You are currently viewing اقبال کا ایک شعر اور معاصر تنقیدی مزاج

اقبال کا ایک شعر اور معاصر تنقیدی مزاج

   بےنام گیلانی

کٹرہ باغ ،نئی سرائے ،بہار شریف،نالندہ

اقبال کا ایک شعر اور معاصر تنقیدی مزاج

کیا ہے کتابوں نے تجھ کو کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ

      مذکورہ بالا شعر علامہ اقبال کی ایک نظم “ضرب کلیم “سے ماخوذہے۔ یوں تو لوگ علامہ اقبال کو فلسفی بھی کہتے ہیں ،حقیقت پسند شاعر مشرق بھی اور ناقد کل بھی۔مذکورہ بالا شعر تو فلسفہ کے زمرے میں آتا ہی نہیں ہے۔لیکن تنقید کے زمرے میں ضرور آتا ہے ۔اس ناچیز کے خیال سے اقبال کو محض شاعر مشرق کہ کر موصوف پر زبردست ظلم کیا گیاہے ۔اس طرح لوگوں نے آپ کے افکار و خیالات و نظریات کے باہم آپ کی شخصیت کو محدود کر کے رکھ دیا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ آپ موصوف کے افکار و خیالات و نظریات نیز آپ کی شخصیت  آفاقی ہیں۔راقم الحروف زیادہ دور نہیں جانا چاہتا ہے ۔ درج بالا شعر پر ہی مدبرانہ و مفکرانہ طور پر غور کیا جائے تو اقبال کے افکار و خیالات اور شخصیت کو آقاقی ثابت کرنے کے لئے کوئی قباحت محسوس نہیں ہوگی ۔بہر کیف یہاں اس ناچیز کی تحریر کا مقصد اقبال کے افکار و خیالات ونظریات و شخصیت کا تعین نہیں بلکہ درج بالا شعر کے آئینے میں مروجہ تنقیدی و تحقیقی شعور ہے۔

