You are currently viewing اکیسویں صدی میں اردو اور گوجری افسانہ : ایک جائزہ

اکیسویں صدی میں اردو اور گوجری افسانہ : ایک جائزہ

محمدارشد کسانہ

ریسرچ  اسکالر ، دہلی یونیورسٹی

اکیسویں صدی میں اردو اور گوجری افسانہ : ایک جائزہ

         گوجری زبان ہندستان کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے جس کے ابتدا ئی نمونے ہمیںپانچویں یا چھٹی صدی عیسوی سے ملتے ہیں۔ ہندستان میں اس قوم کا گجرات سے بڑا گہرا رشتہ رہا ہے۔ گجرات میں جب تک گجر حکومت قائم رہی تب تک اس زبان میں اچھا خاصا ادب بھی تخلیق ہوا ۔ جب مسلمانوںنے گجرات پر حملہ کیا تو گجر حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے اثرات گووجری زبان پر بھی پڑے لہٰذا یہ قوم ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پھیل گئی۔ موجودہ عہد میں یہ لوگ ایک بڑی تعداد میں ہندستان ، پاکستان افغانستان اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی زبان ادب کی نئی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔

         گوجری ہندستان کی ایک قدیم زبان ہے جو جدید دور میں ملک کے کئی حصوں میں علاقائی اثرات کے سبب تھوڑی ردو بدل کے ساتھ رائج ہے۔ لیکن گجر حکومت کے خاتمے کے بعد اس زبان کی اہمیت کا بھی خاتمہ ہوگیا ۔ یہی وجہ تھی کہ سترویں صدی سے لے کر بیسویں کے ابتدا تک یہ زبان ادبی سطح پر خاموش رہی ۔ اس خاموشی کے کئی اور بھی اسباب تھے لیکن اس عہد میں لوک ادب کا سلسلہ جاری رہا ۔

         جموں و کشمیر میں گوجری زبان بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ یہاں یہ زبان صدیوں سے رائج ہے ۔ یہاں قدیم زمانے سے ہی گجر قوم میں لوک ادب کی مستحکم روایت قائم رہی ہے۔ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں گوجری زبان میں تحریری ادب کا آغاز ہوتا ہے۔ لیکن اس میں باقاعدگی ۱۹۶۰ء کے بعد ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ پہلے پہل گوجری ادیبوں اور شاعروں نے پنجابی ادب سے استفادہ کیا لیکن بعد میں ان کی توجہ اردو ادب پر مرکوز ہوگئی ۔ جیسے ابتدائی دور میں اردو نے فارسی زبان و ادب سے استفادہ کیا تھا بالکل اسی طرح ۱۹۶۰ء کے بعد گوجری نے اردو زبان و ادب سے استفادہ کیا۔ گوجری والوں نے اردو کی تمام اصناف کو اپنانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ انہیں اصناف میں سے ایک صنف افسانہ تھی۔

         گوجری افسانے کا آغاز اردو افسانے کے مقابلے میں کا فی دیر سے ہوا ۔ گوجری کا پہلا با قائدہ افسانہ ۱۹۷۸ میں’’رب کی کرنی ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اور اس کے خالق چودھری اقبال عظیم تھے۔ اس وقت اردو افسانہ ترقی کی بلندیوں پر تھا اور اسی سے متاثر ہوکر گوجری میں افسانے کا آغاز ہوا۔ لہٰذا یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گوجری ادب نے صنف افسانہ کو براہ راست اردو سے لیا ہے۔ عبدالمجید حسرت اس بارے میں یوں لکھتے ہیں کہ :

                  ’’گوجری افسانہ کی پیدائش اس وقت ہوئی جد اردو افسانو نمونو بن کے اس کے

                  سامنے کھلو تھو۔‘‘

                  دو ماہی شیرازہ گوجری،جموں وکشمیر کلچر اکیڈیمی،جلد ۳۷ ،ع ۲۰۱۶،ص۳۹

اسی حوالے سے خوشدیو مینی ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’ کیو نجے اردو رسم الخط ہی گوجری کو وی رسم الخط بنا لیو گیو تے گوجری کا افسانہ نگار ویہ ہی تھا جہڑا کہ اردو جانیں تھا ۔ اس را اردو افسانہ کی روایات کو سدھو اثر تے چھاملو گوجری افسانہ پر وی پیو ہے۔ ‘‘

