ڈاکٹر سیّد احمد قادری
گیا(بہار) انڈیا
امریکہ میں اکیسویں صدی کے غزل گو شعرا وشاعرات
امریکہ میں اردو زبان اور شعر و ادب کے سلسلے میں پہلے میرا یہ خیال تھا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے ہجرت کر، یہاں آنے والے اپنی معاشرتی تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ اپنی اردو زبان بھی لے کر آئے اور بتریج یہ زبان یہاں فروغ پاتی رہی۔ لیکن جب میں 2016 ء کے اواخر میں امریکہ گیا اور مجھے شمالی امریکہ کے بابائے اردو مامون ایمن سے ایک ملاقات کے بعد گھنٹوں گفتگو(فون پر)کا موقع ملا تو مجھے اندازہ ہوا کہ میرا یہ خیال غلط تھا کہ ہند و پاک اور بنگلہ دیش کے اردو بولنے والوں نے امریکہ میں اردو زبان کو متعارف کرایا ، بلکہ حقیقت یہ سامنے آئی کہ امریکہ میں اردو زبان دوسری جنگ عظیم کے زمانے سے ہی اپنے وجود کا احساس کرا رہی تھی۔ مامون ایمن کی مشہور کتاب ’’ نیو یارک میں اردو غزل‘‘ میں شامل پروفیسر منظور الدین احمد (پی ایچ ڈی، کولمبیا یونیورسیٹی)سابق وائس چانسلر، کراچی یونیورسیٹی، دیباچہ بہ عنوان’’ نیو یارک کا ادبی پس منظر ‘‘ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ کولبیا یونیورسیٹی میں مجھے اردو زبان پڑھانے کی دعوت دی گئی تو معلوم ہوا کہ اس کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی لائبریری میں اردو زبان و ادب کی کتابوں کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے ۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ بھی اتحادی تھا ۔ امریکی سپاہی یورپ اور افریقہ کے ساتھ ساتھ جنوب مشرقی ایشیا میں بھی برطانوی افواج کے شانہ بشانہ جنگ لڑ رہے تھے۔اس وقت متحدہ ہندوستان اور برما میں مقیم امریکی سپاہیوں اور افسروں کو اردو پڑھائی جاتی تھی۔جس کے لئے امریکی وزارت دفاع کی جانب سے امریکا اور دیگر ممالک میں خصوصی رقوم مختص کی جاتی تھیں۔ اس کا نام تھا ،ڈیفنس فنڈ۔۔۔۔جس کے ذریعے تدریس اردو کے ساتھ ساتھ کتابوں کی خرید کا کام بھی ہوتا تھا۔
اس فنڈ کے ذریعے امریکی یونیورسیٹی میں تعلیم پانے والے امریکی اور غیر امریکی طلبہ کو وظائف دئے جاتے تھے۔ کولمبیا یونیورسیٹی میں میری تدریس اردو کی ذمہ داری بلاواسطہ اسی فنڈ سے متعلق تھی۔ نیو یارک سے میری کراچی واپسی کے چند برس کے بعد ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کولمبیا یونیورسیٹی میں تاریخ کے پروفیسر کی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔ یہاں انھوں نے کل وقتی طور پر تاریخ کا مضمون پڑھایا تھا اور جز وقتی طور پر اردو زبان۔
اردو پڑھنے والوں کی تعداد تین یا چار سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔ یہ طلبہ امریکی نژاد ہوتے تھے، جو پاک وہند کی تاریخ ،ثقافت ، تعلیم ،سیاست یا مذاہب کے موضوعات پر پی ایچ۔ڈی کی ڈگری کے حصول کے لئے اردو بحیثیت اضافی زبان پڑھتے تھے۔ان دنوں صورت حال ذرا مختلف ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے پروفیسر فرانس پری شے یہاں اردو زبان وادب کی تدریس میں کامیابی سے مصروف ہیں۔ ان کے طلبہ وطالبات امریکی نژاد بھی ہوتے ہیںاور پاکستانی نژاد بھی۔
( نیو یارک میں اردو غزل: مامون ایمن، صفحہ: 10-11)
