ڈاکٹر تحسین فراقی پاکستا ن
اُردو بہ حیثیت اعلیٰ ذریعۂ تعلیم
ایک ایسے وقت میں جب اس انسانی سیارے پر زبانوں کا تیزی سے قتلِ عام ہو رہا ہو، کسی زبان میں تعلیم یا اعلیٰ تعلیم کے مسئلے پر گفتگو بظاہر بے محل معلوم ہوتی ہے۔ معروف معاہرِ لسانیات سکٹنیب کینگاس (Skutnabb-Kangas) نے اس قتل کی مختلف صورتیں اپنی مشہور کتاب “Linguistic Genocide in Education (2000) میں بیان کی ہیں۔ اول جسمانی قتل جیسا تسمانیہ۱؎، آسٹریلیا اور براعظم امریکہ میں قدیم باشندوں اور سرخ ہندیوں کا قتل، دوم لسانی قتل، سوم اس امر کا اہتمام کہ زبانیں نظر ہی نہ آنے دی جائیں یعنی انھیں بولی یا ورنیکلر قرار دے دینا۔ زبان بولنے والوں کو نظرانداز کر کے اُس زبان کو مرنے دینا یا یہ لیبل لگا دینا کہ کسی آبادی کا فلاں گروہ تو ایک پیشگی شرط یعنی زبان کے رکھنے کی شرط پوری کرتا ہے (لینگویج رکھتا ہے) جبکہ فلاں کے پاس زبان نہیں۔ لہٰذا اس گروہ کو اقلیت قرار دے کر اس کی زبان کُشی کی طرف پیش قدمی۲؎۔ کینگاس کہتی ہیں کہ آج کی زبانیں ماضی کے مقابلے میں تیزی سے منہدم کی جا رہی ہیں، لسانی تکثیریت سرعت سے ختم ہو رہی ہے اور اس کے ذمہ دار، علاوہ اور اسباب کے، رسمی تعلیم اور ذرائع ابلاغ بھی ہیں، ان کا موقف ہے کہ کثرت کے ذریعے وحدت تک رسائی ہونی چاہیے چنانچہ وہ پلوری کلچرل، ملٹائی ایتھنک اور کثیر الثقافتی معاشروں کے حق میں آواز بلند کرتی ہیں (رک، کتاب مذکور، ص ۶) لسانی نسل کشی کی یہ افسوسناک صورتِ حال اپنی جگہ لیکن بات وہی ہے جو بیسویں صدی کے ایک حقیقت پسند شاعر نے کہی تھی اور بڑے حیات افروز لہجے میں کہی تھی: یہ جانتا ہے کہ بجلی جلا کے رکھ دے گی بنانے والا مگر آشیاں بناتا ہے بڑی اور عالمی زبان اُردو بھی دُنیا بھر میں آشیانوں پر آشیانے تعمیر کرتی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ واشنگٹن یونیورسٹی کے سڈنی کابرٹ نے ۱۹۹۲ء میں ٹورانٹو اسٹار میں اُردو زبان کو دُنیا کی دوسری بڑی زبان قرار دیا تھا اور اس کی تصدیق متعدد دیگر ذرائع سے بھی ہوتی ہے۳؎۔ اُردو سمجھوتے، رابطے، ارتباط اور انجذاب کی زبان ہے۔ تصادم اور تزاحم نیک خصال اور فرخندہ فال اُردُو کے خمیر ہی میں نہیں۔ اس بے مثل زبان نے طبع حسرت کی طرح ہر کونے قریے سے فیض اُٹھایا ہے اور ہر خرمن سے خوشہ چینی کی ہے۔ یہ زبان علامتِ وصل ہے،وسیلۂ فصل نہیں۔ اُردو کی حیرت انگیز قوّتِ جاذبہ ہر جگہ، ہر ہاٹ بازار اور ہر قریے قصبے کے اثرات بڑے حسن اور فنکارانہ سلیقے کے ساتھ سمیٹتی رہی ہے۔ محمد حسین آزاد کا یہ قول کس قدر درست ہے:
’’جو کچھ اس (زبان) میں ہوا کسی کی تحریک یا ارادے سے نہیں ہوا بلکہ زبانِ مذکور کی طبیعت ایسی ملنسار واقع ہوئی ہے کہ ہر زبان سے مِل جُل جاتی ہے۔
سنسکرت آئی اس سے مل گئی، عربی فارسی آئی، اس سے بسم اللہ خیر مقدم کہا۔ اب انگریزی الفاظ کو اس طرح جگہ دے رہی ہے گویا اس کے انتظار میں بیٹھی تھی۴؎۔
اگر اُردو کے نشود ارتقا کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو سترہویں صدی کے وسط تک اُردو پورے برعظیم میں رابطے کی زبان کا درجہ اختیار کر چکی تھی۔ اس کے رابطے کی زبان ہونے کے حق میں یوں تو بے شمار اہلِ علم نے اپنی رائے دی ہے مگر میں کسی مسلمان دانشور کے بجائے ایک ہندو بنگالی فاضل کی رائے درج کرنا چاہتا ہوں جس نے بیسویں صدی کے پہلے دہے میں اُردو کو ہندوستان کی قومی زبان قرار دیا تھا۔ میری مراد معروف ہندو عالم نشی کانت چٹوپا دھیا سے ہے۔ اُنھوں نے کہا تھا: ’’دیسی زبانوں کی کوئی انتہا نہیں۔ حقیقت میں یہاں کثیر التعداد زبانیں تھیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی فضیلت کے لیے کوشاں تھی۔ اس لیے یہ سوال پیدا ہوا کہ یہاں ایک بھی ایسی زبان موجود نہیں جو اپنی قدیم تاریخ، اپنی لسانی کیفیت اور عملی صورت اور لوچدار ہونے کی وجہ سے اور زبانوں کے مقابلے میں لنگوافرینکا، نیز قومی زبان بننے کے قابل سمجھی جا سکے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں۔ پہلے ہی سے ایک زبان موجود ہے جس کی نشوونما صدیوں سے ہوتی آرہی ہے اور اس کا نام اُردو یا ہندوستانی ہے… مجھے یقین ہے کہ ہندوستان کے مقتدر شہروں دہلی، آگرہ، لاہور، ملتان، احمد آباد، حیدر آباد دکن اور بنگال کے ڈھاکہ اور مرشد آباد میں اُردوئے معلّٰی کا وجود تھا اور اب بھی ہے۔ انگریزی کی طرح یہ زبان بھی مخلوط اور لوچدار اور ہندو اور اسلامی عنصر سے مرکب ہے یعنی اس میں ہندی، سنسکرت اور فارسی، عربی بلکہ ترکی الفاظ تک شامل ہیں۔ یہ پہلے ہی ایک طرح ’لنگوافرینکا‘ بنی ہوئی ہے اور مختلف شکل و صورت میں تمام ہند میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور اس کے بولنے اور جاننے والے تمام موجودہ زبانوں سے شمار میں زیادہ ہیں۵؎۔‘‘ پورے برعظیم میں اُردو کو وہ ہمہ گیری اور جامعیت حاصل ہے جو کسی علاقائی زبان کو میسر تھی نہ ہے۔ دراصل اُردو ابتدا ہی سے صوفیوں اور درویشوں کی گود میں پل کر جوان ہوئی، اس لیے ایسی زبان طبقہ بندی اور جتھہ سازی کے بجائے وحدت اور وصل ہی کے آفاقی اُصول کی علمبردار ہو سکتی تھی۔ سچا صوفی وحدت اور اتحاد کا داعی ہوتا ہے اور طبقاتی اور لسانی کثرت پرستی کی اس کے نظامِ محبت میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اُردو بھی اسی وحدت پرستی کی مظہر ہے۔ اور اسی وحدت پرستی اور بے مثال انجذاب کی صلاحیت نے اس کا دامن اس قدر وسیع کر دیا ہے کہ اس میں ابتدائی اور ثانوی ہی نہیں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی بھی غیرمعمولی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ برعظیم کے موجودہ وسیع اور متنوع لسانی منظرنامے میں اگر کوئی زبان قومی زبان کہلانے کی مستحق ہے اور ابتدائی، وسطانی، ثانوی، اعلیٰ ثانوی، گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی سطح پر ذریعۂ تعلیم بننے کی اہل ہے تو وہ سوائے اُردو کے کوئی دوسری زبان ہو نہیں سکتی۔ اس کی ہمہ گیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکا ہے کہ وہ پشاور سے پٹنہ تک اور کراچی اور کوئٹہ سے دکن تک ہی نہیں بولی اور سمجھی جاتی بلکہ برعظیم کے حدود سے نکل کر اب یہ امارات، افریقہ، انگلستان، بحرِہند کے جزیرہ ماریشس اور دُنیا کے بعض دیگر علاقوں میں بھی خاصی تعداد میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ڈھاکہ، چاٹگام، دہلی، لکھنؤ، حیدر آباد، رامپور سے لاہور، اکوڑہ خٹک تک کے دینی مدارس میں یہ واحد ذریعۂ تعلیم کے طور پر رائج رہی ہے اور اب بھی ہے۔ امارت کے اخبارات آج اُردو کو تناسبِ آبادی کے اعتبار سے وہاں کی پہلی زبان قرار دے رہے ہیں۔ اس زبان میں تصوف، علم کلام، فلسفہ، عرفانیات، سماجی اور سائنسی علوم کا قابلِ قدر ذخیرہ موجودہ ہے۔ کسی بھی زبان کو انسانی علوم اور سائنس کی ترویج کے لیے بطور ذریعۂ تعلیم اپنانے کے لیے چند شرائط کا پورا کرنا ضروری ہے۔ یہ شرائط درج ذیل ہیں: ۱) اس زبان کو صرف شعری نہیں علمی زبان بھی ہونا چاہیے۔ ۲) اس زبان میں حوالہ جاتی کتاب کا وافر ذخیرہ ہونا چاہیے یعنی مختلف علوم کے لغات، انسائیکلوپیڈیا اور اُس زبان کے مستند اور کثیر جلدوں پر مبنی لغات و فرہنگ۔ ۳) اس زبان میں قوتِ اخذ و جذب غیر معمولی ہونی چاہیے۔ ۴) اس میں متعدد دارالترجمہ ہونے چاہییں اور زبان کی ترویج، ابلاغ اور ارتقا کے لیے علمی ادارے ہونے چاہییں۔ ۵) اس زبان میں سائنسی، تکنیکی، قانونی، طبّی اور انسانی علوم پڑھانے کی ایک محکم روایت موجود ہو۔ ۶) اس میں مناسب حد تک کتب اصطلاحات موجود ہوں۔ ۷) اس زبان میں مختلف زبانوں سے کیے گئے تراجم کا غیرمعمولی ذخیرہ ہونا چاہیے۔ ان شرائط کی روشنی میں جب ہم اُردو زبان کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ برعظیم کی زبانوں میں یہی زبان ان تمام شرائط کو کماحقہ ٗ پورا کرتی ہے۔ اُردو واقعتہً ایک علمی زبان ہے۔ ہر زبان کی طرح اس کا آغاز بھی شاعری سے ہوا مگر گذشتہ کئی صدیوں سے اس نے رفتہ رفتہ ایک علمی زبان کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ کیا یہ بات باعثِ حیرت نہیں کہ سولھویں صدی میں سائنس کے موضوع پر اُردو میں اولین کتاب شہاب الدین قریشی بیدری نے ’’بھوگ بل‘‘ کے نام سے لکھی۔ اس طویل مثنوی کا ایک حصہ جنسیات پر اور دوسرا حصہ طب پر مشتمل ہے۔ اس مثنوی کا ایک مخطوطہ سالار جنگ میوزیم میں محفوظ ہے۶؎۔ انیسویں صدی کے اوائل میں اُردو میں بہت سے سائنسی علوم کی تدریس اور ترجمے کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس ضمن میں دلی کالج ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں: ’’اس (کالج) میں تمام جدید علوم و فنون کی تعلیم اُردو کے ذریعے سے دی جاتی تھی۔ ابتدا میں ان کے پاس بھی اُردو میں علمی کتابیں نہ تھیں۔ استاد انگریزی کتاب کے مطالب اُردو میں بیان کرتا اور شاگرد یادداشتیں لکھ لیتے۔ بعد میں مستعد طلبہ اور اساتذہ نے باہمی تعاون سے تقریباً سوا سو کتابیں ترجمہ اور تالیف کیں۔ اُس وقت کے ماہرانِ تعلیم اور افسرانِ سررشتۂ تعلیم نے اس طریقۂ تعلیم کو بہت سراہا۔‘‘۷؎ دلّی کالج میں عربی فارسی کے علاوہ سائنس کی تدریس بھی ہوتی تھی۔ مولوی عبدالحق ہی کے بقول ’’ماسٹر رام چندر اور دیگر اساتذہ کی قابلانہ درس و تدریس سے طلبہ ایسے ہوشیار ہو گئے تھے کہ وہ ریاضی، نیچرل فلاسفی اور تاریخ وغیرہ میں انگریزی کے طلبہ کو نیچا دکھلانے لگے تھے اور مقابلے کے امتحان میں بازی لے جاتے تھے۔‘‘۸؎ چونکہ دلّی کالج میں اعلیٰ علوم کی تدریس کے لیے کتابیں نہیں تھیں لہٰذا ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ انجمن نے انگریزی سے اُردو میں ترجمے کے لیے چند قواعد بھی وضع کیے تھے جن سے آج بھی روشنی حاصل کی جا سکتی ہے اور ایک حد تک کی بھی گئی ہے: ۱) جب سائنس کا کوئی ایسا لفظ آئے جس کا مترادف اُردو میں نہیں تو ایسے لفظ کو بجنسہٖ اُردو میں لے لینے میں کوئی ہرج نہیں مثلاً سوڈیم، پوٹاسیم، کلورین وغیرہ۔ ۲) اگر لفظ مرکب ہے اور ہر دو لفظ انگریزی میں ہیں اور دونوں میں سے کسی کا مترادف اُردو میں نہیں تو وہ لفظ بجنسہٖ اُردو میں منتقل کر لیا جائے مثلاً ہائیڈروکلورک۔ ۳) اگر لفظ مرکب ہے اور اُردو میں اس کا مترادف نہیں مگر الگ الگ لفظ کے مترادف اُردو میں موجود ہیں تو یا تو ان دونو لفظوں کو ملا کر یا کسی دوسرے مساوی مفہوم کے الفاظ میں ترجمہ کر لیا جائے مثلاً کرانولوجی کا ترجمہ علمِ زماں، ہائوس آف لارڈز ’’کچہری امیروں کی‘‘۔ ۴) مترجم کو لفظ بہ لفظ ترجمے میں کبھی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ حضراتِ گرامی! سوسائٹی نے جن تراجم اور تالیفات کا اہتمام کیا، ان کی فہرست پر ایک سرسری نظر ڈالنے ہی سے اندازہو جاتا ہے کہ ان میں کس قدر تنوع تھا۔ تنہا ترجموں کے ضمن میں الجبرا، اصول علم ہیئت، رسالہ کیمسٹری، قانونِ مال، پولییٹکل اکانومی، سمتھ کی جذباتِ اخلاقی، ایبر کرامبی کا فلسفۂ ذہن، تاریخِ چارلس، جغرافیہ طبعی، طبعی نباتیات، حفظانِ صحت، مساحت، طبیعیات، علم المناظر، حرارت، رسالۂ علمِ برق، گالون ازم۹؎ اور رسالہ علم حساب وغیرہ تراجم کے نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ دہلی کالج کے بعد اگلا قابلِ تعریف قدم رڑکی اور آگرے کے انجینئرنگ کالجوں نے اُٹھایا۔ ابتدائی برسوں کو چھوڑ کر بعد میں رڑکی کالج میں انجینئرنگ کی تعلیم اُردو میں دی جانے لگی تھی۔ اس کالج کی مطبوعات سائنسی علوم کی ترویج میں بہت معاون ہوئیں اور اس ضمن میں استعمال جرِثقیل، رسالہ دربابِ پیمائش، رسالہ دربابِ نجّاری، بیان لوکارِتم (Logarithm)۱۰؎ اور قواعدِ حساب وغیرہ جیسی ترجمہ شدہ کتب کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اُردو زبان کی ترویج و ترقی اور اس کو علمی زبان بنانے کے ضمن میں سرسیّد احمد خاں اور اُن کی سائنٹفک سوسائٹی کی خدمات بھی نہایت قابلِ تعریف ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر اصغر عباس کی کتاب ’’سرسیّد کی سائنٹفک سوسائٹی‘‘۱۱؎ کا مطالعہ بڑا چشم کشا ہے۔ اس سوسائٹی کی بنیاد ۹؍جنوری ۱۸۶۴ء کو غازی پور میں پڑی۔ اس کا مقصد صرف سائنسی علوم اور مفید صنعتی کمالات سے آگاہ کرانا ہی نہیں تھا بلکہ، جیسا کہ ڈاکٹر اصغر عباس نے لکھا ہے، سائنسی ذہن پیدا کرنا تھا۔ سوسائٹی کے قیام کے ساتھ ہی سرسیّد نے ’’یورپ سے بعض سائنسدان بلائے اور سائنسی آلات منگوائے۔ سوڈا واٹر کی بوتل، روئی اونٹنے کی مشین اور فوٹوگرافی کا کام ہندوستان میں سب سے پہلے اسی سوسائٹی نے شروع کیا۔‘‘۱۲؎ روایت ہے کہ اس سوسائٹی کے تحت کم و بیش سینتیس کتابیں اُردو میں ترجمہ ہوئیں مگر افسوس ہے کہ شائع شدہ کتب میں سے صرف چند کتابیں ہی دستیاب ہیں۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ سرسیّد کی ان مساعی کے نتیجے میں اُردو زبان ایک علمی زبان میں ڈھلی، ایجاز و استدلال اس کا طرئہ امتیاز بنا اور اس کے ذریعے علم کی روشنی پورے برعظیم میں پھیلی۔ سرسیّد نے تاریخ پر خصوصی توجہ مبذول کی تھی۔ لہٰذا اس سوسائٹی کے زیرِاہتمام تاریخِ مصر اور تاریخ چین و یونان و ہندوستان اور تاریخِ ایران ترجمہ ہو کر شائع ہوئیں۔ اُردو کے علمی زبان بنانے کی مساعی میں اگلا قدم اور شاید سب سے زیادہ انقلابی قدم دارالترجمہ حیدر آباد کا قیام تھا۔ اس دارالترجمہ نے نہایت لائق اور وسیع النظر علماء و ادبا سے مختلف انگریزی کتب کے اُردو تراجم کا کام لیا۔ صرف سائنس اور ریاضی کی کتب کی تعداد تین سو کے قریب تھی۔ مقتدرہ قومی زبان (پاکستان) کی طرف سے ۱۹۸۱ء میں ’’اُردو میں سائنسی ادب کا اشاریہ‘‘ نامی جو کتاب (ڈاکٹر ابواللیث صدیقی) شائع ہوئی، اس میں چودہ سو سے زائد کتب کا اندراج ملتا ہے۔ تنہا جو سائنسی کتب اُردو میں ترجمہ کی گئیں ان کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے۔ ابواللیث صاحب کی مرتبہ فہرست میں طب، دواسازی، علاجِ حیوانات، جراحی، بایوکیمک، ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی اور مفرد ادویات کی کتب کے علاوہ جینیات اور سرطان تک پر کتب درج ہیں نیز علمِ تشریح یعنی اناٹومی، علم الولادت، ضبطِ تولید، زراعت، آلاتِ زراعت، فنِ باغبانی، تعمیرات، ہائیڈرالک انجینئرنگ، مکینیکل انجینئرنگ، ورکشاپ انجینئرنگ، برقی انجینئرنگ، مواصلات، اور فوجی انجینئرنگ سے لے کر ریڈیو، ٹیلی ویژن، ٹیلی گراف اور وائرلیس وغیرہ پر مبنی کتب کا اندراج ملتا ہے۔ اب تو اُردو میں کمپیوٹر اور اس کے متعلقات پر بھی کتب کی اچھی خاصی تعداد وجو د میں آ چکی ہے۔ جہاں تک اُردو میں کتبِ حوالہ کا تعلق ہے، یہ زبان اس پہلو سے بھی برعظیم کی علاقائی زبانوں پر برتری رکھتی ہے۔ اس زبان میں لائیڈن انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کو بنیاد بنا کر چوبیس جلدوں پر مشتمل اُردو دائرئہ معارفِ اسلامیہ شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد دائرۃ المعارف اُردو میں موجود ہیں۔ اُردو زبان میں متعدد لغت شائع ہو چکے ہیں جن میں فرہنگِ آصفیہ، نور اللغات، جامع اللغات، مہذب اللغات اور اُردو ڈکشنری بورڈ کراچی کا اُردو لغت بھی شامل ہیں جو تاریخی اُصول کی بنیاد پر آکسفورڈ کی بیس جلدی لغتِ کبیر کے نمونے پر شائع ہوا۔ اس کی بائیس جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور اس میں تیار اسناد کا کارپس اس وقت تک اُردو کا سب سے بڑا کارپس ہے جس کو کمپیوٹر پر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جرمن اُردو، ہندی اُردو، سنسکرت اُردو، فارسی اُردو اور انگریزی اُردو اور اُردو انگریزی وغیرہ کے متعدد لغت شائع ہو چکے ہیں۔ فرہنگ فسانۂ آزاد، فرہنگ طلسم ہوشربا، فرہنگ انیس، فرہنگ ذوق، فرہنگ نظیر اور فرہنگ شفیق اس پر مستزاد ہیں۔ فرہنگ امیر مینائی کی تیسری جلد بھی ۲۰۱۰ء میں لاہور سے شائع ہو چکی ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر تنزیل الرحمن کی متعدد جلدوں پر مشتمل تالیف ’’مجموعہ قوانینِ اسلام‘‘، عطش درّانی کی مرتبہ ’’کتابیاتِ قانون‘‘ اور مرزا حامد بیگ کی مرتبہ کتابیاتِ تراجم کے مطالعے سے اُردو کے رقبے کی حیران کُن وسعت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اُردو زبان کی ترقی و ترویج کے لیے برعظیم میں متعدد ادارے وجود میں آ چکے ہیں جن میں انجمن ترقی اُردو ہند و پاکستان، مجلس ترقی ادب، مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی، مقتدرہ قومی زبان، شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کراچی یونیورسٹی، شعبۂ تالیف و ترجمہ پنجاب یونیورسٹی، اکادمی ادبیات، ادارئہ ثقافتِ اسلامیہ، مجلس زبان دفتری، اقبال اکادمی، بزمِ اقبال، اُردو سائنس بورڈ، اُردو ڈکشنری بورڈ اور متعدد دیگر علمی ادارے شامل ہیں۔ ہندوستان میں قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان، ترقی اُردو بیورو، اُترپردیش اکیڈمی، بہار اُردو اکیڈمی اور دیگر بہت سے ادارے اُردو کی ترویج و اشاعت کے لیے سرگرم ہیں۔ جہاں تک اُردو زبان میں علمی اصطلاحات کا تعلق ہے اس باب میں پاکستان و ہندوستان میں خاصا کام ہوا ہے۔ ترقی اُردو بیورو دہلی، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد اور کئی دوسرے علمی اداروں نے اصطلاحات پر مبنی کتب شائع کی ہیں۔ صرف مقتدرہ قومی زبان نے قانون، فنیات، مساحت، موسمیات، ریاضی، ڈرامہ، بیمہ کاری، کتب خانہ، اسماء العلوم، برقیات، ارضیات، فلسفہ، طب، حیوانات، سیاسیات، کیمیا، تجلید، نفسیات، تعلیم اور کئی دوسرے علوم پر جو متعدد کتب اصطلاحات شائع کی ہیں ان کی داد نہ دینا ظلم ہوگا۔ مقتدرہ ہی کی جانب سے جامعہ عثمانیہ کی قابلِ قدر مطبوعات سے ماخوذ علمی اصطلاحات کا مجموعہ دو جلدوںمیں ’’فرہنگِ اصطلاحاتِ جامعہ عثمانیہ‘‘ کے زیرِعنوان شائع ہو چکا ہے۔ اگر ۱۹۴۸ء میں حیدر آباد سیاسی یورش و یلغار کا شکار نہ ہوتا تو اب تک اُردو زبان ترقی و ترویج کے اور کئی سنگ ہائے میل طے کر چکی ہوتی۔ اُردو میں علمی اصطلاحات میں یکسانیت نہ ہونے کی شکایت بجا طور پر موجود رہی ہے۔ اس عدم یکسانیت کو دُور کرنے کے لیے مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد نے اس کی معیار بندی کا کام بڑی سرگرمی سے شروع کر دیا تھا مگر میری معلومات کی حد تک ان دنوں یہ کام تعطل کا شکار ہے۔ بے محل نہ ہوگا اگر ترقی اُردو بیورو دہلی، شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کراچی یونیورسٹی اور مقتدرہ قومی زبان کی شائع کردہ فرہنگ اصطلاحات فلسفہ، نفسیات اور تعلیم، فرہنگ اصطلاحاتِ عمرانیات اور مختصر اصطلاحات دفتری سے چند انگریزی اصطلاحات اور اُن کے اُردو متبادلات درج کر دیے جائیں۔ اس سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اُردو میں علمی اصطلاحات کو وضع کرنے کی کیسی غیرمعمولی اور متحیّر کن صلاحیت موجود ہے۔ (الف) فرہنگ اصطلاحات ۱۹۸۸ء ترقیِ اُردو بیورو دہلی قطعی قضیہ Categorical Proposition یک خلیہ عضویہ Protozoa معنیاتی تحویلیت Semantic Reductionism جنونِ پیری Senile Psychosis سست آموز Slow Learner سماجی باز رسانی Social Feedback تکرار معنی / مغالطۂ معنی Tautology (ب) فرہنگ اصطلاحاتِ عمرانیات ۱۹۷۰ء کراچی یونیورسٹی احتمالیت Categorical Proposition بدائیت Primitivism تقطیب Polarization تعقیم Sterilization عبوری منطقہ Transition Zone (ج) مختصر اصطلاحاتِ دفتر (۱۹۸۱ء) مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد بحیثیت عہدہ Ex Officio بطور رعایت Ex Gratia مفروض الاسم Pseudonymous تشریفات Protocol عارضی سند Provisional Certificate سفوف سازی Pulverization افسر صیغہ Section Officer حدِ سیری Saturation Point ریشہ دوانی Wire-Pulling تقدیم فائق Top Priority اصطلاحات کے باب میں یہاں یہ کہنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جن اصطلاحات کا اردو میں کوئی متبادل فراہم نہیں ہو پاتا ان کو بجنسہٖ قبول کر لینے میں کوئی ہرج نہیں۔ مزید یہ کہ سائنسی علوم اگر بذریعہ قومی زبان پڑھائے جائیں تو کتبِ نصاب میں اُردو اصطلاحات کے دوش بدوش اصل اصطلاحات (انگریزی، فرانسیسی، جرمن وغیرہ) کو بھی قوسین میں درج کرنا ضروری ہے تاکہ بین الاقوامی علمی اصطلاحات سے طلبہ کا رشتہ قائم رہے۔ رہا وضعِ اصطلاحات کا مسئلہ تو یہ ماہرِ علم اور ماہرِ لسانیات کے حسین امتزاج سے بخوبی حل ہو سکتا ہے۔ جہاں تک اس اندیشے کا تعلق ہے کہ سائنسی علوم میں اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنا لینے کے نتیجے میں بین الاقوامی دُنیا سے ہمارا رشتہ منقطع ہو جائے گا تو یہ اندیشہ ایک حد تک درست ہونے کے باوجود دُور کیا جا سکتا ہے۔ جاپان، چین اور دُنیا کے متعدد ممالک میں متعدد دارالتراجم قائم ہیں جو سائنسی اور علومِ انسانی پر مبنی کتب کو نہایت برق رفتاری کے ساتھ اپنی زبانوں میں منتقل کرتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں ایران بھی مذکورہ ممالک کا ہمدوش ہے۔ اس باب میں اصل کتب سے فوری استفادے کی غرض سے ان کتب کے ملخص ترجمے بھی قومی زبان میں شائع کیے جا سکتے ہیں۔ اُردو کو اعلیٰ سطح پر ذریعۂ تعلیم بنانے میں عملی دقتیں ضرور موجود ہیں، لیکن اس زندہ حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ جب تک اس عمل کا خلوصِ نیت، تندہی اور حکمت و دلسوزی کے ساتھ آغاز نہیں ہو جاتا، ہم احساسِ کمتری میں مبتلا اور احساسِ محرومی کا شکار رہیں گے اور ہماری قومی تخلیق کے سوتے رفتہ رفتہ خشک ہوتے جائیں گے۔ زبانِ غیر پر اوّل تو کامل عبور ممکن ہی نہیں اور اگر ہو بھی تو شرحِ آرزو ممکن نہیں ہوتی۔ آتش کے اس شعر کو ذرا بدیسی زبان کے تناظر میں دیکھیے: پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے ادھر ہم ہیں کہ ہم پر سات سمندر پار سے آئی بدیسی زبان کا جادو اس طرح چل چکا ہے کہ ہم اس کے بغیر لقمہ توڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ انگریزی زبان کا استعمار ہماری تہذیبی و تخلیقی توانائیوں کو تیزی سے چرتا جا رہا ہے اور اب تو یہ زبان نہایت سرعت سے نہ صرف پوری دُنیا کی لنگوا فرینکا بنتی جا رہی ہے بلکہ لنگوا بیلیکا اور لنگوا اکیڈیمیکا بھی۔ اوپر سے کمپیوٹر کے ذریعے چیٹنگ رومن اُردو میں ہو رہی ہے۔ اُردو کے بجائے اردش ظہور میں آ رہی ہے۔ اسے کاش ہماری خودی بیدار ہوتی اور ہم اپنے تہذیبی اوضاع پر، جس میں رسم الخط اُردو زبان ایک زندہ اور توانا عنصر کی حیثیت رکھتی ہے، فخر کرنا سیکھتے۔ مجھے ایران میں تین برس رہنے کا اتفاق ہوا۔ اہلِ ایران کے قومی اور لسانی تفاخر کو ایک لمحے کے لیے گوارا نہیں کہ وہ زبانِ غیر کا سہارا لیں۔ اُنھوں نے غیرملکی علمی ذخائر اور غیرملکی الفاظ و اصطلاحات کو جس خوبی سے اپنی زبان میں ڈھالا ہے اس کی داد دیے بغیر چارہ نہیں۔ کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے؟ کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم احساسِ کہتری کے لبادے کو اُتار پھینکیں اور اقبال کے اس شعر کو حرزِ جاں بنا لیں: کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے اُردو کو بہ طور ذریعۂ تعلیم اختیار نہ کرنے کے حق میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اُردو میں متعلقہ کتب کی مطلوبہ مقدار اور معیار فراہم نہیں۔ یہ دلیل بہت چوب پا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ایک دفعہ اُردو کو اخلاص کے ساتھ ذریعۂ تعلیم کے طور پر اپنا لیا گیا تو رفتہ رفتہ اس کی مطلوبہ ارفع معیار تک رسائی بھی ممکن ہو جائے گی۔ دُنیا کی کوئی علمی یا متمدن زبان ایک دن میں تمدن اور ارتقا کی منزل سے ہمکنار نہیں ہو گئی۔ روم ایک دن میں تعمیر نہیں ہوا تھا۔ یہ سارا عمل تدریج کا ہے اور اس کا گہرا تعلق مستقل مزاجی اور حسنِ نیت سے ہے اور حسنِ نیت سے نہ صرف نعمت ملتی ہے بلکہ اس کا تسلسل بھی برقرار رہتا ہے۔ اگر اُردو کو اس کا جائز علمی مقام دینے میں سست روی، حیلہ تراشی اور مدعا طلبی سے کام نہ لیا جاتا تو اب تک یہ زبان اپنے معراجِ کمال کو پہنچ کر عظیم ترین زبان بن چکی ہوتی۔ اپنے بے اندازہ اور غیرمعمولی علمی، فکری، ثقافتی، تمدنی اور لسانی سرمایے اور ذخیرے کی موجودگی میں یہ اب بھی خاصی بڑی علمی زبان ہے مگر سرکاری اور اعلیٰ تعلیمی ذریعے کی زبان بن جانے کے ساتھ ہی یہ ارتقا کی منزلیں اس سرعت سے طے کرے گی جس کا تصور سرِدست محال ہے۔ تدریج درجہ بدرجہ پیش قدمی کا نام ہے، قدم بہ قدم پسپائی کا نہیں۔ ۱۸۴۵ء میں لارڈ ہارڈنگ کے زمانے میں یہ حکم ہوا تھا کہ اب سے اعلیٰ ملازمتوں کے تمام امتحانات انگریزی میں ہوں گے۔ کم و بیش اکیس برس پہلے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے، جو ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اُس وقت کے وزیرِ تعلیم کی اس تجویز کو کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن مقابلے کے امتحانات اُردو میں بھی لیا کرے، کمیشن نے ردّ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُردو میں مطلوبہ لوازمے کی کمی ہے لہٰذا یہ امتحان اُردو میں نہیں لیے جا سکتے۔ یہ موقف صریحاً بدنیتی اور انگریزی استعمار دوستی پر مبنی تھا۔ یوں کمیشن نے پونے دو سو برس بعد بھی لارڈ ہارڈنگ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کی روح کو خوش و خرم کیا اور یہ ثابت کر دیا کہ ہمارے یہاں تاریخ کا سفر پیش قدمی کا نہیں پسپائی کا ہے۔ گویا تاریخ کا سفر ایک ایسی داستان کا سا ہو گیا جسے کوئی مخبوط الحواس اور مجہول الحال مجنوں بیان کر رہا ہو اور جو مفہوم و معنی، تعمیر و تسخیر اور تمکین و تسکین سے عاری ہو: “A tale told by an idiot, signifying nothing!” پاکستان کی حد تک یہ شکر کی جا اور مسرت کا موقع ہے کہ اس کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں بغیر کسی لگی لپٹی کے دو ٹوک انداز میں موجودہ حکومت کو پابند کر دیا ہے کہ وہ اپنا سارا کاروبارِ حکومت اُردو میں چلائے اور اس کا سروسامان تین ماہ کے اندر اندر کر لے ورنہ وہ توہینِ عدالت کی مرتکب ہوگی۔ گویا اُردو قومی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ اب سرکاری زبان کی حیثیت بھی اختیار کرنے والی ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو جلد ہی اُردو کو اعلیٰ تعلیم کی زبان کے طور پر بھی اپنا لیا جائے گا اور دانشگاہیں علم کی ترسیل ہی نہیں اس کی تولید بھی کرنے لگیں گی۔ اور ایسا کرنا دراصل اس تسلسل سے ہمکنار ہونے کے مترادف ہوگا جس کا مبارک آغاز دلی کالج، سائنٹفک سوسائٹی، ٹامسن انجینئرنگ کالج رڑکی اور دارالترجمہ حیدر آباد نے کیا تھا۔ حق یہ ہے کہ بڑی تہذیبیں تسلسل کی بھی مرہونِ منت ہوا کرتی ہیں۔ سرچشمے منقطع کر دیے جائیں تو دریا بھی سوکھ جاتے ہیں۔ درخت پھل دینے کے بجائے سوکھ جائیں تو ایندھن بن جاتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا کہ جس فرد یا قوم میں تخلیق، تعمیر اور تسخیر نہ ہو وہ میرے نزدیک کافر و زندیق ہے۔ عہدِ حاضر کی عالمگیریت کے پیدا کردہ شدید اور خوفناک آشوب کے بالمقابل وہی قومیں زندہ رہ سکیں گی جو اپنی خودی کے عرفان کی حامل ہوں گی، اپنے منفرد وجود پر اصرار کریں گی اور اپنے تہذیبی اوضاع پر استقلال اور احساسِ فخر کے ساتھ کاربند رہیں گی: اس دور میں سب مٹ جائیں گے، ہاں! باقی وہ رہ جائے گا جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکّا اپنی ہٹ کا ہے حواشی: ۱؎ جنوبی بحر الکاہل کا ایک جزیرہ۔ ۲؎ تفصیل کے لیے ر۔ ک کتابِ مذکور کے ص ۳۱۱-۳۲۶۔ ۳؎ تفصیل کے لیے ابوالفیض سحر کا مقالہ ’’اُردو کا عالمی فروغ…‘‘ مشمولہ اخبار اُردو، اسلام آباد، شمارہ جولائی-ستمبر ۲۰۰۱ء، ملاحظہ فرمایئے۔ ۴؎ آبِ حیات، ص ۲۱۔ ۵؎ خدابخش لائبریری جرنل، شمارہ ۷-۸، ص ۳۴۴-۳۴۵۔ ۶؎ سائنسی اور تکنیکی ادب (ڈاکٹر محمد شکیل خاں)، ص ۲۶، ۲۷۔ ۷؎ خطباتِ عبدالحق، ص ۳۶۶۔ ۸؎ مرحوم دہلی کالج، ص ۲۵، ۲۶۔ ۹؎ یعنی Galvanism۔ بجلی کے لیے مستعمل اب یہ اصطلاح متروک ہے۔ اس کا ایک مفہوم بجلی کے جھٹکوں کے ذریعے علاج بھی ہے۔ ۱۰؎ ضرب و تقسیم کو آسان بنانے کا علم۔ ۱۱؎ یہ کتاب اسی سال مجلس ترقیِ ادب نے بڑے اہتمام سے شائع کر دی ہے۔ ۱۲؎ حرفِ آغاز (سائنسی و تکنیکی ادب بحوالۂ سابقہ)، ص ۱۷۔ mmm