمولی ہو اسلئے شادی کر لو” برصغیر کی تہذیب پر طمانچہ مارنا بھی ہے۔ انگریزوں نے ہمیشہ سے یہاں کی تہذیب کو زلیل خوار جانا، حتٰی کہ انہیں وحشی تک قرار دے دیا۔ یہاں شادی کی طرف اشارہ یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ معاشرہ جہیز کو لعنت نہیں بلکہ رحمت سمجھتا ہے۔ راوی جب اس کے جواب میں وشنو، لکھشمی اور سرسوتی کے حوالے سے اپنی بات رکھتا ہے تو وہ آدمی جھٹ سے وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔ بھاگ جانے میں ایک گہری معنویت پوشیدہ ہے۔ افسانہ نگار یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ سیاسی آزادی کے باوجود وہ ہمارے ذہن میں نفوذ کئے ہوئے ہیں۔ اس ذہنیت سے آزادی چاہئے تو اپنی روایتوں کی پاسداری کرو۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو افسانہ نگار ہمیں ایک اپنی بیانیہ قائم کرنے کی بات کر رہا ہے۔

افسانے میں صرف اور صرف یہی نہیں ہے۔ اگر اتنا ہی ہوتا تو پھر سریندر پرکاش سریندر پرکاش نہیں ہوتے۔ اُن کے ہاں کوئی ایک مخصوص تاثر پوری منطقی ترتیب و تفصیل کے ساتھ اجاگر نہیں ہوتا۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ ہر ایک تاثر میں کئی تاثرات کی جھلکیاں چھپی ہوتی ہیں۔ فاروقی نے صحیح لکھا ہے کہ سریندر پرکاش کے افسانے دراصل خوابستان کا بیانیہ( Narrative of the dreams) ہیں۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جس طرح خواب میں کئی چیزیں بیک وقت ہوتی رہتی ہیں اور ہم اُن پر تعجب بھی نہیں کرتے، ٹھیک اسی طرح، ہمیں سریندر پرکاش کے افسانے تعجب خیز نہیں لگنے چاہئے۔ کہنا یہ مقصود تھا کہ اس افسانے میں پوسٹ کولنیل تھیم کے علاوہ وہ تھیم بھی ہے جو جدیدیت کا مابہ الامتیاز سمجھی جاتی رہی ہیں: تنہائی، خوف، زمانے کی ریاکاری، ذہنی کشمکش، کرب، گھبراہٹ، فرد کی جگہ “ٹائپ” بننے کی مجبوری وغیرہ۔ راوی کو لیٹے لیٹے خیال آتا ہے کہ وہ کفنی اوڑھ کے لیٹا ہے۔کبھی بچے کی آواز سے پریشان ہونا اور کبھی اپنی معمولی حیثیت پر غور کرتے ہوئے الگ الگ باتوں میں الجھ جانا اس بات پر دال ہے کہ شاید راوی سو ہی رہا ہے اور سوتے سوتے اسے یہ سب سوجھ رہا ہے۔ آفس کے لاکر میں ذات کو رکھ دینا اور سیڑھی چڑھتے وقت خوبصورت لڑکی کی طرف جھاںکنا بھی تمثیل ہے اس بات کی کہ راوی کریئر اور نفس کے  کشاکش کو پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تھیٹر میں مجھے نیا میک اپ لگا کے گلی ور( Gulliver) بنا دیا جاتا ہے اور پھر لیلیپٹ ( Lilliput) کے لوگ سوئیاں چبھوتے  ہیں اور میں یہ درد خموشی سے سہتا جاتا ہوں۔ مکالمے بھی کسی اور کے ہوتے ہیں۔ کیا ان باتوں کے پردے میں راوی ہمیں آج کے ٹیکنالوجی، سرمایہ، صارفیت، مصنوعی ذہانت اور الگورتھم کی گرفت سے آگاہ نہیں کر رہا اور کیا اس پس منظر میں ہماری بے بسی کو اجاگر نہیں کرتا۔ یہی وہ بےبسی ہے جسے وہ خواب میں  گھر سے باہر بچے کی رونے کی آواز میں محسوس کرتا ہے۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ اس کے اندر کا معصوم بچہ خود اس كرب کو محسوس کرتے ہوئے چیختے ہوئے رونے لگا تھا۔ افسانے کا آخری جملہ کم سے کم یہی تاثر چھوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ آخر میں ایک بات اور عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ افسانہ نگار  نے آخری جملے کو ناتمام چھوڑکر یہ بھی ثابت کر دیا کہ یہ معاملہ بڑا پیچیدہ ہے اور اسکا حل یا اختمام اتنا آسان نہیں ہے۔

***

Leave a Reply