       وہ تنقید کا میدان عمل ہو یا تحقیق کا۔ جو بھی اہل قلم متذکرہ بالا دونوں عمل کے لئے کمر بستہ ہوتا ہے اس کا معنی ہے کہ وہ اس شخصیت یا اس شخصیت کی تخالیق کے متعلق اپنی گراں قدر آرا کا اظہار کرنے مسند نشیں ہوا ہے جس کا تعلق صد فیصد ذاتی بصیرت سے ہونا چاہئے ۔یہ کب عمل پزیر ہوگا  ۔جب اس اہل قلم کے علم و آگہی کا دامن کافی وسیع و عمیق ہوگا اور زاتی فکری صلاحیت بھی مستحکم وغیر متزلزل ہوگی ۔اب یہاں علم و آگہی کا جو نکتہ آیا ہے وہ محض اتباع و تقلید کے لئے نہیں اور نہ ہی کسی کے اقوال و آرا کی تائید وتکذیب کے لئے ۔بلکہ اس لئےکہ اس اہل قلم کو اس امر کا علم  ہو کہ کسی ادب پارے یا شخصیت کی پرکھ کا پیمانہ کیا ہونا چاہئے ۔یا پھر تنقید و تحقیق کا طریقۂ کار کیا ہے ۔تاکہ اسی پیمانے پر کسی فن پارہ یا شخصیت یا کسی کے تنقیدی و تحقیقی تحریر کا ایماندارانہ و منصفانہ طور پر بذات خود جائزہ لیا جا سکے ۔اگر اس پیمانہ کا علم و ادراک نہیں ہوگا تو کسی بھی فن پارے یا شخصیت کا کوئی بھی اہل قلم منصفانہ اور بےباکانہ طور پر جائزہ نہیں لے سکےگا ۔بلکہ کسی کی کہی ہوئی باتوں کو ہی دہراتا رہےگا ۔یہ فن تنقید و تحقیق میں عیب یا اپنی زمہ داریوں سے فرار متصور ہوگا ۔بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید بیجا نہ ہوگا کہ اسے فکری سرقہ پر محمول کیا جائے گا ۔یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ یہ سرقہ وسیع پیمانے پر انجام پزیر ہو رہا ہے اور قارئین اس سرقہ پر مبنی تنقید و تحقیق کو بہت چٹخارے لےلے کر پڑھ رہے ہیں ۔کسی میں اتنی جرات نہیں کہ اس قسم کے سرقے کی نشاندہی کے باہم مخالفت کرے ۔
بات دراصل یہ ہے کہ معاصر دور میں جو ناقدین ہیں وہ عموماً دو قسم کے ہیں ۔گرچہ ایک تیسری قسم بھی ہے جس کا ذکر خیر ناچیز بعد میں کرےگا ۔اولالذکر دو قسم کے ناقدین ایک تو وہ ہیں جو فن تنقید سے یکسر نابلد ہیں۔انہیں یہ علم ہی نہیں کہ کسی فن پارے یا صنف میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہئں،کیا کیا التزامات ہیں ،روح تخلیق یا حسن تخلیق کیا ہے ۔کسی صنف ادب کے اجزائے ترکیبی کیا کیا ہیں۔جب کسی شخص کو تخلیق و تنقید کے التزامات ہی کا علم و ادراک نہیں ہوگا تو وہ تنقید کیا خاک کرےگا۔ایسے افراد نے محض اخبارات و رسائل میں شائع ہونے کے لئے ایک سہل راہ نکال لی ہیں۔وہ راہ یہ ہے کہ جس فن پارے کے متعلق وہ خامہ فرسائی کرنا چاہتے ہیں اس تخلیق کے کس صفحہ،کس پارہ گراف اور کس سطر میں کون سا املہ غلط ہے ۔بس یہی شمار کرا دینے کو فن تنقید متصور کر لیتے ہیں اور ناقد ہونے کا سہرا از خود سر پر باندھ لیتے ہیں ۔کوئی کوئی تو املے کی اس خامی کے لئے غیر ادبی و غیر مہزب جملے استعمال کرنے سے بھی احتراز نہیں برتتے حتیٰ کہ تلخ بیانی کو بھی راہ دینے میں زرہ برابر بھی تامل سے کام نہیں لیتے ۔جی تو چاہتا ہے کہ ایسے خود ساختہ و نام نہاد ناقد کی پیٹھ اینٹ سے تھپ تھپائوں۔۔ایسے ناقدین کو کون سمجھائے کہ تنقید صرف غلط املے کی نشاندہی نہیں ہے ۔ایسی غلطی کا سرزد ہونا تو کمپوزنگ میں بھی ممکن ہے ۔الغرض ہر اعتبار سے خواہ وہ فنی ہو ،فکری ہو ،جمالیاتی ہو یا تاثراتی ہو۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کا فن ہی تنقید ہے ۔

