You are currently viewing اڈیشا کا انشائیہ نگار :منیر ارمان نسیمی

اڈیشا کا انشائیہ نگار :منیر ارمان نسیمی

گلنارا خاتون

ریسرچ اسکولر ،یونیور سیٹی آف حیدآباد

اڈیشا کا انشائیہ نگار :منیر ارمان نسیمی

         اردو ادب میں انشائیہ کی روایت یوں تو بہت قدیم ہے ۔اردو ادب میں لفظ انشائیہ انگر یزی لفظ essay کے مضمون میں  استعمال ہوا ہے ۔اردو کے ابتدا میں انشائیہ کے لیے لفظ مضمون استعمال کیا جا تا تھا ۔لیکن یہ روایت دیر تک نہیں چلی ۔وقت گزر نے کے ساتھ اردو ادب میں بعض ایسے ادب پارے تخلیق کئے جانے لگے ،جو غیر رسمی انداز بیان اور ایک منفرد اسلوب کی بنا پر مرا سلوں ،مقا لوں وغیرہ سے مختلف نو عیت کے حامل تھے ۔اس نوعیت کے مضامین کو لائٹ ایسے ،انشائیہ وغیرہ کا نام دیا جانے لگا ۔اور بعد میں اس کا نام یہی رکھاگیا ۔ڈاکڑ سلیم اختر لکھتے ہیں ۔

’’ سر سید پہلے ادیب ہے جنہوں نے انگریزی ،ایسے کی بد یسی صنف کی قلم کوگلشن اردو میں لگا یا ،انہوں نے ا نگر یزی ایسے کا مطالعہ کر رکھا تھا ۔وہ اس کے مزاج دا ربھی تھے ۔انہوں نے طبع زاد لکھنے کے ساتھ ساتھ انگریزی ایسے کے ترا جم بھی کیے ۔الغرض اس نئی صنف سے وابستہ فنی اور اسلوبیاتی امکانات دریافت کرنے کی سعی کی۔ــ‘‘

 (انشائیہ کی بنیادـــــ ـ ،ڈاکٹر سلیم اختر ،ص۔71)

         اگر ہم اڈیشا میں انشا ئیہ نگاری کی بات کر یں تو صرف ایک شخص نے اس میدان میں طبع  آزما ئی کی ہے ۔وہ ہے منیر ارمان نسیمی  ۔منیر صاحب 28اپریل 1969کو اڈیشا کا ایک شہر بھدرک میں پیدا ہو ئے ۔بچپن سے ہی اپنے والد کے ساتھ میلاد کی محفلوں اور جلسو میںجا کر نعت و منقبت پڑھتے تھے ۔کم عمری سے ہی نظم ،غزل ،خاکہ نسیمی کے نام سے اخبار و جر ید وں میں شائع کرتے تھے ۔اب تک ان کے تین کتا بیں منظر آم پر آچکی ہیں ۔پہلا ’’آبیل مجھے مار ‘‘انشا ئیہ کا مجموعہ 2008ء میں شائع ہو کر داد تحسین حاصل کر چکاہے ۔اس کے بعد ’’میں سورج کا چہرہ ہوں‘‘شعری مجموعہ 2017ء میں شائع ہوا ،اور ابھی حال ئی میں ’’تھینک یوکو رونا ‘‘ناول 2021ء میں شائع ہوا ہے ۔

منیر ارمان نسیمی نے اڈیشا میں انشائیہ نگاری کی بنیاد ڈالی ۔ان کا سب سے پہلا انشائیہ ’’آپر یشن لوٹ مار‘‘رسالہ ’’شاعر ‘‘ میں شائع ہوا ۔اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا ،آخر کار 2008ء میں انشا ئیہ کا پہلا مجموعہ ’’آبیل مجھے مار ‘‘شائع ہوا ۔اس میں 15انشائیہ اور دس منی افسانے شامل ہیں ۔ان کے انشائیہ کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ وہ اپنے انشائیہ میں اپنے ہی ارد گرد گھو متی زندگی کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ان کے مضامین کا سب سے بڑا حسن ان کا اسلوب ہے ۔اپنے مضامین میں وہ عا لمانہ یا فلسفیانہ گفتگوں نہیں کر تے بلکہ ایک عام انسان کی زبان میں بات کرتے ہیں ۔

