You are currently viewing  ایازؔ رسول نازکی کی غرلیہ شاعری

 ایازؔ رسول نازکی کی غرلیہ شاعری

 ارشاد آفاقی

اسسٹینٹ پروفیسر ،جی ڈی سی ، سوپور ، کشمیر

                                                               ایازؔ رسول نازکی کی غزلیہ شاعری

عروس ِشعر وسخن سے ایازؔ رسول نازکی (سابق رجسٹرار باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی ،راجوری )کی شناسائی کوئی نئی نہیں ہے۔کیونکہ ان کا تعلق کشمیر کے ایک ایسے خانوادے سے رہا ہے جسے وراثت میں شاعری ملی۔ایاز رسول نازکی کے والد بزرگوار(غلام رسول نازکی) قادر الکلام شاعر اور نامور استاد ِسخن تھے۔اس گلستان میں ایاز رسول نازکی پیدا ہوئے ،پلے بڑھے اور سائنس پڑھنے کے باوجود شعروشاعری سے دامن بچا نہ سکے۔دراصل بچپن سے ہی ان کے گوش شعروشاعری کی میٹھی صدائوں سے مانوس ہوگئے اور ان کے دل ودماغ رس بھری صدائیں سننے کے عادی بن چکے تھے۔جب ان کے گھر پر مستند اور معتبر شعراء کی محفلیں جمتی تھی ۔شعر سنتے تھے اور سناتے ،واہ واہ کی صدائیں گونجتی تھی اور مکرر وارشاد کی آوازیں آتی تھی۔اس ماحول میں رہ کر ایاز رسول نازکی کے لیے فن ِشاعری کے جملہ لوازمات سے بھر پور آگہی حاصل کرنا،اردو زبان کے اسرار ورموز سے واقف ہونا ،زبان وبیان پر دسترس حاصل کرنا آسان ہو گیا۔اور جستہ جستہ شعروادب سے آپ کا شغف نہ صرف بدستور جاری رہا بلکہ روز بروز بڑھتا رہا،طبع آزمائی ہوتی رہی،شعر کا ورد ہوتا رہا،شعری مجموعے وجود میں آتے رہے اور قارئیں وناقدین داد دیتے رہے۔جس کا اندازہ آپ کو بخوبی ہے ۔

؎  جانتے ہیں ہم کہ کہتے ہو بہت ہی کم ایازؔ                             جوغزل تم نے کہی اس کی تعریفیں ہوئیں

؎  لکھی ہے ایسی غرل جو ایازؔ برسوں میں                                 سنیں جو داغؔ کہیں گے کمال ہم نے کیا

          ایاز رسول نازکی کو گھر کے ماحول نے فطری شاعر بنا دیا ہے۔اس لیے ان کی طبعیت شروع سے ہی شعر گوئی کی طرف مائل ہوئی تھی اور چھپ چھپ کے شعرموزوں کرتے رہے۔مگر ان کی شناخت ۱۹۹۰؁ء کے بعد ہی طے ہونا شروع ہوئی۔جب ان کی ایک غزل ملک کے مقتدرماہنامہ ـــ’’ شب خون‘‘ ۱۹۹۲؁ء میں چھپی ہے۔جس کے چند اشعار ملاحظ ہوں۔

                              ؎  میں سپید ے کا پیڑ ہوں لیکن                             برف نے میری ٹہنیاں توڑیں

                               اس کے پردے ہوا ہلا پاتی                               میرے کمرے کی کھڑکیاں توڑیں

                              میرے بچپن میں ایک بوڑھا تھا                           اس کے بیٹوں نے لکڑیاں توڑیں

       اشاعت ِکلام سے ایاز رسول نازکی کی ہمت افزائی ہونے کے ساتھ ساتھ جدید ادبی حلقوں میں اس کا تذکرہ ہونے لگا۔اس طرح شعروشاعری کے تئیں شوق بڑ ھتا گیا طبعیت کا رحجان غزل کی طرف ہے حالانکہ نظمیں اور قطعات بھی کہے۔اس لیے میں انھیں غزل کا شاعر سمجھتا ہوں ۔ان کے اب تک تین شعری مجموعے ’’خودرو‘‘(اردو) ۲۰۰۱؁،’’مقام ِراست‘‘(کشمیری)۲۰۰۴؁ء اور ’‘شام سے پہلے‘‘(اردو) ۲۰۰۸؁ء نیز ان کی شاعری کا ایک انتخاب ’’قدر ِایاز‘‘ ۲۰۱۷؁ء کے نام سے شائع ہو چکے ۔برسبیل تذکرہ ’’قدر ِایاز‘‘ ان کے شائع شدہ کلام کا ایک ایسا عمدہ انتخاب ہے جس کے پڑھنے کے بعد ’’خودرو‘‘اور’’شام سے پہلے‘‘ پڑھنے کی الگ الگ ضرورت محسوس نہیںہو رہی ہے۔

