سید نورین علی حق
دہلی
ایک بے مایہ کاسفرحج: ندرت اسلوب کاکشش اتصال
بسم اللہ الرحمان الرحیم
اردومیں سفرنامۂ حج کی روایت قدیم ہے۔ اب تک سینکڑوں سفرنامۂ حج شائع ہوچکے ہیں،جن میں چندایک اپنے اسلوب اورانداز پیش کش کی وجہ سے معروف ومشہور ہیں۔ بالخصوص مولاناعبدالماجددریاآبادی کاسفرحجازاورممتازمفتی کالبیک کافی شہرت رکھتے ہیں۔اکیسویں صدی میں بھی کئی ایک حج کے سفرنامے شائع ہوئے ہیں۔میرے پیش نظر کتاب ایک بے مایہ کاسفرحج ہے ،جس کے مصنف عمدۃالمتوکلین حضرت مولاناسیدشاہ ہلال احمدقادری رحمۃاللہ علیہ(۱۹۵۷/۲۰۲۰) ہیں۔یہ سفرنامہ ان کی زندگی میںسہ ماہی المجیب میں بالاقساط شائع ہوا۔ان کی وفات کے بعد ان کی صاحبزادی محترمہ ام یمین(جوخانقاہ مجیبیہ،پھلواری شریف کے زیب سجادہ حضرت مولاناسیدشاہ آیت اللہ قادری کی اہلیہ ہیں۔) نے مرتب کرکے اسے کتابی شکل دی۔سفرنامے کی ترتیب وتزئین پرمحترمہ نے کافی محنت کی ہے ۔
میں سمجھتاہوںکہ اس سفرنامے کی اشاعت سے نہ صرف دارالاشاعت،خانقاہ مجیبیہ،پھلواری شریف،پٹنہ کی مطبوعات میں ایک اہم اضافہ ہواہے بلکہ علم وادب کے متلاشیوںکی تسکین بھی ہوئی ہے۔ایک بے مایہ کاسفرحج متعدد پہلوؤں سے ممتازومنفردسفرنامۂ حج ہے۔سفرنامہ نگاری کے اصول وضوابط مرتب کرنے والوں نے جن اصولوں اورضوابط کو پیش نظررکھنے کی تلقین کی ہے ،اس سے توآج کے زیادہ ترسفرنامہ نگارصرف نظرکرتے ہی ہیں،سفرنامہ نگاری کے بنیادی اصول یعنی زبان دانی اوراسلوبی ندرت کی شرط پربھی کما حقہ کھرے نہیں اترتے۔شایدیہی وجہ ہے کہ دوچارمہینے میں کوئی سفرنامہ منظرعام پرآتاضرورہے،لیکن ذہنی وفکری قلاشی اورزبان وبیان کی عجمیت کی وجہ سے زیادہ دنوں علم وادب کی دنیامیں موضوع بحث نہیں رہ پاتا۔ایک بے مایہ کاسفرحج میں اس کے باقی رہنے اورموضوع بحث بنے رہنے کے امکانات کافی سے زیادہ ہیں۔ایک طرف جہاں اس کی زبان اوراسلوب قاری کومتاثرکرتے ہیں،تودوسری طرف قرآنی آیتوں سے استدلال اوراسلوبی ندرت میں اضافے کے لیے آیتوں کااستعمال،فارسی کے عمدہ اورکلاسیکی اشعارکا برمحل استعمال،طنزومزاح کے مواقع پیداکرنے کی عادت،روحانی وقلبی واردات سے لبریزمنظرنگاری،شانداربیانیہ ،سنی خانقاہی امورکی انجام دہی کے خلاف سعودی حکومت کے ذریعہ روارکھے جانے والے رویوں کے خلاف سنجیدہ،تشفی بخش،مبسوط،مفصل دلائل کی فراہمی،اپنی تحریرسے مسلکی تنازعے کودوررکھنے کی شعوری کوشش،خلاف ادب رویوں پرصبر، بے انتظامی یابدنظمی پرحرف شکایت لب پرنہ لانے کی ادا،عاجزی وانکساری کے ساتھ ارکان حج کی ادائیگی،سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں غلامانہ حاضری اورخودکو سگ بارگاہ رسول انام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قراردینا،اس کتاب کی عظمت ورفعت اورقبولیت میں چارچاندلگاتے ہیں اورمصنف کے لیے قاری کے قلب ونظرمیں عقیدت پیدا ہوتی ہے اور وہ ان کی زبان دانی کاقائل ہوجاتاہے ۔
سفرحجازاورایک بے مایہ کاسفرحج
بیسویں صدی کے سفرنامۂ حج یعنی سفرحجاز،جس کے مصنف مولاناعبدالماجددریاآبادی ہیںاوراکیسویں صدی کے سفرنامہ حج یعنی ایک بے مایہ کاسفرحج دونوں میں کچھ قدرمشترک ہیںاورکچھ قدرمختلف بھی۔ مولاناعبدالماجددریاآبادی اپنی کتاب سفرحجازمیںشانداراسلوب اختیارکرتے ہیں،جملوں کوقرآنی آیتوں کے ٹکڑوں سے سجاتے ہیں،فارسی کے مصرعے اور اشعارکااستعمال کرتے ہیں،مترادفات کا بھرپورسہارالیتے ہیں،مقفٰی جملے تراشتے ہیں،اس عہدکی سعودی حکومت کی مفلسی بیان کرتے ہیں،بدانتظامی پرناراض ہوتے ہیں، مفروضہ بدعتوں کی داروگیراورروک تھام پربرہم ہوتے ہیں،عوام کی زبردستی اورنافہمی پرسخت وسست کہتے ہیں،شیعوں اوربوہروں کے طریق کارپربھی گفتگوکرتے ہیں ۔اپنے مسلک کی تبلیغ کرتے ہیں۔چودھویں صدی ہجری کے عرب حنابلہ کوبقیع میںغیراسلامی رویوں پرابن تیمیہ اورحافظ ابن قیم کی دہائی دیتے ہیں،روضہ ٔانوراورمسجدنبوی میں پولس والوں کے تفریطی رویوںکوبیان کرتے کرتے ہندوستان کی خانقاہوں اوردرگاہوں میں پھیلے افراطی رویے سے موازنہ کرنے لگتے ہیں،پھرچشتیوں،قادریوں،نقش بندیوںاور سہروردیوں کواپنی عادت کے مطابق نصیحتیں کرتے ہیں ۔اس کے بعداتحادکی دعوت دیتے ہیں ۔
