محمد سلیم سرور،پی ایچ ڈی ریسرچ سکار
شعبہ اردو،نمل،اسلام آباد chandbhatti187@gamil.com
ڈاکٹر عنبرین تبسم شاکر جان ashakir @numl.edu.pk
اسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو نمل،اسلام آباد
اقبال:مثالی مسلم رہنما کے بنیادی اوصاف
Iqbal: Essential Qualities of an Ideal Muslim Leader
Iqbal was a thoughtful philosopher, a poet with deep feelings, a devout servant of God, a true lover of the Muhammadﷺ and a human being who had pain in general for all humanity and Muslims in particular. A poet can give the spirit of freedom through his poetry or show the way. Iqbal spent time. Keeping in mind the delicacy and condition of Muslims, he wrote thoughtful poetry on important topics and his poetry served as guidance and leadership for Muslims.Iqbal knew that there is a need for a strong and stable leader to eliminate this defeated ship of Muslims. It is that he should be a leader of Islam, be brave, be truthful in words and deeds, and do justice without discrimination in friends and relatives. Be a creative mind and possess revolutionary thinking, and be economical to spread Islam on God’s land. And wanting political development.
Key words: Iqbal, Muslim leader, bravery, justice, revolution, creativity,
اُس شخص کو رہنما کہا جاتا ہے جو دوسروں کو راستہ دکھاتا ہے۔راستہ دکھانے والے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ راستے کی باریکیوں سے باخوبی واقف ہو۔عرف عام میں رہنما اس شخص کو کہا جاتا ہے جو معیشت،معاشرت،اخلاقیات اور مذہب وسیاست کے متعلق اشخاص کو اصول وضوابط سکھاتا ہے۔رہنما امن وجنگ کے تمام حالات میں رہنمائی کرتے ہوئے اپنے متبعین کوکامیابی کے ساتھ منزلِ مقصود پر پہنچاتا ہے۔رہنما جس قدراعلیٰ ذاتی صٖفات کاحامل ہوگا اس قدر ہی مقبولیت کے بلند تر درجے پر فائز ہوگا۔ذاتی صفات میں اخلاقیات وکردار کو بنیادی مقام حاصل ہے۔بنیادی صفات کے علاوہ بھی کچھ صفات ایسی ہیں جو کسی بھی مثالی رہنما کی عملی زندگی کا حصہ ہیں مثلاً بہادر ہو،مفکر ہو،انتظامی امور میں مہارت تامہ رکھتا ہو اورمنجمدحالات سے نکلنے کے لیےتخلیقی ذہن کا حامل ہو۔
حضرت محمدﷺ دنیا کے بہترین رہنما ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندگی میں پیش آنے والے تمام معاملات کے متعلق بہترین معلومات قرآن کی صورت میں مہیا کیں تاکہ آپ پوری کائنات کے لیے مثالی شخص کا روپ دھار لیں۔آپ ﷺ کی عملی زندگی ہر مسلمان کے لیے نمونے کا درجہ رکھتی ہے۔”لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنہ” ۱ حافظ عبدالسلام بن محمد اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت غزوہ خندک کے پس منظر میں نازل ہوئی جب آپ ﷺ نے خندک کی کھدائی کے دوران کدال چلا کر عملی نمونہ پیش کیا کہ صرف اپنے صحابہ کرام کو ہی کھدائی پر نہیں لگائے رکھا بلکہ خود بھی عملی طور پر حصہ لیا اور پھر لڑائی میں پیش پیش رہے۔اس عملی نمونے سے یہ سبق ملتا ہے کہ مثالی رہنما کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذات و صفات کا عملی نمونہ دوسروں کو مہیا کرے۔اقبال بھی ان عاشقان رسول میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی زندگی کا ہر پہلو قرآن وسنت کے مطابق گزارا اور پھر تمام مسلمانوں کو بھی یہی نصیحت کی کہ اللہ اور اس کے رسول کو عملی طور پر اپنانے والے رہنما کو تم بھی اپنا رہنما تسلیم کرو تاکہ وہ تمھیں دنیا کی آزمائشوں میں کامیاب کرواسکےاور آخرت میں جنت کا امیدوار بنا سکے۔اقبال کی نظر میں دنیا کا کامیاب رہنما وہ ہے جو اپنی زندگی آپ ﷺ کے بتائے ہوئےاصول وضوابط کے تحت گزارتا ہے اور اور اپنے متبعین کی رہنمائی بھی انہی اصولوں کے مطابق کرتا ہے۔رہنما میں ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ علم وفکر میں دوسروں سے بہتر ہوتا ہے اور پھر اس کی انہی خوبیوں کی وجہ سے اسے دوسروں پر فضلیت عطا کی جاتی ہے۔ رہنما کی اس خوبی کے لیےسورہ بقرہ کی آیت ۲۴۷ ملاحظہ کیجیے،ترجمہ حافظ عبدالسلام بن محمد،تفسیر القرآن:
‘‘اور ان سے ان کے نبی نے کہا بےشک اللہ نے تمھارے لیے طالوت کو بادشاہ مقررکیا۔
انھوں نے کہا اس کی حکومت ہم پر کیسے ہوسکتی ہے،جبکہ ہم حکومت کے اس سے زیادہ حق
دار ہیں اور اسے مال کی کوئی وسعت بھی نہیں دی گئی؟فرمایا بےشک اللہ نے اسے تم پر چن
لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخی عطا فرمائی ہے اور اللہ اپنی حکومت جسے چاہتا ہے
دیتا ہے اور اللہ وسعت والا،سب کچھ جاننے والا ہے۔’’۲
اسلامی منشورمیں انسان کو جانچنے اورپرکھنے کا معیار رنگ،نسل،ذات اور قوم قبیلے پرنہیں بلکہ اس کی ذاتی صفات وکردار اورتقویٰ پر ہے ۔اگر کسی شخص کو دنیا کی امامت پر فائز ہونا ہے، چاہے وہ کسی بھی سطح کی ہو ، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ صداقت ، عدالت اور شجاعت جیسی عظیم صفات سے متصف ہو۔ اسی حقیقت کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے اپنی نظم ‘‘طلوع ِاسلام ’’میں یوں بیان کیا ہے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کاشجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سےکام دنیا کی امامت کا
