You are currently viewing امتحان ہال

امتحان ہال

مہر فاطمہ

بنگلور

انشائیہ

امتحان ہال

      آج صبح صبح دادا جی نے اخبار میں نظریں جمائے جمائے سوال کیا: آج کالج نہیں جانا ہے ؟میں نے بتایا کہ آج ایگزام ہے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ ایگزام ہال کو ہمارے بزرگ امتحان گاہ کے نام سے جانتے تھے۔ہمارے زمانے میں یہ نام بدل کر ایگزام ہال ہوگیا۔گو کہ بہت سی چیزیںرفتہ رفتہ تبدیل ہوتی گئیں۔مثلاجب ہم پرائمری جماعت میں تھے تین چار الفاظ انگریزی کے زیادہ مستعمل تھے۔مثلاہیڈماسٹر،فیس،فیل،پاس اور جمعرات یعنی لاسٹ ورکنگ ڈے (کیو نکہ جب اتوار کی بجائے جمعہ کے دن سرکاری چھٹی ہوتی تھی)اس دن آدھی چھٹی یعنی ہاف ڈے ہوتا تھا۔تیسری جماعت میں آئے تو ایک نئے لڑکے کا داخلہ ہوا۔جو انگلش میڈیم اسکول سے دو جماعتیںپڑھ کر آیا تھا۔اس سے ہی پہلی بار لفظ ایگزام اور پیپر سنا تھا۔ورنہ ہم پرچہ اور امتحان کہا کرتے تھے۔ہمیں پہلی بارپیپر اور ایگزام سن کر بڑا تعجب معلوم ہوا۔رفتہ رفتہ اسی کی عادت پڑ گئی۔چوتھی جماعت میں ایک استاد پڑھاتے تھے جو خود کو استاد جی کے بجائے سر جی کہلوایا کرتے تھے اور پھر دھیرے دھیرے وہ ہی نہیں بلکہ تمام اساتذہ سر ہو گئے۔ دادا جی کو بولنے کے لئے ایک موضوع مل گیا تھا۔ وہ پوری آب و تاب کے ساتھ شروع ہوگئے تھے کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب جماعت کلاس میںاور ہم جماعت کلاس فیلو میں تبدیل ہوگئے۔اول،دوم،سوم چہارم اور پنجم وغیرہ جماعتیں اور کمروں کے باہر لگی تختیوںپر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔لیکن پھر تختی کی جگہ نیم پلیٹیں لگ گئیں ۔تفریح کی جگہ بریک کا لفظ آگیا۔گرمیوںاورسردیوں کی چھٹیاںسمر وکیشن اورونٹر وکیشن ہو گئیں۔ہم یوم آزادی کے بجائے انڈپینس ڈے منانے لگے،پیپر شیٹ آنے لگی ،ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ ایگزامز نے لے لی،اب تم لوگ امتحان دینے امتحانی مرکز کے بجائے ایگزام سینٹریاایگزامنیشن ہال جانے لگے ہو،۔قلم،دوات،سیاہی،تختی،کاپی،سلیٹ اور کتاب جیسی اشیا گویا عجائب گھر (میوزیم) میںرکھ دی گئیں ہیں۔پنسل،بال پین،نوٹ بکس اور کورس وغیرہ کا چلن ہو گیا ہے۔تم لوگ ریاضی ،اسلامیات اور طبیعات نہیں جانتے۔تمہارا واسطہ میتھس،اسلامک اسٹڈی اور فزکس سے ہے۔نجانے دادا جی نان اسٹاپ کیا کیا بولے جا رہے تھے۔میرا ذہن تو صرف ایک لفظ میں اٹک کر رہ گیاوہ تھا امتحان۔