      شاعری میں داخلی و خارجی خیالات و جذبات ،مشاہدات وتجربات کی وسیع ترین اظہاری آزادی ہے۔اظہاری آزادی کے باوجود بعض شعراء نے گنجلک ومشکل الفاظ سے اپنے کلام کو پیچیدہ اور بے کیف بنا دیا ہے اور بعض نے آسان اور سادہ الفاظ کا انتخاب کرکے اپنے کلام کو مترنم اور پُر کیف بنا دیا ہے۔ جن شعراء نے مواخرالذکر رنگ اور اندازاپنا لیا ہے ان میں ایاز رسول نازکی شامل ہے۔کیونکہ ان کی شاعری سہل ممتنع کی اچھی مثال ہے۔ان کی سہل بیانی اتنا متاثر کرتی ہے کہ ان کے کلام سے سرسری طور پر گزرنا یا بہ عجلت پڑھ کر ختم کرنا کسی صورت گوارا نہیںہورہا تھا۔ اس لیے اس کو جستہ جستہ پڑھنے میںخوف لطف آتا ہے۔اور قاری کو لگتا ہے کہ جو شاعری وہ پڑھ رہاہے۔اس میں لفظوں کا کھلواڑ نہیں،بلکہ ان تجربات ومشاہدات کا راست اظہارہے جو شاعر کے عمیق ادراک پر مبنی ہیں ۔جس میں رنگ فصاحت بھی ہے اور حسن بلاغت بھی۔اس حوالے سے محمد یوسف ٹینگ لکھتے ہیں۔

’’  مجھے ایاز رسول نازکی کی سہل بیانی نے بہت متاثرکیا ہے۔ارود ہمارے یہاں اپنی بقا کے لئے جو جنگ لڑ رہی ہے اس میں اس   کے لب ولہجے اور رمز وکنایے کی عوام پسندی اس کا بہت بڑا سامان حرب ہو گی۔کیونکہ اب یہاں کسی کو فرہنگ کی تصدیق او اردو کی بڑی روایت سے توثیق کرنے کی نہ رغبت ہے اور نہ فرصت ۔اس حال میں ایاز رسول نازکی کا صاف و شفاف أسلوب بہت دل کو لبھاتا ہے لیکن اس کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے لہجے کی عوام نوازی کے باوجود احساس اور تصور کی خواص پسندی کو قربان نہیں کیا ہے۔ان کے اچھے اشعار کو پڑھ کر اردو کے اچھے اور کئی صورتوں میں بڑے شاعروں کی آوازیں ذہن میں گونج پیدا کرتی ہیں۔ لیکن وہ عامیانہ پن اور فلمی ابتذال سے دامن بچا لیتی ہیں۔میں اسے شاعر کی حِسِیِت کی پاک دامنی کے برابر سمجھتا ہوں۔اردو کے تمام سخن سرایوں کے لئے اس روایت کی پاسداری ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ ‘‘

(بحوالہ ’’گملے میں چنار‘‘ از محمد یوسف ٹینگ مشمولہ ’’شام سے پہلے‘‘ از ایاز رسول،سن اشاعت ۲۰۰۸ کتاب گھر سرینگر،ص۱۲۔۱۳)

      غزل اردو شاعری کے ہر دبستان میں مقبول عام اور ہرشاعر کی محبوب ترین صنف رہی ہے۔ ایاز رسول نازکی کو یہ صنف نہ صرف محبوب ہے بلکہ وہ بنیادی طور اسی صنف کے شاعر ہیں۔انھوں نے زندگی کے متنوع پہلوئو ں کو اپنا موضوع بنایا ہے۔حسن وعشق ،ہجرووصال ،انتظار وشکایات،طلب وجستجو جیسے روایتی موضوعات پرایاز رسول نازکی نے بھی طبع آزمائی کرکے اپنے مخصوص رنگ وڈھنگ میں کئی رنگارنگ غزلیں کہی ہیں۔

