وجے کمار
ریسرچ اسکالر ،شعبہ اردو جموں یونیورسٹی
’’بال و پر سارے‘‘گلزارؔ کا مختصر کلیات: ایک جائزہ
دورِ حاضر میں جو ادبی شخصیات اردو شعر و ادب کو فروغ اور توسیع دینے میں اپنا مثبت رول نبھا رہے ہیں ۔سمپورن سنگھ کالرا المعروف ’’گلزارؔ ‘‘اُن میں ایک اہم نام ہے ۔جنھوں نے اپنی تخلیقات کی وجہ سے بہت جلد اردو دُنیا میںشہرت حاصل کی۔گلزارؔ اس وقت نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پربھی اپنی وسیع تر علمی،ادبی اور فلمی کام کی وجہ سے انفرادیت قائم کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ وہ ایک معتبر شاعر و ادیب ہی نہیں بلکہ ایک اچھے اسکرپٹ رائٹر،نغمہ نگار،فکشن نگار،کالم نویس ،کہانی کار اور مکالمہ نگار بھی ہیں۔
گلزارؔ نے اپنے منفرد لب و لہجے سے اردو شعر وادب میں اپنا ایک الگ گلستان سجایاہے۔ اُنھوں نے عام بول چال کی زبان سے الفاظ اخذ کرکے اپنی شاعری کو روح پرور بنایا ۔لفظوں کی جادوگری،تشبیہوں اور علامتوں کی سودا گری سے اردو شعر وادب کونئے ترکیبوں سے وسعت دی اور’’ تروینی ‘‘جیسی تازہ صنف کے موجد بنے۔اُن کی شاعری اکیسویں صدی کے عصری مزاج سے بالکل قریب ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالم اور عامی دونوں اُن کی شاعری کے شیدا ہیں۔اُن کے کلام میں ترقی پسندی کی روایت پزیری،جدیدیت کی علامت سازی، مابعد جدیدیت کے بعد کے عصری حِس بھی نمایاں ہیں ۔
گلزارؔنے تقریباًعصرحاضرمیںتخلیق ہونے والے ادب کی ہر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔نظم ،غزل،افسانہ، ناول، گیت، کہانی، فلموں کے مکالمے،منظر نامے جیسی اصناف میں کامیاب تجربے کئے ہیں۔اُن کی تصانیف کی تعدادتقریباً دو درجن کے قریب ہے۔اُنھوںنے تقریباً پچاس سے زائد فلموں کی کہانیاں اور اُن فلموں کے مکالمے بھی لکھے ہیں۔گلزارؔ کو ادبی و فلمی خدمات کے عوض بہت سے انعامات اور اعزازات بھی ملے ہیں جن میں ۲۰۰۴ ء میں ملنے والا پدم بھوشن بھی شامل ہے۔گلزارؔ کے شعری مجموعوں میںچاند پکھراج کا، رات پشمینے کی،پندرہ پانچ پچھتر،پلوٹو،کچھ تو کہئے،تروینی،یارجداہے،گلزارؔ،عمر سے لمبی سڑکوں پر اور ’’بال و پر سارے‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
زیر نظر مضمون گلزارؔ کا مجموعہ کلام ’’بال و پر سارے‘‘ پر مرکوز ہے۔جو ۲۰۱۷ء میں سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ،پاکستان سے شائع ہو کر منظرِعام پر آیا۔’’بال و پرسارے‘‘ میں’’ افضال احمد ‘‘نے گلزارؔ کے چھہ شعری مجموعوںکو ایک لڑی میں پرو کرایک خوبصورت اور ضخیم کتاب بنا کر ایوانِ ادب میں پیش کیا۔گلزار ؔ کا یہ مختصر کلیات ’’چاند پکھراج کا،رات پشمینے کی،پندرہ پانچ پچھتر،کچھ اور نظمیں،پلوٹو اور کچھ تو کہیے‘ پر مشتمل ہے۔
