You are currently viewing افسانہ’’ کالوبھنگی ‘‘میں کردار نگاری

افسانہ’’ کالوبھنگی ‘‘میں کردار نگاری

 ڈاکٹر ثریا بیگم محمود خاں

 اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ اردو

   شیواجی کالج ہنگولی

افسانہ’’ کالوبھنگی ‘‘میں کردار نگاری

         افسانہ نگاری زندگی کی عکاسی کافن کہلاتاہے۔افسانہ نگار کردار کے وسیلے سے قاری تک اپنے باتوں کو پہنچاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ کردار نگاری ایک نہایت مشکل،صبر آزما اور نازک فن ہے۔اُردو افسانہ نگاری میں اچھے کردار نگار چند ہیں۔ان میں کرشن چندر کا نام قابلِ ذکر ہے۔

         کردار نگاری میں جو چیز کرشن چندر کو اپنے ہمعصروں میں امتیازی مقام عطاکرتی ہے وہ ان کے کرداروں کاحیرت انگیز تنوع ہے۔ان کے افسانوں میں ہر معاشرے کے تمام طبقات کے کردار چلتے پھرتے نظر آتے ہیں جن میں امیر ،غریب،سیٹھ،مزدور،دفتر کے بابو،ادیب شاعر،جاگیر دار ، کسان،  تحصیلدار ،تانگے والے ،بہشتی اور بوٹ پالش کرنے والے،بھنگی،چمار اور موچی وغیرہ غرض کہ ہر قسم کے کردار شامل ہیں۔

         کرشن چندر کے کردار اور ان کے افسانوں کے مرکزی خیال کے تابع ہوتے ہیں۔جس کامقصد کسی سماجی تاثر کو نمایاں کرناہے۔جیلانی بانو کے مطابق  :

’’یہی وجہ ہے کہ کرشن چندر کی کہانیوں میں پلاٹ پر بہت کم نظر جاتی ہے اور ان کے یہاں طاقتور کردار بھی کم ملتے ہیں۔اگر بعض کردار جیسے کالو بھنگی،تائی ایسری،شیام یا چندریادگاربن گئے ہیں۔تو وہ بھی اس تاثر فضا کے وسیلے سے جو ان افسانوں یاناولوں پر چھائی ہوئی ہے۔‘‘۱؎

                                  (کرشن چندر شخصیت اور فن :جگدیش چندرودھان،ص۳۷۷)

         کرشن چندرنے کردار نگاری کے کئی جاندار نمونے پیش کئے ہیں۔اس ضمن میں کالوبھنگی،دانی،تائی ایسری، پریتو،بھگت رام،کچرابابا،شیام وغیرہ کانام شامل ہیں۔کرشن چندر کاافسانہ کالو بھنگی فنی لحاظ سے ان کے دیگر افسانوں پر فوقیت رکھتاہے اور کردار نگاری کے اعتبار سے یہ کرشن چندر کاارفع ترین افسانہ ہے۔یہ واحد افسانہ ہی ان کے نام کو زندہ تابندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔اس لئے یہ افسانہ اُردو ادب میں ایک منفرد حیثیت کاحامل ہے۔

         ’’کالو بھنگی‘‘افسانہ ایک بھنگی کانوحۂ حیات ہے۔بھنگی ہندوستانی معاشرے کے سب سے بچلے تین طبقات جنھیں سماج کا’’دُردِ تہہ جام‘‘کہاجاتاہے اس میں شمار ہوتاہے۔

         افسانے کے مخصوص کردار کالو بھنگی ،خلجی کمپاؤنڈر،بختیارچپراسی،ڈاکٹر کابیٹاوغیرہ ہیں۔’’کالو بھنگی‘‘ کالوبھنگی کاکردار پورے افسانے میں شروع تا آخر جلوہ فرماہے۔وہ افسانے کے دوسرے کرداروںسے عظیم تر ہے۔اسی کے اطراف افسانے کاتانابانابُناہواہے۔

         ’’کالو بھنگی‘‘کاکردار پست اور زوال پذیر معاشرے کی مکمل عکاس اور بناض ہے۔اس کی زندگی سے ہم بھنگی اور اس جیسے پست طبقے کی زندگی کامطالعہ کرسکتے ہیں۔

