شاہ جہاں بیگم گوہرؔ کرنولی
پی۔ایچ۔ڈی۔اسکالر،ایس۔وی۔یونی ورسٹی
تروپتی، آندھراپردیش،انڈیا۔
آزادیٔ ہند میں اردوشعراءکردار
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی ملک کی تاریخ و تہذیب کا انقلاب لوگوں کی زندگیوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ پہلے پہل وہاں کا ادب بھی متاثر ہوتا ہے، پھر ایسا ہوتا ہے کہ بعد میں خود ادب اس ملک کے معاشرتی رجحانات متعین کرنے میں لگ جاتا ہے۔ عموماً شعرائے ادب کو سیاسی اور سماجی عوامل ہی کی طرف سے مواد ملتا ہے۔ چوںکہ انہی کی تحت میں تحریکیں ابھرتی اور پنپتی ہیں۔ اسی لیے ان میں سے خاص کر اظہار خیال ضروری معلوم ہوتاہے۔
آزادی ایک نعمت ہے۔ اور غلامی ایک لعنت۔ یہ آدمی کی فطرت ہے کہ وہ آزادی کو پسند کرتا ہے اور غلامی سے نفرت کرتا ہے ایک عام تاثر ہے کہ :
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا
آزاد روی اور آزاد ی دو الگ الگ چیزیں ہیں اس لیے کہ بعض قوموں کی کچھ پوشیدہ اغراض انھیں اندرونی طور پر جکڑے رہتی ہیں چنانچہ شاعر کا تاثر یہ ہے
مجھے تہذیب حاضرنے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری
ہمارے اس ملک میں صدیوں کی غلامی کی وجہ سے ساری فضا پر ذہنی نظریاتی، تہذیبی اور عملی نقطہ نظر سے مرعوبیت طاری تھی۔ یہاں تک کہ جو طور طریق مغرب سے ’’سند جواز‘‘ پائیں وہ یہاں قابل تقلید تھے۔ چاہے وہ ہندوستانی معاشرے کے مزاج کے مطابق ہوں یا نہ ہوں۔ ظاہر ہے یہ کیفیت بڑی تشویش ناک تھی۔ اتنے بڑے قومی خسارے کا مداوا بس حصول آزادی ہی کی صورت میں ہوسکتا تھا۔ محمد علی جوہرؔ کی وہ تقریر جو سنہ 1930ء میں گول میز کانفرنس کے موقع پر لندن میں کی گئی اس پر شاہد عدل ہے یہ محض الفاظ نہ تھے بلکہ ایک سچے محب وطن کے دل کی آواز تھی جن کو پڑھ کر آج دل تڑپ جاتے ہیں یہاںاس کا ایک چھوٹا سا اقتباس دیکھتے چلیے:
’’میں آپ سے درجۂ متعمرات لینے کے لیے نہیں آیا میں مکمل آزادی کے عقیدے کا قائل ہوں۔ میں اسی وقت اپنے ملک کو واپس جاؤں گا جب آزادی کا منشور میرے ہاتھ میں ہوگا۔ میں ایک غلام ملک کو لوٹ کر نہیں جاؤں گا۔ مجھے ایک غیر ملک میں جو آزاد ہے مسافری کی موت منظور ہے۔ اگر تم مجھے آزاد نہیں دو گے تو پھر تمھیں میرے لیے ایک قبر کی جگہ دینی ہوگی۔‘‘ (بحوالہ: علی گڑھ میگزین)
اس وقت آزادی نہیں ملی مگر قدرت نے اس شہیدِ آزادی کو خالی ہاتھ لوٹ آنے کی ذلت سے بچالیا۔ حسن اتفاق سے اسی سفر میں ان کی موت واقع ہوگئی اور ترکی میں تدفین ہوئی۔ برسوں پہلے غالبؔ نے کہا تھا:
مارا دیارِ غیر میں لا کر وطن سے دور
رکھ لی مرے خدانے مری بے کسی کی لاج
عجیب بات تھی کہ وہ خود بھی اپنے متعلق پیشن گوئی کر چکے تھے کہ:
ہے رشک ایک خلق کو جوہرؔ کی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے
ہمارے دیگر شعرأ بھی غلامی کی وجہ سے زندگی پر پڑنے والے اثرات کو ظاہر کرتے رہے مثلاً محرومؔ نے کہا:
غریبی بدنصیبی تلخ کامی بڑھتی جاتی ہے
وطن کی آہ معیادِ غلامی بڑھتی جاتی ہے
محرومؔ وطن جب تک آزد نہیں ہوتا
سو بار بسنت آئے دل شاد نہیں ہوتا
ظفر علی خان نے ظاہری کوششوں کے علاوہ خدا سے دعا کیا تھا:
ہند کو بھی اے خدا قیدِ غلامی سے چھڑا
اپنے گھر کا ہم کو بھی مالک بنا، مختار کر
جب تک آزادی نہ ہوگی ہم نہ ہوں گے شاد کام
دیکھنے یہ عمر کب تک تلخ کامی میں گئے
تحریک آزادی کے سلسلے میں حسرتؔ موہانی بار ابر جیل جاتے رہے جس کے باعث ان کی طبیعت میں مستقل مزاجی صبر ورضا توکل ایک کیفیت پیدا ہوگئی تھی اس کا عکس ان کی شاعری میں جھلکتا ہے۔ مثلاً :
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
بے شمار جان نثاران وطن سے قید و بند کی مصیبتیں جھیلیں آصف علی نے سات سال جیل کاٹی انھیں چکی کی مشقت تو نہیں ملی مگر تنہائی کی مصیبت دور کرنے کے لیے انہوں نے کاغذ قلم سنبھالا اور زندانی ادب کی بنیاد ڈالی۔ اس طرح ہمارے عظیم رہنماؤں مثلاً گاندھی، نہرو، آزاد وغیرہ نے قید کے زمانے میں نہایت قیمتی تحریریں سپرد قلم کیں۔
ان میں وحید الدین سلیمؔ کے یہ اشعار فضا میں گونج چکے تھے:
اگر آزادی ہندوستان پنہاں ہے جیلوں میں
تو ہے مشتاق ہر ہندی درودیوار زنداں کا
کبھی روکے سے رکتا ہے کہیں یہ ذوقِ آزادی
دہانے سے بھڑک اٹھتا ہے شعلہ آہ ِ سوزاں کا
اس جدوجہد کے دوران گاندھی جی وغیرہ نے عدم تشدد کی ایک فضا بنائی تھی اس کے مثبت پہلو کو ذہن نشین کرانے کی فکریں برابر جاری تھیں۔ ہر حلقہ میں کچھ جلد باز طبیعتیں بھی ہوا کرتی ہیں۔ آزادی کے چاہنے والوں میں ایسوں کی کمی نہ تھی انگریزوں سے نفرت کی وجہ سے انتقامی اقدامات کیے ان انقلابیوں سے بے شک کچھ زیادتیاں بھی ہوئیں۔ جس کی بناپر انھیں قید یں اور سزائیں ہوتی رہیں۔ انھیں لوگوں میں بھگت سنگھ اشفاق اللہ خان، رام پرشاد بسمل، چند شیکھر آزاد وغیرہ ہیں۔
اسی زمانے میں غلام بھیک نیرنگؔ کی دعوتِ عمل ،نہالؔ کی وطن رواں کی ہندوستان، جگرؔ بریلوی کی بھارت ،صفیؔ کی صحیفہ قوم محمود اسرائیلی کی نالہ عندلیب، شفیق کی میرا دیس، شادؔ کی مادرِ وطن اور خواب وطن آزاد انصاری کی پیغام ِوطن نامی نظمیں کافی مشہور ہوئیں۔
یحییٰ اعظمی نے اپنی قربانی کو حصولِ مقصد تک پہنچا دینے پر زور دیا:
چلیں گر گولیا بھی عرصہ پیکار میں تم پر
تو سینہ تان کر اک آہنی دیوار ہو جاؤ
بڑھو ہاتھوں میں لے کر جنگِ آزادی کے پرچم کو
جوانانِ وطن کے قافلہ سالار ہوجاؤ
ساغرؔ نظامی نے آزادی پر بہت ہی دل پر تیر کی طرح پیوست ہونے والے اشعار لکھے تھے نمونہ کے طور پر پیش ہے:
حکم آخر قتل گہ میں جب سنایا جائے گا
جب مجھے پھانسی کے تختے پر چڑھایا جائے گا
جب یکایک تختہ خونیں ہٹایا جائے گا
اے وطن اس وقت بھی میں تیرے نغمے گاؤں گا
جمیلؔ مظہری کی نوائے جرس کا تیکھا لہجہ نظم کے ان اشعار سے ان کا عزم ظاہر ہورہا ہے:
سروں سے باندھ کر کفن بڑھے چلو بڑھے چلو
امید مادرِ وطن بڑھے چلو بڑھے چلو
دعائیں دے رہی ہے ماں بڑھے چلو بڑھے چلو