؎    دل کا قصہ وہی پرانا ہے                        پھر نئے ڈھنگ سے سنانا ہے

  ان کے علاوہ ان کی غزلوں میں اپنے گرد وپیش کے حالات وواقعات کی بہترین عکاسی بھی ملتی ہے۔انھوںنے ان حالات کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کی ہیں۔ان کے نشیب وفراز اور اتار چڑھائو کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے اور اس نشیب وفراز سے زندگی اور سماج میں جو سنگین صورت حال پیدا کی ہے اس سے وہ متاثر ہوئے۔چنانچہ اس تاثر کے مختلف اور متنوع روپ ان کی غزلوں میں موجود ہیں ۔غرض ان کی غزلیں عصری آگہی اور عصری حسیت کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں روح ِ عصر اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔اور ان کے درج ذیل اشعار اس زمانے اور زندگی کے صحیح اور سچے مرقع معلوم ہوتے ہیں۔

؎  آپ کے گھر سے لاش نکلی ہے                                    آپ کے ہاں کوئی ڈرا بھی نہیں

؎  گونگی  بہری بستیوں میں لوگ رہتے ہیں          ایازؔ              کوئی کہتا بھی نہیں کوئی سن پاتا نہیں

؎  اس نگر کے لوگ سارے سر برہنہ ہو گئے                            اُن کے قدموں میں پڑی اب اُن کی ہی دستار ہے

؎  جس شہر میں سانسوں پہ بھی تعزیر لگی ہے                     اُس شہر کی خاطر وہ ہوا مانگ رہا تھا

؎  نکلا جو صبح کو تو شگفتہ گلاب سَا                               لوٹا جو شام کو تو وہ زخموں سے چُور تھا

         ایاز رسول نازکی کی غزلوں کا ایک اہم موضوع کشمیر ،اس کی خوبصورتی ،اس کے لہلہاتے قدرتی نظارے،اس کے آبشار ،اس کے چشمے اور اس کے صحت افزامقامات کے علاوہ یہاں کے ناساز گار حالات اور خونچکان واقعات بھی ہیں کیونکہ شاعری شاعر کے تاثرات اور سماج کی آئینہ دار ہے۔اس لیے ایاز رسول نازکی کی بھی ہنگامی کیفیتوں اور بے سروسامانیوں سے دامن بچا نہ سکے۔بلکہ ان کی غزلیہ شاعری میں قدم قدم پر ایسے موضوعات ملتے ہیں ۔یہاں تک کہ ہجرت کا موضوع بھی ان کی شاعری میں اپنا اثر دکھا چکا ہے۔کیونکہ کشمیر سے بہت سارے لوگ ہجرت کرگئے ۔جس کا اثر ہر فرد نے محسوس کیا ہے مگر حساس ہونے کے ناطے فنکار کا دل کچھ زیادہ ہی محسوس کرتا ہے۔اور وہ اس کے طرح طرح کے پہلوئوں پر لب کشائی کرتا رہتا ہے۔ایاز رسول نازکی نے بھی اس موضوع کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔بلکہ اس موضوع کو یوں پیش کرتے ہیں۔

؎  ہم کو بچھڑے کتنے گزرے سال بتادوں اے کشمیر                            تیرے سولہ میرے سولہ ہوتے ہیں بتیس برس

؎  وقت رہتے ہم چلیں اس شہر سے                                         اب یہاں اپنی بسر ممکن نہیں

؎   پرندے یہاں سے گزرتے تو ہیں                                      یہاں پر بناتے نہیں آشیاں

؎  زمیں پر خون اتنا بہہ گیا ہے                                                 ہوائوں میں بھی خوشبو آرہی ہے

؎  ہم بھی جموں کے ہوگئے آخر                                               ہم نے ایسا نگر نہیں دیکھا

؎  ہم جو کشمیر سے نکلے ہیں تو جموں ٹھہرے                                   دشت ِ غربت میں کہیں پر تو ٹھکانا ہوگا

          ایاز رسول نازکی کے یہاں حالات کا گہرا شعور ہے کیونکہ وہ ان حالات کے ناظر اور صورت گر دونوں ہے۔ان کی غزلوں میں بدلتے ہوئے حالات کے زیر اثر افراد کی جذباتی اور ذہنی کیفیات کے نقشے بھی ملتے ہیں ۔غرض ایاز رسول نازکی کی شاعری عصری شعور کے حوالے سے قابل ِتعریف اور قابل ِ دادہے۔بقول امیر کشتواڑی :