’’بال وپرسارے‘‘ کا انتساب گلزارؔ نے اردو دُنیا کے نامور فکشن نگار ’’انتظار حسین‘‘ کے نام اِن الفاظ میں کیا ہے۔
’’محترم انتظار حسین صاحب آپ کا لب و لہجہ یاد آتا ہے‘‘۔
زیر بحث مجموعہ کلام کے تعارف میں سمپورن سنگھ گلزار’’ؔانتظارحسین‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’اردو ادب کے اس دور کے سب سے بڑے فکشن نگار جناب انتظار حسین کا بڑا مدّاح تھااُن سے کئی بارہندوستان میںملاقات ہوئی۔ٹائمز آف انڈیا کے ایک پروگرام میںایک ساتھ شمولیت بھی کی تھی۔میں اپنی شاعری اُن کے نام منسوب کرنا چاہتا تھا۔وہ نہ کر سکا۔ایک سال ہوا وہ انتقال فرماگئے!مگر یہ مختصر کلیات میںاُن کے نام منسوب کررہا ہوں‘‘۔
(بال و پر سارے،ص۔۱۷)
گلزارؔ کے مختصر کلیات’’بال و پر سارے‘‘ میں شامل دیباچہ اصل میں اُن کے پہلے شعری مجموعے ’’چاند پکھراج کا‘‘ سے ماخذ ہے۔جو احمد ندیم قاسمی نے لکھاہے۔احمد ندیم قاسمی سے گلزارؔ کے گہرے مراسم تھے۔گلزارؔ اُنھیں پیار سے’’بابا‘‘ کہہ کر بُلاتے ہیں۔احمد ندیم قاسمی کی وفات پر گلزار نے ایک جذباتی نظم ’’بابا‘‘ لکھ کر اپنی ہمدردی اور احمد ندیم قاسمی کی موت پر غم کا اظہار کیا ہے۔
؎ تم نے جاتے وقت کیوں
مُڑ کے دیکھا بھی نہیں
سانس روکی اور تم
مٹی اوڑ سو گئے
گلزارؔ نے اس مختصر کلیات کا عنوان اپنی ہی ایک’ تروینی ‘سے اخذ کیا ہے۔
؎دور تک آسمان پہ اُڑتے رہے
اِک پرندے کے، بال و پر سارے
باز اپنا شکا ر لے کے گیا
گلزارؔ اکیسویں صدی میںبرصغیر ہند و پاک کے معتبر و مستند شعراء وادباء کے صفِ اوّل میںشمار کئے جاتے ہیں۔اُنھوںنے فلم انڈسٹری میںجس لگن و محنت سے کام کیا ،اُس سے کئی گناہ زیادہ اردو شعر و ادب کے گیسوئے پریشان کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ نکھارنے کا بھی کام کیا۔اُن کی نظمیں عصرِ حاضر کے تقاضے کو پوری طرح سے عکاسی کرتی ہیں۔اُنھوں نے نظم کی ہر ہیئت میں کامیاب تجربے کئے۔آزاد نظم ہو یا پابند نظم ہو،نظم معراء ہو یا نثری نظم گلزارؔ نے سب میںاپنے فنی و تخلیقی شعور کا مظاہرہ کیا ہے۔نظم کے علاوہ گلزار نے غزل،قطعہ،گیت اور عمدہ قسم کی تروینیاں بھی تخلیق کی ہیں۔
گلزارؔ کی شاعری کا مطالعہ کرکے پتہ چلتا ہے کہ اُنھوں نے مختلف موضوعات کواپنے منفرد اندازِبیان میں پیش کیاہے۔اُن کی شاعری میں فطرت ایک ہمزاد کا کردار ادا کرتی ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ فطرت کی وسعتیںکائنات جیسی وسیع ہیں۔دن، رات،صبح،شام،سورج،چاند،ستارے،سیارے،دھوپ، برف ،بادل،بارش،ساون،گھٹا،درخت،پتے،پھل،پھول،کلی،لہلہاتے سبزہ زار،اونچی اونچی چٹانوں سے بہتے ہوئے جھرنے جیسے مناظر کو گلزار ؔاپنی تخلیقات میںآسانی کے ساتھ سمیٹ لیتے ہیں۔بقولِ احمد ندیم قاسمی:
’’گلزار کے ہاںفطرت کے یہ مظاہرے جیتے جاگتے،سانس لیتے اور انسانوں کی طرح جانداروں