یہ سلسلہ بتریج دراز ہوتے ہوتے آج صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کے تقریباََ ہر چھوٹے بڑے شہر میں جہاں جہاں ہند و پاک اور بنگلہ دیش کے اردو زبان کے بولنے والے پہنچے ، وہاں نہ صرف اردو زبان پہنچی بلکہ ساتھ ساتھ شعر و ا دب بھی اپنی پوری وسعت کے ساتھ پہنچا اور اس وقت عالم یہ ہے کہ پورے امریکہ میں شائد ہی کوئی ایسا ویک اینڈ ہوتا ہے کہ جب مختلف ادبی اداروں، تنظیموں اور انجمنوں کی جانب سے شعر وادب کی شاندار محفل نہ آراستہ ہوتی ہے اور لوگ اپنی اپنی شعری و نثری کاوشوں سے شعر و ادب میں قابل قدر اضافہ نہ کرتے ہوں۔ایسی آراستہ ہونے والی شعری اور نثری محفلوں کی روداد امریکہ کے مختلف خطّوں سے شائع ہونے والے اردو اخبارات میں ہر ہفتے نمایاں طور پر شائع ہوتی ہیں، جس میں شعرأ و شاعرات کی خاصی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔شعرا ٔ و شاعرات کی تعداد دیکھ کر مجھے اس دن بے حد خوشی ہوئی ، جس دن یعنی 22 ؍ جنوری2017ء کو بزم شعر وسخن کی جانب سے میرے اعزاز میں ایک شام کا اہتمام ہیوسٹن کے ہوٹل کمفرٹ میں کیا گیا تھا اور اعزازی نشست اور ’دیوان جوہر عظیم آبادی ‘ کی رسم اجرا ٔ کے بعد شعر و سخن کی محفل جب سجی اور اس محفل میں خالد رضوی،شمشاد ولی، خالد خواجہ، باسط جلیلی، الطاف بخاری،ارمان خان دل، نوشہ اسرار، عارف امام، غضنفر ہاشمی، ظفر تقوی، پرویز جعفری اور عشرت آفرین وغیرہ نے بے حد خوبصورت اور معیاری شاعری کے نمونے پیش کئے ۔
اب مختصر اََ اردو غزل کی بات کی جائے ، تاکہ اس سیاق و سباق میں امریکہ کے غزل گو شعرٔ و شاعرات کے فکر و فن کا جائزہ لینے میں آسانی ہو۔ اردو غزل نے میرؔ سے میرا جیؔ او ر پھر عصر حاضر تک کے شعرأ نے اپنے شعری سفر میں اپنے شعری حسن و معنیٰ اور ہمہ گیری کے ساتھ ساتھ عہد بہ عہد رونمأ ہونے والی حیات و کائنات کی تبدیلوں کو اپنے دامن میں اس طرح سمویا کہ وہ مختلف ذہنی کیفیات اور احساسات وجذبات کی آئینہ دار بن کر لوگوں کے دلوں پر چھا گئی۔ اردو غزل نے اپنی شاندار اور جاندار روایت کی پاسداری کرتے ہوئے عصری تبدیلیوں اور نئے رجحانات کو قبول کرتے ہوئے اکیسویں صدی کے آتے آتے اپنی انفرادی شان کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں نئے جہان معنی پیدا کئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو غزل کو شاعری کی آبرو بھی کہا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شاعری کی آبرو، اردو غزل کی آبیاری مختلف ممالک میں بڑے خوبصورت انداز میں ہو رہی ہے ۔ جس سے اردو غزل کی خوشبو دنیا کے مختلف حصوںتک پھیل چکی ہے، جس میں امریکہ بھی شامل ہے۔
امریکہ میں اکیسویں صدی کی اردو غزل کا جا ئزہ لیتے ہوئے بے اختیار سب سے پہلا نام شمالی امریکہ میں مقیم مامون ایمن کا نام سامنے آتا ہے ۔ مامون ایمن نے اب تک نیو یارک کے صاحب دیوان شعرأ کا تین جلدوں میں جائزہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’ نیو یارک میں اردو غزل‘‘ نام سے ان کی ایک کتاب بھی ایک دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔ مامون ایمن کوبیک وقت اردو، پنجابی اور انگریزی زبان میں دسترس حاصل ہے۔ لیکن اردو شاعری ، خاص طور پر اردو غزل اور رباعیوں میں انھیں جو شہرت اور مقبولیت ملی ہے، اس کے وہ یقینی طور پر حقدار ہیں۔ ادب کے تئیں ان کا جوش وجنون قابل دید اور قابل تقلید ہے۔اکیسویں صدی میں داخل ہونے والی ان کی اردو غزل کے سلسلے میں اگر بات کی جائے تو 16 ستمبر 2014 ء کو کہی جانے والی مامون ایمن کی ایک غزل بے اختیار سامنے آتی ہے، جس میں دس اشعار ہیں اور ہر شعر میں اکیسویں صدی کی دھمک اور اس کی بازگشت بہت واضح طور پر سنائی دیتی ہیں۔ نئے زمانے میں جس طرح ہر شخص خود کو خدا بنا کر پیش کر رہا ہے، اس پر مامون ایمن نے اپنے درد و کرب کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
؎ جسے دیکھو، وہی اب اک خدا ہے ٭ زمانہِ کا چلن اب دوسرا ہے
ایسا لگتا ہے کہ بدلتے وقت میں یاس اور محرومی کا احساس مامون ایمن کوبہت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہزمانے کے تغیرات کی ستم گری کا شکوہ ان کی غزلوں میں پوری شدت کے ساتھ ملتے ہیں۔ 2014 ء ہی میں مامون ایمن کی کہی گئی غزل کا ایک شعر دل و دماغ پر بہت گہرا تاثر قائم کرتا ہے، وہ کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