ایک اچھے اسلوب کے لئے ماہر ین فن نے حسن ادا ،سادگی ،قطعیت ،زور بیان یعنی جس سے دوسرے متا ثرہوںضروری قرار دیا ہے ۔اس تناظر میں منیر ارمان نسیمی کے اسلوب میں یہ تمام باتیں پائی جاتی ہے ۔ان کے مضامین کسی بہت معمولی عنوان سے شروع ہوتے ہیں اورپھر رفتہ رفتہ مضمون آگے بڑھتا ہے اور اختتام تک پہنچتے پہنچتے اس کی دنیا ئی بدل جاتی ہے ۔مثلاً ان کا ایک چھوٹا سا مضمون ’’ناک میں دم ہے ‘‘ ہے جسے اس طرح شروع کرتے ہیں :

’’ ہوا یوں کہ آنکھ اور کان کے درمیان جم کر لڑا ئی ہو گئی ۔اور چشمہ بیچا رہ ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا سر کھجا رہا تھا ۔آنکھ کہہ رہی تھی کہ چشمہ میرا ہے کیو نکہ وہ میرے لئے ہی اس گھر میں لایا گیا ہے ۔مگر کان صاحب بھی کہاں چھوڑ نے والے تھے انکی دلیل بھی دل کو لگتی تھی کہ چشمہ دن بھر ان سے لپٹا رہتا ہے ‘اسلئے چشمہ صرف انکا ہی ہے ۔ان دونوںکا جھگڑا جب حد سے آگے نکلے لگا تو ناک بیگم نے زور سے گلا صاف کیا اور اپنی پاٹ دار دونوں منھ سے گویا ہو ئیں ’’بچو !آپس میں اس طرح نہ الجھو کہ لوگ تمہا را نام بد ل کر ہندو پاک رکھ دیں ۔تم لوگوں کا جھگڑا بے بنیاد ہے ۔چشمہ نہ آنکھ کا ہے اور نہ کان کا ،چشمہ لگتا ہے اور آنکھ بی بی اس سے دنیا دیکھتی ہیں اور کان بیٹا اسکا ہاتھ پکڑے گھو متے رہتے ہیں ۔اسلئے بچپنا چھوڑو اور غور سے سنو کہ ناک بنا چشمہ ادھورا ہے ‘‘۔

 (منیر ارمان نسیمی ،آبیل مجھے مار،ص۔34)

         اس عبارت سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ اس چھوٹے سے مضمون میں سادگی ،قطیعت ،روا نگی سب یکجا موجود ہے ۔منیر ارمان نسیمی کے اسلوب کی ایک خصو صیت یہ بھی ہے کہ ان کے ہر مضمون کے اندر یہ تا ثر ہوتاہے کہ ایک بات دوسری بات سے جڑی  ہوتی ہے،یعنی ان کے مضمون کا ہر پیرا گراف الگ بھی ہے اور جڑا ہوا بھی ہے ۔ان کے کسی مضمون کو شروع کر نے کے بعد در میان میں چھوڑ دینا ممکن نہیںہے اس لیے کہ ہر لمحہ ذہن ایک نئے تجربہ سے دوچار ہوتا ہے اور یہ نہیں معلوم ہو تا کہ اب آگے کیا بات کہی جانے والی ہے ۔مثلاً ان کا ایک مضمون ’’بڑے میاں ‘‘سے اندازا لگا یا جا سکتا ہے ۔

