ڈاکٹر محمد کامران شہزاد
لیکچرار شعبہ اُردو
پنجاب کالج سرگودھا(پاکستان)
’’برف کی عورت ‘‘میں نسائی کرب کا اظہار
شاہین کاظمی عصرِحاضر کی افسانہ نگارہیں ۔جن کا پہلا افسانوی مجموعہ بعنوان ’’برف کی عورت‘‘ شائع ہوا ہے۔اس میں اٹھارہ افسانے ہیں۔ مصنفہ نے ان افسانوں میں عورت کے داخلی کیفیات و احساسات کا اظہار بے باکی سے کیا ہے۔ان کے ہاں عورت معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی لحاظ سے گھٹن کا شکار ہے اور اس کا اظہار مختلف افسانوں میں ہوا ہے۔
پہلا افسانہ ’’سیندھ‘‘ ہے۔ دیہاتی پس منظر میں خانقاہی نظام کے ایک اہم کردار ، گدی نشین کی بیٹی کے سسکتے شب و روز کی داستانِ الم ناک کو عمدہ طریقے سے شاہین کاظمی نے صفحۂ قرطاس پر بکھیرا ہے۔ یہ ہمارے دور کے ہی نہیں بل کہ ہر دور کے مخلص ، غریب اور توحید پرست لوگوں کا المیہ ہے کہ وہ جن کو بطور رہنما اور مرشد مانتے ہیں ان کے بارے میں تحقیق نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں پرکھتے ہیں۔محض سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے نہ صرف اپنی زندگیاں بر باد کر لیتے ہیں بل کہ اپنی بہو، بیٹیوں اور بہنوں کی عصمت کو بھی ان جعلی اور نام نہاد پیروں کے ہوس زدہ پنجوں کی لپیٹ میں دے کر انہیں زندہ درگور کر دیتے ہیں۔
مصنفہ نے تصوف کا لبادہ اوڑھے ہوس کے پجاریوں کے شیطانی کھیل کھیلنے کی روداد کو کربناک انداز میں بیان کیا ہے۔ افسانے کی مرکزی کردار ’’زہرا‘‘ ایک پاکیزہ صفت نوجوان دوشیزہ ہے، جس کا باپ اپنے علاقے کا معروف وڈیرہ اور گدی نشین ہے۔ وہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کی جیتی جاگتی تصویر ہے جس کے ذہن میں شیطنیت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔چناں چہ اسی حوالے سے وہ اپنے مریدوں کی بیٹیوں ، بہوؤں اور بہنوں کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتا ہے ۔ا س کی بیوی یہ ساری غلاظت اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتی ہے لیکن مردوں کے اس حاکمانہ معاشرے میں وہ مجبورِ محض ہے۔ چناں چہ خاموش تماشائی کا کردار تو ادا کرتی ہے لیکن اپنی جگہ پر کُڑھتی بھی ہے۔ہوس کا درندہ کھُل کر کھیلتا ہے اور اسے یہ دھیان بھی نہیں رہتا کہ اس کی اپنی بیٹی بھی جوان ہو چکی ہے۔ چناں چہ ایک دن زہرا اپنے باپ کو ایک نوجوان مریدنی کے ساتھ دیکھ لیتی ہے تو اپنی ماں سے استفسار کرتی ہے جواب میں اس کی ماں اسے اپنی مجبوری کی داستان سنا کر چُپ رہنے کو کہتی ہے۔
