ڈاکٹر عیسیٰ محمد
کرگل لداخ
افسانہ ــ ــــــــ”پہلاخط” کا مطالعہ
افسانہ،، پہلا خط،، خطہ لداخ کے پہلے ناول نگار پہلا باقاعدہ افسانہ نگار عبدالغنی شیخ کے افسانوی مجموعہ ،دو ملک ایک کہانی، میں شامل ہے۔ان کا یہ افسانوی مجموعہ ۲۰۱۵ء میںشائع ہواہے۔
افسانہ پہلا خط، میری نظر میں اس مجموعہ کا ایک اہم افسانہ ہے جس کے مطالعہ سے ہمیںکرگل سے متعلق بہت اہم معلومات،یہاں کی منفرد قبیلہ،درد، کی روداد،۱۹۹۹ء کی جنگ سے پہلے کی صورت و کیفیات، دوران جنگ کی حالات سے آگاہی حاصل ہو جاتی ہے۔
کہانی میں نو کردار ہیں جو اس طرح ہیں۔
حسن کہانی کا مرکزی کردار
زینب
حسین حسن کا بھائی
حسن کا اماں،ابا
حسین کا پوتا اصغر
حسن کا پوتا اصغر
گل سینگے
کہانی کے آغازسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کہانی کرگل جنگ پر مبنی ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وجود پاکستان سے بہت سے افراد خانہ ایک دوسرے سے بچھڑ کر رہ گئے تھے۔کچھ گاوں جو کرگل تحصیل کا حصہ تھے وہ پاکستان کے حدود میں چلے گئے تھے۔ان باتوں کا اظہارمصنف نے کہانی میں کیا ہے۔افسانہ،، پہلا خط،، کے مطالعہ سے کرگل جنگ کا منظر آنکھوں کے سامنے پھیرنے لگتا ہے،اور اس دور کی یادیں جوتحت شعور میں آرام کر رہیں ہوں یک لخت بیدار ہو کر لا شعور کی حدوں کو پار کرتے ہوئے ہمارے شعور کو جھنجھوڑنے کا کام کرتی ہے۔اس سلسلے میں کہانی سے یہ اقتباس
،،کارگل کی لڑائی ختم ہونے کے بعد سرحد پار سے بھائی کا موصولہ پہلا خط درد ناک خبر لایا۔ دو روز پہلے کارگل سے میں نے بھی بھائی کے نام لیٹر بکس میں جو خط ڈالا تھا اس میں بھی ایسی ہی درد ناک خبر تھی۔،،
مصنف نے یہاں یہ تو بتا دیا کہ سرحد پار سے ایک خط موصول ہوا اور ایک درد ناک خبر لایا ہے لیکن خبر کیا تھی اس کاانکشاف نہیں کیا۔گو خط کس نوعیت کی ہے۔اس سے آشنا ہونے کی چاہ میں قاری کہانی کا مکمل مطالعہ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
کرگل خطہ لداخ کا اہم ضلع ہونے کے باوجود بھی ماضی قریب تک بہت کم لوگ کرگل سے واقف تھے۔ کرگل کی جغرافیائی اور سرحدی اہمیت تو دور اس نام سے بھی لوگ نا آشنا تھے۔اس تعلق سے عبدالغنی شیخ یوں راقم طراز ہے۔
،،تیس سال پہلے۔۔۔۔بمبئی پہنچا تو ایک شخص نے پوچھا تھا کہ ہم کہاں سے آرہے ہیں۔میں نے ان سے بتایا تھا کہ ہم کارگل سے آرہے ہیںتو اس نے پوچھا تھا کہ کارگل کہاں ہے۔،،
۱۹۹۹ء کی کارگل جنگ سے کارگل اس طرح روشن ہوا کہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ تقریباً دنیا کے ہر کونے سے کرگل کی طرف توجہ دینے لگی اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے کرگل کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ مصنف نے ان لفظوں سے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔اقتباس
،،وہ دن اور آج کا دن۔صدیوںپہلے جب کارگل آباد ہوا تھا،تب سے آج تک کارگل کا نام اتنا زیادہ نہیں آیاہو گا،کارگل پر اتنا نہیں لکھا گیا ہو گا جتنا پچھلے سال،سوا سال میں کارگل کا ذکر ہوا ہے اور تحریر میںآیاہے۔کارگل،کارگل،کارگل،کارگل پر کتابیں لکھی گئی ہیں،کہانیاں لکھی جا رہی ہیں،فلمیں بن رہی ہیں،دیش بھگتی کے گیت اور نظمیں کہی جا رہی ہیں۔،،
حسن کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ان کا تعلق اولدینگ گاوں سے ہے۔ملازمت کے سلسلے میں کارگل آیا ہے اور یہاں زینب کی محبت نے انہیں ہمیشہ کے لئے کرگل کا بنا دیا ہے۔،زینب، حسن کے مالک مکان کی بیٹی ہے۔آزادی سے پہلے اولدینگ سے کرگل آ کر یہاں کے ہو کر رہنا کوئی اچھنبا یا اجنبی عمل تو تھا نہیں،کیونکہ کرگل سے اولدینگ کا فاصلہ پیدل ایک دن کا تھا۔بغیر کسی پریشانی کے کرگل سے اولدینگ اور اولدینگ سے کارگل آ جا سکتے تھے۔افسانہ کے مرکزی کردار کی زبانی۔یہ اقتباس
،،پہلی نظر میں میں زینب پر فریفتہ ہو گیا زینب بھی مجھے پسند کرنے لگی اور ہماری محبت شادی میں پروان چڑھی۔زینب نے مجھے کہا تھا،حسن شادی کے بعد تو ہمیشہ کارگل میں رہو گے،،
افسانہ نگارمرکزی کردار کی زبانی آگے سناتی ہیں،،ویسے بھی مجھے خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔۔۔۔۔میں سال میں کئی مرتبہ اولدینگ جاتا اور ابا،اماں اور حسین سے مل کر آتا۔،،
تب چونکہ نہ پاکستان بناتھا۔اور نہ اولدینگ اور کارگل کے بیچ کوئی سرحد تھی۔نہ کوئی فوجی چوکی تھی نہ کوئی چیک پوسٹ۔ایک ہی تحصیل کے حدود میں شامل تھا۔آزادی کے بعد ایک لکیر کیا کھینچ دی گئی کہ سب کچھ الت پلٹ ہو کر رہ گئی۔
،،ان دنوں اولدینگ اور کارگل کے درمیان کوئی فوجی چوکی نہین تھی ہم میں سے کوئی پاکستان کا نام نہیں جانتا تھا۔جب چاہیں ہم اولدینگ آ اور جا سکتے تھے۔ااج انسان تو انسان،یہاں پرندے بھی پر نہیں مار سکتے۔،،
اس زمانے میں اولدینگ سے کرگل تک کے سفر کا ایک خوبصورت منظر کا نقشہ مصنف نے افسانہ کے مرکزی کردار کی زبانی اس طرح سنایا ہے۔اقتباس
،،ان دنوں اولدینگ جانے میں بڑا مزہ آتا تھا۔راستے میں اکا دکا مسافر ملتے تھے۔کبھی بلتستان سے آنے والے بار بردارغریب قلیوں سے آمنا سامنا ہوتا تھا جنکی منزل شملہ تھی۔جہاں وہ محنت مزدوری کرتے تھے۔کبھی راستے میں ہمسفر مل جاتے تھے تب ہم خوبانی کے ایک پیڑ کے نیچے تین پتھروں کا چولہا لگاتے اور مکھن والی نمکین چائے بناتے تھے۔فضا خود رو جنگلی پھولوں،جھاڑیوںاور چگلی کے پودوں کی خوشبوں سے رچی رہتی،پہاڑی ندیاںگیت سناتی تھیں۔یہاںسیاچن گلیشئیر تک وادی وادی پہاڑ پہاڑ میں سیاچن کے پھول کھلے ہوتے تھے۔اسی لئے گلیشئیر کا نام سیاچن پڑا تھا۔،،
درجہ بالا اقتباس سفر کی خوبصورت منظرکے ساتھ ساتھ مزید دو اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔ایک یہ کہ آزادی سے پہلے بلتستان اور گرد نواح سے یہاں کے لوگ روز گار کی تلاش میںاسی راستے سے شملہ کا رخ کرتے تھے۔دوسری یہاں کے پہاڑوں میںسیاچن کے پھول کثرت پائی جاتی ہیں،اسی مناسبت سے یہاں موجود مشہور گلیشئیرکا نام سیاچن گلیشیئر پڑا ہے۔
