کرن اسلم
پی ایچ ڈی سکالر،، وزٹنگ فیکلٹی ،شعبہ اُردو
جی سی یونیورسٹی، لاہور
اَ سپ کِشت مات ۔ حقیقت اور علامت کا امتزاج
مُلخص
معنی خیز عنوان کا حامل ،علامتی افسانہ “اسپ کشت مات” ایک ایسے کردار کی کہانی ہے جو آنتوں کی ایک بیماری ایمی بیاسس میں مبتلا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے نفسیاتی مسائل اس بیماری کے علاج میں رکاوٹ ہی نہیں بنتے بلکہ اس بیماری کو بڑھانے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ قمر احسن نے افسانے میں معاشرتی رویوں اور ان سے جڑے نفسیاتی مسائل کو تجریدی رنگ میں بخوبی بیان کیا ہے۔ علامت ہی نہیں افسانے کے بیان میں نفسیاتی تکنیک بھی استعمال کی گئی ہے۔ مرکزی کردار کی تمام ذہنی صورت ِ حال کے لیے ” گھوڑا” بطور علامت استعمال کیا گیا ہے۔افسانے کا اختتام قاری کو حیرت کے سمندر میں دھکیل کر سوچوں میں گم کر جاتا ہے۔
کلیدی الفاظ: ایمی بیاسس، گھوڑا، معاشرتی رویے، نفسیاتی مسائل، جسمانی بیماری، والدین کا رویہ، بچپن، سماجی ذمہ داریاں، تجریدیت، علامت
قمر احسن کا نام علامتی افسانے کے حوالے سے ایک اہم نام ہے۔ ان کے افسانوی مجموعے ” شیر آہو خانہ ” میں شامل پندرہ افسانوں میں سے ابتدئی دو افسانے ” اسپ کشت مات ” کے زیر ِعنوان موجود ہیں۔ اسپ کشت مات، دوحصوں پر مشتمل افسانہ ہے جو آپس میں منسلک ہیں۔قمر احسن کا نام علامتی افسانے کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ان کے ہاں اکثر ہمیں علامتی سطح پر جانوروں کا ذکر ملتا ہے۔مثلاً گھوڑا ، اس مجموعے کےکئی افسانوں میں ایک علامت کے طور پر موجود ہے۔”شیر آہو خانہ ” کے افسانوں میں گھوڑے کے علاوہ جن جانوروں کا تذکرہ موجود ہے ان میں کتّا، بکریاں، مرغیاں، طوطا ، مینا، شیر، گیڈر، بھڑیے، لکڑ بگھے،اونٹ اورہاتھی شامل ہیں۔ ان میں کچھ پالتو جانور ہیں اور کچھ جنگلی۔ جانوروں کی مناسبت سے ہی جنگل کیا علامتی حوالہ بھی کئی جگہ ملتا ہے۔ افسانوی مجموعے کا عنوان بھی اس بات کا ایک ثبوت ہے۔
” اَسپ کِشت مات“ اپنے عنوان ہی سے ایک منفرد اور معنی خیز تاثر پیش کرتا ہے۔اَسپ، فارسی زبان میں عموماً گھوڑے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ”کِشت مات“ کے الفاظ کا اضافہ اس عنوان کو اس لیے معنی خیز بناتا ہے کہ یہ ایک فارسی کہاوت کے آخری تین الفاظ ہیں جو کہ شطرنج کے کھیل سے منسوب ہے۔کہاوت کچھ یوں ہے: ” شاہا دو رخ بدہ و دل آرام را مدہ پیل و پیادہ پیش کُن و اسپ کِشت مات“ افسانے کا عنوان نہ صرف معنی خیز بلکہ معنوی گہرائی کا حامل بھی ہے۔ اس معنوی گہرائی کا جائزہ لے لیا جائے تو شاید افسانے کی تفہیم میں کسی قدر آسانی اور وضاحت کا پہلو در آئے۔
”ا َ سپ “ اُردو میں جن معانی میں مستعمل ہے، وہ یوں ہیں۔۱۔ ایک سبزی خور چوپایہ جو عموماً گاڑی میں جوتا جاتا ہے اور اس پر اکثر سواری بھی کرتے ہیں۔۲۔ شطرنج کا مہرہ جو ڈھائی گھر چلتا ہے۔(دو سیدھی چالیں اور ایک دائیں یا بائیں آڑی چال) ۳۔ شطرنج کا بادشاہ۔ ا ِس لفظ کے مترادفات میں ”گھوڑا، فَرَ س، رخش، توسن (وہ گھوڑا جو تند اور شوخ ہو، بے سُدھا گھوڑا) اور سمند شامل ہیں۔ 1؎ اس کے انگریزی مترادفات ہیں۔ ” horse, the knight at chess اور powerful”
