پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال جاوید شیخ ابراہیم
پروفیسر و صدر شعبہ اُردو
شیواجی کالج ہنگولی،مہاراشٹر
اوراق گمشدہ کا شاعر… مرزا مسعود بیگ
شہر ہنگولی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہ شہر فوجی چھاونی رہا ہے ۔انگریزوں کی آمدورفت اس شہر میں رہی ہے۔ صرف فوجی چھاونی ہی نہیں بلکہ یہ فوجیوں کی تربیت گاہ بھی تھی۔ اس کا تذکرہ ہمیں مولوی عبدالحق کی خاکوں کی کتاب ’’چند ہم عصر‘‘ میں ملتا ہے۔’’نور خان‘‘نامی ایک شخص جو پی ٹی ماسٹر تھے جنھیں گدڑی کے لال سے مولوی عبدالحق نے مخاطب کیا ہے۔ جو بہت نظم و ضبط ،اصول اور فرائض کے پابند تھے۔
سر زمین ہنگولی میں کئی ادباء اور شعراء مل جائیں گے۔ لیکن وہ سب گم نام ہے۔ بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جنھیں ایسے شاگرد نصیب ہوتے ہیں جنکی کاوشوں کو عوام تک پہنچایا جاتا ہے۔
مرزا مسعود ہنگولوی ایک ایسے ہی شاعر ہیں جنھیں انکے شاگرد خاص نے انکی کاوشوں کو قارئین کے سامنے پیش کرکے حق شاگردی ادا کردیا۔’’اوراق گمشدہ‘‘ یہ محترم مرزا مسعود بیگ صاحب کا شعری مجموعہ ہے۔
صاحب موصوف شہر ہنگولی کی ہر دلعزیز شخصیت ،شیریں زباں،شگفتہ مزاج،بذلہ سنج،ادب شناس،ادب نواز ہر ایک سے بہت عاجزی سے ملتے ہیں۔کوئی بھی آپ کو کوئی کام کہے، کچھ مدد طلب کریں۔مشورہ مانگیں آپ نا نہیں کہیں گے۔ بلکہ ہر جگہ ،ہر مجلس ،ہر محفل میں حاضر ،گویا رونق محفل ،گویا وہ ایک زندہ دل شخصیت کے مالک ہیں۔
بچپن سے ہی تعلیمی و ادبی ماحول میں پروان چڑھے ۔زمانۂ طالب علمی ہی سے والد صاحب کے ساتھ علمی اور ادبی محفلوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ اور یہ ذوق موصوف میں بھی پروان چڑھتا گیا۔ موصوف بیک وقت تین زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ویسے ایک اہم بات شاعری میں موصوف کا کوئی استاد نہیں اور نہ ہی کسی سے انھوں نے اصلاح لی۔
مسعود مرزا سر تینوں زبانیں اردو،ہندی،مراٹھی میں شعر کہتے ہیں۔زمانۂ طالب علمی میں ۱۹۷۱ء میں بزبان مراٹھی میں آدرش کالج کے میگزین میں آپ کی پہلی نظم بعنوان’’بنگلہ ادئے‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ آپ تینوں زبانوں کے مشاعروں میںشریک ہوا کرتے تھے۔ لیکن ہندی اور مراٹھی کا مجموعہ کلام شائع نہیں ہوا۔ ہندی کا شائع ہونے کے امکانات ہیں۔’’سر اب‘‘ یہ آپ کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔جو اوراق گمشدہ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔جسکی ابھی ابھی رسم اجرائی عمل میں آئی ہے۔ یہ مجموعہ کلام مختلف شعری اصناف کا گویا ایک گلدستہ ہے۔ یہ مجموعہ حمدیہ کلام سے شروع ہوتا ہے۔ دو نعتیں اور ایک مناجات کے بعد ماں سے متعلق ایک نظم ہے۔ اور پھر ۸۳ غزلیات ہیں۔ ۶نظمیں ، ۵ گیت اور ۶۲ قطعات پرمشتمل شعری مجموعہ ہے۔عمدہ حمد کے بعد نعت بھی بہت کچھ ہمیں بتاتی ہے۔ ویسے نعت کہنا ایک مشکل فن ہے۔ کیونکہ بہت ہی احتیاط کے ساتھ وہ کہنی ہوتی ہے۔کہیں نعت کہتے کہتے سرکا ر دو عالم کے شان میں گستاخی نہ ہوجائے۔ موصوف نے ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے شانِ رسالت میں بہترین اشعار قلم بند کئے ہیں۔
دشمن بھی معترف ہیں، کہتے ہیں سب امین
قناعتِ صبرکیسا ہو ،مطیع غم خوار سے سیکھیں