؎ تعجب کیا، اگر آئینہ بدلا ٭ بدل جانا ، زمانہِ کا چلن ہے
مامون ایمن اپنے ماضی کی نشانیوں کو گم ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور کف افسوس ملتے ہیںکہ اب شاندار ماضی اور تہذیب واقدار کی جانب لوٹنا ممکن نہیں کہ زمانہ بڑی برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ ان کا ایک اورشعر ہے۔۔۔۔۔۔
؎ قدم کی ہر نشانی گم ہوئی ہے ٭ پلٹنا اب نہیں ممکن سفر میں
زمانے کی بے ثباتی کا احساس کچوکے لگاتا ہے، ایمن بھی اس سے متاثر ہوتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ غیر کی بات چھوڑئے صاحب ٭ خود سے بھی دور ہو گیا ہوں
ایسے خوبصورت اور معنویت سے بھرپور اشعار کہنے والے مامون ایمن کی غزلیں اکیسویں صدی کے بدلتے وقت اور حالات کی بھرپور نمائندگی کر رہی ہیں ۔
امریکہ میں اردو غزل کے ایک اور اہم شاعر رفیع الدین راز بھی ہیں ۔ انھوں نے اردو شاعری کے مختلف اصناف پر کامیاب طبع آزمائی کی ہے ۔ لیکن اردو غزل ان کا خاص میدان ہے ۔ اب تک ان کے دیدۂ خوش خواب‘ بینائی، پیراہن فکر، اتنی تمازت کس لئے، جمال حرف راز،اور ، اک کون و مکاں جیسے بے حد خوبصورت اور معیاری مجموعہ غزل شائع ہو کر قارئین اور ناقدین ادب کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب ہیں۔
رفیع ا لدین راز اپنی غزلوں میں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ جدید رجحانات اور تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ راز کی غزلیں عہد جدید میں بھی اپنے منفرد اسلوب بیان اور اثر انگیزی کی بنأ پر انفرادیت کی حامل ہیں ۔ جدید لب و لہجہ میں کہی گئی ان کی غزلوں کا ہر شعر، فکر و معنی سے بھرپور ہے ، یہ چند اشعار دیکھیٔ۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ بھیانک آگ کی زد پر کوئی تہذیب ہے اب کے
دکھائی دے رہا ہے دور تک گہرا دھواں مجھ کو
٭
؎ حصار ذات سے باہر نکل جانے کی ٹھانی ہے
ذرا میں بھی تو دیکھوں مجھ میں کتنی بے کرانی ہے
٭
؎ ہماری روح پر کندہ ہے جلتے دشت کا منظر
وہ دن تم نے کہاں دیکھے جو دن ہم نے گزارے ہیں
٭
؎ اہل دانش کا جہاں جب بھی کوئی میلا لگا
معتبر ٹھرا وہی جو شخص بے چہرہ لگا
٭
؎ سورج کو سر پہ رکھ کے چلے تا دم حیات
ہم زندگی کی جنگ میں ثابت قدم رہے
ان اشعار میں رفیع ا لدین راز نے زندگی کی تلخیوں ،محرومیوں ، نامرادیوںاور کربناکیوںکو اپنے منفرد و مخصوص فکر و آہنگ اور اسلوب کے ساتھ پیش کیا ہے۔ احساسات و جذبات سے بھرپور یہ خوبصورت اشعار اظہار و افکار،نئی معنویت دریافت کرتے ہیں اور فن کے اعلیٰ معیار کو چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ زندگی کی تلخیوں کو جس طرح نیا پیراہن رازؔ نے عطا کیا ہے، وہ افکار و اظہار کو تہہ دار بناتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ راز کی غزلوں کے مطالعہ کے بعد میں شاعر علی شاعر ( پاکستان )کی اس بات سے متفق ہوں کہ ’’ ایسے با ہمت ، حوصلہ مند اور پر عزم شاعر صدی اور لاکھوں میں ایک پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
امریکہ کے شعری افق پر ایک اور معتبر نام یونس شرر کا ہے۔ ان کا شعری مجموعہ ’’ آنکھیں، چراغ دل لہو‘‘ ادبی حلقوں میں کافی پسند کیا گیا ہے۔ یونس شرر ؔ عصری حالات کی سنگینیوںسے کبھی نبرد آزما ہونے کا حوصلہ دیتے ہیں اور کبھی وہ احساس نارسائی کے غم سے شکستگی کے احساس اور محرومی کے یاس سے بے جاں ہو جانے کا شکوہ بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
؎ نارسائی کے احساس سے، ضبط کے حوصلے غم کے سیلاب میں بہہ گئے
آنکھ پتھرا گئی، پاؤں شل ہو گئے، جاگتے جاگتے جسم و جاں سو گئے