افسانے کا مرکزی کردارحسن اور زینب کی شادی ہندوستان کی آزادی سے تین سال قبل ہو جاتی ہے۔ہندوستان پاکستان بننے سے پہلے زینب حسن کے ہمراہ دو مرتبہ اولدینگ گئی ہیں۔دوسری مرتبہ مصنف نے حسن اور زینب کو ببلتستان کے اہم مقامات سکردو،شگر،خپلو اور چھوربت درہ پار کر کے بٹالک کے راستے کرگل واپس کرتے ہوئے قارئیں کو ان علاقوں سے متعارف کرایا ہے،جو آزادی سے پہلے لداخ میں شامل تھے۔دوران سفر حسن اور زینب کے درمیان مکالمے کے ذریعے ضلع کرگل میں موجود ایک منفرد قبیلہ سے بھی قاریئں کو روشناس کیا ہے۔اس قبیلہ کو ،درد، کہا جاتا ہے۔یہ قبیلہ ،داہ،اور، گرکوں،نامی گاوں میں کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ان کا منفرد نشان جسے ہم انہیں آسانی سے پہچان سکتے ہیں وہ ان کی پھولوں سے سجی سجائی ٹوپیاں ہیں۔ان کی ٹوپی دیکھنے والوں کو پھولوں کا چلتا پھرتا ایک ننھا منا باغیچہ کی مانند لگتا ہے۔گاوں کے تعلق سے ،حسن،اور ،زینب، کے بیچ کئے گئے مکالمے کو اقتباس میں پیش کرنا چاہوں گا۔
،،حسن کتنا خوبصورت گاوں ہے،زینب نے دریائے سندھ کے پار گاوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،گھاٹی کے دامن میں مکانات ایسے لگتے ہیں گویا دیوار سے تصویریں آویزاں کی گئی ہیں۔،زینب یہ ،داہ، گاوں ہے۔،داہ، یعنی تیر۔درد قبیلے کے سردار،گل سینگے، نے اسے آباد کیا تھا۔۔۔۔،گل سینگے نے نیک شگوں کے لئے ندی میں ایک تیر چھوڑ دیا کہ جہاں پر تیررکے وہاں سے آبادی شروع کی جائے۔یہ تیر ایک چٹان کے شگاف میںرکا اور وہاںسے آبادی شروع ہوئی اس لئے اس جگہ کا نام،داہ، پڑا۔۔۔۔،داہ،سے روانگی سے پہلے اس نے جنگلی بکرا کے سینگوں سے مٹی کھود کر زمین کے ایک ٹکڑے پر گندم کے بیچ بوئے تھے۔جب وہ واپس لوٹے تو یہ پودے بن کر خوشے نکل آئے تھے،پھر وہ ہمیشہ اس مٹی کے ہو کر رہے۔،،
ماضی میں لداخ میں جگہ جگہ پل نہیں تھے۔البتہ تین تین چار چار گاوں کے بیچ ایک جھولا پل ہوتا تھا اور یہی جھولا پل یہاں کے لوگون کے لئے دریا عبور کرنے کا واحد ذریعہ تھا۔حسن اور زینب اسی جھولا پل کے ذریعے دریا پار ،داہ، گاوں آئے ہیں۔ اس حوالے سے یہ اقتباس
،ہم جھولا پل سے دریا پار کر کے گاوں آئے۔ایک سنگلاخ چٹان کے ساتھ بنے مکان پر رکے،جس کی چھت پرنشپاتی کا ایک پیڑ اور انگور کی بیلیں
سایہ فگن تھیں۔باغیچے میں گیندا،گل عباس،گلاب عنبریں اور سبز ریحان کے پھول کھلے تھے۔،،
درد قبیلے کے باشندے پھولوں کے بڑے شوقیں ہوتے ہیں۔جس کا اندازہ،، حسن،، کے ان جملوں سے ہوتاہے۔اقتباس
،،میں نے زینب کو بتایا،بوڑھے،جوان،بچے،مرد،عورتیں سبھی پھولوں سے اپنی ٹوپیاں سجاتے ہیں۔آپس میں پھولوں کا تبادلہ کرتے ہیںاور پھولوں سے مہمانوں کی آو بھگت کرتے ہیں،،
درد قبیلے میں جب ان کا کوئی رشتہ دار،عزیز و اقارب انتقال کر جاتے ہیں تو ان کے رشتہ دار،عزیز و اقارب اپنی ٹوپیون سے پھول اتار دیتے ہیں۔اقتباس
،،جب کسی درد کا عزیز فوت ہو جاتا ہے تو اس کے سارے عزیز و اقارب اپنی ٹوپیون کے پھول نوچ پھینکتے ہیں،،
