ظہور احمد
ریسرچ اسکالر ،دہلی یونیورسٹی
افہام و تفہیم ؛ایک جائزہ
تفہیم عربی زبان کے لفظ ’’فہم‘‘ سے نکلاہے اور اس کے معنی ہیں ،حاصل کرنا،سمجھنا اور جاننا ۔اس کا مطلب ہوا کہ قاری جب کسی بھی متن کو پڑھتا ہے تو وہ اسے غور سے جانچ پرکھ کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کے اندر مصنف کیا کہنا چاہتا ہے اس کو سمجھنا قاری کا بنیادی مقصد ہوتا ہے ۔متن کو لوگ الگ الگ مقصدسے پڑھتے ہیں کوئی اسے تفریح کے لئے پڑھتا ہے کوئی وقت گزاری کے لئے یا اس پر کوئی تنقیدی نظر ڈالتا ہے ۔لیکن تفہیم کرتے وقت قاری کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس میں لکھا کیا ہے اور اس میں کس بات پر زیادہ زور دیا گیا ہے ۔اس کی مثال ہم اس طرح سے پیش کر سکتے ہیں کہ جس طرح سے بچوں کو ایک پیراگراف دے دیا جاتا ہے اوراس کے بعد چند سوالات دے کر انہیں تفہیم کے لئے کہہ دیا جاتا ہے ۔بچہ اس دئے گئے پیراگراف کوبار بار پڑھے گا اس کے بعد ان سوالوں کا جواب دے گا اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب و ہ تفہیم سے واقف ہو گا ۔
تفہیم کا بنیادی مقصد ہوتا ہے کہ کسی بھی فن پارے یا متن کہ تہہ تک پہنچنا اور یہ پتہ لگاناکہ مصنف اس میں کیا کہنا چاہتا ہے کیونکہ جب ہم کوئی بھی متن پڑھتے ہیں اور اسے وہیں چھوڑ دیںگے تو اس سے نہ مصنف کا مقصد پورا ہوگا اور نہ ہی قاری کا ۔ایک طرح سے اگر ہم یہ کہیں کہ تفہیم کا مطلب آپریشن کرنا ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ جس طرح سے سائنسی علوم میں تھیوری کو پڑھ کر لیبارٹری میں ٹیسٹ کئے جاتے ہیں تبھی اس کے بارے میں جانکاری ملتی ہے اور تھیوری کے لکھنے کا مقصد بھی پور اہوتا ہے ۔بالکل اسی طرح ادب میں بھی متن کو پڑھ کر پہلے تو مصنف کے ذہن تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے او ر پھر اس جگہ یا مقام تک پہنچا جاتا ہے جس کے بارے میں متن لکھا ہوتا ہے۔
تفہیم یا تفہیم نگاری بہت ضروری ہوتی ہے ۔اس سے انسانی ذہن کے دریچے کھلتے ہیں اور ادب سے روشنائی بھی ہوتی ہے ۔بچوں کو بھی ان کے حساب سے تفہیم سکھائی جاتی ہے۔امتحان میں انہیں پیراگراف دئے جاتے ہیں اور اس کے بعد ان کے متعلق سوالات پوچھے جاتے ہیںجن کے جوابات انہیں اسی پیراگراف کو بار بار اور باریکی سے پڑھنے اور سمجھنے کے بعد دینے ہوتے ہیں ۔ان کا یہ عمل بھی تفہیم کے زمرے میں آتا ہے ۔اس طرح سے بچوں کی صلاحیت کو ابھارا جاتا ہے ۔اردو میں جہاں تحقیق و تنقید کی جاتی ہے اسی طر ح تفہیم بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔شمس الرحمن فاروقی نے’’ تفہیم غالب‘‘ کے نام سے کتاب لکھ کر غالب کے دیوان سے تقریباً 138اشعار کی تفہیم کر کے غالب کے کلام کے عاشقوں کے لئے نئی راہ نکالی اور جس سے ان کے کئی ایسے تاریک گوشے جو اب تک تاریکی میں گم تھے یا ان کے بارے میں غلط قیاس آرائیاں کیں جاتی تھیں انہیں صیح کر کے قاری کو غالب تک پہنچانے کی کوشش کی ۔انہوں نے ایک ایک لفظ کی بات ہے اور اس کے معنی کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھنے کے ساتھ ساتھ ان سے پہلے جن حضرات نے غالب کی شاعری کی شرح کی ہے اس کے ساتھ بھی تقابل کیا ہے ۔نمونے کے طور پر تفہیم غالب سے ایک شعر ۔جس کی شمس الرحمن فاروقی نے کچھ اس طرح سے تفہیم کی ہے ۔مثال کے لئے ایک شعر پیش کیا جارہاہے ۔شعر ۔