                  مھارو ادب،جلد ۱۱ ، کلچرل اکیڈیمی سری نگر ،ع ۸۹۔۱۹۸۸ء، ص ۱۸

         اکیسویں صدی تک آتے آتے گوجری افسانے کی رفتار کافی تیز ہوگئی۔اور رسائل و جرائد کے علاوہ افسانوی مجموعوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔

         اردو افسانے کا آغاز انیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ہوا اور اس وقت سے لے کر آج تک اس کا پالا کئی تحریکات اور رجحانات سے پڑا مگر کبھی بھی اس کی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہ آئی۔ اکیسویں صدی اپنے آغاز سے ہی ایک الگ اور منفرد پہچان کے طور پرسامنے آئی۔ دراصل اکیسویں صدی کو ہم بیسوی صدی میںدیکھے خوابوں کی تعبیر کہہ سکتے ہیں۔یہ صدی نہ صرف ادب بلکہ سیاسی،سماجی،معاشی،سائنسی،اور ٹکنالوجی گویا ہر لحاظ سے ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ اس صدی کا آغاز ہی دہشت،بربریت اور جنگ و جدل سے ہوا۔ امریکہ اور اسرائل کی اسلامی ممالک پر رساکشی، افغانستان اور پاکستان پر ڈراون حملے، دہشت گردوں کی تحریکوں کا وجود میں آنا، ایٹمی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد، سائنسی کارنامے، ٹکنا لو جی، اور سوشل نٹورکنگ کا آغاز ، ہندستان اور پاکستان کے رشتوں میں کڑواہٹ،گلوبلائزیشن، آلودگی،تانیثیت وغیرہ کے علاوہ سینکڑوں ایسے مسائل تھے جن سے ایک عام انسان متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکتا تھا۔ ایسے میں ادب کیسے پیچھے رہتا ۔ اردو افسانہ نگاروں نے زیادہ تر ان ہی مسائل پر قلم اٹھایا۔اکیسویں صدی کے ماحول کے حوالے سے سلیم سالک ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’اکیسویں صدی کا آغاز ایک ایسا عالمی پس منظر رکھتا ہے جس میں طاقت ہی کو انصاف اور تہذیب کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ عراق،افغانستان ،لبنان اور کشمیرعالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار رہے ہیں۔ یہ بات متحسن ہے کہ جدید نسل ان موضوعات پر قلم اٹھانے پر کسی جھجھک کا مظاہرہ نہیں کرتی اور یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ نئی نسل میڈیا اور ٹکنالوجی میں رہنے والی تبدیلیوں اور اثرات کو بھی افسانے کا حصہ بنا رہی ہے جو نہ صرف نئے عالمی شعور کا پتہ دیتی ہے بلکہ تخلیقی سطح پر نئے امکانات کی خبر بھی لاتی ہے‘‘

سلیم سالک ،مزاج ومنہاج،جموں و کشمیر کلچر اکیڈیمی ،۲۰۱۷،ص۳۰۶

         اردو افسانہ آج ایک ترقی یافتہ صنف ہے۔ایک سو بیس سالہ سفر کے بعد اردو افسانہ اس مقام پر پہنچا ہے کہ اردو کے کئی بڑے ادباء نے اکیسویں صدی کو افسانے کی صدی کہا ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں اردو کے نو سو سے زائد افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے ہیں ۔ جبکہ گوجری افسانے کا سفر ابھی پینتالیس سالہ ہی ہوا ہے اور اس کی رفتار کافی سست دیکھنے کو ملی ہے ۔ گوجری کا پہلا افسانوی مجموعہ ۲۰۰۱ء میں’’کورا کاغذ‘‘( ڈاکٹر رفیق انجم ) کے عنوان سے شائع ہوا۔ اور پھر مجموعوں کی اشاعت کا سلسلہ اکیسویں صدی میں جاری رہا ۔ اور اب تک کوئی پندرہ افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ لیکن یہ سلسلہ دن بہ دن رفتار پکڑ رہا ہے۔ گوجری افسانہ اردو افسانہ کے مقابلے میں اس لیے بھی پیچھے ہے کیوں کہ گوجری زبان بولنے والے لوگوں کی تعداد کم ہے ۔ اور جہاں تک علاقے کی بات ہے تو اردو زبان نہ صرف ہندستان ،پاکستان بلکہ دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں بھی بولی جاتی ہے ۔ اس کے مقابلے میں گوجری زبان ہندستان اور پاکستان کے کچھ ہی علاقوں میں بولی جاتی ہے ۔ گوجری ادب خالص جموں و کشمیر میں ہی رائج ہے ۔

