محمد محسن خالد
لیکچرار،گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج چوہنگ،لاہور
عظمی نورین
گورنمنٹ وومن یونی ورسٹی،سیالکوٹ
اُردو فرہنگ نویسی:تعریف،اقسام،روایت ،ارتقا
رب تعالیٰ نے دُنیا میں جہاں مختلف رنگ و نسل کے انسان پیدا کیے ہیں وہاں انسانوں کی زبانوں میں بھی تنوع رکھا ہے۔ہر ملک اور خطے کے لوگوں کی زبان مختلف ہوتی ہے۔زبان انسان کے افکار و احساسات کی ترجمان ہوتی ہے۔ زبان ہی کے ذریعہ انسان کے خیالات،احساسات اور علم کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ لغت زبان کے تحفظ کا بہترین ذریعہ ہے۔ جس زبان کی اپنی لغت یا فرہنگ نہیں وہ نامکمل ہے۔لغت اور فرہنگ میں کسی زبان کے استعمال کے علاوہ زبان کی مختلف نہجوں اور نوعیتوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس نظریے سے ایک اچھے لغت میں شامل اندراجات کے عام اور تما م معانی،لسانی حیثیت اور قواعدی نوعیت کے سلسلے میں معلومات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ متعلقہ الفاظ ومحاورات کی صحیح اور مکمل تفہیم بھی کرتی ہے۔
فرہنگ سازی کی ضرورت عام طور پر کسی زبان کے ابتدائی دور میں پیش نہیں آتی بلکہ اس کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب کسی دوسری زبان کے بولنے والے لوگ اس زبان سے رابطہ قائم کرتے ہیں اور ان کے اندر اس زبان کو سیکھنے کی خواہش بیدار ہوتی ہے یا پھر فرہنگ سازی کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کوئی زبان اپنے ابتدائی مراحل طے کر کے ترقی کے مراحل میں داخل ہو جاتی ہے اور ان کے ادب سے روابط استوار ہو جاتے ہیں اور ان کی لفظیات کو بھی اپنا لیتی ہے۔اسی طرح اصل زبان بولنے والے لوگ اپنی زبان میں شامل ہونے والے بہت سے اجنبی اور بدیسی الفاظ کے معانی و مفہوم سے آشنا نہیں ہوتے اور یوں ان الفاظ کی تفہیم کے لیے ان کو لغت کی ضرورت پڑتی ہے۔
عہدِ حاضر میں دُنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔مختلف اقوام اور اُن کی زبانوں کے ادب تک رسائی آسان سے آسان تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر لغت کی تکمیل کے بعد اردوزبان میں لغت کی ضرورت کا احساس جنم لیتا ہے۔کسی بھی زبان کی ترقی اور قوتِ اظہار کا اندازہ اس کے ذخیرہ الفاظ سے ہوتا ہے۔اگر زبان میں ہر موقع کی مناسبت سے الفاظ موجود ہوں اور وہ ہر طرح کے مو ضوعات اور صورتِ حال کی وضاحت و تشریح پر قدرت رکھتے ہوں تو ایسی زبان کامل اور ترقی یافتہ کہلائے گی۔لغت زبان میں شامل الفاظ کے معانی پر مشتمل فرہنگ کا نام ہے جس میں الفاظ “الف،بائی” ترتیب سے درج کیے جاتے ہیں۔
زیبا ناز فرہنگ کی ابتدا کے بارے میں لکھتی ہیں:
”۲۵ قبل مسیح میں یونانی زبان کے ہرمزآتھینز سے تقریباً ۳۰۰ فرہنگیں منسوب ہیں۔یونان کے شاعر “ہومر نظموں میں غیر معروف الفاظ کی تشریح کے لیے زنڈوٹس نے ایک گلاسری ہومریکاکے نام سے ترتیب دی۔اسی طرح لاطینی زبان میں مارکس ویرس کلاکس نے پہلی صدی قبل مسیح میں ایک فرہنگ مرتب کی“۔(۱)
فرہنگ اور لغت کے مفہوم میں اگرچہ ہمارے ہاں کچھ جداگانہ پہلو پیش نظر رکھے جا تے ہیں تاہم ان لفظوں میں بنیادی فرق زبان کا ہے۔فارسی اور اُردو لغت نگاروں نے فرہنگ کے درج ذیل معنی پر اتفاق کیا ہے:
اُردو لُغت نگاروں کے نزدیک فرہنگ کے معنی:
۱۔”بزرگی،دانش،ادب“ (۲)
۲۔”دانش،دانائی،سمجھ،عقل و ادب،فہم و فراست وکیاست“۔(۳)
۳۔”دانائی،سمجھ،عقل“ (۴)
۴۔”تعلیم،آموزش،علم و دانش،ادب،تربیت“ (۵)
۵۔”علم وفراست،آگاہی،دانائی“ (۶)
فارسی لغت نگاروں کے نزدیک فرہنگ کے معنی:
۱۔”کتابی در لُغت پارسی کذا فی المویئد“ (۷)
۲۔”کتاب لغات پارسی جیسے فرہنگ ِرشیدی،فرہنگ جہانگیری“ (۸)
۳۔”معنوں کی کتاب،الفاظ کے معانی بتانے والی کتاب“ (۹)
اُردو میں لغت اور فرہنگ کے لیے عموماً ڈکشنری کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن انگریزی میں ڈکشنری کے ساتھ ساتھ ایک اور لفظ Glossary بھی استعمال ہوتا ہے۔قومی انگریزی اُردو لغت میں ڈکشنری کی ذیل میں لکھا ہے:
”لغت قاموس،فرہنگ،ایسی کتاب جس میں کسی زبان کے الفاظ کو حروف تہجی کی ترتیب سے درج کیا گیا ہو اور اس میں ان کے معانی کی تشریح،تلفظ،اِشتقاق اور دیگر معلومات درج ہوں؛لغات،کتاب الفاظ؛کوئی ایسی کتاب جس میں مکمل موضوع یا شعبہ موضوع کے بارے میں معلومات حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب شدہ اندراجات کے تحت ہوں “۔(۱۰)
قومی انگریزی اُردو لغت میں اس کی وضاحت کچھ یوں کی گئی ہے:
”فرہنگ “کتاب لغت ” کسی موضوع یا کسی کتاب کے دقیق الفاظ،اصطلاحات وغیرہ کی فہرست اور ان کے معانی،حاشیہ شرح “۔(۱۱)
جامع انگلش ٹو اُردو ڈکشنری میں اس کا مفہوم یہ ہے:
”کسی کتاب کے دقیق الفاظ،مصطلحات وغیرہ کی فہرست اور ان کی تشریح،فرہنگ،حاشیہ،شرح “۔(۱۲)
The New Lexicon Webster Dictionary of the English Language کی اس طرح تعریف کی گئی ہے
“A book containing the word or a choice of the words of a language arranged in alphabetical order with their definitions and often indicatiing their pronounciation,part of speech,common using ect. ” (۱۳)
