محمد عرفان رضا
ریسرچ اسکالر ،شعبئہ اردو ،ممبئی یو نیورسٹی
امام احمد رضا کی نعتیہ شا عری کے امتیا زات
نعت عربی کا ثلاثی مجرد مصدر ہے جس کا لغوی معنی تعریف کرنا ہے ۔اصطلاح میں نعت اس صنف سخن کو کہتے ہیں جس میں نبی اکرمﷺکی تعریف و توصیف بیان کی جائے۔نعت کی تعریف ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ان الفاظ میں کی ہے:
“نعت کا لفظ اپنے لغوی معنی میں ہی استعمال ہوا ہے ۔لیکن ادبیات اور اصطلاحات شاعری میں نعت کا لفظ اپنے مخصوص معنی رکھتا ہے ۔یعنی اس سے صرف آنحضرت ﷺ کی مدح مراد لی جاتی ہے ،اگر آنحضرت ﷺ کے سوا کسی دوسرے بزرگ یا صحا بی و امام کی تعریف بیان کی جا ئے تو اسے منقبت کہیں گے۔ آنحضرتﷺ کی مدح چوںکہ نثر میں بھی ہو سکتی ہے اور نظم میںبھی اس لیے اصولاً آنحضرت ﷺ کی مدح سے متعلق نظم و نثرکے ہر ٹکڑے کو نعت کہا جائے گا۔لیکن اردو فارسی میں جب نعت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے عام طور پر آنحضرت ﷺ کی منظوم مدح مراد لی جاتی ہے ‘‘۔(۱)
نعت گوئی کی تاریخ بہت قدیم ہے کہا جاتا ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالی نے عرش اعظم پر محمدﷺ لکھا اسی وقت سے نعت کی ابتدا ہوئی۔قدیم کتب آسمانی میں سرکار دوعالم ﷺ کا تذکرہ اور اوصاف حمیدہ کا بیان موجود ہے جو نعت کی ارتقاہے ۔یوں ہی انبیاے کرام علیہم السلام نے اپنے امتیوں سے جو آپ کا ذکر جمیل کیا وہ بھی اسی صف میں شامل ہے ۔قرآن عظیم فرقان حمید کی متعدد آیتیں خالص نعت ہیں ۔
وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا ترے شہر و کلام و بقا کی قسم
بعثت نبویﷺکے قبل ہی سے لغوی معنی میں نعت کی متعدد شکلیں نظر آتی ہیں ۔البتہ اصطلاحی معنی میںپہلی باقاعدہ نعت کے بارے میںاختلاف ہے ۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ اس صنف سخن سے وہی لوگ سیراب ہوئے جن پر خاص فضل الہی ہوا ۔حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا نام ان میں سرفہرست ہے ۔یہ وہی ذات مبارکہ ہے جن کو دعا دیتے ہو ئے سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللھم ایدہ بروح القدس۔نعت کہنے والی مبارک جماعت میںصحابۂ کرام میں سے حضرت کعب بن زہیر ،حضرت ابوبکر ،حضرت علی ،حضرت عبداللہ بن رواحہ ،حضرت زیدرضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں ۔امام بوصیری ،مولانا جامی ،فرید الدین عطار ،مولانا رومی ،شیخ سعدی ،انوری ،خاقانی اورامیر خسرو ،جیسے ماہرین علم وادب نے عربی اورفارسی زبان میں نعتیہ شاعری کی اور عشاق کی دلوں کے راحت کا سامان فراہم کیا۔اردو زبان میں تقریبا تمام شعرا نے نعت کے اشعار کہے۔ ملحوظ رہے کہ اس سلسلے میں پرستان دیر بھی اصحاب حرم کے ساتھ ساتھ رہے اور اپنے کلا م میں نبی رحمت ﷺ کا ذکر جمیل کیا ۔اردو میں نعتیہ شاعری کے حوالے سے کرامت علی شہیدی ،محسن کاکوروی ،امیر مینائی، مولاناکفایت اللہ کا فی،نیاز بریلوی ،مولانا احمد رضا بریلوی اورمولانا حسن بریلوی وغیرہ مشہو رہیں ۔
اردو نعت گو شعرا میں اما م احمد رضا کو امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔اس کی کئی وجوہ بیان کی جا سکتی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ کہ آپ نعت رسول مقبول ﷺکے اصول سے کما حقہ واقف تھے اور اپنے کلام میں شریعت مطہرہ کا پاس اور لحاظ کرتے تھے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ نعت کہنا تلوار کی د ھار پر چلنے کے مترادف ہے ذر اسا قدم لڑکھڑایا اور ایمان کی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھے :
نعتِ شہ کونین کا لکھنا نہیں آساں
لغزش ہو تو ایمان کے جانے کا خطر ہے
اس سلسلے میں خو د فاضل بریلو ی فرماتے ہیں :