یونس شرر عصرحاضر کے فنکاروں کے اندر احساس ذمہّ داری کو جگاتے ہوئے ان کے سو جانے یا یوں کہئے ان کی خاموشی اور بے حسی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
؎ وہاں تہذیب کیا ہوگی، جہاں فنکار سو جائیں ٭ وسیلوں کے سہارے پر جہاں دربار سو جائیں
امریکہ کے شعری حلقوں سے نکل کر دور بہت دور تک اپنی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کرانے والے شاعر ڈاکٹر نوشہ اسرار نے اپنی شاعری میں فکری آگہی ، فنّی نزاکت، ندرت اسلوب اور الفاظ کے مزاج ومعنیٰ سے اپنی ایک منفرد شان قائم کی ہے۔ ان کا شعری مجموعہ ’’دل سے دل تک‘‘ منظر عام پر آکر لوگوں کی توجہ کا مرکز بناہے۔ نوشہ اسرار کا منفرد لب و لہجہ، نئے عنوانات، متنوع موضو عات، عصری تقاضوں کا احساس و بیان، مختلف سائنسی علوم و فنون کو شاعری میں خوبصورت آمیزش سے پرونا اور گہرے مطالعہ و مشاہدہ کے اظہار وخیال نے ان کی شاعری کو نہ صرف تہہ داری عطاکی ، بلکہ معنویت کی ایک ایسی فضاسے متعارف کرایا ، جو عام طور پر معدوم ہیں۔ شاعری کی ایسی آنچ، ایسی شعلگی اور ایسی وارفتگی عصری منظر نامہ کا اشاریہ بن کر سامنے آتی ہے ۔ اکیسویں صدی کا منظر نامہ نوشہ اسرار کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
؎ خون کے چھینٹے، آگ کے شعلے، ظلم کی آندھی، خوف و ہراس
یہ انسانوں کی بستی ہے ، بن میں پھول کھلتے ہیں
٭
نوشہ اسرار کی غزلوں کے ایسے اشعار اس امر کے غماز ہیں کہ نوشہ اسرار اپنی شاعری میں زمانے کے بدلتے وقت اور مزاج کے نباض ہیں۔ انھیں اس بات کا شدّت سے احساس ہے کہ نئے حالات میں سر بلندی کے لئے حرص و ہوس میں ڈوبے لوگ اپنی بظاہر کامیابی کے لئے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے ،نوشہ اسرار کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
؎ سر بلندی کے لئے حرص کے مارے انسان
اوروں کی پیٹھ پہ چڑھ جاتے ہیں زینے کی طرح
لیکن ساتھ ہی ساتھ نوشہ اسرار کو اس امر کا بھی یقین ہے کہ حق بہر حال حق ہے اور آج جس طرح حق پسندوں پر پہرے بٹھائے جا رہے ہیں ، اس سے بددل اور مایوس نہیں ہونا چاہئے، بلکہ یہ یقین پیہم ہو کہ حق کی باتیں فی الوقت کوئی سنے یا نہ سنے ، لیکن ایک وقت ایسا آئے گا ، جب لوگ حق کی جانب کھنچے چلے آئینگے۔ اس ضمن میںنوشہ اسرار کا بڑا خوبصورت شعر ہے ۔۔۔۔۔۔
؎ کوئی سنے نہ سنے ذکر حق کئے جاؤ ٭ اسی مقام پہ اک اژدھام آئے گا
نوشہ اسرار کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ اکیسویں صدی میں لوگوں کے اندر سے جس طرح پیار، محبت ، دوستی، اخوت، یکجہتی کے احساسات و جزبات ختم ہو رہے ہیں اور اگر یہی سلسلہ رہا تو دنیا ان سے خالی ہو کر بے رنگ اوربے نور ہو جائے گی۔ اس احساس کے اظہار کے لئے نوشہ اسرارکا پیارا سا شعر ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
؎ جب محبت بے سر وساماں ہو تی جائے گی ٭ یہ بھری دنیا بڑی ویران ہوتی جائے گی
نوشہ اسرار کے ہی شہر ہیوسٹن سے ہی تعلق رکھنے والی امریکہ کی بے حد مشہور ومقبول شاعرہ عشرت آفرین اپنے منفرد لب ولہجہ اور انداز بیان سے اردو شاعری میں ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔ ان کے بھی کئی شعری مجموعے منظر عام پر آ کر شعری ادب میں اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان کی شاعری میں حیات و کائنات کی رنگینیوں کاکم، سنگینیوں پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ خاص طور پر خواتین کے احساسات وجذبات کا جس طرح مختلف سطح پر استحصال کیاجاتا ہے اور یہ خواتین جس طرح اندر ہی اندر ٹوٹتی بکھرتی رہتی ہیں۔ ان عوامل کا جس کربناکی سے اظہار عشرت آفرین نے کیا ہے ، وہ دل میں اُتر کر ایک خاص کیفیت پیدا کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے تعلق سے یہ ایسے مسائل ہیں جو عشرت آفرین کے دل و دماغ کو بے چین اور بے قرار کئے رہتے ہیں اور وہ بے اختیار اپنے ان احساسات و جذبات کا الفاظ کے سہارے بڑے ہی منفرد انداز میں فکری اور فنّی لوازمات کے ساتھ بیان کرتی ہیں ۔ ایک غزل کایہ شعر دیکھئے ، جس میں خواتین کو دکھوں کی وراثت سے نکلنے کا حوصلہ دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ عورتیں اپنے دکھ کی وراثت کس کو دیں گی ٭ صندوقوں میں بند یہ زیور کیوں رکھتی ہیں