’’  مرحوم غلام رسول نازکی اور فاروق نازکی صاحب کی طرح ایاز رسول نازکی بھی کشمیر میں ہو رہے خون خرابے کو دیکھ کر خون کے آنسوروتے ہیں۔    انہیں والدین کے روبرو نوجوان معصوم بیٹے کے شہید کیے جانے کے منظر اداس کرتے ہیں۔ وہ نئی نویلی دلہنوں کے لٹتے سہاگ دیکھ کر بین وماتم میں شریک ہو جاتے ہیں‘‘

بحوالہ ماہنامہ شاعر بمبئی،مئی ۲۰۰۹ ،ص ۲۱

         ان کی غزلیہ شاعری کی پوری اساس روزمرہ سے جڑی ہوئی ہے۔کشمیر پچھلی کئی دہائیوں سے جس خاک و خون سے گزرا ہے۔شاعر نے جن حالات میں زندگی کے شب وروز گزارے ہیں اور جن سے لوگ یہاں نبرد آزما ہوئے ۔اس کا اظہار پورے خلوص اور سچائی کے ساتھ درج ذیل اشعار میں ملتا ہے۔

؎  گھر سے چلتے میں نے اکثر سوچا ہے                               شاید ہی میں لوٹ کے آئو ں شام گئے

؎   مری ماں نے مجھ کو جنم جب دیا تھا                                  میں لاشوں کے انبار او ہ گرا تھا

      دراصل ان کی شاعری عصری حالات اورواقعات کا آیئنہ ہے۔جس کا اعتراف وہ بخوبی کرتے ہیں۔

؎     جو غزل بھی کہی کہی ہم نے                                  دفتر واقعات ہے پیارے

            ایاز رسول نازکی کی غزلوں میں تکلف اور بناوٹ کا شائبہ تک نہیں ۔کیونکہ وہ ایک سادہ اور پُر خلوص انسان کے دل سے نکلی ہوئی آواز ہے۔خلوص اور صداقت اس کا جوہر ہے،سادگی اور صفائی اس کی جان ہے۔روانی اور تہہ داری ،شگفتگی اور سہل بیانی اس کے أسلوب کی پہچان ہے۔وہ سیدھے سادے انداز میں زندگی کی تلخ حقیقتوں اور سچائیوں کو اس قدر بے ساختگی کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ پڑھنے والا جذبوں کے گہرے سمندر میں ڈوب جاتاہے۔مثلاً

؎   ایک گنبد نما عمارت دل                        آنے جانے کا در نہیں

؎   وحی اُتر ے قلم پر نازل ہوں                    شعر کا غذ پہ آیتوں کی طرح

؎   رگوں میں دوڑ تا تو سرخ ہوتا                    لہو آنکھوں میں پانی ہو گیا ہے

؎   ایک نیزے پہ آج سورج تھا                    سر کو چھُو کر وہ آسمان گزرا

         اب بغیر کسی تبصرے کے کچھ اشعار ملا حظ فرمائیے ،جن میں تغزل اور مضمون آفرینی کا جوہر پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے۔

؎  سیکھنے سے ہنر تو آتا ہے                            شاعری  میں اثر نہیں آتا

؎   اس کا اپناایک ہنر تھا                               لفظوں کا وہ جادوگر تھا

؎   خط کوفی میں وہ ابرولکھنا                             خط گلزار میں گیسو لکھنا

؎   زمانہ مرے ساتھ تب بھی نہ تھا                       مگر تم مرے خیر خواہوں میں تھے

         ایاز رسول نازکی زبان وبیان کی صفائی،سلاست اور شستگی پر خاص توجہ دیتے ہیں۔وہ فلسفے کی پیچیدگیوں اور گنجلک موضوعات سے پرہیز کرتے نظر آتے ہیں۔ان کے یہاں اکثر وہی الفاظ وتراکیب ،محاورے وبندشیں ،تشبہیات واستعارے، کنارے اور اصطلاحات استعمال ہوئے ہیں۔جن سے ان کے اشعار میں سلاست وروانی،تہہ داری اور اثر انگیزی میں اضافہ ہوتا ہے۔انھوں نے اپنے کلام کے حسن کو نکھارنے اور مفہوم کے ابلاغ و اظہارمیں خوش اسلوبی پیدا کرنے کے لیے حسب ِ استطاعت مختلف صنائع معنوی اور صنائع لفظی کا بر محل اور بر جستہ استعمال کیا ہے جس سے ان کے کلام میں ظاہری اور معنوی حسن نکھر گیا اور ترسیل ِمطالب میں بڑی حوش سلیقگی پیدا ہوگئی ۔اب ہم ان مختلف صنعات اورمحسنات ِکلام کا ذکر کرنے کی کوشش کرے گے۔جن سے ایاز رسول نازکی نے اپنے کلام کی آرائش وزیبائش کی ہے نیز ہر صنعت کے حوالے سے ایاز رسول نازکی کے کلام سے نمونے بھی پیش کرے گے۔