” حقیقتاً نعت شریف لکھنا بڑا مشکل کام ہے جس کو لوگو ں نے آسان سمجھ لیا ہے ۔اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے ۔اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہونچ جا تا ہے ،اور کمی کر تا ہے تنقیص ہوتی ہے ۔البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں صاف راستہ ہے ،جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے۔ غرض حمد میں اصلًاحد نہیں اور نعت شریف میں دونو ں جانب سخت حد بندی ہے ‘‘۔(۲)
اپنی نعتیہ شاعری میں شریعت مطہرہ کی پاسدار ی کے متعلق امام احمدرضا اپنی رباعی میں فرماتے ہیں :
ہوں اپنے کلام سے نہایت محظوظ
بیجا سے ہے المنتہ للہ محفوظ
قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی
یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ
نعت گو شعرامیں انفرادیت کی دوسری وجہ مولانا احمد رضا کا عشق رسولﷺ ہے ۔یوں تو ہر مسلمان سرکار دوعالم ﷺسے عقید ت و محبت رکھتا ہے ۔مگر اس جذبے کو عشق کی حد تک نبھانا سب کے بس کی بات نہیںاور اس عشق میں ڈوب کر شاعری کرنا اعلیٰ کمال ہے کیوں کہ یہ محبوب رب العلمین کی بات ہے ۔جن کاادب ہمیں قرآن مجید سکھاتا ہے اور ہمیں خبردار کرتا ہے کہ اس بارگاہ ناز میں ادب سے رہوورنہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیںگے اور تمہیں شعور بھی نہ ہو گا ۔
با خدا دیوانہ باشد با محمد ہوشیار
مگر یہی عشق جب کسی عاشق صادق کے کلام میں نظر آتا ہے تو مشام جاں معطر ہو جاتی ہے۔ مولانا احمد رضا کے شب ور وزاس بات کی عکا سی کر تے ہیںکہ وہ سچے عاشق رسول تھے، یہی وجہ ہے کہ فا ضل بریلوی کی شاعری میں جو والہا نہ پن اور عقید ت و محبت کی فضا نظر آتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ کے کلام کو پڑھنے کے بعد دل کی عجب کیفیت ہو جاتی ہے۔ کچھ متفرق اشعار ملاحظہ فرمائیے اور اپنے قلب کو مستفیض کیجیے:
سنتے ہیں کہ محشر میں صرف ان کی رسائی ہے
گر ان کی رسائی ہے لو جب تو بن آئی ہے
اے عشق تیرے صدقے جلنے سے چھوٹے سستے
جو آگ بجھادیگی وہ آگ لگائی ہے
جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اٹھا ئے کیو ں
نعتیہ شاعری میں ’جذبات نگاری‘بہت اہم ہے ۔یہ جذبات ہی ہے جو لفظوں کو ایسا پیکر عطاکر تا ہے کہ وہ شعر کے اعلیٰ مدارج تک پہنچ جا تا ہے ۔دراصل جذبات نگاری تقدیسی شا عری میں خاص اہمیت کی حا مل ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ شعر کی صو ر ی خصو صیت جو بھی ہو لیکن اگر اس میں جذباتیت نہیں ہے تو شعر اثر آفرینی کی منزل کو نہیں پہنچ سکتا۔ امام احمد رضا کے وہا ں جذبات نگاری بدرجہ اتم مو جود ہے ،بطور خا ص نبی مکر مﷺ سے ان کی والہا نہ عقیدت و محبت جذبات نگار ی میں ان کی معاون ہے ۔ مولانا احمد رضا کی جذبات نگار ی دیکھیں:
پیشِ نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار
روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے
شمع طیبہ سے میں پروانہ رہوں کب تک دور
ہاں جلا دے شررِ آتشِ پنہاں ہم کو
دل کو ان سے خدا جدا نہ کر ے
بے کسی لوٹ لے خدا نہ کرے
مولانا احمد رضا کے یہا ں تشبیہات و استعارات کا استعمال بڑی خو بصورتی اور مہا رت سے ہو ا ہے ۔یہاں یہ ملحوظ رہے کہ نعتیہ شاعری کی تشبیہ عشقیہ شاعری سے الگ ہوتی ہے۔ چوں کہ یہاں اس بات کا التزام رکھنا پڑ تا ہے کہ تشبیہ ایسی ہوجو نعتیہ تقدس کو بر قرا رکھے۔ آپ کے مشہور زمانہ سلام کا ایک شعر ہے:
ریش خوش معتدِل مرہم ریش دل
ہالۂ ماہ ندرت پہ لاکھوں سلام
اس شعر میں مولانا احمدرضا نے حضور اکرم ﷺ کی ریش مبارک کو چاند کے ارد گرد جو ہالہ بنا ہوتا ہے اس سے تشبیہ دی ہے ۔چند نادر تشبیہات دیکھیں :
ہے کلام الہی میں شمس و ضحیٰ ترے چہرئہ نور فزاکی قسم
قسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا کہ حبیب کی زلفِ دوتا کی قسم
دل کرو ٹھنڈا میرا وہ کف پا چاند سا
سینہ پہ رکھ دو ذرا تم پہ کروڑوں درود