کاروپ دھار تے محسوس ہوتے ہیں۔شاعر اور فطرت کے یہ مظاہر اِن نظموں میںباہم آمیختہ ہوکریک جان ہو جاتے ہیں۔فطرت باقاعدہ متکلم (First Person) لگتی ہے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ’کون سا جواربھاٹا کہاں سے اُٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سمندر سے یا گلزارؔ کے ذہن کی حساس رگوں سے‘‘۔
(بال و پر سارے،ص۔۲۴)
؎ بارش ہوتی ہے تو پانی کو بھی لگ جاتے ہیں پاؤں
در و دیوار سے ٹکرا کے گزرتا ہے گلی سے
اور اچھلتا ہے چھپاکوں میں
کسی میچ میں جیتے ہوئے لڑکوں کی طرح
یا
کل کی رات گری شبنم تھی
ہولے ہولے کلیوں کے بند ہونٹوں پر برسی تھی شبنم
پھولوں کے رُخساروں، رُخسار ملا کر
نیلی رات کی چُنری کے سائے میں شبنم
پریوں کے افسانے کے پر کھول رہی تھی
دل کے مدھم مدھم ہلچل میںدو روحیں تیر رہی تھی
جیسے اپنے نازک پنکھوں پرآکاش کو تول رہی تھی
مناظرِ فطرت کی عکاسی گلزار ؔ کے کلام میںاستعارے کے ساتھ ساتھ علامت سازی کاکام بھی دیتی ہے اور فکری و شعوری پس منظر کا بھی۔جب وہ کسی فطری عکاسی کوپیش کرتے ہیںتو اُس کے پس منظر میںاُس شئے کے گرد گھومنے والی کائنات کو بھی سمیٹ لیتے ہیں۔
؎ برف پگلے گی جب پہاڑوں پر
اور وادی سے کُہرہ سمٹے گا
بیچ انگڑائی لے کے جائیں گے
اپنی السائی آنکھیں کھولیں گے
سبزہ بہہ نکلے گا ڈھلواں پر
گلزارؔ کی شاعری میں عشق و عاشقی اور اُس کے واردات و کیفیات کی عکاسی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔خط و کتابت ،ہجر و صال،یاس و حسرت،درد و کرب،اُمید و بیم،صحبت و تنہائی،تلاش و جستجو،قربت و دوری اور خوشی و غم جیسے جذ بات شدت اختیار کر لیتے ہیں۔
؎ اپنی ماضی کی جستجو میں بہار
پیلے پتے تلاش کرتی ہے
ایک اُمید بار بار آکر
اپنے ٹکڑے تلاش کرتی ہے
کتنی لمبی خاموشی سے گزرا ہوں
اُن سے کتنا کچھ کہنے کی کوشش کی
خون نکلے تو زخم لگتے ہیں
ورنہ ہر چوٹ نظم لگتی ہے
اِسی محدود زندگی میں اب
گرہیں باندھنا، کھولنا کیا
میں نے وقت سے آگے تک
تُم سے اُمید لگائی تھی
عادتاً تم نے کر دئے وعدے
عادتاً ہم نے اعتبار کیا
جب عاشق معشوق کی یاد میںتنہا بیٹھا ہوتا ہے اور اُس کو شدت سے تنہائی کا احساس ہونے لگتاہے تواس تنہائی کے کرب سے دو چار ہوکروہ آہیں بھرنے لگتاہے اور فراقِ یار میںاُس کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔اس شدت کو گلزارؔ اپنے ایک شعر میں اسطرح سے بیان کیاہے۔
؎شام سے آنکھ میں نمی سی ہے آج پھر آپ کی کمی سی ہے
