You are currently viewing برصغیرکے باہراردوکی تدریس

برصغیرکے باہراردوکی تدریس

پروفیسرڈاکٹرذوالقرنین احمد شادابؔ احسانی

سابق صدر شعبہ اردو،جامعہ کراچی ،پاکستان

برصغیرکے باہراردوکی تدریس

 

دنیا کے نقشے میں ہندوستان ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں بیرونی زبانوں نے اس خطّے کو تہذیبی اورتمدّنی سطح پر اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔سنسکرت بیرونی زبان کا اوّلین نقش کہ جس نے حکمرانی کی ایسی طرح ڈالی کہ مقامیوں کو سطحِ زمین سے لگا دیا۔خدا بھلا کرے گوتم بدھ[وفات:۴۸۳۔ق۔م](۱) کا کہ اصلاحِ مت کی تحریک اُس نے شروع کی جس کے نتیجے میں ہندوستان بلکہ پورے برصغیر میں انقلاب برپا ہوگیا۔اس اصلاحی تحریک نے نچلے طبقوں کواعتبار بخشنا شروع کیا ۔ مذہبی تعلیمات نے مقامی زبانوں کو نئی راہیں سجھائیں۔ٹیکسلا علم وادب کا گہوارہ قرارپایاجبکہ پٹنہ( پاٹلی پتر)کو مرکزی حیثیت نصیب ہوئی۔اس پورے عمل نے بولیوں کوآزادی نصیب کی اور وہ بولیاں مرکزی دھارے سے جڑنے کے لیے بے تاب ہوئیں لہٰذا مقامی زبانوں کے تہذیب و تمدّن کی پاسداری کے لیے مرکزی زبان تشکیل پانا شروع ہوئی بعدازاں پھر سے ہندومت کا غلبہ ہوا لیکن یہ غلبہ قدیم نوعیت سے مختلف تھا ۔ذات پات کے نظام میں باقاعدگی نے کسی حد تک نچلے طبقوں کے آنسو پونچھنے کا عمل جاری رکھا بہرحال آریاؤں کی سنسکرت کے بعد وسط ایشیا کی فارسی نے سنسکرت کی جگہ لے لی اور یوں فارسی کے بغیر ہندوستان میں علمی انداز میں سوچنا بھی کفر قرار پایا۔امیرخسروؒ ’’غرۃ الکمال‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ پشاور سے راس کماری تک فارسی کا چلن یکساں ہے جبکہ ہندوی کا لہجہ یا چلن بدلتا جاتا ہے۔ ’’ہندوستان میں کلامِ فارسی ساحلِ سندھ سے بحرِ محیط کے دہانے تک یکساں ہے۔………ہندوی زبان ( کا حال یہ ہے کہ)ہرسوکوس کے بعد ہرطبقے کی اصطلاحات مختلف ہیںلیکن اِس چارہزار اورکچھ فرسنگ(کے وسیع رقبے) کی فارسی ایک ہے۔‘‘(۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصلاحِ مت کی تحریک نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے تھے وہ سرد پڑگئے تھے لیکن اُن میں زندگی کی رَمق عہدِ خاندانِ غلاماں میں بھی موجود تھی ۔اورنگ زیب عالمگیر کی وفات(۱۷۰۷ء) کے بعد مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرتا چلاگیا ۔مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ مغلوں کے زوال میں فارسی زبان کی گرفت کا کمزور پڑنا نہایت اہمیت رکھتا ہے ۔شاہ عالم آفتابؔثانی ’’عجائب القصص‘‘ (۳) لکھ کر غیرمحسوس انداز میں یہ بتارہے ہیں کہ اب میرا سامع یا قاری ہندوی یا ریختہ یا اردوکا ہے ۔یہ بات کھُل کر آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے شاعرانہ مزاج اور دربار میں مشاعروں سے بھی عیاں ہے۔ تیسری زبان انگریزی جس کی صحیح معنوںمیں آمد پلاسی کی جنگ یعنی ۱۷۵۷ء کے بعد سے شروع ہوئی۔