مجھے دو بجے امتحان دینے جانا تھا۔مرتی کیا نہ کرتی ذہن کو اس کے لئے تیار کرنے لگی،حالانکہ تیاری تو زیرو بٹا سناٹا تھی۔بہت سے خیالات ذہن میں آنے لگے مثلا کون کون سے سوالات آسکتے ہیں؟سوال کو کس کس طرح سے گھما کر پو چھا جا سکتا ہے؟اور ایگزامنرکو کس طرح سے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے؟وغیر ہ غیرہ اور ان مسائل کا سب سے اچھا حل تو گوگل بابا ہی بتا سکتے تھے یا پریکٹکل دیکھنا ہے تو یوٹیوب سے بڑھ کر کون مددگار ہوسکتا ہے؟فٹافٹ یوٹیوب کھولا،سرچ کرتے ہی بی شمار حل سامنے تھے۔بہت سنجیدگی سے ایک ویڈیو کھولی جس کا عنوان تھا ’سو فیصد صحیح تکا فٹ کریں‘اور بھی طرح طرح کی ویڈیوز نظر کو خیرہ کرنے لگیں۔کنفیوژن بڑھنے لگی،کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اور وقت بیتا جاتا تھا۔تنگ آکر میں نے پرانے حربوں پر ہی اکتفا کرلیا۔جب پہلے ہی بندہ نقل میں مہارت رکھتا ہو تو کیاضرورت ہے یوں دوسروں مدد لینے کی،یہ سوچ کر ان طریقوں کو ذہن نشین کرنے کا عمل شروع کردیا جو پہلے کارگر ثابت ہوئی تھیں۔مثلا اپنی کرسی کو کس انداز میں رکھنا ہے کہ آگے پیچھے اور دائیں بائیں والوں کی کاپی آرام سے دیکھی جا سکتی ہویہی نہیں ایک نظر میں تقریبا چار پانچ لائنیںآرام سے دیکھنے کے بعد آ گے کی چار پانچ لائنیںبھی نقل کی جا سکے اور کسی کو خبر بھی نہ ہو تاکہ آرام سے ایک دو سوال حل ہوں جائیں بقیہ قسمت ،اس معاملے میں ہمیشہ قسمت نے ساتھ دیا ہی ہے کہ اللہ جھوٹ نہ بلوائے جس کی بھی نقل کی اس سے زیا دہ ہی نمر لئے ۔یہی سوچتے سوچتے اچانک گوگل بابا کے ذریعہ ایک اور پوسٹ پر نظر پڑی وہ یہ تھی:

ایک طالب علم کو استاد نے امتحان میں فیل کردیا ۔طالب علم شکایت لے کر پرنسپل کے پاس چلا گیا کہ مجھے غلط فیل کیا گیا ہے۔پرنسپل نے استاد اور طالب علم دونوں کو بلا لیا اور استاد سے فیل کرنے کی وجہ پوچھی ،استاد صا حب نے بتایا کہ اس لڑکے کو فیل کرنی کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمیشہ موضوع سے با ہر نکل جاتا ہے۔پرنسپل نے کوئی مثال پوچھی تو استاد نے بتایا کہ ایک دفعہ میں نے اس کو ’بہار‘ پر مضمون لکھنے کو کہا تو اس نے کچھ اس طرح لکھا :

          موسم بہار ایک بہت ہی بہترین موسم ہوتا ہے اور اس کے منا ظر بہت ہی دلنشیں ہوتے ہیں ۔اس موسم میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوتی ہے اور ہر طرف سبزے کی بہتات ہوجاتی ہے،اس موسم کو اونٹ بہت پسند کرتے ہیں اور اونٹ بہت ہی طاقتور جانور ہے ۔یہ

صحرا کا جہاز کہلاتاہے۔اونٹ نہایت ہی صابر جانور ہے۔لمبے لمبے سفروں پر نکلتا ہے اور زیادہ دن بھوک و پیاس برداشت کرنے کی

صلاحیت رکھتا ہے۔عرب کے لوگ اونٹ کو بہت پسند کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔

پرنسپل نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ مناسبت کی وجہ بہار کے بجائے اونٹ پر لکھ بیٹھا ہو آپ اسے کوئی اور موضوع دے کر دیکھتے۔استاد نے کہا میں نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ تم اس طرح کرو کہ’’ جاپان میں گاڑیوں کی فیکٹری‘‘ پر مضمون لکھو ۔اس طالب علم نے جو مضمون لکھا وہ کچھ اس طرح تھا:

      جاپان ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور گاڑیوں کی صنعت میں اس کو منفرد و اعلی مقام حاصل ہے ۔جاپان گاڑیاں بر آمد کرنے میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ہمارے ملک میں بھی زیادہ تر گاڑیاں جاپان کی استعمال ہوتی ہیں لیکن مسئلہ یہ کہ ہمارے ملک میں پٹرول کی قیمت بہت زیادہ ہے اس لئے ہمیں چاہیئے کہ ہم سواری کے لئے اونٹ کا استعمال کریں ۔ اونٹ بہت ہی طاقتور جانور ہے ۔یہ صحرا کا جہاز کہلاتاہے۔اونٹ نہایت ہی صابر جانور ہے۔لمبے لمبے سفروں پر نکلتا ہے اور زیادہ دن بھوک و پیاس برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔عرب کے لوگ اونٹ کو بہت پسند کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   پرنسپل صاحب بہت حیران ہوئے انہوں نے کہا کہ شاید سواری کی وجہ سے ایسا ہوگیا ہے،اب با لکل ہی الگ موضوع دے کر دیکھتے ہیں ۔استاد نے کہا جی! ایک دفعہ میں نے با لکل ہی الگ موضوع دیا تھا جس میں اونٹ کا ذکر آنا ہی نا ممکن تھا ۔میں نے اس کو کہا کہ یہ  ’’کمپیوٹر‘‘ پر مضمون لکھے ،اس نے کچھ اس طرح لکھا :

   کمپیوٹر ایک نہایت ہی حیران کن ایجاد ہے،جو کام پہلے سالوں میں نہیں ہوتے تھے وہ آج سکینڈوں میں ہوتے ہیں ۔کمپیوٹر کا انسانی زندگی پر بہت بڑا احسان ہے۔آج کل کی نئی نسل کمپیوٹر کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہے ۔اس کا استعمال زیادہ تر وہ لوگ کرتے ہیں جو تعلیم یافتہ ہوں ۔لیکن جہاں تک غیر تعلیم یافتہ طبقے کا تعلق ہے وہ کمپیوٹر پر توجہ نہیں دیتے کیوں کہ وہ اور سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں ۔مثلا صحراؤں میں بدو رہتے ہیں ان کو تو کمپیوٹر کا الف سے ب نہیں پتہ لہذا اس علاقہ میں یہ لوگ زیادہ تر وقت اونٹ کے ساتھ گزارتے ہیں

 اونٹ بہت ہی طاقتور جانور ہے ۔یہ صحرا کا جہاز کہلاتاہے۔اونٹ نہایت ہی صابر جانور ہے۔لمبے لمبے سفروں پر نکلتا ہے اور زیادہ دن بھوک و پیاس برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔عرب کے لوگ اونٹ کو بہت پسند کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پرنسپل نے یہ سن کر کہا کہ پھر تو آپ نے ٹھیک فیل کیا ،طالب علم سے کہا کہ میں آپ کو ایک موقع دیتا ہوں کہ آپ یہیں بیٹھ

 کر’روڈایکسیڈنٹ ‘پر ا یک ایسا مضمون لکھئے جو موضوع سے ادھر ادھر نہ ہٹے۔طالب علم نے لکھا:

         ایک دفعہ میں ریاض سے مکہ جا رہا تھا میرے پاس ٹیوٹا کرسیڈاگاڑی تھی جو بڑی مست تھی۔میں جناب ہائی وے پر بہت تیز رفتاری کے ساتھ جا رہا تھا۔میں ایک ایسے علاقے سے گزر رہا تھا جہاں پر اونٹ روڈ کراس کرتے ہیں۔اونٹ کی خاص بات یہ ہے کہ وہ نہ ہی گاڑی سے ڈرتا ہے نہ ہی دور ہٹتا ہے۔اونٹ بہت ہی طاقتور جانور ہے ۔یہ صحرا کا جہاز کہلاتاہے۔اونٹ نہایت ہی صابر جانور ہے۔لمبے لمبے سفروں پر نکلتا ہے اور زیادہ دن بھوک و پیاس برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔عرب کے لوگ اونٹ کو بہت پسند کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جب پرنسپل صاحب نے یہ مضمون پڑھا تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔اور کہا کہ تمہارا کوئی علاج نہیں لہذا اس طالب علم کو فیل کر دیا گیا ۔اب جناب اس طالب علم کا شک یقین میں بدل گیا کہ اس کے ساتھ ضرور با لضرور ظلم ہوا ہے۔اور اس نے محکمہ تعلیم کو ایک درخواست لکھی ۔

جناب عالی!