یہی مقصود ِ فطرت ہے ،یہی رمزِ مسلمان
اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تو رانی رہے باقی ،نہ ایرانی نہ افغانی ۳
مذکورہ بالاشعرکی روسےاقبال نے مسلم رہنما کے لیے صداقت،عدالت اور شجاعت جیسے بنیادی اصول مقررکیے ہیں ،یہ وہ اصول ہیں جن پر عمل پیرا ہوکرایک مسلم کامیاب مسلمان رہنما بن سکتا ہے۔اقبال نے طلوع اسلام کے مندرجہ بالاا شعار میں مسلم نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ قوم وقبیلے والے بت توڑ کر ایک ملت کے رنگ میں رنگ جاؤ تاکہ دنیامیں اپنی پہچان بنا سکو۔قبل از اسلام بھی لوگوں کا یہی مسئلہ تھاکہ وہ لوگ رنگ ونسل اور جسمانی و مادی طاقت میں اپنی پہچان رکھتے تھے اور یہی چیزیں ان کو ایک دوسرے کے خلاف ابھارتی تھیں۔ایک چھوٹی سی بات پر شروع ہونے والی جنگ نسلوں تک جاری رہتی تھی اور پتہ نہیں کتنی معصوم جانوں کو نگل جاتی تھی۔۱۹۳۲ءمنعقدہ مسلم کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے اقبال نے اس طرف یوں اشارہ فرمایا:
‘‘وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے،اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے۔جونسل وزبان
ورنگ سے بالاتر ہے۔جب تک اس نام نہاد جمہوریت،اس ناپاک قوم پرستی اور ذلیل
ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کردیا جائے گا،جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے
الخلقُ عیالُ للہِ کے اصول کا قائل نہ ہوجائے گا اور جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ
ونسل کے اعتبارات کونہ مٹایا جائے گا،اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح وسعادت
کی زندگی بسر نہ کرسکے گا اور اخوت،حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندہءمعنی
نہ ہوں گے۔’’۴
اقبال نے جس دور میں شاعری کی اور فلسفے کی گتھیوں کو سلجھایا وہ دور مسلمانوں کی مغلوبیت کا دور تھا اور مسلمانوں کی اس حالت کو دیکھ کر اقبال کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔یہ وہی مسلمان تھے جنھوں نے اندلس تک اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑے ہوئے تھے مگر اب یہ مسلمان اپنے گھر میں بھی مفتوح بن کر جی رہے تھے۔مسلمانوں میں جہاں ذاتی طور پر بہت سی خامیاں در آئیں تھی وہیں مسلمان ایک باصلاحیت رہنما سے بھی محروم تھے جو مسلمانوں کے ڈانواڈول سفینے کو ساحل پر پہنچا سکتا۔اس دور میں مسلمانوں کی علمبرداری اور رہنمائی کے لیے اقبال نے شاعری کا میدان سنبھالا۔اقبال نے اپنی شاعری کو مسلمانوں کےلیے جوہر حیات بنا کر پیش کیا۔اقبال کی شاعری مسلمانوں کے لیے ایک ایسا آئینہ تھی جو نہ صرف عکس دکھاتا تھا بلکہ ماضی بھی یاد دلاتا تھا۔اقبال نے اپنی نظم‘‘طلوع اسلام’’ کے ایک اور شعر میں مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلایا ہے کہ اس خطے کے حاکم ورعایا تم ہی ہو۔اقبال مسلمانوں کو یہ بات بتا رہے ہیں کہ ایشیا کی اقوام کا پاسباں مسلمان ہی ہے۔
یہ نکتہ سر گزشتِ ملت بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوام ِ زمینِ ایشیا کا پاسباں تو ہے۵
اقبال نے دیکھا کہ ترکی میں خلافت کا چراغ بھی بھجتا جارہا ہے اور ہندوستان کے مسلمان حکمران بھی معزول کرکے قلعوں میں قید کردیے گئے اور کچھ کو جلاوطن کردیا گیا ہے۔اقبال اپنی سوئی ہوئی قوم کواحساس دلاتے ہیں کہ اگرتم لوگ اپنے اسلاف کی طرح دنیا میں غالب آنا چاہتے ہو تو ایک بار پھر اقوال میں صداقت،افعال میں عدالت اور میدان میں شجاعت جیسے جوہر دکھانا ہوں گے۔اقبال نے اپنی شاعری میں قرآن کے مفہوم کو مسلمان نوجوان کے لیے منشور بنا کر پیش کیا ہے۔اقبال مسلمانوں کی تاریخ سے آشنا تھے اور جانتے تھے کہ اسلام کے پیروکار دنیا میں غلبے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں مگر آج اپنی غفلت،بے عملی اور کاہلی کی وجہ سے مغلوب ہوچکے ہیں۔اقبال نے مسلمانوں کودوبارہ سے اپنے اوصاف ِ نورینہ کو اپنانے اور دنیا کی حکومت کو حاصل کرنے کا درس دیا ہے۔صداقت،عدالت اور شجاعت یہ وہ بنیادی اوصاف ہیں جنھیں اپنا کرہی امتِ مسلمہ پوری دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتی ہے۔دورِ حاضر کے مسلمان ان اوصاف کو بھول کر مغلوبیت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔اقبال نے جناح کے نام اپنے ایک خط میں مسلمانوں کی مغلوبیت اور تنزلی کی جانب یوں اشارہ کیا ہے:
‘‘نئے دستور کے تحت اعلیٰ ملازمتیں تو بالائی طبقوں کے بچوں کے لیے مختص ہیں اورادنی ٰ
ملازمتیں وزراء کے اعزا اور احباب کی نظر ہوجاتی ہیں دیگر امور میں بھی ہمارے سیاسی ادا
روں نے مسلمانوں کی فلاح وبہبود کی طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی
روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک تر ہوتا جارہا ہے۔مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گزشتہ دو
سو سال سے وہ برابر تنزل کی طرف جارہے ہیں۔’’۶