(۴)۱۷۷۴ء کے بنگال ریگولیٹنگ ایکٹ (۵)نے تجارت کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ارادوں کو واضح کردیا اورجنرل ڈوپلے کی پالیسی پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا عمل پیرا ہونا اس طرح نظرآیا کہ ایک طرف ۱۷۷۴ء میں بنگال ریگولیٹنگ ایکٹ کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے مخالفین پیدا کررہی ہے اوردوسری طرف روہیل کھنڈ کا دارالخلافہ رامپور بنا کر مسلمانوںکواپنا حلیف بنا رہی ہے ۔اسی طرح کی دراڑ ۱۷۶۴ء (۶)میں بکسر کی لڑائی کے مفتوح شجاع الدولہ سے مفاداتی معاہدات نے دلّی کی سلطنت کو ضعیف کردیا۔آپس کا اتحاد پارہ پارہ ہوگیا اورجنرل ڈوپلے کی سوچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا منشور ٹھہری بعدازاں ہندوستان اورہندوستانیوں کو دانش کی سطح پر زیرِ اثر لانے کے لیے۱۷۸۴ ء میں ایشیا ٹک سوسائٹی بنگال کا قیام عمل میں آیا ۔(۷) ۱۸۰۰ء میں فورٹ ولیم کالج کی سرگرمیاں اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔فورٹ ولیم کالج کے اکابر کے احکامات کی روشنی میں یہ طے کیا گیا کہ جو انگریز فارسی سیکھے گا اُسے دس پونڈ اضافی دیئے جائیں گے اورجواُردو سیکھے گا اُسے بیس پونڈ اضافی ملیں گے۔اس بات سے بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ فارسی اردو سے مغلوب ہوتی جاتی ہے ۔اسی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مقامی لوگوں کے لیے مقامی زبان یعنی ’’ اردو‘‘ میںتدریس کاآغاز کیا۔دلّی کالج(۸) اسی سوچ کا آئینہ دار تھا ۔اس سے یہ بات نہایت واضح ہوجاتی ہے کہ اردو جسے ہم رابطے کی زبان سمجھتے رہے تھے اورسمجھ رہے ہیں۔ وہ اس خطّے کی ایک مرکزی زبان تھی اورہے چاہے ہم اس کے خلاف ہی کیوں نہ کہتے رہیں۔ ۱۸۳۵ء کے سانحے یعنی لارڈ میکالے کے انگریزی میڈیم (۹)نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمتِ عملی واضح کردی کہ برطانیہ انگریزی زبان کے ذریعے ہندوستان پر باآسانی حکومت کرسکتاہے کیوں کہ اس خطّے کے لوگ بیرونی زبانوں کے عادی ہیں۔۱۸۵۷ء کے بعد اردوکے حوالے سے ترجیحات بدلنا شروع ہوئیں اس سے قبل ہی مظفر پوربہارمیں لارڈ کیمبل جس کے بارے میں گارساں دتاسی نے لکھا ہے کہ مظفرپور کے استقبالیے میں لارڈ کیمبل نے کھل کر یہ کہا کہ ہندوستان کی اہم زبان’’ اردو نہیں ہندی ہے ۔‘‘(۱۰)اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ دانش کی سطح پر زبانوں کا یہ فرق مزید تقسیم کا مؤ جب بنا اوریوں ہندی زبان کے حوالے سے تحریکیں برپا ہوئیں ۔سرسیّد احمد خاں کو مجبوراً کہنا پڑا کہ: ’’ اب ہندو مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اوردونوں کو ملاکرسب کے لیے ساتھ ساتھ کوشش کرنا محال ہے‘‘(۱۱) ان معروضات کی روشنی میں بیرونِ برصغیر اردو تدریس کا جائزہ لینا زیادہ مفید ہے اوراس سے قبل اس بات کا بھی ذکر ناگزیر ہے کہ سرسیّد کے اس بیان سے قبل فرانسیسی مستشرق گستاؤلی بان (۱۲) ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں کی فہرست اورزبانوں کے بولنے والوں کی تعداد بھی تحقیقی سطح پر تحریر کرچکا تھا ۔