You are currently viewing ایلف شفق کےناول‘‘چالیس چراغ عشق کے’’کامحبت انسانیت کی روح ہےکےتحت  تجزیاتی مطالعہ

ایلف شفق کےناول‘‘چالیس چراغ عشق کے’’کامحبت انسانیت کی روح ہےکےتحت  تجزیاتی مطالعہ

محمد سلیم  سرور

،پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر شعبہ اردو،نمل،اسلام آباد

وزٹنگ فیکلٹی میمبر،فیڈرل اردو یونیورسٹی،اسلام آباد

Chandbhatti187@gmail.com

سیدہ فرح امیر

farahnaveed337@gamail.com

پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر،نمل،اسلام آباد

ایلف شفق کےناول‘‘چالیس چراغ عشق کے’’کامحبت انسانیت کی روح ہےکےتحت  تجزیاتی مطالعہ

An Analytical Study of Alf Shafaq’s Novel “Forty Rules of   love”The Spirit of Love

   Elif Shafaq is a Turkish novelist who has gained immense fame   by writing novels in English and Turkish. In forty rules of love, Elf Shafaq has described a precious thing like love as the life of humanity. In the above mentioned novel, Elif Shafaq has proved  that love is the only guarantee of humanity’s survival  in the13th century and even in the twenty-first century. In the present age,  when love becomes rare and humanity begins to suffocate, Shams  Tabriz of the 13th century becomes A Aziz Zahara in the 21stcentury and teaches love to the world.Keywords:Elif Shafaq, Urdu novels, Sufism,Humanity and love

ایلف شفق کا تعارف

ایلف شفق ۲۵ اکتوبر ۱۹۷۱ء کو ستراسبرگ ،فرانس میں پیدا ہوئیں۔ایلف شفق ایک سال  کی تھیں جب ان کے والدین کے درمیان علیحدگی ہوگئی اور ایلف شفق کو ان کی والدہ  شفق اتیمان اپنے ساتھ لے کرترکی آگئیں اور اس طرح ان کی پرورش ان کی والدہ  نے  کی۔ایلف شفق نے سیاست  کے مضمون کے ساتھ ترکی میڈل ایسٹ ٹیکنکل یونیورسٹی سے بے ۔اے کیا اور پھر بعد ازا ں  مطالعہ نسائیت پر ایم اے اور پی ایچ ڈی کی۔ایلف شفق  نے انگریزی اور ترکی زبانوں میں لکھا اور دونوں میں برابر مقبولیت حاصل کی۔ایلف شفق نے جہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کی وہیں مشاہداتی طور دنیا کی سیر بھی  کی اور اس حوالے سے ان کی تحریریں اس بات کی عکاس بھی ہیں۔ان کے تعارف اور ناول نگاری کے حوالے بلی گرے اپنے مقالے میں لکھتے ہیں:[1]

         ‘‘ایف شفق ایک ترکی سفارت کار کی بیٹی ہیں جنھوں نےانگلش اور ترکی دونوں زبانوں

میں لکھا اور خوب نام کمایا۔وہ فرانس کے شہر ستراس برگ میں پیداہوئیں اور اپنازیادہ

تر وقت میڈرڈمیں گزارا اور پھرکچھ وقت کے لیےامریکہ میں بھی مقیم رہیں اور آجکل

انگلینڈ کی جامعہ آکسفورڈسےوابستہ ہیں’’۔ ۱

ایلف شفق بحیثیت ناول نگار دنیا بھر میں اپنی پہچان آپ ہیں۔ان کی  قابلیت اور پسندیدگی کا یہ عالم ہے کہ ان کے پہلے ہی ناولPinhan’’ پر ان کو رومی  پرائز سے نوازا گیا ہے۔ پہلے ناول اور  اس پر ملنے والے پرائز سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کا تصوف کی طرف رجحان تھا۔ترکی میں رومی پرائز ان لوگوں کو دیاجاتا ہے جن کی تحریریں تصوف کے دائرے میں آتی ہیں۔اس حوالے سے فرخ سہیل گوئندی لکھتے ہیں:

         ‘‘ایلف شفق ترکی کی مقبولِ عام ادیبہ ہیں۔وہ اپنی کہانیوں میں پیش کردہ

مشرق اور مغرب کے خوبصورت امتزاج کے باعث دنیا بھر میں معروف

ہیں۔ناقدین کے مطابق وہ ہم عصر ترکی ادب اور عالمی ادب میں ایک جداگانہ

آواز ہیں۔ان کی تحریروں کے موضوعات میں خواتین،حقوقِ نسواں ،اقلیتیں

،تارکین وطن اور ان کے  مسائل،متنوع ثقافتیں،ثقافتی سیاست،تاریخ،فلسفہ

اور خصوصاً صوفی ازمسرِ فہرست ہیں۔’’۲

ایلف شفق انگلش اور ترکی دونوں زبانوں میں برابر لکھ رہی ہیں ان کو   پوری دنیا میں مقبولیت حاصل ہے۔ایلف شفق کے مذکورہ ناول‘‘ چالیس چراغ عشق کے’’ کی اہمیت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔اس ناول میں ایلف شفق نے مولانا جلاالدین رومی  اور مشہور صوفی شمس تبریز کے ذریعےمحبت کے چالیس اصول  بیان کیے ہیں۔اور اس ناول کی  اہمیت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب  تیرھویں صدی  کے  مشرقی تصوف کواکیسویں صدی کے مغربی  دائرے کے ساتھ جوڑتی ہیں۔اس ناول  کے تیرھویں صدی اور اکیسویں  کےتصوف کے  جوڑکےحوالےسےطولبا محمد امینی اپنے ایم اے کے مقالے میں لکھتے ہیں[2]:

         ‘‘درحقیقت ان دو واقعات میں ناصرف دو صدیوں کا تعلق ہے بلکہ تاریخی اور

 مذہبی واقعات کے ذریعے ایک دوسرے سے مشابہت کے ذریعے جڑے ہوئے

 ہیں۔شمس تبریز اور مولانا جلال الدین رومی کا رشتہ تیرھویں صدی میں  تھا اور

اکیسویں صدی میں ایلا اور اے عزیز ظہارا کی صورت میں دوبارہ وقوع پزیرہوا۔اکیسویں

 صدی میں ایلا رومی کے مشابہ اور اے عزیز ظہارا شمس تبریز کی روح لے کر دوبارہ دنیا

 میں  آتے ہیں۔اس ناول میں اے عزیز ظہارا کو جدید شمس تبریز کے طور پر دکھایا گیا ہے’’۔۲

ایلف شفق نے تصوف کی دنیا کا ایک اہم واقعہ جو شمس تبریز اور مولانا روم کے نام سے مشہور ہے اس واقعے کو موجودہ دور کے ایلا اور عزیز کے ساتھ جوڑ کراس بات کی ہمیت کو واضح کیا ہے کہ موجودہ دور میں بھی انسانیت کومحبت کی اشد  ضرورت ہے۔‘‘چالیس چراغ عشق کے’’ ادبی دنیا میں نہایت اہمیت کا حامل ناول ہے۔اس کی اہمیت  کے حوالے سےبلی گرے لکھتے ہیں[3]:

                       “محبت کے چالیس چراغ بلاشبہ ان میں سے ایک زیادہ نمایاں  اور

                       تجارتی لحاظ سے کامیاب ترین ناول ہےامیراال زیننے

                       اسے رومی رجحان قرار دیا ہے’’۔۳

         ایلف شفق نے اس ناول کے لکھنے سے پہلے تصوف کے متعلق پڑھا اور پھر اس حوالے سے ذہن میں خاکےبنائے۔ایلف شفق کا تصوف سے  اور صوفیا کی سرزمین سے تعلق تو ازلی تھا  اور پھر مغرب میں آنکھ کھولی تو اس طرح تو مختلف ثقافتوں کی مہک ان کے خون میں شامل ہوگئی۔تصوف پر قلم اٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ لکھنے والابراہ ِ راست مذہب کی زد میں آجاتاہے۔ایلف شفق نے بھی سوچا ہوگا کہ کس طرح تصوف کے اصولوں کو موجودہ دور کے شدت پسند مذہبی  اور سماجی لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے ۔ایسا ناول جو ایک ساتھ مشرقی اورمغربی عوام کو مذہبی حدود سے بالا تر ہو اپنی لپیٹ میں لے اورتمام انسانوں کے دلوں میں گھر کر جائے۔ناول ماضی اور حال کو جوڑ دے۔یہ ناول جامعیت کے لحاظ سے اپنی نوعیت کا ایک منفرد ناول بنے۔ایلف شفق نے جس قدر سوچ بچار کے بعد یہ ناول لکھا  کہیں اس سے بڑھ کر اس نے مقام پایا۔ایلف شفق کے  ناول لکھنے سے پہلے سوچنے کے متعلق بات  کوقاسم یونیورسٹی(سعودیہ) کی ڈاکٹر عفرین فیاض اپنے ایک مضمون میں نقل کرتی ہیں[4]:

‘‘میں نےکہا’’ جیسامیں ناول لکھناچاہتی تھی اس کے لیے ایک خاص

ترتیب اور انہماک کی ضرورت تھی۔میں نےکئی بار سوچااورکئی سطحوں

سےگزرکر اس سطح  تک پہنچی اور اسی طرح یہ ناول بھی بہت سے مدارج

پر محیط ہے۔درحقیقت میں خدا اور مخلوق کی محبت اور محبت کی مختلف جہتوں

کوبیان کرناچاہتی تھی جس میں مشرق ماضی اور حال شامل ہے’’۔۴

         ایلف شفق کے مذکورہ ناول کو اردو میں بھی بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔‘‘چالیس چراغ عشق کے’’ کا اردو ترجمہ ہما انور نے کیا۔‘‘چالیس چراغ عشق کے’’ بیرونی صفحے پر ناول اور اس کی مصنفہ کے حوالے سے سہیل گوئندی لکھتے ہیں:

‘‘ایلف شفق کو ان کے ناولThe Forty Rules of Love’’’’ پر عالمی

                  شہرت حاصل ہوئی۔‘‘چالیس چراغ عشق کے’’ اسی ناول کا ترجمہ ہے جو ترکی

                  زبان میں Ask’’’’ کے نام سے لکھا گیاتھا۔ناول کی کہانی حقیقت اور تخیل کا امتزاج

                  ہے اور معروف صوفی شاعر جلال الدین رومی اور درویش شمس تبریز کے گرد گھومتی ہے۔’’۵

ایلف شفق نے اپنے ناولوں  میں فلسفہ،تاریخ اور تصوف کو ایک ساتھ ملا کر انسانیت کی آواز بنا کر ناول کی روح بنایا ہے۔ایلف شفق کی آواز حقیقت کے قریب نظر آتی ہے اس لیے موجودہ دورکے قارئین کا محور بنی ہوئی ہیں۔

مولانا روم اور شمس تبریز کی ملاقات

         مولانا جلال الدین رومی نے ایک پاکباز گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جس گھرانے کا ہر لمحہ ہی یہی کام تھا کہ وہ اپنی ذات کا تزکیہ کرتے رہتے تھے۔مولانا پر اس تربیت کا یہ اثر ہوا کہ وہ  علم اور شوق کی دنیا میں مزید سے مزید کے متنیہوگئے،ہمہ وقت خود کو مصروف رکھتے اور بزرگوں کی عزت اور ان کی تعظیم کرنا انھوں نے اپنا ابتدائی فریضہ سمجھ لیا تھا۔مولانا کو ان کے والدِ گرامی کے مرید سید برہان الدین نے دنیاوی علوم سے بچپن میں ہی سرفراز کردیا تھا ۔مولانا  بچپن میں اپنے والد گرامی کے ساتھ نیشاپورگئے تو وہاں پر ان کی ملاقات شیخ عطار سے ہوئی تو انھوں نے مولانا کے  پُر جلال  مستقبل کی نوید سنائی اور مولانا کو اپنی کتاب تحفے میں دی اور  مولانا نے ہمیشہ شیخ عطار اور ان کی دی ہوئی  کتاب کو دل میں جگہ دی۔مولانا رومی سپیشل نمبر میں سید عابد علی اس حوالے سے لکھتے ہیں:

‘‘شیخ بہاالدین جب نیشا پور پہنچے تو وہاں فرید الدین عطار سےان کی ملاقات

ہوئی۔کہا جاتا ہے شیخ عطار نے مولانا جلال الدین رومی کو دیکھا تو ان کے پر جلال

مستقبل کی پیش گوئی کی اور اپنی کتاب‘اسرارنامہ’ بطورِ تحفہ عنایت کی۔

مولانا رومی اس کتاب کو حد درجہ عزیز رکھتے تھے۔’’۶

         مولانا رومی صوفیا میں سے شاید واحد بزرگ تھے علوم باطنی کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم میں بھی برابر کمال رکھتے تھے۔ان کے علم کا چرچا قرب و جوار میں ہر جگہ پھیلا ہوا تھا۔مولانا روم شہر کی جامعہ مسجد میں خطیب تھے۔لیکن ان کی زندگی  خاموش دریا کی طرح ایک عرصے تک  چلتی رہی مگر اس ٹھہرے ہوئے دریا میں اس وقت پہلا انقلاب پیدا ہوا جب انھوں نے خواب دیکھنے شروع کیے۔مولانا کی زندگی میں پہلی جھلک اس وقت نمودار ہو ئی جب انھوں نے چالیس دن تک مسلسل ایک ہی خواب دیکھا۔مولانا رات کے پہر جب خواب دیکھتے تو ان کی حالت  عجیب ہو جاتی اوران کا چہرہ زرد پڑ جاتا۔مولانا کی ایسی حالت پر ان کی بیوی کیرا اکثر جاگ جاتیں اور مولاناکو راحت محسوس کرنے کو کہتی مگر مولانا ان کو دوبارہ سونے کو کہتے اور خود  اصل روشنی کی تلاش میں رہتے۔اب مولانا روم کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہونے جا رہا ہے ۔اس حوالے سے محمد اکرم چغتائی اپنی مرتبہ کتاب میں لکھتے ہیں:

                  ‘‘ان کی زندگی کا دوسرا دور درحقیقت شمس تبریز کی ملاقات سے شروع ہوتا ہے

                  ۔۔۔یہ عجیب بات ہے کہ شمس تبریز  کی ملاقات کا واقعہ مولانا کی زندگی کا سب سے

                  بڑا واقعہ ہے۔تذکروں اور تاریخوں میں اس قدر مختلف اور متناقض طریقوں سے

                  منقول ہے کہ اصل واقعہ کا پتہ لگانا مشکل ہے۔’’۷

         یہ وہ جھلک تھی جس کےذریعے مولانا  روم محبت کے ایک بے کراں سمندر میں غوطہ زن ہونے جا رہے تھے۔اسی واقعے کے متعلق مولانا کےاستاد سید برہاں کہا کرتے تھے کہ تم اللہ کے پیارے بندے ہو اور تمھیں اللہ اپنے عظیم کام کے لیے منتخب کرے گا۔

         شمس تبریز ،مولانا روم سے اس ملاقات کے بعد جانے کے لیے اجازت طلب کرتے ہیں تو مولانا نے ان کو جانے سے روکا اور مزید ان کے ساتھ وقت بتانے کی خواہش کا اظہار کیا۔اب مولانا روم اور شمس تبریز کی محفل تزکیہ نفس کے حوالے سے سجنے جا رہی تھی۔۔صوفیا کرام خود بھی اپنا تزکیہ کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی تزکیے کی فکر دیتے رہتے ہیں۔آل احمد سرور نے ‘‘اقبال اور تصوف’’نامی کتاب لکھی اس میں تصوف کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:

‘‘تصوف کی تعریف اور اس کی اصل حقیقت ہے تزکیہء  نفس اور تجلئیہ باطن کرکے ایسا پاک و صاف اور روحانی کمالات اور اخلاقی بلندی کے اعتبار سے ایسا بن جانا کہ دل عشقِ الہی کا گہوارہ ہو’’۔۸

         یہ سوال کوئی عام سوال نہیں تھا بلکہ اس ملاقات کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے اور اسی سوال نے مولانا روم کو اپنے سحر میں لےلیا۔مولانا روم جب اس سوال اور جواب کی محفل میں مطمئن ہوگئے تو انھوں نے شمس تبریز کو اپنے ساتھ لے جا کر مزید رازوں کو جاننے کی ٹھان لی۔

مولانا رومی کی طبیعت میں تجسس کی لہر:

مولانا روم وہ جام پی چکے تھے جس کے لیے وہ ازل سے پیاسے تھے  ۔مولانا روم گھر تشریف لائے تو شمس تبریز بھی ان کے ساتھ تھے  اور گھر آتے ہی دونوں کتب خانے میں جا پہنچے اور کتب خانے کا دروازہ اندر سے مقفل کرلیا۔مولانا روم کے گھر والے یہ صورتحال دیکھ کر بہت حیران تھے کہ اس سے پہلے تو مولانا نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ کسی درویش پر اس قدر فدا ہوجائیں اور پھراُس کے لیےاپنے گھر والوں کی خبر تک نہ لیں۔

         ‘‘سپہ سالار کا بیان ہے کہ چھ مہینے تک برابر دونوں بزرگ صلاح الدین زرکوب

کے حجرہ میں چلہ کش رہے۔اس مدت میں آب و غذا قطعاًمتروک تھی اور بجز صلاح

الدین کے کسی اور کو حجرہ میں آمدورفت کی مجال نہ تھی۔’’۹

مولانا روم اور شمس تبریز کا کتب خانے میں بند ہونے کا سلسلہ ایک دن سے جونہی آگے نکلا پھر چالیس دن تک  جاپہنچا اور اس دوران مولانا روم اپنے گھر والوں سمیت اپنے شاگردوں اور  مسجد کے خطبے تک کو بھول گئے۔چالیس روز گزرنے بعد شمس تبریز مولانا روم کوکہتے ہیں کہ میں جوباتیں آپ کو سکھانا چاہتا تھا وہ سکھا چکا ہوں۔

         ‘‘ہمیں یہاں گوشہ نشین ہوئے چالیس روز ہوچکےہیں۔ہرروز ہم نے مذہبِ

         عشق کے چالیس اصولوں میں سے ایک پر بات کی۔اب جب ہم یہ مکمل کر چکے

         ہیں،میرا خیال ہے کہ ہمیں باہر نکلنا چاہیے۔آپ کی عدم موجودگی  ہو سکتا ہے

          آپ کے خاندان کو پریشان کرے۔’’۱۰

مولانا روم چالیس دن  تک کتب خانے  بند رہنے کے بعد جب باہر نکلے تو وہ جان گئے کہ علم صرف یہی نہیں تھا جو میرے پاس تھا بلکہ نفس کو پڑھنے کے لیے بھی سات منازل طے کرنی پڑتی ہیں مطلب نفس سے جنگ کی بھی سات منازل ہیں کہ کوئی انسان رشدو ہدایت اور انسانیت کے کونسے مرتبے پر فائز ہے۔

مولانا رومی اور پوری دنیا ایک ہی دائرہ

مولانا روم نے شمس تبریز سے نفس کے تزکیے کے بعد انسانیت کی محبت کا درس بھی سیکھ لیا ہے۔انسان خدا کی تلاش میں مکے مدینے اور مسجدوں میں جانے کے ساتھ ساتھ  خدا کو انسانوں کے دل میں  بھی تلاش کرے اور یہی وہ مقام ہے جس کو پا کر انسان انسانیت کے بلند ترین مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔اکثر  مذہب کا علم رکھنے والے جوشیلے علما ءخدا کو تلاش کرنے اور خدا  اور انسان کی محبت میں غرق کرنے کی بجائے دوسروں کے ساتھ نفرت پر مبنی لڑائیاں اور مقابلے کرتے ہیں۔جب ایک انسان دوسرے انسان سےبے لوث محبت کرنا شروع کردیتا ہے تو پھر آخر ت کے انجام سے بھی بے خبر ہوجاتا ہے ۔یہی وہ مقام ہے جب ایک انسان ایک عام انسان کے درجے سے اٹھ کر صوفی کے درجے پر پہنچ جاتا ہے۔ایک صوفی کی باقی خصوصیا ت کے ساتھ ساتھ ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ دنیا و آخرت کو لمحہ واحد موجود سمجھتا ہے۔اس کے نزدیک انسان کے دل میں جب خدا کی محبت آ موجود ہوتی ہے تو پھر اسے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کی سزا و جزا اسی دنیا میں  اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ایک صوفی کے نزدیک جنت کی طلب ایک صلہ بن جاتی ہے اس لیے بھی وہ اپنی ہر محبت بغیر کسی صلے کی توقع رکھے کرتا ہے۔ایک صوفی کا بہترین صلہ یہ ہے کہ اس محبت میں اس کی ‘میں’ بیرونی عناصر میں تحلیل ہوجاتی ہے اور پھر مزید اس کی کوئی ‘میں’ نہیں رہتی جس کی حفاظت کے لیے وہ دنیا کے جاہ و جلال کا متمنی ہو۔مولانا رومی نے بھی اسی محبت کو دل میں بسا کر کہا تھا میں کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتا  اور کوئی مخصوص خطہ مجھ سے منسوب نہیں اور میں کسی مخصوص قوم سے منسوب نہیں۔مولانا رومی کہتے ہیں:

                  ‘‘نہ عیسائی نہ یہودی نہ مسلمان،نہ ہندو،بدھ،صوفی یا زین۔کوئی مذہب یا

                  ثقافتی نظام نہیں۔میں  نہ مشرق سے ہوں نہ مغرب سے۔۔۔ میرا مقام

بے مقام ہے،ایک نشان جو بے نشان ہے۔’’۱۱

         مولانا روم نے شمس تبریز کی صحبت میں مذہبِ عشق کے اصول سیکھے اور یہ اصول کوئی عام اصول نہیں تھے بلکہ انسانیت سے محبت کی تدریس تھی۔

عشق ایک باطنی جذبہ

         مولانا رومی اور شمس تبریز کی ملاقات سے عاشق اور محبوب کے نام واضح ہوئے۔عشق کے اصول واضح ہوئے۔مطلب عشق صرف و ہی نہیں جوسستی جذباتیت کے لیے کیا جائے بلکہ اصل عشق وہ ہے جہاں انسان دنیا کےنفع و نقصان کو بھول جائے۔عشق انسان کو سچی،کھری اور قربانی دینے والی انسیت سکھا دیتا ہے۔ عشق انسا ن کو اصل زندگی کی طرف لوٹا دیتا ہے۔عشق سے انسان میں  قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔سچے عشق کی نشانی یہ ہے ہے جہاں عاشق  کے دل میں تڑپ پیدا کرتا ہے وہیں محبوب کے دل میں بھی اپنے عاشق کے لیے بے پناہ محبت اور بیقراری پیدا کردیتا ہے۔

         مولانا روم جہاں اپنے اَن دیکھے محبوب کے لیےتڑپ رہے ہوتے ہیں  وہیں محبوب بھی اپنے عاشق صادق کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔اگر عشق سچا ہو تو شمس تبریز اور مولانا روم کی طرح خواب میں عاشق اور محبوب کو ایک دوسرے کے دیدار کروا دیےجاتے ہیں حتیٰ کے ایک دوسرے تک پہنچا بھی دیا جاتا ہے۔ مولانا شمس تبریز اپنے عشق کی تعبیر ایک خواب  کےذریعے دیکھتے  ہیں کہ تم اپنے محبوب  کو بغداد میں تلاش کرو:

                  ‘‘بغداد  چلے جاؤ’’۔میرے محافظ فرشتے نے سریلی گنگناتی آواز میں کہا۔

                  ‘‘بغداد میں کیا شے منتظر ہے؟’’ میں نے پوچھا۔‘‘تم نے ایک رفیق کے

                  لیے دعا کی تھی اور ایک رفیق تمہیں عطا کیا جائے گا۔’’۱۲

شمس تبریز نے یہ دعا کسی عام شخص کے حصول کے لیے نہیں مانگی تھی بلکہ ایک عالمِ دین مطلب مولانا روم کے لیے مانگی تھی۔شمس تبریز چاہتے تھے کہ وہ اس شخص کی  نبض پر ہاتھ رکھیں گے تو وہ شخص دنیا کے لیے ہدایت کا روشن چراغ بن جائےگا۔دوسری طرف مولانا روم بھی اپنے محبوب کے لیے تڑپ رہے ہیں اور وہ بھی ان کی شدید کمی محسوس کررہے ہیں۔

                  ‘‘پھر کیوں مجھے اپنے اندر یہ خالی پن،یہ خلا محسوس ہوتا ہے جو ہر گزرتے دن

                   کے ساتھ گہرا اور وسیع تر ہوتا چلا  جاتا ہے؟ یہ کسی بیماری کی طرح میری روح

                  کو مسلسل کترتا ہے اور جہاں کہیں میں جاؤں ،میرے ہمراہ رہتا ہے۔’’۱۳

ایلا اور اےعزیز کا عشق

         ایلا  شادی شدہ خاتون ہونے کے باوجود بھی کسی ان دیکھے شخص کے عشق میں گرفتار ہوجاتی ہے اور اس عشق میں گرفتا ہونے کی وجہ  بھی شمس تبریز کا مطالعہ ہے۔ اس خاتون کے عشق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عشق میں ہم مذہب،ہم ذات یا ہم وطن ہونا ضروری نہیں۔عشق میں عمر کی بھی قید نہیں اور زندگی کی کیفیت کی کوئی شرط نہیں۔ایلا بھی یہ جانتی تھی  کہ لوگ اس کو بری نظر سے دیکھیں گے کہ شادی شدہ خاتون نے اپنے عشق کے لیے اپنے خاوند اور بچوں کو چھوڑ دیا مگر وہ تو ایلا کا محبوب تھا اور کوئی بھی اپنے محبوب کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر سکتا ہے جیسے رومی نے اپنے محبوب شمس تبریز کے لیے اپنے بیوی بچو ں اور اپنے عزیز طلبہ کو وقت دینا چھوڑ دیا تھا۔ایلا کو اس کے دوست کہتے ہیں :

                  ‘‘کیا تم نے اپنے شوہر کو ایک ایسے شخص کے لیے چھوڑ  رہی ہو جس کا کوئی مستقبل

                  نہیں؟’’ اس کے دوستوں اور ہمسایوں نے اُس سے بار بار پوچھا تھا،‘‘اور تمہارے

                  بچوں کا کیا ہوگا؟ تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ تمہیں کبھی معاف کر سکیں گے؟’’۱۴

عشق ایک ایسا جذجہ  جو اصول ِ نقصان پر مبنی ہے یعنی اس میں اپنے محبوب کے حصول کے لیے ہر نقصان بھی چھوٹا اور کم لگتا ہے۔ایلا نے بھی اس سودے کا آغاز نقصان سے ہی کیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے بچےاورخاوندبھی ہے مگر اس عشق کے بدلے اسے ان سب کو چھوڑنا پڑے گا مگر اس نے یہ سب نقصان جانتے ہوئے بھی یہ سودا کیا۔عشق میں جو سرور ملتا ہے اس کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے۔ مگر اس عشق میں محبوب کے حصول سے پہلے  کی کیفیت بھی بہت منفرد ہوتی ہیں ۔انسان تنہائی محسوس کرنا شروع کردیتا ہے اور اس کا جی  کھانے،پینے اور کام کاج میں  نہیں لگتا۔اس تنہائی کے حوالے سے ایلا کہتی ہے:

                  ‘‘پھر ایلا نے سوچا کہ اگر شمس تبریز اس کے ہاتھ کی لکیریں پڑھتے تو وہ کیا

                  دیکھتے۔کیا وہ بتا پاتے کہ اس کا دماغ وقتاً فوقتاً تاریک سوچوں کی آسیبی آماجگاہ

                   بن جاتا ہے؟ یا اتنا بھرا پڑا  محبت کرنے والا خاندان ہونے کے باوجود اس  قدر

                  تنہائی کیوں محسوس کرتی تھی؟’’۱۵

            ایلا اپنے ان دیکھے محبوب کے تبصرے پڑھتی ہے اور اس کے بلاگ میں مولانا رومی کی نظمیں پڑھ کر اور گہرے عشق میں گرفتا ر ہوجاتی ہے ۔آخر ایلا اپنے محبوب کو میل کرنے کا سوچتی ہے اور اس کو میل بھی کردیتیہے۔ایلا نے اس عشق میں گرفتار ہوکر ایک بار بھی نہیں سوچا کہ میں ایک گھرانے دار خاتون ہوں ،اس طرح کسی کے عشق میں  کیسے گرفتاہوسکتی ہوں ۔یہاں پر عاشق صادق والی تڑپ نمایاں ہوتی ہے ۔ایلا اپنے محبوب کو  ملنے سے پہلے ہی خواب میں ان کو دیکھ لیتی ہے۔جس طرح رومی کی زندگی میں شمس کی کمی تھی اسی طرح ایلا کی زندگی میں بھی  عزیز کی کمی تھی ۔ایلا کی زندگی میں جس چیز کی کمی تھی وہ محبت تھی اور وہ اس محبت کو پانےکے لیے عزیز کو  حاصل کرنا چاہتی ہے۔طولبا  محمد المینی اپنے مقالے میں اس حوالے سے لکھتے ہیں:                       “دوسری طرف، ایلا اور رومی ایک عام زندگی گزار رہے ہیں۔لیکن                       کچھ کمی ہے جو محبت ہے۔ دونوں ایک محبت کرنے والے ساتھی کی  کمی                       محسوس کرتے ہیں۔ایلا کی زندگی میں بہت سی چیزوں کی کمی ہے جن                        میں سے ایک محبت ہے’’۔۱۶

         طلب سچی ہو تو  عاشق اور محبوب کا ملنا ضروری ٹھہر جاتا ہے بلکہ لوحِ تقدیر پر لکھ دیا جاتا ہے۔ایسے ہی  یہ دو عاشق اور محبوب بھی ایک دوسرے پر فدا ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے کو ملنے کے خواہاں ہیں۔اِدھر ایلا نے خواب دیکھا اور اُدھر اے عزیز ظہارانے ایلا سے ملنے کا ارادہ پکڑ لیا اور ایلا کو آگاہ کردیا۔

                  ‘‘عزیز نے کہا،جب لوگ غیر معمولی اور غیر متوقع حالات کے لیے تیار

ہوجائیں تو بےلگا خوابوں سے بھی آگے عجیب واقعات رونما ہوتے ہیں۔

لیکن ایلا اس سب کے لیے ذرہ برابر تیار نہ تھی جو ہوا:عزیز اے ظہارا

اس سے ملنے بوسٹن چلا آیا۔’’۱۷

ایلا اور اے عزیز ظہارا کا عشق  کوئی عام یا جسمانی عشق نہیں تھا بلکہ  شمس تبریز ایک بار پھراے عزیز ظہارا کے روپ میں دنیا میں  آ موجود ہوا تھا۔انسان اور انسانیت سے محبت اللہ کے بندوں کی ہر دور میں اور ہر خطے میں اولین ترجیح رہی ہے۔اکیسویں صدی میں ایک بار پھر شمس تبریز  انسان کو محبت کا درس دینے کے لیے آتا ہے۔بارھویں صدی میں یہی شمس تبریز رومی کے دل میں گھر کرتا ہے وہیں اکیسویں صدی میں شمس تبریز،اے عزیز ظہارا کی صورت میں ایلا کے دل میں گھر کرتا ہے اور ایلا اپنے خاوند کو چھوڑ کر اے عزیز ظہارا کے پاس جاتی ہے مگر وہ اس عورت  سے کسی قسم کا کویہ جسمانی عشق نہیں کرتابلکہ ایک روحانی عشق کرتا ہے۔ایسی محبت کے حوالے سے حضرت علی ہجویریؒ اپنی کتاب کشف المجوب میں لکھتے ہیں:

         ‘‘دوسری قسم یہ ہے کہ ایک جنس کی محبت کسی غیر جنس کے ساتھ ہو۔ایسی محبت اپنے

         محبوب کی کسی صفت پر سکون و قرار حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اس خوبی سے راحت پائے

         اور انس حاصل کرے۔مثلاً محبوب کا کلام سننا یا اس کے دیدار کا خواہاں ہونا وغیرہ۔’’۱۸

شمس تبریز اور مولانا روم کا تعلق صرف ایک تعلق نہیں ہے بلکہ اس تعلق میں ایک جہان محفوظ ہے۔جیسے شمس تبریز نے ایک مخلص دوست کے لیے دعا کی تھی بالکل اسی طرح ایلا بھی ایک سچی محبت کی مشتاق تھی اور وہ بھی چاہتی تھیں کہ ان کی زندگی میں ایک ایسا شخص آئے جو ان کی زندگی کو حقیقی معنوں میں محبت سے آشنا کردے۔اے عزیز ظہارا جدید دور کا شمس بن کر ایلا کی زندگی میں داخل ہوا۔طولبہ محمد المینی اپنے مقالے میں لکھتے ہیں:

            ‘‘درحقیقت ان و واقعات میں نہ صرف دو صدیوں کا تعلق ہےبلکہ تاریخی اور مذہبی

            واقعات کے ذریعے ایک دوسرے سے مشابہت کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔

            شمس تبریز اور مولانا جلال الدین رومی کا رشتہ تیرھویں صدی میں  تھا اور اکیسویں

            صدی میں ایلا اور اے عزیز ظہارا کی صورت میں دوبارہ وقوع پزیرہوا۔اکیسویں

            صدی میں ایلا رومی کے مشابہ اور اے عزیز ظہارا شمس تبریز کی روح لے کر دوبارہ

            دنیا میں  آتے ہیں۔اس ناول میں اے عزیز ظہارا کو جدید شمس تبریز کے طور پر دکھایا

            گیا ہے۔’’۱۹

صوفیا کا مذہب ،مذہبِ عشق ہے اور تمام صوفیا ایک سلسلے کی کڑیاں ہوتے ہیں مطلب ایک ٹوٹی تو اس کی جگہ کسی دوسرے صوفی نے لے لی۔جیسے رومی کے لیے شمس تبریز محبوب بن کر آتا ہے اسی طرح ایلا کے لیے اے عزیز ظہارا  محبوب بن کر آتا ہے۔اس حوالے سے رومی کہتے ہیں:

                  ‘‘ہر صوفی جو مرتا ہے، اُس کی جگہ کہیں اور کوئی صوفی جنم لیتا ہے۔’’ ہمارا مذہب،

                  مذہبِ عشق ہے اور ہم سب دلوں کی زنجیر کی صورت باہم  جڑے ہوئےہیں۔اگر اور

                  جب کوئی کڑی ٹوٹ جاتی ہے تو کہیں اور کسی دوسری کڑی کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ہر شمس

                  تبریز جو اس جہان سے گزر جائے،اس کی جگہ کسی مختلف زمانے میں،کسی مختلف نام

                  سے کسی نئے شمس کا ظہور ہوگا۔نام بدل جاتے ہیں،لوگ آتے اورجاتے ہیں لیکن جوہر

                  اور روح وہی رہتے ہیں۔’’۲۰

         جیسے شمس تبریز اپنے محبوب مولانا رومی کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ایسے ہی ایلا کا محبوب اے عزیزظہارا بھی اپنی عاشق ایلا کو داغ ِ مفارقت دے جاتا ہے۔