جب کہ ایک بے مایہ کاسفرحج میںاس کے مصنف قرآنی آیتوں کواپنے جملوں میں جگہ دیتے ہیں۔اپنی بات قرآنی آیتوں سے مدلل کرتے ہیں،فارسی کے مصرعے اوراشعاریہ بھی درج کرتے ہیں،شانداراسلوبی تجربے کرتے ہیں۔لیکن یہ مترادفات اورمقفی جملوں کااستعمال نہیںکرتے۔یہ اکیسویں صدی کی علمی وفکری،صاف وشفاف اورعالمانہ زبان استعمال کرتے ہیں،بدنظمی اوربے انتظامی پرصبرکرتے ہیں۔سعودی حکومت کے تعمیراتی کاموں کی ستائش کرتے ہیں۔حرمین شریفین کے انتظامات کی تعریفیںکرتے ہیں۔حکومت حرمین شریفین کے تعمیراتی کاموں پرجتناصرفہ کرتی ہے،اسے سراہتے ہیں۔کم فہم عوام کے ریلے میں شامل نہیں ہوتے،پولس اورانتظامیہ کی غیرضروری مداخلت اورنجدی مسلک کے مطابق تمام زائرین وحجاج سے عمل کرانے پرحیرت کااظہارکرتے ہیں۔اپنے مسلک اورطریق کارکے حق میں متقدمین مفسرین ومحدثین اورابن تیمیہ کی کتابوں کے حوالے پیش کرتے ہیں۔نجدی شدت پسندی کے خلاف شوروغوغا نہیں کرتے،پولس اورانتظامیہ کے خلاف نہیں جاتے، ان سے اعراض کرتے ہیں۔حرمین شریفین اورروضۂ انورکے اندرخودکواتنی روحانی کیفیتوں اورادب واحترام کے ہالے میں باندھے رکھتے ہیں کہ ایک بے مایہ کا سفرحج کے مصنف کواللہ ورسول کی برتری اوراپنی برائیوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔مسلکی شدت پسندی کے خلاف لاف وگزاف نہیںکرتے۔علاحدہ نمازکی وکالت نہیں کرتے اوراپنے اسلاف کے خلاف بھی نہیں جاتے،خانقاہی رکھ رکھاؤ،صوفی نقطۂ نظرکے ساتھ زیارت وارکان حج کی ادائیگی کرتے ہیں،صوفیانہ عاجزی وانکساری سے کام لیتے ہوئے احترام کعبہ اورپاس ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرمرمٹتے ہیں ،مولاناشاہ ہلال احمدقادری کومسلکی اتحادکی دعوت دینے کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں ہوتی کہ وہ اپنی تحریرمیں اتحادکے منافی کوئی بات نہیںکرتے۔اپنے مسلک کی تبلیغ نہیں کرتے،حالاںکہ ان کے خانوادے میں اتنے علما،صلحا،ادبااورشعراگزرے ہیں ،جتنے بیسویں صدی کے کسی مسلک میں ہوتے ہیں،جب کہ مولانادریاآبادی تھانہ بھون کی مرکزیت اوراپنے مرشدگرامی کے موقف کوپیش کرنے سے چوکتے نہیں،مولانادریاآبادی اپنے سفرنامۂ حج میں جس خواہش کابڑی شدت سے اظہارکرتے ہیں کہ مسلمان دربارمحمدیؐ میں پہنچ کرچشتی،قادری،نقش بندی اورسہروردی کیوں رہتے ہیں،شیعہ اوربوہرہ کیوں رہتے ہیں،انھیں اس دربارمیں صرف محمدیؐ ہونا چاہئے ، جب کہ وہ خوداپنی خواہش کاپاس نہیں رکھ پاتے ، اس کاپاس ولحاظ ہرموقع پرمولاناقادری رکھتے نظرآتے ہیں۔
لبیک اورایک بے مایہ کاسفرحج
لبیک،ممتازمفتی کاسفرنامۂ حج ہے،ممتازمفتی بحیثیت افسانہ نگاروناول نگارکافی شہرت رکھتے ہیں۔اردوفکشن کی تاریخ میں آپ کی خدمات سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔علی پورکاایلی اورالکھ نگری آپ کاشناخت نامہ ہیں۔ممتازمفتی کی تقریبادودرجن کتابیں شائع ہوئیں۔سفرنامۂ حج لبیک کوبھی اردودنیامیں کافی شہرت ملی۔۱۹۷۵میں شائع شدہ یہ کتاب آج بھی اردو ادب میں موضوع بحث ہے ۔سفرنامۂ حج لبیک پرافسانویت غالب ہے،پوری کتاب میں صاحب کتاب کونصوص اسلامی سے کسی طرح کاکوئی تعلق نہیں ہے۔کلاسیکی متون سے لبیک کے متن کوکوئی لینادینانہیں۔تخیل کے اثرات کتاب پرغلبہ رکھتے ہیں۔مقامات مقدسہ کے حوالے سے مصنف کتاب کی دلی کیفیات اورواردات قلبی کااحساس قاری کونہیںہوپاتا۔رپورتاژکے فارم میں سفرنامۂ حج لبیک کوپڑھ کرتقدیس مقدسات کے بجائے ہنسی کے پھوارے چھوٹتے ہیں۔کہیں کہیں محسوس ہوتاہے کہ ایک انسان ہرجگہ ایسے مناظرکیوں کردیکھ پاتاہے ۔ممتازمفتی عوام اوردیگرعازمین وزائرین کے سطحی اعمال،نامعقول افعال،چھوٹے مطالبات،بڑے دربارمیں چھوٹی چھوٹی خواہشات انسانی کونشان زدکرتے ہیں،جس کے مطالعے سے احساس ہوتاہے کہ انسان غیرشعوری طورپراپنی بڑائی جتارہاہے۔حالاں کہ وہ اپنے باطن کی کیفیتوں اوراحترام کعبہ ومحبت روضہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درج نہیں کرتے،دوسروں کی حرکات وسکنات پراپنی نظرضروررکھتے ہیں۔طنزومزاح کی شعوری کوشش کئی بارپھکڑپن کے زمرے میں شامل ہوجاتی ہے، جس کومصنف اس نظرسے نہیں دیکھ پاتے،جومسلمان ہونے کی حیثیت سے مقامات مقدسہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں۔افسانویت کاغلبہ اتناہے کہ کتاب میں بیانیے کے ساتھ مکالموں کاسلسلہ بھی ازاول کاآخرجاری رہتاہے۔
دوسری طرف ایک بے مایہ کاسفرحج کے مصنف عالم دین تھے،مدرسے کے طلباکودرس دیتے تھے،فتویٰ نویسی بھی کرتے تھے ،ملک کی ایک معروف اوربڑی خانقاہ میں پیداہوئے، مزاج پرصوفیانہ رنگ غالب تھا،ہنستے ہنساتے بھی تھے،مگردوسروں کے عیب وہنرپرنظرکم اورسب سکھین میں چنرموری میلی کے عملی طورپرقائل تھے،جس کااندازہ ایک بے مایہ کاسفرحج کی عبارتوںسے بھی ہوتاہے ۔وہ دوسروں پرنہیں خودپرپینی نظررکھتے ہیں ۔یہ بھی صاحب اسلوب ادیب تھے،مصنف کی کئی کتابیں شہرت ومقبولیت رکھتی ہیں ۔ایک بے مایہ کا سفرحج کی کسی عبارت پرافسانویت کاغلبہ نہیں،یہاں بیانیہ ہی بیانیہ ہے ،مکالمے نہیں۔ان کی عبارت عربی،فارسی اورپرکشش اردوسے مزین ہوتی ہے۔نصوص اسلامی، اخلاق نبوی اوراطوارصوفیانہ سے ان کارشتہ کہیں کمزورنہیں ہوتا۔مقامات مقدسہ پراحساس ندامت قاری کی آنکھوں کورواں کردیتاہے۔ کہیں مزاح پیداکرتے ہیں تواس کے ڈانڈے پھکڑپن سے نہیں ملتے۔رکھ رکھاؤباقی رہتاہے۔