’’اب تک یہ بات کسی کو سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ غضب ہوا کیسے ؟بڑے میاں کے خاندان میں چو دہ پشتو ں تک کوئی بھی بندہ یا بندی ۔۔۔۔۔چھ فٹ سے کم نہیں ہوا ہے ۔بڑے میاں کی اُٹھان چار فٹ سے آگے کیوں نہیں بڑھی ؟سنا  ہے کہ ان کی لمبا ئی (کم لمبا ئی)کی وجہ سے ان کی والدہ کو نہ جانے کیسے کیسے طعنے سننے کو ملے ۔یہ بھی سنا ہے کہ ماں باپ کی محبت کے بیچ ایک دیوار بھی پیدا ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں ہمارے بڑے میاں کے بعد ان کی کوئی اور اولاد دنیا میں نہیں آئی ۔اس لیے ماں نے انہیں اپنی آخری اولاد ،اپنے اچھے وقت کی نسانی ۔۔۔۔۔اپنے شو ہر نا مدار کی محبت کی آخری کہا نی سمجھ کر بہت لا ڈپیار سے پالا ۔دنیا دھتکا رتی رہی مگر ماں کی آغوش نے تھپ تھپا یا ۔اس طرح بڑے میاں ۔۔۔۔۔بڑے ہوئے ۔لمبے تو نہیں ہو ئے مگر کھا پی کر چوڑے ضرور ہو گئے ‘‘۔

 (منیر ارمان نسیمی ،آبیل مجھے مار ،ص۔25)

یا ان کے مضمون ’’ناک میں دم ہے ‘‘میں ان کے اسلوب کی تازگی اور دلکشی ملاحظہ فر ما ہیں ۔

’’ہر جگہ ،ہر وقت ،ہر ماحول میں ناک کا و جود مسلم ہے ،چا ھے آپ کا وجود ہو یا نہ ہو ۔صبح بستر سے اٹھتے ہی ہمیں اپنی ناک بچا نی پڑتی ہے ،پہلے ہم داتن سے دانت صاف کر لیتے تھے مگر جب سے گھر میں ٹیلی ویث ن آیا ہے (وہ بھی ناک کی مہر بانی سے ،تفصیل قصہ پھر کبھی )ہماری نصف بہتر کی ناک ہمارے داتن سے کٹتی ہے ،کہتی ہیں کیوں میری ناک کٹانے پر تلے ہو ،پڑوسن روز پو چھتی ہیں ‘کیا آپ نیا کلوزاپ (  close up)کرتے ہیں ؟تو میں انکو کیا جواب دو نگی ؟؟ کل سے اگر تم نے داتن کو ہاتھ بھی لگا یا تو میں اپنی اماں کو یہاں ر ھنے کے لئے بلا لو نگی ‘‘۔

 (منیر ارمان نسیمی،آبیل مجھے مار،ص۔34)

ان کے اس اسلوب کی تعریف کر تے ہو ئے سہیل احمد صدیقی یوں لکھتے ہیں ۔

’’منیر ارمان نسیمی اردو کے نثر ی ادب میں بحوالہ طنز و مزاح عمدہ اضافہ ہیں ۔یہ بات میں ر سما نہیں کہہ رہا جیسا کہ عمو ماً نقا د فلیپ لکھتے ہو ئے فر ما جا تے ہیں ۔ان کے انشایئے پڑھ کر میں نہ صرف محظوظ ہوا بلکہ یہ سو چنے پر مجبور بھی ہوا کہ ۔۔۔۔۔’’پرکا کوًا نبا نے ‘‘اور’’رائی کا پہاڑ‘‘یا ۔۔۔۔۔’’کوز ے میں در یا بند کر نے ‘‘کے حوالے  سے محض شاعروں کو بدنام کرنا بے جا ہے۔چھوٹی سی چھوٹی سی بات سے کوئی بڑا مضمون پیدا کرنا اچھے نثر نگار خصوصا طنزو مزاح نگار کے لیے با ئیں ہاتھ کا کام ہے اور منیر ارمان نسیمی صاحب اس میں کمال رکھتے ہیں!۔‘‘

 (منیر ارمان نسیمی ،آبیل مجھے مار ،ص۔15)