زہرہ کے باپ کا ایک دوست مراد شاہ جو اپنے علاقے کا ایک بااثر جاگیر دار ہے زہرہ کی کم سنی اور خوبصورتی پر دانت گاڑھے بیٹھا ہے۔چناں چہ وہ اس کا رشتہ مانگتا ہے اور زیادہ سے زیادہ لالچ کو اپنے پیٹ کا ایندھن بنانے والے ’’زہرہ‘‘ کے باپ نے محض اسمبلی کی سیٹ حاصل کرنے کی خاطر اپنی نوجوان بیٹی کوبوڑھے مراد شاہ کے پلے باندھ دیا۔زہرہ نے سسرال جا کر دیکھا کہ اس کی حیثیت محض بچے پیدا کرنے والی مشین کی ہے اور اس کا بے غیرت شوہر بھی اس کے عیاش باپ کی طرح مریدنیوں پر ’’جوہرِ خاص ‘‘ نچھاور کرنے کو تیار رہتا ہے۔ اس موقع پر اس کی راز دار سہیلی ’’رجو‘‘ جو بچپن میں بارہ سال کی عمر میں ایک جاگیر دار کے بیٹے کے ہاتھوں عصمت جیسا نایاب خزینہ لُٹا چکی ہے اس کے کام آتی ہے۔ وہ زہرہ کو عمر قید کے عذاب سے نجات دلانے کی خاطر اس کے نامراد شوہر کی جنسی تسکین کا سامان تو بنتی ہے لیکن ساتھ ہی اسے زہر پلا کر اس کی زندگی کا چراغ بھی گُل کر دیتی ہے اور ساتھ ہی خود بھی زہر پی کر مر جاتی ہے۔
یہ افسانہ کثیر الجہات ہے۔شاہین کاظمی نے جہاں دیہی پس منظر میں وڈیروں، جاگیرداروں ، نام نہاد پیروں اور روشن خیال رہنماؤں کی کہانی بیان کرتے ہوئے ان کی جنسی خواہشات اور مجبور و بے کس مریدنیوں کے جنسی کھیل میں بطور مفعول بننے کی روداد بیان کی ہے وہیں باہر ’’جھک‘‘ مارنے والے ان غلیظ فطرت مردوں کی مجبورِ محض بیویوں کے سسکتے، بلکتے اور جنسی گھٹن میں ڈوبے شب وروز کی عکاسی بھی عمدگی سے کی ہے۔مرد چاہے جتنا بھی باہر منہ کالا کر لے وہ اپنی عورتوں کو بلند و بالا عمارتوں کے کڑے پہرے میں رکھتا ہے۔یہی حال زہرہ کے باپ کا ہے۔اس کی ماں اپنے شوہر کی غلیظ حرکتوں پر نالاں ضرور ہے لیکن وہ حالات کو اپنی مرضی کے مطابق موڑنے پر قادر نہیں۔زہرہ تعلیم یافتہ ہے ، روشن خیال ہے لیکن اپنے باپ کے سامنے اپنے حق میں بولنے کی جرأت نہیں کر سکتی چناں چہ اپنی خواہشات ، ارمانوں اور احساسات کو پسِ پشت ڈال کر اپنے باپ کی عمر کے مرد کے ہاتھوں بیوی بن کے جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہے۔
شاہین کاظمی نے حویلی کی غلام گردشوں میں نام نہاد پیروں کے ہاتھوں اپنی عزت کا موتی لٹانے اور جنسی و معاشی استحصال کا شکار ہونے والی مریدنیوں کی بے کسی اور بے بسی کے ساتھ ساتھ اندھی عقیدت کا اظہار بھی عمدگی کے ساتھ کیا ہے۔ ایک اور المیہ جس کی طرف شاہین کاظمی نے اس افسانے میں توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ لوگ ظاہری چکا چوند کے پیچھے بھاگنے اور کاروبار میں آگے بڑھنے کے لیے اپنی بیٹیوں تک کو داؤ پر لگانے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔
افسانے کا ایک اہم اور متحرک کردار رجو کا ہے جو زہرہ کی سہیلی ہے ۔رجو اگرچہ ان پڑھ لڑکی ہے لیکن زندگی نے جس طرح اس کے ساتھ کھیلواڑ کیا ہے اور جس طرح وڈیروں کے کسی لڑکے نے اس کی عصمت کو کم سنی میں لُوٹا ہے اس کے مزاج میں تلخی سرایت کر گئی ہے اور وہ زندگی کی تلخیوں سے بھر پور گفتگو کرتی ہے۔ یہاں یہ نظر آتا ہے کہ شاہین کاظمی کا مطمح نظر رجو کا کردار نہیں بل کہ وہ نظریہ ہے جس کا پرچاروہ رجو کی زبان سے کرتی ہے ۔یہ اس افسانے کی واحدخامی ہے کیوں کہ جاگیردار ہوں ، وڈیرے یا نام نہاد پیر اپنے مزارعوں یا مریدوں کو بولنے کی اجازت نہیں دیتے ۔رجو کی زبان سے ادا ہونے والے مکالمے زندگی کی حقیقتوں کو بخوبی بیان کرتے ہیں لیکن رجو کا ان پڑھ اور خادمہ ہوکر فلسفیانہ موشگافیاں کرنا عجیب سا لگتا ہے۔
