You are currently viewing انسان کی حیوانیت،حیوان میں انسانیت

انسان کی حیوانیت،حیوان میں انسانیت

طلعت فاطمہ

ریسرچ اسکالر(پی ایچ ڈی) ،عالیہ یونیورسٹی،شعبۂ اردو،کولکاتا

انسان کی حیوانیت،حیوان میں انسانیت

    سامنے بنی عالیشان عمارت کی دوسری طرف ایک چھوٹی سی خالی جگہ گھاس پھوس سے گھری تھی۔عمارت کے مالک نے اس حصے کو اپنی ملکیت بناتے ہوئے باغیچے کی شکل دے دی تھی جہاں خوبصورت پھولوں کی کیاریاں لگائی گئی تھیں ۔باغیچے کے ایک سرے پہ لکڑی کا ایک احاطہ خوبصورت انداز سے بنا دیا گیا تھا جہاں مالک مکان اور اس کے گھر والے تفریح کی غرض سے بیٹھتے تھے۔اُس باغ کے باہری کنارے ایک درخت کے نیچے ایک کُتیا نے چار بچّوں کو جنم دیا تھا۔سردی کے دن تھے لہذا بچے دن میں آرام سے دھوپ کی گرماہٹ میں چین کی نیند سوتے لیکن رات کے وقت موسم کی خُنکی اتنی بڑھ جاتی کہ ماں کی آغوش بھی سردی کی شدّت کو کم نہیں کر پاتی لہذا کُتیا اس رات سرد موسم کے سبب اپنے بچّوں کی بے چینی محسوس کر کے انہیں لے کر باغیچے میں بنے اُس لکڑی کے احاطے میں جس کے اوپر چھت بھی تھی داخل ہو گئی تاکہ سردی کی شدّت میں کچھ کمی آجائے چناچہ بچّے وہاں جا کر پُر سکون ہو کر چین کی نیند سونے لگے۔صبح مکان مالک جب باغیچے میں پانی دینے آیا تو احاطے میں کُتیا اور اس کے بچّوں کو دیکھ کر غصے میں آ گیا کہ کہیں وہ وہاں گندگی نہ پھیلا دیں لہذا انہیں بھگانے کے لیے وہ آگے بڑھا۔بچّے خوف کے مارے اپنی ماں کے پیچھے دُبک گئے۔کُتیا آہستگی سے اپنے چاروں بچّوں کو لیے وہاں سے نکل کر واپس اُسی پیڑ کے نیچے بیٹھ گئی۔دوسری رات پھر سردی کی وجہ سے جب بچّے پریشان ہو نے لگے تو کُتیا کافی شش و پنج کے بعد بچّوں سنگ اُسی احاطے میں گئی تو دیکھا کہ وہاں فرش پر ہر طرف پانی پھیلا ہے۔اس نے سوچا کہ ضرور مکان مالک نے انہیں یہاں آنے سے روکنے کے لیے یہ ترکیب لگائی ہے۔بچّے معصومیت سے ماں کا منہ تکنے لگے تو کُتیا انہیں لے کر باغیچے میں نصب ایک بنچ کے نیچے بیٹھ گئی اور بچے کسی قدر مطمئن ہو کر خواب خر گوش کے مزے لُو ٹنے لگے۔صبح مالک مکان نے انہیں پھر باغیچے میں دیکھا تو چراغ پا ہو گیا اور کُتیا اور بچّے سہم کر وہاں سے بھاگ گئے اور اُسی پیڑ کے پاس پہنچ کر چُپ چاپ سے بیٹھ گئے۔

          بچّے جب ماں کا دودھ پی کر سو گئے تو کُتیا کو بھوک کا احساس ہوا اور وہ رزق کی تلاش میں سڑک کے دوسرے کنارے

رکھے کچرے کے ڈبّے میں بچا کُچا کھانا تلاش کرنے لگی لیکن وہاں کچھ بھی موجود نہیں تھا۔اُس نے سوچا شاید دوسرے جانوروں

