صبا زاہد
فیصل آباد ، پاکستان
اقبال اور قرآن عہد حاضر میں
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ،9نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔اپ بیسویں صدی کے معروف ومشہور شاعر ۔مصنف قانون دان اور سیاست دان ہیں آپ نے اُردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کی ہے لیکن بنیادی وجہ شہرت آپ کی فارسی شاعری ہے۔اپ نے شاعری کے زریعے مسلم امہ کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور برصغیر کے مسلمانوں میں آزادی کی جد و جہد اور نصب العین کے حصول کے لیے رہنمائی کی۔
اقبال ایک ایسا شاعر ہے کہ جس کی زہنی اور فکری نشوونما میں قرآن پاک کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں اقبال جیسے جیسے قرآن پاک کا مطالعہ کرتے گئے حقیقت قرآن کے راز آپ پر منکشف ہوتے گئے اور آپ کی شاعری قرآن کے اسرار و رموز میں ڈھلتی گئی ۔اور ان کی شاعری میں قرآن کے ان اثرات کو نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہےاقبال کا یہ کلام عہد حاظر میں بھی بہت اہمیت کا حامل ہے ۔اقبال لکھتے ہیں کہ
” ترے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشاہے نہ رازی نہ صاحب کشاف”۱
قرآن پاک ایک ایسی کتاب ہے کہ جب تک آپ سمجھ کر نہیں پڑھیں گے تب تک اس کتاب کے اسرار و رموز سے بھی آپ آگاہی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔
اقبال کے متعلق حکیم محمد حسن قرشی رقم طراز ہیں کہ:
“آپ (اقبال)کا کلام پاک خاص دل سوزی اور شغف کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے پڑھتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے ۔حتی کہ اوراق مصحف تر بتر ہو جاتے اور ان کو دھوپ میں سوکھایا جاتا آپ کی تلاوت کا خاص قرآن پاک اسلامیہ کالج لاہور میں محفوظ ہے اور اس روایت کا عینی ثبوت فراہم کرتا ہے” ۲
اقبال کے اشعار درحقیقت قرآن کی تعلیمات سے آ گاہی کا ایک مؤثر ذریعہ ہے انھوں نے بڑے احسن طریقے سے اپنی شاعری کے زریعے قرآن کے آفاقی پیغام کو لوگوں تک پہنچا یا ہے۔
قرآن مجید ایک عالمگیر اور آفاقی کتاب ہے جس میں زندگی کے ہر مسائل کا حل موجود ہے بشرطیکہ اس کتاب کو سمجھ کر پڑھا جائے ۔
” آ ں کتاب زندہ قرآن حکیم
حکمتِ او لا یزال است و قدیم “۳
اقبال نےقرآن کےپیغام کو اپنی شاعری کےتوسط سےعوام الناس تک پہنچانےکی بھرپور جدوجہدکی ہے اور اپنی شاعری کے حوالے سے رموز بیخودی میں “عرض حال مصنف بحضور رحمۃ للعالمین”میں آپ سرکار کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ:
” گردلم آئینہ بہ جوہر است
ور بحر فم غیر قرآن مضمر است
روز محشر خوار رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسہ پاکن مرا “۴
ان اشعار میں وہ خود اپنے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ میرے لفظوں میں کلام پاک سے ہٹ کر کوئی بات ہو تو مجھے اسی دنیا میں رسوا کر دیں تاکہ میں لوگوں میں شر نہ پھیلا سکوں ۔اور روز محشر جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہو گا ہر کوئی آپ رحمتہ اللعالمین کے سایہ رحمت میں پناہ کا خواہش مند ہو گا تو اس وقت مجھے اپنے نعلینِ مبارک کے بوسہ پاک سے محروم کر دیجیے گا ۔ اس حوالے سے ڈاکٹر وحید عشرت لکھتے ہیں کہ:
“یہ ایک ایسی بد دعا ہے جو کوئی مسلمان اپنے لیے نہیں مانگ سکتا اور اسی کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود اقبال بھی اپنے فکرو شعر کا ماخذ قرآن کو ہی قرار دیتے ہیں بلکہ اپنے فکر وشعر کو اس کی تفسیر سے تعبیر کرتے ہیں “۵
اقبال کے کلام میں قرآن کے اثرات جابجا نظر آتے ہیں اور ان کی شاعری میں قرآنی آیات اور تلمیحات کا کثرت سے استعمال کیا گیا ہے جو اقبال کی شاعرانہ عظمت اور قرآن پاک سے ان کی محبت کا واضح ثبوت ہے لکھتے ہیں کہ