’’پھر بے خودی میں بھول گیا راہ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو میں
ا س کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
’’اس شعر میں ’پھر ‘بمعنی ’دوبارہ‘نہیں ہے بلکہ بمعنی ’تب ‘ہے ۔۔۔۔۔لیکن ایک نکتہ اور بھی ہے ۔مصرع ثانی میں ’ایک دن ‘کا فقرہ بہت معنی خیز ہے ’میں ایک دن وہاں جاتا ‘وغیرہ جملوںمیں ’ایک دن ‘ایک طرح کی بے پروائی اور عدم دل چسپی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔یعنی جس کام کی طرف طبعیت اکثر یا شدت سے رغب نہ ہو ،یا جس کی کوئی فوری ضرورت نہ ہو ،اس کے لئے ’ایک دن ‘کا فقرہ لگاتے ہیں ۔میں ایک دن اپنی خبر کو جاتا، میں اشارہ یہ ہے کہ مجھے اپنی خبر گیری کی کوئی خاص ضرورت یا فکر نہیں ۔ٹھیک ہے ۔میں وہاں جاکر خود کو کھو آیا ، مگر یہ کوئی ایسی خاص بات یا کسی تشویش کا معاملہ نہیں ۔گویا میں بنا ہی اس لئے تھا کہ کوئے یار میں جائوں اور اپنی ہستی کو وہیںگھم یا محو کردوں ۔اب جب کہ وہ بات ہو گئی ہے تو میں گویا اطمینان سے ہوں بلکہ میں بے خود ی کو وہاں سے لے آیا اور خود کو وہاں چھوڑ آیا تو اچھا ہی ہوا ،ایک فکر اور کم ہوئی ،اب وہاں مجھ پر کیا گزری ،یہ معشوق جانے یا اس کی گلی کے لوگ ،لفظ ’بے خودی ‘بڑے معرکے کاہے ،کیونکہ یہ اپنی خبر کو نہ جانے کا جواز بھی ہے اور اپنی خبر گھم کرنے کی وجہ بھی ۔‘‘
اس کے بعد تفہیم کا سلسلہ چلتا رہا اور تقریباً 1940ء میں میراں جی نے بھی جدید نظم کی تفہیم کرنا شروع کی ۔
جدید نظم کی تفہیم میں میرا ں جی کاا ہم کردار رہاہے ۔جدید نظم کا آغاز تو 1874ء میں محمد حسین آزاد کے ہاتھوں ہو گیا تھا اور اس وقت نظموں میں جدید رجحانات اور موضوعات پیدا ہو گئے ۔لیکن 1936ء میں ترقی پسند تحریک کی وجہ سے جدیدنظم کو نیا آہنگ اور لب و لہجہ عطا ہوا ۔میراںجی نے’’ مشرق و مغرب کے نغمے‘‘سے جدید شاعری کی تفہیم کا راستہ کھولا ۔ادب میں کوئی بھی بات سیدھے طور پر کہہ دی جائے تو بقول میلارمے کہ ؛’’کسی چیز کو واضح طور سے بیان کر دینے سے اس لطف کا تین چوتھائی حصہ زائل ہو جاتا ہے جو رفتہ رفتہ کسی بات کے معلوم کرنے میں ہمیں حاصل ہوتا ہے ۔‘‘
منقول ۔تبسم کاشمیری ،بنیاد، جلد چہارم ،
شاعری میں ابہام کا ہونا بہت ہی ضرور ی ہے ابہام کو شاعری کا حسن قرار دیا گیاہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر شاعری کو صاف اور سیدھے لفظوںمیں کہہ دیا جائے تو اس میں پھر وہ کشش باقی نہیں رہ جاتی جو رہنی چائیے۔کیونکہ جب ایسے الفاظ شامل کئے جائیں گے جن میں ابہام ہوگا توان کے ان الفاظ کی وجہ سے ہی الفاظ اور شعر دونوں پر غور و فکر کرنے کی گنجائش پیدا ہوگی ۔اور اسی وجہ سے شعر کی تفہیم کر کے اس کی تہ تک جانے کی کوشش بھی کی جائے گی ۔