      یہ تو ان ناقدین کے احوال ہوئے جو فن تنقید سے واقف نہیں ۔لیکن ادھر مشاہدے میں جو آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ کئی پروفیسر حضرات بھی اب فن تنقید سے دامن بچاتے نظر آ رہے ہیں ۔ایسے ہی ناقدین کے لئے شاید اقبال نے درج بالا شعر کہا ہے ۔آج اس نوع کے پروفیسران وہی  غالب،میر،درد،داغ،اقبال،فیض ،مجاز اور فراق جیسے قدآور شعراء پر تنقیدی مضامین رقم فرماتے ہیں ۔ناچیز یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ان اعلیٰ قدر شعراء پر تنقیدی مضامین نہیں رقم کرنا چاہئے ۔رقم کرنا چاہئے اور ضرور بالضرور رقم کرنا چاہئے ۔کیونکہ جس نے اپنے پیشرئوں کو فراموش کر دیا وہ کبھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکتا ہے ۔حال اور مستقبل کی اساس ماضی پر ہی قائم ہوتی ہے ۔اگر ماضی نہیں تو حال بھی نہیں اور اگر حال نہیں تو مستقبل کا بھی سوال نہیں پیدا ہوتا ہے ۔متذکرہ بالا تمام امور اپنی جگہ مسلم لیکن اس امر کا بھی خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ ان اکابرین کے متعلق کیا بات کہی جا رہی ہے ۔کیا ناقد اس فن پارہے کے عمق تک رسائی حاصل کر سکا ہے جس پر وہ اپنی آرا کا اظہار کرنے جا رہا ہے ۔یا پھر اس شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی فہم رکھتا ہے جس پر وہ خامہ فرسائی کرنے کا عزم رکھتا ہے ۔اس نوعیت کے کتنے ہی سوالات ابھر کر سامنے آئے ہیں جب کوئی کسی پر تنقید کرنے کے لئے کمر بستہ ہوتا ہے ۔آج جب اخبارات و رسائل میں تنقیدی مضامین دیکھتا ہوں اور اس کا بغور مطالعہ کرتا ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ناقد فن پارے کی روح تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر رہا ہے ۔یا پھر جس شخصیت پر نگاہ نقد ڈال رہا ہے وہ اس شخصیت کے آس پاس بھی نہیں پہنچ پایا ہے ۔ناچیز کو زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب یہ امر مشاہدے میں آتا ہے کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ناقد کسی کے متعلق صرف وہی بات کہ رہا ہے جو بات سینکڑوں نہیں ہزاروں ناقدین اس سے قبل کہ چکے ہیں ۔

        ایک قسم کے ناقد وہ ہوتے ہیں جو خود اپنی آرا کا اظہار کرنے بیٹھتے ہیں لیکن ان کا سارا مضمون حوالہ جات سے بھرا پڑا رہتا ہے ۔جب ہم کسی پر تنقید کرتے ہیں تو اس میں اپنی آرا کو فوقیت دینا ضروری ہوتا ۔کیونکہ آپ اسی کام کے عازم ہوئے ہیں نہ کہ دوسروں کے قول کی تصدیق و تکزیب و تردید کرنے کے لئے ۔یہ ناچیز یہاں کیا کہنا چاہتا ہے یہ تمام باذوق و باشعور قارئین اچھی طرح سمجھتے ہوں گے ۔کیونکہ قارئین مطالعے کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں ۔یہ نہ صرف کتابوں کا سرسری مطالعہ کیا کرتے ہیں بلکہ ان کا اپنے طور پر جائزہ بھی لیا کرتے ہیں اور احباب مین تبادلہء خیال بھی کیا کرتے ہیں ۔اس لئے کسی تخلیق کا پہلا اور حقیقی ناقد قاری ہی ہوتا ہے ۔نام نہاد ناقد اگر یہی سوچتا اور سمجھتا ہے کہ میں جو بھی قاری پھر تھوپ دوں گا وہ اسے قبول کرنے کو مجبور ہے کیوں کہ وہ کتابوں کی فہم سے عاری ہے۔ایسا سمجھنے والے ناقد غلط فہمی کے شکار ہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ایسا سوچنے اور سمجھنے والے ناقد از خود زبردست غلط فہمی کے شکار ہیں ۔

      بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں تک پہنچ گئی ۔لیکن بات بہکی نہیں ۔یہ ابھی بھی سہی سمت میں جا رہی ہے ۔ڈبلاقبال کا مندرجہ بالا شعر انہی نکات پر مبنی ہے۔لوگ جب کسی کی بات کرتے ہیں تو زیادہ تر دوسروں کے حوالے سے کرتے ہیں گویا وہاں ان کی اپنی کوئی معنویت ہی نہیں ہوتی ہے ۔وہ صیغۂ غائب ہو کر رہ جاتے ہیں ۔جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ جب بات ہم کہ رہے ہیں تو سارے منظرنامے پر ہمارا وجود قائم رہنا چاہئے ،ہمارے ہی خیالات کو فوقیت حاصل رہنی چاہئے۔ ہاں اگر تذکرہ کے طور پر کسی کا قول درج ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اس کی حیثیت ثانوی ہی ہونی چاہئے ۔شاید یہی بات اقبال نے اپنے شعر کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔

***

Leave a Reply