مولانا احمدرضاکے یہاں لطیف اور پاکیزہ استعارے کی کثرت ہے ان کے مقبول زمانہ سلام میں تو ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت استعارے استعمال ہوئے ہیں ۔ علاوہ ازیں دیگرکلام میں بھی استعاروں کا خوبصورت استعمال ہے ۔ مولانا احمد رضا ؔکی شاعر ی میں استعارہ دیکھیں:
اٹھا دو پردہ دکھادو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
منزل کڑی ہے رات اندھیری میں نابلد
اے خضر لے خبر اے ماہ لے خبر
آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیراب
سچے سورج وہ دل آرا ہے اجالا تیرا
عام طو ر پر نعت کہنے وا لا شاعر مدینہ منورہ کے متعلق ضرور اشعار کہتا ہے ۔ یہ اشعار اس کے دلی کیفیات اور مدینہ منورہ سے اس کی عقیدت ومحبت کے مظہر ہو تے ہیں ۔شاعر کہیں مدینہ منورہ سے ہجر کا تذکرہ کرتا ہے تو کہیں شہر طیبہ جانے کی آرزو ، کہیں وہا ں کے درو دیوار کا ذکرکرتا ہے تو کہیں نبی مکر م ﷺ سے اس کی نسبت کو بیان کر تا ہے ۔ مو لانا احمد رضا نے بھی مدینہ طیبہ کے حوالے سے کئی اشعار کہے ہیں ۔ جو ان کی مدینہ طیبہ سے عقیدت ومحبت کی عکا س ہیں :
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا
ارے سر کا موقع ہے او جانے والے
حاجیوں آئو شہنشاہ کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو
بجا تھا عرش پہ خاک مزار پاک کو ناز
کہ تجھ سا عرش نشیں آفریدہ ہونا تھا
مولانا احمد رضا کی انفرادیت کی ایک اہم وجہ ان کی قادر الکلامی ہے ۔ حدائق بخشش(نعتیہ دیوان) کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مولانا احمد رضا نے کتنی سنگلاخ زمین میں نعت کہی ہے ۔آپ کی مشہوزمانہ نعت( جو چار زبانوں میں ہے) کو دیکھنے سے کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ مختلف زبان کی وجہ سے شاعر کو کہیں ردیف و قافیہ کی دقت پیش آئی ہو یا مضمون بیان کرنے میں کہیں دشواری ہوئی ہو ،حقیقت تو یہ ہے کہ اس نعت پاک کی روانی کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک ہی زبان میں کہی ہوئی نعت ہے :
لَمْ یَاتِ نَظِیْرُکَ فِی نَظَرٍمثل تو نہ شد پید اجا نا
جگ راج کو تاج تیرے سرسو ہے تجھ کو شہ دوسرا جانا
الْبَحْرُعَلَاوَالْمَوْجْ طَغیٰمن بیکس و طوفا ں ہو شربا
منجھدار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیاّپار لگا جانا
اسی طرح امام احمد رضاکا قصیدہ معراجیہ( جو 67اشعارپر مشتمل ہے ) بھی آپ کی زبا ن دانی اور قادرالکلامی کی اعلی مثال ہے :
وہ سرور کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے
اتار کر ان کے رخ کا صدقہ یہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے
نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سِر عیاں ہوں معنیِ اول و آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
مذکورہ قصیدے کے بارے میں ڈا کٹر مسعود احمد رقم طرازہیں :
“اردو قصیدوں میں ان کا قصیدئہ معراجیہ ان کی شاعری کا کمال بھی ہے اور شباب بھی۔ اس کی نظیر پوری اردو شاعری میں نہیں ،جو پڑھتا ہے پھٹرک اٹھتا ہے ،جوسنتا ہے سر دھنتا ہے۔ اگر رضا بریلوی یہی ایک قصید ہ لیکر میدان شاعری میں اتر تے تو سب شاعروں پر گویا سبقت لے جا تے ۔ایسا مرصع قصیدہ راقم نے اپنی چالیس سالہ زندگی میں نہ دیکھا نہ سنا ‘‘۔(۳)
دراصل مولانا احمد رضا کی نعتیہ شاعری کے امیتازات پر خامہ فرسائی کے لیے ایک دفتر کے ضرورت ہے۔ ان کے کلام کا حسن تغزل ،محاکات ،تشبیہات و استعارات،قوت تخیل ،معنی آفرینی،سادگی ،کہاوتوں اور محا وروں کا خو بصورت استعمال وغیرہ ان کو اردو نعتیہ شاعری کا منفرد شاعر بناتا ہے۔
ملک سخن کی شاہی تم کو رضاؔ مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں
حواشی
- اردو کی نعتیہ شاعری ،ڈاکٹرفرمان فتح پوری ،صفحہ 21
- الملفوظ ،حصہ دوم ،مولانا مصطفی رضا،صفحہ نمبر40
- آئینہ رضویات ،حصہ سوم ،پروفیسر محمد مسعود،صفحہ نمبر130
موبائل نمبر7275321996 /
ای میلmohammadirfanraza333@gmail.com
***