زہراکا سراپا تراشتے وقت شاہین کاظمی نے شاعرانہ پہلو کو بھی مدِ نظر رکھا ہے :
’’وہ تھی بھی ایسی ہی ، صبح کی پہلی کرن جیسی اجلی ، رجو تو اسے ہاتھ بھی سنبھل کر لگاتی۔
زہرااسے دیکھ کر دل کھول کر ہنسا کرتی اتنا کہ اس کی اسرار بھری سیاہ راتوں جیسی
آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگتے۔‘‘ [۱]
مذہب کے نام پر شیطنیت کا کھیل کھیلنے والوں کا پردہ بھی خوبصورتی سے چاک کیا گیا ہے۔زہرہ کی ماں اپنے کرب کا اظہار جن الفاظ میں کرتی ہے وہ دل دہلا دینے والے ہیں:
’’اللہ رسول کے نام پر کیے گئے گناہ کی لذت بڑی وکھری ہوتی ہے ایک بار
سواد منہ کو لگ جائے تو بندہ حلال کھانے کے لائق نہیں رہ جاتا۔‘‘[۲]
عورت کی جنسی ناآسودگی کا دکھ ، جلن، حسد اور شوہر کی بے رخی اور بے اعتناعی کا تذکرہ بہت عمدگی سے اس افسانے میں بیان ہوا ہے۔
’’زہری شاید ہماری خوشیوں کی چاٹی میں لگنے والی جاگ بد دعائی ہوتی ہے
لاکھ پہرے داری کرو بلیاں مکھن کھا ہی جاتی ہیں۔‘‘[۳]
شاہین کاظمی نے ازدواجی زندگی کی ناہمواریوں اور عورت کی مرضی کے بغیر مرد کی طرف سے ازدواجی وظیفے کی وصولی کے منظر کوبے رحم حقیقت نگاری کے ذیل میں عمدگی سے بیان کیا ہے:
’’حویلی کی سنگی دیواروں کے بیچ زہرا کا دم گھٹتا تھا ۔مراد شاہ کو دیکھ کر اسے ابکائی روکنا مشکل ہو جاتا ۔دن بھر تو وہ حویلی کے کونوں کھدروں میں پناہیں تلاش کیے جاتی لیکن ڈھلتا سورج اسے رشتے کی صلیب پر گاڑھ کر خود اندھیروں میں اتر جاتا ۔زہرا کا تن من درد نگلتے نگلتے نڈھا ل ہوجاتا۔ صبح کے ساتھ وہ روح کی سلوٹیں سمیٹے پھر کسی پناہ کی تلاش میں
بھٹکنا شروع کر دیتی۔ایک دن جب اسے اچانک مکھن کے پیڑےپر گڑے بلی کے پنجے نظر آئے تو اس کی کرلاہٹیں حویلی کے باہر تک سنی گئیں۔‘‘[۴]
علامت کے پیرائے میں شاہین کاظمی نے جہاں زہرا کی زندگی کی جنسی نا آسودگی کو بیان کیا[یہاں جنسی ناآسودگی سے مراد زہرا کا زبردستی اس کے سر منڈھ دیے گئے مرد کے ساتھ جنسی عمل کا ساتھی بننا ہے] وہیں انہوں نے مراد شاہ کے مریدنیوں کے جنسی استحصال کی بھی تصویر کشی عمدگی سے کی اور اس کے ساتھ زہرا کی ژرف نگاہی کا اظہاریہ بھی عمدہ ہے۔
افسانے میں ایک اور بات جس کا تذکرہ کیا جانا ضروری ہے کہ مظلوم کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ بدلہ ضرور لیتا ہے۔جیسا کہ رجو نے مراد شاہ کو قتل کر کے کیا۔