جبکہ Dictionary of Urdu Classical Handi and Englishمیں لفظ Glossary کی وضاحت یوں دی گئی ہے
(14) ” A list of difficult old technical or foreign words with explanations “
ابتدئے اُردو میں لغت اور فرہنگ میں فرق نہیں کیا جاتا تھا۔لغت کو فرہنگ اور فرہنگ کو لغت کے معنوں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ فارسی لغت کے مؤلفین عام طور پر لغت اور فرہنگ میں امتیاز نہیں رکھتے تھے اور لغت کو فرہنگ کا نام دے دیتے تھے جیسے فرہنگِ آموز گار،فرہنگِ علی اکبر دہ خدا، فرہنگِ انجمن آرائے ناصری وغیرہ۔
موجودہ دور میں بھی لفظ فرہنگ،اُردو لغت کی کتابوں کے لیے مستعمل ہے مثلاً فرہنگِ آصفیہ،ِفرہنگ ِاثر وغیرہ۔لغت میں فرہنگ کی خوبیاں در آئیں اور فرہنگ میں لغت کے محاسن و اوصاف شامل ہوئے۔فرہنگ ِآصفیہ جوکہ ایک معروف لغت ہے اسے فرہنگ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہی حال فرہنگ ِتلفظ کا بھی ہے۔اسی طرح کچھ فرہنگیں جو تدوینی طریقہ کار میں ترتیب دی گئی ہیں وہ اکثر و بیشتر لغوی معنی ہی بیان کرتی ہیں۔ڈاکٹر محمد ضیا الدین انصاری لغت اور فرہنگ کے باہمی فرق کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
”زیادہ تر لغت نویس لفظ فرہنگ کو انگریزی لفظ ڈکشنری (Dictionary) کا متراد ف سمجھتے رہے ہیں۔دوسرے یہ کہ بنیادی طور سے اسے فارسی لغت کے لیے مختص کیا گیا۔ تیسرے یہ کہ بعض اُوقات اسے اُردو کی کتاب لغت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔چوتھے یہ کہ فرہنگ اور کتاب لغت ہم معانی الفاظ ہیں لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں“۔(۱۵)
ڈاکٹر گیان چند جین اپنی کتاب “تحقیق کا فن “میں فرہنگ اور عام لغات کے فرق کو اس طرح واضح کرتے ہیں:
”فرہنگ لفظ کے وہی معنی دیے جائیں جو متن میں مراد ہیں۔دوسرے مفاہیم درج نہ کیے جائیں۔فرہنگ عام لغات نہیں۔یہ ایک متن سے متعلق خصوصی لغات ہے۔معنی صحیح صحیح دیے جائیں۔یہ نہیں کہ متن کا سیاق و سباق دیکھ کر اندازے سے لکھ دیے جائیں“۔(۱۶)
لغت اور فرہنگ کے محولہ بالا آرا کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ لغت میں کسی زبان کے الفاظ کا مکمل ذخیرہ اور اُن کے تمام ممکنہ معانی درج ہوتے ہیں لیکن فرہنگ کے جو معنی متعین ہوتے ہیں وہ یہ کہ کسی خاص متن کے پیچیدہ،مشکل اور متروک الفاظ،غیر ملکی و مقامی بولیوں کے الفاظ و محاورات،روزمرہ،علوم و فنون کی اصطلاحات وغیرہ اور ان کے مفاہیم کی فہرست۔ایسی فہرستیں عموماً کتاب کی شکل میں علیحدہ بھی ترتیب دی جاتی ہیں اور کسی متن کے آخر میں بھی دے دی جاتی ہیں۔
محترمہ کرن الطاف فرہنگ اور لغت کے مفاہیم اور ان میں تفریق کے حوالے سے بیان کرتی ہیں:
”فرہنگ اور لغت کے ان مفاہیم پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ لغت میں الفاظ کی فہرستیں مرتب کرتے ہوئے کسی بھی زبان کا احاطہ کیا جاتا ہے لیکن فرہنگ میں کسی مخصوص متن(مطبوعہ یا غیر مطبوعہ) کے الفاط کے مفاہیم دے دیے جاتے ہیں۔گویا لغت میں کسی زبان کے مشکل الفاظ،متروک الفاظ،محاورات وغیرہ کی توضیح کی جاتی ہے جبکہ فرہنگ کا دائرہ کار اس کی نسبت محدود ہے۔فرہنگ ساز کسی کتاب کے الفاظ،کسی مصنف کے متروکات،مختارات یا کسی خاص عہد کے فن پاروں تک اپنا کام محدود رکھتا ہے۔لغت میں لفظ کی تشریح و توضیح مشاہیر ادب کے کلام سے نظائر پیش کی جاتی ہیں جبکہ فرہنگ میں ایسا نہیں ہوتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لغت میں لفظ کے تمام معانی،مترادفا ت و مرادفات دے دیے جاتے ہیں جبکہ فرہنگ میں موزوں ترین مفہوم دیا جاتا ہے جو اس متن کی تفہیم میں قاری کی مدد کرے“۔(۱۷)
مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فرہنگ عموماً کسی زبان کے عام یا تمام الفاظ کی بجائے صرف مخصوص الفاظ و تراکیب،اصطلاحات،تلمیحات ہی شامل کیے جاتے ہیں۔ چناچہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ فرہنگ ایک ایسی مخصوص لغت کو کہا جاتا ہے کہ جس کے مشمولات کسی نہ کسی معنوی توسیع کے حامل ہوتے ہیں۔فرہنگ میں شامل اندراجات کے تما م جدید و قدیم معنی کی بجائے صرف وہی معنی درج کیے جاتے ہیں جس کے لیے انھیں خاص طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
ہئیت اور موضوع کے اعتبار سے فرہنگ کو درج ذیل زُمروں میں رکھا جا سکتا ہے:
شخصی فرہنگ:شخصی فرہنگ کے زُمرے میں ایسی فرہنگ کو رکھا جا سکتا ہے جس میں کسی خاص ادیب یا شاعر کے ذریعہ استعمال ہونے والی لفظیات کو یکجا کیا جائے۔ کتابی شکل میں لفظیات کیے گئے اسی مجموعہ کو شخصی فرہنگ کہا جاتا ہے۔
موضوعاتی فرہنگ:کسی ایک مخصوص موضوع یا مضمون کو بنیاد بنا کر یا مضمون سے متعلق لفظیات، ترکیبات،علامات،تلمیحات اور اصطلاحات کے مجموعے کو موضوعاتی فرہنگ کے زُمرے میں رکھا جاتا ہے۔
کتابی فرہنگ:کتابی فرہنگ کے زُمرے میں ایسی فرہنگ شامل ہے جو صرف کسی ایک کتاب میں مخصوص اور اصطلاحی الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے۔کتابی فرہنگ میں استعمال شدہ لفظیات میں مخصوص محاورات اور ترکیبات کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