میراں جی نے جدید اردو نظم کی تفہیم کا سلسلہ جب شروع کیا تو انہوں نے سب سے پہلے متن خوانی پر توجہ خصوصی طور پر کرانے کی کوشش کی ۔اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ظاہری معنی و مفہوم دریافت ہو جاتے اور دوسرے متن میں موجود علامتوں ،استعاروں اور تلازموں کے روایتی مفاہیم کے ساتھ ساتھ متن کے حوالے سے بننے والے باطنی معنوں تک بھی رسائی ہو سکتی ہے ۔اس سے شاعر کے شعور تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے ۔اور اس کی سوچ کے سرچشمے بھی دریافت ہو سکتے ہیں ۔
میراںجی خود بھی شاعر تھے انہوں نے شاعری بھی کی ہے لیکن اس کے بعد دوسرو ں کی شاعر ی پر تجزیہ و توضیح بھی کی ہے ۔لیکن اس کے بعد قاری پر بھی بہت ساری چیزیں چھوڑ دی ہیں ۔
میراںجی کی تفہیم کے بارے میں تبسم کاشمیری لکھتے ہیں کہ ؛
’’جدید نظم کے لئے میراں جی نے تفہیم کا جو فریم ورک مرتب کیا تھا اس میں ایک اہم پہلو متن کی ذیلی ادائیگیextra textual performanceکا ہے ۔میرا ں جی نظم کے متن پر گہرا غور و فکر کرتے ہیں ۔ان کو گہری قدرت حاصل تھی کہ وہ متن کے اندر آسانی سے اتر جاتے تھے اور متن کے مطالب ان کے سامنے تیزی سے روشن ہو جاتے تھے ۔وہ متن کے اندر باہر دیکھنے کے بعد متن سے ہٹ کر کچھ سوچنے لگتے تھے ۔اور جب ان کی سوچ اور متخیلہ اوراق پر منتقل ہوتے تھے تو متن پیچھے رہ جاتا تھا ۔اور جو کچھ دیکھنے کو ملتا extra textual performance کا عمل کہا جا سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
تبسم کاشمیری ،جلد چہارم ص ،193
ادب میں قاری کا اہم مقام ہوتا ہے کیونکہ جب تک قار ی تخلیق میں موجود نہیں رہے گا تب تک ادب کے تخلیق کرنے کا مقصد پورا نہیں ہو گا ۔کیونکہ ادیب وہی لکھتا ہے جو وہ اپنے آس پاس کے ماحول میں دیکھتا ہے ،سمجھتا ہے اور وہی واپس اسی سماج کو اپنی تخلیق کے زریعے دینے کی کوشش کرتا ہے ۔اور ایسے میں ان تحریروں کو پڑھنے کے لئے قاری کا موجود ہونا لازمی ہو تا ہے ۔موجودہ دور جو اکیسویں صدی کا دور کہلاتا ہے اس میںایک بات عام ہو گئی ہے کہ آج کتابیں آنا لائن یا آف لائن پڑھتا ہی کون ہے ۔اگر اس بات کو سچ مان لیں تو دوسری طرف ان لوگوںکے ساتھ سراسر ناانصافی ہو گی جو اس انتظار میں رہتے ہیں کہ اب کون سی نئی تحریر طباعت ہو کر آئے گی اور اسے پڑھا جائے ۔اور وہ لوگ پڑھتے بھی ہیں ۔لیکن ان پڑھنے والوں میں بھی الگ الگ نظرئیے اور ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں کچھ لوگ اسے پڑھ کر کتاب کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور کچھ اس پر غور و فکر کرتے ہیں اور اس پر گہری نظر ڈالتے ہوئے اس میںجو لکھا ہے اس کی تہہ تک جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس کے لئے وہ متن کو بار بار پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس میں جو چیزیں ڈھونڈنے کو کوشش کرتا ہے اس میں کامیاب بھی ہوتا ہے اس کی یہ کامیابی اس کی تفہیم کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔
***