جس کے مطابق ۱۸۶۲ء میں ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں میں اردو سرِ فہرست تھی۔ملاحظہ ہو۔ ہندوستانی(اردو) آٹھ؍ کروڑ پچیس؍ لاکھ بنگالی تین کروڑ نوّے لاکھ تلنگی ایک کروڑ ستّر لاکھ مرہٹی ایک کروڑ ستّر لاکھ پنجابی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ تامل ایک کروڑ تیس لاکھ گجراتی پچانوے لاکھ کنڑی پچاس لاکھ اُوریا ستّر لاکھ مالیالم پچاس لاکھ سندھی چالیس لاکھ ہندی تیس لاکھ گریرسن کے مطابق ’’اردو زبا ن پنجاب اوربنگال کے مابین وادیٔ گنگا کے تمام باشندوں کی زبان ہے ۔اس کے بولنے والوں کی تعداد تقریباً نو ؍ کروڑ اسّی لاکھ ہے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کُل آبادی سے زیادہ ہے۔‘‘(۱۳) اس سروے سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اردو زبان ہندوستان کی مرکزی زبان ہے بعدازاں ہندوستان پاکستان و ہندوستان کی شکل میں تقسیم ہوگیا ۔تقسیم سے قبل اردو تدریس کے مراکز قابل ِ ذکر ممالک میں قائم ہوچکے تھے۔جن میں فرانس کی سوربن یونیورسٹی (۱۴) سب سے قدیم مرکزہے۔شعبۂ عربی سے ملحق شعبۂ اردو جس کے معلم گارساں دتاسی نے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا ۔گارساں کے متعلق جاننا ہوتو ڈاکٹر ثریا حسین کا تحقیقی مقالہ ’’ گارسیںدتاسی : اردوخدمات اورعلمی کارنامے‘‘ (۱۵)ڈاکٹر سیّد سلطان محمود حسین کی تصنیف’’گارسیں دتاسی حیات وخدمات اوردوسرے مستشرقین‘‘(۱۶)اور مقالاتِ گارساں دتاسی کا مطالعہ مفید ہوسکتا ہے۔ اردو تدریس کے اسباب کو سمجھنا ہوتو کوئی بھی زبان دوسرے ممالک میں حسب ذیل نکات کے تحت پہنچتی ہے۔ ۱۔فاتح ۲۔سفارت ۳۔مذہب ۴۔تجارت ۵۔ہجرت ۶۔معیشت ۷۔علوم وفنون جنگوں کے نتیجے میں فاتحین کا غلبہ اورفاتحین اورمفتوحین کے درمیان ارتباط واتصال۔ سفارتی حوالے سے یہ بات مسلّم ہے کہ جان جوشوا کیٹلر اوربنجمن شلزے(۱۷) کی قواعد کا لاطینی میںلکھا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ہندوستان کی طرف رُخ کرنے والے بغیر اردو جانے یا سمجھے ناکام رہتے۔اسی ذیل میں ہندوستان کی سفارتی سرگرمیوں کے نتیجے میں اردو کو فروغ نصیب ہوا۔یہی نوعیت عیسائی مشنریوں ،مبلغین اسلام وغیرہ کے ضمن میں نمایاں رہی کہ مذہبی احکامات کی ترویج کے لیے تراجم اور رسائل اردو میں تصنیف وتالیف وترجمہ ہوئے۔تجارتی سطح پر ہندوستان میں چار یورپی کمپنیوں نے ڈول ڈالا اور اردو زبان کو عصری نوعیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اہمیت دی۔یورپ اور دیگر براعظموں سے ہندوستان میں ہجرت ہوئی جبکہ ہندوستان کے لوگوں نے یورپ،امریکہ اوردیگر ممالک میں بسلسلۂ معاش یا تعلیم ہجرت کی اورجہاں جہاں برطانوی حکومت کا نوآبادیاتی نظام رائج رہا وہا ں کسی نہ کسی شکل میں ہندوستانی معاشرت اوراردو کا چلن رہا۔