لڑکیوں کے سلے ہونٹ یعنی ان پر ہونے والے ظلم و استحصال کے خلاف قوت برداشت ،یا احتجاج نہ کئے جانے اور اس روایت پر قائم رہنے والی لڑکیوں پر عشرت آفرین، طنز کر تے ہوئے کہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
؎ اتنا بولوگی تو کیا سوچیں گے لوگ ٭ رسم یہاں کی یہ ہے ، لڑکی سی لے ہونٹ
عشرت آفرین، ایک طرف جہاں حیات و کائنات سے ختم ہوتی رعنائیوں پر افسردہ نظر آتی ہیں، وہیں وہ اکیسویں صدی کے بدلتے حالات میں قتل و خون کو دیکھ کر خوفزدہ ہیں ،کہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
؎ سائیں رات کے رات یہ بستی مقتل کیوں بن جاتی ہے ٭ اب جس رات بھی خنجر نکلیں ، آندھی کالی بھیجو نا
عشرت آفرین کی یہ بھی آرزو اور دلی تمنّا ہے کہ نئی صدی میں ،بے رونق ہوتی زندگی با رونق ہو جائے، کھیتوں میں ہریالی آئے، پرندوں کی چہکاریں ہوں۔ عشرت آفرین کا یہ شعر معنویت کی تہہ در تہہ پرتوں کو کھولتا نظر آتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ سائیں میرے کھیتوں پر بھی رُت ہریالی بھیجونا ٭ سُکھی پرندوں کی چہکاریں گیتوں والی بھیجو نا
امریکہ میں شعر و ادب سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تعداد بہت اچھی ہے ۔ اس کی وجہ میرے خیال میں خواتین یہاں بہت زیادہ مردوں کے بندھن میں جکڑی ہوئی نہیں ہیں ، بلکہ انھیں اظہار خیال کی پوری آزادی ہے ۔ ادبی و شعری محفلوں میں بھی یہ اپنے وجود کا بھرپور احساس کراتی ہیںاور اپنی تخلیقی جدت اور ندرت سے شعر و ادب میں قابل قدر اضافہ کر رہی ہیں ۔
ایسی ہی ایک بے حد مشہور و مقبول شاعرہ پروین شیر ہیں۔ پروین شیر نے خود اپنے لئے ایک نیا راستہ بنایا اور اردو شاعری کے حوالے سے ، شاعری کی دنیا میں اپنی ایک منفرد پہچان بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں ۔ان کی شاعری کی یہ سحر انگیزی ہی ہے کہ ان کی شاعری نے ہند و پاک کے کئی نامور نقادوں کی توجہ مبذول کرائی ہے اور نقادوں نے ان کی شاعری کا بھرپور تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ یہ چند اشعار دیکھئے اور پروین شیر کی غزل گوئی میں جو حسن و معیار ہے اور عصری حالات کی جو سنگینی ، معاشرتی و سماجی سطح پر ابھر رہی ہیں، ان تعلق سے ان کے جو احساسات و جذبات ہیں ، رنگ و آہنگ ہے اور مطالعات و مشاہدات کی اثر انگیزی ہے، وہ نہ صرف فکری سطح پر بلکہ فنّی حسن کی آمیزش سے وسعت و معنویت کی ایسی بلندی عطا کرتی ہے ، جہاں ان کی شاعری اعلیٰ معیار کو چھوتی ہوئی آفاقیت تک کا سفر طئے کرتی ہے اور نئی اردو غزل کی شان بن جاتی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھکن سے چور ہوں ، سر رکھ دیا ہے اس کے سینے پر
مجھے معلوم ہے یہ ریت کی دیوار ہے، پھر بھی
٭
میری مٹھی میں نازک پنکھڑی محفوظ رہتی ہے
بچانا سنگ باری میں اسے دشوار ہے، پھر بھی
٭
میرے سینے میں نہاں رہتے ہیں شیریں نغمے
لب پہ آتے ہیں تو بس آہ فغاں پاتی ہوں
٭
ا ک عجب دور ہے یہ دور کہ اس میں ہر شخص
خود تماشا بھی ہے اور خود ہی تماشائی بھی
٭
زندگی کی گٹھیوں کا پتہ چلتا نہیں
ایک الجھی ڈور ہے، جس کا سرا ملتا نہیں
٭
ہر کوئی کھویا ہوا ہے اپنی اپنی ذات میں