’’ایک بوسے کا گناہ‘‘ نام نہاد پیروں کی جھوٹی عزت اور شان و شوکت کی بھینٹ چڑھنے والی معصوم صورت دوشیزہ کی داستانِ خوں چکا ں ہے۔افسانے کی مرکزی کردار کے عشق میں مرشد زادہ گرفتار ہے لیکن مرشد زادہ بھی مریدنی کے خوب صورت جسم کا اسیر ہے۔چناں چہ ایک دن موقع دیکھ کراپنی ہوس کی تکمیل کر لیتا ہے ۔افسانہ نگار نے گناہ کے بعد پچھتاوے کی لہر آنے کی منظر کشی عمدگی سے کی ہے۔واحد متکلم کا ہاتھ جب مرشد زادہ پکڑتا ہے تو اس کے احساسات کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں:
’’مرشد زادے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔میرے اندر ہلچل مچ گئی۔کئی دنوں تک
شرمندہ شرمندہ مصلے پر کھڑا ہونا یاد آگیا اس نے میری بے چینی بھانپ لی
اور مسکراتے ہوئے میرا ہاتھ چھوڑ دیا ۔’’میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
میں اس کی بات سن کر بے جان سی ہو گئی۔’’یہ نہیں ہو سکتا قرنوں کے بُعد مٹا
نہیں کرتے مرتضیٰ۔‘‘[۵]
جنسی عمل کے نتیجے میں لڑکی حاملہ ہو جاتی ہے تو وہ اس سے شادی کر لیتا ہے جس کی اطلاع اس کے گدی نشین باپ کو ہو جاتی ہے۔باپ مذہب کا سہارا لے کر مولوی کو چند ٹکے دے کر لڑکی کو سنگسار کرنے کا فتویٰ لے لیتا ہے اور اسے مروا دیتا ہے۔یہاں قاری اپنے باطن میں ایساخوف محسوس کرتا ہے ۔جس میں مبتلا ہونے سے ذہنی انتشار کا شکار ہو گیا ہے ۔ خوف اور لالچ کے سائے میں زندگی بسر کرتے مولوی کے عامیانہ کردار اور غریبوں پر ظلم کرنے والے عیاش جاگیرداروں اورنام نہاد پیروں کی فرعونیت کی تصویر کشی عمدگی سے کی گئی ہے۔
مکالمے اور خود کلامی کی تکنیک عمدگی سے برتی گئی ہے۔عورت کے کرب، اس کی تنہائی اور احساسات کے ساتھ ساتھ ارمانوں کے کچلنے کی داستان نہایت افسوس ناک ہے۔افسانہ نگار کی بیانیے پر گرفت ہے اور نھوں نے منظر نامہ نہایت مشاقی سے ترتیب دیا ہے۔انہوں نے عورت کی ہجر کے عذاب میں جلنے، محبوب سے ابدی جدائی اور بچے کی دنیا میں آمد سے مارنے کے لمحات کی تصویر بے رحمی اور فنکارانہ مہارت سے کھنچی ہے۔
مردوں کے اس معاشرے میں اپنی نام نہاد عزت اور دولت کو بچانے کی خاطر اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے مستقبل کو مخدوش کرنے اور جنسی اور ازدواجی زندگی کو ختم کرنے کی قبیح کوشش کرنے والوں کی گھٹیا سوچ کی عکاسی شاہین کاظمی نے ’’برف کی عورت‘‘ میں عمدگی سے کی ہے۔صومالیہ میں بُنی گئی دل گداز تحریر وہاں کی عورت پر مرد کے کیے جنسی استحصال کی آئینہ دار ہے۔ ازدواجی زندگی خصوصاً سہاگ رات کے حوالے سے معصوم اور کم سن نو بیاہتا لڑکی کے خوف کی کیفیات و احساسات کو شاہین کاظمی نے عمدگی سے رقم کیا ہے۔ بیانیہ سحر انگیز ہے اور جملوں کی چاشنی ماحول کی سحر انگیزی کے ساتھ مل کر جس میں خوف کا عفریت پنجے گاڑھے بیٹھا ہے عورت کے کرب کو مکمل کر کے بیان کرتا ہے۔