اصطلاحی فرہنگ:اصطلاحی فرہنگ زبان کے سرمایہ الفاظ سے متعلق نہیں ہوتی بلکہ مخصوص لفظوں اور خاص طور پر مرکب الفاظ تک ہی محدود رہتی ہے۔
محاوراتی فرہنگ:اس فرہنگ میں صرف محاورات اور ان کے معنی اور ان کے بر محل استعمال کو درج کیا جاتا ہے۔
تقابلی فرہنگ:اس فرہنگ میں دوسری زبان کے ہم معنی محاورات کو پیش کیا جاتا ہے۔ جس سے محاورات کے معنی ومفہوم کی صحیح طور پر وضاحت ہو جاتی ہے اور دیگر زبانوں کے الفاظ ومحاوارت کا تقابلی جائزہ بھی ہو جاتا ہے۔
فرہنگ امثال:یہ فرہنگ محاوراتی فرہنگ کی طرز پر ہوتی ہے۔ یہ فرہنگ کہاتوں سے تعلق رکھتی ہے۔
فرہنگ سازی کے بارے میں محققین کا نظریہ ہے کہ کسی خاص متن کے مشکل،مبہم اور متروک الفاظ، مقامی بولیوں اور غیرملکی زبان کے الفاظ و محاورات،ادبی اور تکینکی اصطلاحات،ان کی تعریفیں شامل فہرست ہوتی ہیں۔ بعض اوقات یہ فرہنگیں کسی خاص شاعر،ادیب یا پھر کسی مخصوص کتاب یا علمی شعبہ کے متون کے متعلق ہوتی ہیں اور اکثر انھیں کتاب کے آخر میں منسلک کر دیا جاتا ہے۔انھیں لغت کی اصطلاح میں الفبائی ترتیب سے بھی مرتب کیا جاتا ہے۔
دوسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ فرہنگ اگرچہ مخصوص زاویہ سے منتخب متن کے مشکل الفاظ کے ترجمہ پر مشتمل ہوتی ہے مگر اس کا دائرہ کار تشریح و توضیح بہت زیادہ وسیع ہوتا ہے۔اس طرح یہ لغت عام لغت سے کہیں زیادہ مفید ہوتا ہے جو الفاظ قواعد و اشتقاق اور اجزا کی تحلیل تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔
فرہنگ مخصوص فن پارے کا ہو یا مصنف کے ادب پارے سے،اگر تو محض ترجمہ تک محدود ہے جیسا کہ آج کل مختلف کتب یامصنفین کے فرہنگ تیار ہور ہے ہیں تو پھر فرہنگ کا دائرہ لغت سے بہت محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔لہذا ضرورت اس ا مر کی ہے کہ فرہنگ کے دائرہ کار کو الفاظ کے قواعد و اِشتقاق کی وضاحت سے وسیع کیا جائے تا کہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ فرہنگ سے استفادہ کر سکیں۔بابائے اُردو مولوی عبدالحق کے نزدیک ایک جامع لغت کے لیے درج ذیل خصوصیات کا ہونا ضروری ہے:
”ایک کامل لغت میں ہر لفظ کے متعلق یہ بتانا ضروری ہوگا کہ وہ کب،کس طرح اور کیسے ا س شکل میں اُردو زبان میں آیا اور اس کے بعد سے اور اُس وقت سے تاحال اس کی شکل و صورت اور معانی میں کیا کیا تغیر ہوئے۔اس کے کون کون سے معنی متروک ہوگئے اور ان تمام امور کی توضیح کے لیے زبان کے ادبیوں کے کلام سے نظائر پیش کرنا ہوں گے۔ہرلفظ کی اصل کی تحقیق کرنی ہوگی یعنی یہ بتانا ہوگا کہ یہ کس زبان کا لفظ ہے اس کی صورت وہی ہے جو اصل تھی یا بدل گئی ہے۔اصل زبان میں اس کے کیا معنی تھے اور ا ب کیا ہیں اور اگر درمیان میں کچھ تغیرات ہوئے تو وہ کیا تھے۔لفظ کی تاریخی حالت معلوم کرنے کے لیے اصل یا اِشتقاق کا معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ یہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں مماثل اور ہم علاقہ الفاظ کے صحیح تعلقات اور ہم شکل مگر مختلف الاصل الفاظ کی تحقیق اور ان میں امتیاز ہو سکتا ہے“۔(۱۸)
فارسی اُردو میں فرہنگ اور مغربی زبانوں میں Glossary کی ہئیت موضوعاتی لغت یعنیSubject Dictionary کی مانی جاتی ہے لیکن فارسی مؤلفین علم لغات کو بھی بلا تردّد فرہنگ کا نام دیتے ہیں۔جیسے فرہنگِ نظام، فرہنگ ِجہانگیری،فرہنگ ِ آصفیہ وغیرہ لغات کو فرہنگ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے،حالاں کہ ان لغات کا دائرہ فرہنگ کی نسبت کہیں زیادہ وسیع اور جامع ہے۔عام طور فرہنگ نویسی کابنیادی مقصد اشعار کی تصحیح ہوتا تھا اس طرز کے ابتدائی نمونے انگریزی،رومن، جرمن،یونانی اور فرانسیسی زبانوں میں بھی ملتے ہیں۔
اُردو فرہنگ نویسی میں اہل یورپ نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔آغا افتخار حسین کے مطابق اُردو زبان کی سب سے پہلی لغت
A Lexican Lingue Indostanicae ہے جسے ایک فرانسیسی فرانسسکو ماریا دو تور نے سترہویں صدی میں مرتب کیا۔ یہ چار زبانوں لاطینی،فرانسیسی،ہندی اور مور کے الفاظ پر مشتمل ہے۔ گریرسن نے” لنگوسٹک سروے آف انڈیا ” میں سب سے پہلی لغت مسٹر کورج کی تالیف بتائی ہے،جس میں فارسی، ہندوستانی،انگریزی اور پُرتگالی الفاظ یکساں درج ہیں۔یہ لغت مخطوطوں کی صورت کتب خانوں کی زینت ہیں۔
اٹھارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں “جان جو شو کیتلار” کا نام سانے آتا ہے۔ اس نے” صرف و نحو ہندوستانی” کے نام سے اُردو زبان میں گرائمر لکھی۔ اس کا ترجمہ David Mill نے کیا اور اپنی کتاب Miscellea Brientalia میں شامل کر کے 1743ء میں شائع کیا۔ یہ کتاب لاطینی زبان میں ہے۔ہندوستانی (اُردو) الفاظ اور عبارتیں رومن میں لکھی گئی ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ حروف ہندوستانی جدول میں ہندوستانی الفاظ اور املا میں درج ہیں۔ ان الفاظ کا املا ولندیزی خط کے مطابق ہے۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں زیادہ تر کام فرانسیسی اور پُرتگالیوں کا ہے۔