علوم وفنون کے حوالے سے مستشرقین کی اردو زبان وادب سے دلچسپی اظہر من شمس رہی ہے ۔اس مقالے میں اتنی گنجائش نہیں ہے لہٰذا مذکورہ نکات کے مختصر بیان پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ان نکات کی روشنی میں پہلی جنگِ عظیم میں برطانوی ریڈیو بی۔بی۔سی سے اردونشریات کاآغاز ہوگیا تھا۔فرانس جس کے بارے میں ہم نے بتایا کہ وہ اس لیے سبقت لیے ہوئے تھا کہ ہندوستان کے جنوب یعنی سرنگا پٹم (۱۸)سے فرانسیسی کمپنی کے خصوصی مراسم رہے۔انگریزوں کی حکمرانی برٹش گورنمنٹ آف انڈیا کے بعد اس میں تیزی آتی چلی گئی ۔عرب ممالک ہوں کہ وسط ایشیائی، یورپ ہو کہ امریکہ،جاپان ہو کہ چین یا افریقا ہرجگہ آپ کو اردو تدریس کے مراکز مل جاتے ہیں۔ ہندوستان سے بغرضِ تعلیم اورمعاش ہجرتیں جو دیگر ممالک میں ہوئیں اُس نے اِس میں چارچاند لگادیئے مثلاً برطانیہ میں اردو بولنے والے اردوکو برطانوی کلچر سے ہم رنگ کیے ہوئے ہیں۔اس کا مطالعہ ڈاکٹر جواز جعفری نے’’ اردوادب یورپ اورامریکہ میں‘‘(۱۹) پیش کیا ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر عاشورکاظمی نے ’’بیسویں صدی کے اردونثرنگارمغربی دنیا میں‘‘(۲۰) اردوزبان وادب کی سرگرمیوں کامطالعہ پیش کیا ہے۔آغاافتخارحسین کی تصنیف ’’یورپ میں اردو‘‘ (۲۱)اور ’’یورپ میں تحقیقی مطالعے‘‘(۲۲)میں کتب خانوں اورتدریسی مراکز کی انیسویں صدی کے حوالے سے مفصل تفصیل ملتی ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی معرکۃ الآراء تالیف’’بیرونِ ممالک میں اردو ‘‘ (۲۳)بیسویں صدی تک اردو کا ثقافتی،تہذیبی،علمی وادبی منظرنامہ کا احوال ہے اسی طرح اور بہت سی اہم کتب میں ڈاکٹر رضیہ نورمحمد کا تحقیقی مقالہ ’’ اردوزبان وادب میں مستشرقین کی علمی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘(۲۴)،ڈاکٹر علی جاوید،کا تحقیقی مقالہ’’برطانوی مستشرقین اورتاریخ ادبِ اردو‘‘(۲۵) ، ڈاکٹرمحمودحسین کی تصنیف’’یورپ میں اردو کے مراکز انیسویں صدی میں‘‘ (۲۶)،نسیم احمدنسیم،کا مقالہ’’نیپال میں اردو زبان وادب(تحقیق)‘‘(۲۷) گوپی چند نارنگ کی مرتب کردہ’’اردوکی نئی بستیاں‘‘(۲۸)سیمینار کے مقالات پر مشتمل ہے جوعہدِ حاضر میں اردو کی برصغیر سے باہر تدریس اورادبی منظرنامے کی مکمل دستاویز ہے۔اسی طرح ’’ترکی میں اردوزبان وادب کاصد سالہ سفر‘‘ (۲۹)جس کے مرتبین خلیل طوقار،علی معین ہیں۔ ترکی میں اردو کی دوصدیوں کا احوال ملتا ہے۔رسالہ افکار کراچی ’’ برطانیہ میں اردو نمبر‘‘۱۹۸۱ء ،وغیرہ ۔مختصراً یہ کہنا بجا ہوگا کہ : پہنچی کہاں نہیں ہے اردو زباں ہماری برصغیر سے باہراردو تدریس کے حوالے سے ما ریشئس کی مثال نہایت اہم ہے کہ جہاں اسکولوں سے لے کرجامعات تک میں اردو بحیثیت اختیاری مضمون کے شامل ہے۔یہاں اردو تدریس کم و بیش دوسوسال سے جاری ہے ۔