 نے کھا لیا ہوگا یا میونسپلٹی کی گاڑی آکر کچرااُٹھا کر لے گئی ہوگی کیوں آج اُسے آنے میں دیر ہو گئی تھی۔

بھوک نے اُسے بہت پریشان کر دیا ۔اگر صرف اپنی بات ہوتی تو وہ بھوک برداشت کر لیتی لیکن اُسے اپنے معصوم بچّوں کو دودھ پلانا ہوتا تھا اور اس کے لیے اُسے خود بھی خوراک کی ضرورت تھی لہذا کھانے کی تلاش میں وہ تھوڑا اور آگے نکل گئی،ادھر مالک مکان گھر سے نکل کر باغیچے میں آیا تو اس نے دیکھا کہ چاروں کُتّے کے بچّے پھولوں کی کیاریوں کی نزدیک

اچھل کود کر رہے ہیں۔اس کے غصّے کی انتہا نہ رہی پہلے تو اس نے سوچا کہ انہیں مار کر بھگایا جائے لیکن یہ کام وہ پچھلے دو دنوں سے کر رہا تھا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔کُتیا اور اس کے بچّے بدستور گارڈن میں آجاتے تھے۔اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس پر عمل درآمد کے لیے وہ اپنے گھر سے کیروسین کی بوتل لے آیا اور چپکے سے باغ میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ چاروں بچّے نرم گھاس پہ دھوپ کی گرماہٹ سے نیند کی آغوش میں چلے گئے ہیں ۔اس کا کام مزید آسان ہو گیا اس نے فوراً سے پیشتر ان کے چاروں طرف  کیروسین تیل کا چھڑکائو کیا اور اس میں ماچس کی تیلی پھینک دی اور باقی ماندہ تیل کو ان بے زبانوں پہ اُنڈیل دیا نتیجتاً آگ کے شعلے میں شدّت آگئی اور بچّے دلخراش چیخ مار کر تڑپنے لگے اور مکان مالک کے ہونٹوں پہ شیطانی مسکراہٹ رینگ گئی۔پل بھر میں چاروں بچّوں کا نرم و گداز جسم خاک کا ڈھیر بن گیا۔آس پاس کے لوگ حیرت سے جب وہاں جمع ہو کر استفسار کرنے لگے تو اُس شخص نے سب کو یہ دلیل دے کر مطمئن کر دیا کہ باغ میں بہت سا کچرا جمع ہو گیا تھا۔یہاں وہاں پھینکنے سے مزید گندگی پھیلتی اس لیے سب کو اکٹھا کر کے اُس نے جلا دیا۔یہ سن کر سب لوگ اپنے اپنے کاموں کی طرف چل دیے۔

          کُتیا جب بچا کُچا کھانا کھا کر واپس لوٹی تو درخت کے نیچے اپنے بچّوں کو نہ پا کر بہت بے چین ہوئی اور یہاں وہاں انہیں تلاش کرنے لگی۔بچّے جب اسے کہیں نہیں دکھے