اُردو فرہنگ نویسی کی روایت میں انگریز مصنفین نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ 1800 میں فورٹ ولیم کالج قائم ہوا۔ ڈاکٹر گلکرسٹ انتہائی نامساعد حالات کے باوجود 1857ء سے قواعد و لغت پر کام کر رہے تھے۔ڈاکٹر گلکرسٹ کے کام کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:۱۔انگریزی ہندوستانی ڈکشنری ۲ حصوں میں مطبوعہ 1793ء۲۔اورینٹل لنگوسٹ(مشرقی زبان داں) جو اُردو زبان کا آسان قاعدہ ہے۔مطبوعہ 1798ء۳۔ہندوستانی گرائمر مطبوعہ 1796ء۴۔مشرقی زبان داں کا خلاصہ مع اضافہ جدید مطبوعہ1800ء۵۔فارسی فعل کا نظریہ جدید مع مترادفات ہندوستانی مطبوعہ 1801ء۶۔قصص مشرقی(انگریزی سے اُردو میں ترجمہ) مطبوعہ 1803ء۷۔رہنمائے زبان اُردو مطبوعہ 1804ء۸۔ہندی عربی کا آئینہ(عربی الفاظ کے نقشے کو اُردو زبان سے خاص تعلق رکھتے ہیں)مطبوعہ 1804ء۹۔قواعد اُردو مطبوعہ 1809ء۱۰۔اُردو رسالہ گلکرسٹ مطبوعہ 1820ء۱۱۔انگریزی ہندوستانی بول چال مطبوعہ1820ء،لندن۔(۱۹)
ڈاکٹر عطش درانی کے بقول اُردو کا پہلا مکمل لغت ہنری ہیرس نے 1790ء میں مدارس سے شائع کیا۔اس کی کتاب” اے ڈکشنری آف انگلش اینڈ ہندوستانی” ایک مکمل اور جامع کتاب ہے۔ لفظ لکھنے سے پہلے ان کے مآخذ کو درج کیا گیا ہے۔جان شکیسپئر کی اُردو لغت 1813ء میں طبع ہوئی۔کپتان روبک کی لغت جہاز رانی جس کا چھٹا ایڈیشن” لشکری لغت “کے نام سے 1882ء میں چھپا۔ روبک کی Hindustani Interpreter 1818ء میں چھپی۔ ڈاکٹر ولیم ہنٹر کی A Dictionary of Hindustani and English دو جلدوں میں 1806ء میں چھپی۔ وائی رابرٹ کی Indian Glossary لندن سے 1800ء میں طبع ہوئی۔ جارج کلیفر ڈوٹ ورتھ کی An Anglo-Indian Dictioanry1842ء میں طبع ہوئی۔
لغت وفرہنگ نویسی کے سلسلے میں ایک نام جوزف ٹیلرہے۔ ولیم ٹیلر نے ان سے کلکتہ سے 1808ء میں A Dictioany of Hindustani English کے نام سے لغت مرتب کروایا۔1834ء میں جان شیکسپیئر نے ان مآخذ کی بھی نشاندہی کی ہے اور اس سے استفادہ کیا گیا جیسے پریمس(1825ء) وغیرہ،ڈاکٹر ہیرس کی ڈکشنری” ڈکشنری آف انگلش اینڈ ہندوستانی” 1791ء،دکھنی” انوارِ سہلیی” 1824ء،ڈاکٹر ہر کلوڈس کی” قانونِ اسلام” 1832اور An Introductaion to the Study of Hindustani Language as Spoken in Carnatic مستشرق ڈنکن فاربس کی لغت ہے۔
ڈاکٹر ایس ڈبیلو فیلن کی English Dictionary A New Hindustani 1879ء میں لندن سے شائع ہوئی۔اس نے ڈکشنری کا ذخیرہ الفاظ کوتنوع بنانے کے ساتھ ساتھ تذکیر و تانیث کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی ہیں۔اس لغت میں ٹھیٹھ ہندوستانی الفاظ کو بطور خاص جگہ دی گئی ہے۔ الفاظ کے معانی کی اسناد،شاعری،گیتوں،محاوروں اور ضرب الامثال سے دی گئی ہے۔ اس لغت کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ سید احمد دہلوی مولف فرہنگ آصفیہ فیلن کے معاون تھے۔ فیلن کامیاب ڈکشنری کے تقاضوں اور اصولوں سے واقف تھے۔ سید احمد دہلوی نے ان کی معیت میں کام کرنے کاتجربہ حاصل کیا اور پھر فرہنگِ آصفیہ کو ایک مستند فرہنگ بنانے کی کوشش کی جو بارآور ثابت ہوئی۔
1886ء میں کرنل سر ہنری پول اور آر تھر کُک برنل نے حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام حسین ؓ کے اسمائے گرامی سے موسوم لغت ترتیب دیا۔یہ فرہنگ لندن سے طبع ہوئی۔اشتقاقی نقطہ نظر سے یہ لغت خاصی معلومات فزا ہے۔ مولفین نے اس ضمن میں ہر طرح کی معلومات جمع کر دی گئی ہیں۔ حوالہ جاتی تنوع کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 710 کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔(۲۰)
ہندوستان میں “فرہنگ نامہ قوس” مولف فخر الدین مبارک غزنوی کو اوّلیت کا شرف حاصل ہے۔ اس لغت میں عام لغات کی طرح الفاظ و محاورات کی توضیح مستند اساتذہ کے کلام سے دی گئی ہے۔اس فرہنگ کی ترتیب میں الفاظ کو موضوع کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔قدیم فارسی فرہنگ نویسی کی تاریخ اور فرہنگ نامہ “قوس” کے بارے میں پروفیسر نذیر احمد کا یہ بیان قابل ِ ذکر ہے:
”فرہنگ نامہ قوس اس لحاظ سے قابل ِ قدر ہے کہ ہندوستان میں فرہنگ نویسی کی ابتداء اس سے ہوتی ہے۔اس کے تتبع میں ہندوستان میں متعدد فرہنگیں لکھی گئیں ہیں۔۔۔ان تمام فرہنگوں کے مولفوں نے براہ راست فرہنگ نامہ “قوس ” سے استفادہ کیا ہے“۔(۲۱)
ہندوستان میں ” فرہنگ جہانگیری “پہلی لغت ہے جس میں فرہنگ نویسی کے بنیادی اُصولوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس میں ۴۴ سے زیادہ لغات کے علاوہ سیکڑوں منظوم تصانیف سے الفاظ منتخب کیے گئے ہیں۔ یہ تصنیف اکبر اعظم کے زمانے سے شروع ہو کر 1017ء ھ مطابق 1609ء میں جہانگیر کے عہد میں مکمل ہوئی۔” سراج الغات” مولف خان ِ آرزو کا شمار بھی محققانہ لغت نگاروں میں کیا جاتا ہے۔ محمد حسین برہان کی تصنیف “برہان ِ قاطع” کی بنیاد بھی مستند فرہنگوں پر ہے۔اس کے علاوہ “کشف الغات” مولف عبدالرحیم(75۔1874ء)،عبدالرشید کی تصنیف “فرہنگِ رشیدی”(1872ء)” لطائف الغات”معروف نہ فرہنگ لغات مثنوی “مولانا روم “مولف عبداللطیف(۷۷۸۱ء)،غلام سرور کی تصنیف “ہدایت اللغات” المعروف ” لغاتِ سروری”(1877ء)ٹیک چند بہار کی تصنیف” بہار عجم”(1879ء)،”ہفت قلزم”(۷ جلدیں)مولف قبول محمد(1879ء)،”فرہنگ آنند راج” (تین جلدیں)مولف محمد بادشاہ (1889ء)،”آصف اللغات” (17 جلدیں)مولف شمس العلما قبول محمد نواب عزیز جنگ متخلص بہ ولاؔ(1904۔1921ء)اور “غیاث اللغات” مولف غیاث الدین رامپوری(1921ء)فارسی کی معیاری اور مستند لغات تسلیم کی جاتی ہیں۔
