You are currently viewing بدلتے دور میں اردو زبان و ادب

بدلتے دور میں اردو زبان و ادب

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

مدیر اعلیٰ

انٹرنیٹ کی دنیا سے آگے بڑھتے ہوئے کچھ ہی دنوں میں ہم  میٹا ورس (MetaVerse) کی دنیا میں داخل ہونے والے ہیں جہاں  مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسان ایک ایسی دنیا میں داخل ہوجائے گا  جو در اصل موجود ہی نہیں مگر پھر بھی وہ وہاں ٹکنالوجی کی بنائی  گئی مصنوعی  دنیا میں  ہم موجود ہوں گے ۔اس  لفظ اور تصور کو اگر چہ دو دہائیوں قبل سے ہی استعمال کیا جانے لگا تھا اور اس  کی امکانات  پر مسلسل تحقیق  بھی ہورہی ہے ۔ لیکن مارک  زکر برگ  نے جب فیس بک کا نام “میٹا ورس” رکھا تو اس کے امکانات  قوی ہیں کہ کچھ ہی دنوں میں یہ تصور  بھی  حقیقت میں تبدیل ہوجائے گا ۔حالانکہ ابھی بھی اس کو کئی گیم کے فلیٹ فارم میں  استعمال کیا جارہاہے  جس میں گیم کے کھلاڑیوں کی شکلیں اپنی خواہش کے مطابق   آپ تبدیل کرسکتے ہیں  اس  ٹکنالوجی کو “اوتار”یا “ایواٹار” کا نام دیا گیا ہے ۔۔۔۔ غور کریں کہ جب  سائبر دنیا کا یہ کرشمہ وجودمیں آجائے گا تو ایسے میں زبان وادب  کے لیے بھی کیا  نئے  امکانات کے دروازے کھلیں گے ؟؟؟ یہ  سوال  بھی ہے اور  مستقبل تمنائی کا  صیغہ  بھی بن سکتا ہے ۔۔۔ جو بھی ہو۔ ہمیں اپنی زبان اور ادب کے حوالے سے بھی نئے امکانات کی تلاش کرنی چاہیے ۔ کیونکہ ادب اور زبان  وقت کے ساتھ ساتھ رواں دواں ہو تو ترقی کے امکانات روشن ہوتے ہیں ۔

ابھی صورت حال یہ ہے کہ دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح  اردو بھی براہ راست معاش سے منسلک نہیں ہے اسلیے اس کی ترقی کی رفتار  بھی مقابلتاً کم ہے ۔موجودہ صورت حال یہ ہے کہ  دنیا کی بیشتر زبانیں  جن کا تعلق براہ راست روزگار سے نہیں ہے ان کی ترقی و ترویج کی راہیں محدود ہوتی جارہی ہیں ۔ کوئی زبان صرف عوامی بول  چال تک محدود ہوتی جارہی ہے  توکوئی زبان  کسی محدود خطے اور  افراد تک سمٹتی جارہی ہےلیکن کئی بڑی زبانیں ایسی ہیں جو اپنے ادبی اور تہذیبی سرمائے کے سبب زندہ  ہیں اور ان کی  تخلیقی طاقت ہی ان کی روح ہیں   ۔ایسے میں اکثر اردو کے بارے میں بھی سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ اس زبان کا مستقبل کیا ہے اور اس زبان کے زندہ رہنے کے امکانات کتنے ہیں؟ تو اس سلسلے میں واضح طور پر کوئی ایک جواب تو نہیں ہوسکتا مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ صارفیت کےاس دور میں دنیا کی دوسری زبانوں کی صورت حال بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے ۔لیکن وہ زبانیں  زندہ رہیں گی جن کا تعلق ادب عالیہ سے ہے  ،ساتھ ہی ساتھ  دنیا کی ایسی زبانیں جن کا تعلق  اپنی  تہذیبی  حوالوں سے ہے وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتیں ۔