اقبال کے اس خط سے ایک اعلیٰ صداقت کھل کر سامنے آرہی کہ برصغیر کے مسلمان رہنما کس حد تک اقربا پروری اور رشوت خوری کا شکار ہو چکے تھے۔ان خامیوں نے نہ صرف مسلمانوں کو مغلوب کردیا تھا بلکہ مسلمان رعایا اپنے حکام سے متنفر ہوچکی تھی ۔صداقت ایک ایسی خوبی ہے جس کی وجہ سے انسان باطن سے خارج تک،گھر سے ملکی سطح تک اورفرد واحد کی ذات سے لے کر قوم تک کے سامنے ایسے مراتب پر فائز ہوجاتا ہے جو مراتب دوست سے دشمن تک کے لیے قابلِ تقلید اور قابلِ تحسین ہیں۔صداقت ایک ایسی خوبی ہے جو افراد اور اقوام کی جڑوں سے برائیوں کو نکال کراچھائیوں کو بھر دیتی ہے۔آپﷺ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یارسول اللہ مجھ میں سب برائیاں پائی جاتی ہیں مگر میں سب برائیاں نہیں چھوڑ سکتا،تو آپ ﷺ نے کہا تو صرف جھوٹ چھوڑ دو،اس شخص نے جھوٹ چھوڑنے کا وعدہ کیا اور جھوٹ چھوڑنے کا اس شخص پر ایسا اثر ہوا کہ اسے تمام برائیاں چھوڑنی پریں کیونکہ جب کبھی بھی رسالت مآب میں اس سے کسی معاملے پر سوال کیا جاتا تو اسے سچ بولنا پڑتا،وہ شخص جب برائی کا ذکر نہیں کرسکتا تھا تو پھر برائی کیسے سرانجام دے سکتا تھا اس لیے اسے برائی کو ترک ہی کرنا پڑا۔اللہ تعالیٰ دلوں کی باتوں کو جانتا ہے اور انسان کے ارادوں کے بدلے میں ہی اس کے لیے صلہ رکھا گیا ہے۔سورہ احزاب میں مناقین کی انہی باتوں کی طرف اللہ تعالی ٰ اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘تاکہ اللہ سچوں کو ان کے سچ کا بدلہ دے اور منافقوں کو عذاب دے اگر چاہے،یا
ان کی توبہ قبول فرمائے۔بلاشبہ اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا،نہایت رحم والا ہے۔’’۷
اقبال جانتے تھے مسلم رعایا اپنے حکمرانوں سے اس لحاظ سے بدظن ہوچکی ہے کہ ان حکام کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے اور زبان پر کچھ اور ہوتا ہے۔یہ مسلم حکمران ایک طرف اپنی عوام کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ ہر کام قرآن وسنت کے دائرے میں رہ کر مسلم رعایا کی بھلائی کے لیے سرانجام دے رہے ہیں اور دوسری طرف یہی حکمران اسلام مخالف لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔مسلم عوام کو اس بات کا احساس ہورہا تھا کہ مسلم حکمران ان سے رخ پھیرکر اپنے مفادات اور اپنے مقاصد کے حصول میں سرگرداں ہیں۔اقبال نے۲۸ مئی۱۹۳۷ء کو جناح کے نام اپنے ایک خط میں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مسلم لیگ کو عوام کی جماعت بننا چاہیے اور مسلم لیگ کے رہنماؤں کو مسلم دوست ہونا چاہیے جو عوام کی فلاح وبہبود کی طرف توجہ کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم عوام کے ساتھ مخلص بھی ہوں۔اقبال ،جناح کی اس جانب طوجہ مبذول کرواتے ہوئےلکھتے ہیں:
‘‘مسلم لیگ کے دستور اور پروگرام میں جن تبدیلیوں کے متعلق میں نے تحریر کیا تھا
وہ آپ کے پیشِ نظر رہیں گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانان ہند کی نازک صور
تحال کا آپ کو پورا احساس ہے مسلم لیگ کو آخر یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے
مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے۔یا مسلم جمہور کی جنہوں نے اب
تک بعض معقول وجوہ کی بنا پراس مسلم لیگ میں کوئی دلچسپی نہیں لی میرا ذاتی خیال یہی
ہے کہ کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہ ہو۔ہمارے
عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہوسکتی۔’’۸
ایک مسلمان کے لیے دنیا وآخرت کی کامیابی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ہے۔اقبال کے مردِ مومن،مردِحق اور خود شناس اور خودی سے بہرہ ور جیسے القابات اسی مرد کے لیے ہیں جو خود کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت میں سر نگوں کرنے اور شریعت کے دائرے میں خود کو محدود رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کے لیے آخرت کا صلہ تو موجود ہے ہی مگر دنیا میں بھی اسے بلند مقام پر فائز کیا جاتا ہے۔جب وہ شخص صحیح اور مکمل طور پر خود کو خودی سے عارف بنا لیتا ہے اور اسوہءحسنہ کا عملی نمونہ بن جاتا ہے تو دنیا کی بادشاہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔اس تناظرمیں اقبال کے ایک شعر کی تشریح طاہر فاروقی کی کتاب‘‘اقبال اور عشق رسول’’ سے دیکھیے:
‘‘ولایت، پادشاہی، علم اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں؟ فقط اک نکتہ ایماں کی تفسیریں
اقبال کا مردِ مومن جو معرفتِ خودی رکھتا ہے اور اتباع نبوی میں اُسوہ حسنہ پر اپنی
زندگی کو دڈھالتا ہے انس وآفاق کو مسخر کرلیتا ہےضمیر کائنات کے اسرار ورموز
اس پر منکشف ہوجاتے ہیں۔وہ ابن الوقت نہیں رہتا بلکہ ابوالوقت اور ابوالحال
کے بلند مقام پر فائز ہوجاتا ہے۔’’۹
اقبال کی زندگی خدا اور اس کے رسول کی محبت میں رنگی ہوئی تھی اور وہ ہمیشہ خود کو اور امت مسلمہ کو اسی دھارے میں لانےکے لیے سرگرداں رہا اور بیان کی حد تک تو وہ کامیاب بھی رہا باقی عمل کیونکہ ذاتی اور انفرادی ہے اس لیے اس کو سامنے والے پر چھوڑدیا۔اقبال نے دینی عصبیت اور محبت کو جن ٹھوس اور پرکشش الفاظ میں بیان کیا یقیناً قابل ِدید اور واجب ِتحسین ہیں۔