        میں اپنی کلاس کا ایک نہایت ذہین طالب علم ہوںاور مجھے سالانہ امتحان میں جان بوجھ کر فیل کر دیا گیا ،میرے استاد نے مجھے میری قابلیت کی وجہ سے فیل کردیا ہے،جناب میں نے اپنے استاد کے نا قابل برداشت رویے پر ویسے ہی صبر کیا جیسے اونٹ اپنے مالک کے ستانے پر کرتا ہے۔مالک اونٹ سے اپنے کام بھی نکلواتا ہے اور اس کو ستاتا بھی ہے۔اونٹ بہت ہی طاقتور جانور ہے ۔یہ صحرا کا جہاز کہلاتاہے۔اونٹ نہایت ہی صابر جانور ہے۔لمبے لمبے سفروں پر نکلتا ہے اور زیادہ دن بھوک و پیاس برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔عرب کے لوگ اونٹ کو بہت پسند کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ

جبھی داداجی نے مجھے بہت دیر سے فون میں مشغول دیکھ کر آواز لگائی ایک واقعہ سنو۔میں نے کہا دادا جی اب بہت ہوگیا کہ ہمارے زمانے میں یہ تھا اب یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔مجھے ایک ایسا مضمون یاد کرنا ہے کہ جو ہر سوال کے جواب میںبآسانی فٹ کردوںتا کہ ایگزامنر کو کانوں کان خبر نہ ہو اور میرا کام بھی بن جائے۔پرچہ اردو کا ہے تو اسی طرح کا کچھ بتائیں،دادا جی کو اردو سے پھر کوئی قصہ یاد آگیا :

میں ایک بار اپنے دوست سے ملنے گیا جو اردو کے پروفیسر تھے۔گھنٹی بجانے پر ان کابیٹا باہر آیاجس کی عمر تقریبا بارہ تیرہ سال رہی ہوگی۔ میں نے اس سے پو چھا :بیٹا والد صاحب قبلہ گھر پر ہیں ؟ اس پر اس معصوم کا جواب تھا یہاں کوئی والد صاحب قبلہ نہیں رہتے۔اس سے قبل کہ میںکچھ بولتا، اس نے اپنی ممی سے بھی تائید کرانی چاہی:ممی ہمارے گھر میں کوئی والد صاحب قبلہ بھی رہتے ہیں؟۔افسوس ہوا کہ اردو کے پروفیسر ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی اپنے بیٹے کو یہ نہیں بتایا کہ وہ اس کے ڈیڈی ہونے کے علاوہ والد صاحب قبلہ بھی کہلائے جاتے ہیں۔اتنا سن کر میں نے دادا جیسے کہا کہ بس کریں ،اب مزید میرے صبر کا امتحان نہ لیں۔مجھے ابھی ایک اور امتحان دینے جاناہے۔

عمر گزرے گی امتحان میں کیا،داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

میری ہر بات بے اثر رہی،نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا

ہاں ……….امتحان سے یاد آیا،ایک جان لیوا امتحان تو نیٹ کا امتحان بھی ہے۔جس کی شکار میں بھی ہوں اور تنگ آکر میں نے ایک خط (اوپن لیٹر )بھی لکھ ڈالا، میرا خیال ہے وہ آپ کو بھی پڑھنا چاہیے :

جانی دشمن کے نام

     میں ٹھیک ہوں ،آپ کی خیریت دریافت ہے ،حالانکہ اس سے مجھے کوئی غرض نہیں ،کہتے ہیں نا تم نے رسما بھلا دیا ورنہ اس تکلف کی کیا ضرورت تھی میں نے بھی رسما پوچھ لیا ورنہ اس تکلف کی بالکل ضرورت نہیں تھی ویسے دشمنوں سے حال چال لیتے رہنا چاہیے بات شروع کرنے سے پہلے میں آ پ کو مجھ سے دشمنی مول لینے کی مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔دشمنی کا رشتہ بھی کیا انمول رشتہ ہوتا ہے :