اس کے بعد لفظ”کِشت“ ہے۔ جس کے عام معنی ”کھیتی یا بویا ہوا کھیت“ کے ہیں۔ شطرنج میں اس کے معنی ہیں، شاہ کا ایسے خانے میں ہونا کہ اگر اس جگہ دوسرا مہرہ ہوتا تو مارا جاتا۔۲۔ بادشاہ پر زد۔حیاتیات میں ”کِشت“ کے معنی ہیں۔۱۔ کیڑوں یا جان داروں کی بستی۔ ۲۔ جراثیم پروردہ۔وہ امتحانی نلی جس میں زندہ خلیوں کو غذائی محلول کی موجودگی میں اُگایا جاتا ہے۔2؎
آخری لفظ”مات“ ہے۔ عام طور پر ہارجانے کے معنوں میں مستعمل ہے۔ اس کے علاوہ یہ جن معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، کچھ یوں ہیں۔ ” مقابلے سے عاجز، شطرنج یا بیت بازی میں ہار جانا، مرنا،بے رونق، بے رنگ، ہیچ،ہارا ہوا، حیران، پریشان اوراُلجھا ہوا“۔اب اس لفظ کے مترادفات ملاحظہ کیجیے۔ ”ہار، شکست، عاجز، ماں، والدہ، مادر، ماتا اورزَک وغیرہ۔3؎
افسانے کے پہلے حصّے میں ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے یہ وہم ہو جاتا ہے کہ اس کے پیٹ میں گھوڑا ہے۔ اس نفسیاتی مسئلے کا حل یہ نکالا جاتا ہے کہ اس کے پیٹ کا آپریشن کرنے کے بعد اسے ایک گھوڑا دکھایا جاتا ہے کہ یہ اس کے پیٹ سے نکلا ہے۔ لیکن مریض یہ کہہ کر دوبارہ اسی ذہنی و جسمانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ یہ گھوڑا مشکی رنگ کا ہے جب کہ اس کے پیٹ میں گھوڑا سفید رنگ کا ہے۔
افسانے کے دوسرے حصّے میں قمر احسن نے اسی پلاٹ کو ذرا الجھا کر اسے داستانوی رنگ دیا ہے۔ افسانے کے درج ذیل فقرے اس کہانی کو واضح کرتے ہیں۔” اسے محسوس ہوا جیسے آنتوں میں کچھ چل رہا ہے۔۔۔اس نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا۔۔۔دیوروں پر ایک جنگل دکھائی دیا۔۔۔۔ جس میں گھوڑا دوڑ رہا تھا۔”
اِس افسانے کا مرکزی کردارپیٹ کی بیماری میں مبتلا ہے۔ اُسے محسوس ہوتا ہے کہ اُس کے پیٹ میں کوئی جان دار چیز چلتی پھرتی ہے۔ جیسے کوئی چوہیاآنتیں کتر رہی ہو۔ منہ میں کڑوے پانی کا ذائقہ اور فمِ معدہ پر شدید جلن کا احساس ہونے پر اُسے اپنی بیماری کا احساس شدت سے سر اُٹھاتا ہے۔
”ایمی بیاسس” کا مریض کم و بیش انھی کیفیات کا شکار رہتا ہے جن کا سامنا افسانے کے مرکزی کردار کو بھی کرنا پڑتا ہے۔اس بیماری کی بنیادی وجہ پیرا سائٹس ہیں۔ اِس کی وجہ سے پیدا شدہ کیفیات کے شدت اختیار کر نے کی ایک اہم اور بڑی وجہ شدید ذہنی دباؤ یعنی ڈپریشن بھی ہے۔ ڈپریشن کے بار بار شدید حملے اس بیماری کی بد ترین صورت ِ حال کو دعوت دینے میں اہم کردار ادا کرتے اس بیماری کے نتیجے میں،پیٹ میں پیدا ہو جانے والی مستقل حالت کی انگریزی اصطلاح” آئی بی ایس کہلاتی ہے۔ اس بارے میں ”میو کلینک“ کی ویب سائٹ پر مختصرتعارف اس طرح دیا گیا ہے۔ 4؎
Irritable bowel syndrome (IBS) is a common disorder that affects the large intestine. Signs and symptoms include cramping, abdominal pain, bloating, gas, and diarrhea or constipation, or both. IBS is a chronic condition due to some reasons like stressful events especially in early childhood. Depression and anxiety also can make IBS worse.