                  ‘‘آدھے گھنٹے بعد جب وہ واپس آئی تو اسے کمرے میں ڈاکٹر اور ایک نوجوان نرس

                   سر پر سکارف اوڑھے ملے اور چادر عزیز کے سر تک کھینچی ہوئی تھی۔وہ دنیا سے

                  گزر چکا تھا۔’’۲۱

         ایلا ،اے عزیز ظہارا کے گزرجانے کے بعد زندگی کا تصور کرتی ہے کہ زندگی محبت کے بغیر خالی ہے جیسے   گہرےنیلے رنگ کا لا متناہی آسمان ہے۔ایلا کو بھی رومی کی طرح اے عزیز ظہارا کو کھونے کی فکر لگی رہتی تھی آخر وہ کیوں نہ ڈرتی کیوکہ  جس زندگی کو اتنے سالوں بعد اس کے ارمان ملے تھے اب ایک بار پھروہ ارمان مبہم ہو چکے تھے۔ایلا اپنی بیٹی کو زندگی کی حقیقت  بتاتی ہے اور کہتی ہے محبت کے بغیر اس زندگی کی کوئی اہمیت نہیں اور پھر مذہبِ عشق کا چالیسواں اصول بیان کرتی ہے:

                  ‘‘یہ اصول نمبر چالیس ہے۔’’ اُس نے آہستگی سے کہا،‘‘محبت کے بغیر کوئی

                  بھی زندگی کسی شمار میں نہیں۔خودسے مت پوچھو کہ تمہیں کیسی محبت کی جستجو

                  کرنی چاہیے،روحانی یا مادی،الوہی یا دنیوی،مشرقی یا مغربی۔۔۔تقسیم مزید تقسیم

                  پر منتج ہوتی ہے۔محبت کا کوئی نام نہیں،کوئی تعریف نہیں۔یہ جو ہے بس وہی ہے،

                  خالص اور سادہ۔محبت آبِ حیات ہے۔اور محب روح آتش ہے! جب آتش،

                  آب سے محبت کرنے لگے تو کائنات مختلف طور پر محو گردش ہوتی ہے،ایک نئے

                  سانچے میں ڈھلنے لگتی ہے۔’’۲۲

عمر مذہب اور رنگ نسل سے بالاتر ہوکر محبت ہی وہ محور ہے جہاں سب اکھٹےہوسکتےہیں۔محبت کے بغیر یہ جہاں جوں ہے جیسےبغیر روح کے جسم ہوتا ہے۔

دنیا اصولِ محبت پر قائم

         محبت ایک ایسا اصول ہے جس پر  دنیا کی تمام بنیادیں ایستادہ ہیں اگر انسانوں میں سے محبت ختم ہوجائے تو دنیا کے تمام اصول اپنی موت آپ مرجائیں گے۔اس لیے ضروری ہے باقی بنیادوں کو محفوظ اور تادیر قائم رکھنے کے لیے محبت جیسی مرکزی بنیاد کو مضبوط رکھا جائے۔خالق ِ کائنات اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے اسی طرح مخلوق کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے خالق اور خالق کی باقی مخلوق سے محبت سے پیش آئے۔شمس تبریز نے چالیس اصول  جو مولانا روم کو سکھائے تھے ان میں سے پہلا اصول محبت کے حوالے سے ہی ہے۔

                  ‘‘یہ پہلا اصول ہے برادر۔میں نے کہا،‘‘ہم خدا کو کیسے دیکھتے ہیں،یہ اس بات کا

          براہ راست عکس ہے کہ ہم خود کو کیسے دیکھتے ہیں۔اگر خدا کے نام پر ہمارے ذہن

میں خوف و ملامت جمع ہو چکے ہیں۔اگر ہم خدا کو محبت اور رحم سے بھرا دیکھتے ہیں

تو ہم بھی ایسے ہی ہیں۔’’۲۳

         محبت ایک بنیادی دائرہ ہے جس میں داخل ہو کر ہی انسان زندگی کی قدرو قیمت سے واقفیت حاصل کرسکتاہے۔ایلا جب اے عزیز ظہارا کا بلاگ پڑھ رہی ہوتی ہے تو اس  وقت اس بلاگ میں مولانا رومی ایک نظم پڑھتی ہے جس کے مطابق محبت کے بغیر زندگی ایک بوجھ ہے۔

                           ‘‘محبت کا انتخاب کرو محبوب!

                           محبت کی شیریں زندگی کے بغیر،جینا ایک بوجھ ہے۔۔۔

                           جیسا کہ تم دیکھ ہی چکے ہو۔’’۲۴

         شمس تبریز نے مولانا روم کو چالیس اصولوں میں سے ایک اصول بتایااصل غلاظت کے متعلق بتایا کہ ہم صرف بیرونی غلاظت سے نفرت کرتے ہیں حالانکہ یہ اصل غلاظت نہیں ہے بلکہ اصل غلاظت وہ ہے جس سے ہماری روح بھی غلیظ ہو جاتی ہے۔ہم عبادات کے ذریعے  جسم کی غلاظتوں کو تو دور کرسکتے ہیں مگر روح کی غلاظت کو دور کرنے کے لیے محبت جیسی غذا کی ضرورت ہے۔اصل صفائی روح کی صفائی  ہے جس کے لیے ہم کوشش نہیں کرتے۔

                  ‘‘اصلی غلاظت اندر ہوتی ہے۔باقی سب تو آسانی سے دھل جاتا ہے۔صرف

                  ایک قسم کا گرو غبار اور داغ ہے جو پاک پانی سے بھی نہیں دھلتا اور وہ روح کو

                  داغ دار کرتا نفرت اور تعصب کا داغ ہے۔تم اپنے بدن کو تو پرہیزگاری اور روزہ

                  رکھ کر پاک کرسکتے ہو مگر قلب کا تزکیہ کرنے والی شے صرف محبت ہے۔’’۲۵

         شمس تبریز نے اس محبت کی بے شمار مثالیں مولانا روم کو سکھائیں اور کچھ ان کے شہر میں ان کے سامنے قائم بھی کی ان میں سے ایک طوائف،گلِ صحرا بھی ہیں جو مسجد میں  آئی   مسجد والے لوگوں نے اسے دھر لیا اور اس پر طرح طرح کی زبان استعمال کرنے لگے۔اس وقت بہت سے لوگ اسے مارنا چاہتے تھے جو شاید صرف اس کے ظاہری حلیے سے واقف تھے ۔اس کے ظاہری حلیے  کو جاننے والے یہ بھی بھول گئے کہ اگر وہ یہاں بھیس بدل کر آئی ہے تو یقیناً اپنا دل صاف کرکے آئی ہوگی۔اس ہجوم میں سے کسی کو بھی ہمدرد نہ پا کر شمس تبریز نے اس طوائف کو وہاںسب کے ستم سے بچا کر انسانیت سے محبت کا ثبوت دیا اور مثال قائم کردی۔

                  ‘‘درویش نے طوائف کا ہاتھ تھاما اور اسے نوجوان لڑکے کے اور ہجوم سے

                  پرے اپنی طرف کھینچ لیا۔وہ ان کے پیچھے چھپ گئی،کسی ننھی بچی کی طرح

                  جو اپنی ماں کے لباس کے پیچھے  چھپ رہی ہو۔’’۲۶

عورت محبت کا روپ:

         عورت محبت کی علامت ہے اور  محبت کی خوراک سے ہی تربیت حاصل کرتی ہے۔عورت ہر روپ میں محبت کا پیکر ہوتی ہے۔عورت  کی محبت ایک ماہر استاد کی طرح ہے کیونکہ اس سے بہت  سے لوگ تربیت حاصل کرتے ہیں۔ عورت ماں ،بیٹی،بہن اور  بیوی ہر روپ میں محبت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔عورت کی محبت کی اہمیت سب سے زیادہ اس وقت سامنے آتی ہےجب وہ کسی مرد کے لیے اپنی محبت کو قربان کرتی ہے اور پھر اس کو اپنا گرویدہ بناتی ہے۔یہ عورت صرف مرد کو اپنا گرویدہ ہی نہیں بناتی بلکہ اسے بدلنے کی چاہت رکھتی ہے۔اسی طرح کمیا بھی شمس تبریز کی محبت میں گرفتار ہوکرانھیں بدلنا چاہتی ہے۔

                  ‘‘میں کسی کے سامنے بھی اعتراف کرسکتی تھی کہ میں شمس تبریز سے

                  محبت کرتی تھی۔’’۲۷

         کمیا نے صرف اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ ایک عزم بھی کیا کہ میں شمس تبریز کو اپنی محبت سے خانہ بدوشی سے روک لوں گی۔جب کیرا نے کمیا کو روکا کہ آپ شمس تبریز کو سمجھا نہیں سکیں گی تو انھوں  پر اعتماد جواب دیا۔

                  ‘‘کوئی بات نہیں وہ بدل سکتے ہیں۔میں نے مضبوط لہجے میں گویابات ختم کی۔

                  اتنی محبت اور مسرتیں دوں گی کہ انہیں بدلنا ہی ہوگا۔وہ ایک اچھا شوہر اور باپ

                  بننا سیکھ جائیں گے’’۔۲۸

عورت اپنی ذات میں محبت کا ایک طوفان رکھتی ہے جب وہ  اس طوفان کو اپنی ذات کی حدود سے باہر نکال دے تو پھر اس کے آگے کوئی بھی دیوار کھڑی کرنا  ناممکن ہوجاتاہے۔اس طوفان کے  سامنے مرد بے بس اور ناتواں نظر آتا ہے۔ مگر یہ کمزوری نہیں بلکہ کسی بھی منزل تک پہنچنے کے لیے ایک سیڑھی ہے۔کمیا کی طوفانی محبت کے بارے میں کیرا یوں اس کی تعریف کرتی ہے۔

                  ‘‘پھر میں نےکمیا سے مزید کوئی سوال نہ کیا،اس لیے نہیں کہ میں اس کے جوابات

                  سے قائل ہوگئی تھی بلکہ اس لیے کہ مجھے اس کی آنکھوں میں محبت گزیدہ عورت

                  دکھائی دے گئی تھی۔’’۲۹

         ایلا بھی ایک عورت ہے،جو اسلام نام کے مذہب سے تو واقف نہیں مگر روحانی سکون اور اصل محبت کو خوب جانتی ہے جو خاندان یا پیسے سے نہیں بلکہ کسی سچے دل سے ملتی ہے۔کیرا بھی ایک عیسائی خاتون ہے جو مولانام روم جیسے عالم کی زندگی میں ان کی دوسری بیوی بن کر آتی ہیں اور ان کے لیے راحت کا باعث بن جاتی ہیں۔کمیا بھی ایک عورت ہے جو شمس تبریز جیسے بزرگ  کا کردار دیکھ کر ان سے لگاؤ پیدا کرلیتی ہے اور ان کے نام اپنی کمسن جوانی کردیتی ہے۔

         علم کی دنیا کے خدا اور شریعت کے پاسبان تو شمس تبریز کے خلاف ان کی علم دوستی اور روح کی تازگی کی وجہ سے تھےمگر باقی دنیا کے عام لوگ جن میں تاجرین،ملازمین حتیٰ کہ ایک قحبہ خانے کی نائکہ بھی ان کے خلاف ہوئی کیونکہ شمس تبریز نے ان کی ایک طوائف کومحبت سے انسانیت کا ایسا سبق پڑھایا کہ اس کی روح جاگ اٹھی اور قحبہ خانہ چھوڑ کر چلی گئی۔

                  ‘‘تم مجھے کیوں الزام دے رہے ہو؟ ’’وہ بولی،‘‘الزاماُس درویش کو دو۔ اُسی نے

                  گلِ صحرا کو ورغلا کر قحبہ خانہ چھوڑنے اور خدا کی جستجو پر قائل کیا تھا’’۔لمحے بھر کو

                  مجھے سمجھی نہ آئی کہ وہ کس کی بات کر رہی تھی،لیکن پھر مجھ پر عیاں ہوا کہ اس کی

                  مراد شمس تبریز کے سوا کسی سے نہیں تھی۔’’۳۰

         شمس تبریز انسانیت کو جگانے اور انسانیت سے عشق کرنے کا جذبہ لے ہی زندگی کے سفر پر نکلے تھے۔عشق وہ مضبوط جذبہ ہے جس کے لیے انسان اپنی عزیز ترین متاع جان کو بھی قربان کردیتاہے۔عشق کے حصول کے لیے انسان دن رات ایک کردیتا ہے اور کھانے پینے کی پرواہ ترک کردیتاہے۔عشق  بذات خود چیز نہیں بلکہ جس سے گہری انسیت پیدا ہو جائے وہی عشق بن جاتا ہے۔یہ عشق ہی ہے کہ اس کے پا لینے کے بعد انسان کے دل سے باقی دنیا کی محبت کا خاتمہ ہو جاتا ہے لیکن اس ‘باقی دنیا’ سے مراد باقی تمام انسان نہیں بلکہ تمام قسم   کےوسائل اور خصائص ہیں جو مادی دنیا کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتےہیں ۔شمس تبریز کا ہر کام خدا  کی خوشی کے لیے ہوتا مگر دیکھنے والے اس کو دنیاکی آنکھ سے دیکھتے اور اس طرح ہر دن شمس تبریز کے مخالفین بڑھتے چلے گئے۔مگر شمس تبریز نے کبھی بھی اس بات پر کسی کی پرواہ نہیں کی بلکہ ان کے نزدیک صرف اور صرف انسانیت کے دل میں خدا کا گھر بنا نا اور اپنے دل میں انسانیت کے لیے محبت اور محبت سے بڑھ عشق زندہ رکھنا تھا۔

کسی قسم کے ڈر سے حتی ٰ کہ موت کے ڈر سے بھی  انسانیت سے محبت کو ترک نہیں کر دینا چاہیے کیونکہ موت کا وقت معین ہے۔شمس تبریز کا تقدیر پر پورا یقین تھا اور وہ بھی اپنی موت کی حقیت سے کسی طور بھی منکر نہ تھے۔جس رات ان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا وہ اس رات محبت کا سینتیسواں اصول بیان کر رہے ہوتے ہیں:

                  ‘‘یہ اصول نمبر سینتیس ہے۔’’ شمس تبریز نے بات جاری رکھی،‘‘خدا  ایک باریک

                  بین گھڑی ساز ہے اس قدر درست ہے اُس کا حکم زمین پر ہر امراپنے وقت پر

                  وقوع پذیر ہوتا ہے۔نہ لمحہ بھر پہلے نہ ہی لمحہ بھر تاخیر سے۔اور ہر کسی کے لیے

                  گھڑی بالکل درستی سے کام کرتی ہے۔ہر کسی کے لیے محبت کا ایک مخصوص

                  وقت ہے اور موت کا ایک وقت مقرر۔’’۳۱

         شمس تبریز  کے قاتلوں نے ان پر رات کے پہر حملہ کر کے ان کو ابدی نیند سلا دیا مگر ان کی موت بھی محبت کا ایک انوکھا اصول بن گئی کہ جب قاتل نے ان کو قتل کرکے کنویں میں پھینکا تو قاتل خود بھی حیران ہو گیا کہ ان کی لاش کے پانی میں گھرنے کی ذرا سی بھی آواز نہ آئی،جیسے ان کی لاش کسی کھونٹی پر لٹک گئی ہو اور کنویں کے پیندے تک نہ  پہنچی بلکہ ان کے محبوب نے ان کی لاش کو  بھی ہواؤں پر سوار کروا کر اپنے پاس بلا لیا  تھا۔

                  ‘‘ہم نےمل کر اس کی لاش اٹھائی جو عجیب طور پر بے حد ہلکی پھلکی تھی اور اُسے کنویں

                  میں گرا دیا۔ہانپتےہوئے ہم میں سے ہر ایک نے ایک قدم پیچھے ہٹایا اور لاش کے

                  پانی میں گرنے کے چھپاکے کے انتظار کرنے لگے۔ وہ آواز کبھی نہ آئی۔’’۳۲

         اس ناول کے تجزیاتی مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ محبت ہر دور،ہر نسل،ہر گروہ حتیٰ کہ فردِ واحد میں بھی  انسانیت کو زندہ رکھنے کے لیے  سانسوں کی سی اہمیت رکھتی ہے۔ایلف شفق  نے شمس تبریز اور مولانا روم کوایک بار پھر اے عزیز ظہارا اور ایلاکے روپ میں  جنم دے کر اس بات کو ثابت کیا ہے کہ مشرق ہو یا مغرب  ،کل ہو یا آج محبت ہر دور میں ہر خطے کے لیے ضروری ہے۔

حوالہ جات

۱۔Billy Gray,Rumi,Sufi spirituality and teacher disciple relationship in Eli Shafak,s The Forty Rules of love,p125,https//doi.org/10.30674/scripta.84280

۲۔فرخ سہیل گوئندی،(مقدمہ )چالیس چراغ عشق کے،جمہوری پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷

۳۔Tolba Mohamed Amine,The impact of Sufism on the contemporary American Society in ElafShafaks novel, The Forty rules of love,Larabi Bin M,hidiUniversity,Oum El bouagh,2016,p54.55

۴۔ Billy Gray,Rumi,Sufi spirituality and teacher disciple relationship in Eli Shafak,s The Forty Rules of love,p127,https//doi.org/10.30674/scripta.84280

۵۔Dr.AfreenFaiyaz,Thou Shalt Love!:The Contemporary Relevance of Rumi in ElifShafak,SThe Forty Rules of love A character based…QasimUniversity,Saudi Arabia,2019,p22۵۔

۶۔ سید عابد حسین،اسلام اور عصر جدید(خصوصی شمارہ نذر رومی)،ذاکر حسین انسٹیانسٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز،جامعہ ملیہ نئی دہلی ،۲۰۰۷،ص۶

۷۔محمد اکرام چغتائی،مولاناجلالالدین رومیؒ حیات و افکار،سنگ ِ میل پبلی کیشنز،لاہور،۲۰۰۴ءص۱۲

۸۔ آل احمد سرور،اقبال اور تصوف،لبرٹی آرٹ پریس،نئی دہلی،۱۹۸۰،ص۱۳

۹۔ایلف شفق،چالیس چراغ عشق کے،جمہوری پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷ءص ۱۷۲

۱۰۔ایلف شفق،چالیس چراغ عشق کے،جمہوری پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷ءص۱۷۸

۱۱۔ایضاً ص۱۹۹

۱۲۔ایضاً ص۵۳

۱۳۔ ایلف شفق،چالیس چراغ عشق کے،جمہوری پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷ءص ۱۱۱

۱۴۔ایضاً ص۳۶۶۔۳۶۷

۱۵۔ایضاًص۴۹

۱۶۔Tolba Mohamed Amine,The impact of Sufism on the contemporary American Society in ElafShafak,s novel, The Forty rules of love,Larabi Bin M,hidiUniversity,Oum El bouagh,2016,p56

۱۷۔ ایلف شفق،چالیس چراغ عشق کے،جمہوری پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷ءص ۲۹۹

۱۸۔مفتی غلام معین الدین نعیمی(مترجم)،کشف المجوب،بابا پبلشرز اردو بازار،لاہور،س ن ص ۴۹۹۔۵۰۰

۱۹۔Tolba Mohamed Amine,The impact of Sufism on the contemporary American Society in ElafShafak,s novel, The Forty rules of love,Larabi Bin M,hidiUniversity,Oum El bouagh,2016,p54.55

۲۰۔ایلف شفق،چالیس چراغ عشق کے،جمہوری پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷ءص۳۶۵

۲۱۔ایضاً ص۳۶۹

۲۲۔ایضاً ص۳۷۱

۲۳۔ ایلف شفق،چالیس چراغ عشق کے،جمہوری پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷ءص ۴۲

۲۴۔ایضاً ص۵۵

۲۵۔ایضاً ص۱۲۳

۲۶۔ ایلف شفق،چالیس چراغ عشق کے،جمہوری پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷ءص ۱۳۸

۲۷۔ایضاً ص۳۱۷

۲۸۔ایضاً ص۲۹۹

۲۹۔ایلف شفق،چالیس چراغ عشق کے،جمہوری پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷ءص ۳۱۹

۳۰۔ایضاً ص۲۸۲

۳۱۔ایلف شفق،چالیس چراغ عشق کے،جمہوری پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷ءص ۳۵۵

۳۲۔ایلف شفق،چالیس چراغ عشق کے،جمہوری پبلیکشنز،لاہور،۲۰۱۷ءص ۳۵۶

***

[1]أ“Shafak,who writes in both Turkish and English,is the daughter of  a Turkish diplomate. She was born in Strasbourg and spent her formative years in Madrid, before moving for a short period to the United States. She currently resides in Oxford, England.”۱

[2]أ“In fact, not only do the two centuries related to each other via the historical and religious events. They are also associated through the analogy betweenThe relationship between shams of Tabriz and jalaludinRumi  and the one between Elle and aziz,respectively. In The 13thC Jalaludin was influenced by Shams while in The 21stC, is Elle is influenced by Aziz. So, Elle issimilar to Rumi and Aziz can be depicted as a modern Shams”.۳

[3]أ“The Forty Rules of Love is undoubtedly one of the

              More prominent and commercially successful contri-

            Butions to what Amira El Zein has called the Rumi

            Phenomenon.”۴

[4]أ“I have longed to write a novel like “Ask,” for a But I had t reach a certain level of maturity in orderTo actually write it. This novel went through manyStages. I wanted to discuss “ Love with its divine And Human dimensions. West and East, Past and

                        ۵Present”

Leave a Reply