فن کی عظمت کی بحالی کے لیے عظمت خداورسولؐ کاسودانہیں کرتے۔اسلوبی تنوع اوررنگارنگی کی تخلیق کے لیے سطحیت سے گریزکرتے ہیں۔کلاسیکی اردوادب سے یہ بھی استفادہ کرتے ہیں۔لیکن ان کی عبارت پرصرف اردوکامزاج غالب نہیں۔ اردوکی ان مقدس ہستیوں کاغلبہ ضرورہے،جودین اوراموردینی کاپاس رکھتے ہوئے خذماصفاودع ماکدرکے قائل تھے ۔اردوکے کمزورسہارے تلاش کرنے کے بجائے مضبوط اصولوں ،صوفیانہ ذہنی پرورش ،مستحکم قوت ارادی،عاجزی وانکساری اورمقامات ومقدسات کے تقاضے کے مطابق عمدہ ،متنوع اوررنگارنگ اسلوب میں اپنی بات کرتے ہیں۔سفرنامہ لکھتے ہوئے نہ مفتیانہ احساس برتری، نہ مولویانہ ہٹ دھرمی،نہ ادیبانہ کروفرکے شکارہوتے ہیں،وہ صوفیانہ عاجزی وانکساری،خانقاہی اخلاق و آداب کو روا رکھتے ہیںاوراس عاجزی، انکساری، متانت، سنجیدگی، چنر موری میلی اورخاکساری کے ساتھ اسلوب کی ندرت،کشش،شگفتگی،شائستگی،فرزانگی اورسادگی میں پرکاری پیدا کرتے ہیں۔
قرآنی آیتوں اورحدیث کے ٹکڑوں سے اسلوبی استفادہ
عام طورپرمدرسے کے طلباعالمیت کی تعلیم کے آغازسے قبل حفظ قرآن کریم سے شرف یاب ہوتے ہیں۔لیکن ایک بے مایہ کاسفرحج کے مصنف مولاناقادری عالمیت وفضیلت کی اسناد کے حصول کے بعدحفظ قرآن کی طرف متوجہ ہوئے اوردارالعلوم مجیبیہ ،پھلواری شریف کے طلباکی تدریس کے ساتھ حفظ قرآن کریم مکمل کیا۔قرآن پاک ان کی زندگی کے آخری دنوں تک ازبرتھا،وہ قرآن پاک کے ترجمے ،تفسیر،تشریح اوراس کی باریکیوں سے بھی اچھی طرح واقف تھے۔اپنے سفرنامۂ حج ایک بے مایہ کاسفرحج میں وہ قرآنی نصوص سے استفادہ کرتے ہیں۔موقع ومحل کے مطابق قرآن پاک سے استدلال کرتے ہیں،قرآنی دعاؤں کااستعمال کرتے ہیں۔جمرات اورحضرات ابراہیم واسماعیل علیہماالسلام کے واقعے کی تلخیص قرآن پاک کے مطابق پیش کرتے ہیں۔ان کے سفرنامے کامتن کہیں بھی قرآن وحدیث کے نصوص سے خالی نہیں ہوتااوران کی روح کے تقاضے کے برخلاف منصف کہیں دائیں بائیں نہیں ہوتے،جن مقامات پرقرآنی استدلال کے تقاضے پیش نظرہوتے ہیں،وہ انھیں پوراکرتے ہیں۔اس کے علاوہ اپنے اسلوب کو شستہ،شگفتہ، متنوع، پراثر، جاذب نظر،کثیرلسانی (ملٹی لنگول)بنانے کے لیے اپنے جملوںمیں بھی آیتوں کے ٹکڑے نگینوں کی طرح جڑ دیتے ہیںاوراپنے جملوں میں استعمال ہونے والے قرآنی ٹکڑوں کاترجمہ نہیں کرتے، قرآنی ٹکڑے مصنف کے متن کااٹوٹ حصہ بن جاتے ہیں۔اگرقاری کوان قرآنی ٹکڑوں کے ترجمے معلوم نہ ہوں، تب بھی مصنف کے برتنے کے اندازسے قاری ان ٹکڑوں کے نصف مفہوم سے واقف ہوجاتاہے۔یہ اسلوبی طریق کارنیانہیں ہے،البتہ یہ راہ کچھ آسان اورعام بھی نہیں۔اس طریقے کے اختیارکرنے میں کچھ دشواریاں بھی ہیں اورکچھ وجوب کے درجے تک پہنچے ہوئے اصول بھی۔اس طریقے کوکوہ پیمائی کے شوقین علماحضرات ہی اختیارکرتے ہیں،جنھیں آیات قرآنی ازبرہوتی ہیں،ان کی تفسیر،شان نزول اورروح سے واقفیت ہوتی ہے ۔مولاناقادری بھی انہی جیالوں میں تھے ۔بعض ایسے مقامات ہیں،جہاں اس طریقے کواختیارکرکے مصنف کتاب نے قارئین اورلسانی ذوق رکھنے والوںکی تشنگی کی سیرابی کاسامان مہیاکیاہے ۔چندمثالیں دیکھیں۔
’’اپنے مومن بندوں پراللہ تعالیٰ خصوصیت کے ساتھ مہربان ہے وبشرالمومنین بان لھم من اللہ فضلاکبیراکبھی حالات نامساعد،زمانہ معانداورامیدکے تمام دربندہوتے ہیںاور بندے کوناامیدی ہونے لگتی ہے وظن ان لن نقدرعلیہ تواچانک اس کی رحمتوں کی بادنسیم چلنے لگتی ہے ۔‘‘( ص۳۰)
’’اس کے خزانوں میں کوئی کمی ہوئی ہے نہ ہوسکتی ہے،بندگان محتاج سے اس کوعوض مطلوب نہیں اوروہ عوض دے بھی نہیں سکتے:لانسئلک رزقانحن نرزقک۔‘‘(ص۳۰)
’’فضل وکرم کی غایت ونہایت یہ کہ اس بے مایہ کوتنہایہ شرف نہیں ملا،اس کی والدہ،اہلیہ اوربچے کوبھی اس کے ساتھ مکرم ومشرف فرمایا:فسبحان الذی بیدہ ملکوت کل شئی۔‘‘(ص۳۱)
’’زندگی تلخ وترش گزرتی رہی،طویل وقت گزرگیا،کبھی حالات کی سختی میں قلب ودماغ بے اختیارچیخ پڑتے،متی نصراللہ،متی نصراللہ،اللہ تعالیٰ کابڑاکرم رہاکہ ایسے کڑے لمحات میں بھی بندوں سے امدادوتوجہ کاخیال نہیں آیا۔‘‘(ص۴۱)
’’بندہ جہاں کہیں ہواللہ تعالیٰ اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے،وہ کسی سمت میں سجدہ کرلے،اس کے سجدے اللہ ہی کی طرف ہوں گے ۔فاینماتولوافثم وجہ اللہ،تم جدھررخ کروادھراللہ کی ذات ہے ۔‘‘(ص۶۸)
’’میں نے بعض لوگوں سے کہاکہ آپ کی بات درست ہے،حج کی تکلیفوں پرصبرباعث اجرہے،لیکن ان ہی مصائب پرجومن جانب اللہ ہیں،آج کل حجاج کوجوپریشانی ہوتی ہے، وہ بماکسبت ایدی الناس ہے،معلمین اورانتظامیہ کی طرف سے ہورہی ہے۔‘‘(ص۸۴)
’’جوکام اپنے وطن میں یاکسی بھی دوسری جگہ باعث ذلت ہوتاوہ یہاںمشعرحرام میں عزت محسوس ہورہاتھا،ہروہ کام باعث عزت ہے،جواللہ تعالیٰ کی نگاہ میں محمودہے،وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنینکنکریوں کے لیے چھوٹی چھوٹی تھیلیوں کاانتظام ہندوستان ہی میں کرلیاگیاتھا۔‘‘(ص۹۶)