خواتین اگرچہ مرد کے مقابلے میں کمزور مخلوق ہیں لیکن وہ ظلم کے خلاف کھڑی ہو جائیں تو پھر سحر ہوتے دیر نہیں لگتی، اجالا ہو ہی جاتا ہے۔صدیوں سے جاری عورت پر ہونے والے ظالمانہ رسوم و رواج کو ختم کرنے میں بدیسی عورت لیڈی کیتھرین نے صومالوی خواتین کا ساتھ دیا اور بالآخر اندھیرے چھٹ گئے۔چراغ سے چراغ جلا تو قافلہ بنتا چلا گیا ۔بدیسی ماحول کے تناظر میں یہ ایک پر تاثیر اور کرب ناک افسانہ ہے۔
عورت کے کرب اور تنہائی کی تصویر کشی کرتا ایک اور افسانہ ’’برزخ‘‘ ہے۔جائیداد بچانے کی خاطر بہنوں اور بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے ، ان کو تا عمر کنوارہ بٹھانے اور پھر قرآن سے شادی کرانے والوں کی گھٹیا سوچ کی عکاسی شاہین کاظمی نے بہت عمدگی سے کی ہے۔عورت فطری طور پرکمزور اور مظلوم مخلوق ہے اس لیے توجہ کی طالب ہے۔ظالم اور کم ظرف گھٹیا فطرت کے مرد عورت کو صرف جنسی بھوک مٹانے کا آلہ سمجھتے ہیں اور یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کی بہنوں اور بیٹیوں کی شادی ہو جانے کی صورت میں ان کی جائیداد ان کے شوہروں کو ملے۔
شاہین کاظمی نے ظالمانہ خاندانی عصبیت اور جنسی گھُٹن کا منظر نامہ مشاقی سے تخلیق کیا ہے۔ مناظر متحرک ہیں۔ قاری لمحہ لمحہ سطر سطر افسانوی دنیا کی سیر کرتا مناظر کی الم ناکی پر خون کے آنسو روتا ہے۔اس افسانے کی مرکزی کردار ’’بتول‘‘ بھی جائیداد کی خاطر قرآن پاک سے بیاہی جاتی ہے۔اپنے اوپر ہونے والے اس ظلم پر وہ بطور احتجاج قرآن پڑھنا ہی چھوڑ دیتی ہے۔عورت کی تشنہ آرزؤں ،جنسی ناآسودگی ، کچلے ارمانوں اور عورت کے خوابوں پر جائیداد کی ترجیح کو عمدہ پیرائے میں شاہین کاظمی نے بیان کیا ہے۔ مکافاتِ عمل کے تحت بتول اپنے بھائی کو اس کے کیے ظلم کی سزا دیتی ہے اور اس کی بیٹی کو اپنے محبوب سے جو کہ سید نہیں ہے شادی کرانے کے لیے کورٹ میں لے جاتی ہے اور یوں اس عمل کے بعد بیس سال کے طویل عرصے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرتی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں رسوم و رواج کی قباحتوں کا شکار خواتین کے المیے اور قرآن پاک سے ان کی شادی کے معاملے کو افسانوی نثر کا حصہ بنا کر شاہین کاظمی نے عمدہ کام کیا ہے۔
’’پومپیائی ‘‘ میں زلزلے کے نتیجے میں تباہ ہو جانے والے جزیرے پر اپنے محبوب شوہر اور پیدا ہونے والے بچے سے بچھڑنے والی نرم ونازک لووینیا کی داستان کوالم ناکی سے بیان کیا گیا ہے۔
’’پومپیائی ۔۔۔لووینیا کے خوابوں کی جنت، وہ اپنی جنت میں واپس لوٹ آئی تھی
لیکن وہاں کچھ نہ بچا تھا ۔اجڑے ہوئے درو دیوار سے جھانکتی اداسی اور ویرانی۔
اعصاب پر طاری ہوتا ہوا پُر ہول سناٹا ۔۔۔منوں دبیز راکھ تلے سویا ہوا شہر۔