اسی نعت کے مقطع میں خو بصو رت تلمیح کا بھی استعمال کیاہے کہتے ہیں ۔
محشر میں جامِ کوثر کا ملتجیع ہے مرزا
یہی راہ معرفت عدلِ مختار سے سیکھیں
اِس طرح یہ سفر رواں ہوتا ہے منا جات اور غزلیات کا سلسلہ شروع ہوتا ۔ اردو ادب کی تاریخ کا بنظر غائر اگر مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہو تی ہے کہ اردو ادب کی تاریخ کا کوئی بھی ایک ایسا شاعر نہیں ملے گا جس نے غزل کے تار کو نہ چھیڑا ہو ۔ تو مرزا مسعود سر اس سے بھلا کیسے مستثنیٰ رہ سکتے تھے موصو ف نے اپنے مجموعہ کلام میں کُل ۸۳غزلیں شامل کی ہیں۔ اس کے علاوہ اور ایک بات آپ کے گوش گزار کردوںکہ آپ کی غزلیں بھی اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ اس کا بھی ایک مجموعہ شائع کیا جا سکتا ہے ۔ اور قطعات کی بھی تعداد اتنی ہے کہ اس کا بھی ایک علحٰیدہ مجموعہ شائع کیا جاسکتا ہے۔اس مجموعہ کلام میں ۶۲ قطعات شامل ہیں۔
چونکہ ہر زمانے میںغزل کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا ہے۔ غزل گویا کرشمہ ساز ہے۔’’ماں‘‘پر بہت ساری نظمیں اور غزلیں کہیں گئی ہیں۔ لیکن یہاں اس مجموعہ میں ماں کے عنوان سے ایک اچھوتے انداز میں شاعر نے اپنے تخیل کو پیش کیا ہے۔ اور کیوں نہ ہو ’’ماں ‘‘ہی وہ ہستی ہے جو اپنے بچوں کوجیسا موڑ دینا چاہے دیتی ہے ۔مثلاً
اسکا مذہب ہے صرف
تقسیم پیار
اسکی آما جگاہ ہے…… انسانیت کا شعار
اسکے پاسے ہے قائم ……یہ جہاں لالہ زار
ایسا نہیں ہے غزل میں صرف حسن و عشق کا بیان ہوتا ہو۔ بلکہ اب تو غزل ہر وہ موضوع سمٹ آیا ہے جو انسانی زندگی سے
تعلق رکھتا ہے۔ چونکہ غزل جذبات کی عکاسی کا نام ہے۔ نئی تہذیب اور اقدار کی عکاسی کرتے ہوئے مسعود مرزا سر رقم طراز ہیں
بزرگوں سے آگے بیٹھتے ہیں بزم محفل میں
نئی دولت ملی جن کو وہ کمتر بول اٹھتے ہیں
ایک کامیاب شاعر وہی ہے جو اپنی شاعری میں اپنے ارد گرد کے حالات و ماحول کی عکاسی کرے۔
نوٹوں میں لیٹ جاتے یہاں موجودہ ایمان
سکوں میں یہاں بکتا قلم دیکھتے جاؤ
حب الوطنی کی جب بات ہواور وہ بھی اردو شاعری کے حوالے سے ہندوستان کے تمام زبانوں کی تاریخ کو ایک طرف رکھیئے اور اردو کی تاریخ ایک طرف ،اردو کی تاریخ ان تمام پر بھاری پڑے گی۔اردو ادب کے تمام ہی شعراء نے حب الوطنی کے موتی لٹائے ہیں ۔ وہ ہماری برابری نہیں کرسکتے حب الوطنی کے معاملے دیگر مذاہب کے لوگ۔ وہ زبانی جمع خرچ کرتے ہیں۔ اور ہم عملی ثبوت دیتے ہیں ۔ دیکھئے موصوف نے کس طرح خوبصورت عکاسی کی ہے۔
ہم امن پرست ہے خاک وطن کے متوالے
لیکن اہل چمن نے نہ ہم پہ اعتبار کیا
بے شک ہم مسلم ہے مگر اس مٹی سے پیار ہے
بھارت پر مرمٹنے کو ہم بھی تو تیار ہیں
پنے پلٹ پلٹ کر دیکھو تاریخی اداروں کے
سب کچھ لٹایا اسی دیش پر پھر بھی ہم غدار ہیں
اس مجموعہ کلام میں تلمیحات اور تشبیہات کی کثرت ہے اور یوں قارئین تاریخ اسلام اور تاریخ ہند کے بہت سے ادوار سے متعارف ہوجاتا ہے۔ اس کی ایک نظم تاریخ ہند ۶۱۳ء سے ۱۹۴۸ء تک (یعنی محمد بن قاسم) کی آمد سے نظام کے اختتام کی تاریخ کو قلم بند کیا ہے۔
اس کے بعد ایک بہت ہی جذباتی نظم’’ماں تیری یاد‘‘ بہت لافانی نظم ہے۔جسے پڑھ کر آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل جاتے ہیں۔اس طرح اس مجموعہ کلام کا اختتام قطعات پر ہوتا ہے۔
٭٭٭