   تشبیہ:۔علم بیان کی مشہور اور کثیرالاستعمال صنعت تشبیہ ہے۔تشبیہ کے لغوی معنی ’مشابہت دینا‘یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے مانند ٹھہرانا۔اصطلاح میں دو چیزوں کا کسی صفت میں ایک دوسرے کے شریک ہونے کو تشبیہ کہتے ہیں۔ایاز رسول نازکی نے اپنے کلام میںاس صنعت کاخوب اور بہت استعمال کیا ہے۔لیکن طوالت سے بچنے کے لیے ہر صنعت میں ان کے کلام سے صرف ایک شعر پیش کریں گے۔مثلاً

                  ؎   پھول سے وہ لب اگر کھلنے لگیں                         گلستان او ہ دہن ہے ہوشیار

    استعارہ:۔لغوی اعتبار سے استعارہ کے معنی’مانگنا‘ یا ’مستعار لینا‘۔علم ِبیان کی اصطلاح میں اس صنعت سے مراد حقیقی اور مجازی معنی کے مابین تشبیہ کا علاقہ پیدا کرنا ہے۔

؎   عین ممکن ہے کہ تخلیق سے خالق ہو جائو                              لاکھ چاہو بھی بت کو خدا کر نہ سکو

    تضاد:۔ کلام میں ایسے دو الفاظ جمع کرنا جو معنی اور وصف میں ایک دوسرے کے ضد ہوں۔یہ متضاد الفاظ اسم ،فعل یا حرف ہو سکتے ہیں۔اس صنعت کو طباق یا تضاد کہتے ہیں۔

؎   خیر کے بدلے شر پسند ہوا                                غیر تم کو اگر پسند ہوا

    تلمیح :۔ شعر میں کسی آیات ِ قرآنی،حدیث نبوی،کسی مشہور واقعہ ،قصُہ یا کسی مذہبی،حکایتی،علمی اصطلاح کی جانب اشارہ کرنایا ان اصطلاحات کو اپنے کلام میں استعمال کرنا،جسے سمجھے بغیر کلام کا مطلب واضح نہ ہو۔اسے صنعت تلمیح کہتے ہیں۔

؎   اب تو فرعون کی تقدیر کا سورج ڈوبا                            آج سورج کو ہتھیلی پہ اگانا ہوگا

    تجنیس :۔شعر میں دوایسے الفاظ کا استعمال کرنا جو حروف ،صوت اور اعراب میں مساوی ہوں لیکن معنی کے اعتبار سے دونوں مختلف ہوں۔

؎   بول تو میٹھے بول رہا ہے                                          اس کے دل دھڑکن میں کیا ہے

    حسن تعلیل:تعلیل کے لفظی معنی ہیں۔ وجہ بیان کرنا،علت بیان کرنا۔شاعر اپنے تخیل سے کسی چیز یا امرکی کوئی ایسی وجہ بیان کرے،جو دراصل اُس کی علت نہیں ہوتی،مگر شاعرانہ جدت ونزاکت کے ساتھ بات واقعہ اور فطرت سے مناسبت رکھتی ہو تو اسے حسن تعلیل کہتے ہیں۔مثلاً

؎میرے آنگن آکے رویا رات بھر                                                پاس کی بستی کا وہ بوڑھا چنار

    مراعات النظیر: اصطلاح میں مراعات النظیرسے مراد یہ ہے کہ کلام میں ایسے الفاط یا تراکیب کا استعمال کیا جائے،جن میں باہم مناسبت ہو۔مگر یہ مناسبت تضادوتقابل کی نہ ہو۔

؎   ہمارے باغ کا ہر پیڑ ہے حراست میں                                    ہر ایک پیڑ کی ہر شاخ ،ثمر پہ پہرا ہے