یہ بات غور طلب ہے کہ اُردو فرہنگ نویسی کی ابتدا فارسی سے اُردو،اُردو سے فارسی اورفارسی میں ہندوستانی انگریزی سے ہوئی۔اُردو لغت نویسی کے ارتقاء میں سید انشا ء اللہ خاں انشا کی تصنیف “دریائے لطافت “نے اہم کردار ادا کیا۔اس کتاب کی قدرو منزلت کا اندازہ بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق کے اس قول سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے دریائے لطافت کی اہمیت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:
”انشااللہ خاں انشاء پہلے ہندی شخص ہیں جنہوں نے اُردو زبان کی لغت اور محاورے اور اس کی صرف و نحو پر غور کیا۔ان کی دریائے لطافت بے مثل کتاب ہے،جو ان کی لثانی قابلیت،وسعت نظری اور ذوق طبع پر شاہد ہے۔اگرچہ اس کتاب کو لغات کے ذیل میں شریک نہیں کر سکتے لیکن اس میں زبان کی لغت کا بہت کچھ سامان ہے اور اُردو کی کوئی لغت اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتی“۔(۲۲)
“غرائب اللغات” مولف عبدالواسع ہانسوی اُردو کی ایک اہم لغت ہے۔اس میں اُردو الفاظ، مصطلحات اور محاورات کی فارسی زبان میں تفہیم و تشریح کی گئی ہے۔ اس کی تالیف کا بنیادی مقصد فاضل مصنف نے فارسی داں طبقہ کی زبان کو سمجھنے میں اور ان کی تفہیم میں درپیش دُشواریوں کو دُور کرنا بتایا ہے۔
“غرا ئب اللغات” اُردو لغت نویسی میں نقش اوّل کا درجہ رکھتی ہے۔اُردو کی کئی دوسری لغات میں مختلف الفاظ کے مفہوم کی وضاحت میں امثال مفقود ہونے کی وجہ سے فاضل مولف نے فارسی کتب سے استفادہ کر کے تمام تر معانی و مطالب کو اس لغت کاحصہ بنایا ہے اور اس کی ترتیب فارسی کی طرزِ ہئیت پر کی ہے۔
“نوادرالالفاظ “مولف سراج الدین آرزوؔ کی مشہور تصنیف ہے۔ یہ لغت 1165ھ(1752ء)میں تدوین کی گئی۔اُردو لغت نویسی کی تاریخ میں اس لغت کو یہ اہمیت اور امتیاز حاصل ہے کہ اس میں “غرائب اللغات “کی ترمیم و تصیح کے علاوہ ضرورت کے لحاظ سے اضافہ بھی کیا گیا ہے۔بابائے اُردو مولی عبدالحق کی رائے انتہائی وقیع ہے:
”خان آرزوؔ نے غرائب اللغات کی تصیح ہی نہیں بلکہ بہت کچھ اضافہ بھی کیا ہے۔ یہ کتاب غرائب اللغات سے حجم میں بھی زیادہ ہے۔غرائب اللغات میں لفظ کے معنی اختصار کے ساتھ دیے گئے ہیں مگر خان آرزوؔ نے معنی کے ساتھ اکثر الفاظ کی تصیح بھی کی ہے اور جگہ جگہ فارسی اور ہندی کے اِشتراک و توافق کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ غالباً یہ پہلے شخص ہیں جن کی نظر اس لسانیاتی نکتہ کی طرف گئی۔خان آرزوؔ علاوہ چند فارسی کے اُردو شاعر بھی تھے۔ان کی یہ تصنیف جو اب تک گمنامی میں پڑی ہوئی تھی۔علم لغت میں بڑا پایہ رکھتی ہے“۔(۲۳)
“نفائس اللغات”،مولف مولوی اوحد الدین بلگرامی 1203ھ(1837ء)مطبع نول کشور(1869ء) فن ِ لغت نویسی کی تاریخ میں اس لیے اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں اُردو الفاظ کی تشریح فارسی میں کی گئی ہے نیز اُردو الفاظ کے ساتھ عربی فارسی دونوں زبانوں میں مترادفات بھی دیے گئے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ” غرائب اللغات” اور “نفائس اللغات” مولف میر علی اوسط رشک 1884 کی تدوین ایک ہی مقصد کے تحت کی گئی ہے۔”نفائس اللغات” کا طرزِ بیان اسے فرہنگ کہنے پر اُکستاتا ہے۔
امام بخش صہبائی کا نام اُردو لغت نویسی میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے روایت سے ہٹ کر فارسی کے بجائے اُردو میں لغت نویسی کے فن کو ترجیح دی۔ اس کتاب کے آخری باب میں اُردو کے معروف اور مستعمل محاوارت کی فہارس بھی ترتیب دی جو اُردو لغت نویسی کے ذیل میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ ان کی یہ تصنیف ۱۹۹۴ء میں شائع ہوئی۔سید ضامن علی جلال لکھنوی کی تصنیف” گلش فیض” 1881ء میں شائع ہوئی۔یہ فرہنگ 804 صفحات پر مشتمل ہے۔علاوہ ازیں مصنف کی دوسری کتاب” سرمایہ اُردو زبان” کافی مقبول ہوئی جس میں الفاظ ومحاورات کی تفہیم آسان اُردو زبان میں کی گئی ہے۔
عام لغات کے علاوہ محاورات و اصطلاحات پر مشتمل لغات بھی تالیف ہوئیں۔اس ضمن میں نیاز علی بیگ نگہت کی لغت” مخزن فوائد” کے نام سے 1882ء میں شائع ہوئی۔یہ فرہنگ قدیم دہلی کالج کے پرنسپل مسٹر بورنس کی سفارش پر مدون کی گئی۔ اس لغت میں مصنف نے محاورات کو الف بائی ترتیب دے کر ہر محاورے کی تفہیم کے لیے مستند شعرا کے اشعارات کو بطور حوالہ درج کیا ہے۔”مخزن فوائد” کے بعد” مخزن المحاورات “کے نام سے منشی چرنجی لال کی لغت 1882ء میں شائع ہوئی۔ مصنف نے ہندوؤں میں مقبول محاورات، قصوں اوردیہاتوں میں رائج محاورات کو بھی درج کیا ہے۔ اس کے علاہ پیشہ ورانہ اصطلاحات،اشعار،روزمرہ اور ضرب الاامثال کا اندراج بھی اس لغت کی عمدگی کا پیش خیمہ ہے۔
1888ءمیں محمد مرتضی عرف مچھو بیگ عاشق لکھنوی کی لغت” بہار ہند” شائع ہوئی۔ بہار ہند جو صرف ردیف” الف” تک ہی چھپ سکی،لغت نویسی کی روایت میں اس لیے اہمیت کی حامل ہے۔اُردو مصطلحات پر مشتمل ایک اور فرہنگ “فرہنگ مصطلحات” اُردو مولف اشعرف علی لکھنوی ہے،یہ لغت 1890ء میں لکھنو سے شا ئع ہوئی۔