سنسان گلیوں میں سرسراتی ماتمی ہوا۔وہ زندگی سے بھرپور لوگ جانے کہاں کھو
گئے تھے۔‘‘[۶]
’’سلمیٰ اور کرونس‘‘ ازدواجی زندگی کی ناہمواریوں ، بے جوڑ شادی ،کاروبار کو عائلی زندگی پر ترجیح دینے والے مرد کی گھٹیا سوچ اور دنیاوی لحاظ سے بلندیوں پر جانے کے لیے چور راستہ تلاش کرنے اور اپنی بیوی کو اپنے کام نکلوانے کے لیے اپنے دوستوں اور امیر لوگوں کی گود گرم کرنے والے بے غیرت مرد کی بے حسی کی دل دوز کہانی ہے۔ شاہین کاظمی کے افسانوں کی عورت مظلوم ، بے بس اور بے کس ہے ۔اس کی بدقسمتی کہ اسے جو جیون ساتھی ملا وہ کردار کے حوالے سے اسفل السافلین کا رہائشی نکلا۔راشد نے اپنی نوجوان اور خوب صورت بیوی سلمیٰ کے احساسات کی قدر نہیں کی اور اسے کھلونا بنا لیا۔ شوہر کے دوستوں کی داشتہ بننے کی وجہ سے وہ کئی بار حاملہ ہوئی اور اسقاط کرایا ۔ آخر میں اپنی اکلوتی بیٹی کے حادثے میں جان سے گزرنے پر کوما میں چلی گئی اور چار سال بعد مر گئی۔
افسانہ المیے میں تبدیل ہوا اور دلگداز انجام کا حامل ہونے کی وجہ سے دکھ کی لہر چھوڑ گیا۔
’’نرتکی‘‘ بِن ماں کی بچی پر سوتیلی ماں کے ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان ہے۔باپ بھی اپنی دوسری بیوی کا ہمنوا ہو کر بچی سے بے اعتنائی برتتا ہے۔سوتیلی ماں کے ہاں معذور بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے ۔ مدھو اس افسانے کا مرکزی کردار ہے ۔حساس اور محبت کرنے والی لڑکی نوٹنکی پارٹی کے سربراہ سے رقص سیکھتی ہے۔جب وہ ماہر ہو جاتی ہے تو وہ اسے ایک سنگ تراش سے ملواتا ہے جو ایک راجہ کے ہاں ملازم ہے اور ہر سال میلے پر وہ راجہ کے لیے ایک ناقابلِ فراموش مورتی بناتا ہے ۔اس سال وہ مدھو کا سنگی مجسمہ بناتا ہے اور اسے یک مشت ادائیگی کرتا ہے ۔مدھو دو ماہ کے لیے اس کے ہاں برہنہ ہو کر مورتی بنواتی ہے۔ ایسے ہی ایک کمزور لمحے وہ سنگ تراش کی درندگی کا شکار ہو جاتی ہے جب سنگ تراش کی شہوت کا اڑیل گھوڑا بے قابو ہوتا ہے تو کم سن مدھو اپنے سے بیس سال بڑے عیار مرد کے ہاتھوں اپنی عصمت لٹا بیٹھتی ہے۔ جب وہ حاملہ ہوتی ہے تو سنگ تراش اسے بچہ ضائع کرانے کو کہتا ہے۔اور اسے کہتا ہے کہ وہ تو عادی ہے اور اسے پاؤں میں بیڑی ڈالنے کی عادت نہیں۔ابھی مورتی کومکمل ہونے میں کچھ وقت رہتا ہے۔سنگ تراش کے جاتے ہی وہ مورتی کا ایک پاؤں کاٹ کر گاؤں واپس لوٹ جاتی ہے۔ یوں سنگ تراش کی مہینوں کی محنت اس کی اپنی بے حسی کی وجہ سے برباد ہو جاتی ہے۔
شاہین کاظمی نے جہاں کم سن رقاصہ مدھو کے حساس ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے جو اپنے باپ اور معذور بہن کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتی ہے اور سنگ تراش کی محبت میں گرفتار ہو کر جنسی عمل سے بھی گزر جاتی ہے لیکن جب اس کی توہین ہو تی ہے تو وہ روایتی بے حسی کا مظاہرہ ہونے پر بدلہ بھی لیتی ہے۔شاہین نے بلراج اور مدھو کے درمیان ہونے والے جنسی عمل کی تصویر کشی عمدگی سے کی ہے۔[۷]