،درد، قبیلے کی تہذیب و ثقافت منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی مادری زبان بھی ہے۔جسے ،دردی، زبان کہا جاتا ہے۔عام لداخی ان کی زبان نہیں سمجھتے ہیں۔درد باشندے اپنے قبیلے سے باہر کے لوگوں سے گوفت شنید کے لئے لداخی،بلتی یا پورگی زبانوں کا سہارا لیتے ہیں۔بیرون لداخ سے رابطے کی زبان ہر لداخی کے لئے اردو ہے۔آج کے دور میں تقریباً ہر لداخی باشندہ اردو بول اور سمجھ سکتے ہیں۔
،حسن، اور ،زینب، کی شادی کو تین سال ہو چکے ہیں۔اس دوران دونوں دو مرتبہ اولدینگ بھی ہو آئے تھے۔ان کے شادی کا تیسرا سال ۱۹۴۸ء تھا۔اسی سال کرگل اوراس کے نواح میں دونوں ملکوں کے بیچ لڑائیاں ہوئیں۔کرگل اور اولدینگ کے بیچ میں لائن آف کنٹرول کے نام سے ایک ایسی لکیر کھینچ دی گئی جس نے ہمیشہ کے لئے حسن کو کو اپنی جاء پیدائش،والدیں،اور اکلوتے بھائی سے الگ کردیا۔حسن کے لئے اب وہ دن نہیں رہے جب وہ کرگل سے اولدینگ سال میںکئی بار بنا کسی دقت و پریشانی کے آیا جایا کرتے تھے۔اب صورت حال بدل چکا۔لیکن والدیں اور بھائی کی محبت اولدینگ جانے کی کشش دل میں جگاتے رہتے۔ماہ و سال گزرتے رہے۔حسن اپنی طرف سے کوشش کرتے رہے۔پاس پورٹ بنوایا اور پچیس برس انتظار کے بعد حسن اپنی والدیں اور بھائی سے ملاقات کے لئے روانہ ہوئے۔اب کی بار راستہ الگ تھا۔ اب حسن کو دہلی،لاہور،اسلام آباد اور سکردو سے ہو کر اولدینگ پہنچنا پڑا۔مصنف نے پچیس سال بعد کی ملاقات کے منظر کو حسن کی زبانی یوں پیش کیا ہے۔اقتباس
،،پچیس سال بعد میں نے اپنے آپ کو اولدینگ میں پایا۔ہر چیز بدلی بدلی نظر آرہی تھی۔جو پہاڑیاں اور وادیاں جنگلی پھولوںکی خوشبو سے رچی رہتی تھی۔اب بارود کی سی بو آرہی تھی۔۔۔۔ابا بہت ضعیف ہو چکے تھے اور بیمار رہتے تھے۔اماں کے بال چاندی ہو گئے تھے۔گھر میں کئی نئے چہرے نظر آرہے تھے۔حسین میری طرح دادا بنا تھا۔ایک ننھا سا گول گوتھنا سرخ و سپید بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے لپٹا دودھ چوس رہا تھا،،
بالکل میرے پوتے پر گیا ہے حسین کیا نام رکھا ہے؟
،اصغر،
مجھے بے ساختہ ہنسی آئی۔
حسین سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔
،یہی نام میں نے بھی رکھا ہے،،
اپنے والدیں کے ساتھ ایک ماہ گزارنے کے بعد حسن پر نم آنکھوں سے اپنے ابائی گھر سے یہ سوچتے ہوئے رخصت ہوئے تھے کہ شاید یہ ہماری آخری ملاقات ہو ۔اس کے بعد حسن کو اپنا ابائی وطن دیکھنا نصیب نہیں ہواتھا،بس خط و کتابت ایک دوسرے کی حالات سے با خبر کراتے رہتے تھے۔حسن کو والدیں کے انتقال کی خبر بھی خط کے ذریعے موصول ہواتھا۔
حسن نے اپنی زندگی میں ۱۹۹۹ء کارگل جنگ کا منظربھی دیکھا۔یہ لڑائی پچھلی لڑائیوں سے بالکل الگ تھی۔پچھلی لڑائیوں میں بندوقیں،مشین گنیں اور مارٹر استعمال ہوتے تھے۔جس کی وجہ سے شہری آبادی کو نقصان نہیں ہوتا تھا۔لیکن اب کی جنگ میں فریقین جدید ہتھیار اور بوفورز توپیں استعمال کررہے تھے۔جن کے گولے بہت دور آ کر گرتے تھے۔کبھی یہ گولے پہاڑوں کی چوٹیوں پر کبھی آبادی میں کبھی شہر کے بیچوں بیچ گرنے لگے تھے۔ان گولوں سے یہاں کے باشندے ڈرے سہمے رہنے لگے،اور اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے تھے۔اس لئے اپنے گھروں اور مال مویشوں کو چھوڑ کر محفوظ جگہوں کی طرف بھاگنا پڑا تھا۔مصنف نے حسن کی زبانی یوں بیان کیا ہے۔