ابتداء میں یہ سرگرمیاں مثالی جدوجہد کا نتیجہ تھیں بعدازاں حکومت کی سرپرستی بھی شاملِ حال ہوئی۔۱۹۷۰ء میں قائم ہونے والا ادارہ نیشنل اردوانسٹی ٹیوٹ شہزادعبداللہ احمد کی سرپرستی میں دن دوگنی ترقی کرتا جارہا ہے(۳۰) اور۱۹۷۴ء میں قائم ہونے والے مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ (۳۱)نے یونیورسٹی آف ماریشس کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اردوڈپلوما اورڈگری کورسس کا اجراء کررکھا ہے(۳۲) نیز اردو اسپیکنگ یونین کی خدمات بھی مثالی ہیں۔یہاں اردو اساتذہ کو دیگرعلوم کے اساتذہ کے برابر سہولیات ومراعات حاصل ہیں۔’’ماریشس میں اردو‘‘ کے عنوان سے گل حمید بیگن(۳۳)،یاسمین بودھی اور شعبۂ اردو جامعہ کراچی کے طالب علم اعجاز رحمت علی کا ایم اے ۔اردو کی جزوی تکمیل کے لیے لکھا گیا مقالہ ’’ماریشئس میں اردو‘‘ میںاردو کی سرگرمیاں تفصیل سے درج ہیں۔بقول یاسمین بودھی: ’’ہندوستان اورپاکستان کے بعد ماریشس دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اردو کی درس وتدریس کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔‘‘ (۴ ۳) اکیسویں صدی میں سائنس وٹیکنالوجی کا سفر بھی زبانوں کے ارتقاء کے رہینِ منت رہا ہے اور موجودہ عہد میں علوم کی تقسیم کے بعد ہرعلم کی زبان اوراصطلاحات کے عمل نے علوم کے فروغ میں نمایاں کردار اداکیا ہے۔دنیا میں ہمیشہ کلیدی زبانیں حکمرانی کرتی رہی ہیں۔کلیدی زبانوں کی فہرست میں اردو نمایاں ہے ۔برصغیر کے باہر اردوتدریس کے مثالی مراکز موجود ہیں ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ یہ تمام مراکز پاکستان وہندوستان کی جامعات سے جُڑکر بین الاقوامی سطح پر ایک ایسی مرکزیت قائم کریں کہ جن میں مختلف تہذیبی وتمدّنی احوال یکجا ہوکر اکائی بن جائے۔ ٭نوٹ: حاضرینِ گرامی !! میں ماریشئس آیا نہیں ! لایا گیا ہوں! یہ معترضہ فقرہ اس ضمن میں ہے کہ بالکل آخری مرحلے پر یعنی جب میں پاکستان میں ماریشئس کے سفارت خانے میں ویزے کے مراحل طے کررہا تھا کہ موبائل پر اردو کانفرنس کے محترم منتظم گویا ہوئے کہ ’’جناب آپ کس موضوع پر مقالہ پڑھیں گے؟‘‘ میں کیا جواب دیتا ۔ ’’فوراً کہا:جو کہیں گے وہ کردیں گے؟‘‘ ماریشئس میں اردو کانفرنس کے کتابچے میں اپنا موضوع پڑھا ،ذہن نے تانے بانے بُنے اوراگلے دن جو بن پڑا ضبطِ تقریر میں لایا۔اُس تقریر پر خاصے سوالات ہوئے کچھ جوابات سے تشفی ہوئی اورکچھ جوابات وقت کی قلّت کے باعث ادھورے ہی رہے بہرحال!اب خواجہ اکرام مصرہیں کہ مقالہ بھیجوں !! میں تو سمجھا تھا کہ رات گئی بات گئی ۔۔بقول شاعر: اپنے اس دل کو کہاں لے جاؤں خواجہ اکرام سے کچھ دنوں میں ہی ایسی دلی موانست پیدا ہوچلی کہ جو تادمِ مرگ قائم رہے گی لہٰذا خاکسار حکم کی تعمیل میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔مقالہ /مضمون حاضر ہے۔ پروفیسر ڈاکٹرذوالقرنین احمد شادابؔ احسانی،شعبہ اردو،جامعہ کراچی ،پاکستان