اردو زبان کے سلسلے میں یہ بات حتمی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ یہ رہتی دنیا تک زندہ رہنے والی زبان ہے کیونکہ اس زبان کا تعلق بر صغیر کی تہذیب و ثقافت سے اتنا گہرا  ہے کہ اس تہذیب و ثقافت  کی افہام و تفہیم اس زبان کے بغیر ادھوری رہے گی۔ اردو زبان  کے امکانات اگر چہ  ظاہری طور پر بہت کم نظر آتے ہیں لیکن زبان کو دیکھنے کا یہ ایک نظریہ ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کو صرف’ روزگار ‘ کے پیمانے پر دیکھا جارہا ہے ، جو صریحاً غلط ہے ۔اگر یوں دیکھا جائے تو نہ صرف زبان بلکہ آج دنیا کے بہت سے قدیمی  بلکہ معاصر علوم و فنون ایسے ہیں جن میں روزگار کے مواقع بہت کم ہیں ۔بر صغیر  اور بالخصوص ہندستان کے تناظر میں اردو    کا مستقبل کہیں سے تاریک نہیں ہے ۔البتہ معاشی طور پر اس میں امکانات کم ضرور ہورہے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہندستان کی دیگر زبانوں کے مقابلے میں اس میں مواقع کم ہیں  بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ اس میں ان سے زیادہ روزگار کے مواقع ہیں ۔لیکن اردو پڑھنے والے افراد کو وقت اور زمانے کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے خود کو تیار کرنے کی ضرور ت ہے ۔اگر گذشتہ دس برسوں کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ آبادی کے تناظر میں  اس زبان کے پڑھنے اور بولنے والوں کی تعداد میں  کمی نہیں آئی ہے ۔

کسی بھی زبان کے زند  ہ رہنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس زبان کے بولنے اور سمجھنے والے کتنے ہیں ۔ اس تناظر میں اردو کو دیکھا جائے تو خوشی ہوتی ہے کہ تعداد میں اضافہ ہی ہوا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ رسم خط جاننے والوں کی تعداد میں کسی حد تک کمی آئی ہے۔ مگر اس کا ایک پہلو یہ  بھی ہے کہ آج سے دس سال قبل اردو کے اخبارات و رسائل کی تعداد کو دیکھیں تو مایوسی ہوتی ہے  لیکن اس شکوہ سنجی کے دور میں اردو  کے اخبارات ، رسائل ، آن لائن اردو پورٹل ، آن لائن اخبارات ، اردو کے مفید اور خوبصورت ویب سائٹس ،واٹس اَپ  پر اردورسم خط میں لکھنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔اسی طرح نئے تکنیکی وسائل جیسے کمپیوٹر ،  اسمارٹ فون ، ٹیبلیٹ  وغیرہ میں ارد و فونٹ  کا اِن بِلٹ ہونا اپنے آپ میں اس حقیقیت کا غماز ہے کہ اردو کا چلن بڑھ رہا ہے ورنہ اس صارفی دنیا میں ایپل  اور دوسرے صنعتی اداروں کا اردو سے محبت کے سبب نہیں بلکہ  بازار کی ضرورت کے تحت اردو کو شامل کرنا پڑ رہا ہے۔اس  لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زبان کو ہمہ جہت  ترقی سے ہمکنار کریں تاکہ یہ وقت  کی ضرورت  بنی رہے اور اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال  ممکن ہوسکے ۔

اس شمارے  کے تمام قلم کاروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی تحریروں نے اس شمارے کی وقعت میں اضافہ کیا ہے ۔ اس شمارے میں امرت مہوتسو کے تحت  ایک خصوصی گوشے کو شامل کیاگیا ہے ۔ یہ مضامین  ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے تحت منعقد ہونے والے سیمنار  “جنگ آزادی او ر اردو ادب” کے تحت  پڑھے گئے تھے ۔ ارادہ تھا کہ انھیں کتابی صورت میں شائع کیا جائے گا مگر تمام مضامین  موصول نہیں  ہوئے اس  لیے ان مضامین کو خصوصی گوشے کے تحت شامل اشاعت کیا  جارہا ہے۔

***

This Post Has 2 Comments

  1. نصر ملک

    بہت خوب ۔ آپ نے ’’ بدلتے دور میں اردو زاب و ادب ‘‘ پر بڑے ٹھوس و حقیقی انداز میں اظہار خیال کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اردو زبان و ادب سے متعلقہ ادیبوں، شاعروں ، نقادوں کے لیے ایک اہم مضمون ۔ ( نصر ملک ۔ ڈنمارک) ۔

  2. Mukhtar Azmi

    ماشاء اللہ، پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین اردو زبان ادب کی ہمہ جہت خدمت میں مصروف ہیں۔ بہت دعائیں

Leave a Reply