You are currently viewing بت شکن

بت شکن

دانش حماد جاذب

شعبہ اردو ٹاٹا کالج چائباسہ جھارکھنڈ

بت شکن

ویسے بھی تم بہت نیک ہو۔ پنج وقتہ نمازی ہو،رمضان کے تمام روزے پورے اہتمام کے ساتھ مع قیام اللیل تم رکھتے ہو، صدقہ خیرات میں تم کسی سے کم نہیں ، اخلاق بھی ماشاء اللہ ایسا ہے کہ پورے معاشرے میں تمہیں معتبر شخص کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ تین چار عمرے بھی کرچکے ہو۔کیا کمی رہ گئی تمہاری عبادت میں؟ اللہ اوراس کے رسولﷺکے گھر کی زیارت بھی ہوگئی غرباء اور مساکین کے مددگار بھی ہو غرض تم نیکی کا مجسمہ ہو۔ اللہ بھی تم سے خوش ہے تبھی تو اتنی دولت ،شہرت اور عزت سے تمہیں نوازا ہے۔ ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ بچوں کی ذمہ داری بھی ہے تم پر۔ کل اللہ ان کے تعلق سے بھی سوال کرے گا۔تمام عبادات تو کرہی رہے ہوایک بار بچے اپنی زندگی میں سیٹل ہوجائیں ان کی شادی کی ذمہ داری ادا کرکے چلے جاناحج کے لئے ایک دن وہ فریضہ بھی ادا ہو ہی جائے گا۔

                  حج کا فارم لئے بیٹھاوہ کافی دیرسے خیالوں میں گم تھا اور اس کے نفس کا بت شیریں انداز میں اس کی خوشامدکر اسے سمجھارہاتھا ابھی حج ضروری نہیں آرام سے پختہ عمر میں تمام ذمہ داریاں ادا کرکے بھی حج کیا جاسکتا ہے۔ اس کے نفس کا بت اس کی عبادات کو اعلی درجے کا بتا کر یہ باور کروانے کی کوشش کررہا تھا کہ نعوذباللہ وہ اللہ کی عبادت کرکے اس پر احسان کررہا ہے۔ گویا یہ بت میٹھے زہر کی طرح اس کی خوشامدی کر اسے اپنی پرستش کی طرف مائل کررہا تھااور دھیرے دھیرے اس کاذہن نفس پرستی کی طرف مائل ہورہا تھا۔لیکن وہ عالم تھا اس کا علم پوری کوشش کررہا تھا کہ وہ نفس پرستی میں ملوث نہ ہوورنہ اس کی ساری عبادتیں ساری نیکیاں ضائع ہوجائیں گی ۔جسم کا اکثر حصہ نفس پرستی کو تسلیم کررہا تھا مگر ذہن کے اندر ایک کونے میں علم کی شمع ٹمٹماتے ہوئے اسے سیدھی راہ دکھانے کی کوشش کررہی تھی۔ اس طرح اس کا ذہن پوری طرح ایک رزم گاہ کی صورت اختیار کرچکا تھاجہاں علم کی شمع اور نفس کے بت کے مابین کشاکش جاری تھا اور ایک حد تک نفس کے بت کا پلہ بھاری بھی نظر آرہا تھا جنگ کے آخری لمحات میں جب علم کی شمع بجھنے والی تھی اس کی لو پھڑپھڑائی اور شمع نے آخری جست لگائی اور اس کے ذہن کو سختی کے ساتھ باور کرایا‘‘تو اتنا نیک ہے، خدا پرست ہے ۔ تو نفس پرستی کی طرف اتنی جلدی کیسے مائل ہوسکتا ہے؟ کیا تو نے عقیدہ ٔ توحید کے تقاضوں کو درکنار کردیا ہے؟ جتنی نیکیاں کرلے عقیدے میں فرق آئے گا تو سب بیکار ہے۔نفس پرستی بھی طاغوت پرستی ہی ہے۔ تو مؤحدہوتے ہوئے بھی رفتہ رفتہ شرک کا رخ کررہا ہے۔ تو نفس کے بت کا پرستار بننا چاہتا ہے؟

                  یاد کر اس بت شکن کو جس کے پاس پروہت آکر گڑگڑارہے تھے اور پوری دنیا کی دولت زرو جواہر اس کے قدموں میں رکھنے کو تیار تھے صرف اپنے معبود کو (بت) چھوڑنے کا مطالبہ کررہے تھے ۔ کیا جواب دیا تھا اس نے ۔ حشر کے دن خدا مجھے بت فروش کہہ کر پکارے مجھے یہ گوارہ نہیں میں بت شکن کہلانا پسند کروں گا دنیا کی دولت کے لئے میں اس بت کو بیچ نہیں سکتا اور یہ کہہ کر اس نے تلوار سے بت کا گردن دھڑ سے الگ کردیا۔ تمہاری طرح کمزور قوت ارادی کا مالک نہیں تھا وہ جو تھوڑے سے وسائل پاکر اپنے فریضے سے روگردانی کرے۔