         کالو بھنگی ایک بد شکل ،بدہیئت شخص تھا۔ا س کے بڑے بڑے ننگے گھٹنے ،پھٹے پھٹے کھردرے پاؤں،  سوکھی سڑی ٹانگوں پر اُبھری ہوئی نیلی دریدیں،کولھوں کی اُبھری ہوئی ہڈیاں شکن زدہ گال،ننگی سپاٹ چند یا ، یہ سب اس کی بدنما شکل و صورت کی ہیئت ہیں۔بیس سال سے ہسپتال میں مریضوں کابول وبراز اٹھاتا،ان کی پیپ بھری پٹیاں دھوتا،ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر کے کمروں میں جھاڑو لگاتا،ڈسپینسری میں فینائل چھڑکتا،ڈاکٹر کی گائے اور کمپاؤنڈر کی بکری کو چرانے جنگل لے جاتا،دن ڈھلے واپس لوٹتا،کھانابناتااورکھاکر سو جاتا۔اور صبح اٹھ کر پھر سے اسی کام میں جٹ جاتا۔گویا یہ اس کے لئے روز کامعمول تھا۔جسے وہ سرجھکائے کولھوکے بیل کی طرح چپ چاپ کرتا۔

         کالوبھنگی کے آباواجداد بھی بھنگی تھے اور وہ بھی کئی سالوں سے وہیں رہتے تھے۔اسی لئے کالو بھنگی بھی اپنے گاؤں کی حدود سے باہر نہ گیا۔کبھی کبھی ڈاکٹر کے بیٹے کو شفقت ومحبت سے دھیمی دھیمی آنچ پر بُھٹے سینک کر کھلاتا۔ڈاکٹرکو پتہ چل جاتاتو غصہ سے مغلوب ہوکر اسے بے تحاشہ پیٹ دیتا۔کیونکہ ا س کی نظر میں ایک بھنگی کا اسکے بیٹے کو بھٹاکھلانا نہ قابلِ عفو جرم تھا۔

         دن بھر کالو بھنگی کام میں مصروف رہتاکبھی کبھی چند یاپرگائے یابھینس سے زبان پھرات تو اس کو بڑاسکون ملتا۔کالو بھنگی کو ڈاکٹر کی گائے اور کمپاؤنڈر کی بکری سے بڑالگاؤ تھا اور یہ بے زبان جانور بھی اس کے اشارے کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔وہ تینوں ایکدوسرے کے رفیق ،ہمدم اور مزاج شناس تھے۔اسے ایک لنگڑے کتے سے بھی بہت لگاؤ تھا۔وہ اپنے علاقے کے ہر جانور اور چرند پرند سے شناسائی تھی۔وہ ان کی بولی کو سمجھتااور ان کاجواب بھی دیتاتھا۔جانوروں اور پرندوں سے اس کاعجیب رشتہ تھا۔مانوں وہ سب ایک ہی کنبے سے تعلق رکھتے ہو۔

         کالو بھنگی آٹھ روپے ماہوار تنخواہ پاتاتھا۔جس میں ے چارروپے کاآٹا،ایک روپے کانمک ،ایک روپے کاتمباکو،آٹھ آنے کی چائے،چارآنے کاگُڑ ،چارآنے کامصالحہ اور ایک روپیہ ماہواربڑھ جائے تاکہ وہ بھی گھی سے بھرے ہوئے مکّی کے پراٹھے کھاکے لیکن اس کی یہ حقیر خواہش ادھوری رہ گئی۔

         اس نے تمام عمر شادی نہ کی پورے علاقے میں وہ واحد بھنگی تھا جس نے شادی نہیں کی اور نہ ہی کسی کے عشق میں گرفتار ہوا۔اس کی زندگی ویران محل کی طرح تھی۔ اس کی نظر میں زندگی محض سانس لینے کانام تھی۔اس پوری دنیا میں وہ بے سہارا اور بے یارومددگار تھا۔ا س کی بیوی،بچے بھی نہیں تھے اور نہ ہی دوست واحباب۔