حواشی :

(۱) رماشنکرترپاٹھی،’’تاریخ ِ قدیم ہندوستان‘‘ مترجم:سیّد سخی حسن نقوی،کراچی :سٹی بک پوائنٹ،۲۰۰۹ء،ص:۹۵

(۲) امیرخسرو،’’دیباچۂ غرۃ الکمال‘‘ فارسی سے ترجمہ لطیف اللہ خاں،کراچی:شہرزاد پبلی کیشنز،۱۴۲۵ھ،ص:۷۹

(۳) خاور جمیل ،مرتب ،’’عجائب القصص‘‘مصنف :شاہ عالم ثانی،لاہور:مجلس ترقی ادب،۱۹۶۵ء

(۴) رضیہ نورمحمد،’’اردوزبان وادب میں مستشرقین کی علمی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘لاہور:مکتبہ خیابان،۱۹۸۵ء،ص:۳۸تا۴۰

(۵) رضیہ نورمحمد، ایضاً،ص:۳۹تا۴۰

(۶) جمیل جالبی،ڈاکٹر،’’تاریخ ادبِ اردو:جلد سوم‘‘لاہور:مجلس ترقی ادب،طبع ششم،۲۰۰۹ء،ص:۵

(۷) [الف]’’پندرہ جنوری۱۷۸۴ء ………یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایشیائی تہذیب وتمدن کے بارے میں باقاعدہ ریسرچ کی جائے اوراس روز ایشیا ٹک سوسائٹی کی بنیاد رکھی گئی،جس کا رسالہ ایشیاٹک سوسائٹی جرنل کے نام سے سالہاسال تک شائع ہوتا رہا۔‘‘ماخوذ:رضیہ نورمحمد، ایضاً،ص:۴۵ [ب]ملاحظہ کیجئے: date:4/4/2017,time 3:15 am https://asiaticsocietycal.com/ (۸) دہلی کالج کی تاریخ اور خدمات کے لیے اہم کتاب ہے۔ مولوی عبدالحق،’’مرحوم دہلی کالج‘‘کراچی :انجمن ترقی اردوپاکستان،۱۹۶۲ء

(۹) ’’راجارام موہن رائے نے اس کوشش پر کہ مشرقی زبانوں کی جگہ انگریزی میں تعلیم دی جائے۱۸۳۴ء میں ایک کمیٹی بنائی جس کااجلاس ۷؍مارچ کو ہوا،………لارڈ میکالے کو اس کمیٹی کاصدر چنا گیا،اس کمیٹی کی رائے میں اختلاف تھا۔ایک فریق انگریزی زبان میں تعلیم دیئے جانے کا مخالف تھا تودوسرا اس کاحامی۔جب رائے لی گئی تو دونوں فریقوں کے ووٹ برابر نکلے اس موقعے پر میکالے نے اپنے صدارتی ووٹ سے کام لے کر انگریزی کے حق میں فیصلہ کردیا۔‘‘ ماخوذ:صفیہ بانو،ڈاکٹر،’’انجمن ِ پنجاب تاریخ وخدمات‘‘ کراچی:کفایت اکیڈمی،۱۹۷۸ء،ص:۴۱۶

(۱۰) مولوی عبدالحق،مرتب،’’مقالاتِ گارساں دتاسی:جلد اوّل‘‘ (مصنف:گارساں دتاسی)کراچی:انجمن ترقی اردو پاکستان، ۱۹۶۴ء،ص:۱۷۳ تا ۱۹۰

(۱۱) الطاف حسین حالی،مولانا،شمس العلماء،’’حیاتِ جاوید‘‘ لاہور:خزینہ العلم اکیڈمی،۱۹۷۰ء،ص:۵۵

(۱۲) گستاؤلی بان،’’تمدن ِ ہند۱۸۶۲ء‘‘ (مترجم:سیّد علی بلگرامی۱۹۱۲ء)کراچی:بک لینڈ بندرروڈ،۱۹۶۲ء،ص:۳۴۳

(۱۳) عبدالستار،مولوی،مترجم:’’ہندوستان اوراس کی زبانیں‘‘(مصنف:سرجارج گریرسن، کے،سی،آئی،ای)مشمولہ:’’خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، جرنل، پٹنہ، شمارہ:۴۱،۴۲،۴۳،۱۹۸۷ء،ص:۲۰۸

(۱۴) ’’(سوربن یونیورسٹی )۱۸۲۸ء میں اردو پروفیسرکا عہدہ متعارف ہوا۔‘‘ماخوذ:آغاافتخار حسین،’’یورپ میںتحقیقی مطالعے‘‘ لاہور: مجلس ترقی ادب،طبع دوم،۲۰۱۰ء،ص:۵۲

(۱۵) ثریا حسین،’’گارسیں دتاسی:اردوخدمات،علمی کارنامے‘‘لکھنؤ:اترپردیش اردو اکادمی،۱۹۸۴ء

(۱۶) محمودحسین،سیّدسلطان،ڈاکٹر،’’گارسیں دتاسی حیات وخدمات اوردوسرے مستشرقین‘‘ لاہور:اظہارسنز،۲۰۱۴ء