شعراء حضّرات نے اکثر و بیشترانسان کی زندگی کی پیچیدگیوں،ذہنی و نفسیاتی کشمکش،زندگی کے نشیب و فراز،دُنیا کی ناپائیداری، گردشِ دوراں،وقت کی روانی،خیالات کا تسلسل ،جہدِ مسلسل اور عمل و ردِ عمل جیسے موضوعات پراپنی شعوری کاوش کے مطابق لکھاہے۔گلزارؔ کے ہاں زندگی کی پیچیدگیوں،وقت کی گہرائیوں اور اُس کی تیز رفتاری کے بارے میںبہت سے اشعار ملتے ہیں۔وقت جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔(ماضی،حال اور مستقبل) ماضی جو بیت گیاہے ہمیں پچھلے کئے کرائے کی یاد دلاتا ہے اور اپنی غلطیوں کا احساس کراتا ہے۔حال جو ہمیشہ زوال پزیر ہے۔پلک جھپکتے ہی ماضی میں بدل جاتاہے۔سامنے صرف فردا یعنی مستقبل کھڑا رہتاہے۔حال کب ماضی میں بدل جاتا ہے کچھ پتہ نہیں چلتا،جو وقت بیت گیا ،وہ مُڑ کر نہیں آتا،یہ کون نہیں جانتا۔ مگر جب گلزارؔ وقت کو موضوع بنا کراس پر قلم اُٹھاتے ہیںتو اپنے منفرد لب و لہجے سے قارئین و سامعین کو محظوظ کر دیتے ہیںاور ساتھ ہی وقت کی قدر و قیمت کا احساس بھی کراتے ہیں۔معشوق کی جدائی میں عاشق ہمیشہ آہ و فغاں کرتا رہتاہے اور تنہائی میں اکثر و بیشتر معشوق کو یاد کرتا رہتاہے۔جس کے باعث انسان کا اچھا خاصا وقت برباد ہو جاتاہے۔مگر عاشق اسے معشوق کو پانے کے لئے ریاضت و عبادت مانتاہے۔ایک ہجر زدہ عاشق جب معشوق کی جُدائی میں تڑپتاہے اور معشوق سے خیالوں میں ہی محوِ گفتگو ہوجاتاہے۔گلزارؔ اپنی ایک نظم کے بند میں محبوب کی فرقت میں اُس کو یاد کرتے رہنااور وقت کی تیز رفتاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
؎تمھاری فرقت میں جو گزرتاہے اور پھر بھی نہیں گزرتا
میں وقت کیسے بیان کروں، وقت او ر کیا ہے ؟
کہ وقت بانگِ جرس نہیں ، جو بتارہا ہو کہ دو بجّے ہیں
یا ایک تروینی میں گلزار ؔ وقت کو مرکزِگفتگو بنا کر کہتے ہیں۔
؎ اگلا پَل جینے کے لئے
پچھلے پَل کو وداع تو کر لو
کل جو گیا وہ گیا نہیں ہے
گلزارؔ کا خاندان ’’دینہ ،جہلم ‘‘ سے ہجرت کر کے تقسیم ملک کے دوران ہندوستان میں آ کر آباد ہوا،مہاجرین کی زندگی سے گلزارؔ بخوبی واقف ہیں۔اُنھوں نے بچپن میں ہی تقیسمِ ملک اور ہجرت کے کرب کو قریب سے دیکھا۔مذہب کے نام پرلوگ کس قدر وحشی اور درندگی کی حدوں کوپار کرتے ہیں اس کا تلخ تجربہ گلزار ؔ کے پاس ہے ۔جس کی عکاسی اُنھوںنے اپنے ناول ’’دو لوگ‘‘ اور کچھ افسانوں میں بھی کیا ہے۔’’راوی پار‘‘ افسانے میںملک کے بٹوارے کے دوران ہونے والے حادثات کی تلخ حقیقت کو بیان کیا ہے۔افسانوی ادب میں ہی نہیں بلکہ شعری تخلیقات میںبھی گلزارؔنے تقسیمِ ملک، فسادات،ہجرت اورشرنارتھی کی زندگی کو عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے۔
؎ہم سب بھاگ رہے تھے
ریفوجی تھے
ماں نے،جتنے زیور تھے ،سب پہن لئے تھے۔
باندھ لئے تھے۔۔
چھوٹی مجھ سے۔۔۔چھہ سالوں کی
دودھ پلا کے خوب کھلا کے ساتھ لیا تھا،
میں نے اپنی ایک ’’بھمیری‘‘اور اک ’’لاٹو‘‘
پاجامے میں اڑس لیاتھا۔
رات کی رات ہم ،گاؤں چھوڑ کر بھا رہے تھے،
ریفوجی تھے…………………..