افسانے کے آغاز ہی سے مرکزی کردار میں ذہنی دباؤ کی علامات محسوس کی جا سکتی ہیں۔ دفتر کا کام، خطوط کا جواب، گھریلو ذمہ داریاں جنھیں پورا نہ کر سکنے کا احساس اُسے دلایا جاتا ہے، وغیرہ مل کر اُسے ذہنی طور پر بے سکون کرتی ہیں۔اس کے علاوہ اس کی بیان کردہ تمام کیفیات کے درمیان میں بھی دفتری فائلوں کے انبار کا خیال اور خوف اس کے شدید ذہنی دباؤ کی طرف اشارہ ہے۔
یہ کردار جس بیماری میں مبتلا ہے وہ نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی بیماری کی صورت میں بھی، دن رات اُس کے ساتھ ساتھ موجود ہے۔جسمانی بیماری کی کیفیات، ذہنی دباؤ، پریشانی اور ذہنی اُلجھن مل کراُسے ایک نفسیاتی عارضے میں بھی مبتلا کرتی ہیں۔جس بنا پر وہ محسوس کرتا ہے کہ اُس کے پیٹ میں گھوڑا ہے۔ اس کے علاوہ دیواروں پربانس کا جنگل، معاشرتی رویوں کے حوالے سے ذہنی الجھن کوظاہر کرتا ہے۔جو اس کی ذہنی آسودگی کی راہ میں جنگل کی طرح بار بار رکاوٹ کھڑی کرنے کا باعث ہیں۔افسانہ نگار نے کئی ہزار سال کی محرومی کا تذکرہ کر کے بھی بچپن ہی سے اس کردار کے ذہنی دباؤ کو واضح کر دیا ہے۔پیٹ میں گھوڑا دوڑنے کی اپنی اس کیفیت کا اظہار وہ سب کے سامنے نہیں کر سکتا، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ کوئی اُس کی بات پر یقین نہیں کرے گا۔چند مخصوص لوگوں کو وہ اس کیفیت اور احساس سے آگاہ کرتا ہے۔جن میں اُس کاایک دوست اور باپ شامل ہے۔
عنوان میں موجود” ا سپ “ سے قاری کا خیال اِسی گھوڑے کی طرف مُنتقل ہوتاہے جو مرکزی کردار کے بقول اُس کے پیٹ میں موجود ہے۔سماجی سطح پر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں گھوڑا، طاقت کی علامت ہے۔کبھی نہ تھکنے والی طاقت۔مسلسل محنت کی عادت رکھنے والی طاقت۔ریس کے گھوڑے کی طرح لوگ اُسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔عام طور پر مردوں کو گھوڑے کی طرح مضبوط گردانا جاتا ہے اور ہر طرح کی ذمہ داری ان کے کاندھو ں پر ڈال دی جاتی ہے۔ایک بادشاہ اور ایک سربراہ کے طور پر مرد کا کردار ہمارے معاشرے کا عمومی کردار ہے۔جو اپنی پریشانی کا تذکرہ بھی کسی سے نہیں کر سکتا کیوں کہ وہ مرد ہے۔ وہ اپنے کسی غم اور دکھ پر رو نہیں سکتا کیوں کہ وہ مرد ہے اور مرد رویا نہیں کرتے۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کے لیے یہی میعارات صدیوں سے رائج ہیں۔
گھوڑے کی علامت کے ساتھ بانس کا جنگل بھی ایک علامت ہے۔ جس طرح گھوڑا مضبوطی اور طاقت کی علامت ہے۔ اسی طرح بانس مضبوطی اور پائیداری کے ساتھ ساتھ مثالی سرمایہ کاری مانا جاتا ہے۔یہ کردار بھی اپنے خاندان کے لیے ایک ذریعہ معاش ہے۔جنگل کی مناسبت سے جانوروں اور حشرات کا تذکرہ موجود ہے۔ جنگل میں چوہے اور کیڑے بھی ہیں۔ گھوڑے کے پسینے سے بننے والے آبلے مرکزی کردار کی ذہنی اذیت کو ظاہر کرتے ہیں۔آبلے کی و جہ سے تکلیف اور دُکھنے کی مثال بھی ہمارے ہاں روزمرہ کے استعمال میں ہے۔وسیع جنگل کو اس کی مشکل زندگی کی علامت بھی کہا جا سکتا ہے۔جس میں آبلے ہی آبلے ہیں اور خوف کو ظاہر کرتے ہوئے چوہے۔
یہ کردار اپنے اندر ایک گھوڑے کا وجود محسوس کرتا ہے۔ گو کہ اُسے کڑوے زرد پانی کی قے اور اُبکائی معدے اور آنتوں کی بیماری کی وجہ سے آتی ہے لیکن وہ گھوڑے کو اپنے پیٹ میں پلتے ہوئے محسوس کرتا ہے گویا وہ اُس گھوڑے کو جنم دے گا۔
”میرے پیٹ میں ایک گھوڑا پرورش پا رہا ہے۔۔۔۔۔۔”
بوڑھے معلاج نے پوچھا۔۔۔”کیا آپ محسوس کرتے ہیں آپ کے پیٹ میں واقعی گھوڑا ہے؟ اور وہ اصلی گھوڑے جیسا جسیم اور تنو مند ہے؟ ”
” جی ہاں۔۔۔۔”
آپ اس سے نفرت یا خوف محسوس کرتے ہیں؟”
” جی نہیں۔” 5؎
وہ اپنے دوست سے کہتا ہے کہ اُس کا پیٹ دن بہ دن پھولتا جا رہا ہے بلکہ اُٹھنے بیٹھنے میں بھی مشکل پیش آ رہی ہے۔پھر وہ گھوڑا پیدا ہونے کا دورانیہ معلوم کرنا چاہتاہے۔
مریض کے اس خیال کو کہ وہ ایک گھوڑے کو جنم دے گا، نفسیاتی معالج ایک فرضی آپریشن کے ذریعے انجام تک پہنچانا چاہتا ہے، کیوں کہ معالج کے مطابق حقیقتاً اسے وہم کی بیماری ہے۔معالج باپ سے کہتا ہے :
” کوئی مرض نہیں، صرف وہم، شدید وہم۔اب صرف ایک علاج ہے۔ان کا آپریشن کیا جائے اور ایک
گھوڑا لا کر سامنے کھڑا کر دیا جائے کہ واقعی یہ تمھارے پیٹ سے نکلا ہے۔پھر یہ مطمئن ہو جائیں گے۔۔۔”6؎
اس کردار کو اپنے پیٹ میں صرف گھوڑا ہی محسوس نہیں ہوتا بلکہ کیڑوں کی موجودگی کا احساس بھی ہے۔ ا یمی بیاسس کی بنیادی وجہ ہی پیٹ کے وہ کیڑے ہیں جو بڑی آنت میں پرورش پاتے ہیں۔ جیسا کہ میڈ لائن پلس ویب سائٹ پر درج ہے۔ 7؎
Amebiasis is an infection of the intestines. It is caused by the microscopic parasite Entamoeba histolytica.
کِشت“ کے معنی جہاں بادشاہ پر زد کے ہیں وہاں حیاتیاتی سطح پر کیڑوں کی بستی بھی ہے۔وہ امتحانی نلی جس میں زندہ خُلیوں کو غذائی محلول کی موجودگی میں اُگایا جاتا ہے۔اُسے یادآتا ہے کہ بچپن میں اُس کے پیٹ میں کیڑے تھے۔ اِن معنوں میں ”کِشت“ کی یہ حیا تیاتی توجیہہ پیش کی جا سکتی ہے۔
سگمنڈ فرائڈ کاا ستدلال یہ تھا کہ بچپن کے رویے انسانی شخصیت کی تعمیرکرتے ہیں۔مرکزی کردار کی شخصیت میں پایا جانے والا ذہنی دباؤ، پریشان خیالی اورذہنی انتشار اُس کے بچپن کے واقعات اور اُن رویوں کے ساتھ جڑا ہے جو اس نے ابتدائی عمر میں دیکھے اور سہے۔افسانے کی درج ذیل سطروں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُس نے کس قسم کے رویوں اور باتوں کا مشاہدہ کیا ہے۔
”میں کب کسی کے لیے کارآمد رہا ہوں۔میں نحس گھڑی، نحس تاریخ کی پیدائش،
ساری زندگی مجھے غم و آلام کا شکار رہنا ہے۔ (اماں تمھیں میرے وجود کے علاوہ ،
میری زبان سے بھی دکھ پہنچے ہیں اور تم بلک بلک کر روئی ہو، میری ماں ہونے کے با وجود)
اچانک وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھا۔۔۔ قمیص کا دامن اُٹھایا اور پھولتے، بڑھتے پیٹ کو سہلانے لگا۔” 8؎
خصوصاً والدین کا رویہ انسان کی شخصیت کی تعمیر یا تخریب میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ہمارے معاشرے میں کسی انسان کو منحوس کہنا یا سمجھنا ایک عام رویہ ہے۔مذکورہ بالا جملے اسی رویے کے عکّاس ہیں۔یہ اور اسی قسم کے رویے انسان کو نفسیاتی سطح پر ایک مستقل اُلجھن اور ڈپریشن میں مبتلا کرنے کے میں نہایت اہم ہوتے ہیں۔ ایسے رویے، جنھیں برداشت کرتے ہوئے بچّہ بلوغت کی عمر میں پہنچتا ہے، اُس کے شعور کے ساتھ ساتھ لاشعور کا حصّہ بن کر اُس کے وجود میں سرایت کر جاتے ہیں۔ افسانہ نگار نے مریض کے ماضی کی نفسیاتی اُلجھن دور کرنے کے لیے تحلیلِ نفسی کے نظریے کا استعمال بھی کیا ہے۔
افسانہ ”اسپ کشت مات“ کی تکنیک میں نفسیاتی نظر یات کے تحت، شعور کی رو نظر آتی ہے۔ جس میں بے جوڑ باتوں کا ایک طویل سلسلہ واضح محسوس کیا جا سکتا ہے۔مرکزی کردار کی سوچ دفتری کاموں، گھریلو ذمہ داریوں، بچپن کی محرومیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی تکلیف اور مختلف جسمانی،ذہنی و نفسیاتی کیفیات کے بے ربط سلسلے ہیں۔شعور کی ر و کے ذریعے ہی مرکزی کردار کی خود کلامی ہمارے سامنے آتی ہے۔ نفسیاتی نقطہ نظر سے شعور کی رو ایک ایسا استعاراتی بیانیہ ہے جس میں احساسات، تاثرات، تخیل، سوچ اور یادوں کو شعوری سطح پربیان کیا جاتا ہے۔
نفسیات،جدیدیت اور تجریدیت کا بیان در اصل علامتوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ نفسیات میں لاشعور کا تصور ہی تجریدیت کو جنم دیتا ہے۔ زیرِ بحث افسانہ جو کہ تجریدی افسانہ ہے۔ اس کا رابطہ نفسیات اور جدیدیت دونوں سے ہے۔تجریدی رجحانات بھی نفسیات اور جدیدیت کے زیرِ اثر ہی سامنے آئے۔ تجریدیت کی نمایاں خصوصیات اس افسانے میں دکھائی دیتی ہیں۔افسانے میں حالات و واقعات کا کوئی سلسلہ دکھائی نہیں دیتا۔ مکالمہ بھی اچانک شروع ہو کراچانک ہی ختم ہو جاتا ہے۔ افسانے میں وحدتِ تا ثر کا احساس بھی نہیں ہے۔
افسانے میں جہاں ہمیں جدیدیت کا اثر دکھائی دیتا ہے جس کے نتیجے میں بے حس رویوں نے مرکزی کردار کونہ صرف احساسِ تنہائی کا شکار بنایاہے بلکہ ذہنی تناؤ اور ذہنی دباؤ میں بھی مبتلا کیاہے، وہیں ہمیں سماجی نفسیات کے پہلوؤں میں توہم پرستی کا عُنصر بھی نظر آتا ہے۔ پیاس نہ بجھنے کا احساس اور آسیب کا اثر سمجھتے ہوئے،والدہ کی طرف سے ایک روایتی اندازِ نظر اور تعویذوں سے علاج کی کوشش، دم کرنا، یہ سب ایک عمومی سماجی نفسیات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اختتامی فقرے قاری کو ایک تحیر میں مبتلا کردیتے ہیں۔
”آپریشن ٹیبل پر اس کا لہو لہان پیٹ کھلا ہوا تھا اور خون میں سرخ تر بتر ایک توانا گھوڑے کا لمبوترا سر اس کے پیٹ میں سے جھانک رہا تھا۔”
اس غیر متوقع ، تجریدی رنگ کے انجام کے بارے میں نیر مسعود لکھتے ہیں:
” قمر احسن نے طبّی، نفسیاتی، سماجی اور آسیبی عناصر کو اس طرح خلط ملط کیا ہے کہ اسے کسی ایک