’’مکہ مکرمہ پہنچ کرکھانے کامسئلہ درپیش ہوا،قریب میں کوئی ہوٹل نہ تھا،ایک جنرل اسٹوربلڈنگ کے نیچے تھا،جس میں خانہ داری کی تمام چیزیں دستیاب تھیں،پنیر،شہد،دودھ،قشطہ، زیتون کے بندڈبے،تندوری روٹیاں مل رہی تھیں،لیکن ان سب سے کب تک کام چلایاجاتا،یہاں تومعدے سے صداآرہی تھی:لن نصبرعلی طعام واحداورزبان کاذائقہ چاہتاتھا: مما تنبت الارض من بقلھاوقثائھاوفومھاوعدسھاوبصلھا،یہ سب نباتاتی غذائیںدکان میں موجودتھیں،لیکن پکانے کے لیے برتن ندارد،گھرسے ایک چمچی بھی نہیں لے کرآئے تھے،مگر اپنی تمام ترنااہلیوں کے باوجودبلدامین میںضیوف الرحمان میں شامل تھے۔‘‘(ص۱۰۸)
’’واجبات حج میں صرف طواف وداع باقی رہ گیاتھا،مناسب موقع کاانتظارتھا،مدینہ طیبہ جانے کی تاریخ کاہمارے معلم مرزوقی صاحب نے باقاعدہ اعلان نہیں کیاتھا،مختلف خبریں اڑتی پھررہی تھیں،کوئی بتاتاکہ ۱۲؍جنوری کوجاناہے،کوئی ۱۳؍جنوری کی خبرلاتا،کوئی ۱۴کی اطلاع فراہم کرتا،بہرحال سارے لوگ مذبذبین بین ذالک تھے،اس غیریقینی تاریخوں کی بناپرسب لوگوں سے کہہ دیاکہ جس کوجیسے موقع ملے طواف وداع سے فارغ ہوجائے۔‘‘(ص۱۲۶)
حدیث کے ٹکڑے سے اسلوبی استفادے کی مثال دیکھیں
وہاں پہنچ کرقلب کوطمانیت،انشراح اورسکون حاصل ہوا۔چالیس لاکھ افرادجہاں موجودہوںاس جگہ کوشوروغل سے گونج اٹھناچاہیے،لیکن یہ اس وادیٔ مقدس کی برکت اورحج کی کرامت ہے کہ پوری وادی میں حفتھم الملائکۃوغشیتھم الرحمۃونزلت علیھم السکینۃکامشاہدہ ہوتاہے۔‘‘(ص۹۲)
ایسے مقامات اوربھی کتاب میں ہیں،جہاں مصنف نے اس طرح کااسلوبی تجربہ کیاہے،یہ چندمثالیں تھیں۔اس کے علاوہ پوری کتاب میں درجنوں آیتیںاوراحادیث موجودہیں، جنھیںاستدلال کے لیے استعمال کیاہے،لیکن میں نے ان آیتوں کواستدلالی ہونے کی وجہ سے یہاں پیش نہیں کیا،چوں کہ میرامقصدیہاں اسلوبی تجربہ پیش کرناہے ۔ان آیتوں کے علاوہ قرآن کریم واحادیث نبوی سے ثابت دعائیںبھی مصنف کتاب درج کرتے ہیں۔ان دعاؤں سے بھی ان کااسلوب متنوع ہوتاہے۔تاہم ان دعاؤں کاراست تعلق متن اورمتن کے اسلوبی تجربے سے نہیں ہے اورمتن پران کے مثبت اثرات سے انکاربھی ممکن نہیں ۔قابل غورہے کہ مندرجہ بالاجملوں اوراقتباسات میں بعض ایسے بھی ہیںکہ مصنف اگرآیتوں اورحدیث کودرج کیے بغیران جملوں کوخالص اردومیںپراثربنانے کی کوشش کرتے تو ممکن نہیں تھا۔قرآنی آیتوں اوران کے ٹکڑوں سے جملوں میں دھنک رنگ کشش ،معنیاتی نظام، گہرائی،گیرائی ،عمق،مستحکم پس منظراورلسانی ذوق کااحساس ہوتاہے،یہ مقاصدصرف اردوسے حاصل نہیں ہوسکتے۔
ایک بے مایہ کاسفرحج کے اسلوب پرفارسی کے اثرات
فارسی اورخانقاہوں کاقدیم اورچولی دامن کاساتھ ہے ۔ہربڑی اورعلمی پس منظررکھنے والی خانقاہ میں آج بھی کچھ مخطوطے فارسی کے پائے جاتے ہیں۔ خانقاہ مجیبیہ میں بھی مخطوطوں کی کافی تعدادہے۔ہرعہدمیں یہاں کچھ فارسی شعراپائے جاتے ہیں،اردوکے ارتقا اورفروغ میں جہاں اس خانقاہ کی شعری ونثری خدمات سے صرف نظرنہیں کیاجاسکتا۔وہیں فارسی کی بقاواستحکام میں بھی اس کاکلیدی کرداررہاہے ۔خانقاہ مجیبیہ کے تاریخی تسلسل میں درجنوں فارسی کے شعراپائے جاتے ہیں،اخیرزمانے میں مولاناشاہ ہلال احمدقادری بھی فارسی شعرامیں شامل تھے،ان کے بعد مولاناسیدشاہ آیت اللہ قادری مجیبی،مفتی شاہ بدراحمدمجیبی،مولاناشاہ مشہوداحمدقادری کے ساتھ نوجوان عالم مولاناشاہ فصیح الدین محمدعاصم قادری زینبی بھی فارسی شاعری سے شغف رکھتے ہیں۔شاید ہندوستان کی موجودہ خانقاہوں میں یہ خانقاہ اکلوتی ہوگی،جہاںمحفل سماع میں فارسی اورعربی کلام کے علاوہ کسی زبان کے کلام پیش نہیں کیے جاتے ۔
تسلسل کے ساتھ نسلابعدنسل اس خانوادے میں فارسی سے شغف وتعلق مستحکم رہاہے اورہے،جس کے اثرات اس کتاب ایک بے مایہ کاسفرحج پربھی ہیں۔ کتاب میں درجنوں فارسی کے اشعاردرج ہیں،متعددقدیم شعراکے اشعاراورمصرعوں کومصنف نے اپنے جملوں کے اختتام پربرمحل استعمال کیاہے،جومصنف کی عاجزی و انکساری،عقیدت و محبت، فدائیت وفنائیت کوعیاں کرتے ہیں۔مصنف، کتاب میں کہیں بھی فارسی کے اشعاربے تکے اندازمیں استعمال نہیں کرتے۔پہلے اپنی نثرسے ماحول سازی کرتے ہیں،خود کو عاجزی وانکساری اورخودسپردگی کی انتہاپرلے جاتے ہیں،پھرفارسی کے کسی شعریامصرعے کوبرمحل ٹانک دیتے ہیں ،جس سے ماحول انتہائی روحانی وعرفانی اورصوفیانہ بن جاتاہے۔ قاری کوآہ وزاری کرنے کاجی چاہتاہے۔مکہ مکرمہ ہویامدینہ منورہ دونوں مقدس مقامات پرمصنف کایہ طریق کارجاری رہتاہے۔البتہ مصنف جب مدینہ منورہ کے لیے بس پر سوار ہوتے ہیں،توایسالگتاہے کہ علامہ جامی بھی شامل سفرہیںاورمصنف کوانہی کے بازومیں بیٹھنے کاشرف ملاہے۔کتاب کے مدینہ منورہ والے حصے میںعلامہ جامی کے مصرعے اور اشعاردرج کرتے ہیں،علامہ جامی کے نعتیہ اسلوب سے جوواقف ہیں،انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ علامہ کس فنائیت وفدائیت اورجذبۂ غلامی کے ساتھ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میںنعت پیش کرتے ہیں۔جامی کے اشعارکی وجہ سے مولاناقادری کی عاجزی وانکساری اورفریاددوآتشہ ہوگئی ہے۔ ایک اقتباس دیکھیں،جہاں مولاناقادری پہلے منظرنگاری کرتے ہیں،پھراپنے وجودکی بے کلی بیان کرتے ہیںاوردوشعردرج کرکے اپنی کیفیت ظاہرکرتے ہیں ۔
’’ جس مقام پربس رکی تھی وہ جگہ بڑی پرفضاتھی،معلوم ہواکہ مدینہ طیبہ یہاں سے چارگھنٹے کی مسافت پرہے۔ٹھنڈی اورپرکیف ہوائیں چل رہی تھیں،کہیں پردھوپ تھی،کہیں ابر کا سایہ تھا۔فضاکی لطافت اورہواؤں کی خنکی دیارحبیب کے قرب کی خبردے رہی تھی،میں چائے پی کربس کے قریب ٹہل رہاتھا،بے اختیارحضرت جامی کایہ شعرزبان پرآگیا:
اے بادعنبریںکہ وزیدی ازاں دیار
احییتنی بفضلک اھلاومرحبا
میں دیرتک اس شعرکی تکرارکرتارہا،جی چاہ رہاتھاکہ کوئی ہوتا،جومدینہ پاک کاذکرچھیڑتا،صاحب یثرب کی یاددلاتا،کچھ سننے سنانے کاموقع ملتا،مگرکوئی اپناہم ذوق نہ تھا،تنہائی کا احساس ہوا،طبیعت کی بے خودی چاہتی تھی کہ زائرین کوروک کریہ شعرسناؤں:
معطرہے اسی کوچہ کے ماننداپناصحرابھی
کہاں کھولے ہیں گیسویارنے خوشبوکہاں تک ہے۔‘‘(ص۱۳۱)
یہاںمصنف میں مدینہ طیبہ پہنچنے کی عجلت،یارسے منسوب مقامات کی دلکشی سے لطف اندوزی کاجذبہ پایاجاتاہے، مصنف کاٹہلنابس یوں ہی نہیں ہے،اس کا نفسیاتی مطالعہ کرنا چاہیے کہ مصنف ٹہل کرزبان حال سے کہناکیاچاہتاہے ۔مدینے سے چارگھنٹے کی مسافت پرہی مصنف کوفضاکی لطافت اورہواؤں کی خنکی اس لیے محسوس ہورہی ہے کہ دیارحبیب قریب ہے ۔قوت شامہ کے تخیل اورحس کی پروازپرقربان جایئے۔اس پرمستزادیہ کہ ایسے موقع پرعلامہ جامی یاد آرہے ہیں،یہاں بھی ندرت فکر، اسلوبی رفعت اورلسانی ذوق کی داددینی پڑے گی کہ ایسے موقع پرمصنف نے ایسے شعرکاانتخاب کیاہے ،جس میں نغمگی ہے،عجلت ہے،فرزانگی ہے،دیوانگی ہے،ذولسانیت ہے اورصوتی آہنگ بھی،اسی پربس نہیں کرتے،انھیں لطافت کی تقسیم کے لیے کوئی باذوق بھی چاہیے،جس سے محبوب کی باتیں دیرتک ہوسکیں۔یارنہ سہی ذکریارسہی،اس یارکی بات، جس کے ذکرکو ورفعنا لک ذکرککی سندحاصل ہے،اس دلدارکے لیے بے خودی ہے،جس کے گیسوکی خوشبواپنے صحرایعنی پھلواری شریف میں وہ پاتے ہیں۔اقتباس میں درج دوسرے شعرکی تفہیم سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ وہ اپنے وطن پھلواری کونہیں بھولتے۔بے خودی میں اتنی خودی باقی ہے ،جس میں پھلواری شریف سماسکے۔
فارسی کے اشعارکے ساتھ مصنف فارسی کے محاورے بھی اپنے متن میں استعمال کرتے ہیں،قاری کتاب کے سہ لسانی ذائقے سے لطف اندوزہوتاہے۔ فارسی محاوروںکی تعداد کتاب میںزیادہ نہیں ہے۔تاہم جتنے محاورے برتے گئے ہیں،برتنے کااندازنرالا ہے۔مصنف اپنی کتاب ایک بے مایہ کاسفرحج میں فارسی اشعار،فارسی محاورے، اردو اشعار، نعتیہ مصرعے یاآیتوں کے ٹکڑے استعمال کرتے ہیں،توایسالگتاہے کہ یہ بس اسی عبارت یااسی مقام کے لیے تخلیق ہوئے تھے۔موقع ومحل اورزبان پردسترس کی وجہ سے یہ ممکن ہوپاتاہے۔ورنہ اشعاراورمصرعوں کے استعمال کاچلن اردومیں عام ہے،بالخصوص علمااسلوب میں جاذبیت پیداکرنے کی کوشش میں ایساکرتے ہیں،لیکن وہ بات بہت سے علماکی تحریروں میںپیدا نہیں ہوپاتی،جومولاناقادری کی عبارتوں سے مترشح ہوتی ہے۔بہت سے لوگ متن میں کسی مخصوص شعرکے اندراج کی نیت سے عبارت سازی کرتے ہیں اور پھر مصرعے یاشعر درج کرتے ہیں ،اس رویے سے عبارت آوردکااحساس کراتی ہے ۔
وسیع مطالعہ،اردووفارسی کلاسیکی منظوم ومنثورپرنظر،قرآن پاک کی آیتوں کے تقاضے کے مطابق اس کی تفہیم،حالات حاضرہ پرنظراوربرتنے کانادراندازمتن کوآمدکاسرچشمہ بناتاہے ،جس کامظاہرہ یہ کتاب کرتی ہے اورانہی بنیادی تقاضوں کی ادائیگی سے اسلوبی ندرت اورجدت پیداہوتی ہے ۔کتاب میں جہاں فارسی کے اشعاردرج ہیں،وہیں فارسی کے محاورے اورفارسی تراکیب بھی ہیں، لیکن فارسی تراکیب کادخل اتناہی ہے،جتنے میں اسلوب منفردہو،رنگارنگ ہو،جس سے سہ لسانی کامیاب اسلوبی تجربہ ہوسکے ۔فارسی تراکیب کی آگ یاآنچ اتنی زیادہ نہیں ہے، جس سے مصنف کے متن کی روح یااس کا جسم ظاہری خاکسترہوجائے۔زیادہ ترمقامات پراسلوب کے خام مواد کا معاملہ برداوسلاماکے اصولوں پرگامزن ہے۔یہاںوہ اسلوب ہے،جسے دانش ورانہ اسلوب کہتے ہیں،معاصرزبان کہتے ہیں۔معاصردانش کی حس مولاناقادری کے متن پرغالب رہتی ہے ۔فارسی محاورے کے برتنے کی ایک مثال دیکھیں۔