تو وہ باغ کی جانب دوڑی مگر وہاں مکان مالک کی موجودگی سے کسی قدر پریشان ہو گئی لیکن کافی پس و پیش کے بعد وہ مکان مالک سے نظر بچا کر چپکے سے باغ میں داخل ہوئی اور بچّوں کو ڈھونڈنے کی غرض سے اطراف نگاہ دوڑانے لگی لیکن اس کے بچّے وہاں کہیں موجود نہیں تھے البتہ کچھ جلنے کی ناگوار بُو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی اور وہ آگے بڑھ کر اس راکھ کے ڈھیر کے پاس کچھ ٹٹولنے لگی او رجب اُسے ُسونگھا تو اس کے ہوش اُڑ گئے۔یہ راکھ کا ڈھیر اُس کے بچّے تھے۔وہ صدمے سے نڈھال وہیں بیٹھ گئی۔پیچھے سے مکان مالک بکتا جھکتا ہاتھ میں چھڑی لیے اُسے پیٹتا رہا لیکن اُسے کوئی تکلیف اور کسی درد کا احساس نہیں ہوا۔تھک ہار کے مکان مالک وہاں سے چلا گیا ویسے بھی اسے اپنے ملازم سے وہاں کی صفائی کروانی تھی۔کُتیا کافی دیر وہاں آنسو بہانے کے بعد اُ ٹھ کراُسی درخت جو اُس کا مسکن تھا وہاں بیٹھ گئی۔اُس کے تھن میں دودھ بھرے تھے لیکن پینے والے بچّے موجود نہیں تھے۔تصور میں وہ اپنے بچّوں کو اپنی آغوش میں پاتی اور اب وہ وہاں سے رزق کی تلاش میں جانے سے بھی اس خیال کے تحت ڈرنے لگی تھی کہ کہیں اس کے تصور سے بھی کوئی اس کے معصوم بچّوں کو چھین کے جلا نہ دے۔

1

         آج چار دن گزر گئے تھے لیکن کُتیابھوک پیاس سے بے نیاز ہنوز اُسی طرح درخت کی آڑ میں بیٹھی تھی۔رات جب گہری ہو گئی اور سردی کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا تو وہ خود میں سمٹتے ہوئے آسمان کی جانب تکنے لگی تبھی اچانک اسے کھٹکے کا احساس ہوا۔سامنے عالیشان عمارت سے ایک آدمی سیاہ لبادہ اوڑھے ہاتھ میں کچھ لیے تیز قدموں سے جارہا تھا۔اُسے لگا وہ شخص کہیں اُس کے بچّوں کو پھر سے جلانے نہ جارہا ہو۔وہ بھی آہستگی سے اس کے پیچھے چلنے لگی۔آدمی نہایت بدحواس تھا اور اس نے اپنے چہرے کو ڈھک رکھا تھا اور اپنے ہاتھ میں پکڑے شاپر کو اس نے سنسان سڑک کے دوسرے کنارے پہ موجود کچرے کے ڈبّے میں ڈال دیا اور ادھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے کہ کسی نے اُس کے اس اقدام کو دیکھا تو نہیں ،تیز تیز قدموں سے واپسی کی راہ لی۔کُتیا درخت کی اوٹ میں چُھپ کر یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔اس آدمی کے جانے کے بعد وہ سرعت سے وہاں پہنچی اور گندگی اور کوڑے کے ڈھیر میں اپنے بچّے کو تلاش کرنے لگی لیکن اس کا بچّہ کہیں بھی موجود نہیں تھا پھر اس کی نظر اس شاپر پر پڑی جسے وہ آدمی کچرے کی کئی تہوں کے نیچے دبا گیا تھا۔اس نے اس شاپر کو اپنے منہ سے کھینچ کے باہر نکالا تو دیکھا کہ اس میں ایک نرم و نازک سی نوزائیدہ انسانی بچّی تھی جو شاپر میں انگڑائی لے رہی تھی۔کُتیا کو بے اختیار اس میں اپنے بچّے کی شبیہ نظر آئی۔اس نے منہ میں وہ شاپر پکڑا اور اسے لے کر وہ کچرے کے ڈبّے سے باہر آگئی۔بھوک اور سرد موسم کی وجہ سے وہ نو زائیدہ بچّی رو رہی تھی اور کُتیا بے بس تھی کہ وہ انسانی بچّی تھی اس لیے وہ اُس معصوم کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی سوائے اس کے کہ وہ صبح تک اس کی کسی طرح موسم اور دیگر حشرالارض سے حفاظت کر سکے۔اس نے شاپر کے گرد اپنے بازو حمائل کر دیے تاکہ بچّی کو اس کے لمس سے گرمی پہنچ سکے۔بچّی کو بھی کسی قدر آرام آگیا اور وہ پُر سکون نیند سو گئی۔