         ایک دن کالو بھنگی اپنی پوری زندگی میں پہلی بار بیمار ہوااور وہ اسی ہسپتال میں جہاں اس نے بیس سال تک محنت اور ایمانداری سے کام کیاتھا۔وہ اسی ہسپتال میں کسمپرسی اور بے چارگی کی حالت میں پڑارہاجیسے وہ کوئی بے فضول شئے ہو۔کمپاؤنڈر دورسے ہی اس کے حلق میں دوائی انڈیل دیتااور کوئی روٹی کی تھال اس کے قریب سرکادیتا۔گویا وہ پلیگ زدہ چُوہا ہو۔کالو بھنگی خود ہی اپنے برتن صاف کرتا اور خودہی اپنابول وبراز اُٹھاتا۔اس طرح وہ سسکتے سسکتے ،ایڑیا رگڑتے رگڑتے کچھ دن بیماررہ کر مرگیا۔صحیح معنوں میں اسے مرکر زندگی ملی اور پھر پولیس نے لاوارث سمجھ کر اس کی لاش کو ٹھکانے لگادیا۔کالوبھنگی ایک اچھوت کی زندگی کی بے مثال تصویر کشی کی ہے۔جس کی ہر تصویر قاری کے لئے نشتر کاکام انجام دیتی ہے۔

         اس کی موت پر نہ کمپاؤنڈر ،نہ چپراسی اور نہ ہی ڈاکٹر آنکھوں سے ایک قطرہ آنسوٹپکا اور نہ ہی ان کے دل سے آہ نکلی۔جہاں اس نے تمام عمر بڑی محنت اور لگن سے خدمت کی۔ان کے روزانہ کے معمولات میں بھی کوئی فرق نہیں ہوا۔گویا کچھ ہواہی نہ ہو۔کوئی مرا ہی نہ ہو۔ان کرداروں کے ذریعے کرشن چندر نے انسان کی بے حسی اور سنگ دلی کی مثال پیش کی ہے۔

         کالو بھنگی کے علاوہ اس افسانے میں کمپاؤنڈرخلجی کی بھی کہانی مختصر طورپر بیان کی گئی ہے۔خلجی کمپاؤنڈر جواسی ہسپتال میں چالیس پینتالس روپے ماہوار کام کرتاتھا۔اور دس پندرہ روپے وہ ہوشیاری سے ڈاکٹر کی نظروں سے بچاکر مریضوں ے لیتاتھا۔اس کے والدین نے اسے مڈل تک ہی تعلیم دلاپائے تھے۔پھر اس نے اپنی ذہانت ،محنت اور لگن سے کمپاؤنڈری کاامتحان پاس کرلیا۔وہ خوش مزاج اور خوش ذوق تھا۔رہائش کے لئے سرکار نے اسے چھوٹاسابنگلہ نماکواٹر دیاتھا اور اس نے دودھ پینے کے لئے ایک بکڑی خرید لی تھی۔خلجی جوان حسن پرست،عاشق مزاج تھا۔ہسپتال میں چار خوبصورت مریضاؤں سے عشق کیاتھا۔ لیکن مریضائیں شفایاب ہونے کے بعد اپنے خاوندوں یاوالدین کے ساتھ اپنے گھر لوٹ گئیں۔یہی حشر خلجی کے معاشقوں کاہوا۔

         گویا اس کی زندگی میں سب کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ تھا۔خلجی سے نچلے درجے پربختیار چپراسی تھا۔جو پندرہ روپیہ

ماہوار تنخواہ پر کام کرتاتھا۔گاؤں میں اس کاچھوٹا سا قطعہ زمین اور معمولی سامکان تھا جس میں ایک خوبصورت باغچہ تھا۔اس کی

بیوی،تین بچے اور عمر رسیدہ والدہ تھی۔جو خوش حال زندگی گذارتے تھے۔

         سب سے نچلے طبقے میں کالو بھنگی کاشمار ہوتاہے۔جو ایک معمولی کیڑے مکوڑے کی طرح زندگی گذاررہاہے۔کالو بھنگی آٹھ روپیہ ماہوار تنخواہ میں زندگی گذارتے گذارتے دنیاسے رخصت ہوگیا۔اور اس کی سب حقیر سی تمنائیں تشنہ آرزوئیں بھی اسی کے ساتھ دفن ہوگئیں۔

         ’’‘کالو بھنگی‘افسانے میں کرشن چندر نے معاشرے کے تین نچلے طبقات کی زندگی کاموازنہ کیاہے لیکن ان میں فوقیت کالو بھنگی کو ہی حاصل ہے۔موازنے کی وجہ سے کہانی میں اور مزید گہرائی پیداہوگئی ہے۔ کرشن چندر نے یہ افسانے بھنگی ذات کی اصلاح کرنے کی غرض سے لکھا ہے۔جس میں انھوں نے قاری کو اس کی اصلاح کی طرف متوجہ کیاہے۔

         کالوبھنگی سماج کی استحصال پسندی اور تحریص،افراط تفریط اور نابرابری پر بھی انگشت نمائی کرتاہے۔کالوبھنگی محض اس کی ذات کاالمیہ نہ ہو ،اس کے جیسے تمام کچلے،پست ،روندے ہوئے طبقے کاالمیہ ہے جو محرومیوں اور نامرادیوں کاشکار ہے جنھیں زندگی کی لذتیں اور نعمتیں معلوم نہیں۔جو سماج کی سنگ دلی اور شقاوت کاشکار ہے اور جسے سماج میں دھتکاراجاتاہے۔

         کرشن چندر کی یہ بہت ہی خوبصورت وفکر انگیز کہانی کامرکزی نقطہ نظریہ ہے کہ انسان کے ذہنی سکون اور خوشیوں و مسرتوں کادارومداربہت حد تک اس کی معاشی حالت پر ہوتاہے ۔معاشی آسودگی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیتی ہے۔جبکہ غربت انسان کو محرومیوں اور مرادیوں کی چکی میں پستے پستے ختم کردیتی ہے۔

         کرشن چندر ایک عظیم فنکار ہیں اور اس کارازاسلوب میں چھپاہواہے۔ہر افسانے میں ان کے اسلوب کاکوئی نہ کوئی رنگ نمایاں ہوکرقاری کے سامنے آتاہے۔’’کالوبھنگی‘‘میں کرشن چندر کے اسلوب کے بیشتر نمونے موجود ہے۔جو اسے ایک شاہکار افسانہ بنانے میں معاون ومددگارثابت ہوئے ہیں۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے الفاظ میں۔۔۔۔۔

’’ان میں تین باتیں خا ص تھیں۔مناظرِ فطرت سے والہانہ محبت،اخلاص سے معمورانسان دوستی اور جذبات ے تھرتھر اتاہواسادہ اور خوبصورت اسلوب۔‘‘۲؎

                                 (کرشن چندر شخصیت اور فن :جگدیش چندرودھان،ص۳۸۸)

         کرشن چندر انسان کی عظمت کے دلدادہ تھے۔ان کے نزدیک انسان سب سے بڑاہے۔دولت ، ثروت سے،جاہ وحشمت سے،فرشتوں اور دیوتاؤںسے،مذہب وملت سے،وہ سب سے بلند اور سرفراز ہے۔

         اسی انسان دوستی کی وجہ سے کرشن چندر نے’’کالو بھنگی‘‘کوگلے سے لگایاجسے سماج نے ٹھوکر ایاتھا۔ ’’کالو بھنگی‘‘کرشن چندر کی انسان دوستی اور دردمندی کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔یہ افسانہ پڑھ کر کالو بھنگی کی ذات سے ہمارے دل و دماغ میں درد مندی اور ہمدردی کے احساسات طاری ہوجاتے ہیں۔اور کہانی اپنی تمام ترفنی لوازمات کے ساتھ ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ڈاکٹر احمد حسن کے الفاظ میں  :

’’کرشن چندر کے چند کردار اُردو ادب کی افسانوں کی دنیا میں لازوال ہیں۔ان میں کالوبھنگی کاکردار حیاتِ جاودانی کی حیثیت رکھتاہے۔‘‘۳؎

             (کرشن چندر اور ان کے افسانے،ڈاکٹر اطہر پرویز،ص۷)

         ’’کالو بھنگی‘‘کرشن چندر کاایک غیر لافانی افسانہ ہے اور کردار نگاری کے اعتبار سے یہ اُردو افسانوں میں صفِ اوّل کی حیثیت رکھتاہے۔

حواشی  :

  ۱؎   کرشن چندر شخصیت اور فن :جگدیش چندرودھان،ص۳۷۷

۲؎   کرشن چندر شخصیت اور فن :جگدیش چندرودھان،ص۳۸۸

۴؎   کرشن چندر شخصیت اور فن :جگدیش چندرودھان،ص۳۸۸

۵؎   کرشن چندر اور ان کے افسانے،ڈاکٹر اطہر پرویز،ص۷

***

Leave a Reply