’’جب ذرادل کوسکون اورچشم گریاں کواردگردنظرڈالنے کی فرصت ملی توسرکاردوجہاںؐکے دونوں وزراصدیق وفاروق رضی اللہ عنھماواعلی درجتھاکی خدمت میں ہدیۂ سلام پیش کرنے کاخیال آیا،یہاں تو’ہوش دردم نظربرقدم‘کی حالت تھی،نیچی نگاہوں سے اندازہ کرکے چندقدم دائیں ہٹے اورحضرات شیخین رضی اللہ عنھماکی خدمات بابرکت میں نذرانۂ سلام پیش کیا۔‘‘(ص۱۷۳)
دوسطروں کے اس اقتباس میں مواجہ شریف کی حاضری اوراپنی حالت بیان کی گئی ہے۔عبارت میں کوئی ابہام یاتجریدنہیں،جسے سمجھانہ جا سکے ۔اس متنی جزیرے میں قابل غورفارسی کامحاورہ ہے ،جسے انتہائی نفاست اورپاک بازی کے ساتھ پیش کیاگیاہے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں مصنف کی حالت کیاہے،اسے پیش کرنے کے لیے صرف ایک محاورہ استعمال کیاہے ہوش دردم نظربرقدم۔اگراس مقام پراخفائے حال کاقائل مصنف نہ ہوتا،کوئی ظاہربیںاورظاہردار مصنف ہوتاتو ہوش دردم نظربرقدم کوبآسانی پانچ دس صفحات میں پھیلاتا۔اپنی عقیدتوں کامظاہرہ کرتا۔مگرمولاناقادری کے اخفائے حال ،معجزبیانی اورایجازکی حالت یہ ہے کہ صرف ایک محاورے سے انھوں نے اپنی بات کہہ دی اورقاری ان کہی باتوں کوسمجھ گیا،جومصنف کہناچاہتے ہیں۔بامعنی محذوفات کاسلسلہ بھی مولاناکے اسلوب کی ایک خصوصیت ہے۔ متن اندرمتن اورمتن کی تہ داری سے عبارت عموم کے زمرے سے نکل کرخصوص کے درجے میںرسائی حاصل کرگئی ہے۔
اردواشعارومصرعے اورشعری تراکیب کے متن پراثرات
کتاب کے متن میں فارسی کی طرح اردوکے اشعارومصرعے بھی درج ہیں،مصنف کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ قدیم متون پران کی گہری نظرہے،مطالعہ عمیق ہے،خاص بات یہ ہے کہ عمومی لکھنے والوں کی طرح ان کاذہن یک طرفہ نہیں چوطرفہ چلتاہے،لکھنے والوں کی اپنی ترجیحات اوردلچسپیاںہوتی ہیں،کسی کاذہن نثرمیں زیادہ بہترکام کرتاہے،کسی کاشاعری میں ،کسی کے ذہن میں قدیم نثری متون کے حوالے کام کرتے ہیں،کسی کو قدیم وجدیدنظمیہ متون بآسانی ذہن نشیں ہوجاتے ہیں،یہاں صورت حال یہ ہے کہ قرآن و احادیث،قدیم حوالہ جاتی کتب کے متون،اردووفارسی کے نظمیہ متون،کلاسیکی شعراکی تراکیب کی طرف بیک وقت ذہن کام کرتاہے ۔مصنف اس کتاب میں علمی وایمانی بحثوں اورمختلف فیہ مسائل پرمخالف گروپ کے ہی قدیم متون کواپنے تصورات ونظریات اورعقائدکے حق میں استعمال کرتے ہیں،اختلافی اورمسلکی تشددسے احترازکرتے ہوئے علمی باتیں کرتے ہیں،دوسری طرف متن کی ساخت اوراس کے منفرداسلوب کی طرف بھی متوجہ رہتے ہیں ۔مرتبہ محترمہ ام یمین بھی اپنے اندازمیں اشارہ کرتی ہیں ۔
’’ انشاکی حیثیت سے یہ سفرنامہ بہت اہم ہے،زبان آسان اورعام فہم ہے،ترکیبوں میں انتہائی سادگی ہے۔مصنف کوعربی اورفارسی زبان پرمکمل عبورحاصل تھا،اس لیے اردوکے ساتھ زبان فارسی کی آمیزش ہے۔اس سفرنامے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اکثرفقروں اورپیراگراف کے مناسب وحسب حال آیات قرآنی،احادیث،عربی مقولے درج کیے گئے ہیں،جن سے مضمون میں نکھارپیداہوگیاہے اوراس کی جاذبیت وشیریںبیانی میں کافی اضافہ ہواہے۔‘‘(ص۱۳)
مرتبہ کے پیش لفظ کایہی وہ اقتباس ہے،جس نے مجھے یہ مضمون لکھنے پرراغب کیا اوریہ مضمون محترمہ کے مندرجہ بالاایجازی اقتباس کی ہی تفصیل ہے ۔اس انشاکومنفردبنانے میں شعری انتخاب نے بھی اہم کارنامہ انجام دیاہے ۔پوری کتاب میں فارسی اشعارومصرعے کے ساتھ اردوکے بھی منتخب ومنفرداشعارومصرعے حصول معانی کے لیے استعمال میں آئے ہیں ،جواسلوب پرمثبت اثردکھاتے ہیں،مولاناقادری اس کتاب میں زیادہ ترحمدیہ ونعتیہ اشعارومصرعے ،صوفیانہ اشعارومصرعے اورایسے اشعارومصرعے درج کرتے ہیں، جو ان کے داخل میں پوشیدہ عقیدت مندانہ جذبات ،عاجزی وانکساری،زعم خودی کے انکارکے مفاہیم کی عکاسی کرتے ہیں۔مصنف سعودی حکومت کی غلط پالیسیوں پرتنقیدکرتے ہوئے طنزیہ اندازاختیارکرتے ہیںاوربعض ایسے مصرعے اس مقام پردرج کرتے ہیں،جس سے قاری کی طبیعت پھڑک اٹھتی ہے ۔مولاناقادری کے اسلوب کو سجانے،سنوارنے اوراس کی مشاطگی میںاردوکے اشعارومصرعوں نے بھی بڑاکام کیاہے ۔
اردوکے اشعارومصرعے کے ساتھ مولاناقادری اپنی نثرمیں اردووفارسی کی شعری تراکیب بھی برتتے ہیں۔ایسے مقامات پرقاری مطالعہ کرتے ہوئے یہ سوچے بغیرنہیں رہ پاتاکہ ان شعری تراکیب کی آمدشعوری کوشش کانتیجہ نہیںبلکہ مصنف کے قدیم متون سے گہرے انسلاکات اورمسلسل مزاولت کانتیجہ ہیں،جوان کے ڈکشن کااٹوٹ حصہ بن چکے ہیں ۔ان تراکیب کی تلاش میںقاری جب اصل ماٰخذسے رجوع کرتاہے تومولاناقادری کی گہری نظرکااحساس اسے اورزیادہ ہونے لگتاہے۔وہ کہیں شیخ سعدی شیرازی ،کہیں غالب،کہیں اقبال ،توکہیں داغ کی شعری تراکیب استعمال کرتے ہیں۔اپنی نثرکوانھوں نے قدیم متون سے باندھ رکھاہے،جس سے اسلوب کاایک نیاسانچا اورساخت نکل کرسامنے آئی ہے ۔ان کے نزدیک شعری ذوق رکھنا اور افسانوی اہمیت رکھنے والے منثورمتون کامطالعہ بھی شجرممنوعہ نہیں۔دوددل مستمند،ستم ایجادی کاگلہ،عرق انفعال،رم آہو،لیلاے نجدوغیرہ شعری تراکیب کااستعمال عمدہ اندازمیں کیاگیاہے ۔اس طرح کی کاوشوں سے مولاناقادری کامتن ثروت مندہواہے،اسی متنی رنگارنگی اورتنوع کی وجہ سے یہ معاصرمتون سے ممتاز حیثیت حاصل کرتاہے۔ان مذکورہ عناصرسے خالی متن میں وہ جاذبیت،ندرت اورکشش پیدانہیں ہوتی،جواس طرح کے متن کومیسرآتی ہے،جس کے مطالعے سے مطالعاتی نظام مستحکم ہوتاہے۔ایک متن دیگربہت سے متنی حوالوں سے مزین ہوتاہے تومتنی لطف اپنی انتہاکوپہنچتاہے۔قاری ایک متن کوپڑھ کرکئی متون سے استفادہ کرتاہے ۔