’’پانچواں موسم‘‘دہشت گردی، لاقانونیت ، بے حسی اور اپنے ہی لوگوں پر قہر بن کر ٹوٹنے والوں کی اجتماعی بے غیرتی کی داستانِ خوں چکاں ہے۔ بیانیہ الم ناک بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔ شاہین کاظمی نے عورت کے دکھ کو گہرائی میں جا کر سمجھا ہے ۔ دس سالہ معصوم بچی کی آبروریزی کو جس طرح علامت کے پیرائے میں شاہین نے بیان کیا ہے وہ جنگ کے ہولناک منظر کی دہشت ناکی کو تو بیان کرتا ہی ہے وہیں یہ بھی بتاتا ہے کہ جنگ کے دنوں میں اور اس کے بعد جو چیز سب سے سستی ہوتی ہے وہ عورت کی عصمت ہی ہے۔اس نے انسان کے حیوان بل کہ شیطان بننے کی داستانِ ہوش ربا کو تفصیل سے عکس بند کیا ہے:
’’ہر طرف سؤر دندناتے پھر رہے تھے اور پھر بدن در بدن بٹتے ہوئے محض دس سال کی
عمر میں ہی وہ بہت کچھ سمجھنے لگی تھی۔وجود کی ناؤ کا ناہموار بہاؤ۔۔۔۔۔ہچکولے انگ
انگ توڑ دیتے ہیں۔آنے والا ہر نیا مسافر ناؤ میں اپنے انداز میں سوار ہوتا ہے۔‘‘[۸]
’’پتی ورتا‘‘ بے جوڑ شادی ، سماجی رشتوں کی شکست و ریخت ، شوہر کی بیوی کی طرف سے عدم توجہی اور اس کو محض اپنی نفسانی خواہش کی تکمیل کا ذریعہ سمجھنے اور بیوی کی بالآخر شوہر سے نفرت کی داستان ہے۔ انجام حیرت ناک ہے جہاں شوہر کو بیوی کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کا شاخسانہ بھگتنا پڑا اور بیوی نے اسے مارنے کی اسکیم سوچ لی۔ دل گداز انجام کا حامل عمدہ افسانہ ہے۔
عورت کا دکھ، اس کی مظلومیت ، بے بسی اور مرد کی ظالمانہ فطرت شاہین کاظمی کے افسانوں کا اہم موضوع ہے۔ اس کو انہوں نے بہت سے افسانوں میں کامیابی سے بیان کیا ہے۔ ایک بات البتہ کھٹکتی ہے کہ ایسا ہوتا نہیں کہ ہر عورت کو ایسا جیون ساتھی ملے جو اسے برباد کرے اس کی آرزوؤ ں کو تشنہ رکھے اس کے احساسات کا خیال نہ رکھے۔ اس حوالے سے شاہین کے ہاں موضوعات کا تنوع نہیں ہے انہوں نے عورت کے کرب کی منظر کشی تو عمدگی سے کی ہے لیکن عورت کی زندگی کے صرف ایک ہی پہلو کو مختلف انداز سے دیکھا ہے حالاں کہ درِ حیرت وا تھا اور عورت تو ہے ہی پرت در پرت کھلنے والی پہیلی۔اگر وہ عورت کی زندگی میں پیش آنے والی خوشیوں اور اس کا ساتھ نبھانے اور اسے کامیابی کی بلندیوں پر لے جانے کے لیے سہارا بننے والے انسانوں کا مطالعہ بھی اپنے افسانوں میں پیش کرتیں تو ان کا یہ افسانوی مجموعہ جو کہ اچھا اور اہم ادبی افسانوی اضافہ ہے اور بھی اچھا ہو جاتا۔
حوالہ جات :
۱ ): شاہین کاظمی ،’’سیندھ‘‘ مشمولہ برف کی عورت،اسلام آباد ، ایمل پبلی کیشنز، ۲۰۱۶ء، ص: ۷
۲): ایضاً،ص:۶
۳):ایضاً،ص:۷
۴): ایضاً،ص: ۱۲
۵):ایضاً،ص:۲۰
۶):ایضاً،ص:۸۱
۷): ایضاً،ص:۱۴۹
۸): ایضاً،ص:۱۵۱
***