(۱۷) رضیہ نورمحمد، ایضاً،ص:۹

(۱۸) ’’سرنگا پٹنا (Srirangapatna) (برطانوی راج کے دوران اس کا انگریزی تلفظ نام سرنگا پٹم (Seringapatam) تھا)…بھارتی ریاست کرناٹک کے ضلع مانڈیا میں ایک شہر ہے یہ میسورکے شہر کے قریب واقع ہے جوانتہائی اہم مذہبی ،ثقافتی اور تاریخی اہمیت کاحامل ہے‘‘ماخوذ: http://sws.geonames.org/125642) . &oldid=2256847 سرنگا پٹنا

http://ur.wikipedia.org/w/index.php?title= date:4/4/2017,time 3:15 am (۱۹) جواز جعفری ،ڈاکٹر،’’اردوادب یورپ اورامریکہ میں‘‘لاہور:مکتبہ عالیہ،۲۰۱۰ء (۲۰) عاشورکاظمی،سیّد،’’بیسویں صدی کے اردونثرنگارمغربی دنیا میں‘‘نئی دہلی: انجمن ترقی اردو ہند،طبع دوم ۲۰۰۳ء

(۲۱) آغاافتخار حسین،’’یورپ میں اردو‘‘ لاہور: مرکزی اردوبورڈ،۱۹۶۸ء

(۲۲) آغاافتخار حسین،’’یورپ میںتحقیقی مطالعے‘‘ لاہور: مجلس ترقی ادب،طبع دوم،۲۰۱۰ء

(۲۳) انعام الحق جاوید،ڈاکٹر،مرتب،’’بیرونِ ممالک میں اردو‘‘اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان،۱۹۹۶ء

(۲۴) رضیہ نورمحمد،’’اردوزبان وادب میں مستشرقین کی علمی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘لاہور:مکتبہ خیابان،۱۹۸۵ء

(۲۵) علی جاوید،ڈاکٹر،’’برطانوی مستشرقین اورتاریخ ادبِ اردو‘‘ نئی دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،۱۹۹۲ء

(۲۶) محمودحسین،سیّدسلطان،ڈاکٹر،’’یورپ میں اردو کے مراکز انیسویں صدی میں‘‘،لاہور :مغربی پاکستان اردواکیڈمی،طبع دوم،۲۰۱۴ء

(۲۷) نسیم احمدنسیم،’’نیپال میں اردو زبان وادب(تحقیق)‘‘دہلی:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،۲۰۰۹ء

(۲۸) گوپی چند نارنگ،مرتب،’’اردوکی نئی بستیاں‘‘ لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۸ء

(۲۹) خلیل طوقار،علی معین،مرتبین،’’ترکی میں اردوزبان وادب کاصد سالہ سفر‘‘کراچی:فضلی سنز،۲۰۱۵ء

(۳۰) گل حمیدبیگن،’’ماریشس میں اردو‘‘ مشمولہ:’’بیرونِ ممالک میں اردو‘‘انعام الحق جاوید،ڈاکٹر،مرتب،اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان،۱۹۹۶ء،ص: ۳۸۴

(۳۱) یاسمین بودھی،’’ماریشس میںاردو‘‘ مشمولہ:’’اردو کی نئی بستیاں‘‘(سیمینارمقالات: مرتب: گوپی چند نارنگ)،لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۸ء،ص:۳۴۴

(۳۲) یاسمین بودھی،’’ماریشس میںاردو‘‘ مشمولہ:’’اردو کی نئی بستیاں‘‘ایضاً،۲۰۰۸ء،ص:۳۴۸

(۳۳) گل حمیدبیگن،’’ماریشس میں اردو‘‘ مشمولہ:’’بیرونِ ممالک میں اردو‘‘انعام الحق جاوید،ڈاکٹر،مرتب،۱۹۹۶ء،ص: ۳۸۴

(۳۴) یاسمین بودھی،’’ماریشس میںاردو‘‘ مشمولہ:’’اردو کی نئی بستیاں‘‘ایضاً،۲۰۰۸ء،ص:۳۴۸ حوالہ جاتی کتب: (۱) آغاافتخار حسین،’’یورپ میںتحقیقی مطالعے‘‘ لاہور: مجلس ترقی ادب،طبع دوم،۲۰۱۰ء (۲) آغاافتخار حسین،’’یورپ میں اردو‘‘ لاہور: مرکزی اردوبورڈ،۱۹۶۸ء (۳) الطاف حسین حالی،مولانا،شمس العلماء،’’حیاتِ جاوید‘‘ لاہور:خزینہ العلم اکیڈمی،۱۹۷۰ء (۴) امیرخسرو،’’دیباچۂ غرۃ الکمال‘‘ فارسی سے ترجمہ لطیف اللہ خاں،کراچی:شہرزاد پبلی کیشنز،۱۴۲۵ھ (۵) انعام الحق جاوید،ڈاکٹر،مرتب،’’بیرونِ ممالک میں اردو‘‘اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان،۱۹۹۶ء (۶) ثریا حسین،’’گارسیں دتاسی:اردوخدمات،علمی کارنامے‘‘لکھنؤ:اترپردیش اردو اکادمی،۱۹۸۴ء (۷) جمیل جالبی،ڈاکٹر،’’تاریخ ادبِ اردو:جلد سوم‘‘لاہور:مجلس ترقی ادب،طبع ششم،۲۰۰۹ء (۸) جواز جعفری ،ڈاکٹر،’’اردوادب یورپ اورامریکہ میں‘‘لاہور:مکتبہ عالیہ،۲۰۱۰ء (۹) خاور جمیل ،مرتب ،’’عجائب القصص‘‘مصنف :شاہ عالم ثانی،لاہور:مجلس ترقی ادب،۱۹۶۵ء (۱۰) خلیل طوقار،علی معین،مرتبین،’’ترکی میں اردوزبان وادب کاصد سالہ سفر‘‘کراچی:فضلی سنز،۲۰۱۵ء (۱۱) رضیہ نورمحمد،’’اردوزبان وادب میں مستشرقین کی علمی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘لاہور:مکتبہ خیابان،۱۹۸۵ء (۱۲) رماشنکرترپاٹھی،’’تاریخ ِ قدیم ہندوستان‘‘ مترجم:سیّد سخی حسن نقوی،کراچی :سٹی بک پوائنٹ،۲۰۰۹ء (۱۳) صفیہ بانو،ڈاکٹر،’’انجمن ِ پنجاب تاریخ وخدمات‘‘ کراچی:کفایت اکیڈمی،۱۹۷۸ء (۱۴) عاشورکاظمی،سیّد،’’بیسویں صدی کے اردونثرنگارمغربی دنیا میں‘‘نئی دہلی: انجمن ترقی اردو ہند،طبع دوم ۲۰۰۳ء (۱۵) علی جاوید،ڈاکٹر،’’برطانوی مستشرقین اورتاریخ ادبِ اردو‘‘ نئی دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،۱۹۹۲ء (۱۶) گستاؤلی بان،’’تمدن ِ ہند۱۸۶۲ء‘‘ (مترجم:سیّد علی بلگرامی۱۹۱۲ء)کراچی:بک لینڈ بندرروڈ،۱۹۶۲ء (۱۷) گوپی چند نارنگ،مرتب،’’اردوکی نئی بستیاں‘‘ لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۸ء (۱۸) محمودحسین،سیّدسلطان،ڈاکٹر،’’گارسیں دتاسی حیات وخدمات اوردوسرے مستشرقین‘‘ لاہور:اظہارسنز،۲۰۱۴ء (۱۹) محمودحسین،سیّدسلطان،ڈاکٹر،’’یورپ میں اردو کے مراکز انیسویں صدی میں‘‘ ،لاہور:مغربی پاکستان اردواکیڈمی،طبع دوم،۲۰۱۴ء (۲۰) مولوی عبدالحق،’’مرحوم دہلی کالج‘‘کراچی :انجمن ترقی اردوپاکستان،۱۹۶۲ء (۲۱) مولوی عبدالحق،مرتب،’’مقالاتِ گارساں دتاسی:جلد اوّل‘‘ (مصنف:گارساں دتاسی)کراچی:انجمن ترقی اردو پاکستان، ۱۹۶۴ء (۲۲) نسیم احمدنسیم،’’نیپال میں اردو زبان وادب(تحقیق)‘‘دہلی:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،۲۰۰۹ء رسائل: (۲۳) خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری، جرنل،پٹنہ،شمارہ:۴۱،۴۲،۴۳،۱۹۸۷ء (۲۴) افکار کراچی برطانیہ میں اردو نمبر ویب گاہ: (۲۵) https://asiaticsocietycal.com/ (۲۶) http://sws.geonames.org/125642) &oldid=2256847 سرنگا پٹناhttp://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=

Leave a Reply