اجنبی ہیں سب یہاں اک ہم نوا ملتا نہیں
پروین شیر کی غزلوں سے منتخب ان اشعار میں عصری مسائل پر ان کے مزاج کا پرتو بہت نمایا ں ہے۔ ان میں جو تشنگی، یاس ، محرومی، بے بسی ، بے کسی اور بے چینی کی کارفرمائیاں ہیں ، وہ عصری تناظر میں، اس عہد کی ننگی اور حقیقی سچائیاں ہیں۔جن کے اثرات دل و دماغ پر دیر تک قائم رہتے ہیں ۔ عہد حاضر کی چیرہ دستیوں کو جس فکری اور فنّی التزام کے ساتھ پروین شیر نے اپنی شاعری میں برتا ہے، وہ انھیں اردو شاعری میں اعلیٰ مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے اور یہ اعلیٰ مقام و مرتبہ جغرا فیائی حدود کو توڑتا ہواپوری اردو دنیا تک پھیل جاتا ہے۔
امریکہ کے غزلوں کی دنیا میں محمد سالم بھی اپنی معیاری شاعری کے حوالے سے اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ عصر حاضر میں معدوم ہوتے جا رہے رشتوں ، تہذیبی زوال ، قدروں کی پامالی کے ساتھ ساتھ اور عہد نو میں جس طرح پرانی لیکن شاندار معیاری روایتیں ٹوٹ بکھر رہی ہیںاور لوگوں کے گھروں سے خوشیاں رخصت ہو تی جا رہی ہیں۔ ان حالات میں محمد سالم کا حساس دل مضطرب رہتا ہے اور ان کے احساسات و جذبات ایسے خوبصورت اشعار میں ڈھلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
؎ زلزلے ، سیلاب، طوفان ہو گئے ہیں عام اب ٭ عہد نو ہے غالباََ آہ وفغاں کے واسطے
؎ میں نے اخلاص کی توقیر میں دیکھی جو کبھی ٭ دل میں رشتوں کی محبت کو گھٹتے دیکھا
؎ وضع داری سے ہوئی جب بھی دنیا خالی ٭ اچھے اچھوں کو اصولوں سے بھی ہٹتے دیکھا
محمد سالم ، اکیسویں صدی میں بدلتے منفی حالات کی ذمّہ داری کو وہ خود بھی قبول کرتے ہوئے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ بزدلی تھی یہ ہماری کہ نہ ٹوکا ہم نے ٭ جب بھی ناحق کسی تلوار کو چلتے دیکھا
محمد سالم کی نئی غزلوں میں اکیسویں صدی کے علائم کی جھلک بہت نمایاں ہے۔ فکری وفنّی سطح پر جو ندرت ہے او رتشبیہات ، استعارات اور علامتوں کی جدّت طرازی میں جو حسن اور کیفیات ہیں ، وہ محمد سالم کی غزلوں کو نئے آہنگ سے بہت قریب کرتی ہیں۔
اردو غزل کو خوبصورت لب ولہجہ دینے اور نئے اسلوب سے متعارف کرانے والے نیز امریکہ کے شعری و ادبی حلقوں کے مقبول شاعر امان خان دلؔکے بھی اب تک کئی شعری مجموعے منظر عام آکر اپنی انفرادیت کی مہر ثبت کرا چکے ہیں۔امان خان دلؔ کی شاعری عہد حاضر کی تمام تر کیفیات اور اس کے اسرارو رموز سے جڑی ہوئی ہے ۔ خوف اور عدم تحفظ کا احساس افسردگی، بے زاری ، بے بسی ، بے کیفی، بے چہرگی، درد و کرب، گھٹن، شکستگی، ذات کا کرب اور احساس تنہائی وغیرہ جو عصر حاضر کی دین ہیں۔ ان کا اظہار پورے فنی حسن اور فکری بالیدگی کے ساتھ ان کے یہاںموجود ہے ۔ ایسے لمحات کے اظہار میں دِلؔ کسی شاعر کی تقلید نہیں کرتے ،بلکہ وہ جو کچھ دیکھتے اور شدّت سے محسوس کرتے ہیں اورانہیں بڑے خلوص و اعتماد کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔ چونکہ دل نے اپنا لب و لہجہ ، اپنا اسلوب اور اپنی آواز کو خود تراشا ہے اس لئے ان کے افکار وخیالات میں تنوع، لب و لہجہ اور اسلوب میں ایک ایسی انفرادیت کی جھلک ہے ،جن سے دلؔ کو بہ آسانی پہچانا جاسکتا ہے ۔اس تناظر میں دلؔ کے یہ چند اشعار دیکھئے۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ اک فریب وقت ہے یہ رشتے ناتوں کی فصیل ٭ دوستوں میں بھی رہا تنہا تو اندازہ ہوا
؎ زندگی اک کرب ہے لوگوں سے سنتا تھا مگر ٭ زندگی کے کرب سے گزرا تو اندازہ ہوا
؎ حسن اخلاق مرے یار، کہاں باقی ہے ٭ اب محبت کا وہ معیار کہاں باقی ہے
؎ کس کے سائے میں کوئی بیٹھ کے دم لے ائے دلؔ ٭ شہر میں سائیہ دیوار کہاں باقی ہے