نظم کے آخری بند میں گلزار ؔ نے سرحد کا ذکر اس دل سوز انداز میں کیا ہے۔
؎لیکن میں نے سرحدوں کی سناٹوں کی صحراؤں میںاکثر دیکھاہے۔
ایک ’’بھمیری‘‘ اب بھی ناچا کرتی ہے
اوراک’’ لاٹو ‘‘اب بھی گھوما کرتا ہے۔
(نظم بھمیری)
نظم’’ دینہ‘‘ میں شاعر نے اپنے گاؤں اورگھر کو موضوع بنا کر نہایت ہی دلکش اورپرُسوز انداز میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح سے ہجرت کے سانحہ نے انسان کو گھر سے بے دخل کرکے اُسے اپنے ہی وطن میں اجنبی کی طرح رہنے پر مجبور کیااور انسان اپنے گھر اور اپنی زمین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔کس طرح سے تقسیمِ ملک سے لوگ اپنے آباو اجداد کی بے مثال وراثت سے بے دخل ہوگئے۔ یہاں تک کہ انسان کو اپنے گھر واپس جانا بھی ناممکن ہوگیا ۔نظم کا ایک بند ملاحظہ ہے۔
؎گلی کا موڑ مُڑتے ہی مرا گھر تھا
بہت ڈر ڈر کے دروازے پہ دستک دی
کسی بوڑھے نے زنگ آلود دروازہ دھکیلا
بڑی حسرت سے مجھ کو دیکھا بوڑھے نے
مرا ہم شکل لگتا تھا۔
میں بستہ رکھ کے لوٹ آیا
ذیل میں دو اور شعر ہیں جن میں گھر اور وطن کی یاد اور دوبارہ واپس گھر لوٹنے کی خواہش کا تذکرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
؎میں اپنے گھر میں ہی اجنبی ہو گیا ہوں آکر مجھے یہاں دیکھ کر میری روح ڈر گئی ہے
میں کس وطن کی تلاش میں یوں چلا تھا گھر سے کہ اپنے گھر میں بھی اجنبی ہو گیا ہوں آکر
گلزارؔنے اپنی نجی زندگی میں مذہبی لباس کو اپنی شخصیت کا جُز بننے نہیں دیا،وہ مذہب سے سِکھ ہیںلیکن سکھ دھرم کی جو بنیادی پانچ نشانیاں ہیں جن سے سکھ مذہب کے پیروکار کو دور سے ہی پہچانا جاتا ہے گلزارؔ نے سب کا ترک کیا ہے ۔وہ ظاہر پرستی کے خلاف ہیں اور سبھی مذاہب کو یکساں مانتے ہیں۔وہ باتنی اور عملی طور پر نیک،دیانت دار اور ایماندار ہونے کو ترجیع دیتے ہیں۔اُنھوںنے نہ صرف عشق و قلب کی شاعری کی ،بلکہ سماجی اور قومی حالات کو بھی نہائت خوبصورتی کے ساتھ اپنے کلام میں پیش کیا ہے۔