         موضوعاتی اعتبار سے اردو افسانہ مقامی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک کے مسائل اپنے اندر سمیٹ رہا ہے۔ انسان ،سماج ،ملک اور دنیا کی ہر کروٹ پر اردو افسانہ نے نظر جمارکھی ہے۔ماضی ،حال اور مستقبل کی جدوجہد اور تقابل کو بھی افسانے نے موضوع بنایا ہے۔عالمی سطح کی سیاسی کشمکش سے لے کر ماحولیات کی آلودگی اور سائنس اور ٹکنالوجی کے منفی اثرات کو بھی اردو افسانہ نگاروں نے نہایت ہی فن کاری سے پیش کیا ہے۔ ’’آب حیات ‘‘ محمد فرقان سمبھلی،’’ابن آدم ‘‘ خالدہ حسین، ’’ آجادی ‘‘ غلام نبی شاہد، ’’عباس نے کہا ‘‘ جیلانی بانو، ’’دخمہ ‘‘ بیگ احساس، ’’خالی ہوا یہ دل ‘‘ فردوس حیدر، ’’لنگی ‘‘ شموئل احمد ،’’خالد کا ختنہ ‘‘ غضنفر ، ،’’ عنکبوت‘‘ شموئل احمد وغیرہ ایسے افسانے ہیں جن میں اکیسویں صدی کا ماحول اور مسائل دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ جبکہ گوجری افسانوں میں موضوعات کے عتبار سے اتنا تنوع نہیں ملتا۔ یہاں آج بھی افسانہ نگار زیادہ تر سماج کے ارد گرد گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ہر زبان کا ادب اپنی قوم یا سماج کا ترجمان ہوتا ہے ۔ گوجری ادب بھی گجر قوم کا ترجمان ہے۔ جموں و کشمیر میں یہ قوم جہالت اور پسماندگی کا شکار رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب گوجری ادب کا آغاز ہوا تو شاعروں اور ادیبوں کا پہلا مقصدقوم کی اصلاح تھا۔ اور چوں کہ یہ قوم اب بھی ترقی یافتہ نہیں بن پائی ہے اس لیے اصلاحی ادب کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اردو افسانہ مقامی اور قومی حدوں سے گزر کر عالمی سطح پر اپنی پہچان بنا چکا ہے اور عالمی مسائل اور ماحول کی بھی ترجمانی کر رہا ہے۔ لیکن گوجری افسانہ موضوعاتی اعتبار سے ابھی اپنے سماج کا ہی ترجمان بنا ہوا ہے۔ مگر بعض افسانہ نگاروں نے عالمی مسائل کے پس منظر میں بھی اچھے افسانے تخلیق کئے ہیں۔جیسے ایم ۔کے وقار کا افسانہ ’’ آدمی‘‘، عبدالحمید کسانہ کا ’’ سادو‘‘ ، نصیر الدین بارو کے’’ خاکی ‘‘ اور ’’ آپت کی چھا ں‘‘،آمین قمر کا’’ دوجو پھیرو‘‘ محمد شریف شاہین کا ’’ وقت کا آتھروں‘‘ وغیرہ۔آج گوجری افسانہ بھی آہستہ آہستہ نئی صدی کے ماحول میں ڈھلتا جا رہا ہے ۔ اور اردو افسانے کے پیچھے پیچھے اسی راہ پر گامزن ہے۔