علامہ اقبال نے مثالی ہیرو کی جن خصوصیات کا ذکر کیا ہے وہ خصوصیا ت کسی بھی کامیاب تہذیب اور شخص کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔اقبال مغربی تہذیب کے جس وجہ سے خلاف تھے وہ کوئی ذاتی مسئلہ یا کوئی دشمنی نہیں تھی بلکہ اقبال ان عناصر کو پہچان چکے تھے جن پر مغربی تہذیب کی بنیادیں استوار تھیں اور مغربی تہذیب کی بنیادوں میں بھی وہی عناصر کارفرما تھے جنھوں نے بابل،نینوا اور یونانی تہذیبوں کی تباہی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔مغربی تہذیب اور اس تہذیب کے مثالی افراد اپنے ہنر میں جوہر نہیں پیدا کرسکے تھے ۔ کوئی شاعر،مصور،مجسمہ ساز،موسیقار حتی کہ کسی بھی قسم کا فنکار جب تک اپنے فن میں جوہر پیدا نہیں کر پاتا تب تک وہ وہ عارضی زندگی میں مثالی اور ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید نہیں بن سکتا۔مثالی ہیرو کے مثالی کارنامے کے حوالے سے اقبال فرماتے ہیں:
رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صورت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر
وائے صورت گری و شاعری و نائے سرور۱۰
اقبال نے صداقت برمبنی بات کی ہے کہ کسی بھی فن پارے کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تعمیر میں خون ِ جگر صرف کیا جائے۔اقبال کے اس خیال کو فن کاروں نے تو اپنے فن پاروں میں خوب برتا اور خوب نام کمایا مگر مسلمان رہنما ان کی زندگی میں ایسا کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے تاہم ان کی زندگی کے بعد مسلمانوں نے خون نے پاکستان جیسا خوب صورت وطن آباد کیا۔
مثالی مسلم رہنما کے لیے ضروری ہے کہ وہ فقر جیسی نعمت سے مالا مال ہو۔فقر اقبال کو بہت پسند تھا اور فقر کی وجہ سے پرندوں سے لے کر اس صفت سے متصف انسان بھی بہت پسند آئے۔فقر ایک ایسی خوبی ہے جو انسان کو مال کی ہوس سے بے نیاز کردیتی ہے۔مال کی لالچ ایک ایسی برائی ہے جس کی وجہ سے انسان عدل سے گر کر ظلم کی وادی میں جا پہنچتا ہے۔ظلم انسان کو نہ صرف عدل سے دور کرتا ہے بلکہ ظلم کی اس انتہا پر پہنچا دیتا ہے جہاں انسان ذات پرستی جیسی برائیوں کا پیکر بن کر سامنے آتا ہے مگر مثالی انسان اور مثالی رہنما بننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان مالی ،مادی،منفعتی اور عہدوں کی بھوک سے بالا تر رہے۔اسی لیے اقبال نے اپنی نظم ‘‘مسلمان کا زوال’’مشمول ضرب کلیم میں فقر کو اہم مقام عطا کرکے اس کے معنی و مفہوم کو واضح کردیا:
‘‘اگر چہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات جو فقر سے ہے میسر،تونگری سے نہیں
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور وغیور قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
سبب کچھ اور ہے،تو جس کو خود سمجھتا ہے زوال بندہء مومن کا بےزری سے نہیں’’۱۱
اقبال فرماتے ہیں بڑےبڑے مالدار بھی ضرورتوں سے پاک نہیں اور وہ لوگ دن رات ان ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔یہ زرپرست بعض اوقات زر کے حصول کے لیے ایسے ایسے ذرائع اختیار کرتے ہیں جن کی وجہ سے ان لوگوں کے ضمیر جیتے جاگتے ضمیر نہیں رہ پاتے۔اقبال نے اپنی قوم کے نوجوانوں کو دولت نہیں بلکہ غیرت اور فقر اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ ان خوبیوں سے متصف انسان ہی مثالی انسان کی نشست تک پہنچ پاتا ہے۔اقبال کی پسندیدہ ہستی آپﷺ نے اپنی زندگی کو عملی نمونہ بنا کر دوسروں کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا ،آپﷺ کی صفات میں سےایک صفت یہ بھی ہے کہ لالچ وطمع سے بالا تر ہوکر زندگی گزاری جائے،یہ ایک ایسی خوبی ہے جو عام انسان کو خاص بنا دیتی ہے اور دشمنوں کی نظر میں صادق وامین بنا دیتی ہے۔ایک صوفی بھی جہاں اپنی ذات کی نفی کرکے خدا کا برگزیدہ اور عوام کا مقبول بندہ بن جاتا ہے وہیں ایک مخلص،بےلوث اور سب سے محبت کرنے والا حکمران بھی بلاتفریق سب کو انصاف ومحبت دےکر سب کے دلوں پر راج کرتا ہے۔اسلامی تاریح کے جس صفحے کا مطالعہ کیا جائےوہ حکام کے عدل وصداقت سے پُراور قربانی کے خون سے رنگین نظر آئے گی۔بائیس لاکھ مربع میل کا حکمران عدل وانصاف کی وہ زندہ مثالیں قائم کرگیا جو رہتی دنیا تک کےحکمرانوں کے لیے رشک تقلید رہیں گی۔ پروفیسر فتح محمد ملک ،اقبال کے نظریہ پاکستان پر بات کرتے ہوئے مثالی رہنما اور سچے مسلمان کی کچھ ایسی ہی صفات کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں:
‘‘ایک سچا مسلمان آدمیت احترامِ آدمی،کے مسلک پر اس حد تک کاربند ہوتا ہے کہ
وہ وقت آنے پر دیگر مذاہب کی عبادات گاہوں کی حفاظت میں اپنی جان تک قربان
کردینےکو تیار رہتا ہے۔چنانچہ وہ مذاہب وملت کے اختلاف سے قطع نظر،ہر کسی پر،
صرف شفقت ومحبت کی نظر ہی ڈالتا ہے۔’’۱۲
امورِ سلطنت اور جنگی اُمور میں کچھ فیصلے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو عقل سے زیادہ جذبات کی بنیاد پر سرانجام دینا پڑتا ہے،ایسے مواقعوں کے لیے اقبال کہتے ہیں کہ عشق کی بنیاد پر فیصلے صادر کیے جائیں ۔مثالی مسلم رہنما کے لیے ضروری ہے کہ وہ عقل سے جزوی اور عشق سے کلی طور پر کام لے۔اقبال اپنی شاعری میں اکثر مقامات پر عشق کے حامی نظر آتے ہیں۔عشق ہی وہ جذبہ ہے جو انسان کو زادِ راہ پر غور کرنے کی بجائے منزل پر نظریں ٹکانے پر مجبور کرتا ہے۔تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ عشق کے حامل پروانوں نے جان دینا تو گوارہ کیا مگر اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنا شان کے خلاف سمجھا۔برصغیر کے مسلمانوں نے انگریز وں اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات پانا اور علیحدہ وطن بنانا اپنا عشق بنا لیا تھا۔