ایک بے مایہ کا سفرحج کے اسلوب پرطنزومزاح کے اثرات
مولاناقادری سے میں اس لیے بھی فون پرباتیں کرتاتھاکہ وہ بذلہ سنج واقع ہوئے تھے،سال گزشتہ ان کے داخل اسپتال ہونے سے دوہفتہ قبل میں نے ڈھیروں باتیں کی تھیں،ان سے باتیں کرنے کے دوفائدے ضرورتھے،اعلیٰ قدروں سے لیس بذلہ سنجی اورمزاح کی لطافت،دوسرا علمی استفادہ۔مولاناقادری کے مزاج میں بذلہ سنجی بہت تھی،وہ سنجیدہ ماحول کوخوش گواربنادیتے۔جملوں سے کھیلنے کاہنرانھیں دوسروں سے مختلف اورمنفردبناتا،ان کے مزاج کاتعارف سفرنامے میں بھی ہواہے۔ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مزاحیہ اورطنزیہ جملوں سے ماحول خراب نہیں کرتے، خراب ماحول کوخوش گواربناتے ہیں۔ان کے طنزیہ جملوں میں اکھڑپن ،ناراضگی اوربدمزاجی نہیں ہوتی،ان کے مزاحیہ اورطنزیہ جملوں میںاندازتکلم اورالفاظ نرم ہوتے ہیں،ان کے مزاج کی نرمی ان کے جملوں پرحاوی ہوتی ہے،دوران سفر تکلیف اوربدنظمی کے وقت وہ طنز کرتے ہیںیاتنقیدمگران دونوں موقعوں پرسینۂ شمشیرسے دم شمشیرباہرنہیں ہوتا۔دوران گفتگوبھی وہ نرم دم گفتگو ہوتے اورجیسے ہی بات علم وتعلم کی شروع ہوتی وہ گرم دم جستجوہوجاتے،میری حوصلہ افزائی کے ساتھ ہمیشہ گرم دم جستجورہنے کی تلقین کرنانہیں بھولتے۔لکھنے اورپڑھتے رہنے کی نصیحت کرتے،کچھ کتابیں اور کچھ مضامین کاحوالہ ضروردیتے کہ انھیں پڑھو۔
بذلہ سنجی اورمزاحیہ ماحول انھوں نے اپنی اس کتاب میں بھی پیداکیاہے،بعض بہت سنجیدہ موقع پرایک آدھ مزاحیہ جملے سے وہ قاری کی تکان دورکردیتے ہیں،مزاح پیداکرنے کے لیے سوقیانہ جملے اورالفاظ استعمال نہیں کرتے،کسی کی تضحیک نہیں کرتے،جملے کی ساخت اورالفاظ کے انتخاب سے ماحول مزاحیہ بناتے ہیں۔سامنے کی بات کوایسے رنگ میں باندھتے ہیںکہ قاری زیرلب تبسم پرمجبورہوجاتاہے۔کسی مزاحیہ جملے سے بدتہذیبی یاان کے صوفیانہ اورخاندانی مزاج کے برعکس رویے کااظہاربالکل نہیں ہوتا ۔ مقدسات کی تکریم کاتصورباقی رہتاہے اورمصنف کے ساتھ قاری کوبھی یادرہتاہے کہ وہ جہاںہے وہاں فرشتے بھی باادب باملاحظہ ہوتے ہیں۔ان کے مزاحیہ جملوں سے ان کے مزاج کی صدیوں پرانی شائستہ قدریں ظاہرہوتی ہیں ۔ مزاح کی چندمثالیں۔
’’ہمارے ہندوستانی برادران دھکے دے کربس پرچڑھنے کی پختہ عادت سے فائدہ اٹھاتے،ایسے یلغارکی حالت میں ہم جیسے ناتواں کہاںٹھہرتے،یہ تماشادیکھ کرمفت کی سواری سے ہاتھ دھوناپڑا،عقل مندلوگ پیسہ بچانے کے لیے انتظاربھی کرتے اوردھکے دے کراوردھکے کھاکرچلے جاتے تھے۔‘‘(ص۱۰۷)
’’لوگ ڈرتے ہیں کہ ہاتھ چھوٹاتوحرم میں بیگم چھوٹیں۔‘‘(ص۱۲۴)
’’بہرحال اس زمانے میں شیطانی کاموں میں بہت وسعت اورپھیلاؤآگیاہے اورشیطان بظاہربھی وسیع وعریض ہوگیاہے،اسی مناسبت سے اس کی پٹائی بھی منیٰ میں زیادہ ہوگئی ہے۔‘‘(ص۹۹)
طنزکی مثال دیکھیں۔
حالاں کہ کلکتہ حج ہاوس میںجوپولیوکی دواپلائی گئی تھی،وہی ستم ظریفی سے کم نہ تھی،اس پرمزیدجدہ میں دواپلاکرگویاسعودی حکومت نے احتیاط کے تقاضے کوپوراکرناضروری سمجھا، کاش کہ امریکہ اوریورپ کے متعدی جراثیم سے بھی وہ ایسے ہی احتیاط کرتے۔‘‘(ص۵۶)
عمومی طورپرمصنف سعودی کی خارجہ پالیسی بالخصوص امریکہ سے تعلقات کی نوعیت ،روضہ انور،حضورصلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے عشق ومحبت اورجنت البقیع کی حالت پران کے عقائد کے خلاف سعودی حکومت کوطنزکانشانہ بناتے ہیں۔لیکن طنز کرتے ہوئے اس بات کاخیال رکھتے ہیںکہ کوئی جملہ یالفظ ان کی شان کے خلاف نہ نکلے۔طنز کوبرہمی، ناراضگی اورمسلکی اناکی تسکین کاذریعہ نہیں بناتے،جہاں مسلکی اختلافات ہیں،وہاں وہ قدیم کتابوں سے حوالے دیتے ہیں،صبرکرتے ہیںاوراگرایسے موقع پرطنزکرتے بھی ہیں تو غیر شائستہ اندازمیں نہیں۔یہ توازن،اعتدال اوروسطیت ان کے غیرجانب دارانہ مطالعے،خاندانی ورثے اورموافق ومخالف متون پرنظراوران سے بصیرت کشیدکرنے کی عادت کا نتیجہ ہے ۔
ایک بے مایہ کا سفرحج میں سراپانگاری ومنظرنگاری