         منیر ارمان نسیمی بات سے بات پیداکرنے کا فن سے بخوبی واقف ہے ۔وہ ہماری زند گی کے کسی بہت معمولی سے موضوع یا آئیں دن کی ضرورت کی کسی چیز کو لیے لیتے ہیں اور اس میں دنیا جہان کا فلسفہ ،محبت ،تعلیم ،تدریس،طنز وظرافت اور زندگی کی باریکیا ،اس طرح پیدا کرتے چلے جاتے ہیں کے پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے ۔ان کے سیدھے سادھے جملوں میں ایک جہاں پوشیدہ نظر آتا ہے ۔اس سب کے باوجود ان کے اسلوب کی ساد گی میں کوئی فرق نہیں آتا ہے ۔اس کی مثال ان کے مضمون ’’غصّہ کے سایٹ افیکٹس‘‘سے پیش ہے ۔

’’پروفیسر شر ما سوچ رہیں تھے کہ ۔۔۔۔یہ سب کیوں ہوا؟؟؟آج صبح اگر وہ چائے کی پیلی نیچے نہیں گر تی تو یہ سب نہیں ہو تا ۔نہ چائے کی پیلی گرتی اور نہ ان کا شڑٹ خراب ہوتا ۔نہ وہ ٹرافک میں پھستے اور نہ یونی ور سیٹی ایک کھنٹہ لیٹ سے آتے ۔اور نہ اسٹو ڈینیٹ پرنسی پل پاس جاتے اور نہ ۔۔۔۔۔۔پرنسی پل صاحب انہیں اتنی خیری خوٹی باتے سناتے !!یہ سب اس چائے کی پیلی کے گر نے سے ہوا ،اور اس کے گرنے کا کارن بنی ان کی پتنی ۔نہ وہ چائے کی پیلی کو ٹیبل کے اک دم کنارے رکھتی نہ نہا ہاتھ لگا کر اسے گرا تی ۔پر وفیسر شرما کے دل نے فیصلہ سنا دیا کہ ۔۔۔۔۔آج جو کچھ بھی انکے ساتھ ہوا اس کی ذمہ دار ہے ۔صرف اور صرف ان کی پتنی ۔۔۔۔۔!!‘‘۔

 (منیر ارمان نسیمی ،آبیل مجھے مار ،ص۔116)

         ایک انشائیہ نگار کی اسلوب کی یہ خصو صیت ہوتی ہے کہ وہ گھسا پیٹا ہوا اسلوب نہ معلوم ہو ۔بعض لوگ انفرا دیت پیدا کرنے کے لئے اپنے اسلوب کو ایک خاص بنا نے کی کوشش کرتے ہیں یا کسی کے اسلوب سے متا ثر ہو کر اس جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن منیر ارمان نسیمی کی تحر یر سے ان کی شخصیت کے بارے میں ایک انجانہ سی تصویر خود بخود اُبھر نے لگتی ہے ۔کہتے ہیں طنز و مزاح لکھنے کے لئے بنیاد ی ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ تحر یر میں کہیں کوئی بے وجہ بات ہواور نہ ہی کوئی ایسا انداز جس سے کسی کی دل کو ٹھیس پہنچے ۔منیر ارمان نسیمی کے انشا ئیہ میں ایسا ئی اسلوب ملتا ہے جو انہیں اس عیب سے صاف بچا لیتا ہے ۔ان کے انشائیہ میںکہیں ایک لمحے کے لئے بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ انھیں اپنے اسلوب کو بر قرار رکھنے کے لئے کسی طرح کی کوشش یا کاوش کرنی پڑھی ہے ۔مثلا ًان کا ایک انشا ئیہ ’’مکھی چوس‘‘کا یہ اقتباس ملا حظہ ہو ۔