” آ ہ اے مرد مسلماں تجھے کیا یاد نہیں
حرف لا تدع مع اللہ الھا آخر “۶
اس میں سورہ العنکبوت کی آ خری آ یت کی طرف اشارہ ہے کہ اللّہ کے سوا کسی چیز کو نہ پکارو ۔کہ صرف اللہ کے سوا ہر چیز نے فنا ہونا ہے کہ:
وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۘ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۫-كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ-لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ( سورہ العنکبوت)
ترجمہ: مت پکارو اللہ کے سوا دوسرا حاکم کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا ہر چیز فنا ہے مگر اسی کی ذاتِ اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف پھر جاؤ گے ۔
اسرار خودی میں لکھتے ہیں کہ:
” مدعائے علم الاسماء ستے
سر سبحان الذی آسرا ستے”۷
اس شعر کے پہلے حصے میں سورہ البقرہ کی آیت نمبر 31کے حوالے سے ہے جس میں حضرت آ دم کو اشیاء کے نام سکھانے والے واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے
وعلم آدم الاسماء کلھا
اور دوسرے مصرعے میں آپ کے معراج شریف والے واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر( 1 )
” سبحان الذی اسریٰ بعبدہ “
قرآن پاک ایک ایسی کتاب ہے جو ہر زمان و مکاں اور تمام بنی نوع انسان کے لئے ہدایت کا سر چشمہ ہے زندگی کے ہر مسائل کا حل قرآن پاک میں موجود ہے اقبال کی نظر میں بھی قرآن پاک ایک ایسی ہی کتاب ہے جس میں ہر مسائل و مشکلات کا حل موجود ہے کہ اس میں ہر دور کے مسائل کا حل موجود ہے اور قرآن پاک کی ہر آیت میں بہت سے راز چھپے ہوئے ہیں بشرط کہ ہم میں ڈھونڈنے کی صلاحیت موجود ہو۔اقبال لکھتے ہیں کہ:
صد جہاں پوشیدہ در آیات او
عصر ہا پیچیده در آ نات او ۸
اقبال اپنے کلام کے زریعے مسلمانوں کو قرآن کی طرف رجوع کرنے کی اور اسے سمجھ کے پڑھنے کی بار بار تلقین کرتے ہیں اور اپنی نسل نو کے قرآن پاک سے دوری پر اظہار افسوس کرتے ہیں لکھتے ہیں کہ:
” صاحب قرآن وبے ذوق طلب
العجب ثم العجب ثم العجب “۹
اقبال نے اپنی کلام کے زریعے مسلم امہ میں یکجہتی کو فروغ دیا ہے وہ چاہتے تھے کی مسلمان اسلام کے جھنڈے تلے متحد ہو کر اپنی بقاء کی جنگ لڑیں وہ مسلمانوں میں پھیلے ہوئے انتشار سے بہت نالاں تھے اور اقبال کا یہ پیغام عہد حاضر میں بھی بہت اہمیت کے حامل ہو گیا ہے کہ اگر مسلم امہ متحد ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت انھیں زیر بار نہیں کرسکتی ۔اقبال لکھتے ہیں کہ:
” حرم پاک بھی اللّہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک”۱۰
اقبال مسلمانوں کو ان کا تابناک ماضی کی یاد دلاتے ہیں کہ کس طرح ماضی میں مسلمانوں نے فتوحات حاصل کی اور کائنات کو تسخیر کیا اور آج کے مسلمان کے ساتھ تقابل بھی کرتے ہیں کہ آج کا مسلمان کیوں ذلیل وخوار ہے کیونکہ وہ قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہے ۔اورتمھارے سب اقبال کی شاعری میں ایسے بہت سے واقعات اور کلام اقبال ہے جو اقبال کی قرآن سے محبت اور عقیدت کا ثبوت ہے وہ اپنی شاعری کے زریعے مسلم امہ کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کی فلاح و بقاء صرف قرآن وسنت میں ہے وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا عملی رشتہ استوار رہے اور ایک مرد مومن کے لیے قرآن وسنت کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ہی اس کی بقاء ہے۔
الغرض کلام اقبال قرآن وسنت کی تعلیمات کی ہی ترجمانی کرتاہے جو ہر زمانے میں انسانیت کی رہنمائی اور ترقی کے لیے نئی راہیں ہموار کر سکتا ہے
حواشی:
۱:بال جبریل
۲: ڈاکٹر مصطفیٰ خان ،اقبال اور قرآن
ص:۱۱,۱۲
۳: رموز بیخودی
۴:رموز بیخودی
۵: ڈاکٹر وحید عشرت ،فلسفہ اقبال کے ماخذ ومصادر
۶:ضرب کلیم
۷:اسرار خودی
۸: جاوید نامہ
۹: جاوید نامہ
۱۰:بانگ درا
***