“جامع اللغات” مفتی غلا م سرور لاہوری کی تالیف ہے۔ جس کی پہلی جلد 1890ء میں شائع ہوئی،اُردو لغت نویسی میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ اس میں بنیادی طور پر عربی،فارسی اور اُردو الفاظ ومحاورات کو درج کیا گیا ہے۔
امیر مینائی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔شاعری کے علاوہ ان کا ایک وقیع کام ان کی مرتب کردہ لغت” امیر اللغات” ہے۔ اس کی جلد اوّل 1891ء میں اور جلد دوم 1892ء میں آگرہ سے شائع ہوئیں۔ انھوں نے بڑی تحقیق،عرق ریزی اور جاں فشانی سے لغت پر کام کیا اور اسے ہر لحاظ سے معیاری بنانے کی کوشش کی لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ اس کمی کو کسی حد تک مولوی نیر نے “نور اللغات” تالیف کر کے پورا کیا۔امیر اللغات کی صرف دو جلدیں شائع ہوئیں اور یہ لغت تاحال نامکمل ہے اس کے باوجود اردو لغت نویسی کی تاریخ میں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔
“محاوراتِ نسواں و خاص بیگمات” کااشاعت کا زمانہ 1930ء ہے۔مؤلف نے اس لغت میں خاص بیگماتی زبان کو موضوع بنا کر اس کی تالیف کی ہے۔1919ء میں پرشاد شفق لکھنوئی نے” فرہنگ ِ شفق” کی تدوین کی۔اس فرہنگ میں اُردو کے مشہور و معروف شعرا غالبؔ، ذوقؔ اور آتشؔ وغیرہ کے کلام سے اسناد پیش کی گئی ہے۔ یہ محاورات پر مشتمل لغت ہے۔اس میں صر ف وہی محاورات درج کئے گئے ہیں جو ناسخؔ، آتشؔ،غالبؔ اور مومنؔ کے کلام میں موجود ہے۔
یہاں پر 1871ء کی تالیف” مصطلحات اُردو “مولف سید احمد دہلوی کا تذکرہ اس لیے بے محل نہ ہوگا کہ یہ لغت بعد میں کئی الگ الگ ناموں “ارمغان دہلی”(1878ء)،او “لغات النساء” کے نام سے شائع ہوئی۔ مذکورہ لغت کو بعدازاں اضافوں کے ساتھ” ہندوستانی اُردو لغت “کے نام سے مرتب کیا۔ چناچہ یہی لغت آخر کار “فرہنگِ آصفیہ” کے نام سے مشہور و مقبول ہوئی۔نظام دکن کی مالی امداد کے سبب فرہنگ آصفیہ کی جلد اوّل 1887ء میں، جلد دوم 1888ء میں،جلد سوم 1898 ء میں اور جلد چہارم 1901ء میں مکمل ہوئی۔
فرہنگ ِ آصفیہ نے مدت دراز تک اُردو فرہنگ نویسی پر اپنا تسلط جمائے رکھا۔تاحال بہت سی خامیوں کے باوجود اس کی اہمیت برقرار ہے کیونکہ یہ لغت فرہنگ نویسی کے ذخیرے میں بیش بہا جوہر اور ایک نئے باب کا اضافہ کرتی ہے۔یہ لغت ایک جامع اور صحیح معنوں میں فرہنگ نویسی کے زیادہ سے زیادہ تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔اس کی جامعیت اور ہمہ گیری و سعت کا اندازہ فرہنگِ آصفیہ کے دیباچے کی اس عبارت سے لگایا جا سکتا ہے:
”عربی،فارسی،ترکی،سنسکرت اور انگریزی لغات مخلوط بہ اُردو،عدالتی،بیگماتی محاورات،اہل پیشہ و اہل حرفہ کی ضروری اصطلاحات،داخل روز مرہ،ضرب الاامثال،اشارے کنائے،تاریخی واقعات،مناسب حال مادے، تذکیر و تانیث کے فیصلے،فلسفہ،طبیعات کے حسب موقع مسئلے،علم زبان کے نکتے،اُردو صرف ونحو کے قائدے،ملک کی متداولہ رسمیں،قدیم تحقیقات کے اختلاف مع نظائر نظم و نثر کثرت معانی،وجہ تسمیہ،تمام اُولیائے ہند اورتمام فقرا ہند کے اسما و گرامی مع حالات،علما نامی کے نام اور مختصر سوانح عمریاں اور دیگر امور کی تشریحات جو ۵۵ ہزار سے متجاوز ہیں“۔(۲۴)
“امیر اللغات” کے نامکمل کام کو پورا کرنے کے لیے نور الحسن کاکوری نے 1924ء میں ” نور اللغات” کی تدوین شروع کی اور اسی سال اس کا پہلا حصہ(جلد اوّل) نیر پریس لکھنؤ سے شائع کیا۔یہ لغت چار مبسوط جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی چوتھی اور آخری جلد،اشاعت العلوم پریس فرہنگ محل لکھنؤ سے 1931ء میں شائع ہوئی۔محمد ضیاالدین انصاری بیان کرتے ہیں:
”نور الحسن نیر کاکوری نے چار مبسوط جلدوں میں نور اللغات تالیف کی جو بڑی خصوصیت کی حامل ہے۔لیکن انہوں نے الفاظ کی تعبیر و تشریح میں تفصیل سے کامل نہیں لیا، نہ ہی شعر سے معنی و مفہوم کی سند پیش کی ہے۔ صرف الفاظ کے بدلے لفظ پیش کر دیا ہے۔ اسی طرح اس کے معنی میں وہ وسعت نہیں ہے جو فرہنگ ِ آصفیہ اور امیر اللغات کا طُرہ امتیاز ہے۔اس لغت کے بطور مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ فاضل مصنف نے فرہنگ ِ آصفیہ سے خصوصی استفادہ کیا ہے،جس کے باعث اکثر مقامات پر اسی ہی کے معنی ہو بہو نقل ہو گئے ہیں“۔(۲۵)
خواجہ عبد المجید کی تالیف کردہ لغت “جامع اللغات” چار مبسوط جلدوں میں 1935ء میں شائع ہوئی۔ جامع اللغات صرف اُردولغت نہیں ہے بلکہ سنسکرت،عربی اور ہندی سب زبانوں پر مشتمل ہے ۔دیگر زبانوں کے الفاظ کا ذخیرہ یکجا کرنے میں مولف کی عرق ریزی اور سخت کاوش کی تحسین لازم ہے۔
ایک اہم اور جامع لغت” فرہنگِ عامرہ “محمد عبداللہ خاں خویشگی کا مدون کردہ ہے۔ جس میں اُردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے عربی، فارسی اور ترکی الفاظ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایک اورقابلِ ذکر لغت مولوی فیروز الدین کا” فیروزاللغات” منظر عام پر آیا۔ اس لغت میں مولف نے متدوال الفاظ، مصطلحات،مرکبات،محاورات،ضرب الامثال،سائنسی و فنی اصطلاحات وغیرہ کو شامل تو کیا ہے۔یہ لغت اوسط درجے کی ہے اور عام استعمال کے لیے موزوں ہے۔