         موضوع کے بعد افسانے میں اسلوب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ بنیا دی طور پر اسلوب کا تعلق صنف کے بجائے فنکار سے ہوتا ہے لیکن اسلوب ایک ایسی چیز ہے جو افسانے کی کامیابی یا ناکامی طے کرتی ہے ۔ اکیسویں صدی کے اردو افسانہ نگاروں نے اسلوب پر اتنی توجہ نہیں دی جتنی بیسویں صدی کے افسانہ نگاروں نے دی تھی۔ آج افسانہ نگار کی زیادہ توجہ موضوع کی طرف رہتی ہے اور پھر ہر افسانے میں تجربات اور ماحول کی تبدیلی ان کے اسلوب کو برقرار نہیں رہنے دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ اردو افسانہ نگار منفرد اسلوب کی شناخت سے محروم ہو رہے ہیں ۔ جبکہ اس معاملے میں گوجری افسانہ نگاروں نے بازی ماری ہے۔ ایم۔کے وقار، ڈاکٹر رفیق انجم ، قیصر الدین قیصر، عبدالحمید کسانہ اور نصیر الدین بارو اپنے اسلوب کی وجہ سے ہی مشہور ہیں۔ان کی زبان اور طرز تحریر میںزیادہ تبدیلیاں اور تجربات نہیں دکھائی دیتے۔ان کے ہاںجملے کی ساخت ہو، الفاظ کا ذخیرہ ہو یا پھر موضوع کے ساتھ ٹریٹمنٹ تمام افسانوں میں یکساں انداز برقرار رہتا ہے۔اس کے علاوہ اردو کی مٹھاس کو انھوں نے گوجری زبان میں آباد رکھا ہے۔

          تکنیک کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو اکیسویں صدی کے اردو افسانوں میں زیادہ تر بیانیہ پر ہی زور دیا گیا ہے اس کے علاوہ فلیش بیک ، مکالمہ،خود کلامی وغیرہ کی تکنیک میں بھی بہت سے افسانے مل جاتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے اردو افسانوں میں تکنیک کے حوالے سے چند نئے تجربے بھی مل جاتے ہیں جیسے چیٹنگ کی تکنیک ، فون کال کی تکنیک ،کولاژ وغیرہ ۔مشکل تکنیکیںجن کو جدیدیوں نے پروان چڑھایا تھا اب نئے عہد میں خاموش ہوتی جا رہی ہیں ۔ اردو افسانہ نگاروں نے آسان مگر تکنیک کے میدان میں تنوع لایا ہے۔ جبکہ گوجری افسانوں میں تکنیک کے حوالے سے اتنا تنوع نہیں ملتا ہے۔ گوجری افسانہ نگاروں نے اردو کی روایتی اور عام رائج تکنیکوں کو ہی اپنے افسانوں میں برتا ہے۔

         اگرچہ گوجری میں افسانے کی صنف اردو ادب کی دین ہے مگر اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اردو ادب رومانیت ، حقیقت پسندی ، ترقی پسند تحریک ، حلقہ ارباب ذوق اور جدیدیت سے گزر کر مابعد جدیدیت کے رنگ میں داخل ہوگیا تھا ۔ لگ بھگ پچھتر سال کی عمر کے بعد اردو افسانے کے بطن سے گوجری افسانے جنم لیا ہے ۔ اس رشتے اور فاصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اردو اور گوجری افسانے کا تقابل نہیں کر سکتے ۔ کیوں کہ ابھی گوجری افسانہ کو اردو افسانے کے برابر نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔لیکن یہ سچ ہے کہ گوجری افسانہ نے ایک بچی کی طرح اردو افسانے کی انگلی اپنے ہاتھوں میں پکڑ رکھی ہے ۔ جدوجہد اور پریشانیوں کا دور اردو افسانہ دیکھ چکا ہے جبکہ گوجری افسانے کے لیے راستہ ہموار ہوتا جا رہا ہے ۔ گوجری افسانے میں ابھی وہ معیار دیکھنے کو نہیں ملا جو اردو افسانہ نگاروں کے پاس موجود ہے۔ ابھی اس میعار تک پہنچنا باقی ہے ۔

         یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ اردو افسانے کے متعلق ۱۹۸۵ کے بعد سے لیکر آج تک بعض ادیبوں نے یہ طنز کیا ہے کہ ۱۹۸۵ کے بعد اردو افسانے نہیں لکھے گئے۔ اسی موضوع کو مدنظر رکھتے ہوئے مشرف عالم زوقی لکھتے ہیں :

         ’’۸۵ کے بعد کہانی نہیں لکھی گئی کا سیدھا جواب ہے کہ ۸۵ کے بعد اردو فکشن

         کے سنجیدہ اور ایماندار نقاد سامنے نہیں آئے‘‘

         آب روان کبیر ، مشرف عالم ذوقی ، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس دہلی ، ۲۰۱۳ء

Leave a Reply