’’ہاڈی میاں بھی یاد آیا ۔جو اپنی کنجوسی کو گھوش بابو کی طرح شرافت کے پردے میں چھپا تا نہیں تھا بلکہ اپنی کنجو سی کو سر عام کیش کرتا تھا ۔ہاڑی میاں ۔۔۔۔۔جس کا اصل نام تو شا ید  اب خود اسے بھی یاد نہیں ہو گا ۔عمر ساٹھ کے قریب ،او نچا قد ،دبلا پتلا جسم ،چو ڑی پیشانی ،لمبی ناک ،لو مڑی کی طرح ہمیشہ تھر کنے والی آنکھیں ،سر اور داڑھی کے بال بلیک اینڈ وا ہٹ ،ماتھے پر سجد ے کا بڑا سانشان جو سجدہ لگا نے سے نہیں بلکہ ر گڑنے سے بنا تھا اور اجنبی لوگوں کو مر غوب کر دیتا تھا کہ یہ آدمی ضرور اللہ کا نیک بندہ ہے ۔مگر جان پہچان والوں کا کہنا ہے کہ ہاڑی میاں نے آج تک جمعہ کی نماز کبھی تواتر سے نہیں پڑھی ۔کسی کٹھ ملاً نے کہہ دیا تھا کہ لگا تار تین جمعہ کی نماز کا ناغہ کرنے والا مسلمان نہیں رہتا ،اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔اس لئے ہاڑی میاں ہر ایک جمعہ کی نماز کے بعد۔۔۔۔۔۔۔دو جمعہ غائب ہو جاتا ہے ،پھر تیسر ے جمعہ کو مسجد میںحاضر ۔یعنی کہ نماز میں کنجوسی اور ایمان بھی سلامت رہا ‘‘۔

 (منیر ارمان نسیمی ،آبیل مجھے مار ،ص۔50/51)

اسی طرح انکے ایک انشائیے ’’پیٹ کا چکر ‘‘کا یہ اقتباس دیکھے جس میں سادگی بھی ہے ،زور بیان بھی ہے اور طنز بھی ہے اور اختصار بھی ۔

’’دنیا میں جتنی طرح کے لوگ ہیں اتنی طرح کی پیٹ بھی ہیں ۔گول پیٹ ۔لمبا پیٹ ،چوڑا پیٹ ،چپٹا پیٹ ،سمٹا ہوا پیٹ ،پچکا ہوا پیٹ ،پھولا ہوا پیٹ وغیرہ وغیرہ۔ان سب میں پھولا ہوا پیٹ سب کو دور اور نذدیک سے اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے ۔ویسے پھولے ہوئے پیٹ بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں مچلاً ہانڈی کی طرح ،ڈھول کی طرح ،ٹنکی کی طرح وغیرہ ۔ان کے بارے میں ہم پھر کبھی بات کریں گے تو ہم کہہ رہے تھے کہ ہمارے پیدا ہوتے ہی پیٹ کی کہانی شروع ہوجاتی ہے ۔پیٹ پوجا کے لیے ہمیں کیا کیا نہیں کرنا پڑتا ہے ۔پیٹ میں دانہ نہ ہو تو آدمی دیوانہ ہوجاتا ہے ۔پیٹ بھرنے کے لیے کچھ بھی کر جاتا ہے ۔کچھ نہ ملے تو اپنے بھائی کا گوشت بھی کھا جاتا ہے۔حلال حرام کی تمیز ۔۔۔۔بس کتابی باتیں ہیں !اور جب پیٹ میں کھانا زیادہ ہوجاتا ہے تو ۔۔۔مشکلیں اور بڑ ھ جاتی ہیں ۔‘‘

 (منیر ارمان نسیمی ،آبیل مجھے مار ،ص73\74)

         منیر ارمان نسیمی کی انشائیہ نگاری کی ایک بڑی خوبی توازن بھی ہے۔وہ نہ تو کسی موضوع کو اس قدر پھیلاتے ہیں کہ وہ قاری کے لیے بھوج بن جائے اور نہ ہی اس قدر مختصر لکھتے ہیں کہ تشنگی کا احساس رہ جائے ۔وہ اپنے تخلیقی سفر میں اکیلے نہیں بلکہ قاری کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے ہوتے ہیں ۔جس کا اندازہ ان کا ایک انشائیہ ’’آپریشن لوٹ مار ‘‘کے اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:

’’ارے بھائی سنیئے ! دیکھیے ۔۔۔آپ بلکل ڈرئے مت ۔ میں آپ سے کسی ملٹری آپریشن کی بات نہیں کر رہا اور نہ ۔۔۔۔کشمیر کے مسئلے کا ذکر کر رہا ہوں ،جو آپ منہ پھر کر بھاگ رہے ہیں ۔وہاں تو ہر آپریشن زخم کو بھرنے کے بجائے کچھ اور گہرا کر جاتا ہے ،درد کمنے کے بجائے اور بڑ جاتا ہے ۔اب تو ناسور بن چکا ہے ۔ میں تو آپ سے صرف ان آپریشن کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو آئے دن ہمارے گاؤں میں ،قصبوں میں ،شہروں میں ،مہا نگروں میں ،سفید لبادے میں ڈھکے وہ بے رحم قصائی کرتے ہیں جنھیں حرفِ عام میں ہم ڈاکٹر کہتے ہیں ‘‘

 (منیر ارمان نسیمی ،آبیل مجھے مار ،ص19)

منیر ارمان نسیمی نے سماجی ،اخلاقی ،فلسفیا نہ مسائل سے لے کر چھوٹی چھوٹی چیزیں تک اکو اپنامو ضوع بنایا ۔انہیں زندگی سے بے پناہ محبت ہے ۔اپنے ارد گرد کی ہر چیز سے پیار کرتے ہیں اور اسے اپنے انشائیہ میں نمک مرچ لگاکر بیان کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں ۔ان کے اندر انسانیت کا درد ہے وہ کسی کو پریشان ،بیمار یا بھوکا دیکھ کر اپنے احسا سات کا اظہار قلم کی نوک پر کر دیتے ہیں۔ انشائیہ ’’آپر یشن لوٹ مار‘‘کے اقتباس اس بیان کا اندازا لگا سکتے ہیں۔

’’دو مہنیے اس طرح درد سے تڑپتے گزر گئے ۔جب بھی ڈاکڑ صاحب سے مشورہ کیا گیا انھوں نے فیس لینے کے بعد دو چار دوائی  اور لکھ دی ۔درد اب بر داشت سے باہر ہو نے لگا تھا ۔تب گھر والوں نے ایک پڑوسی کا مشورہ مان کر مہا نگر کے ایک بڑے ڈاکڑ کو دکھا نے کا فیصلہ کیا ۔وہ ڈاکڑ ،ایک فرشتہ صفت انسان تھا (بس ان ہی لوگوں کی وجہ سے آج بھی لوگوں کا بھر وسہ ڈاکڑ وں پر قائم ہے !)۔انھوں نے تمام رپورٹ دیکھنے کے بعد ،عورت کے پیٹ کا الٹر اسا ئونڈ کیا تو انہیں پتہ لگا کہ پیٹ کے اندر کچھ ہے ۔انہوں نے گھر والوں کو فو ٹو دکھا یا اور کہا کہ اسے نکا لنے کے لئے ایک بار پھر آپر یشن کرنا پڑیگا ۔مطلب ایک آپر یشن کی بھول کو سُد ھار نے کے کے لئے ۔۔۔۔۔دوسرا آپر یشن !‘‘۔

 (منیر ارمان نسیمی ،آبیل مجھے مار ،ص۔21)

         منیر ارمان نسیمی صاحب معمولی سے معمولی اور چھوٹی بات کو لکھنے کے قائل ہیں ۔مگر فضول باتوں سے گریز بھی کر تے ہیں ۔ان کے انشائیے کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جسے دو افراد ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے سے باتیں کر رہیں ہوں۔وہ اپنے انشائیے کے لیے کردار بھی اپنے ارد گرد سے ہی چنتے ہیں اور پھر ہر کردار کی زبان سے اپنے نام کے منا سبت سے جملے ادا کرتے ہیں ۔کہیں ان کے انشائیے کو پڑھ کر ہنسی نہیں رکتی ، تو کہیں کوئی کہانی غم کا نشانہ بھی بنتے ہیں ۔ہنسی ہنسی اور باتوں باتوں میں وہ سبق آموز بات بھی کہہ دیتے ہیں اور پتہ بھی نہیں چلتا ہے ۔

***

This Post Has One Comment

  1. محمد آ صف

    اندوری صاحب ،اردو شاعری و ادب میں مرنے کے بعد بھی دل کی دھڑکنوں کے ساتھ یاد آ تے رہیں گے

Leave a Reply