امان خان دلؔ کے یہ تمام اشعار ایسے ہیں جو سیدھے دل میں اتر کر فکر و معنی کی ایک دنیا آباد کرتے ہیں۔دِل ؔ دِل کی کیفیتوں کا اظہار دِل سے کرتے ہیں ۔ اس لئے ان کے اشعار سیدھے دل میں اتر کر احساس و جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں ۔
امریکہ کے نیؤ جرسی شہرمیںرہنے والے نامور اور مقبول شاعر جمیل عثمان نے اپنے تخلیقی کارناموں سے اردو دنیا کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہیں ۔ جمیل عثمان کو بے رحم وقت اور حالات نے انھیں اتنے زخم دئے ہیں کہ انھیں اب اپنے ان زخموں سے پیار ہو گیا ہے۔ پہلا زخم تقسیم ہند نے دیا ، جسے مندمل کرنے کے لئے اور کچھ سکون و آرام کے لئے مشرقی پاکستان پہنچے، لیکن سقوط بنگلہ دیش نے ان تمام زخموں کو ، جو ابھی پوری طرح مندمل بھی نہیں ہو پائے تھے کہ ان زخموں نہ صرف ایک بار پھر ادھیڑ دیا ، بلکہ کئی نئے زخم اور درد و کرب دے دئے۔ ان زخموں کی ٹیس ، چبھن اور درد لئے انھوں نے مغربی پاکستان کی ہجرت کی، لیکن وہاں بھی انھیںسکون و اطمینان کا کوئی سایہ دار شجر نہیں ملااور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ میں اپنی شاخ سے ٹوٹا ہوں جب سے ٭ بہت بے رنگ ہوتا جا رہا ہوں
لفظ’ مہاجر‘ کے کانٹے جمیل عثمان کے دل و دماغ کو چبھوتے رہتے ہیں، مصائب ، بے سکونی، بے قراری اور درد و کرب کی کڑی دھوپ میں چلتے چلتے وہ تھک گئے،گلف میں سکون کی سانس لینے کی کوشش کی ، لیکن وہاں بھی اطمینا ن و سکون نصیب نہیںہوسکا ، منزل کی تلاش میں بھٹکتے رہے۔ اس وقت وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ۔۔۔۔۔۔
؎ ائے امیر کارواں کب آئے گی منزل بتا ٭ بھٹکے گی یونہی زندگانی کب تلک
ان ہی بے قراری اور بے سکونی کے عالم میں انھوں نے ایک بار پھر ہجرت کی اور امریکہ پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر خارجی طور پر قدرے سکون و اطمینا ن نصیب ہوا ،لیکن اپنی جڑوں سے اکھڑ جانے اور در بدری کا کرب انھیں ہمیشہ ستاتا رہتا ہے اور وہ اپنی خود کی تلاش میں محو سفر رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ گھر میں قیام ہوتے ہوئے در بدر رہا ٭ میں اپنی تلاش میں محو سفر رہا
ہجرت کے درد و کرب، گھٹن، یاس،بے بسی اورمحرومی ،بے یقینی کا موضوع کل بھی تھا اور آج بھی پوری شدّت سے موجود ہے۔ جمیل عثمان نے بڑے حسین پیرائے میں اپنی غزلوں میں اس عالمی مسئلہ کو سمونے کی کوشش کی ہے۔ جدید لب و لہجہ کے ساتھ، جس انداز سے انھوں نے حوادث زمانہ کی روداد سنائی ہے، وہ فکر و فن اور عرفان و آگہی کے اعلیٰ نمونے ہیں ۔
درج ذیل ان اشعار میں ان کے دل کی دھڑکنوںاور سوز دروں کو شدّت سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ ملاتا ہوں خلوص دل سے اپنا ہاتھ میں سب سے ٭ کبھی ان آستینوں میں تھے خنجر بھول جاتا ہوں
٭
؎ میرے اللہ میرے شہر میں مجھ کو اماں دیدے ٭ بھٹکتا ہوں میں ویرانوں میں اور گھر بھول جاتا ہوں
٭
؎ ہم بھی اپنی کوششوں سے باز آنے کے نہیں ٭ دیکھیں منھ پھیرے گی ہم سے کامرانی کب تلک
یہ وہ اشعار ہیں ، جو جمیل عثمان کے درد و کرب اور آہ و فغاں کے مظہر ہیں ۔ ان اشعار میں جمیل عثمان نے اپنے افکار و اظہار کے لئے جو شعری پیرایہ اختیار کیا ہے ۔اس سے ان کی انفرادیت کی جھلک بہت نمایاں ہے۔ ان اشعار میں جو فنکارانہ حسن اور اعلیٰ معیار ہے ۔وہ جمیل عثمان کی تمام غزلوں کو فکر ومعنیٰ کی خاص کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب ہے ۔جمیل عثمان کی غزلیں عصری تناظر میں خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔
ہیوسٹن شہر کی صحافتی اور شعری دنیا میں بہت اہم مقام رکھنے والی شخصیت کا نام غضنفر ہاشمی ہے ۔ اپنے ٹی وی چینل پر ایک جانب وہ عالمی مسائل پر لوگوں سے تبادلۂ خیال کرتے ہیں ، تو دوسری جانب وہ اکیسویں صدی کے بدلتے وقت اور حالات کو شعری آہنگ عطا کرتے ہیں۔اپنے منفرد لب و لہجہ ، شاعرانہ حسن اور فنکارانہ خوبیوں کے باعث غضنفر ہاشمی امریکہ کی ادبی دنیا میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کے یہ چند اشعار دیکھئے اور ان کے مختلف اور منفردرنگ و آہنگ کی داد یجئے۔ غضنفر ہاشمی کی شاعری میں جہاں بدلتے وقت اور حالات کی ستم ظریفی کا شکوہ ہے ، تو دوسری جانب وہ زندگی کی بنیادی وصف سے اپنی واقفیت کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ یہ اظہار ، در اصل انسانی فکر و تخیل اور احساس جمال کو بھی متحرک کرتا ہے۔ ان کے یہ اشعار سیدھے دل میں اترتے ہیں اور ایک خاص کیفیت سے آشنا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
؎ یہ کیسے موڑ پہ لے آیا ، وقت کا دریا ٭ کہ پہلے ناؤ شکستہ تھی، اب کنارا گیا
؎ ہر دور مرا ساتھ نبھانے کے لئے تھا ٭ لیکن میں کسی اور زمانے کے لئے تھا
؎ میں زندگی تری بنیاد جانتا ہوں مگر ٭ تو منکشف ہو کبھی اپنے خدّ و خال سے بھی
اپنے شاعرانہ انداز بیان سے غضنفر ہاشمی ایک الگ تیور والے شاعر کے طور پر پہچان رکھتے ہیں ۔ ان کا شعری سفر اگر اسی طرح جاری رہا اور صحافت ان پر حاوی نہیں ہوئی تو اردو شعری ادب میں ان کا ایک بہت اہم مقام ہوگا، اس کا مجھے یقین ہے۔
امریکہ کے ادبی حلقوں میں کافی سرگرم رول ادا کرنے والی اور مختلف ادبی و شعری محفلوں میں خوبصورت نظامت کے ساتھ اپنی شاندار اور جاندار شاعری کے حوالے اپنی ایک خاص پہچان رکھنے والی شاعرہ فرح کامران کی شاعری میں درد و غم کا سندر موجزن نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی سے بے زاری اور بے کیفی بہت نمایاں ہے ۔ صرف دو شعر پر ہی اکتفا کر رہا ہوں ، فرح کامران کہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
؎ سانحہ کرب کا گزرا ہے کچھ اب کے ٭ زندگی موت بنی جاتی ہے رفتہ رفتہ
؎ ترقی کر رہے ہم بظاہر ٭ مگر اندر سے مرتے جا رہے ہیں
فرح کامران کی شاعری ہی ان کی پہچان ہے ۔شاعری کے ساتھ سا تھ امریکہ کے الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والی معروف شاعرہ فرح اقبال کے بھی اب تک دو شعری مجموعے ’’ دل کے موسم ‘‘ اور ’’ کوئی بھی رت ہو‘‘ منظر عام پر آکرشعری ادب کے مرکز بن چکے ہیں۔ ان کی شاعری میں احساسات و جذبات کا ایک نیا رنگ و آہنگ دیکھنے کو ملتا ہے، جو انھیں انفرادیت بخشتا ہے، یہ ایک شعر دیکھئے۔۔۔۔۔۔
؎ آئینہ ذات کا کیسے میں بچا کر رکھوں ٭ جو بھی ملتا ہے، وہ پتھر کا بنا ہوتا ہے
بڑھتی طوالت اب میرے بڑھتے قدم روک رہے ہیںاور مجھے یہ احساس بہت شدت سے ہو رہا ہے کہ میں امریکہ میں اکیسویں صدی کی شاعری کے حوالے سے بہت سارے شاعر اور شاعرات سے انصاف نہیں کر پا رہا ہوں۔ اس مضمون میں کئی اہم اور معتبر نام چھوٹ رہے ہیں ، مثلاََ رضا نقوی، ارشد سلام، حماد خاں، نسیم جلالوی، منموہن عالم،صفوت علی صفوت،مشیر طالب، عبدالرحمٰن عبدؔ،رضیہ کاظمی،مبین منور،یوسف قادری، واجد ندیم، ندیم شرفی،منیرالزماں، نیاز گلبرگوی، توفیق انصار، جاوید ریاض، انور علی رومی، حسن چشتی، حامد امروہوی، حشمت سہیل، خلیل شاہجہاں پوری، رشید شیخ، رضیہ فصیح احمد، سید شاہ نعیم الدین، سید مقبقل حسن رضوی،شہزاد ہاشمی،صادق نقوی، صفیہ سمیع احمد، عابد اللہ غازی، عبدالرحیم طالب، غوثیہ سلطانہ، لطیف سید سیف، مخفی امروہوی اور منیر الزماں وغیرہ جیسے شاعر اور شاعرات اپنی شاعری کے اعلیٰ معیار سے اکیسویں صدی میں بھی اردو شاعری کے دامن کو وسیع کر رہے ہیں ۔جن پر تفصیل سے لکھنا چاہئے تاکہ یہ لوگ جس محبت اور خلوص کے ساتھ امریکہ میں اردو شاعری کی شمعیں روشن کرنے میں اپنا خون جگر جلا رہے ہیں ، انھیں ان کا صلہ ملنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭٭