You are currently viewing “اُردو غزل میں چاند کا تصور بحوالہ” چندریان

“اُردو غزل میں چاند کا تصور بحوالہ” چندریان

محسن خالد محسنؔ

لیکچرار،شعبہ اُردو،گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور

mohsinkhalid53@gmail.com/923164342137

 

اُردو غزل میں چاند کا تصور بحوالہ چندریانIII

 

اُردو غزل میں چاند کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ چاند کو بطور شعری تشبیہ،استعارہ، کنایہ ،علامت، تمثیل اور جانے کن کن شعری تلازموں میں برتا گیا ہے۔اُردو شعرا نے چاند کو محبوب کے تصور کے لیے قریباً ایک سی صورت،ہیت اور مقصد کے لیے موضوع بنایا ہے۔

چاند کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے جس سے اس میں چمک پیدا ہوتی ہے اور اس کی روشنی زمین پر چھن چھن کر گرتی ہے اور دیکھنے والوں پر ایک رومان انگیز ہیجان پیدا کرتی ہے۔ اُردو شعرا نے چاند کی اس رومانی کیفیت کو سیکڑوں اشعار میں نت نئے انداز و انواع میں برتا اور اس لیے جُدا ،جُدا معنی بھی اخذ کئے جس کے مطالعے سے چاند سے متصل تصورات کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے۔

چاند کیا ہے اور اس کی ماہیت،حقیقت اور کاسمالوجی کے تناظر میں اس کی اہمیت کیا ہے؟اس کے بارے میں سائنس نے ہمیں بہت سود مند اور حیرت انگیز معلومات فراہم کیں ہیں جنھیں پڑھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ رب تعالیٰ نے نظامِ کائنات میں سیاروں اور ستاروں کے لامتناہی نظام میں کیا کچھ خلق کر رکھا ہے جن کی تخلیق میں ان کے خالق ہونے کی جملہ صفات کا ظہور برابر جھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

جب سے انسان نے اس کرۂ ارض پر قدم رکھا ہے تب سے وہ طرح طرح کے مشاہدات کرتا رہاہے۔کیوں کہ وہ قدرتی طور پر تجسس رکھتا تھا ،اس لئے اس نے اپنے اطراف میں رونما ہونے والے ہر واقعے اور گرد و پیش میں پائی جانے والی ہر چیز پر غور و فکر کیا اورہر چیز کا سبب تلاش کرنے کی کوشش کی۔بہت سے قدرتی واقعات جو اس کی عقل میں نہیں آتے تھے ان کے مطابق اس نے خود کہانیاں گڑھ لیںاورمفروضات اخذ کر لئے۔اس لئے دنیا کے مختلف ممالک اور مذہب میں بہت سے قصے کہانیاں اور توہمات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

انجئینر محمد عادل چاند کے تصوراتی پہلو اور اس کی سائنسی توجیح کے حوالے سے لکھتے ہیں۔

”ہندو مذہب کے شاستروں میں بھی بہت سی کہانیاں اسی کا نتیجہ ہیں۔ مثلاًان کا عقیدہ ہے کہ چاندگہن انسانوں کو طاقت اور توانائی دیتا ہے۔گہن کے وقت پوجا پاٹ کر کے اپنی شکتی بڑھائی جاسکتی ہے۔جادوگر اور تانترک اس وقت کالے جادو کا علم حاصل کرنے کے لئے کوششیں کرتے ہیں۔یونان کا ایک مشہور فلسفی ہیپوکریٹس (Hippocrates) جس کو جدید طب اور ادویات کا بانی تصور کیا جاتا ہے کہتا تھا کہ انسان کے پاگل پن کا تعلق چاند کی طاقت سے ہوتا ہے۔کئی دوسرے تصورات میں سورج کے متعلق بھی کہانیاں موجود ہیں۔Norse مائیتھالوجی میں چاند اور سورج کو بہن بھائی مانا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دونوں نے مل کر رات دن بنائے۔چین کی لوک کہانیوںمیں چاند کو دیوی تسلیم کیا گیا ہے جس نے اپنے شوہر سورج سے روشنی چوری کرکے خوبصورت شکل اختیار کر لی ہے ۔“(https://www.urdulinks.com/urj/?p=4016)

اُردو غزل شاعری کی ایسی صنف ہے جو تمام اصناف میں بے حد مقبول تصور کی جاتی ہے۔کلاسیکی شاعری سے لے کر جدید اور مابعد جدید شعرائے کرام نے علامتوں،تشبیہات اور استعارات کاسہارا لے کر اس کے دامن کو سجایا ہے۔شاعروں نے غزلوں کے پیرائے میں اجرام فلک مثلاً مہ وانجم،خورشید،زمین و آسمان وغیرہ کے موضوعات بڑے دلکش انداز میں پیش کیے ہیں۔

کلاسیکی عہد کے شعرا یعنی محمد قلی قطب شاہ سے لے کر مرزا داغ دہلوی تک اور جدید اردو غزل کے عہد ِ غالبؔ سے لے کر علامہ اقبال تک اور مابعد جدید غزل ناصر کاظمی سے عہدِ حاضر تک سبھی شعرا کے ہاں چاند کی خوبصورتی،دلکشی،رعنائی اور حُسن کاذکر کسی نہ کسی صورت میں  ملتا ہے۔ کوئی شاعر ایسا نہیں جو چاند کی خوبصورتی اور جاذبیت سے متاثر نہ ہو۔

یوں کہہ لیجئے کہ جسے محبت ہوئی ہے وہ چاند میں اپنے محبوب کو ضرور دیکھتا ہے اور محبوب کو چاند میں دیکھنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ چاند شاعروں کے لیے دردِلادوا کی دوا ہے۔ چاند ایک ایسی آماجگاہ ہے جہاں شاعر اپنی یادوں،باتوں اور دل بہلاوے کے سبھی سامان آراستہ کرتا ہے اور من چاہی دُنیا بسا کر اپنے جذبات کو تسکین بہم پہنچاتا ہے۔

چاند کاذکر صرف اُردو زبان تک محدود نہیں بلکہ دُنیائے عالم کے جملہ ادبیات میں چاند کا تصور ملتا ہے اور چاند سے متصل تصورات کی ایک کہشکشاں دکھائی دیتی ہے ۔عمر قاضی لکھتے ہیں:

”چاند کا پگھلنا شاعر کو اس طرح نظر آتا ہے جیسے سنار کی دکان میں سونا پگھلتا ہے اور جب سونا پگھلتا ہے تب ہی اس سے کوئی زیور بن پاتا ہے۔ جب سونے کا چاند پگھل کر اس کے دل میں آئے گا تب وہ ایک زیور جیسی نظم بن جائے گا!وہ زیور جو سجے گا کسی کے ماتھے پر۔ کسی کے ہاتھوں میں کنگن بن کر کھنکے کا اور کسی کے کانوں میں بالیوں کی طرح نظر آئے گا۔ یہ چاند جو ہمیں حسن کے قریب لاتا ہے۔ یہ چاند جو ہمیں اکثر اوقات دیوانہ بنا دیتا ہے۔ اس چاند کے لیے انگریزی زبان کے عظیم شاعر شیکسپیئر نے اپنے ڈرامے ’’اوتھیلو‘‘ میں کتنی خوبصورت اور گہری بات کہی تھی، جب اوتھیلو شک کی بنیاد پر اپنی محبوب بیوی ڈیسڈ مونا کو قتل کردیتا ہے اور قتل کے بعد اسے اپنی ملازمہ بتاتی ہے کہ وہ معصوم اور بیگناہ تھی۔ تب اوتھیلو محل کی کھڑکی سے پورے چاند کو دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ:یہ چاند یہ حسین چاند/دھرتی کے اس قدر قریب آجاتا ہے/کہ انسان دیوانہ ہوجاتا ہے۔“

(https://www.express.pk/story/264843/)

اُردو شعرا نے چاند کو محبوب کے سراپا کے  بیان کے لیے زیادہ استعمال کیا ہے۔ چاند کے بارے میں میری ذاتی رائے بھی کچھ ایسی ہے۔ بچپن سے لڑکپن کا زمانہ چاند کو عید کے حوالے سے دیکھنے کا رہا ۔ چاند رات کا منظر بھی چاند کی اہمیت کو سَوا کر تا ہے۔ شعرا نے چاند رات پر ہزاروں شعر کہے ہیں اور عید کی مناسبت سے اردو ادب میں باالخصوص نثر میں سیکڑوں مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں جس میں چاند کو ایک مستقل موضوع کی حیثیت سے تحریر کا حصہ بنایا گیا ہے۔

بچپن سے لڑکپن تک میں خود چاند کو عید کے چاند تک محدود سمجھتا رہا اور دیہات میں کوٹھے کی چھت پر چڑھ کر مغرب کی طرف آنکھیں ٹکائے ہلال کو اپنی نگاہ سے دیکھنے کے لطف سے محظوظ ہوتا رہا۔ بعدازاں محبت کی آوارگی کا مزہ چکھا تو محسوس ہوا کہ شاعر جس چاند کا ذکر کر رہا ہے وہ محض آسمان پر دکھائی دینے والا سیارہ نہیں  بلکہ جیتا جاگتا ،چلتا پھرتا،باتیں کرتا،ہنستا،کھیلتا اور دل پر وار کرتا ہوا چاند ہے ۔

 چاند کی اس توضیح سے محبت کی تفہیم بھی ہوئی اور چاند سے متصل انسانی جذبات کی گہرائی و گیرائی کا اندازہ بھی ہوا۔ میر تقی میرؔ چاند کو دیکھ کر باولے کیوں ہو جاتے تھے اور انھیں غشی کے دورے کیوں پڑتے تھے۔ یہ بات جب تجربہ بن کر خود پر گزری تو پتہ چلا کہ محبت،چاند اور  محبوبِ بے مرورت کی تثلیث سے ایک عاشقِ نزار پر کیا گزررتی ہے یہ کوئی نہ جانے ۔

اُردو غزل کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں آسمان پر دکھائی دینے والے سیارے اور ستاروں کے بارے میں شعرا نے مختلف  اندازمیں نت نئے موضوعات تراشے اور ان سے انسانی جذبات کو متصل کیا۔ کلاسیکی غزل میں چاند کے علاوہ سورج، آسمان، ہوائیں، بادل، بارش، فضا، آندھی، طوفان، نیلاہٹ، سفید، سیاہی، رات، صبح، روشنی  کو تمثیلات و استعارت اور تشبیہات کے تناظر میں  برتا اور بہت خوب برتا۔ میر تقی، آتش،ناسخ، مصحفی، رنگین،جرات، سودا، داغ، غالب، ناصر، فیض، مجید امجد، جون، مینر،تہذیب حافی تک ؛کسی بھی شاعر کے دیوان کو اُٹھا کر دیکھ لیجئے۔

 چاند کے ذکر اور تصور کو لے کر ان کی جذباتی کیفیت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ اُردو غزل کا  شعری سرمایہ چاند کےذکر پر رنگین و رعنا داستانِ عشق کا  پہلا زینہ معلوم ہوتا ہے۔

کلاسیکی شعرا کے ہاں چاند کی زیادہ تر سطحی اور لفظیاتی پیکر تراشی ملتی ہے جس سے دل بہلاوے کا  کام لیا جاتا رہا۔ میؔر کے ہاں چاند کی تصویر کشی اور چاندنی رات کا ذکر ایک غیرمعمولی ہیجان لیے ہوئے۔ میر ؔکو عشق کا تجربہ بڑا  زہرناک ہوا تھا۔ میؔر کو چاند میں  اپنے محبوب کی تصویر دکھائی دیتی تھی جس سے یہ  بے خود ہو کر  حواس سے عاری ہو جاتے تھے۔ میرؔ کے علاوہ آتشؔ، ناسخؔ، حاتم،ؔ ہوسؔ، اشرفؔ اور جلیل مانکؔ کے ہاں بھی چاند کی روایتی، سطحی اور اجمالی کیفیات کا تصوراتی بیان ملتا ہے جس میں جدت ،تازفی،ندرت اور جازبیت کی کمی ہے البتہ  شعری لفظیات کی کندہ کاری ان کے ہاں  لاجواب ہے۔

؎         پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے /پر ہمیں ان میں تمہیں بھائے بہت )میر تقی میر(

؎         گل ہو مہتاب ہو آئینہ ہو خورشید ہو میر /اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو )میر تقی میر(

؎         چاند سے تجھ کو جو دے نسبت سو بے انصاف ہے /چاند کے منہ پر ہیں چھائیں تیرا مکھڑا صاف ہے )شیخ ظہور الدین حاتم(

؎         لطف شب مہ اے دل اس دم مجھے حاصل ہو /اک چاند بغل میں ہو اک چاند مقابل ہو )مرزا محمد تقی ہوسؔ(

؎         آسمان اور زمیں کا ہے تفاوت ہر چند /اے صنم دور ہی سے چاند سا مکھڑا دکھلا )حیدر علی آتش(

؎         اک چاند ہے آوارہ و بیتاب و فلک تاب /اک چاند ہے آسودگیٔ ہجر کا مارا )سید امین اشرف(

؎         ہر رنگ ہے تیرے آگے پھیکا /مہتاب ہے پھول چاندنی کا )جلیل مانک پوری(

؎         میں اکثر آسماں کے چاند تارے توڑ لاتا تھا /اور اک ننھی سی گڑیا کے لیے زیور بناتا تھا )والی آسی(

فنکار لوگ چاند کے تمنائی ہوا کرتے ہیں۔ انھیں بادلوں میں چھپتے اور نکلتے چاند کا روپ بہت پیارا لگتا ہے۔ اس لیے ہماری شاعری، مصوری اور موسیقی میں چاند کا تذکرہ بہت زیادہ ہے۔ چاند کی نسبت سے شعرا کے دواین  میں جس قدر تنوع اور جدگانہ  نکات سے مزین صورت ملی ہے؛وہ دیکھنے کی چیز ہے۔چاند کو محبوب کے تصور میں جس قدر خوبصورتی سے ابن انشا نے باندھا ہے ،یہ تاثر بہت کم شعرا کے ہاں بعنیہ دکھائی دیتا ہے۔

؎         کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا /کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا

؎         ہم بھی وہیں موجود تھے ،ہم سے بھی سب پوچھا کیے/ہم چپ رہے ہم ہنس دیے منظور جو تھا پردہ ترا

؎         وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں /اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو

ابن انشا کے شعری مجموعے چاند نگر میں چاند کی تمثیلات  کی تنوعات کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند انشا کے جذبات کا ترجمان ِ واحد ہے اور انشا چاند کے بغیر اور چاند انشا کے بغیر لمحہ بھر تنہا نہیں رہ سکتے ۔

؎         وہ لڑکی جو چاند نگر کی رانی تھی

جس کی الہڑ آنکھوں میں نادانی تھی

اس نے بھی پیغام یہی بھجوایا ہے

سب مایا ہے!

بیسویں صدی کے اواخر میں تیزی سے ابھرنے والی شاعری پروین شاکر کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ پروین کے ہاں چاند کا تصور جس قدر جدت،تازگی اور متنوع معنویت لیے ہوئے ہے؛ان کے ہم عصر شاعرات میں یہ شعری انداز شاذ ہی دکھائی دیتا ہے۔ پروین شاکر نے چاند کی خوبصورتی، رعنائی، دلکشی،جازبیت اور تنوع کو نسائی جذبے سے مملو کر اُردو شعریات میں اس طرح ڈھالا ہے بلکہ کندہ کیا ہے کہ داد دئیے بغیر نہیں رہا جاتا۔

یہ دنیا، یہ آماجگاہ تمنا، ایک خواب،ایک خیال نہیں تو اور کیا ہے؟ مگر یہ خیالات ہی ہیں جو انسان کو کبھی ہنساتے ہیں اور کبھی رلاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے گویا انسان اپنے خیالات کے ہاتھوں میں ایک کھلونا ہو۔ ہم خیالات سے کھیلتے ہیں یا خیالات ہم سے کھیلتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے شاید ہم بہت دور نکل جائیں۔

؎         اتنے گھنے بادل کے پیچھے /کتنا تنہا ہوگا چاند

؎         رات کے شاید ایک بجے ہیں /سوتا ہوگا میرا چاند

؎         چاند  بھی میری کروٹوں کا گواو/میرے بستر کی ہر شکن کی طرح

؎         مجھ کو تسلیم،میرے چاند کہ میں/تیرے ہمرا ہوں گہن کی طرح

؎         دمک رہا ہے ایک چاند سا جبیں پہ اب تلک/گریز پا محبتوں کا کوئی پل ٹھہر گیا

؎         بات وہ آدھی رات کی

رات وہ پورے چاند کی

چاند بھی عین چیت کا

اس پر تیرا جمال بھی!

دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ

ہوتا رہا ملال بھی!!

بیسویں صدی کے برصغیر پاک وہند میں سند یافتہ شاعر بشیر بدر کے ہاں چاند کی متنوع صورتوں کا جس انداز میں ذکر ملتا ہے وہ بھی اردو شعری لفظیات میں ایک نیا اضافہ ہے۔ بشیر بدر نے چاند کے تصور کو جذبات کی رو سے نکال کر آفاق کی وسعت سے متصل کر دیا ہے۔ بشیر بدر کے ہاں چاند محض آسمان پر گردش کرنے والا سیادہ نہیں بلکہ کسی کے دل میں دھڑکتا ہوا احساس ہے،کسی کی روح میں بے قراری کا لمحہ ہے، کسی کی دمِ نزاع کی حالت میں جمود ہو جانے والا انتظار ہے اور کسی کی توجہ کا طالبِ حقیقی ہے۔

 بشیر بدر نے چاند کی سطحی شعری معنویت کو  تجربے کی کھٹالی  سے ثقیل کر کے  انمٹ احساس میں تبدیل کر دیا ہے جس سے چاند کے تصور کو اس کی وسعت کی تحدید سے رہائی مل گئی ہے۔

؎         کبھی تو آسماں سے چاند اترے جام ہو جائے /تمہارے نام کی اک خوبصورت شام ہو جائے

؎         اک دیوار پہ چاند ٹکا تھا /میں یہ سمجھا تم بیٹھے ہو

؎         ہاتھ میں چاند جہاں آیا مقدر چمکا /سب بدل جائے گا قسمت کا لکھا جام اٹھا

؎         ہمارے ہاتھوں میں اک شکل چاند جیسی تھی/تمہیں یہ کیسے بتائیں وہ رات کیسی تھی

؎         کوئی تارہ ٹوٹ کے گر گیا،کوئی چاند چھت پہ اُتر گیا/کسی آسماں کی چال سے بکھر گیا وہی ہار ہوں

؎         جلی ہوئی ٹوٹیں دیواریں میرے زخمی کندھے ہیں/چاندنی رات میں چھپ کر آنااِن پر اپنا سر رکھا

ابن انشا ،بشیر بدر اور پروین شاکر کے متوازی افتخار نسیم ، ادریس آزاد اور اظہر عنایتی کا چاندنی کا تصور بڑا واضح،موثر اور دلکشی لیے ہوئے ہے۔

؎         اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا /آسماں پہ چاند پورا تھا مگر آدھا لگا )افتخار نسیم(

؎         عید کا چاند تم نے دیکھ لیا /چاند کی عید ہو گئی ہوگی )ادریس آزاد(

؎         ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لیے /میں جاگتا ہوں ترا خواب دیکھنے کے لیے )اظہر عنایتی(

اُردو غزل میں چاند کے تصور، ذکر، اہمیت،وصف، توضیح کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا ہے۔ نثار و نقاد نے اس پر مضامین لکھے ہیں۔ اُردو شعرا نے چاند کی گہنائی صورتحال پر بھی کُھل کر لکھا ہے۔ چاندنی رات کا منظر اور چودھیں کے چاند کا تذکرہ شعرا کے ہاں خصوصی دلچسپی لیے ہوئے ہے جبکہ چاند کے گہنائے جانے کا تصور بھی شعرا کے ہاں ایک رثائی صورتحال کی توضیح کا  ماحول فراہم کرتا ہے۔

چاند کے چھپ جانے، منظر ِ عام پر آنے، نگاہوں سے اوجھل ہو جانے، پانی پر عکس بکھیرنے کا منظر ایک عاشق ِ بے تاب پر کیا ظلم ڈھاتا ہے ،ذیل میں اشعار ملاحظہ کیجیے اور اس صورتِ ہجرِزدہ  دردِ فُرقت سے حظ اُٹھائیے:

؎         وہ چاند کہہ کے گیا تھا کہ آج نکلے گا /تو انتظار میں بیٹھا ہوا ہوں شام سے میں )فرحت احساس(

؎         بے چین اس قدر تھا کہ سویا نہ رات بھر /پلکوں سے لکھ رہا تھا ترا نام چاند پر )نامعلوم(

؎         چاند بھی حیران دریا بھی پریشانی میں ہے /عکس کس کا ہے کہ اتنی روشنی پانی میں ہے )فرحت احساس(

؎         وہ کون تھا جو دن کے اجالے میں کھو گیا /یہ چاند کس کو ڈھونڈنے نکلا ہے شام سے )عادل منصوری(

چاند ایک سیارہ ہے جو آسمان پر دوسرے سیاروں اور ستاروں کے ساتھ محوِ گردش رہتا ہے۔ اس کی گردش کا مدار نظامِ آسمانی کے خود کار سسٹم کا حصہ ہے۔ چاند پر جانے اور چاند کی تسخیر کا عمل شعرا کے ہاں بڑی شد و مد سے ملتا ہے۔ سائنس اس بات کو ثابت کر چکی ہے کہ چاند پر جانا اب ممکن ہے بلکہ  کئی ایک مغربی ممالک مثلاً امریکہ ،روس،انڈیا ،چائنہ وغیرہ کے مشن جا چکے ہیں۔ انڈیا کا چندریان III نے کامیابی سے چاند پر قدم رکھ کر پوری دُنیا کو   سائنسی تحقیق و آلات کی گرفت سے حیران کر دیا ہے۔ چاند  کی  اندھیری سطح کے ایک خاص حصے  کو تسخیر کرنے والا یہ پہلا ملک ہے جس نے پوری دُنیا کو اپنی سائنسی تحقیق کے جدید ترین تجربے سے حیران کیا اور یہ ثابت کیا کہ اب بر اعظم ایشیا میں موجود اذہان بھی دیگر  ترقی یافتہ ممالک کی ایجاداتی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ یہ سائنسی  تحقیق  مرورِ وقت کے ساتھ  نظامِ کائنات کو دیکھنے،سمجھنے اور اس  پر زیادہ گرفت مضبوط کرنے کے لیے مزید کام کر رہی ہیں۔ دریافت و ایجاز کا تخیلی کام شعرا نے سیکڑوں برس پہلے کیا تھا۔

قدیم کلاسیکی داستانی قصص ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، رومیو  جیولٹ اور نل و دمن میں چاند پر جانے کا ذکر ملتا ہے۔ قدیم تواریخ میں چاند پر جانے کی خواہش کا اظہار مورخین کے مختلف لوک داستانوں ، یونانی اساطیر اور دیومالائی قصوں میں اخذ کیا ہے۔

چاند ایسے بڑے افلاکی سیارے کو کسی پھل کی صورت توڑ کر محبوب کے ہاتھ پر رکھنے کی خواہش  شعرا کے ہاں تسلسل سے پائی جاتی ہے۔ شعرا کا تخیل  کسی تحدید کے اختیارمیں نہیں ہوتا۔ اس کی باگ   آزاد ہے اور اس پر کسی نے لگام نہیں ڈالی۔ یہ بے مہار اپنی پرواز میں چاند،سورج،ستاروں اور سیاورں سے پرے کی سیر کرتا ہے اور نظامِ کائنات کے اسراروموز سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔

رات کے وقت ان گنت ستاروں کے جھرمٹ میں جب چاند نکتا ہے تو اس کے حُسن کی کشش کے آگے کوئی ستارہ ٹھہر نہیں سکتا۔ اکیلا چاند پورے آسمان کے ستاروں کی روشنی کو اپنی  ضو فشانی سے خجل کر دیتا ہے۔ شعرا نے چاند کے اس حُسنِ  دائمی پر بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ چاند کا حُسن محبوب کے حُسن کے آگے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ عید کا چاند ہو یا محبوب کی دید کا چاند اس میں ایک سی کشش،جازبیت اور رعنائی موجود ہے۔ چاند کی ہمسفری، محبوب کی دید کی طلب، مہتاب کی کشش کا نظارہ شعرا کی نظر سے دیکھئے اور دم بہ خود ہو جائیے:

؎         فلک پہ چاند ستارے نکلتے ہیں ہر شب /ستم یہی ہے نکلتا نہیں ہمارا چاند )پنڈت جواہر ناتھ ساقی(

؎         دیکھا ہلال عید تو آیا تیرا خیال /وہ آسماں کا چاند ہے تو میرا چاند ہے )نامعلوم(

؎         ہم سفر ہو تو کوئی اپنا سا /چاند کے ساتھ چلو گے کب تک )شہرت بخاری(

؎         مجھ کو معلوم ہے محبوب پرستی کا عذاب /دیر سے چاند نکلنا بھی غلط لگتا ہے )احمد کمال پروازی(

؎         پاؤں ساکت ہو گئے ثروتؔ کسی کو دیکھ کر /اک کشش مہتاب جیسی چہرۂ دل بر میں تھی )ثروت حسین(

اُردو غزل میں چاند کے ساتھ سورج اور ستاروں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ سورج کو شعرا نے چاند کے متوازی عاشق ِ مظلوم سے منسوب کیا ہے اور ستاروں کو تماشائی قرار دیا ہے۔ سورج کا کام جلنا ہے اور وہ محبوب کی  دید میں انتظار کی حدت میں جلتا رہتا ہے  اور ستارے تماشائی بنے اس کیفیت  میں ڈرےسہمے دبکے پڑے وصالِ یار کی راہ تکتے تکتے سو جاتے ہیں۔ شعرا نے ملی جلی فراق و وصال کی ان کیفیات کو  کیاخوبصورت انداز میں بیان کیا ہے کہ جزوقتی یوں معلوم ہوتا ہے کہ پوری نظامِ آسمانی چاند کی چاندی میں نہال اپنے آپ سے بے خبر ہو کر  حُسنِ ماہتاب کا مجاور ہو چلا ہے۔شعرا کا اندازِ تخاطب ملاحظہ کیجئے:

؎         چاند کا حسن بھی زمین سے ہے /چاند پر چاندنی نہیں ہوتی )ابن صفی(

؎         اے کاش ہماری قسمت میں ایسی بھی کوئی شام آ جائے /اک چاند فلک پر نکلا ہو اک چاند سر بام آ جائے )انور مرزاپوری(

؎         رات کو روز ڈوب جاتا ہے /چاند کو تیرنا سکھانا ہے )بیدل حیدری(

؎         کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے /نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی )احمد مشتاق(

؎         وہ چار چاند فلک کو لگا چلا ہوں قمرؔ /کہ میرے بعد ستارے کہیں گے افسانے )قمر جلالوی(

؎         چاند میں تو نظر آیا تھا مجھے /میں نے مہتاب نہیں دیکھا تھا )عبدالرحمان مومن(

جدید اُردو غزل میں  چاند کا تصور کلاسیک کی نسبت زیادہ  جامع اندازمیں سامنے آیا ہے۔ جدید شعرا کے ہاں شعری لفظیا ت کا رچاؤ نظامِ آسمانی کے گردشِ افلاک سے مملو دکھائی دیتا ہے۔

 چاند کا تصور ہو، سورج کی تمازت کا بیان ہو، ستاروں کی بے مرورت گردش کا نالہ ہو، آسمان کی دشمنی کا تذکرہ کرنا ہو یا بھی بادِ صبا و نسیم کی اٹکھیلیوں کا عشوہ  تراشنا ہو۔ان سب  فطرتی مظاہر کو شعرا نے  تخیلاتی  رنگِ خلق سے زیادہ سائنسی معلومات سے منسوب کر کے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ روایت کا تتبع ہر شاعر کے لیے ایک ناگزیر مجبوری ہے کہ وہ روایت کے جملہ اسالیب و موضوعات کی تقلید کرے گا اور اس میں اپنی الگ راہ بھی نکالے گا تاہم جدت اسی روایت میں مضمر ہوتی ہے کہ  بات پرانی ہو لیکن انداز نیا ہو جس کے سانچے قدامت سے پیوستہ ہونے کے بعد عہدِ حاضر کا منظر نامہ اپنے اندر  اُستوار کیے ہوں۔

؎         سب ستارے دلاسہ دیتے ہیں /چاند راتوں کو چیختا ہے بہت )آلوک مشرا(

؎         رسوا کرے گی دیکھ کے دنیا مجھے قمرؔ /اس چاندنی میں ان کو بلانے کو جائے کون )قمر جلالوی(

؎         بارش کے بعد رات سڑک آئنہ سی تھی /اک پاؤں پانیوں پہ پڑا چاند ہل گیا )خواجہ حسن عسکری(

؎         ہم نے اس چہرے کو باندھا نہیں مہتاب مثال /ہم نے مہتاب کو اس رخ کے مماثل باندھا )افتخار مغل(

؎         دور کے چاند کو ڈھونڈو نہ کسی آنچل میں /یہ اجالا نہیں آنگن میں سمانے والا )ندا فاضلی(

چاند کو بطور تشبیہ اور استعارہ باندھنے کی روایت برسوں پرانی ہے۔ چاند ایک سیارہ ہے جس کی نہ اپنی روشنی ہے نہ اپنا کوئی مدار ہے ۔یہ آسمان پر ایک متعین وقت میں چکر کاٹتا ہے اور پھر نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اس کے وجود کی بقا سورج کی محتاج ہے۔ سورج کی روشنی منعکس ہو کر اس پر پڑتی ہے اور یہ آسمان پر دکھائی دیتا ہے۔ سورج کی حدت میں خنکی کی بجائے تمازت ہوتی ہے جو دیکھنے والے پر اپنا رعب ثبت کرتی ہے جبکہ چاند کی روشنی میں سکونت، ٹھہراؤ،تسکین اور جازبیت کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ اسی اختصاص کے پیشِ نظر شعرا نے تشبیہاتی  تناظر میں چاند کو  برتا ہے۔

؎         پھول باہر ہے کہ اندر ہے مرے سینے میں /چاند روشن ہے کہ میں آپ ہی تابندہ ہوں )احمد شناس(

؎         رات اک شخص بہت یاد آیا /جس گھڑی چاند نمودار ہوا )عزیز احمد خاں شفق(

؎         چاند میں کیسے نظر آئے تری صورت مجھے /آندھیوں سے آسماں کا رنگ میلا ہو گیا ) آذرؔ (

؎         مجھے اس خواب نے اک عرصہ تک بے تاب رکھا ہے /اک اونچی چھت ہے اور چھت پر کوئی مہتاب رکھا ہے )خاور اعجاز(

چاند کو محبوب کے سراپا کے  بیان کے لیے برتا گیا ہے۔ شعرا نے چاند کو محبوب  کی بے وفائی، بد عہدی،  بد اطواری، بے مرورتی، سنگ دلی، طویل انتظاری، شبِ فُرقتی اور بے جا ظلم رسیدگی کے حوالے سے برتا ہے۔ شعرا نے چاند کو صنفِ نازک کے جملہ جذبات کے اظہار کے لیے شعری  پیراہن اوڑھایا اور اس سے وہ کام لیا جو  بیان و بدیع کے جملہ عناصر سے کلاسیکی شعرا نے لیا ہے۔

؎         مجھے یہ ضد ہے کبھی چاند کو اسیر کروں /سو اب کے جھیل میں اک دائرہ بنانا ہے )شہباز خواجہ(

؎         وہ جگنو ہو ستارہ ہو کہ آنسو /اندھیرے میں سبھی مہتاب سے ہیں )اختر شاہجہانپوری(

؎         میری طرح سے یہ بھی ستایا ہوا ہے کیا /کیوں اتنے داغ دکھتے ہیں مہتاب میں ابھی )خلیل مامون(

؎         چاند میں تو نظر آیا تھا مجھے /میں نے مہتاب نہیں دیکھا تھا )عبدالرحمان مومن(

چاند کے موضوع میں شعرا نے مرورِ وقت کے ساتھ جتنی وسعت اور دلچسپی پیدا کر دی ہے۔یہ دیکھنے کی چیز ہے۔ اس مضمون میں چاند کے تصور کے حوالے سے شعرا کے دواوین میں اشعار کا ایک انتخاب حسب ذیل  ہے جسے پڑھیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ شعرا کے ہاں چاند کی ظاہری شکل و صورت، ہیت،تصور، قدامت، اہمیت او ر طلوع و غروب کے جملہ مظاہر کے حوالے سے کیا شعری پیکر تراشیاں ملتی ہیں ۔

 شعرا کے ہاں چاند ایک مستقل موضوع کی حیثیت سے موجود ہے جسے شعرا نے محض محبوب کے سراپا کے بیان، محبوب سے متصل جذبات کے اظہار اور محبوب کے عاشقِ نزار کے حوالے سے مخصوص روئیے  کے تناظر میں بیان  نہیں کیا بلکہ چاند کی افلاکی وسعت کے پیشِ نظر اس سے متصل تصورات کو بھی وسعتِ لا منتہائی سے سرافراز کیا ہے۔

؎         شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں /چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں )گلزار(

؎         عالم ہے ترے پرتو رخ سے یہ ہمارا /حیرت سے ہمیں شمس و قمر دیکھ رہے ہیں )میلہ رام وفاؔ(

؎         شاخ پر شب کی لگے اس چاند میں ہے دھوپ جو /وہ مری آنکھوں کی ہے سو وہ ثمر میرا بھی ہے )سوپنل تیواری(

؎         چھپ گیا عید کا چاند نکل کر دیر ہوئی پر جانے کیوں /نظریں اب تک ٹکی ہوئی ہیں مسجد کے میناروں پر )شاعر جمالی(

؎         کیوں اشارہ ہے افق پر آج کس کی دید ہے /الوداع ماہ رمضاں وہ ہلال عید ہے )نثار کبریٰ عظیم آبادی(

؎         رات کے وقت ابھرتا ہے جنوں کا سورج /دن نکلتے ہی کسی چاند میں ڈھل جاتا ہے )عمران شمشاد نرمی(

؎         چھیڑا ہے ایک نغمۂ شیریں بھی کو بہ کو /دل نے ہلال عید کی تائید کے لئے )افروز رضوی(

؎         مہ جبیں عید میں انگشت نما کیوں نہ رہیں /عید کا چاند ہی انگشت نما ہوتا ہے )صفی اورنگ آبادی(

؎         چاند نکلا ہے بہ انداز دگر آج کی شام /بارش نور ہے تا حد نظر آج کی شام )ارمان اکبرآبادی(

مختصر یہ کہ چاند کا تصور کلاسیکی اُردو غزل سے جدید اور مابعد جدید  غزل تک تسلسل سے موجود ہے۔ اُردو شعرا نے چاند کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ اُردو غزل کا گراں قدر سرمایہ ہے۔

 اُردو شعرا کویہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے برسوں قبل چاند پر جانے کی اور چاند کو توڑ کر محبوب کے پاؤں پر ڈھیر کر دینے کی تخیلی کوشش کی ہے جبکہ انڈیا نے  یہ ناممکن کام 23 ۔اگست 2023 کو شام چھے بجے  چاند پرکامیابی سے قدم رکھ  ممکن اور کر دکھایا ۔ شاعر حضرات چاند کو آسمان سے توڑ کر محبوب کے قدموں پر رکھنے کی تخیلی کمندیں ڈالتے رہے جبکہ انڈیا نے سچ میں چاند پر اپنے قدم رکھ کر یہ ثابت کر دیا کہ انڈیا  نام نہاد ترقی یافتہ ممالک سے کسی صورت پیچھے نہیں۔یہ بہت بڑی کامیابی ہے جس پر انڈیا مبارکباد کا مستحق ہے ۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ اب شعرا کو چاند کے حوالے سے ایک اور موضوع مل گیا ہے ۔دیکھتے ہیں  !شاعر حضرات چاند کو توڑ کر لانے میں اب کون سے شعری تلازمے  تراشتے ہیں اور  چاند کے حصول کی تسخیری ٹوہ میں  محبوبِ بے مرورت  کو کس پِٹاتے ہیں۔

***

Leave a Reply