برادرانِ نوجواں بڑھے چلو بڑھے چلو
شورشؔ کاشمیری نے اس موضوع پر نئے دور کا فرمان، ذراصبر وغیرہ نظمیں لکھیں۔ اس زمانے میں اخترؔ شیرانی کی لوری بہت مشہور ہوئی۔
وطن کی جنگِ آزادی میں جس نے سر کٹایا ہے
یہ اس شیدائے ملت باپ کا پر جوش بیٹا ہے
مجاز کی نظم اندھیری رات کا مسافر کے اندر عزم صمیم کے اظہار کا نمونہ تھی۔مخدوم محی الدین کے جوشیلے لہجے والے اشعار :
کہو ہندوستان کی جئے کہو ہندوستان کی جئے
چھپی خاموش آہیں شورِ محشر بن کے نکلی ہیں
بدل دی نوجوان ہند سے تقدیر زنداں کی
ان دنوں الطاف مشہدی اپنی نظم جھوم کر اٹھو وطن آزاد کرنے کے لیے کی وجہ سے مشہور ہوئے اور شمیم کریانی کا یہ شعر مقبول عام ہوگیا تھا:
ہم پرچم قومی کو لہرا کے ہمالہ پر
دشمن کی حکومت کے جھنڈے کو جھکادیں گے
امین سلونوی نے اپنی نظم قوم سے خطاب میں کہا:
آسماں کی سی نہ تجھ کو حرص و رفعت چاہیے
ہاں یہ سب بے کار ہیں تھوڑی سی ہمت چاہیے
اپنی ملت اپنا ملک اپنا وطن آزاد کر
جس قدر بربادیاں میں اٹھ انھیں برباد کر
سکندر علی وجد، مطلبی فرید آبادی احمقؔ پھپھونہ وہی سلامؔ مچھلی شہری بھی عنوان آزادی پر برابر لکھے جارہے تھے۔
جوشؔ ملیح آبادی اپنی گھن گرج کے لیے بہت مشہور تھے۔ ایک شعر ملاحظہ کیجیے:
دور محکومی میں راحت کفر عشرت ہے حرام
دوستوں کی چاہ آپس کی محبت ہے حرام
1857ء کی ناکام جنگ سے ہندوستان کی تمام زبانوں میں احتجاجی و انقلابی ادب کا سلسلہ شروع ہوا جو کہ 1947ء کی جنگِ آزادی تک جاری رہا۔ اردو ایک ایسی زندہ زبان ہے جس نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا تھا۔ اس نعرے میں ہندوستان کی تمام زبانیں، مذہب اور ہندوستانی عوام سبھی شامل تھے اردو کا یہ نعرہ آج بھی گونجتا ہے۔ اس میں جو شدت تاثر اور احتجاج نیز پیغام ہے اس کا نعم البدل ہندوستان کی کسی بھی زبان کے پاس نہیں۔ ایک ایسا عہد آفرین نعرہ جس نے ملک کی جدوجہد آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا لفظ ’’انقلاب‘‘ میں 1936ء سے 1960ء تک کی ترقی پسند تحریک کا منشور سما گیا تھا اور یہ لفظ ترقی پسند فنکاروں کو بے حد مرغوب تھا۔
علامہ سیمابؔ بالیدہ ذہن کے فطری تخلیق کار تھے۔ مذہبی ادبی اور سیاسی شعور کے حامل اس عظیم المرتبت شاعر نے ’’نیستان‘‘ سے لے کر ’’شعر انقلاب‘‘ تک اپنے اسی شعور کو شاعری کیا تھا کہ نظموں کے ان چار مجموعوں کو اگر ہندوستان کا داستان نامہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ان مجموعوں میں کیا نہیں ہے۔ قومی ملی، سیاسی، شخصی منظومات کے علاوہ بچوں کے لیے بھی نظموں کا زبردست خزانہ موجود ہے۔
شعر انقلاب کی دوسری نظم ’’جاگ اے ہندوستان‘‘ 22اشعار کی اس نظم کو علامہ کا عروضی اجتہاد بھی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اکثر نظمیں اسی ہیئت میں کہی ہیں نمونے کے لیے ایک بند ملاحظہ کیجیے:
انقلاب وقت کا سورج ہے سر پر ضوفشاں
جاگ اے ہندوستاں!