خانے میں رکھنا مشکل ہے۔اپنی مجموعی ہیئت اور فوری تاثر کے لحاظ سے یہ ایلفرڈ ہچکاک کے کسی
انتخاب میں سے نکلا ہوا افسانہ معلوم ہوتا ہے۔اس لیے کہ اس کے آخری فقرے جو تحیّر پیدا کرتے
ہیں وہ خالص فوق الفطری اور تخیلاتی افسانوں کے انداز کا ہے۔” 9؎
عنوان میں شامل ”مات“ کا لفظ افسانے کے آخر میں اپنا بھرپور اظہار کرتا ہے۔اس کے معنی اور مترادفات جوپہلے بیان کیے گئے ہیں وہ سب کے سب یہاں صادق آتے ہیں۔ مات لفظ کا ایک مترادف، ماں یا مادر بھی ہے۔(ہندی زبان میں ماتا کا مخفف مات ہے، مات پت)
”اسپ کِشت مات“یہ ایک ایسی ہار ہے کو ظاہر کرتا ہے جس میں حیرانی ہی نہیں پریشانی بھی ہے۔ جس میں زندگی سے مقابلہ کرتے ہوئے تھک جانے کا اظہار بھی ہے اور بے رنگی بھی۔ جس کے اختتام میں ایک اُلجھن بھی پوشیدہ ہے۔اختتامی منظر میں پیٹ سے جھانکتا ہوا گھوڑے کا سر ”کشت مات“ کے اُس خانے کا مکمل اظہار ہے جہاں شاہ مات کھا جاتا ہے۔
بنیادی طور پر علامتی جھلک دکھاتا ہوا یہ تجریدی افسانہ، شطرنج کی ایک بساط کی مانند زندگی کی بازی میں ہار، جیت کے پہلو نمایاں کرتے کرتے انجام تک آ کر اچانک سائنس فکشن کا احساس بھی دِلا تا ہے۔
حوالہ جات
- http://urdulughat.info/words/7828-%DA%A9%D8%B4%D8%AA
- http://urdulughat.info/words/7828-%DA%A9%D8%B4%D8%AA
3۔وارث سر ہندی، ”علمی اُردو لغت“ لاہور: علمی کتاب خانہ اُردو بازار، ۵۱۰۲ء ص، ۹۱۳۱
- http://urdulughat.info/words/9127-%D9%85%D8%A7%D8%AA
- https://www.mayoclinic.org/diseases-conditions/irritable-bowel-syndrome
/symptoms-causes/syc-20360016
5۔ قمر احسن ، ” اسپ کشت مات” مشمولہ ” شیر آہو خانہ ” مرتبہ ، سید محمود نقوی، دہلی: نشاط پبلی کیشنز ، اشاعت اول، 1991،ص، 34،35
۔ ایضاً، ص، 366
8۔ قمر احسن ، ” اسپ کشت مات” مشمولہ ” شیر آہو خانہ ” مرتبہ ، سید محمود نقوی، دہلی: نشاط پبلی کیشنز ، اشاعت اول، 1991، ص ، 33
9۔ نیر مسعود، ” قمر احسن ” مشمولہ ” شیر آہو خانہ” ” مرتبہ ، سید محمود نقوی، دہلی: نشاط پبلی کیشنز ، اشاعت اول، 1991، ص، 11
ماخذ
1۔ قمر احسن ، ” اسپ کشت مات” مشمولہ ” شیر آہو خانہ ” مرتبہ ، سید محمود نقوی، دہلی: نشاط پبلی کیشنز ، اشاعت اول، 1991،
2۔وارث سر ہندی، ”علمی اُردو لغت“ لاہور: علمی کتاب خانہ اُردو بازار، ۵۱۰۲ء ص، ۹۱۳۱
- 3. https://www.mayoclinic.org/diseases-conditions/irritable-bowel-syndrome
/symptoms-causes/syc-20360016
- https://medlineplus.gov/ency/article/000298.htm#:~:text=Amebiasis%20is%20 5.https://www.urduinc.com/english-dictionary/%D9%85%D8%A7%D8%AA-meaning-in-urdu
6 .http://urdulughat.info/words/7828-%DA%A9%D8%B4%D8%AA
7 .https://www.urduinc.com/english-dictionary/%D8%A7%D8%B3%D9%BE-meaning-in-urdu
ڈاک کا پتہ
کرن اسلم، مکان نمبر 151/150، اربن ولاز، ہربنس پورہ روڈ، لاہور ، پاکستان
واٹس ایپ نمبر: 092-3214676406