                  بھول گیا روئے زمین کے سب سے معتبر شخص کو جو اپنے ہی شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا جہاں زندگی اس کے لئے تنگ کردی گئی تھی۔ جہاں اس کی گردن پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی گئی تھی کہ سجدے سے اس کا سر نہ اٹھتا تھا۔ جہاں اس کے قتل کے منصوبے بنائے جاتے تھے۔ لیکن جب وہ فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تو سر جھکا کر داخل ہوا اور پورے شہر میں رحم کرم کا اعلی نمونہ پیش کیا ۔ فتح کا سہرا اس کے سر تھا اس دن وہ چاہتا تو ایک ایک سے بدلہ لیتا مگر اس نے سب کو معاف کردیا۔لیکن لاالہ الا اللہ کے اس پیمبرکو طاغوت کی پرستش کسی قدر منظور نہ تھی۔ اس نے اپنے رب کے گھر سے سبھی بتوں کو باہر نکالا کہ جس اللہ وحدہ لاشریک نے صرف اپنی عبادت کا حکم دیا تھا بت پرستی سے روکا تھا آج اسی کے گھر میں ۳۶۰ بت رکھے تھے۔سبھی بتوں کو باہر نکالااور ایک ایک کو توڑ ڈالا اور بت پرستی کے خاتمے کا اعلان کیا۔حیرت کی بات یہ تھی کہ اس گھر سے ایک بت اس شخص کا بھی نکلا جس نے زندگی بھر بت پرستی کی مخالفت کی بت پرستی کے خلاف برسرپیکاررہا۔لوگ اس کا بھی بت بنا کر اس کی عبادت کررہے تھے جسے سب سے بڑا بت شکن کہا جاتا ہے ۔جو ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں بت سازی ہوتی تھی اس کا باپ بت تراش تھا بت فروش تھا ایسے ماحول میں بڑا ہونے والا بچہ بت پرستی کی طرف مائل نہیں ہوا بلکہ ان سے متنفر ہوگیاکہ جس بت کو اس کا باپ تراش تراش کر بناتا تھااحمق لوگ اس کی عبادت کرتے تھے۔ جب یہ بچہ بڑا ہوا تو اپنے معبود حقیقی کی تلاش میں نکلا۔ستارے کو دیکھا تو معبود سمجھا ،پھر چاند کو اس سے بڑا دیکھا تواسے معبود سمجھامگر چاند کے ڈوبنے سے اس کا منکر ہوگیا صبح سورج طلوع ہواتو سوچا کہ یہ سب سے بڑا ہے یہی معبود ہوسکتا ہے مگر شام کو غروب آفتاب نے اس کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ ڈوبنے والا خدا نہیں ہوسکتاضرورکوئی ایسی طاقت ہے جو ان تمام کا خالق ہے اور یہ تمام سورج ،چاند اور ستارے اس کے حکم پر ہیں اور پھر اس نے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے کو اپنا معبود تسلیم کرلیا۔ معبود حقیقی کا ادراک ہونے ہر یہ شخص اپنی قوم کی طرف آیا اور انہیں ایک اللہ کی طرف دعوت دی بت پرستی سے روکامگر ان کے نفس کے بت نے انہیں کسی بھی بات کو سمجھنے سے روک دیا دراصل نفس پرستی ہی طاغوت پرستی کی جانب پہلا قدم ہے۔پھر ایک دن وہ شخص جس کا بت خانہ کعبہ سے نکلا تھا پوری قوت کے ساتھ گھر سے نکلااور اپنی قوم کے بت خانے میں چلا گیا وہ ایک معبود حقیقی کا بندہ جس کو اس کے معبود نے دوست کہہ کر پکارا تھا تمام معبودان باطلہ کے بالمقابل کھڑا ہوگیا اور انہیں مخاطب کرکے کہا ‘‘ اگر تم حقیقی معنوں میں خدا ہو لائق پرستش ہو تو مجھ سے خود کو بچا کردکھاؤ’’ اس کے ہاتھ میں ایک بڑی کلہاڑی تھی جس سے وہ یکے بعد دیگرے تمام بتوں پر وار کرتا گیا اور تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور سب سے بڑے بت کے کندھے پر کلہاڑی رکھ کر چلا گیا۔ اسے کسی کا خوف نہ تھا اس کا عزم مصمم تھا وہ سب سے بڑا بت شکن تھا ۔ تو بھی اپنے عزم کو مصمم کرلے صرف ایک اللہ کی پرستش قبول کر اور اپنے نفس کے بت کو ڈھا دے۔

                  یکسر اس نے اپنے ذہن میں ہلچل سی محسوس کی اس کے قوت ارادی میں تبدیلی آئی اس نے علم کی شمع کو لو دیا تو علم کی شمع نے پورے ذہن کو منور کردیا پھر ایک بڑی سے کلہاڑی اس نے علم کی شمع کے ہاتھوں میں تھما دی اور اسے پورا اختیار دے دیا پھر کیا تھا کچھ دیر تک توڑ پھوڑ کا شور برپا رہا اور پھر پوری فضا خاموش ہوگئی۔ایک پرسکون خاموشی ذہن کے چاروں طرف چھاگئی اور اس نے لمبی اور پرسکون سانس لیتے ہوئے حج کے فارم  کو تلاش رہا تھا اس نے مشاہدہ کیا کہ اس کے ذہن کا وسیع میدان بالکل صاف ہے تاریکیاں چھٹ گئی ہیں شمع کی روشنی ذہن کے کونے کونے کو منور کررہی ہے اور میدان کے عین وسط میں علم کی شمع کاندھے پر کلہاڑی لٹکائے کھڑی ہے اس کا قد بہت اونچا نظر آرہا تھا اور وہ فاتح کی حیثیت سے مسکرارہی تھی۔

***

Leave a Reply