،،ہم کارگل سے بھاگ آئے۔سورو گاوں میں ایک دوست نے اپنے گھر کا دروازہ ہمارے لئے کھول دیا۔،،
سورو گاوں کارگل سے تقریباً ۸۰ کلو میٹر کی دوری پر کرگل زنسکار کے راستے پر واقع ہے۔یہ علاقہ کارگل سے دور اور سرحد سے متصل نہ ہونے کی وجہ سے گولے کی گونج نہیں سنائی دیتی تھی۔اس لئے جنگ کے دوران کرگل اور گرد نواح سے تعلق رکھنے والوں نے علاقہ سورو میں بناہ لی تھی۔
جنگ کے دوران کرگل اور لیہ کی شہری آبادی کے رضا کاروں نے فوج کے راشن گولے بارود اور ہتھیار ان کے محاذ تک پہنچانے میں فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر مدد کیا تھا۔
افسانے میں مرکزی کردار کا ،پوتا، جن کا نام ،اصغر، ہے بار برداری کے لئے محاذ پر کام میں مشعول تھے۔پاکستانی گولہ باری میں حسن کا پوتا ہلاک ہو جاتا ہے۔افسانے سے اقتباس
،،میں نے اپنے پوتے اصغر علی کو باربرداری کے لئے محاذ پر بھیجا۔ایک روز ریڈیو پر خبر آئی کہ بٹالک میں چار قلی پاکستانی گولہ باری سے ہلاک ہو گئے۔۔۔۔تین روذ بعد چند فوجی اصغر علی کی لاش ہمارے پاس لائے۔ہم نے بھولے سے بھی نہیں سوچا تھا کہ مرنے والے چار قلیوں میں ایک اصغر علی ہو گا۔ساریء گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔،،
جنگ ختم ہو جانے کے بعد لوگ آہستہ آہستہ اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹنے لگے تھے۔جنگ سے کرگل،دراس،بٹالک بری طرح متاثر ہوئے تھے۔دراس،بٹالک،کارگل سے تعلق رکھنے والے باشندے اپنے اپنے مسمار مکانوں،اجڑی فصلوں اور گم شدہ مال مویشوں پر رونے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔حسن بھی سورو سے واپس آ کر اپنے بھائی کو اصغر کے انتقال کی خبر خط میں لکھ کر بھیجا۔حسن کے خط بھیجنے کے دوسرے دن حسین کی طرف سے حسن کو ایک خط موصول ہوا تھا۔خط میں حسین کے پوتے،اصغر،پاکستان کی دفاع کرتے ہوئے ہلاک ہونے کی خبرتھی۔موت کی خبر کو مصنف نے حسن کے ذریعے یوں بیان کیا ہے۔اقتباس
،،لڑائی ختم ہونے کے بعد میں نے حسین کو آنسوں سے بھیگا خط لکھا کہ اصغر اس دنیا میں نہیں رہا۔۔۔دو روز بعد ایسی ہی غم ناک خبر حسین کی طرف سے ہمیں ملے کہ اس کا پوتا اصغر علی،جو پاکستانی فوج میں ناردن لائٹ انفینٹری بٹالیں میں سپاہی تھا۔کارگل کی لڑائی میں کام آیا۔،،
اس طرح ایک خاندان سے تعلق رکھنے والے دو افراد(پوتے) کہا جائے تو آپس میں فریقیں بن کر آمنے سامنے آئے اور ایک نے اپنے ملک ہندوستان کی دفاع کرتے ہوئے دوسرا اپنی ملک پاکستان کی دفاع کرتے ہوئے کام آگئے۔غرض یہ افسانہ کرگل سے متعلق ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔مصنف نے لداخ کے اہم تاریخی واقعات کو کہانی کے پیرائے میں حسن اور زینب کے توسط سے دلچسپ انداز میںقارئیں تک پہنچانے کا کام کیا ہے۔
***