اس سفرنامے میں اسلوب کی ایک سطح سراپانگاری اورمنظرنگاری کی بھی ہے۔کسی بھی تحریرکی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں،قلم کارکی ترجیحات اس کی تحریروں پرغالب آجاتی ہیں۔اس سفر نامے میں کون ساعنصرکہاں رکھناہے،کہاں کتنااورکس اسلوب میں لکھناہے۔اس سے مصنف کے اچھی طرح واقف ہونے کی وجہ سے بھی اسلوبی ندرت پیداہوئی ہے،جب وہ سفرنامہ شروع کرتے ہیں۔اپنابچپن پیش کرتے ہیں،بچپن کے مسائل درج کرتے ہیں،تواس مقام پروالد کے انتقال کے بعدداداکی سرپرستی اوران کی محبت وشفقت بھی بیان کرتے ہیں۔اس ضمن میں وہ اپنے داداکی سراپانگاری کرتے ہیں۔سراپانگاری کی لفظیات پراپنی توانائی صرف کرتے نظرنہیں آتے،لیکن ان کے خلوص، عقیدت ومحبت،وارفتگی اوراحسان شناسی کے جذبے نے سراپانگاری کارنگ چوکھاکردیاہے،ازدل خیزدبردل ریزدکی کارستانی یہاں اپنے عروج پرہے ۔
’’ایک یتیم بچے کے لیے داداکی آغوش تربیت سے بڑھ کرکوئی اورجگہ نہیں ہوسکتی ہے،اس نے شعورکی آنکھیںاپنے داداکی آغوش میں کھولیں،پہلے پہل ان ہی کی نورانی صورت دیکھی،ان کی شخصیت جلالت علمی وروحانی میں نابغۂ عصراورفخرروزگارتھی،سپیدنورانی داڑھی،خوب روشن ومنورچہرہ،بڑی بڑی آنکھیں،درمیانہ قامت،ہلکاجسم،بھاری اوربارعب آواز،پوراسراپانورانی معلوم ہوتاتھا،ان کی نورانی شکل وصورت،اس کے قلب وذہن میںجم کررہ گئی،ان کی غیرمعمولی شفقت ومحبت نے اس کے ذہن میں ماضی کی وہ تصویرمٹائی تونہیں،دھندلی کردی اوروہ بھول گیاکہ اس پرکیاگزری تھی ۔‘‘(ص۳۴)
بالکل عام فہم زبان میں یہاں سراپانگاری ہوئی ہے،اس کے باوجوداس میںتاثیراوردل کشی ہے،جوقاری کواپنی طرف کھینچتی ہے۔بچپن والے حصے کوبہت دکھ اوردردکے ساتھ لکھتے ہیں،لیکن اپنادرداوردکھ چھلکنے نہیں دیتے،الفاظ وجملے سے ان کے درد کااحساس ہوتاہے ۔خلوص اورتاثیراپنارنگ دکھاتے رہتے ہیں۔ کہیں لکھتے ہوئے ان کی آنکھیں نم ہوتی ہیں، کہیں بچپن کویادکرکے خوش ہوجاتے ہیں۔کہیںاس بات پراللہ کاشکراداکرتے ہیں کہ تمام ترناگفتہ بہ حالات کے باوجودکسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہیں آئی۔
یہ سفرنامہ تین اسلوبیاتی جہتوں کاحامل نظرآتاہے۔کتاب کاپہلاحصہ ،جس میں اپنے بچپن اورگھرکے ماحول کودرج کیاہے،اس کااسلوب مختلف ہے،اس میں خلوص ہے، تاثیرہے، یتیمی کی نارسائی ہے،داداکی سرپرستی پرخداکے شکرکاجذبہ ہے،ایک طرح کالسانی شعوریہاں بھی قاری کومتاثرکرتاہے،جوسادگی ہے،اس سادگی میں تاثیراورخلوص کی جھلکیاںاپنا اثردکھاتی ہیں،کتاب کے دوسرے حصے کی تشکیل سہ لسانی امتزاج سے ہوتی ہے،جس میں عاجزی وانکساری کے ساتھ قرآنی آیتوں کے ٹکڑے،فارسی واردوکے محاورے، اشعار، مصرعے اورطنزومزاح وغیرہ اپنے اثرات دکھاتے ہیں،اس حصے میں غیرمعمولی لسانی اظہارات ہیں،وہیں تیسرے حصے میںاستدلالی اسلوب ہے،جس میں قدیم متون سے خانقاہوںمیں رائج روضہ نبوی،مواجہ شریف کی عزت وتوقیراورمواجہ شریف کی جانب ہاتھ اٹھاکردعاکرنے اوردیگراختلافی مسائل پر دلائل پیش کیے گئے ہیں، روایتی مذہبی تصورکو پیش کرنے کے اسلوب میں زور،دل نشینی اوراثرانگیزی ہے۔مولاناقادری کااسلوب وہ قوت اظہارہے،جس میں صدیوں کی پھلواروی علمی وفکری تہذیب بول رہی ہے،اس پر مستزاداسلوبی شوکت وعلویت ہے،جودمشق کے بازارسے زینبی جز ہونے کی وجہ سے آئی ہے،جواحقاق حق اورابطال باطل کی قوت پیداکرتی ہے،جس میں شوکت و علویت کے ساتھ تنوع اوربوقلمونی ہے۔
روایتی مذہبی دنیاکومحترمہ ام یمین کاشکرگزارہوناچاہیے کہ انھوں نے اس متن کومرتب کرکے علمی دنیاکے سامنے پیش کیا،حالاں کہ وہ مصروف ترین خاتون ہیں،ایک طرف خانقاہ کے بہترانتظام وانصرام اورخانقاہی اخلاق واطوارکوبہتراندازمیں چلانے کے لیے اپنے شوہراورخانقاہ کے سجادہ نشیںحضرت مولانا سید شاہ آیت اللہ قادری کی معاون ومددگاربنتی ہیں،دوسری جانب خانقاہ کے مستقبل کوسنواررہی ہیںاورایسی تربیت دے رہی ہیں کہ کوئی بھی خانقاہی آداب واخلاق کا رسیا اس اکیسویں صدی میںشہزادے محمدیمین اللہ قادری کو دیکھ کرخانقاہ مجیبیہ کے روشن وتابناک مستقبل کی پیش گوئی کرسکتاہے ،جواپنی کم عمری اورلڑکپن کے باوجودخانقاہی اخلاق و اطوار کا آئینہ ہیں اورعلمی طورپرصورت حال یہ ہے کہ لڑکپن میں اپنے والدگرامی کامقالہ نصوص،الفاظ اورمتن کی رعایتوں کے ساتھ مجمع عام میں بے جھجھک اورتلفظ کی درست ادائیگی اور اس کی نبض پرہاتھ رکھ کرپیش کرتے ہیں۔محترمہ خانقاہ کی اس نئی نسل کے نمائندہ فردکی شخصیت سازی کررہی ہیں،جس کاخواب عمومی طورپرنظریاتی تصوف رکھنے والے اسٹیجوں پر بولتے ہوئے دیکھاکرتے ہیں۔یمین اللہ قادری کی ذات ایساخانقاہی سانچاہے،جس میں دیگرخانقاہوں کی نئی نسل کے ولی عہدکے لیے بھی امکانات کی ایک وسیع دنیاآبادہے ۔اللہ خانقاہ مجیبیہ کی اس تثلیث کودیگرمجیبی علمااوراکابر کے ساتھ پوری توانائی،سرشاری،جذبۂ ایثاروقربانی کے ساتھ قائم ودائم رکھے اوران سے کام لیتارہے۔اللھم زدفزد
***