لغت و فرہنگ میں مقتدرہ کا ایک اہم کارنامہ ڈاکٹر جمیل جالبی کی “قومی انگریزی اُردو لغت” اور شان الحق حقی کا “فرہنگ تلفظ” ہے۔ ضرب الامثال کی تدوین کے حوالے سے پروفیسر مسعود حسن رضوی کی “فرہنگِ امثال” خصوصیت سے قابلِ ذکر ہے۔ مرزا محمد مہذب لکھنوی کو اُردو لغت نویسی میں منفرد مقام حاصل ہے۔ ان کی مایہ ناز تصنیف مہذب اللغات کو اُردو لغت نویسی میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ لغت چودہ جلدوں کو محیط ہے جس میں مؤلف نےالفاظ و محاورات، مرکبات،اصطلاحات اور رمزیات کا اندراج مستند شعرا کے کلام نثر ونظم سے تحریر کیا ہے۔
دورِ حاضر کی سب سے بڑی جامع، مفصل اور ضخیم لغت” اُردو لغت “ہے۔یہ ترقی اُردو بورڈ کراچی سے شائع ہوئی۔یہ تاریخی اُصول پر آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے طرز پر مرتب کی گئی ہے۔ اس لغت کی بنیاد بابائے اُردو مولوی عبد الحق نے رکھی تھی۔ ترقی اُردو بورڈ کراچی کے قیام کے دوران ہی 1958ء میں اس پر کام شروع ہو گیا تھا۔یہ کام بڑے پیمانے پر انجام دیا گیا اور جن اسکالرز نے اس لغت کی تدوین میں سخت کاوش سے لیا وہ لائق صد تحسین ہے۔
جابر علی سید اُردو لغت کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:
”چونکہ یہ ایک تاریخی لغت ہے جو جدید لسانیاتی اُصول پر مرتب کی گئی ہے لہذا آکسفورڈ ڈکشنری کی طرح اس میں بھی قدیم و جدید،متروک و رائج سب ہی قسم کے الفاظ درج کئےگئے ہیں۔ ایک طرف عام بول چال کے الفاظ ہیں تو دوسری طرف علمی و فنی اصطلاحات کوبھی نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔کہاوتوں اور محاوروں کا بڑی حد تک احاطہ کیا گیا ہے“۔(۲۶)
۱۹۶۰ء کے بعد کلاسیکی ادب کی تدوین و ترتیب کا ایک خوشمنا دور شروع ہوتا ہے جو کا لائق تحسین پہلو یہ ہے کہ اصل متن کے علاوہ اس میں استعمال ہونے والے ثقیل،نادر اور غیر مانوس الفاظ کے معانی بھی درج کئے جاتے ہیں۔اس کام کے لیے دو طریق ہائے کار استعمال کیے گئے۔ اوّل یہ کہ ہر صفحہ پر حواشی کے تحت لکھ دیا جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ کتاب کے آخر میں فرہنگ ترتیب دی جاتی ہے۔لہذا اسی فکر کے زیر اثر میرتقی میرؔ،میر حسنؔ، محمد قلی قطب شاہ، دیا شنکر نسیم،ابن نشاطیؔ، شوق ؔلکھنوی، ذوقؔ،سوداؔ، میر امن، رجب علی بیگ سرور،ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ کی شعری و نثری تخلیقات کی جدید ترین اشاعت، فرہنگ نویسی کی روایت میں ایک قابل ستائش کارنامہ ہے۔ان فرہنگوں کی تدوین کا اہم مقصد مطالب ومعانی و مفاہیم کو سمجھنے میں آسانی کو پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہ ہمیں قدیم کلاسیکی ادب سے روشناس کراتی ہیں اور ان کے معنی متعین کرنے میں سہولت فراہم کرتی ہیں۔
۱۹۷۲ء میں میر انیس پر ایک فرہنگ مرتب کی گئی۔یہ عظیم کام نائب حسین نقوی نے انجام دیا۔ مشکل الفاظ کے معنی ومفہوم کی تشریح کرنے کے علاوہ عام اور آسان الفاظ کو بھی شامل فرہنگ کیا گیا ہے۔اُردوئے معلی کو پروقار رتبہ عطا کرنے کے لیے اور اسے خاص و عام مقبولیت دلانے میں میر تقی میرؔ کے کل دواین پر مشتمل فرہنگ۔”فرہنگِ کلیاتِ میر”ؔ جناب فرید احمد براکاتی نے ترتیب دی۔ اس مقالے پرمصنف کو راجھستان یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند تفویض ہوئی۔اس فرہنگ کی اشاعت ۱۹۸۸ء میں ہوئی۔
نواب مرزا داغ ؔخان دہلوی اُردو کے مشہور ومعروف شاعر گزرے ہیں۔داغ کے کلام کا احاطہ کرتے ہوئے جناب ولی احمد خاں نے” محاورات داغ “ترتیب دے کر ایک مایہ ناز کام انجام دیا۔ اس فرہنگ میں داغؔ کے مخصوص محاوروں کے معنی اور حسب موقع تشریح بھی کی گئی ہے۔ سند کے طور پر داغؔ کا شعر بھی دیا گیا ہے جس میں وہ محاورہ آیا ہے۔ اس فرہنگ کے مطالعے سے داغ ؔکے کلام کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
محمد ضیاالدین انصاری نے لغت نویسی میں ایک الگ طِرح ڈالی۔انھوں نے “اُردو مثنوی کی فرہنگ” مرتب کی۔ یہ فرہنگ ۱۹۹۸ء میں لبرٹی آرٹ پریس دہلی سے شائع ہوئی۔ مولف کا خیال تھا کہ مختلف اصناف نظم و نثر جداگانہ حیثیت سے کام کیا جائے، لیکن مصروفیت کے باعث مولف اپنے اس خیال کو عملی جامع نہ پہنا سکے۔اسی طریق پر ۲۰۰۰ء “فرہنگ فسانہ آزاد اور اس کا عمرانی،لسانیاتی مطالعہ” کے عنوان سے ایک کتاب نما لغت شائع ہوئی جس میں سرشارؔکے تمام تر کام کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے جوکہ بہت وقیع اور لائق صد تحسین ہے۔ایک اور قابلِ ذکر فرہنگ،” فرہنگ کلیات نظیر”،اُردو لغت نویسی میں بیش قیمت اضافہ ہے۔ علامہ اقبال کے کلام پر بھی متعدد فرہنگیں ترتیب دی گئی ہیں جن میں، آسان کلیات ِ اقبال مع فرہنگ،فرہنگ کلیات اقبال، فرہنگ ِ کلیات اقبال فارسی،تلمیحاتِ اقبال،تلمیحاتِ و اشاراتِ اقبال وغیرہ خصوصیت سے قابل ِذکر ہیں۔