          صبح جب پو پھٹنے لگی اور سڑکوں پر مسافروں اور گاڑیوں کی آمد و روفت شروع ہوئی تو کُتیا سڑک کے کنارے کھڑی ہو کر ہر آنے جانے والوں پہ بھونک کر ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کی کوشش کرنے لگی لیکن بیشتر لوگ اسے دھتکار کر آگے بڑھ جاتے لیکن وہ اپنی کوشش مسلسل جاری رکھے ہوئے تھی۔گاڑیوں کے شور و غل سے بچی کی آنکھ بھی کھل گئی اور وہ زار و قطار رونے لگی۔کچھ دیر بعدمیونسپلٹی کی گاڑی جب کچرا اٹھانے آئی تو کُتیا اُن کی گاڑی کے سامنے کھڑی ہو کر بھونکنے لگی۔میو نسپلٹی کے آدمی کے گاڑی سے باہر نکلتے ہی وہ اس کے قریب جاکر اس کے قمیض کا دامن ہلانے لگی اور کچرے کے ڈبّے کے پیچھے چلنے کا اشارہ کرنے لگی ۔وہ آدمی سمجھ گیا کہ یہ کچھ بتانا چاہ رہی ہے لہذا وہ بھی کُتیا کا اشارہ پا کر اس کے تعاقب میں کچرے کے ڈبّے کے پیچھے گیا تو اس کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں ۔ایک نوزائیدہ بچّی شاپر میں پڑی تھی اور کُتیا اس کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔میونسپلٹی والے نے جلدی سے آگے بڑھ کر بچی کو دیکھا تو شکر ادا کیا کہ بچی زندہ تھی۔اس یخ بستہ رات میں اس نوزائیدہ بچی کا زندہ رہنا کُتیا کی رحم دلی اوربھرپور  کوشش کا ثبوت تھا۔اس شخص نے کُتیا کی جانب تشکر سے دیکھتے ہوئے سوچا کہ یہ دنیا انسانیت سے خالی ہوتی جارہی ہے۔انسان حیوانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معصوم کو اتنی سرد رات میں مرنے کے لیے چھوڑ گیا اور یہ کُتیا جو جانور ہونے کے باوجود انسانیت کا گہرا درس دیتے ہوئے اس نوزائیدہ کی محافظ بننے کے ساتھ ساتھ سماج اور معاشرہ کے لیے مثال بھی بن گئی ہے۔اس نے بچی کو احتیاط سے اس شاپر سے نکال کرمیونسپلٹی کی گاڑی میں ڈالا اور پولیس کو اطلاع دے دی۔پولیس نے بچی کو چائلڈ کیئر ہوم میں ایڈ میٹ کروادیا۔

          کُتیا دوبارہ اپنی جائے پناہ میں آکر بیٹھ گئی۔سامنے عالیشان عمارت پہ نظر ڈالے وہ پروردگار سے گویا ہوئی کہ

     ’’ یا رب العالمین ! جسے تُو نے اشرف المخلوقات بنایا وہ آج تیری ہی تخلیق کو ارزاں کر کے سکون کی نیند سو رہا ہے۔میں تیری ادنیٰ سی مخلوق تجھ سے بس اتنی ہی دعا کرتی ہوں کہ انسان کو اپنی اشرفیت کا غرور ہونے کے بجائے اپنے مقام اور مرتبے کا صحیح ادراک ہوجائے تاکہ پھر کوئی معصوم اور ننھی جان یوں بے دردی سے ضائع نہ ہو۔‘‘

اُس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور اس نے اپنے چہرے کو زمین پہ ٹکا کر آنکھیں موند لیں ۔تصور میں اس کے چاروں معصوم بچے چپکے سے اس کی آغوش میں سما گئے اور اس نے اپنے بازوئوں کو مضبوطی سے ان کے گرد حمائل کر دیا!!!!!!!

٭٭٭

Leave a Reply