ورنہ عقل کی کسوٹی پر پرکھنے والے اس وقت بھی یہی کہہ رہے تھے کہ الگ ریاست مسلمانوں کے لیے گلے کی ہڈی بن جائے گی اور مالی،سیاسی اور دفاعی لحاظ سے اس قدر کمزور ہوجائیں گے دوبارہ مدغم ہوئے بغیر ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔مسلمانوں کے اس عشق کو جنون کی سطح پر پہنچانے کے لیے قائداعظم اور علامہ اقبال نے اہم کردار ادا کیا۔عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو قربانی دینے کے لیے اکساتا ہے اور یہ قربانی بھی کسی جانور کی قربانی نہیں بلکہ اپنی زندگی جیسی قیمتی ترین نعمت کی قربانی ہے۔عشق ایک ایسی باطنی آواز ہے اور بیرونی آنکھ ہے جو انسان کو دوسرے انسانوں کے باطن میں جھانکنے کے قابل بناتی ہے۔اسلامی تاریخ میں عشق کی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ عاشقوں نے اپنے محبوب کے لیے اپنی آواز کو نہیں بلکہ محبت کے دستور کو دیکھا ہے اور قربانی کا جام پیا ہے۔اقبال نے ضرب کلیم کی نظم ‘‘علم وعشق’’میں اس بات کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے:
عشق کے ہیں معجزات سلطنت وفقر ودیں عشق کے ادنی غلام صاحبِ تاج ونگیں
عشق مکاںو مکیں،عشق زمان وزمیں عشق سراپا یقیں،اور یقیں فتح یاب! ۱۳
مندرجہ بالا اشعار پر غور کریں تو عشق کے معجزات میں سے سرکردہ معجزات سلطنت،فقر اور دین ہیں اور عشق کا کمزور ترین پروردہ بھی تاجور جیسے لقب سے ملقب ہوتا ہے۔عشق انسان کو کسی کا غلام بننے کی بجائے اپنی مملکت کا تاجور بننے کی تلقین کرتا ہے،عشق کا حامل اگر دنیا کی دولت سے محروم بھی ہو تو وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے یااپنے ضمیر کا سودا کرنے کی بجائے فقر کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ اس سے خودی قائم رہتی ہے۔عشق کی ایک اور بڑی خوبی جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عشق کا حامل انسان دنیا کے دستور کو خدا کے عطا کردہ قانون کے مطابق برتنے کی کوشش کرتا ہے۔عشق کی وسعتوں کی بات کی جائے تو یہ زمین سے زمانوں تک پھیلا ہوا ہے۔اقبال کہتے ہیں کہ عشق یقین کا دوسرا نام ہے اور یقین فتح کے مترادف ہے۔
تحرک ترقی کی ابتدائی سیڑھیوں میں سے ایک ہے۔ترقی کی راہوں کے متلاشی کے لیے ضروری ہے کہ وہ جرات مندی کا ثبوت دے کیوں کہ اسی راستے پر چل کر وہ دنیا کے رازوں کو جان سکے گا اور مزید سے مزید جہان دریافت کرسکے گا۔جس پیکر میں جرات دکھانے کے حوصلے آجائیں وہ پیکر خاموش ہوکر نہیں بیٹھ سکتا بلکہ وہ کسی نہ کسی انقلاب کا باعث بنتا ہے۔متحرک زندگی ہی اصل زندگی ہے کیونکہ ساکت پن موت کا پیش خیمہ ہے۔حرکت صرف یہ نہیں کہ انسان ارد گرد گھوم پھر کر رات کو نیند کے آغوش میں چلا جائے بلکہ حرکت بھی کسی مثبت تبدیلی کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔اس نظام جہاں میں حرکت اور تبدیلی کے بہت وسیع معنی ہیں جب ہم زمین و آسمان کے محور پر نظر دوڑاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی ساکت نہیں رہنے دیا بلکہ یہ بھی حرکت میں ہیں اور بدل بدل کر آتے رہتے ہیں۔عقل مند انسان جب زمین وآسمان کی تبدیلوں کو دیکھتا ہے تو ان سے نصیحت پاتا ہے اور اپنے امور احوال اور فرائض حیات میں بھی تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے۔قید پرندوں کی بھی زندگی تو گزر جاتی ہے مگر آزادی جیسی نعمت سے محروم گزرتی ہےاور رزق کے لیے بھی دوسروں کے ہاتھوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ایک متحرک جسم کے لیے یہ جہاں تنگ نہیں،اقبال کی نظم ‘‘تسلیم ورضا’’میں اس نکتے کو یوں بیان کیا گیا:
‘‘فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہِ عمل بند مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم ورضا کا
جرات ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے اے مردِ خدا،ملک خدا تنگ نہیں ہے!۱۴
اقبال نے مردِ خدا کو مخاطب کرکے یہ کہا ہے کہ اگر تیرے اندر پھلنے پھولنے کی سکت ہے تو یہ جہاں وسیع ہے اور جہاں کی فضا بھی وسیع ۔خدا کے بندے کو بس اپنے آپ کو پہچاننا ہے اور اس کائنات کے نظام کو جانناہے اور پھر اللہ کی زمین پر پھیل جانا ہے جب تک خدا کے قانون کو غالب نہ کرلے سکون سے نہیں بیٹھنا۔یہ انسان جب خدا کی زمین پر خدا کے نام کو غالب کرے گا تو پھر اس زمین پر امن پھیلے گا اور باقی لوگ اس امن پھیلانے والے کوتحسین اورفخر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اس طرح یہ انسان باقی لوگوں کی نظر میں مثال کا روپ دھار لے گا۔جرات کا مظاہرہ صرف یہ نہیں کہ زمین پر اقتدار قائم کرلیا اور خود کو بادشاہ کہلوالیا بلکہ خدا کے بندوں کے درمیان انصاف قائم رکھنا اور ان لوگوں کو ان کے حقوق دلوانا اصل جرات ہے۔جس قدرزیادہ امور میں بہادری کا مظاہرہ کیا جائے گا اس قدر ہی یہ انسان مخلوق کے لیے مثالی رہنما کے درجے پر فائز ہوتا جائے گا۔
اقبال نے جس دور میں اور جس خطہ میں آنکھ کھولی تھی وہاں امت مسلمہ غلامی کی زندگی بسر کر رہی تھی یہ بات اقبال کو بالکل نہیں پسند تھی کہ قرآن جیسا دستور رکھنے والی اور محمد ﷺ جیسا رہبر ورہنما رکھنے والی امت بے راہ روی کا شکار لوگوں کی غلام بن کر زندگی بسر کرے۔اقبال نے مثالی شخص اور مثالی اشخاص پر مشتمل جماعت کی یہ خوبی بیان کی ہے کہ وہ لوگ محکومی نہیں بلکہ حکمرانی کرتے ہیں:
ہر کہ بندِ خودی دارست مرد ہر کہ بائیگانا نکاں پیوست مرد
عصر خود را بنگر اے صاحب نظر در بدن باز آفریں روح عمر ۱۵
آزادی اور حکمرانی کے لیے ضروری ہے اس قوم کے پاس اپنا ایک دستور ہو اور اس پر عمل پیرا ہونا اپنا فرض سمجھتے ہوں۔قوم تو ایک مقصد ،ایک لائحہ عمل اور مشترک مفاد کے لیے اکھٹے ہونے کا نام ہے،مگر جب کسی قوم کے افراد اپنے مفادات کو مجموعی کی بجائے انفرادی اور کسی مربوط لائحہ عمل کی بجائے من مرضی پر اتر آئیں تو ایسی قوم تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔مسلمانوں کے پاس قرآن جیسا مکمل دستور موجود ہے اسی دستور کی سرپرستی میں یہ قوم چودہ سو سال سے کامیابی حاصل کرتی آرہی ہے مگر برصغیر میں اس قوم نے جونہی اس دستور سے منہ موڑا تو ناکام ونامراد ہوکر مغلوب ہوبیٹھی۔اس حوالے سے پروفیسر شبیر افضل اپنی کتاب‘‘علی شریعتی کے انقلابی افکار اور اقبال’’ قرآن کی اہمیت کے حوالے سے اقبال کا ایک بیان نقل کرتے ہیں:
‘‘مجھے رہ رہ کر یہ رنج دہ تجربہ ہوا ہے کہ مسلمان طالب علم اپنی قوم کے عمرانی،اخلاقی اور
سیاسی تصورات سے نابلد ہے۔روحانی طور پر بمنزلہ ایک لاش کے ہے اور اگر موجودہ
صورت حال اور بیس سال قائم رہی تو وہ اسلامی روح جو قدیم اسلامی تہذیب کے چند
علمبرداروں کے فرسودہ قالب میں ابھی تک زندہ ہے،ہماری جماعت کے جسم سے بالکل
ہی نکل جائے گی اور وہ لوگ جنہوں نے تعلیم کا یہ اصل الا صول قائم کیا تھا ہر مسلمان بچہ
کی تعلیم کا آغاز قرآن مجید کی تعلیم سے ہونا چاہیے۔’’۱۶
ایک اور جگہ اقبال غلامی اور آزادی کا فرق یوں واضح کرتے ہیں:
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی ۱۷
اقبال نے اپنی زندگی کا دستور قرآن اور آپ ﷺکی زندگی کو بنا رکھا تھا ۔اقبال نے بچپن سے لے کر موت تک عشق ِ مصطفوی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔اقبال جانتے تھے زندگی کے مکمل قوانین جس قدر شریعت محمدی میں موجود ہیں اس قدر کہیں اور نظر نہیں آتے۔دین محمدی آسمانی دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مکمل دین ہے جس نے کائنات کے تمام انسانوں کو،بدوی وشہری،قیدی وآزاد،آقا وغلام،فاتح ومفتوح اور حکمران اور رعایا سب کو امن وجنگ،شکست وفتح کی زندگی گزارنے کے لیے بہترین اصول فراہم کیے ہیں۔ایک معاشرے کے سب عناصر میں سے اہم اور ذمہ دار رکن حکمران ہے اور وہی اس معاشرے کو ترقی وتنزلی اور فتح وشکست کے راستوں سے گزارتا ہے۔ایک حکمران اگر اپنی رعایا کو ایک مرکز پر مرتکز رکھنا چاہتا ہے تو اسے اپنی رعایا کو دینی محبت کی لڑی میں پرونا ہوگا۔دین کی محبت اور اس کی طاقت اقبال کے سامنے تھی،آپ ﷺ کے فتح مکہ کے مناظر ہوں یا خلافت راشدہ کا دور ہو مثالی رہنما ہیرے کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔حضرت عمرؓ نے اپنی حکومت کو ۲۲لاکھ مربع میل تک پھیلا تو اس کے پیچھے بھی دین کی محبت تھی۔مسلمانوں کی قادسیہ اور یرموک کی فتوحات کے متعلق ابن خلدون کے افکار کو بیان کرتے ہوئے مولانا حنیف ندوی لکھتے ہیں:
چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں کو جو بےپناہ فتوحات حاصل ہوئیں وہ
اسی سبب سے ہوئیں کہ مسلمان دین سے بہرہ مند تھے اور مخالفین میں دینی نقطہ نظر
مفقود تھا۔قادسیہ اور یرموک کی معرکہ آرائیوں کو دیکھیے،مسلمانوں کی فوجیں تو تیس
ہزار سے کچھ ہی اوپر تھیں مگر ان کے مقابلے میں واقدی کی روایت کے مطابق اہل فارس
کے عسا کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھی،اور رومی سپاہی تو چارچارلاکھ کی تعداد میں
میدان جنگ میں اترتے تھے،لیکن اس کثیر تعداد کے باوجود ان کو شکست کاسامنا کرنا
پڑا۔’’۱۸
مثالی شخص مادی دنیا کی حدود و قیود میں کھوکر خود کو مقید نہیں کر بیٹھتا بلکہ مزید سے مزید تر کی تلاش میں رہتا ہے۔یہ مزید سے مزید تر کا جو سفر ہے یہ خود ی سے شروع کر فلاح انسانیت تک پہنچ جاتا ہے۔کائنات اور کائنات کے رازوں میں کھو کر خود کو مصروف کار رکھنا وقت گزارنانہیں بلکہ رہبر بننے اور نئی منزلوں کے متلاشی ہونے کی علامت ہے۔یہی خاصیت ہے جو عام انسان کو عام کے درجے سے اٹھا کر خاص کے درجے پر پہنچا دیتی ہے اور سب کے لیے مثالی اور مقبول نظر بنا دیتی ہے۔اقبال کے مرد مومن کو بعض ناقدین نے نٹشے کے مافوق البشر سے ملانے کی کوشش کی اور بعض نے کہا کہ اقبال نے یہ خیال اخذ ہی نٹشے سے کیا ہے۔مثالی مسلم رہنما کے ضمن میں اس بات کا ذکر انتہائی ضروری ہے کہ اقبال کے مردِ حق کی تمام صفات قرآن و حدیث کا ملخص تھیں اور نٹشے کا فوق البشر(سپرمین) مذہب سے باغی اور اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ خدا کو ہی سمجھتا تھا۔اقبال نے اپنے ایک بیان میں نیٹشے کو آڑے ہاتھوں لیا ہے،اقبال کےاس بیان کی تشریح کرتے ہوئے ڈاکٹر ایوب صابر نے اپنے لفظوں میں یوں بیان کیا ہے:
‘‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس’’ ایسا فلسفہ ہے جسے اقبال قبول نہیں کرتے۔ان کے نزدیک
نشہءقوت خطرناک ہے۔وہ مصر ہیں کہ انسان کو انسان کی بندگی سے آزاد کرایا جائے۔اس
کی واحد صورت یہ ہے کہ انسانوں پر فرماں روائی اللہ کی ہو۔اقبال کا مردِ خدا روحانی اوراخلاقی
قوتوں کا مظہر ہے۔نیٹشے کسی روحانی واخلاقی مقصد کو نہیں مانتا۔اس کے نزدیک انسانی تاریخ
میں کوئی اخلاقی اصول کارفرما نہیں اور نیکی،انصاف،فرض،محبت بےمعنی الفاظ ہیں۔اقبال
کے نزدیک یہ اقدار نہایت اہم ہیں۔وجہ یہ ہے کہ قرآنِ حکیم ان کی باربار تلقین کرتا ہے۔’’۱۹
نیکی،انصاف،محبت اور احساس ذمہ داری یہ وہ صفات ہیں جن سے متصف انسان اسلام میں حکمرانی کے لیے اہل قرار پاتا ہے۔دنیا کے کسی صلے یا مقصد کے لیے جب آپ کسی سے بھلائی کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ زمان و مکان کے لحاظ سے محدود ہو مگر جب آپ کا مقصد رب کی زمین پر بسنےوالی مخلوق کو رب کی رضا کے لیے خوش کرنا ہو تو آپ اپنی جان پر کھیل کربھی بھلائی کا راستہ اختیارکریں گے۔انصاف میں ایسی طاقت ہے کہ مظلوم کو بےسہارا نہیں ہونے دیتی اور ظالم کو بےمہار نہیں بننےدیتی۔حکمران میں انصاف کی خوبی موجود ہوتو وہ اسےعوام کی نظر میں مقبول اور دشمن کی نظر میں مضبوط بناتی ہے۔خلافتِ راشدہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ان تمام خوبیوں بدرجہ اتم بہرہ ورتھے اور ان لوگوں میں نیکی کا جذبہ اور احساس ذمہ داری اس قدر موجود تھا کہ راتوں کوسونے کی بجائے گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے تاکہ اپنی رعایا کے ہر حق کا خیال رکھیں اور کسی بھی ناگہانی صورت میں فوری طور پر ان کی مدد کی جائے اور مسئلے کا تصفیہ کیا جائے۔مثالی مسلم رہنما کی ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایک اور خوبی بھی انتہائی اہم ہے جسے ‘انقلاب’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اقبال کے ایک شعر سے انقلاب کی بات کا آغاز کرتے ہیں:
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روح ِامم کی حیات کشمکشِ انقلاب!۲۰
انقلاب کے لفظ کو جن معنوں میں بھی استعمال کیاجائے اس کی مثبت اصل خوف ِ خدا رکھنے والے اللہ کے دوستوں سے شروع ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔حضرت آدمؑ کو پہلا انقلابی کہنا چاہیے کیونکہ انھوں نے سوئی ہوئی زمین کو ‘‘کہو اللہ ایک ہے’’ کے پیغام سے روشناس کروایا اور پھر خود اس پیغام پر عمل کروانے کے لیے متحرک ہوگئے۔حضرت آدم ؑ کی جنت کی زندگی حرکت سے عاری تھی مگرزمین پر آکر انھوں نے متحرک زندگی گزاری۔علامہ اقبال نے اپنی نظم ‘‘سرگزشتِ آدم’’میں اسی انقلاب کا ذکر کیا ہے۔اقبال انقلاب کی داستان کو حضرت آدم ؑ سے شروع کرکے آپﷺ کی ذات تک لے آتے ہیں۔انبیاء کرام ؑ نے ہجرتیں کیں،جنگ وجدل میں حصہ لیا،وعظ ونصیحت کو اپنایا،امن وسکون کی ترغیب دی اور مثالی اخلاق وکردار کا درس عام کیا۔مسلم مثالی رہنما کے لیے انقلابی خوبی اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ برسوں سے چلتی آرہی غلط روایات کوختم کرسکے یا ان کو درست سمت میں گامزن کرسکے۔انبیاء کی ان انقلابی خوبیوں کواقبال اپنی نظم‘‘سرگزشت آدم’’ یوں بیان کرتے ہیں:
‘‘سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے بھلایا قصہ پیمانِ اولیں میں نے
لگی نہ میری طبیعت ریاضِ جنت میں پیا شعور کا جب جامِ آتشیں میں نے
رہی حقیقتِ عالم کی جستجو مجھ کو دکھایا اوجِ خیالِ فلک نشیں میں نے
ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا کیا قرار نہ زیر فلک نشیں میں نے
نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے
کبھی ذوق تکلم میں طور پر پہنچا چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے
کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا کیا فلک کو سفر،چھوڑ زمیں میں نے
کبھی میں غارِ حرا میں چھپا رہا برسوں دیا جہاں کو کبھی جامِ آخریں میں نے’’۲۱
اقبال حالات کا بغور جائزہ لے کر یہ جا ن چکے تھے کہ انقلابی طبیعت کے مالک رہنما ہی ہندو پاک اور دنیا کی دیگر ریاستوں میں مغلوب مسلمانوں کو آزاد کروا کراسلام کا نعرہ بلند کرسکتے ہیں۔ان انبیاءکرامؑ کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جنہوں نے صدیوں سے قائم روایات کے پندار کو توڑا اور انسانیت کو وہ درس دیاجو فطرت کے عین مطابق تھا اور انسانیت کی آزادی کے لیے نہایت موزوں تھا۔اقبال کو انقلاب اس قدر پسند تھا کہ کارل مارکس کی انقلابی کاوشوں کو بھی سراہا ہے۔کارل مارکس کو‘‘کلیم بےتجلی اور مسیح بےصلیب’’جیسے القابات سے یاد کیا ہے۔کارل مارکس کی کچھ باتیں اسلامی قوانین کے تحت آتی تھیں مثلاً وہ چاہتا تھا کہ جاگیردار سارے سرمائے پر سانپ بن کر نہ بیٹھ جائیں بلکہ جن کے ہاتھوں کی مدد سے یہ سرمایہ اکھٹا کرتے ہیں ان کو بھی اس ثمر سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیں۔انقلاب انسان کو ساقط،جامد اور سہل پسند نہیں ہونے دیتا بلکہ انسان کو باطنی شعور سے بھی مالا مال کرتا ہے۔اس کی بہترین مثال حضرت بلالؓ ہیں انھوں نے جب اپنے آقا سے بغاوت کا اعلان کیا تو صرف زمینی شہر یا زمینی آقا ہی نہیں بدلہ بلکہ اپنے حقیقی آقاکو پہچان کر خودکو دنیاوی آقاؤں کی غلامی سے نجات دلالی:
‘‘چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا حبش سے تجھ کو اُٹھا کر حجاز میں لایا
ہوئی اسی سے تیرے غم کدے کی آبادی تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے کسی کے شوق میں تو نےمزے ستم کے لیے’’۲۲
انقلابی طبیعت میں آزادی کی لگن کا ہونا بھی ضروری ہے۔مسلم رہنما کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی کی غلامی میں رہنا ہرگز پسند نہ کرےاور خاص طور پر اسلام کا جھنڈا کسی طور پر سرنگوں نہ ہونے دے۔آزادی کے لفظ کو اگر اسلام کے ساتھ جوڑ دیا جائے تو یہ آزادی بامقصد اورکامل ہوجاتی ہے۔اسلامی تاریخ ایسے انقلابات سے بھری پڑی ہے جہاں انفرادی اور گروہی صورت میں ایسی شخصیات سامنے آئی ہیں جنھوں نے اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کی آزادی کے لیے جدوجہد کی۔اقبال اپنی نظم شکوہ کے نویں بند میں مسلمانوں کی بہادری کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
‘‘تو ہی تو کہہ دے کہ اُکھاڑا در خیبر کس نے شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے کاٹ کر رکھ دیئے کفار کے لشکر کس نے
کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدہ ءایراں کو؟ کس نے پھر زندہ کیا تذکرہء یزداں کو؟۲۳
اقبال نے حضرت علیؓ کی بہادری کا ذکرکرتے ہوئے فتح خیبر کا نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچا ہے۔یہودیوں کی مشہور بستی القدس میں جب مسلمان اسلام کی سربلندی کے لیے قلعہ کے دروازے کو توڑ کرداخل ہوئے تو اس وقت دشمن پر پہلا رعب مسلمانوں کی بہادری کی صورت میں ان پر طاری ہوا۔اقبال کا مطلب یہ ہے کہ جب انقلابی روح بیدار ہوجاتی ہے تو پھر وہ خیبر کے دروازوں کو بھی توڑ پھینکتی ہے اور قیصر روم جیسے ظالم اور خلقی خداؤں کو بھی کنارے لگا کر اسلام کا پرچم بلند کردیتے ہیں۔آخری شعر میں ایران میں پنپنے والی آتش پرستی کی بات کی ہے جب وہ حد سے گزر جاتی ہے تو اسلام کے رکھوالے آکر نہ صرف اس آگ کوخاموش کرتے ہیں بلکہ وہاں پر خدائے لم یزل کا نام بھی بلند کرتے ہیں۔
اقبال ایک ذہین فلاسفر،گہرے جذبات کے حامل شاعر،خدا کے عابد بندے ،سچے عاشق رسول تھے اور بالعموم تمام انسانیت اور بالخصوص مسلمانوں کا درد رکھنے والے انسان تھے۔انہوں جب آنکھ کھولی تو مغربی تہذیب کی یلغار دیکھی،مسلمانوں کو مغلوب اورخداکے قرآن اور محمدﷺ کے فرمان سےدور دیکھا تھا۔اسلام کی محبت نے جب جوش مارا تو مظلوم ومغلوب مسلمانوں کو بیدار کرنے کی ٹھان لی۔ایک شاعر تو اپنی شاعر ی کے ذریعے آزادی کا جذبہ دے سکتا ہےیا پھر راہ دکھا سکتا ہے۔اقبال نے وقت کی نزاکت اور مسلمانوں حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے اہم موضوعات پر پرمغز شاعری کی اور ان کی شاعری نے مسلمانوں کے لیے رہنمائی اور رہبری کا کام کیا۔اقبال جانتے تھےکہ مسلمانوں کے اس مغلوب سفینے کو برکنار کرنے کے لیے کسی مضبوط ومستحکم رہنما کی ضرورت ہے۔انھوں اس رہنما کو مرد مومن،مرد حق،خود شناس اور عارف جیسے القابات سے نوازا ہے۔اقبال نے اس رہنما کے لیے ضروری قرار دیا ہے کہ وہ اسلام کا پروردہ ہو،جری بہادر ہو،قول وفعل میں صداقت کا داعی ہو اور یار واغیار میں بلاتفریق انصاف کرنے والا ہو۔تخلیقی ذہن کا مالک ہو اور انقلابی سوچ کا حامل ہو اور رب کی زمین پر اسلام پھیلانے کے لیے معاشی اور سیاسی ترقی کا خواہاں ہو۔اقبال نے مسلمان کی آزادی اور اسلام کی کامیابی کے خدا کے قرآن اور محمدﷺ کے فرمان سے محبت کوجزو اول اورلازمی قرار دیا ہے۔
حوالہ جات:
۱۔القرآن،پارہ۲۱،سورہ الاحزاب،آیت۲۱
۲۔القرآن،سورہ بقرہ،(مترجم)حافظ عبدالسلام،تفسیر القرآن،آیت۲۴۷
۳۔محمد اقبال،علامہ،طلوع اسلام ،(مشمولہ)کلیات اقبال،سنگِ میل پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷،ص۱۶۵
۴۔غلام مصطفی ٰ خان،ڈاکٹر،اقبال اور قرآن،اقبال اکادمی ،لاہور،(طبع ہشتم)۲۰۱۰ء،ص۳۳
۵۔محمد اقبال،علامہ،طلوع اسلام ،(مشمولہ)کلیات اقبال،سنگِ میل پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷،ص۱۶۵
۶۔محمد طاہر فاروقی،ڈاکٹر،اقبال اور محبت ِ رسول،اقبال اکادمی ،پاکستان،(طبع دہم)۲۰۱۵ءص۷۹۔۸۰
۷۔ اقبال کے خطوط جناح کے نام،(مرتب)محمد جہانگیر عالم،اقبال اکادمی ،لاہور،۱۹۹۵ ص ۶۹
۸۔ القرآن،سورہ احزاب،(مترجم)حافظ عبدالسلام،تفسیر القرآن،آیت۲۴
۹۔اقبال کے خطوط جناح کے نام،(مرتب)محمد جہانگیر عالم،اقبال اکادمی ،لاہور،۱۹۹۵ ص ۶۹
۱۰۔محمد اقبال،علامہ،بال ِ جبریل،تاج کمپنی ،برانڈرتھ روڈ،لاہور،۱۹۳۵ءص۱۲۸
۱۱۔محمد اقبال،علامہ،ضربِ کلیم،(طبع ) چہارم،۱۹۴۴ءص۱۲
۱۲۔فتح محمد ملک،پروفیسر،خطہءخاک یا ارض پاک؟،دوست پبلیکشنز،اسلام آباد،۲۰۰۴ءص۱۵
۱۳۔ محمد اقبال،علامہ،ضربِ کلیم،(طبع چہارم)،۱۹۴۴ءص۱۳
۱۴۔ایضاً ص۴۹
۱۵۔محمد اقبال،علامہ،زبور عجم،اردو کالج اردو روڈ،کراچی،(طبع چہارم)،۱۹۴۸ء
۱۶۔شبیر افضل خان،پروفیسر،علی شریعتی کے انقلابی افکار اور اقبال،پورب اکادمی،اسلام آباد،۲۰۰۷ءص۲۴۹
۱۷۔محمد اقبال،خضر راہ،(مشمول)بانگ درا،شیخ غلام علی سنز،لاہور،۱۹۷۷ءص۲۵۹
۱۸۔محمد حنیف ندوی،مولانا،افکار ابنِ خلدون،ادارہ ثقافت اسلامیہ،(طبع ششم)۱۹۹۵ءص۱۲۹۔۱۳۰
۱۹۔ایوب صابر،ڈاکٹر،اقبال کی فکری تشکیل،اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فارریسرچ اینڈ ڈائیلاگ،اسلام آباد،۲۰۱۹،ص۳۰
۲۰۔محمد اقبال،علامہ،مسجد قرطبہ ،(مشمول)بال ِ جبریل،تاج کمپنی ،برانڈرتھ روڈ،لاہور،۱۹۳۵ءص
۲۱۔ محمد اقبال،علامہ،سرگزشتِ آدم ،(مشمولہ)کلیات اقبال،سنگِ میل پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷،ص۶۱
۲۲۔ محمد اقبال،علامہ،بلالؓ ،(مشمولہ)کلیات اقبال،سنگِ میل پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷،ص۶۰
۲۳۔ محمد اقبال،علامہ،شکوہ ،(مشمولہ)کلیات اقبال،سنگِ میل پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷،ص۱۱۰