مجھے دشمن سے اپنے عشق سا ہے

میں تنہا آدمی کی دوستی میں ہوں

مجھے نہ صرف آپ کو مبارکباد دینی ہے ، بلکہ میں یہ عرض کرنا چاہتی ہوں کہ میں آپ کی ستائی ہوئی ایک مظلومہ ہوں ،معاف کیجیے گا یہ اوپن لیٹر چلن کے مطابق کوئی دھمکی آمیز خط نہیں ہے پہلے تو میں اپنا تعارف پیش کر دیتی ہوں بہتر ہوگا کہ آپ اپنے نا کردہ ظلم و جور کی داستان ہی سن لیجیے ،

نومبر 2017 کے پہلے ہفتے میں آپ کا دعوت نامہ (ایڈمیٹ کارڈ ) موصول ہوا ،یہ آپ کی پہلی نہیں ،دوسری نہیں اور نہ ہی تیسری

دعوت تھی بلکہ یہ آپ کی چوتھی نوازش تھی ۔آپ کی عادت بڑی اچھی ہے ،دعوت نامہ (ایڈمٹ کارڈ ) پر ہر چیز لکھ بھیجتے ہو ،یہاں تک کہ میری خطر ناک تصویر بھی چسپاں ہوتی ہے جس کو دیکھ کرآپ کے ذوق کی داد دینے کو جی چاہتا ہے ۔جی ہاں ! تو میں عرض کر رہی تھی کہ میں بھی ہر بار کی طرح مقررہ جگہ پر مقررہ وقت میں پہنچ گئی ،یہ ہماری ڈھٹائی کا کھلا ثبوت ہے ۔آپ میرا رکارڈ دیکھ لے کبھی میں نے آپ کی دعوت قبول کرنے میں ذرا بھی کاہلی یا کوتاہی کی ہو یا کسی پس و پیش کا شکار ہوئی ہوں ، آپ نے جب جب اور جہاں جہاں بلایا ،بلا کسی تامل کے حاضر ہوئی ہوں یہ الگ بات کہ آپ نے ہماری عزت افزائی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔رہی سہی عزت کو بھی خاک میں ملانا کوئی آپ سے سیکھے ،دن بہ دن میرا اسکور بڑھتا جارہا ہے اور رسوائی کا بھی یہی حال ہے ۔

تو ہر بار کی طرح 5 نومبر 2017 کو یعنی آج مقررہ جگہ پچھم بہار پہنچ گئی ۔آنے کی تکالیف کا کیا ذکر کروں ہمیشہ خوش قسمتی سے آپ نے دور ہی بلایا ہے ۔پھر بھی ہم آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہیں ۔آج بھی ہمیشہ کی طرح آپ کی تیار کردہ فوج ہماری آمد پر بری طرح ٹوٹ پڑی ،کبھی اسکارف چیک کراؤ ،کبھی جوتے دکھاؤ ،کبھی کان میں جھانک کر دیکھیں گے ،کبھی کوئی دوسرا داو ٔ پیچ کھیلیں گے جب کچھ نہ ملا تو ہماری دستار (اسکارف ) کھلوا دیا :

اب کے موسم میں یہ معیار جنوں ٹھہرا

سر سلامت رہیں دستار نہ رہنے پائے

میر ؔ نے کیا خوب کہا ہیں :

پھرتے ہیں خوا ر کوئی پوچھتا نہیں

اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

اس کے بعد بھی کچھ نہ ملا تو حد یہ کر دی کہ ہماری ریشمی زلفوں میں اپنی کرنٹ مشین (شاک دینے کے لیے )ڈال دی ،جانے کس چیز کی امید تھی ۔کچھ نہ ملنے پر یہی (شاک دینا)بہتر علاج سوجھا ۔یاشاید میری صورت ہی نقلچیوں والی ہے ،یا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم جو گھر سے تیار شیار ہو کر نکلے تھے یہ بات انھیں ایک آنکھ نہ بھائی ہو،اور ہمارا حلیہ خراب کرنا انھوں نے اپنا اولین فریضہ سمجھا ہو ،اچھی خاصی بنی سنوری لڑکیوں کا میک اپ خراب کرنا ان کا محبوب مشغلہ لگ رہا تھا ۔جب ان کو اپنے محبوب ترین مشغلے سے پوری طرح فرصت اور تسلی مل گئی تو جانے کا اشارہ کیا ،گویا ہم ایک امتحان میں کامیاب ہو گئے لیکن وہ شعر ہیں نا :