    تجاہل عارفانہ: لغوی اعتبار سے تجاہل عارفہ کا معنی جان بوجھ کر انجان بننا۔اصطلاح میں کسی چیز کے بارے میں واقفیت کے باوجودعد مِ واقفیت یا بے خبری ظاہر کرنے کو تجاہل عارفانہ کہتے ہیں۔

؎  تم نے دیکھا ایازؔ کو صاحب                       نازکیؔ ہے نزاکتوں کے بغیر

    ایہام: ایہام  کے لفظی معنی ’’ وہم میں ڈالنا‘‘ کے ہیں۔ کیونکہ اس قسم کے شعر کا مطالعہ کرنے سے قاری تھوڑی دیر کے لئے وہم میں پڑ جاتا ہے۔اصطلاح میں ایہام کا مطلب کلام میں ایسا لفظ لانا ہے جس کے دومعنی ہوں۔ایک معنی قریب اور دوسرا معنی بعید۔سامع یا قاری کا ذہین فوراً معنی قریب کی طرف جائے۔لیکن شاعر کی مراد معنی بعید سے ہو۔

؎  سایا مجھ پر کسی کا ہے شاید                               لوگ کہتے ہیں میں اثر میں ہوں

   سیاق الاعداد: سیاق کے لغوی معنی حساب،گنتی اور حساب کے قاعدے وغیرہ۔اصطلاحی اعتبار سے جب شاعر اپنے کلام میں اعداد کا استعمال کرے۔پھر وہ اعداد چاہیے ترتیب وار ہوں یا بے ترتیب۔اس صنعت کو سیاق الاعداد کہتے ہیں۔ایازؔ صاحب نے مفرداشعار کے علاوہ اس صنعت میں ایک مکمل غزل لکھی ہے۔بطور ِنمونہ ایک شعر ملاحظ فرمائیں ۔

                           ؎  آس میں کاٹے بیس برس اور یاس میں کاٹے بیس برس            کچھ نہ پوچھ ہم نے کیسے کاٹے ہیں چالیس برس

     فوق النقاط: اس صنعت کا نام ہے جس میں یہ التزام ہوتا ہے کہ جتنے حروف نقط دار استعمال کیے جائیں ان سب کے نقطے اوپر ہوں اور کوئی ایسا حرف استعمال نہ کیا جائے جس کے نقطے نیچے ہوں۔مثلاً

؎  ہمہ تن گوش اسی طرح زمانہ ہوگا                                        ہم نہ ہوں گے تو کوئی اور فسانہ ہوگا

    تحت النقاط: وہ کلام جس میں ایسے نقطے دار حروف استعمال ہوں جن کے نقطے نیچے لکھے جائیں۔مثلاً

                        ؎  ابر آئے گا دبے پاوں کہاں جائو گے                             باڑ میں ڈوب گیا گاوں کہاں جائو گے

     منقوط:  وہ کلام جس کے تمام حروف نقط دار ہوں۔مثلاً

؎  خون بہتا نہ شاہراہوں میں                                       عقل ہوتی جو بادشاہوں میں

         ایاز رسول نازکی کی غزلیہ شاعری کا بغور مطالعہ کرنے پر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی غزلوں میں مختلف طرح کے مضامین راہ پائے ہیں ان میں جن مضامین کی فراوانی ہے وہ سماجی کرب،روزمرہ زندگی کے معاملات و مسائل ،حسن ِ کشمیر اور کشمیریوں کا درد ہے۔

         مختصر اً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایاز رسول نازکی نے کسی ادبی تحریک،رحجان یا فلسفے کے تحت شعر نہیں کہے میرے خیال میں وہ کسی تحریک یا رحجان کو شاعر اور شاعری کے لیے مضر اور ضرررساں تصور کرتے ہیں کیونکہ شعری تجربہ خارجی عوامل سے اثر پذیر ہونے کے بعد فنکار کے باطن اور اس کی تخلیقی عمل کا حصُہ بن جانے کے بعد معرض ِ وجود میں آتا ہے اس لئے اسے آزاد ہی رہنا چاہیے۔اس پر کسی تحریک یا رحجان کا لیبل لگانا اس کی معنویت کو محدود کرنے کے مترداف ہے۔ فن آزاد ہے اور اسے آزاد ہی رہنا دینا،یہی ایازؔ صاحب کا بنیادی وتیرہ ہے

***

Leave a Reply