اُن کے کلام میں عصرِ حاضر کی جیتی جاگتی تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے۔انھوں نے اپنے کلام میںافق ،فضا،چاندنی،پھول،گلنار اور کندن جیسے الفاظ کو علامت کے طور پر اس طرح جوڑ دیا ہے کہ اگر اُن الفاظ کو شعر سے باہر نکال دیا جائے تو شعر بے معنی ہو جاتا ہے۔
؎اُفق کی اس حد سے اُس اُفق تک
شفق کے سب زرد زرد سے پھول کھل کے گلنار ہوگئے ہیں
وہ کچی کچی سے چاندنی جو مرے لہو میں گھلی ہوئی تھی
تمھارے اُجھلے بدن کی لَو چھو کے کندن سی ہوگئی ہے۔
کھلی فضا میں جیا نہیں ہوں
کُھلی فضا میں مروں تو تسکین ہو گی مجھ کو
دو عشق کرنے والوں کے فراق اور وصال کی کیفیات پر اگر چہ بہت سے شعرا ء نے اپنے اپنے انداز میں لکھا ہے مگرگلزارؔ کا اندازِ بیان یہاں بھی منفرد ہے۔یہاں عاشق معشوق کے پیچھے پیچھے دیوانہ وار نہیں پھرتابلکہ اپنی عزت ِنفسی ، وقار اور معیار کو برقرار رکھنے کے لئے معشوق سے ملنے میں عجلت نہیں کرتابلکہ یہ چاہتا ہے کہ معشوق بھی دو چار قدم چل کر آئے اور تب ایک دوسرے کے روبرو ہو کر ملاقات کریں۔یہاں عاشق معشوق کے انتظار میں کھڑا ہے مگر وہ اِدھر اُدھر نظر دوڑانے کے بجائے ایک شئے پر نظر مرکوز کر کے بیٹھا ہوا معشوق کا منتظر ہے۔
؎اُسے یہ ضد ہے کہ میں پکاروں مجھے تقاضہ ہے وہ بُلالے
قدم اُسی موڑ پر جمے ہیں نظر سمیٹے ہوئے کھڑا ہوں
’’ریپ‘‘آج کے سماج کا المیہ ہے۔آئے روز کہیں نہ کہیں سے ضرور خبر آتی ہے کہ فلاں جگہ پر فلاں عورت یا لڑ کی کو عصمت ریزی کے بعد درندگی سے قتل کیا گیا،اگر چہ دُنیا کے ہر ملک میںسخت سے سخت قوانین بنائے گئے ہیںلیکن پھر بھی اس قسم کی وارداتیں آئے روز ہوتی رہتی ہیں۔انسان کس قدر نفسیاتی مریض ہو کر درندگی کی حدیں پار کرتا ہے یہ سینہ انسانیت پرناسورہے۔ گلزارؔ اپنی نظم ’’ریپ‘‘ میں اس دل سوز سانحہ کو موضوع بنا تے ہوئے گویا ہیں۔
؎نہ وہ بھیگی ہوئی بارش میں، کوئی حور نُما لڑکی تھی!
صرف عورت تھی وہ، کمزور تھی وہ
چار مردوں نے ، کہ وہ مرد تھے بس
پسِ دیوار سے ’’ ریپ‘‘ کیا
فٹ پاتھ کی زندگی کو دور سے سب لوگ دیکھتے ہیںلیکن بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو قریب جا کراُس کرب ناک اور عذاب ناک زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔مجبوری، بھوک اور بے بسی انسان کو کیا کیا نہیں کرواتی،انسان کو گندی سی گندی حرکت کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔جرائم پیشہ بناتی ہے۔ عصمت فروشی کا کام کرواتی ہے اور جب ایک بے بس اور لاچار انسان کوکوئی اور راستہ نظر نہیں آتاتو وہ اپنے بال بچوں کوفٹ پاتھ پر بھیک مانگنے کے کام پر لگا دیتاہے۔گلزارؔ نے اپنی ایک نظم میںفٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے بکھاری کی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے اُسے اپنی دُنیا کا قلندر بنا دیاہے ۔فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا بکھاری اس جہانِ آب و گُل کے نشیب و فراز کا خندہ پیشانی سے کس طرح مقابلہ کرتا ہے۔اُسے نہ ذات برادری سے کچھ لینا دینا ہوتا ہے نہ مذہب و ملت سے ،نہ ہی کسی تیوہار یا جشن سے۔عید ہو یا دیوالی اُس کے لئے سب برابر ہی ہے۔بکھاری کی عید اُس دِن ہوتی ہے جس دِن اُس کو زیادہ بھیک ملتی ہے ورنہ شوال بھی رمضان کی طرح ہی گزرتا ہے۔
؎ فٹ پاتھ پہ رہنے کے جو ٹھاٹ ہیں
کیا جانے گھر چوکھٹ والے
ذات ،پات اور دھرم ورم سب،چھوٹ چکے فٹ پاتھ پہ آ کر
وار تیوہار، وہ اچھا ہے وہ جس دِن اچھی بھیک ملے
دُنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی پر بھی گلزارؔ نے اپنے خامے کو جنبش دی ہے۔موت ایک اٹل چیز ہے جو سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتی ہے۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں،دُنیا میں ہر شئے سب پر لاگو نہیں۔ہر جگہ کے قانون میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور ہے۔صرف موت ہی ہے جو سب کے ساتھ برابر کا انصاف کرتی ہے۔موت کی ضد زندگی ہے جو سب کے ساتھ برابر کا انصاف نہیں کرتی۔یوں تو زندہ سب ہیںلیکن زندگی جینے اور زندگی بتانے میں فرق ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بعض زندوں پر کبھی زندگی نہیں آتی۔اِ س جہانِ آب و گُل میں اگر چہ سب کچھ ہے مگر انصاف نہیں ہے۔اسی لئے شاعر نے اپنی ایک تروینی میں موت کو انصاف کی علامت قرار دیا ہے۔
؎ سب پہ آتی ہے سب کی باری ہے
موت منصف ہے کم و بیش نہیں
زندگی سب پہ کیوں نہیں آتی؟
گلزار ؔ کا ایک شعر اور ملاحظہ کیجئے جس میں دُنیا کی بے ثباتی کا ذکر دیکھنے کو ملتا ہے ؎
؎ یہ شاخ بھی ٹوٹے گی،یہ گھونسلہ بکھرے گا
پر تول کے پھر اک پل،ٹھہروں کہ چلو ہوگا
آ خر میں سمپورن سنگھ گلزارؔ کی تروینیوںکا ذکر کر کے بات ختم کر دیتے ہیں۔’’تروینی‘‘ تین مصرعوں پر مشتمل ایک مختصر صحیح مگر مکمل نظم ہوتی ہے جس کے موجد خود سمپورن سنگھ گلزارؔ ہی ہیں۔اپنے شعری مجموعہ ’’چاند پکھراج کا‘‘ میں گلزار’’ؔ تروینی ‘‘ صنف پربات کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’اس (تروینی) میںپہلے دو مصرعے ایک پورا مکمل شعر ہے۔خیال پہلے دو مصرعوں میں مکمل ہو جاتاہے۔تیسرا مصرع روشن دان کی طرح کھلتاہے۔اُس کی روشنی میںپہلے شعر کا تاثر بدل جاتاہے۔تیسرا مصرع Comment بھی ہو سکتاہے۔اضافہ بھی!’’تروینی‘‘ میں ایک شوخی کا رنگ ہے۔آر،کے لکشمن کے کارٹون You said it ”ـ” کی طرح !‘‘
(بال و پر سارے ۔ص۔۳۱۔۔۔۔’’چاند پکھراج کا ‘‘ کے تعارف سے ماخذ)
گلزارؔ نے اپنے ایک اورشعری مجموعے میں جدیدصنف تروینی کی تعریف کرتے ہوئے مزید وضاحت کی ہے۔
’’تروینی نام اسلئے دیا تھاکہ سنگھم پر تین ندیاں ملتی ہیں۔گنگا،جمنا اور سرسوتی۔ گنگا اور جمنا کے دو دھارے سطح پر نظر آتے ہیں۔لیکن سرسوتی جو ٹیکسلا کے راستے بہہ کرآتی تھی ۔وہ زمین دوز ہو چکی ہے۔تروینی کے تیسری مصرع کا کام سرسوتی دکھانا ہے۔جو پہلے دو مصرعوں میں چھپی ہوئی ہے‘‘۔
(بال و پر سارے، ص۔۱۶۹۔۔۔۔’’رات پشمینے کی ‘‘ کے تعارف سے ماخذ)
ڈاکٹرسید تقی عابدی اپنے ایک مضمون میںصنف تروینی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’تروینی اگر چہ چھوٹی تین مصرعوں کی نظم ہے لیکن اگر شاعر عمدہ فکر اور نادرتخیل اور الفاظ کے در و بست سے واقف ہو تواِن تین مصرعوں میںشش جہتی مطالب سمو سکتا ہے‘‘۔
(تقی عابدی خصوصی شمارہ ،اکتوبر ،نومبر،دسمبر ۲۰۱۹۔ ماہنامہ حکیم الامت، ص۔۲۷۲)
ذیل میںگلزارؔ کی صرف چند تروینا ںبطورِ نمونہ پیش کر رہا ہوں جن میںجدت طرازی کے ساتھ ساتھ معنی آفرینی بھی پائی جاتی ہے۔اُنھوں نے اپنی تروینیوں میں بھی اپنی فنی اور شعوری صلاحیتوں کے کمالات دکھائے ہیں۔نئی آواز ،نیا لہجہ ،نیا اسلوب،نیا اندازِ بیان،معنی کی گہرائی و گیرائی،جیتا جاگتا کھلکھلاتا لب و لہجہ گلزار کو عصرِ حاضر کے شعراء و ادبا ء میں منفرد مقام عطا کرتا ہے۔
۱؎ کروٹ لے کر جب یہ پل ،اُس جگہ سے لڑھکے گا
دوسرا پل کروٹ لے کر، اُس جگہ پر آئے گا
کروٹ لے کر پلوں یہ صدیاں ،زندہ رہتی ہیں
۲؎ منوں کا بوجھ لے کر چل رہے ہو
بہت بھاری ہے بوجھا لے کے چلنا
امیدیں کم کرو لمبا سفر ہے
۳؎ منھ کا نوالہ نِگل تو لو ناں
اگلا نوالہ توڑ رہے ہو
مستقبل کی ، فکر لگی ہے
۴؎ تُم ایک بوندھ ہو بھٹکے ہوئے سے بادل کی
کسی چٹان پہ گرنے سے ، کیاصدا ہو گی؟
سمندر سر پٹختا ہے ،یہاں کس نے سُنی ہے
مختصرا ً یہ کہ گلزارؔنے اپنی شاعری میںانسانی جذبات و احساسات کی حقیقی ترجمانی کی ہے۔یہ تمام جذبات وہ تھے جو تقسیم کے وقت اور اُس کے بعد برصغیر کے دونوں حصوں میںعام انسان کے دِل میں اُبھر رہے تھے۔جن کی اُنھوں نے اپنی تخلیقات میںمکمل عکاسی کی ہے۔گلزارؔ نے اس مختصر کلیات میں اپنے بلند تخیل ،کائنات کی وسیع تر معلومات ،زندگی کا مشاہدہ اور گہرا تجربہ نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نظر نہیں آتاکہ گلزارؔ کا مختصر کلیات ’’ بال و پر سارے‘‘اکیسویں صدی کی اردو شاعری میں ایک اہم اضافہ ہے جو آنے والے شعراء اور طلبہ و طالبات کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہو گا۔
اکتسابِ فیض:
۱۔بال وپرسارے سمپورن سنگھ گلزارؔ
۲۔تسلسل ششماہی رسالہ شعبہ اردو جموں یونیورسٹی
۳۔ ماہنامہ حکیم الامت سرینگر جموں و کشمیر
۴۔اردو دُنیا نیشنل کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی
***