پروین شیر
نیو یارک ، امریکہ
افسانہ
ایک آئینہ زیست
نومبر ۱۷۸۵ کی سرد ہوائوں میں اسکاٹ لینڈ کے ایک چھوٹے سے گائوں Allowayمیںایک ۲۶ سال کا غریب کسان اناج اُگانے کی کوشش میں زمین کھود رہا تھا۔اس کا مضبوط کدال اپنے فولادی ہاتھوں سیزمین پر وار کر رہا تھااور اس کی تہوں تک پہنچ رہا تھا کہ یکایک اس نوجوان کاشتکار نے یکایک کمزور چوہے کو دیکھا جو گہرے خوف کے سمندر میں ڈوبا ہواکپکپا رہا تھاجس کا چھوٹا سا مٹی کا گھر اس کے بے رحم کدال کے وار سے ٹوٹ کر بکھر گیا تھا۔وہ چوہا بے گھر ،غیر محفوظ ہو کر یخ بستہ ہوائوں کی زد میں آ کرکانپ رہا تھا۔اس کی زندگی اب مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔
اس سانحے نے ایک غریب کسان کے سامنے قدرت کے نظام اور زندگی کی سچائی کو لا کھڑا کیا ۔اس نو جوان کا نام تھا روبرٹ برنس (Robert Burns)۔وہ عظیم شاعر جس نے اس واقعہ سے متاثر ہو کر۱۷۸۵ میںنظم ـ’’چوہے کے لیے‘‘ To a Mouseکہی جو زندگی کا آئینہ ہے ۔ اور پھر اس نظم سے متاثر ہو کر John Steinbeck (نوبیل پرائیز ونر) نے ۱۹۳۷ میں اس موضوع پر ناول لکھا جس کا نام اس نظم کی ایک سطر سے لیا’Of Mice and Men‘۔ گویا یہ نظم برنس کی آنکھوں سے ٹپکا ہوا آنسو کا قطرہ تھاجس میں زندگی کی سچائی کا سمندر سما گیا تھا۔برنس کے لئے اپنی بقا کی کوشش کسی کی فنا کا سبب بن گئی تھی۔اس کا یہ تجربہ زندگی کا آئینہ بن گیا۔ قدرت کا یہ بھی نظام ہے Survival for the fittest۔اس چوہے نے ایک عرصہ کی کٹھن محنت کے بعد اپنا گھر بنایا تھا۔ تحفظ کے خواب دیکھے تھے۔برنس اس افسوسناک سوچ میں ڈوب گیا کہ یہ زمین خدا نے انسانوں اور جانوروں دونوں ہی کے لیے بنائی تھی۔دونوں ایک وقت میں ایک ساتھ ایک سیارے پر رہتے ہیں لیکن انسان دوسرے جانداروں کو خود سے کم تر سمجھتا ہے۔ انسان پوری دینا کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا ہے۔قدرتی نظام کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے۔انسانوں نے قدرت کی سماجی وحدت کو توڑ ڈالا ہے۔برنس غمگین ہو جاتا ہے دنیا کی اس حالت پر کہ انسانوں اور دوسرے جانداروں میں کوئی قربت نہیں ہے۔چوہا اس کے لئے زمین پر پیدا ہونے والا ساتھی ہے اور اس کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔
برنس کے زمانے میں بہت سارے غریب کسان بے گھر کر دئے گئے تھے۔کیونکہ دولت مند زمین داروں نے کاشتکاری کے طریقے بدل دیے تھے۔برنس کے لیے چوہے اور انسان ،دونوں ہی کی ایک صورت حال تھی۔دونوں بے گھر اور بھوکے ہو سکتے ہیں۔ دونوں فانی ہیں۔دونوں اسی دنیا میں رہتے ہیںجس کے متعلق کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔تاب ناک مستقبل کی تیاری چوہے اور ہم ،دونوں ہی کرتے ہیں۔انسان اور چوہے یکساں زندگی جیتے ہیں۔خواب بنتے ہیں لیکن ایک ہی جھٹکے میں وہ اُدھڑ جاتے ہیں۔اُمیدوں کے عالی شان محل تیار کرتے ہیں اور وہ آندھیوں کی زد میں آ کر ڈھے جاتے ہیں۔تو ہم انسانوں اور چوہوں میں کتنی مماثلت ہے۔ایک ہی دنیا، ایک ہی بقاکے مسئلے اور اس کا بوجھ، وہی مستقبل کی تابانیوں کی اُمیدیں،وہی آندھیاں اور اس کے وار کرتے ہوئے خنجر،وہی برفیلے موسموں کے خراش ڈالنے والے لانبے ، نوکیلے ناخن،وہی غم کے سیاہ بادلوں میںچھپتی ہوئی خوشیوں کی چاندنی۔
برنس اپنی نظم میں کہتا ہے:
’’لیکن اے ننھے چوہے تم اکیلے نہیں ہو
تمہارے منصوبے نا کامیاب ہو سکتے ہیں
چوہے اور انسان
دونوں ہی کے بہت اعلی منصوبے
بیکار بھی ہو جاتے ہیں
اور درد و غم کے ماسوا کچھ نہیں دیتے
اُس خوشی کی جگہ
جس کی ہمیں اُمید تھی۔۔۔۔‘‘