فرہنگ نویسی کی روایت کا سلسلہ اٹھارہویں صدی سے ہوتا ہوا بیسویں صدی تک آتا ہے اور اب یہ روایت اتنی مستحکم ہو چکی ہے کہ اب مختلف سرکاری و نجی یونیورسٹیوں میں شعرا و ادبا کے تمام تر کام کی تفہیم کے لیے فرہنگ نویسی کا باقاعدہ کام ایم۔اے،ایم۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی کی سطح پر ترتیب دیے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے پنجاب یونیورسٹی،بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،بہاالدین ذکریا یونیورسٹی، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور وغیرہ میں متعدد مقالات ِ فرہنگ ترتیب دئے جا چکے ہیں۔
اس سلسلے کو مزید فروغ دینے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس روایت کو فروغ دینے کے لیے ایسی فرہنگیں دیگر کلاسیکی وجدید شعرا اور ادبا ء کی تخلیقات پر مشتمل مدون کی جائیں۔جن کے توسط سے الفاظ ومحاورات، تلمیحات و اصطلاحات،روز مرہ، ضرب الامثال اور علامات وغیرہ کو ایک جگہ مجتمع کیا جائے تاکہ اس نادر ذخیرے کو فرہنگ نویسی کے جدید اُصولوں کی روشنی میں معیاری اور جامع فرہنگیں اشاعت ہوں، جو اُردو ادب کے طالب علموں اور قارئین کے لیے بارانِ رحمت ثابت ہوں۔اُردو زبان کی ایک مکمل،جامع اور ضخیم لغت مرتب کرنا ناممکن نہ سہی لیکن مشکل اور صبر آزما کام ضرور ہے۔ اس کا آسان طریقہ ہے کہ ابتدائی مرحلے میں ہر صنف کی الگ الگ فرہنگیں مرتب کی جائیں۔اس طرح فرہنگ نویسی کی روایت میں وسعت و جامعیت پیدا ہونے کے ساتھ اس صنف کے ساتھ دیگر اصناف کے الفاظ ومحاورات کو یکجاکرکے ایک جامع اور ضخیم فرہنگ کی شکل میں مرتب کرنا ممکن ہو جائے گا۔
اُردو زبان میں اس نوعیت کی فرہنگوں اور حوالے کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ مختلف لغات، فرہنگوں اور حوالے کی کتابوں میں تھوڑا بہت موادہی مل پاتا ہے اور باقی مواد ابھی تک منتشر حالت میں جا بجا بکھرا ہوا ہے۔جب تک اس مواد کو ایک جگہ جمع کرکے اس پر عمیق مطالعے نہیں کئے جاتے،تب تک اُردو کی معتبر اور جامع لغت کی تکمیل کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف شعرا اور ادبا کے کلام اور نثر پاروں کی جدا جدا فرہنگیں ترتیب دی جائیں،پھر ان مختلف اصناف و موضوعات کی فرہنگوں کو یکجاکر کے ان کی مدد سے جامع، مستند،معتبر اور ضخیم لغت کو مرتب کیا جائے۔ اس طرح اُردو زبان و ادب کے ذخیرہ الفاظ اور کثیر سرمائے کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کسی بھی کے کلام اور نثر کو سمجھنے میں آسانی رہے گی اور زبان و ادب،تہذیب و تمدن اور معاشرت کے مسائل پر بھی با آسانی تحقیق و تنقید کی جا سکے گی۔
حوالہ جات
۱۔ زیبا ناز،ڈاکٹر،فرہنگ کلیات ذوقؔ،غیرمطبوعہ مقالہ برائے ایم،فل اُردو،لاہور،اورینٹل کالج،لاہور،ص،۴
۲۔فیروز الغات (اُردو)مرتبہ، مقبول بیگ بدخشانی،لاہور،فیروز سنز،۲۰۰۴ء
۳۔فرہنگ آصفیہ،مرتبہ،سید احمد دہلوی،لاہور،سنگ میل پبلی کیشنز،۲۰۱۰ء
۴۔علمی اُردو لغت(جامع)،مرتبہ،وارث سرہندی،لاہور، علمی کتاب خانہ لاہور،۱۹۸۳ء
۵۔فیرو الغات (فارسی)،مرتبہ، مقبول بیگ بدخشانی،لاہور،فیروز سنز،۲۰۰۴ء
۶۔جامع الغات،مرتبہ،عبدالمجید،لاہور،اُردو سائنس بورڈ،لاہور،سن(ندارد)
۷۔فرہنگ عامرہ،مرتبہ،عبداللہ خاں خویشگی،اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان،۲۰۰۸ء
۸۔غیاث الغات،مرتبہ،غیاث الدین محمد،لکھنؤ،مطبع انوار محمدی،۱۲۴۳ء
۹۔اُردو لغت(جلد اول تا بتسیم)تاریخی اصول پر،کراچی،اُردو لغت بورڈ
۱۰۔جمیل،جالبی،ڈاکٹر،قومی انگریزی لغت اردو،مقدرہ قومی زبان،طبع پنجم،۲۰۰۲ء اسلام آباد
۱۱۔قومی انگریزی اُردو لغت،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،۱۹۹۲ء
۔۱۲Ref.:jami English to Urdu Dictionary NCPUL,India,Page No,963
۔۱۳Ref:the New Lexicon Webster Dictionary of the english Language,new yark,publishers Inc,1989
۔۱۴platts,john.T.Dictionary of Urdu Clasical Handi and English.Oxford: Oxford University press,1885
۱۵۔انصاری،ضیاالدین،ڈاکٹر محمد،غالب نامہ(مجلہ) دہلی،شمارہ۔۰۱ جنوری ۱۹۸۸،ص۱۱۵
۱۶۔گیان چند،ڈاکٹر،تحقیق کا فن،مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،۲۰۰۳،ص،۴۲۰
۱۷۔کرن الطاف،فرہنگ ِکلیات سوداؔ،غیرمطبوعہ مقالہ برائے ایم،فل اُردو،لاہور،اورینٹل کالج،لاہور،۲۰۱۴ء،ص،۶
۱۸۔عبدالحق،مولوی،ڈاکٹر،مقدمہ جدیداُردو لغت،مشمولہ،مجلہ غالب نامہ،جنوری ۱۹۸۸،ص:۱۱۸
۱۹۔جابر علی،سید،مکتوبات مقتدرہ،وضاحتی فہرست،اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان،۱۹۹۳،ص،۳۴
۲۰۔جابر علی،سید،مکتوبات مقتدرہ،وضاحتی فہرست،اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان،۱۹۹۳،ص،۳۸
۲۱۔قریشی،شریف احمد،مقدمہ: فرہنگ فسانہ آزاد اور اس کا عمرانی ولسانیاتی مطالعہ،۲۰۰۰ء،ص،۱۳
۲۲۔عبدالحق،مولوی، رسالہ(اُردو سہ ماہی ج ۸۳ شمارہ۔۱۔۲۔جنوری تا اپریل، ۱۹۸۸ص،۱۹
۲۳۔عبدالحق،مولوی، رسالہ(اُردو سہ ماہی ج ۸۳ شمارہ۔۱۔۲۔جنوری تا اپریل، ۱۹۸۸ص،۱۹
۲۴۔احمد دہلوی،سید،مولوی،مقدمہ:فرہنگ آصفیہ،ج اوّل،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۸،ص،۱۹
۲۵۔محمد ضیا الدین،انصاری،مقدمہ: اُردو مثنوی کی فرہنگ،لبرٹی آرٹ پریس،نئی دہلی،۱۹۹۸ء ص،۲۳
۲۶۔جابر علی،سید،مکتوبات مقتدرہ،وضاحتی فہرست،اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان،۱۹۹۳،ص،۳۴
***
عالی وقار
لغت کے منتشر اوراق کو یک جا کر کے مستقبل کے سکالرز کے لیے سہولیات فراہم کریں