اور تو اب تک ہے محو غفلت خوابِ گراں
جاگ اے ہندوستاں!
امن کے ڈاکو کنارے تک وطن کے آگئے
سر پھر صیاد ڈانڈے تک چمن کے آگئے
جوش میں بد خواہ شیخ و برہمن کے آگئے
قہر بن کر آگئے طوفان بن کے آگئے
وار سوتے میں نہ کردیں دشمن امن و اماں
جاگ اے ہندوستاں!
اس نظم میں جاگ اے ہندوستاں ٹیپ کا مصرع ہے۔ اور اسی تکرار میں پورے نظم کو ابھارا گیا ہے ۔ اس ایک مصرع سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ 1945ء سے 1947ء کے دوران ہندوستان کی سیاسی و سماجی حالت کیا تھی۔ علامہ پورے ہندوستان کو خواب غفلت سے بیدار کرنا چاہتے تھے۔ اسی نوع کی نظموں میں ہندوستان خطرے میں ہے اور’’ خطرہ‘‘ بھی شامل ہے۔ ان نظموں میں بھی سیمابؔ کی فکری تڑپ کا احساس بیدارہوا ہے۔
اکبرؔ الہ آبادی نے اہل اقتدار کی جھوٹی تاویلوں سے چڑ کر کہہ دیا:
بے ڈھب ہے جھوٹ و سچ کی چھڑی جنگ ہند میں
سچ کہتے ہیں جو جھوٹ ہو کہتے تو روسیاہ
جیسے بھی ہم ہیں آپ تو ہیں ہم پہ حکمراں
جھوٹے ہیں ہم تو آپ ہیں جھوٹوں کے بادشاہ
شعرائے اکرام تو ان کی شعری پاداش میں سزائیں قید وبند اور دار پر چڑھایا گیا۔
مجروحؔ اور سالکؔ کو جلا وطنی ملی عباس علی نادر اور مولانا کامی کو پھانسی ہوئی ۔ مولانا کامیؔ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب ان کو سولی دی جارہی تھی تو پہلے کلمہ شہادت پڑھا پھر یہ شعر
ہم سفیر و باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
مومن خان مومنؔ نے وطن پر مرمٹنے والوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا:
لگاؤ آنکھوں سے اس خاک پاک کو مومنؔ
لہو سے جس کے شہیدوں نے لالہ زار کیا
فیضؔ کو سر گودھا اور لائل پور کے جیلوں میں تین مہینوں کی قید تنہائی کاٹنا پڑا۔ وہ بہت مشکل دن تھے۔ کاغذ قلم دوات کتابیں اخبار خطوط سب چیزیں ممنوع تھیں۔ انہوں نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
ترقی پسند شعرأ کی سکہ بند لفظیات و موضوعات اور اسلوب و آہنگ مجروحؔ و فیضیؔ سردار جذبی سب کے بیان تقریباً یکساں تھے۔ یعنی حصول مقصد آزادی تھاشعرائے اکرام نے آزادی ہند میں اپنا اک فعال کردار ادا کیا ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔اختر شیرانی کے یہ الفاظ:
عشق و آزادی بہار زیست کا عنوان ہے
عشق میری جان ہے آزادی مرا ایمان ہے
عشق پر کردوں فدا میںا پنی ساری زندگی
لیکن آزادی پر میرا عشق بھی قربان ہے
کتابیات
ڈاکٹر ابواللیث ’’نوائے آزادی‘‘
امداد صابری 1857ء کے مجاہد شعرأ فرنگیوں کا جال
آزاد اسرار احمد، مکمل تاریخ آزاد ہند٭
***