یہ خوف ہر جاندار کا ہے۔برنس چوہے کو انسان کا درجہ دیتا ہے۔وہ چوہے کو کہتا ہے کہ اسے دکھ ہے کہ انسانوں نے جانوروں سے مطابقت نہیں رکھی۔ برنس کے لیے چوہے کے گھر ٹوٹنے کا سانحہ انسان اور قدرت میں رشتہ ٹوٹنے کا ہے۔اپنی اس نظم میں چوہے کو یہ یقین دلاتا ہے کہ اس کا ارادہ چوہے کو نقصان پہنچانا نہیں تھا۔وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ بالکل برا نہیں مانے گا اگر چوہا کبھی مکئی چرا لے جس کے لیے اسے ڈرنا بھی نہیں چاہیے۔لیکن برنس پھر سوچتا ہے کہ چوہے کا ڈر تو واجب ہے اور وہ انسانوں کی طرف سے چوہے سے معافی مانگتا ہے۔
تقریبا دو سو پچیس برس قبل برنس نے یہ نظم کہی تھی لیکن ہم آج بھی اسی خوف اور بے چینی کے جنگل میںبے اماں بھٹک رہے ہیں۔ہر صبح آس کے افق پر خواب کا سورج سر اُٹھاتا ہے اور ہر شام آنسوئوں کے سمندر کی تیز لہروں میںلہولہان ہو کر سر جھکائے ہوئے ڈوب جاتا ہے۔ہر رات یقین کے گھر میںاُمید کا چاند دبے پائوں روشن دان سے کود کر آتا ہے لیکن کڑوے سچ کی سیاہی اسے نگل لیتی ہے۔ دو سو پچیس برس پہلے روبرٹ برنس اور وہ چوہا بے بسی کی دیواروں میں قید تھے۔آج بھی ہم انھیں دیواروں میں مقید ہیں۔وقت بوڑھا ہو گیا ہے لیکن ان دیواروں کی سنگلاخ لاچاری کی اونچی فصیلوں میں بند ہم سب کمزور چوہوں کی طرح باہر نکلنے کی کوشش رائیگاں میں ان سے ٹکرا کر منتشر ہو جاتے ہیںاور بوڑھا وقت زیر لب مسکراتا رہتا ہے۔ہم ہمہ وقت تمنائوں، اُمیدوں اور خوابوں کے گھروندے بناتے رہتے ہیں۔انہیں یقین کی دھنک ،تتلیوں اور پھولوں کے حسین رنگوں سے سجاتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن یہ گھروندے تلخ حقیقت کے تیز سیلاب کے ہاتھوں ٹوٹ بکھر کر بہہ جاتے ہیں۔ہم تہی داماں،بے اماں ، تند ،یخ بستہ ہوائوں کی زد میں کانپتے رہ جاتے ہیں۔جس طرح وہ چوہا جس کے گھر کو برنس کے کدال نے ڈھا دیا تھا۔
لیکن پھر برنس اس چوہے کو یہ کہتا ہے:
’’پھر بھی تم مجھ سے زیادہ فیض یاب ہو
تم پر تو صرف حال اثر انداز ہوتا ہے
لیکن میں تو ماضی کے غمگین لمحات کو بھی سوچتا ہوں
اور مستقبل جسے میں دیکھ نہیں سکتا
صرف اندازہ لگا سکتا ہوں
اور خوف زدہ رہتا ہوں۔۔۔‘‘
تو پھر انسانوں سے زیادہ چوہے خوش نصیب ہیںجو صرف حال میں جیتے ہیں۔ جب کہ ہم انسان ۔۔۔۔۔۔۔ماضی کے درد اور انجانے ،ان دیکھے مستقبل کی بے یقینی کے خطرے سے لرزتے رہتے ہیں۔’’کاش‘‘ اور ’’شاید‘‘ کے جال میں الجھے ہوئے، تذبذب کے سمندر میں ڈوبتے ابھرتے ہوئے،دور مستقبل کے آسمان کی ہتھیلی پر اُمیدوں کے ستاروں کی لکیروں کو تکتے ہوئے۔گزری ہوئی راتوں کی یادوںکے درد کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے۔ حسین فردا کے شک کی زنجیروں سے بندھے ہوئے۔’’شاید ‘‘ کے غبار میں ڈوبے ہوئے۔
ہم ماضی اور مستقبل کے قیدی ہیں۔وسوسے کے دائرے میں مقید کہ نہ جانے کیا ہوگا۔سوالات،الجھنیں، یقین اور بے یقینی سے سہمے سہمے۔ماضی کو مڑ مڑ کر دیکھتے ہوئے جہاں پچھتاوے، نا رسائیاں،غلطیاں، ناکامیاں،خوابوں کی کرچیاں اور تہی دامانیاںکچوکے لگاتی رہتی ہیں۔ان کے گہرے سمندر میں ڈوب کر حال کے ساحل کو بھول جاتے ہیں۔زندگی کو جیتے نہیں صرف جینے کی تیاری ہی کرتے کرتے بے نشان ہو جاتے ہیں۔
اور چوہے۔۔۔۔۔۔۔؟مستقبل کے خوف اور ماضی کے درد سے پرے ہوتے ہیں۔حال کی بانہوں میں سمٹ کر زندگی جیتے ہیں۔نہ ماضی کی چبھن نہ مستقبل کے وسوسے۔تو کیا انہیں کمزور سمجھنے والے انسان ان سے برتر ہیں؟ ۔۔۔ان سے بہتر ہیں؟ ۔۔۔ان سے زیادہ خود مختار ہیں؟۔۔۔۔ان سے زیادہ محفوظ ہیں؟۔۔۔۔۔ان سے زیادہ قوی اور توانا ہیں؟۔۔۔۔ان سے زیادہ خوش حال ہیں؟۔۔۔۔ان سے زیادہ خوش نصیب ہیں؟۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔!
***