جو  کامیابی  ملی  وہ ہمیں عبوری  ملی کچھ امتحان تھے باقی ہر امتحان کے بعدخیر ہم مقررہ روم کی طرف پا بجولہ چلے ،دست افشاں چلے

 ،ذہن میں یہ خیال آیا کہ اردو شاعری میں جو دامن چاک اور گریباں چاک وغیرہ کا ذکر آتاہے ہم اس کی ہو بہو تصویر لگ رہے ہیں :

اب کے جنون فاصلہ نہ شاید کچھ رہے

دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں

خیر اس خیال کے آتے ہی اپنے چہرے کو اس طرح چھپانے کی کوشش کی کہ کوئی جاننے والا نہ دیکھ لے اور وہی میر والا حال ہوجائے کہ :

یوں پکارے ہیں مجھے کوچۂ جاناں والے

ادھر آ بے ،ابے او چاک گریباں والے

کسی طرح چھپتے چھپاتے اور خیر خیر کرتے روم تک پہنچی ،لیکن وہ کہاوت ہے نا ’بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی ‘ہماری شومئی قسمت کادیکھیے کہ وہاں پہلے ہی سے کچھ عزت افزائی کرنے والے موجود تھے ۔میں اپنی مقررہ کرسی پر جلوہ افروز ہوئی کہ جیسے دشمن سے جنگ کی مکمل تیاری ہو ،حالانکہ ایک قلم بھی اپنے پاس نہ تھا اور ذہن تو ازل سے ہی خالی ہے ،شکل پر بھی بارہ ہی بج رہے تھے وقت بھی ہو چلا تھا ،گھنٹی بجی، سوال نامہ تھمایاگیا ۔ پھر کیا تھا ’دل کا حال آج کچھ بھی نہ پوچھو‘عالم یہ تھا کہ ایک سوال پڑھتی،پھر پڑھتی اور پھر کئی بار دہراتی ،تب کہیں جاکر سوال سمجھ میں آتا۔جواب تو خدا ہی کو معلوم ۔کبھی غلطی سے جواب بھی آنے کا گمان ہوتا تو بدحواسی کے عالم میں وہ بھی غلط ہی لگاتی ،وہی معاملہ تھا کہ :

خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا

کہ دھیان ہی نہ رہا ،غم کی بے لباسی کا

یا …………..

رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں

چلنا ذرا آیا ہے تو اترا ئے چلو ہو

اور یہ مسئلہ ہی نہیں تھا کہ :

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

سوال سارے غلط تھے  جوا ب کیا دیتے

لیکن میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ سوالات کو اتنا گول گول گھمانے یعنی نچانے کی کیا ضرورت ہے ۔اس گھمانے اور نچانے کے چکر میں خود گول گول گھوم گئی ،جتنا وقت ملا تھا وہ بھی گیا ،سوال سمجھ میں نہ آنا تھا نہ آیا ،پھر دوسرا پیپر ملا اس میں بھی وہی تفصیلات بھرو ،پھر سے سارا تماشہ ،تعارف کراؤ ،الگ دستخط کرو،نام کیپیٹل اور اسمال میں لکھو،شیٹ نمبر ملاؤ ،کاپی ملاؤاور انگوٹھے کا نشان ثبت کرو،آدھا ٹائم جب اس لفڑے میں گزر گیا تو پھر سوال نے گھمانا پھرانا شروع کیا ۔آخر کار اس کا بھی وقت مکمل ہوا اور تھوڑی سی باہر سیر وتفریح اور ہوش بحال کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ۔میں اس کے لیے آپ کی شکر گزار ہوں ،اس وقفہ میں بار بار یہ خیال آتا رہا :

چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے دل آزاری میں

کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں

مطلب یہ کہ یہ وقفہ بھی یونہی جہد مسلسل میںگزر گیا۔خود کو کوستی ہوئی اسی کرسی کی طرف چلی جس پر ابھی دو گھنٹے اور عذاب مسلسل کی طرح کاٹنے تھے ۔پیپر ملا یہ جیسے تیسے بیس منٹ میں مکمل ہو گیا ۔اپنے اطراف کا جائزہ لیا دوسرے طالب علم سوچ میں غلطاں و پیچاں نظر آئے ،ہمارے ساتھ خوش قسمتی کا معاملہ یہ ہے کہ جب بھی ہم نے سوچ سمجھ کر جواب دیا ہے غلط ہی دیا ہے ،سو اس سے ہم ہمیشہ پر ہیز کرتے ہیں۔کبھی غلطی سے بھی کوئی پرانی یادداشت یا کلاس میں پڑھی ہوئی کوئی بات یاد آجاتی ہے تو اس کو فورا جھٹکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔خیر اب ایک گھنٹہ چالیس منٹ بچے،اس دوران صم،بکم اور عمی کی تصویر بنے رہنا کسی عذاب سے کم نہیں ،اس لیے سوچا کہ لاؤ کوئی نظم لکھی جائے ،پھر خیال آیا کیوں نا ایک اوپن لیٹر لکھا جائے ،آج کل اس کا دستور بھی ہے ،اس خیال کا آنا تھا کہ ہم نے اس کی فورا اس کی تعمیل کی ،امید ہے اس کو پڑھ کر آپ کو بڑا مزہ آ رہا ہوگا ۔ایک منٹ !کہیں آپ ایسا تو نہیں کرنے والے ہو کہ اگلی بار سے ہر مرتبہ مجھے بلانے کے بہانے تلاش کرو تاکہ اسی طرح کا محبت نامہ (اوپن لیٹر)دستیاب ہو ۔اردو ادب میں پڑھا ہے کہ روایتی معشوق عاشقوں کو بار بار آزماتے ہیں لیکن ہم روایتی عاشق کی صف میں نہیں ہمارا طریقہ تو یوںہے کہ :

تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی

تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

یعنی ہم کوئی حل یا اس کا کچھ متبادل نکال ہی ڈالیں گے لیکن آپ کا کیاہوگا جناب عالی ؟آپ رقیبوں (کوالیفائی کرنے والے لوگ)کی تعداد بڑھاتے رہیں ،ہم نے بھی اب ترک عاشقی کی قسم کھا لی ہے :

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ،ہم اپنی وضع کیوں بدلیں

سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہے

ابھی تو پورا ایک گھنٹہ باقی ہے اور انتظار کا عذاب مسلط ہے ،اس کے بعد بھی بے عزتی الگ ہوتی ہے اب تو ہر کوئی طعنہ زن ہے :

طعنہ زن تھا ہم پر ہر کوئی دل ناداں سمیت

ہم نے چھوڑا ،شہر رسوائی در جاناں سمیت

بہر حال آپ نے جو رف کام کے لیے ورق دیا تھا وہ بھر گیا اور ایڈمیٹ کارڈ کے پیچھے کا صفحہ بھی میری شکایتوں سے آویزاں ہو گیا ۔اب بھی مزید جلی کٹی سنانے کی گنجایش تو باقی ہے آپ کو بھی ھل من مزید ؟کی خواہش ہوگی ،لیکن اوپر جو باتیں ہوئیں وہ سب تو ٹھیک لیکن ترک عاشقی کی قسم جھوٹی تھی اگلی بار انشا ء اللہ پھر آپ کی دعوت پر لبیک کہہ کر آپ کو عزت افزائی کا موقعہ فراہم کرونگی ،یہی نہیں بلکہ آپ کی شان میں ایک قصیدہ بھی کہونگی ، تب تک کے لیے

 خدا حافظ…………

آپ کی ہر دل عزیز

مہر (قہر)

اس طرح اس کے بعد جانے کب تک یہ سلسلہ چلے ،ہم نے تو یہ سوچ کر صبر کر لیا ہے کہ :

کچھ امتحان فقط امتحان ہوتے ہیں ہر امتحاں کا نتیجہ نہیں نکلتا ہے

٭٭٭

Leave a Reply